Tag: ملالہ یوسفزئی

  • ملالہ یوسفزئی بھی کشمیریوں کے حق کیلئے میدان میں آگئیں

    ملالہ یوسفزئی بھی کشمیریوں کے حق کیلئے میدان میں آگئیں

    لندن : نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی نے کہا سات دہائی پرانا مسئلہ کشمیرپرامن طریقے سے حل کرنا چاہئیے ، توقع ہےعالمی برادری کشمیریوں کی تکالیف کاازالہ کرے گی۔

    تفصیلات کے مطابق نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے اقدام پر کہا مجھے کشمیریوں سےمتعلق تشویش ہے، ہمیں ایک دوسرے کونقصان اورتکلیف پہنچانے کے سلسلے کوجاری رکھنے کی ضرورت نہیں ہے، توقع ہے جنوبی ایشیا کے ممالک،عالمی برادری اورمتعلقہ اتھارٹی کشمیریوں کی تکالیف اور مشکلات کا ازالہ کریں گی۔

    ،ملالہ یوسفزئی کا کہنا تھا کہ ہمارے کتنے ہی اختلافات کیوں نہ ہوں ہمیں انسانی حقوق کا دفاع کرنا چاہئیے، خواتین اوربچوں کے تحفظ کو ترجیح دیتے ہوئے سات دہائیوں پرانا مسئلہ کشمیرپرامن طریقے سے حل کرنا چاہئیے۔

    واضح رہے بھارتی پارلیمنٹ کے اجلاس میں بھارتی وزیرداخلہ نے آرٹیکل 370 ختم کرنے کا بل پیش کیا گیا تھا، بعد ازاں بھارتی صدر نے آرٹیکل 370 ختم کرنے کے بل پر دستخط کر دیے اور گورنر کا عہدہ ختم کرکے اختیارات کونسل آف منسٹرز کو دے دیئے تھے ، جس کے بعد مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہوگئی۔

  • آپ اسٹار آف دی سنچری ہیں، ملالہ یوسفزئی کیلئے پیغام

    آپ اسٹار آف دی سنچری ہیں، ملالہ یوسفزئی کیلئے پیغام

    اسلام آباد : وزیرسائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کو سالگرہ کی مبارک باد دیتے ہوئے کہا آپ اسٹار آف دی سنچری ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق وزیرسائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی پیغام میں کہا سالگرہ مبارک ہو،آپ اسٹارآف دی سنچری ہیں، آپ کو اکتوبر میں تھنک فیوچرکانفرنس میں بطور اسٹار گیسٹ مدعو کیا جائے گا۔

    خیال رہے نوبل انعام حاصل کرنے والی پاکستان کی پہچان ملالہ یوسفزئی کو 22ویں سالگرہ کے موقع پر دنیا بھر سے مبارک باد کے پیغامات موصول ہوئے، جس پر ملالہ یوسف زئی نے شکریہ ادا کیا۔

    ملالہ یوسفزئی نے اپنی سالگرہ کا دن ایتھوپیا کی نوجوان لڑکیوں کے ساتھ گزارا اور اُن سے سیکھا کہ وہ کس طریقے سے خواتین کی تعلیم اور صنفی امتیاز کے لیے کام کررہی ہیں۔

  • ورلڈکپ 2019: ملالہ یوسفزئی کس ٹیم کو سپورٹ کررہی ہیں؟

    ورلڈکپ 2019: ملالہ یوسفزئی کس ٹیم کو سپورٹ کررہی ہیں؟

    لندن: عالمی نوبل انعامِ یافتہ پاکستانی طالبہ ملالہ یوسف زئی ورلڈکپ 2019 میں پاکستانی ٹیم کو سپورٹ کررہی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق بکنگھم پیلس میں کرکٹ ورلڈ کپ 2019 کی افتتاحی تقریب سے آغاز ہوا جبکہ میگا ایونٹ کا آغاز باقاعدہ کل سے ہوگا، بکنگھم اس موقع پر عالمی نوبل انعامِ یافتہ پاکستانی طالبہ ملالہ یوسف زئی نے کرکٹ 360 میچ میں اظہر علی کے ساتھ پاکستان کی نمائندگی کی۔

    شاہی محل کے باہر ورلڈکپ کی آمد کے پیش نظر کرکٹ 360 میچز کا انعقاد کیا گیا جس میں ایونٹ میں حصہ لینے والی ٹیموں کی نمائندگی کے لیے نامور شخصیات نے حصہ لیا۔

    قبل ازیں ورلڈ کپ میں حصہ لینے والی تمام ٹیموں کے کپتانوں ملکہ ایلزبتھ سے ملاقات کی۔ ورلڈکپ کی افتتاحی تقریب میں قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان سرفراز احمد  نے روایتی شلوار قمیص اور سبز رنگ کا کوٹ زیب تک کیا ہے۔

    یاد رہے کہ ورلڈکپ 2019 کا افتتاحی میچ جنوبی افریقا اور انگلینڈ کی ٹیموں کے مابین کھیلا جائے گا، ڈیل اسٹین کو کاندھے کی انجری کے باعث میچ میں آرام کا موقع دیا گیا۔

    شاہی محل کے باہر پاکستانیوں کی بڑی تعداد اپنی ٹیم کو سپورٹ کرنے کے لیے بھی موجود تھی۔

    پاکستان اپنا پہلا میچ جمعے کو ویسٹ انڈیز کے خلاف کھیلے گا، ویسٹ انڈیز کی ٹیم کے کوچ سر ووین رچرڈ نے کہا ہے کہ ہماری ٹیم کو شکست دینا آسان کام نہیں البتہ پاکستان ٹورنامنٹ کی ایسی ٹیم ہے جو نتائج کو تبدیل کی صلاحیت رکھتی ہے۔

    ورلڈکپ 45 روز تک جاری رہے گا اور دنیائے کرکٹ میں حکمرانی قائم کرنے والی ٹیم کا فیصلہ 14 جولائی کو ہوگا۔

  • ٹیکساس پرائمری اسکول ملالہ یوسفزئی سے موسوم

    ٹیکساس پرائمری اسکول ملالہ یوسفزئی سے موسوم

    ٹیکساس : ملالہ یوسفزئی کی تعلیم کےلیے خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے امریکی ریاست ٹیکساس میں پرائمری اسکول کا ملالہ یوسفزئی کے نام سے موسوم کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر شوگرلینڈ کی فورٹ بینڈ کاؤنٹی نے اپنے ایک نئے پرائمری اسکول کا نام پاکستان کی گل مکئی ملالہ یوسف زئی سے منسوب کردیا ہے۔

    امریکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ فورٹ بینڈ انڈیپنڈنٹ اسکول ڈسٹرکٹ کی جانب سے ضلع کے ’ایلیمنٹری اسکول نمبر 51‘ کا نام تجویز کرنے کےلیے اساتذہ، والدین، اسٹاف طلبہ، کمیونٹی اور بورڈ ارکان سمیت دیگر افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔

    کمیٹی نے اسکول کےلیے 100 کے قریب نام تجویز کیے تھے جس میں تعلیم باالخصوص بچیوں کی تعلیم کےلیے ملالہ یوسفزئی کے نام کا انتخاب کیا گیا جس کیلئے کمیٹی اجلاس میں باقاعدہ ووٹنگ بھی کی گئی تھی۔

    ملالہ یوسفزئی ایلیمنٹری اسکول تاحال زیر تعمیر ہے جس میں تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز سنہ 2020 میں کیا جائے گا۔

    اسکول ڈسٹرکٹ کے سربراہ ڈاکٹر چارلس لوبر کا کہنا ہے کہ اسکول کے افتتاح کے موقع پر ایک شاندار تقریب کا انعقاد کیا جائے اور ہماری خواہش ہے کہ ملالہ یوسفزئی اس تقریب میں شریک ہوں۔

    ڈاکٹر چارلس لوبر کا کہنا تھا کہ ملالہ یوسفزئی کی شرکت ہمارے لیے اعزاز اور کمیونٹی کیلئے ضروری ہے۔

    مزید پڑھیں : ملالہ یوسفزئی نے امن کا نوبل انعام جیت لیا

    یاد رہےکہ دسمبر 2014 میں لڑکیوں کےتعلیم کےلیے بےمثال جدوجہد کرنےوالی طالبہ ملالہ یوسف زئی نے امن کا نوبل انعام جیت کر ہر پاکستانی کا سرفخرسے بلند کردیاتھا۔

    مزید پڑھیں : ملالہ یوسفزئی کو امریکا کا لبرٹی میڈل بھی دے دیا گیا

    خیال رہے کہ 2014 میں ہی سوات کی ڈائری گرل ملالہ یوسفزئی کو امریکا کا لبرٹی میڈل اور ایک لاکھ ڈالرکی انعامی رقم دی گئی تھی، ملالہ کو یہ میڈل تعلیم کے لیے نمایاں خدمات کے اعتراف میں دیا گیا ہے۔

  • وہ لڑکی جس نے تعلیم کے لیے جنگ لڑی

    وہ لڑکی جس نے تعلیم کے لیے جنگ لڑی

    یہ 9 اکتوبر 2012 کا ایک روشن دن تھا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس روشن دن کی روشنی آگے چل کر تاریکی کا شکار کئی لڑکیوں کی زندگی کو منور کردے گی۔ چند نقاب پوش، ہاتھوں میں ہتھیار اٹھائے افراد نے لڑکیوں کی ایک اسکول وین کو روکا، اور اندر جھانک کر اپنے مطلوبہ ہدف کا پوچھا۔ ہدف نے خود اپنا ’تعارف‘ کروایا، جس کے بعد بندوق سے ایک گولی چلی اور ’ہدف‘ کے چہرے اور کندھے کو خون کر گئی۔

    نقاب پوشوں کو امید تھی کہ ان کا مقصد پورا ہوجائے گا اور وہ اندھیرے میں چمکنے والی اس ننھی کرن سے چھٹکارا حاصل کرلیں گے، لیکن ہوا اس کے برعکس اور روشنی کی کرن خون کے رنگ سے فزوں تر ہو کر پوری دنیا کو منور کرتی چلی گئی۔

    وہ نقاب پوش ’طالبان‘ تھے، اور ان کا ’ہدف‘ وہ لڑکی تھی گولی کھا کر جس کا عزم اور پختہ ہوگیا، اسے ہم اور آپ پاکستان کی دوسری اور دنیا کی کم ترین نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کے نام سے جانتے ہیں۔

    سوات میں پیدا ہونے والی ملالہ نے اس وقت بھی اسکول جانا نہیں چھوڑا جب طالبان لڑکیوں کے اسکول جانے پر پابندی لگا چکے تھے۔ اس وقت کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتی ہے، ’ ہم خوفزدہ ضرور تھے، لیکن ہمارا عزم اتنا مضبوط تھا کہ خوف اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکا‘۔

    وہ اپنے ساتھ پیش آنے والے حادثے کی خوفناکی اور اس کے بعد خود پر گزرنے والی اذیت کو بھولی نہیں ہے۔ چنانچہ وہ کہتی ہے، ’ہمیں اپنی بلند آواز کی اہمیت صرف اسی وقت پتہ چلتی ہے، جب ہمیں خاموش کردیا جاتا ہے‘۔

    یہ سب اچانک نہیں ہوا تھا۔ وہ سوات کی ان چند لڑکیوں میں شامل تھی جو اسکول جارہی تھیں اور انہیں مستقل طالبان کی جانب سے دھمکیاں مل رہی تھیں۔

    اس نے ایک بار بتایا، ’جب مجھے طالبان کی جانب سے دھمکیاں مل رہی تھیں تو میں سوچتی تھی کہ اگر طالبان سچ مچ مجھے مارنے آگئے تو میں کیا کروں گی؟ میں نے سوچا کہ میں اپنا جوتا اٹھا کر اس کے سر پر دے ماروں گی۔ پھر مجھے خیال آیا کہ اگر میں نے ایسا کیا تو پھر مجھ میں اور اس میں فرق ہی کیا رہ جائے گا۔ ہمیں اپنے لیے ضرور لڑنا چاہیئے لیکن مسلح ہو کر نہیں بلکہ تعلیم کو ہتھیار بنا کر‘۔

    وہ سوچتی تھی، ’میں نے سوچا کہ میں اپنے ’قاتل‘ کو بتاؤں گی کہ تعلیم کتنی ضروری ہے اور یہ تمہارے بچوں کو بھی حاصل کرنی چاہیئے۔ اب تم جو چاہو میرے ساتھ کرو‘۔

    اس سب کے باوجود اسے اپنے حملہ آوروں سے کوئی بغض نہیں۔ شاید اس لیے کہ اسی حملے نے پوری دنیا کو اس کی طرف متوجہ کیا اور وہ لڑکیوں کے لیے ایک روشن مثال بن گئی۔ وہ کہتی ہے، ’میں طالبان سے بدلہ نہیں لینا چاہتی۔ میں ان کے بیٹوں اور بیٹیوں کو پڑھانا چاہتی ہوں‘۔

    ملالہ کی زندگی کا صرف ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے تعلیم کا پھیلاؤ۔ افریقہ کے پسماندہ اور مشرق وسطیٰ کے جنگ زدہ علاقوں میں بھی وہ یہی پیغام لے گئی۔ ’ایک بچہ، ایک استاد، ایک کتاب اور ایک قلم دنیا کو تبدیل کرسکتا ہے‘۔

    وہ مانتی ہے کہ قلم اور کتاب دنیا کے بہترین ہتھیار ہیں اور ان کی بدولت آپ ہر جنگ میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔

    وہ کہتی ہے، ’میں نہیں چاہتی کہ لوگ مجھے ایسے یاد رکھیں، ’وہ لڑکی جس نے طالبان سے گولی کھائی‘، میں چاہتی ہوں لوگ مجھے یاد رکھیں، ’وہ لڑکی جس نے تعلیم کے لیے جنگ لڑی‘۔ یہی میرا مقصد ہے جس کے لیے اپنی تمام زندگی صرف کرنا چاہتی ہوں‘۔

    پاکستان میں ایک مخصوص گروہ ملالہ کو متنازعہ بنا چکا ہے۔ اسے غیر ملکی ایجنٹ، غدار اور نجانے کیا کیا قرار دیا چکا ہے۔ وہ اپنے ہی ملک میں اپنے خلاف چلنے والی مہم سے واقف ہے اور اس کی وجہ بھی جانتی ہے، ’پاکستان میں لوگ عورتوں کی آزادی کا مطلب سمجھتے ہیں کہ وہ خود سر ہوجائیں گی۔ اپنے والد، بھائی یا شوہر کی بات نہیں مانیں گی۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ جب ہم اپنے لیے آزادی کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہم اپنے لیے خود فیصلے کرنا چاہتے ہیں۔ ہم تعلیم حاصل کرنے یا کام کرنے کے لیے آزاد ہونا چاہتے ہیں‘۔

    اس کا کہنا ہے، ’مرد سمجھتے ہیں کہ پیسہ کمانا اور حکم چلانا طاقت ہے۔ اصل طاقت خواتین کے پاس ہے جو سارا دن اہل خانہ کا خیال رکھتی ہیں اور بچوں کو جنم دیتی ہیں‘۔

    بیرون ملک رہتے ہوئے بھی وہ اپنے ملک کے حالات و مسائل سے واقف ہے۔ اس بارے میں ملالہ کہتی ہے، ’پاکستان کے تمام مسائل کی بنیاد تعلیم کی کمی ہے۔ لوگوں کی کم علمی سے فائدہ اٹھا کر سیاستدان انہیں بیوقوف بناتے ہیں اور اسی وجہ سے کرپٹ حکمران دوبارہ منتخب ہوجاتے ہیں‘۔

    طالبان کے حملہ میں شدید زخمی ہونے کے باعث اس کا چہرہ خراب ہوگیا ہے۔ اب سوات کی گل مکئی کا چہرہ پتھرایا ہوا سا رہتا ہے اور اس کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں ہوتا۔ ’میں اپنی والدہ سے کہتی ہوں کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میں پہلے جیسی خوبصورت نہیں رہی، میں ملالہ ہی رہوں گی۔ میں اس سے پہلے اس بات کا بہت خیال رکھتی تھی کہ میں کیسی لگ رہی ہوں، میرے بال کیسے لگ رہے ہیں لیکن اب مجھے ان باتوں کی کوئی پرواہ نہیں۔ جب آپ موت کا سامنا کرتے ہیں تو بہت کچھ بدل جاتا ہے‘۔

    وہ کہتی ہے، ’اہم یہ نہیں کہ میں مسکرا نہیں سکتی یا میں ٹھیک سے آنکھ نہیں جھپک سکتی، اہم یہ ہے کہ خدا نے میری زندگی مجھے واپس لوٹائی‘۔

    ملالہ بتاتی ہے، ’میرے والد نے اپنے دفتر کے باہر ابراہم لنکن کے اس خط کی نقل فریم کروا کر آویزاں کی ہوئی ہے جو انہوں نے اپنے بیٹے کی استاد کو لکھا تھا۔ یہ خط پشتو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ اس میں ابراہم لنکن کہتا ہے، ’میرے بیٹے کو کتابیں ضرور پڑھاؤ، لیکن اسے کچھ وقت دو تاکہ یہ بلند آسمانوں میں پرندوں کی پرواز پر غور کرسکے، سورج کی روشنی میں کھلتے پھولوں پر دھیان دے، اور سبزے کی سحر انگیزی کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ اسے سکھاؤ کہ ناکام ہوجانا زیادہ معتبر ہے بجائے اس کے کہ کسی کو دھوکہ دیا جائے‘۔

    اپنے گزرے دنوں کو یاد کرتے ہوئے ملالہ بتاتی ہے، ’میں اپنے بچپن میں خدا سے دعا کرتی تھی کہ وہ مجھے 2 انچ مزید لمبا کردے۔ اس نے میری دعا یوں قبول کرلی کہ مجھے اتنا بلند کردیا کہ میں خود بھی اپنے آپ تک نہیں پہنچ سکتی‘۔

    اس کا کہنا ہے، ’جب ہم سوات میں تھے تو میری والدہ مجھے کہتی تھیں، ’اپنا چہرہ ٹھیک سے چھپاؤ، لوگ تمہیں دیکھ رہے ہیں‘۔ اور میں ان سے کہتی تھی، ’اس سے کیا فرق پڑتا ہے، میں بھی تو انہیں دیکھ رہی ہوں‘۔

    لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ملالہ کا مشن جاری ہے۔ اپنے نام پر قائم کردہ ادارے کے ساتھ مل کر وہ پوری دنیا کو یاد دلانا چاہتی ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم ہر حکومت کی ذمہ داری ہے۔

    وہ لڑکیوں کے لیے پیغام دیتی ہے، ’ہزاروں کتابیں پڑھو اور خود کو علم کی دولت سے مالا مال کرلو۔ قلم اور کتاب ہی وہ ہتھیار ہیں جن سے شدت پسندی کو شکست دی جاسکتی ہے‘۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • گل مکئی سے نوبل انعام کا سفر ۔ دنیا آج ملالہ کا عالمی دن منا رہی ہے

    گل مکئی سے نوبل انعام کا سفر ۔ دنیا آج ملالہ کا عالمی دن منا رہی ہے

    کراچی: قوم کی بیٹی، پاکستان کی پہچان اور دنیا کی سب سے کمسن نوبل انعام یافتہ شخصیت ملالہ یوسفزئی آج اپنی 21 ویں سالگرہ منا رہی ہیں۔ ملالہ سنہ 2012 میں طالبان کے قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہوگئیں تھیں۔

    گل مکئی کے نام سے ڈائری لکھ کر شہرت پانے والے ملالہ 12 جولائی 1997 کو پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخواہ کے ضلع سوات کے علاقے مینگورہ میں پیدا ہوئیں جہاں انہوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔

    ملالہ کا نام ملال سے نکلا ہے، اور وجہ تسمیہ میوند کی ملالہ تھی جو جنوبی افغانستان کی ایک مشہور پشتون شاعرہ اور جنگجو خاتون تھی۔


    کل رات میں نے فوجی ہیلی کاپٹروں اور طالبان سے متعلق بھیانک خواب دیکھا۔ وادی سوات میں فوجی آپریشن کے آغاز سے ہی مجھے ایسے خواب آ رہے ہیں۔ امی نے ناشتہ بنایا اور میں کھا کر اسکول چلی گئی۔ اسکول جاتے ہوئے مجھے ڈر لگ رہا تھا کیونکہ طالبان نے لڑکیوں کے اسکول جانے پر پابندی لگائی ہوئی ہے۔ 27 میں سے صرف 11 لڑکیاں ہی اسکول آئی تھیں کیونکہ انہیں طالبان سے خطرہ تھا۔ میری کئی سہیلیاں اپنے خاندان والوں کے ساتھ پشاور منتقل ہو گئی ہیں۔

    ملالہ کے بی بی سی کے لیے لکھے گیے پہلے بلاگ سے اقتباس


    سنہ 2010 میں 9 اکتوبر کو جب ملالہ گھر سے اسکول امتحان کو جانے کے لیے بس میں سوار ہوئی تو ایک مسلح طالبان نے اس پر حملہ کر دیا۔ نقاب پوش حملہ آور نے پہلے پوچھا کہ ’تم میں سے ملالہ کون ہے؟ جلدی بتاؤ ورنہ میں تم سب کو گولی مار دوں گا‘۔ جب ملالہ نے اپنا تعارف کروایا تو اس شخص نے گولی چلا دی۔

    ملالہ کو لگنے والی گولی کھوپڑی کی ہڈی سے ٹکرا کر گردن سے ہوتی ہوئی کندھے میں جا گھسی۔

    دیگر دو لڑکیاں بھی اس حملے میں زخمی ہوئیں جن کے نام کائنات ریاض اور شازیہ رمضان ہیں تاہم دونوں کی حالت خطرے سے باہر تھی اور انہوں نے حملے کے بارے میں رپورٹرز کو بتایا۔

    ملالہ پر قاتلانہ حملے سے متعلق تفصیلات دنیا بھر کے اخبارات اور میڈیا پر ظاہر ہوئیں اور عوام کی ہمدردیاں ملالہ کے ساتھ ہو گئیں۔ پاکستان بھر میں ملالہ پر حملے کی مذمت میں مظاہرے ہوئے۔ تعلیم کے حق کی قرارداد پر 20 لاکھ افراد نے دستخط کیے جس کے بعد پاکستان میں تعلیم کے حق کا پہلا بل منظور ہوا۔

    ملالہ کے والد نے بیان دیا، ’چاہے ملالہ بچے یا نہ، ہم اپنا ملک نہیں چھوڑیں گے۔ ہمارا نظریہ امن کا ہے۔ طالبان ہر آواز کو گولی سے نہیں دبا سکتے‘۔

    چھ روز بعد 15 اکتوبر کو اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی برائے عالمی خواندگی اور سابقہ برطانوی وزیر اعظم گورڈن براؤن نے اسپتال میں ملالہ کی عیادت کی اور ملالہ کے حق میں ایک قرارداد شروع کی جس کا عنوان تھا ’میں ملالہ ہوں‘۔ اہم مطالبہ یہ تھا کہ 2015 تک تمام بچوں کو اسکول کی سہولیات تک رسائی دی جائے۔

    اگلے برس 12 جولائی کو جب ملالہ کی 16ویں سالگرہ تھی تب ملالہ نے اقوام متحدہ سے عالمی خواندگی کے بارے میں خطاب کیا۔ اقوام متحدہ نے اس دن کو ملالہ ڈے یعنی یوم ملالہ قرار دے دیا۔ حملے کے بعد یہ ملالہ کی پہلی تقریر تھی۔

    دس اکتوبر 2014 کو ملالہ کو بچوں اور نوجوانوں کے حق تعلیم کے لیے جدوجہد پر نوبل انعام برائے امن دیا گیا۔ 17 سال کی عمر میں ملالہ یہ اعزاز پانے والی دنیا کی سب سے کم عمر شخصیت ہے۔

    اس اعزاز میں ان کے شریک بھارت سے کیلاش ستیارتھی تھے جو بھارت میں بچوں اور خصوصاً لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کام کررہے ہیں۔

    ڈاکٹر عبدالسلام کے بعد ملالہ نوبل انعام پانے والی دوسری جبکہ نوبل انعام برائے امن پانے والی پہلی پاکستانی بن گئی ہیں۔

    ملالہ یوسفزئی کو اب تک دنیا بھر سے 40 عالمی اعزازات مل چکے ہیں جو ان کی جرات و بہادری کا اعتراف ہیں۔

    اسے اقوام متحدہ اپنا خیر سگالی سفیر برائے امن بھی مقرر کرچکی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ایک ماں کا اپنی بیٹی کی تربیت کا انوکھا انداز

    ایک ماں کا اپنی بیٹی کی تربیت کا انوکھا انداز

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بچے کے اس دنیا میں آتے ہی اس کی تربیت کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ وہ جو کچھ اپنے آس پاس دیکھتا اور سنتا ہے وہ اس کی شخصیت اور کردار پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔

    بہت بچپن میں پیش آنے والے واقعات بھی بچوں کے لاشعور میں بیٹھ جاتے ہیں جو عمر کے کسی نہ کسی حصہ میں ظاہر ہوتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق اگر آپ اپنے بچے کی کسی خاص خطوط پر تربیت کرنا چاہتے ہیں تو اسے بچپن ہی سے اس چیز سے روشناس کروائیں۔

    مزید پڑھیں: بچوں کو کند ذہن بنانے والی وجہ

    مثال کے طور پر اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا بچہ بڑا ہو کر فٹبالر بنے، تو اسے بہت چھوٹی عمر سے ہی سے ہی فٹبال کھیلنا سکھائیں، خود بھی اس کے سامنے کھیلیں، ٹی وی پر فٹبال میچ دکھتے ہوئے اس اپنے ساتھ بٹھائیں۔

    اسی طرح اگر آپ اپنے بچے کو مطالعہ کی عادت ڈلوانا چاہتے ہیں تو اسے بچپن سے ہی باتصویر کتابوں سے روشناس کروائیں۔

    یہ ایک نہایت آزمودہ طریقہ ہے۔ اگر آپ دنیا کے مختلف شعبوں میں نمایاں خدمات سر انجام دینے والے افراد کے بچپن میں جھانکیں گے تو وہ اپنے بچپن سے ہی اس میدان سے آشنا ملیں گے جس میں انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا جادو دکھایا۔

    مزید پڑھیں: بچوں کی تربیت میں یہ غلطیاں مت کریں

    اکثر شاعر، ادیب یا مصوروں نے اپنے بچپن میں خاندان کے کسی فرد کو کتابوں یا رنگوں سے الجھے ہوئے پایا اور ان کی ملکیت کتابوں اور رنگوں سے کھیلا۔ یہی وہ عادت ہے جو کسی حد تک بچے کے فطری میلان کی بھی تشکیل کرتی ہے۔

    امریکا میں رہائشی ایک ماں میگھن ایلڈرکن بھی انہی خطوط پر اپنی ننھی بیٹی کی تربیت کرنا چاہتی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ اس کی بیٹی بڑی ہو کر ایک مضبوط عورت بنے جس پر معاشرہ فخر کرسکے۔

    بچپن سے ہی تربیت کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے اس نے اپنی بیٹی کے اسکول کے لنچ باکس میں ایک خاص قسم کا نیپکن رکھنا شروع کردیا۔

    مزید پڑھیں: بچوں کی ذہانت والدہ سے ملنے والی میراث

    یہ نیپکن کوئی معمولی نیپکن نہیں تھا، بلکہ اس پر میگھن تاریخ پر اثر انداز ہونے والی کسی مشہور خاتون کی تصویر بناتی اور ان کا کوئی قول لکھتی جو شخصیت اور کردار کی تعمیر اور زندگی کو حوصلے سے بسر کرنے سے متعلق ہوتا۔

    میگھن چونکہ ایک ادارے میں اسی تخلیقی کام سے منسلک ہیں لہٰذا ان کے لیے روزانہ ایک ڈرائنگ بنانا کوئی مشکل کام نہیں۔

    وہ بتاتی ہیں کہ ان کی بیٹی ہر روز بے تابی سے لنچ ٹائم کا انتظار کرتی ہے کہ کب وہ لنچ باکس کھولے اور نیپکن پر لکھا قول پڑھے۔ اس قول سے صرف اسے ہی نہیں بلکہ اس کے دوستوں کو بھی دلچسپی ہے اور وہ ہر روز شوق سے اسے پڑھتے ہیں۔

    میگھن ہر روز کسی مشہور خاتون سیاستدان، ادیبہ، مصورہ، اداکارہ یا سماجی کارکن کا ایک قول اپنی بیٹی کو دیتی ہیں اور انہیں یقین ہے کہ ان کی بیٹی کا شمار بھی ایک دن انہی خواتین میں ہوگا جو اپنے ملکوں کے لیے باعث افتخار بنیں۔


    4

    انہوں نے اپنی بیٹی کو ملالہ یوسفزئی سے بھی روشناس کروایا جس کا قول ہے، ’ہم اپنی آواز کی اہمیت اس وقت جانتے ہیں جب ہم خاموش کروا دیے جاتے ہیں‘۔

    مزید پڑھیں: نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کے 12 سنہری افکار


    7

    امریکی خاتون اول مشل اوباما کا قول، ’آپ کوئی فیصلہ خوف کی بنیاد پر، یا اس بنیاد پر نہیں کر سکتے کہ آگے کیا ہوگا‘۔


    2

    امریکا کی سابق سیکریٹری خارجہ میڈیلین البرائٹ کا قول، ’مجھے اپنی آواز کو مستحکم بنانے میں ایک طویل عرصہ لگا ہے، اور اب میں خاموش نہیں ہوں گی‘۔


    6

    بیسویں صدی کی میکسیکو سے تعلق رکھنے والی مصورہ فریڈا کاہلو کا قول، ’مجھے پیروں کی کیا ضرورت ہے جب میرے پاس اڑنے کے لیے پر موجود ہیں‘۔


    1

    مشہور امریکی مصنفہ لوئیسا مے کا قول، ’میں طوفانوں سے خوفزدہ نہیں ہوں، کیونکہ اس سے میں سیکھ رہی ہوں کہ کشتی کو کیسے چلایا جاتا ہے‘۔


    5

    برطانوی مصنفہ میری شیلی کا قول، ’میں بے خوف ہوں، اس لیے طاقتور ہوں‘۔


    8

    ہالی ووڈ فلم سیریز ہیری پوٹر کی کردار ہرمائنی کا قول، ’میں دنیا میں کچھ اچھا کرنا چاہتی ہوں‘۔


    خلا میں جانے والی پہلی افریقی خاتون مے جیمیسن کا قول، ’دوسرے لوگوں کے محدود خیالات کی مناسبت سے خود کومحدود مت کریں‘۔


    3

    امریکی اداکارہ لوسی بال کا قول، ’میں ان کاموں پر پچھتانا پسند کروں گی جو میں نے انجام دیے بجائے ان کاموں کے جن کا مجھے پچھتاوا ہو کہ میں نے کیوں نہ کیے‘۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • عمران خان اور ملالہ یوسفزئی سب سے زیادہ پسندیدہ شخصیات کی فہرست میں شامل

    عمران خان اور ملالہ یوسفزئی سب سے زیادہ پسندیدہ شخصیات کی فہرست میں شامل

    لندن : پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کو 2018 کی سب سے زیادہ پسندیدہ شخصیات کی فہرست میں شامل کرلیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق پسندیدہ شخصیات سے متعلق برطانوی ویب سائٹ کی رپورٹ جاری کردی، جس میں عمران خان اورملالہ یوسفزئی سب سے زیادہ پسندیدہ شخصیات میں شامل کرلیا گیا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ پسندیدہ شخصیات میں ملالہ کا ساتواں اورعمران خان کا20واں نمبر ہے۔

    دنیا میں سب سے زیادہ پسند کیے جانے والی خواتین کی فہرست میں اداکارہ انجلیناجولی پہلے اور مردوں میں مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس پہلے نمبر پر ہے۔

    سال 2018 کی پسندیدہ شخصیات کی فہرست میں سابق امریکی صدر براک اوباما کی اہلیہ مشعل اوباما دوسرے نمبر پرہے جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ 17 ویں نمبر پر ہے۔

    مردوں میں معروف چینی اداکار جیکی چین تیسرے ،  چین کے صدر شی جن پنگ چوتھے اور  علی بابا کمپنی کے سربراہ جیک ما 5ویں نمبر پر سب سے زیادہ پسند کیے جانے والے افراد میں شامل ہیں۔

    سب سے زیادہ پسند کی جانے والی خواتین کی فہرست میں اوپرا ونفری  تیسرے ، ملکہ برطانیہ چوتھے،، ہیلری کلنٹن پانچویں ، انجیلا مرکل 8ویں اور برطانوی وزیراعظم تھریسامے 15 ویں نمبر پر ہے۔

    بالی ووڈ اداکار اور اداکارائیں بھی پسندیدہ شخصیات کی فہرست میں شامل ہیں، جن میں امیتابھ بچن 9ویں، ایشوریا رائے بچن 11 ویں، پریانکا چوپڑا 12 ویں اور دپیکا پڈوکون 13 ویں نمبر پر جگہ بنانے میں کامیاب ہوئیں۔

    خیال رہے برطانوی ویب سائٹ  نے پسندیدہ شخصیات سے متعلق فہرست میں مجموعی طور پر 20 خواتین اور 20 مرد حضرات شامل کیا ہے  اور اس کے نتائج کے لیے 35 ممالک کے 37 ہزار افراد سے آن لائن انٹرویو کیا گیا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر ضرور شیئر کریں۔

  • لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ایپل اور ملالہ یوسف زئی ایک ساتھ

    لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ایپل اور ملالہ یوسف زئی ایک ساتھ

    معروف ٹیکنالوجی کمپنی ایپل نے اعلان کیا ہے کہ وہ پاکستانی نوبل انعام یافتہ طالبہ ملالہ یوسف زئی اور ان کی تنظیم ملالہ فنڈ کے ساتھ مل کر لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کام کریں گے۔

    گزشتہ روز ایپل کے سربراہ ٹم کک اور ملالہ یوسف زئی نے لبنان میں لبنانی اور شامی طلبا سے ملاقات کی۔ اس موقع پر ایپل نے اعلان کیا کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ملالہ یوسف زئی کے ساتھ کام کریں گے۔

    ایپل کی معاونت سے فی الحال اس پروگرام کا آغاز بھارت اور لاطینی امریکا میں شروع کیا جائے گا۔

    ملالہ یوسفزئی کا ’گل مکئی نیٹ ورک‘ اس وقت پاکستان، افغانستان، لبنان، ترکی اور نائجیریا میں لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے میں مدد دینے کے لیے کوشاں ہے۔

    اس موقع پر ملالہ کا کہنا تھا، ’مجھے خوشی ہے کہ ایپل لڑکیوں کی تعلیم پر سرمایہ کاری کرنے کی اہمیت جانتا ہے اور وہ ملالہ فنڈ کے ساتھ دنیا بھر کی لڑکیوں کو بغیر کسی خوف کے تعلیم حاصل کرنے میں مدد فراہم کر رہا ہے‘۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • اپنے مذہب کو بدنام کرنے کے لیے ہم خود ہی کافی ہیں: ملالہ

    اپنے مذہب کو بدنام کرنے کے لیے ہم خود ہی کافی ہیں: ملالہ

    لندن: مردان کی یونیورسٹی میں ہجوم کے ہاتھوں نوجوان مشعال خان کے قتل پر پاکستان کی نوبیل انعام یافتہ طالبہ ملالہ یوسفزئی نے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے امن کے فروغ پر زور دیا۔

    سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک پر ملالہ کے والد ضیا الدین یوسفزئی کی جانب سے جاری کی جانے والی ویڈیو میں ملالہ نے امن کا پیغام دیا۔

    ملالہ کا کہنا تھا کہ مشعال خان کے قتل کا واقعہ نہایت وحشت ناک اور دہشت ناک ہے۔ ملالہ نے کہا کہ انہوں نے مشعال کے والد سے فون پر بھی بات کی اور مشعال کے والد کے ’امن اور صبر‘ کے پیغام کو وہ سیلیوٹ پیش کرتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: مردان میں طالب علم قتل

    ان کا کہنا تھا، ’یہ مشعال خان کا نہیں، ہمارے دین اسلام کے پیغام کا جنازہ تھا جو امن اور صبر کا درس دیتا ہے‘۔

    یاد رہے کہ دو روز قبل صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر مردان کی عبدالولی یونیورسٹی میں ایک مشتعل ہجوم نے طالب علم مشعال خان کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا کر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

    ملالہ نے کہا کہ ہم شکایت کرتے ہیں کہ مغربی دنیا میں اسلامو فوبیا پھیلا رہا ہے، ہمارے دین کو بدنام کیا جارہا ہے، لیکن حقیقت میں ہم خود ہی اپنے مذہب اور ملک کو بدنام کرنے کے لیے کافی ہیں۔

    ویڈیو پیغام میں ملالہ کا کہنا تھا کہ ہم اپنے مذہب کی صحیح تصویر پیش نہیں کر رہے۔ ہم اپنے مذہب کے پیغام، اپنی اقدار اور اپنی ثقافت کو بھول گئے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ملالہ یوسفزئی کے 12 سنہری افکار

    آخر میں ملالہ یوسفزئی نے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں سے استدعا کی کہ وہ امن اور انصاف کے لیے کھڑے ہوں، اور مشعال خان کے خاندان کو انصاف دلائیں۔

    یاد رہے کہ نوبیل انعام پانے والی ملالہ یوسفزئی آج کل برطانیہ میں مقیم ہیں اور انہیں چند روز قبل ہی کینیڈا کی اعزازی شہریت سے بھی نوازا گیا ہے۔