Tag: مقدونیہ

  • سکندرِ اعظم کا تذکرہ جو اپنے سپاہیوں کے اصرار پر مقدونیہ لوٹنے پر مجبور ہوگیا

    سکندرِ اعظم کا تذکرہ جو اپنے سپاہیوں کے اصرار پر مقدونیہ لوٹنے پر مجبور ہوگیا

    سکندر کا ذکر لوک داستانوں اور دیو مالائی قصّوں میں ہوتا ہے۔ اس کا نام فتح و نصرت، شان و شوکت کے استعارے کے طور پر لیا جاتا ہے اور تاریخِ عالم میں سلطنت اور اقتدار سے متعلق کوئی باب اس کے اس کے ذکر سے خالی نہیں، مگر اس عالمِ‌ ناپائیدار اور حقیقتِ ہنگامۂ حیات کو سمجھنا ہو تو یہ شعر ملاحظہ کیجیے جس کا موضوع یہی سکندر اور اس کی جاہ و حشمت ہے:

    مہیا گرچہ سب اسبابِ ملکی اور مالی تھے
    سکندر جب گیا دنیا سے دونوں ہاتھ خالی تھے

    مؤرخین لکھتے ہیں کہ بچپن سے ہی سکندر جسمانی خوشیوں کا طبعاً شائق نہ تھا۔ اسے دولت و سامان سے نفرت تھی اوربہ مشکل ان کی طرف مائل ہوتا تھا۔ ہاں وہ شہرت اور نام وری ضرور چاہتا تھا اور وہ اس کا مقدر بنی اور اس طرح کہ صدیاں بیت گئیں، مگر سکندر کو دنیا فراموش نہیں کرسکی۔ اسے سکندرِ اعظم پکارا جاتا ہے جو آدھی دنیا کا فاتح تھا۔

    وہ مقدونیہ کے بادشاہ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ مقدونیہ کے اس بادشاہ کا نام فلپ تھا جس کی بیوی اولمپیا کی کوکھ سے سکندر نے جنم لیا۔ اس عورت سے فلپ کی کبھی نہیں بنی۔ اولمپیا کے بارے میں محققین لکھتے ہیں کہ وہ اپنے شوہر کی مخالفت ہی کرتی رہی اور یہاں تک کہ فلپ دوم کو 336 (ق۔م) میں قتل کر دیا گیا۔ باپ کے بعد جب سکندرِ اعظم تخت پر بیٹھا تو اس کی عمر محض بیس سال تھی۔ جب سکندرِ اعظم نے عنانِ اقتدار سنبھالا تب، مقدونیہ ایک غیر مؤثر ریاست کے طور پر جانی جاتی تھی۔ یونان میں ایتھنز، سپارٹا اور دوسری بڑی قوتیں موجود تھیں‌ جو مقدونیہ سے خائف تھیں۔

    ایک یونانی فلسفی اور مؤرخ پلوٹارک نے سکندر کی شخصیت کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کا رنگ تو گورا تھا لیکن چہرہ سرخی مائل تھا۔ سکندر کا قد ایک عام مقدونیائی کے مقابلے میں چھوٹا تھا لیکن میدان جنگ میں ان کے قد کا کوئی اثر نظر نہیں آتا تھا۔ سکندر داڑھی نہیں رکھتے تھے۔ اس کے رخسار پتلے تھے، جبڑا چوکور تھا اور ان کی آنکھیں شدید عزم کی عکاس تھیں۔

    مارکس کرٹیئس نے سکندر پر کتاب ‘ہسٹری آف الیگزینڈر’ میں لکھا ہے کہ ‘سکندر کے بال سنہرے اور گھنگریالے تھے۔ اس کی دونوں آنکھوں کا رنگ ایک دوسرے سے مختلف تھا۔ اس کی بائیں آنکھ سرمئی اور دائیں کالی تھی۔

    سکندرِ اعظم 356 قبلِ مسیح میں پیدا ہوا اور محققین کے مطابق 10 جون 323 میں وہ ملیریا کے شدید حملے کے بعد اپنے حواس کھو بیٹھا اور اسی حالت میں مر گیا۔ بعض مؤرخین نے یہ بھی لکھا کہ سکندر کو زہر دیا گیا تھا۔ بہرحال، سکندر نے محض 33 برس کی عمر میں کئی فتوحات اپنے نام کیں اور بہت سارے علاقوں پر اپنی حکومت قائم کرلی۔ مگر اس کے اکثر مفتوحہ علاقوں میں کچھ وقت کے بعد شورش بھی جنم لیتی رہی اور بغاوت کے بعد وہ اس کے ہاتھ سے نکل جاتے۔ یہی سکندرِ‌اعظم ہندوستان بھی آیا اور یہاں پنجاب اور سندھ میں بھی خیمہ زن ہوا۔ تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ سکندر کو سندھ میں بھی کچھ ایسے سخت حالات سے نمٹنا پڑا جب اسے سرکشی اور بغاوت کا سامنا تھا۔

    23 سال کی عمر میں سکندر نے 334 قبلِ مسیح میں یونان کے شہر مقدونیہ سے نکل کر دنیا کو فتح کرنے کی مہم شروع کی تھی۔ اس نے اپنے خطّے میں فتوحات کے بعد دوسری بادشاہتوں کو مٹاتے ہوئے ہندوستان کا رخ کیا۔ سکندر کی فوج میں ایک لاکھ سپاہی تھے جو دس ہزار میل کا سفر طے کر کے ایران کے راستے دریائے سندھ کے کنارے پہنچے۔ 326 قبل مسیح کے اوائل میں، جب سکندر ایران میں تھا تو ایران کے نزدیک ہندوستانی شہروں کی بادشاہتوں کے پاس قاصد روانہ کیے کہ وہ اس کے مطیع ہوجائیں۔ سکندر جیسے ہی کابل کی وادی میں پہنچے، بادشاہ اس سے ملنے پہنچنے لگے۔ ان میں سے ایک ہندوستانی شہر تکشلا (ٹیکسلا) کا حکمران امبھی بھی تھا۔ اس نے سکندر کے ساتھ اپنی وفاداری ظاہر کرنے کے لیے 65 ہاتھی اور کچھ سپاہی پیش کیے تاکہ وہ یہاں اپنی فتوحات جاری رکھ سکے۔ تکشلا کا بادشادہ امبھی دراصل یہ چاہتا تھا کہ سکندر اس کے دشمن پورس کے خلاف جنگ میں اس کا ساتھ دے۔

    سکندر ہندوکش کے راستے 326 قبلِ مسیح میں ’اوھند‘ کی جگہ سے دریائے سندھ کو پار کرکے ٹیکسلا پہنچا تھا جہاں کے بادشاہ سے مدد پانے کے بعد وہ جہلم پار کر کے پورس کے ساتھ جنگ میں کام یاب ہوا مگر پورس کے ساتھ وہ سلوک کیا جو اس کے وقار اور دبدبے میں اضافہ کرتا ہے۔ وہ پورس کو اپنا دوست کہنے لگا اور اس کی حکومت اسے سونپ دی۔

    سکندر کے سوانح نگار پلوٹارک لکھتے ہیں کہ ‘جب تک پورس لڑنے کی پوزیشن میں تھا اس نے سکندر کا زبردست مقابلہ کیا۔’ سکندر اس سے بہت متاثر ہوا اور یہ جنگ جیت کر بھی پورس کو اس کی حکومت دے کر چلا گیا۔

    مؤرخین کے مطابق سکندر کو اپنی فوج اور اپنے اہم لوگوں کی جانب سے کچھ دباؤ اور اختلافات کا سامنا کرنا پڑا اور سکندرِ اعظم جو اس سے آگے گنگا کے ساحل تک جانا چاہتا تھا سپاہیوں کے پس و پیش کو دیکھ کر اپنے ارادے سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہونے لگا۔ اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ ایک سپاہی نے فوج کے خیالات سکندر کے گوش گزار کیے اور کہا کہ اب ہم تھک چکے ہیں اور ہماری ہمت جواب دی چکی ہے، بہتر ہے کہ ہم واپس میسیڈونیا جائیں۔ اس کے بعد آپ ایک بار پھر نئی نسل کے ساتھ ایک اور مہم پر نکل جائیں۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو ہم اب اس سے آگے نہیں جا سکتے۔

    سکندر کو یہ بات پسند نہیں آئی اور وہ غصے سے اٹھ کر اپنے خیمے میں چلا گیا۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ سکندر سمجھتا تھا کہ اس کی فوج کے بڑے کسی وقت اس کے پاس آکر معافی مانگ لیں گے اور اپنی بات پر نادم ہوں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ آخر کار سکندر کو مزید آگے بڑھنے اور جنگیں لڑنے کے ارادے سے باز آیا اور یہ اعلان کیا کہ وہ مقدونیہ واپس جارہے ہیں۔دوسری طرف اس کے مفتوحہ علاقوں میں بغاوت بھی پھوٹ پڑی تھی اور وہ بادشاہ جو اب سکندر کو اپنا حاکم مان چکے تھے، اس کے آگے بڑھنے کے بعد باغی ہو جاتے تھے۔ اس سے سکندر بہت پریشان ہوگیا تھا۔

    بعض مؤرخین کے مطابق سکندر کی آخری منزل ’مگدھ‘ کی بادشاہی اور اُس سے آگے مشرقی سمندر تھا۔ مگر وہ اپنا خواب پورا نہ کر سکا۔

  • خوبصورت فن پارے جیسی رنگوں بھری مسجد جسے 2 خواتین نے تعمیر کروایا

    خوبصورت فن پارے جیسی رنگوں بھری مسجد جسے 2 خواتین نے تعمیر کروایا

    دنیا بھر میں مساجد و دیگر مذہبی مقامات کو نہایت خوبصورت انداز میں تعمیر کیا جاتا ہے، لیکن آج ہم آپ کو جس مسجد کی سیر کروانے جارہے ہیں وہ اپنی نوعیت کی منفرد ترین مسجد ہے۔

    جزائر بلقان میں واقع ملک مقدونیہ کی سرینا مسجد تاریخی لحاظ سے تو اہم ہے ہی، تاہم اس کا شمار آرٹ کے معروف شاہکاروں میں ہوتا ہے۔

    اس مسجد کی چھت اور در و دیوار پر نہایت خوبصورت نقش و نگار بنائے گئے ہیں۔ دیگر مساجد کی طرح سادگی میں پروقار دکھائی دینے کے بجائے یہ مسجد نہایت رنگوں بھری ہے تاہم اس کی جاہ و حشمت میں کوئی کمی نہیں آتی۔

    اس مسجد کی تعمیر 500 سال قبل کی گئی تھی، اس دور میں مساجد کی تعمیر سلطان یا ترک حکمرانوں کی جانب سے کروائی جاتی تھی تاہم اس مسجد کی ایک اور انفرادیت یہ ہے کہ اس کی تعمیر کے وسائل 2 خواتین کی جانب سے مہیا کیے گئے۔

    ہرشیدہ اور مینسور نامی ان دونوں خواتین کی قبریں بھی اسی مسجد کے اندر موجود ہیں۔

    مسجد میں بنائی گئی پینٹنگز کو قدیم طریقہ کار کے مطابق بنایا گیا ہے جب رنگوں میں انڈے کی آمیزش کی جاتی تھی۔ تمام رنگ و روغن کے لیے اس وقت 30 ہزار انڈے استعمال کیے گئے تھے۔

    سترہویں صدی میں اس قصبے میں ایک بڑی آتشزدگی کا واقعہ بھی پیش آیا جس نے اس قصبے کو بے حد نقصان پہنچایا تاہم خوش قسمتی سے یہ مسجد محفوظ رہی۔

    کیا آپ اس رنگوں بھری خوبصورت مسجد میں جانا چاہیں گے؟

  • پولیس افسر اور پناہ گزین خاتون کی محبت کی کہانی

    پولیس افسر اور پناہ گزین خاتون کی محبت کی کہانی

    عراق اور شام کی خانہ جنگی نے لاکھوں افراد کو بے گھر کردیا اور ان افراد کی دوسرے ممالک میں داخلے کی ناکام کوششوں، اور دربدری کی زندگی نے جہاں بے شمار ناخوشگوار واقعات اور المیوں کو جنم دیا وہیں یہ حالات کسی کی زندگی کو خوشگوار بنانے کا سبب بھی بن گئے۔

    نورا ارکوازی اور بوبی ڈوڈوسکی بھی ایسے ہی افراد تھے جن کی زندگی ان حالات کے باعث مکمل طور پر تبدیل ہوگئی اور یہ تبدیلی نہایت خوشگوار تھی۔

    ان دونوں کی پہلی ملاقات نہایت ہی عجیب و غریب انداز میں ہوئی جسے حسن اتفاق یا رومانوی ہرگز نہیں کہا جاسکتا۔ نورا عراق کے جنگ زدہ علاقے سے ہجرت کر کے اپنے خاندان اور دیگر درجنوں افراد کے ساتھ مقدونیہ میں داخل ہونے کی کوشش کر رہی تھیں اور بوبی ان پولیس اہلکاروں میں شامل تھے جو کسی غیر متوقع صورتحال سے نمٹنے کے لیے وہاں موجود تھے۔

    بوبی اس ڈیوٹی پر اپنے ایک ساتھی کی جگہ پر نہایت ہی غیر متوقع طور پر موجود تھے۔

    refugee-2

    دوسری جانب نورا اپنی والدہ، بھائی اور بہن کے ساتھ اپنا گھر چھوڑ کر ایک طویل سفر طے کر کے مقدونیہ پہنچی تھیں۔

    دیگر لاکھوں مہاجرین کی طرح نورا بھی کسی یورپی ملک میں جا کر روزگار حاصل کرنا چاہتی تھیں۔ اس کے لیے ان کی نظر جرمنی پر تھی۔ وہ کہتی ہیں ’میں اپنے خاندان کے ساتھ جرمنی جانا چاہتی تھی۔ لیکن مجھے نہیں پتہ تھا کہ میری قسمت مجھے کہاں دھکیل رہی ہے‘۔

    مزید پڑھیں: موت برسانے والے جنگی ہتھیار گہرے رنگوں میں رنگ گئے

    جب ان دونوں کی پہلی ملاقات ہوئی تو نورا شدید بخار کی حالت میں تھیں۔ انہیں واحد فکر یہ تھی کہ کیا انہیں اور ان کے خاندان کو مقدونیہ میں پناہ مل سکتی ہے۔ اس وقت اکثر مغربی ممالک نے پناہ گزینوں کے لیے اپنے دروازے بند کر دیے تھے لہٰذا وہاں ہجرت کر کے آنے افراد کو علم نہیں تھا کہ ان کا مستقبل کیا ہوگا۔

    ان کے مطابق جب انہوں نے وہاں موجود پولیس اہلکاروں سے گفتگو کرنا چاہی تو ان سب نے انہیں بوبی کی طرف بھیج دیا کیونکہ اس وقت وہ واحد پولیس اہلکار تھے جو انگریزی میں گفتگو کرسکتے تھے۔

    refugee-4

    نورا نے بوبی سے اپنی اور اپنی بیمار والدہ کے بارے میں پوچھا کہ کیا انہیں علاج کی مناسب سہولیات مل سکیں گی۔ بوبی نے انہیں صرف چند الفاظ کہے، ’فکر مت کرو، سب ٹھیک ہوجائے گا‘۔

    نورا اس وقت کو یاد کرتے ہوئے ہنستی ہیں کہ بوبی ان سے بات کرتے ہوئے انہیں دیکھے بنا رہ نہیں پا رہے تھے۔

    بعد ازاں ان لوگوں کی مزید ملاقاتیں ہوئیں۔ نورا نے وہیں پر ریڈ کراس کے لیے کام کرنا شروع کردیا تھا جبکہ بوبی بھی وہاں موجود پناہ گزینوں کی مدد کے لیے کوشاں تھے۔ اپنے دیگر ساتھیوں کے برعکس بوبی پناہ گزین بچوں کے ساتھ کھیلا کرتے اور بڑوں کی مدد کرتے۔

    مزید پڑھیں: پناہ گزین بچوں کے خواب

    بالآخر کچھ عرصے بعد بوبی نے نورا کو شادی کی پیشکش کی جو نورا نے قبول تو کرلی۔ مگر انہیں اپنے خاندان کی مخالفت کا ڈر تھا کہ شاید وہ اسے کسی غیر مسلم شخص سے شادی نہ کرنے دیں۔

    تاہم ان کے خدشات غلط ثابت ہوئے اور نورا کے والدین نے کسی قدر غصے سے مگر اجازت دے دی۔

    refugee-3

    ان دونوں کی شادی بھی نہایت منفرد تھی جو تمام مذاہب کے 120 افراد کے سامنے منعقد کی گئی۔ مہمانوں نے کئی گھنٹے رقص کیا اور گانے گائے۔

    نورا اب بوبی کے ساتھ ان کے گھر میں رہتی ہیں اور یہ جوڑا نہایت ہنسی خوشی زندگی گزار رہا ہے۔ بوبی اس سے قبل بھی دو بار شادی کر چکے تھے جن سے ان کے 3 بچے ہیں۔ نورا بھی حاملہ ہیں اور وہ بوبی کے بچوں کے ساتھ نہایت پرسکون زندگی گزار رہی ہیں۔

    یہ دونوں لوگوں کو پیغام دیتے ہیں، ’کسی کی فکر مت کریں، صرف اپنے آپ پر یقین کریں اور محبت پر یقین رکھیں۔ اس کے بعد زندگی خوبصورت ہوجائے گی‘۔

  • مقدونیہ میں آندھی اور سیلاب سے 21 افراد ہلاک

    مقدونیہ میں آندھی اور سیلاب سے 21 افراد ہلاک

    اسکوپیے : مقدونیہ کے دارالحکومت اسکوپیے میں آنے والی آندھی اور سیلاب کے نتیجے میں کم از کم 21 افراد جان کی بازی ہار گئے.

    تفصیلات کے مطابق مقدونیہ میں آندھی اور طوفان میں مرنے والوں کی لاشیں اتوار کی صبح مل گئی تھیں،تاہم ابھی بھی چھ افراد لاپتہ ہیں،
    اطلاعات کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں سے کچھ لوگ اس وقت سیلابی ریلے کی زد میں آ گئے جب وہ اپنی کاروں پر سفر کر رہے تھے.

    سیلابی ریلے کے نتیجے میں شہر کی سڑکوں کو نقصان پہنچا ہے جبکہ کچھ کاریں پانی میں بہہ کر قریبی کھیتوں میں جا پہنچیں.

    مقدونیہ کے دارالحکومت میں آنے والے اس طوفان کے دوران نو سینٹی میٹر سے زیادہ بارش ریکارڈ کی گئی ہے.

    اسکوپیے کے میئر نے طوفان کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’یہ ایک آفت تھی اور آج سے پہلے ہم نے کبھی ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی۔‘

    مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق اسکوپیے میں آنے والے اس طوفان کے نتیجے میں زخمی ہونے والے تقریباً 20 افراد کو اسپتال میں طبی امداد دی گئی ہے.

    طوفان کے بعد شہر بھر سے امدادی اداروں کو مدد کے لیے کالز موصول ہوئی تھیں جس کے بعد مدد کے لیے فوج کو بھی طلب کیا گیا تھا.