Tag: ملالہ یوسفزئی

  • تاش کے پتوں سے کھیلا جانے والا جادوئی کھیل

    تاش کے پتوں سے کھیلا جانے والا جادوئی کھیل

    تاش ایک دماغی کھیل ہے جو دنیا بھر میں مقبول ہے اور مختلف طرح سے کھیلا جاتا ہے۔

    تاش کے رسمی کھیلوں کے علاوہ ان پتوں سے مختلف دماغی کھیل بھی کھیلے جاتے ہیں جو دراصل فریب نظر ہوتے ہیں۔

    ایسا ہی ایک کھیل آج آپ بھی کھیلنے جارہے ہیں۔

    یہ کھیل آئن ولکیریا الوژن کے نام سے مشہور ہے۔

    آپ اس ویڈیو میں اس کھیل کا لطف اٹھا سکتے ہیں۔

    یہ کھیل دیکھنے میں کچھ جادوئی سا لگتا ہے لیکن درحقیقت اس میں آپ فریب نظر کا شکار ہوئے ہیں۔

    اسی طرح کا فریبی کھیل کچھ عرصہ قبل ملالہ یوسف زئی نے بھی پیش کیا۔ وہ ایک امریکی ٹی وی پروگرام ’دا لیٹ شو‘ میں شریک ہوئیں جس کے میزبان اسٹیفن کولبرٹ کے ساتھ انہوں نے یہ کھیل کھیلا۔ آپ بھی اس کھیل سے لطف اندوز ہوں۔

  • کولمبیا کے صدر کے لیے امن کا نوبل انعام

    کولمبیا کے صدر کے لیے امن کا نوبل انعام

    کولمبیا کے صدر یو آن سانتوس کو رواں برس امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا ہے۔ یہ انعام انہیں ملک میں جاری 52 سالہ خانہ جنگی کے خاتمے پر دیا گیا ہے۔

    کولمبیا میں خانہ جنگی ایک مسلح باغی گروہ ایف اے آر سی کے باعث شروع ہوئی جو پچھلے 52 سال سے جاری تھی۔ یو آن گزشتہ ماہ اس گروہ کے ساتھ بالآخر امن معاہدہ طے کرنے میں کامیاب ہوئے جس کے لیے 4 سال سے مذاکرات جاری تھے۔ تاہم کولمبیا کے قدامت پسند طبقے نے اس معاہدے کو مسترد کردیا۔

    اس خانہ جنگی میں اب تک 2 لاکھ 60 ہزار افراد مارے جاچکے تھے جبکہ 60 لاکھ کے قریب افراد اپنے گھروں سے بے دخلی پر مجبور ہوچکے تھے۔

    نوبل کمیٹی کے چیئرمین کاسی کلمن نے انعام کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ انعام کولمبین صدر کو 50 سال سے جاری مسلح جدوجہد کے خاتمے کے لیے کوششیں کرنے پر دیا جا رہا ہے۔

    colombia-2

    سنہ 1964 سے اپنی جدوجہد کا آغاز کرنے والا یہ گروہ ایف اے آر سی خود کو انقلابی گروہ کہتا ہے۔ اس جدوجہد کا آغاز کرنے والے معمولی کسان تھے جنہوں نے کولمبیا میں مزدوروں کی حقوق کی پامالی کے خلاف یہ تحریک شروع کی۔

    ابتدا میں یہ ایک غیر مسلح تحریک تھی تاہم فوج کی جانب سے ان کے خلاف سخت اقدامات کیے جانے کے بعد اس گروہ نے ہتھیار اٹھالیے اور مسلح جدوجہد شروع کردی جو خانہ جنگی میں تبدیل ہوگئی۔

    کولمبین صدر کا کہنا ہے کہ وہ باغیوں کے تحفظات دور کر کے ان سے مذاکرات جاری رکھیں گے تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ مسلح باغیوں کو ضرورت سے سہولیات و رعایت دی جارہی ہے۔

    colombia-3

    واضح رہے کہ سنہ 2014 کا نوبل انعام برائے امن پاکستانی طالب علم ملالہ یوسفزئی کو ملا تھا جو لڑکیوں کی تعلیم کے لیے جدوجہد کرنے پر طالبان کی گولیوں کا نشانہ بنی تھیں۔ یہ انعام ملالہ اور بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے بھارتی سماجی رہنما کیلاش ستھیارتی کو مشترکہ طور پر دیا گیا تھا۔

    ملالہ یہ انعام حاصل کر کے نوبل انعام حاصل کرنے والی سب سے کم عمر شخصیت بن گئی ہیں۔ اس سے قبل سنہ 1979 میں ایک اور پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام بھی طبیعات (فزکس) کا نوبل انعام حاصل کر چکے ہیں۔

  • نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کے 12 سنہری افکار

    نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کے 12 سنہری افکار

    یہ 9 اکتوبر 2012 کا ایک روشن دن تھا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس روشن دن کی روشنی آگے چل کر تاریکی کا شکار کئی لڑکیوں کی زندگی کو منور کردے گی۔ چند نقاب پوش، ہاتھوں میں ہتھیار اٹھائے افراد نے لڑکیوں کی ایک اسکول وین کو روکا، اور اندر جھانک کر اپنے مطلوبہ ہدف کا پوچھا۔ ہدف نے خود اپنا ’تعارف‘ کروایا، جس کے بعد بندوق سے ایک گولی چلی اور ’ہدف‘ کے چہرے اور کندھے کو خون کر گئی۔

    نقاب پوشوں کو امید تھی کہ ان کا مقصد پورا ہوجائے گا اور وہ اندھیرے میں چمکنے والی اس ننھی کرن سے چھٹکارا حاصل کرلیں گے، لیکن ہوا اس کے برعکس اور روشنی کی کرن خون کے رنگ سے فزوں تر ہو کر پوری دنیا کو منور کرتی چلی گئی۔

    وہ نقاب پوش ’طالبان‘ تھے، اور ان کا ’ہدف‘ وہ لڑکی تھی گولی کھا کر جس کا عزم اور پختہ ہوگیا، اسے ہم اور آپ پاکستان کی دوسری اور دنیا کی کم ترین نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کے نام سے جانتے ہیں۔

    سوات میں پیدا ہونے والی ملالہ نے اس وقت بھی اسکول جانا نہیں چھوڑا جب طالبان لڑکیوں کے اسکول جانے پر پابندی لگا چکے تھے۔ اس وقت کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتی ہے، ’ہم خوفزدہ ضرور تھے، لیکن ہمارا عزم اتنا مضبوط تھا کہ خوف اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکا‘۔

    4

    وہ اپنے ساتھ پیش آنے والے حادثے کی خوفناکی اور اس کے بعد خود پر گزرنے والی اذیت کو بھولی نہیں ہے۔ ’چنانچہ وہ کہتی ہے، ’ہمیں اپنی بلند آواز کی اہمیت صرف اسی وقت پتہ چلتی ہے، جب ہمیں خاموش کردیا جاتا ہے‘۔

    یہ سب اچانک نہیں ہوا تھا۔ وہ سوات کی ان چند لڑکیوں میں شامل تھی جو اسکول جارہی تھیں اور انہیں مستقل طالبان کی جانب سے دھمکیاں مل رہی تھیں۔

    اس نے ایک بار بتایا، ’جب مجھے طالبان کی جانب سے دھمکیاں مل رہی تھیں تو میں سوچتی تھی کہ اگر طالبان سچ مچ مجھے مارنے آگئے تو میں کیا کروں گی؟ میں نے سوچا کہ میں اپنا جوتا اٹھا کر اس کے سر پر دے ماروں گی۔ پھر مجھے خیال آیا کہ اگر میں نے ایسا کیا تو پھر مجھ میں اور اس میں فرق ہی کیا رہ جائے گا۔ ہمیں اپنے لیے ضرور لڑنا چاہیئے لیکن مسلح ہو کر نہیں بلکہ تعلیم کو ہتھیار بنا کر‘۔

    3

    میں نےسوچا کہ میں اپنے ’قاتل‘ کوبتاؤں گی کہ تعلیم کتنی ضروری ہےاور یہ تمہارےبچوں کوبھی حاصل کرنی چاہیئے۔ اب تم جوچاہومیرےساتھ کرو۔

    اس سب کے باوجود اسے اپنے حملہ آوروں سے کوئی بغض نہیں۔ شاید اس لیے کہ اسی حملے نے پوری دنیا کو اس کی طرف متوجہ کیا اور وہ لڑکیوں کے لیے ایک روشن مثال بن گئی۔ وہ کہتی ہے، ’میں طالبان سے بدلہ نہیں لینا چاہتی۔ میں ان کے بیٹوں اور بیٹیوں کو پڑھانا چاہتی ہوں‘۔

    ملالہ کی زندگی کا صرف ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے تعلیم کا پھیلاؤ۔ افریقہ کے پسماندہ اور مشرق وسطیٰ کے جنگ زدہ علاقوں میں بھی وہ یہی پیغام لے گئی۔ ’ایک بچہ، ایک استاد، ایک کتاب اور ایک قلم دنیا کو تبدیل کرسکتا ہے‘۔

    وہ مانتی ہے کہ قلم اور کتاب دنیا کے بہترین ہتھیار ہیں اور ان کی بدولت آپ ہر جنگ میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔

    5

    وہ کہتی ہے، ’میں نہیں چاہتی کہ لوگ مجھے ایسے یاد رکھیں، ’وہ لڑکی جس نے طالبان سے گولی کھائی‘، میں چاہتی ہوں لوگ مجھے یاد رکھیں، ’وہ لڑکی جس نے تعلیم کے لیے جنگ لڑی‘۔ یہی میرا مقصد ہے جس کے لیے اپنی تمام زندگی صرف کرنا چاہتی ہوں‘۔

    پاکستان میں ایک مخصوص گروہ ملالہ کو متنازعہ بنا چکا ہے۔ اسے غیر ملکی ایجنٹ، غدار اور نجانے کیا کیا قرار دیا چکا ہے۔ وہ اپنے ہی ملک میں اپنے خلاف چلنے والی مہم سے واقف ہے اور اس کی وجہ بھی جانتی ہے، ’پاکستان میں لوگ عورتوں کی آزادی کا مطلب سمجھتے ہیں کہ وہ خود سر ہوجائیں گی۔ اپنے والد، بھائی یا شوہر کی بات نہیں مانیں گی۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ جب ہم اپنے لیے آزادی کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہم اپنے لیے خود فیصلے کرنا چاہتے ہیں۔ ہم تعلیم حاصل کرنے یا کام کرنے کے لیے آزاد ہونا چاہتے ہیں‘۔

    مرد سمجھتے ہیں کہ پیسہ کمانااور حکم چلانا طاقت ہے۔ اصل طاقت خواتین کےپاس ہے جو سارا دن اہل خانہ کا خیال رکھتی ہیں اور بچوں کو جنم دیتی ہیں۔

    بیرون ملک رہتے ہوئے بھی وہ اپنے ملک کے حالات و مسائل سے واقف ہے۔ اس بارے میں ملالہ کہتی ہے، ’پاکستان کے تمام مسائل کی بنیاد تعلیم کی کمی ہے۔ لوگوں کی کم علمی سے فائدہ اٹھا کر سیاستدان انہیں بیوقوف بناتے ہیں اور اسی وجہ سے کرپٹ حکمران دوبارہ منتخب ہوجاتے ہیں‘۔

    طالبان کے حملہ میں شدید زخمی ہونے کے باعث اس کا چہرہ خراب ہوگیا ہے۔ اب سوات کی گل مکئی کا چہرہ پتھرایا ہوا سا رہتا ہے اور اس کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں ہوتا۔ ’میں اپنی والدہ سے کہتی ہوں کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میں پہلے جیسی خوبصورت نہیں رہی، میں ملالہ ہی رہوں گی۔ میں اس سے پہلے اس بات کا بہت خیال رکھتی تھی کہ میں کیسی لگ رہی ہوں، میرے بال کیسے لگ رہے ہیں لیکن اب مجھے ان باتوں کی کوئی پرواہ نہیں۔ جب آپ موت کا سامنا کرتے ہیں تو بہت کچھ بدل جاتا ہے‘۔

    اہم یہ نہیں کہ میں مسکرا نہیں سکتی یا میں ٹھیک سے آنکھ نہیں جھپک سکتی، اہم یہ ہے کہ خدا نے میری زندگی مجھے واپس لوٹائی۔

    7

    وہ بتاتی ہے، ’میرے والد نے اپنے دفتر کے باہر ابراہم لنکن کے اس خط کی نقل فریم کروا کر آویزاں کی ہوئی ہے جو انہوں نے اپنے بیٹے کی استاد کو لکھا تھا۔ یہ خط پشتو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ اس میں ابراہم لنکن کہتا ہے، ’میرے بیٹے کو کتابیں ضرور پڑھاؤ، لیکن اسے کچھ وقت دو تاکہ یہ بلند آسمانوں میں پرندوں کی پرواز پر غور کرسکے، سورج کی روشنی میں کھلتے پھولوں پر دھیان دے، اور سبزے کی سحر انگیزی کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ اسے سکھاؤ کہ ناکام ہوجانا زیادہ معتبر ہے بجائے اس کے کہ کسی کو دھوکہ دیا جائے‘۔

    اپنے گزرے دنوں کو یاد کرتے ہوئے ملالہ بتاتی ہے، ’میں اپنے بچپن میں خدا سے دعا کرتی تھی کہ وہ مجھے 2 انچ مزید لمبا کردے۔ اس نے میری دعا یوں قبول کرلی کہ مجھے اتنا بلند کردیا کہ میں خود بھی اپنے آپ تک نہیں پہنچ سکتی‘۔

    وہ بتاتی ہے، ’جب ہم سوات میں تھے تو میری والدہ مجھے کہتی تھیں، ’اپنا چہرہ ٹھیک سے چھپاؤ، لوگ تمہیں دیکھ رہے ہیں‘۔ اور میں ان سے کہتی تھی، ’اس سے کیا فرق پڑتا ہے، میں بھی تو انہیں دیکھ رہی ہوں‘۔

    2

    لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ملالہ کا مشن جاری ہے۔ رواں برس ملالہ ڈے پر اس کا پیغام ’یس آل گرلز‘ ہے۔ اپنے ادارے کے ساتھ مل کر وہ پوری دنیا کو یاد دلانا چاہتی ہے کہ لڑکیوں کی 12 سال کی مفت تعلیم ہر حکومت کی ذمہ داری ہے۔

    وہ لڑکیوں کے لیے پیغام دیتی ہے، ’ہزاروں کتابیں پڑھو اور خود کو علم کی دولت سے مالا مال کرلو۔ قلم اور کتاب ہی وہ ہتھیار ہیں جن سے شدت پسندی کو شکست دی جاسکتی ہے‘۔

  • عالمی یوم آبادی: کم عمری کی شادیاں پائیدار ترقی کے لیے خطرہ

    عالمی یوم آبادی: کم عمری کی شادیاں پائیدار ترقی کے لیے خطرہ

    آج دنیا بھر میں یوم آبادی منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا آغاز 1989 سے اقوام متحدہ کی جانب سے کیا گیا جس کا مقصد دنیا میں بڑھتی ہوئی آبادی اور اس سے متعلق مسائل کے حوالے سے شعور پیدا کرنا تھا۔

    اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر کی آبادی اس وقت 7.4 بلین ہے جبکہ 2100 تک یہ 11.2 بلین ہوجائے گی۔ آبادی کے لحاظ سے چین اور بھارت دنیا کے دو بڑے ممالک ہیں۔ ان دونوں ممالک کی آبادی ایک، ایک ارب سے زائد ہے اور یہ دنیا کی کل آبادی کا 37 فیصد حصہ ہے۔

    pd-3

    بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ماحولیاتی تبدیلیاں، خوراک، انفرا اسٹرکچر اور دیگر مسائل ہنگامی طور پر حل طلب ہیں۔

    رواں برس یہ دن ’کم عمر لڑکیوں کا خیال رکھنے‘ کے عنوان کے تحت منایا جارہا ہے۔ ماہرین کے مطابق کم عمری کی شادی دنیا میں آبادی میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے۔

    pd-4

    رواں برس کی تھیم خواتین کے حوالے سے 2 مقاصد پر مشتمل ہے، ایک کم عمری کی شادی۔ دوسرا خواتین کی آبادی میں اضافہ اور ان کی صحت و تعلیم سے متعلق خطرناک مسائل جو دنیا کی ترقی پر اثر انداز ہوں گے۔

    بچوں کے لیے کام کرنے والی اقوام متحدہ کی ذیلی شاخ یونیسف کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں 15 ملین شادیاں ایسی ہوتی ہیں جن میں دلہن کی عمر 18 سال سے کم ہوتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں ہر 3 میں سے 1 لڑکی کی جبراً کم عمری میں شادی کر جاتی ہے۔

    کم عمری کی شادی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ لڑکیاں چاہے جسمانی اور ذہنی طور پر تیار نہ ہوں تب بھی وہ حاملہ ہوجاتی ہیں۔ کم عمری کے باعث بعض اوقات طبی پیچیدگیاں بھی پیش آتی ہیں جن سے ان لڑکیوں اور نوزائیدہ بچوں کی صحت کو شدید خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔

    یو این ایف پی اے کی جانب سے جاری کیا جانے والا چارٹ

     

    چونکہ کم عمری کی شادی زیادہ تر ترقی پذیر، جنگ زدہ علاقوں اور ممالک، اور گاؤں دیہاتوں میں انجام پاتی ہیں اور یہاں طبی سہولیات کا ویسے ہی فقدان ہوتا ہے لہٰذا ماں اور بچے دونوں کو طبی مسائل کا سامنا ہوتا جو آگے چل کر کئی پیچیدگیوں کا سبب بنتا ہے۔

    اقوام متحدہ پاپولیشن فنڈ یو این ایف پی اے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر باباتندے کے مطابق خواتین کی کم عمری کی شادی سے نمٹنے کا واحد حل یہ ہے کہ انہیں تعلیم دی جائے اور خود مختار کیا جائے۔

    واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں 62 ملین لڑکیاں ایسی ہیں جو تعلیم کے بنیادی حق سے محروم ہیں۔ تعلیم سے محرومی کے باعث انہیں اپنی صحت، اور دیگر حقوق سے متعلق آگہی نہ ہونے کے برابر ہے۔

    ڈاکٹر باباتندے کے مطابق، ’حکومتوں کو چاہیئے کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم کا بنیادی حق انہیں دلائے تاکہ انہیں اپنے حقوق اور اپنے خطرات سے آگاہی ہو‘۔

    وہ کہتے ہیں، ’لڑکیوں کی خود مختاری آج کے دور میں اتنی ہی اہم ہے جتنا مردوں کا اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا اور کسی کے لیے بوجھ نہ بننا‘۔

     

    یونیسکو کے پروگرام ’ایجوکیشن فار آل‘ کی جانب سے جاری کیا جانے والا چارٹ

     

    دنیا کی کم عمر ترین نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کہتی ہیں، ’میں دنیا کی ان 66 ملین لڑکیوں میں سے ایک ہوں جنہیں تعلیم حاصل کرنے سے روکا گیا‘۔

    ملالہ یوسفزئی سوات کے پسماندہ علاقے سے تعلق رکھتی ہیں اور تعلیم حاصل کرنے کی پاداش میں انہیں طالبان کے حملہ کا نشانہ بننا پڑا۔ اب وہ دنیا بھر میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کام کر رہی ہیں۔

    وہ کہتی ہیں، ’اگر ہم دنیا کی آدھی آبادی کو پسماندہ چھوڑ دیں گے تو ہم کبھی ترقی نہیں کر سکتے‘۔ وہ لڑکیوں کے لیے پیغام دیتی ہیں، ’بے شک تم ایک لڑکی ہو، اور دنیا سوچتی ہے کہ تم کوئی کام نہیں کر سکتیں، تب بھی تم امید کا دامن ہاتھ سے مت چھوڑو‘۔


     

  • ہالی ووڈ میں ملالہ یوسف زئی پر بننے والی فلم کا ٹریلر ریلیز

    ہالی ووڈ میں ملالہ یوسف زئی پر بننے والی فلم کا ٹریلر ریلیز

    لاس اینجلس : پاکستانی نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی پر بننے والی ہالی ووڈ کی دستاویزی فلم۔ ہی نیمڈ می ملالہ۔ کا ٹریلر ریلیز کردیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان کی شان سوات کی پہچان ملالہ یوسف زئی کی زندگی کے گرد گھومتی ہالی ووڈ کی دستاویزی فلم کا ٹریلر ریلیز کردیا گیا ۔

    فلم کی کہانی تعلیم کیلئے جدوجہد کرنے والی ملالہ کی حقیقی زندگی کے گرد گھومتی ہے ۔ جو ہر خطرات کا سامنا ڈٹ کے کرتی ہے۔اور تعلیم عام کرنے کیلئے اپنی زندگی داؤ پر لگا دیتی ہے۔

    دستاویزی فلم کے ہدایت کار آسکر ایوارڈ یافتہ ڈیوس گوگنھم ہیں۔ فلم دو اکتوبرکو ریلیز کی جائیگی، یاد رہے کہ ملالہ یوسفزئی بارہ جنوری 1997 کو سوات میں پیدا ہوئی۔

    پاکستان میں پیدا ہونے والی خواتین کی تعلیم کی سرگرم رکن ہے اور اسے کسی بھی شعبے میں نوبل انعام وصول کرنے والے سب سے کم سن فرد ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

    اس کی وجہ شہرت اپنے آبائی علاقے سوات اور خیبر پختونخواہ میں انسانی حقوق، تعلیم اور حقوق نسواں کے حق میں کام کرنا ہے جب مقامی طالبان کے لڑکیوں کو اسکول جانے سے روک دیا تھا۔

    اب ملالہ کی تحریک بین الاقوامی درجہ اختیار کر چکی ہے۔10اکتوبر 2014 کو ملالہ کو بچوں اور کم عمر افراد کی آزادی اور تمام بچوں کو تعلیم کے حق کے بارے جدوجہد کرنے پر 2014 کے نوبل امن انعام دیا گیا جس میں ان کے ساتھ انڈیا کے کیلاش ستیارتھی شامل ہیں۔

    ڈاکٹر عبدالسلام کو 1979 میں طبعیات کے نوبل انعام کے بعد ملالہ نوبل انعام پانے والی دوسری پاکستانی بن گئی ہے۔

  • ملالہ یوسفزئی دوسری بار دنیا کی 100بااثر شخصیات میں شامل

    ملالہ یوسفزئی دوسری بار دنیا کی 100بااثر شخصیات میں شامل

    نیویارک : نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی ایک بار پھر دنیا کی سو بااثر شخصیات میں شامل ہوگئیں ہیں۔

    ہمت و حوصلے کی مثال ملالہ یوسفزئی ایک بارپھر دنیا کی سو بااثر شخصیات میں شامل ہوگئیں، انٹرنیشنل ٹائم میگزین میں ملالہ کو آئیکون کیٹیگری میں شامل ہیں۔

    سو بااثر شخصیات کی اس فہرست میں تخلیق کار، کاروباری شخصیات، اور سیاسی شخصیات بھی شامل ہیں۔

    ٹائم میگزین کی مکمل فہرست ستائیس اپریل کو شائع ہوگی ۔

    ٹائم میگزین نے لکھا ہے کہ دنیا میں چند لوگ ہی ظالموں کے سامنے استقامت اور خوداعتمادی کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں، ایسے ہی لوگوں میں ایک ملالہ یوسف زئی بھی ہے۔

  • سانحۂ پشاور کے شہید اور زخمی قوم کے ہیرو ہیں، ملالہ

    سانحۂ پشاور کے شہید اور زخمی قوم کے ہیرو ہیں، ملالہ

    پشاور: نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی نے آرمی پبلک اسکول کے زخمی احمد نواز سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا، ملالہ نے اپنے پیغام میں تمام زخمی بچوں کی جلد صحت یابی کے لئے دعائیہ پیغامات دیئے اور کہا کہ زخمی اور شہید بچے قوم کے ہیرو ہیں۔

    عالمی نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی نے آرمی پبلک اسکول میں زخمی ہونے والے احمد نواز کو ٹیلی فون کیا اور ہسپتال میں زیرِ علاج احمد نواز کی خیریت دریافت کی،  ٹیلی فون پر ملالہ یوسف زئی کے والد ضیاء الدین نے بھی احمد نواز اور انکے والد محمد نواز سے بات کی اور انہیں یقین دلایا کہ جب بھی احمد نواز لندن علاج کے لیے آیا تو ہماری فیملی برمھنگم ایئر پورٹ پر زخمی احمد نواز کا بھر پور استقبال کرین گے اور انہیں ہر قسم کی مکمل سپوٹ بھی دے جائے گی۔

    اس موقع پر ملالہ یوسف زئی نے کہا کہ تمام زخمی اور شہید بچے قوم کے ہیرو ہیں، جنھوں نے علم کی شمع کے لیے تاریخی قربانی دی، ملالہ نے مزید کہا کہ ہم زخمی بچوں کی جلد صحت یابی کے لیے اللہ تعالی سے دعا گو ہیں۔

    ملالہ یوسف زئی کے ٹیلی فون پر زخمی احمد نواز کے والد محمد نواز نے ملالہ اور انکے والد کا شکریہ ادا کیا۔

    واضح رہے کہ وزیراِعظم نواز شریف نے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں زیرِ علاج احمد نواز کے بیرون ملک علاج کے لیے 3 کرور 60 لاکھ روپے کی منظوری دی ہے، زخمی احمد نواز کے بھائی حارث نواز آرمی پبلک سکول میں شہید ہوچکے ہیں جبکہ احمد نواز زخمی ہوا تھا جو لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں زیرِعلاج ہے۔

    یاد رہے 16 دسمبر تاریخ کا سیاہ دن تھا ، جب دہشت گردوں نے آرمی پبلک اسکول پر حملہ کیا،حملہ میں 133 بچے سمیت 150 افراد شہید ہوگئے تھے۔

  • پاکستان کی اہم شخصیات نے ملالہ کو نوبل انعام حاصل کرنے پر مبارکباد پیش کی

    پاکستان کی اہم شخصیات نے ملالہ کو نوبل انعام حاصل کرنے پر مبارکباد پیش کی

    اسلام آباد: صدر ممنون حسین سمیت ملک بھر کی اہم شخصیات نے نوبل انعام حاصل کرنے پر ملالہ یوسف زئی کو مبارکباد پیش کی ہے۔

    صدر ممنون حسین نے ملالہ یوسفزئی کو نوبل انعام ملنے پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس انعام سے قوم کا سر فخر سے بلند ہوا ہے۔

    وزیراعظم نوازشریف نے ملالہ یوسف زئی کو مبارکباد دیتے ہوئے یقین دہانی کرائی کہ پاکستان کی ہر بچی زیور تعلیم سے آراستہ ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ملالہ دنیا بھر میں پاکستان کی طرف سے امن کی سفیر ہے۔

    ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے امن کا نوبل انعام ملنے پر ملالہ یوسفزئی کو مبارکباد دی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملالہ یوسف زئی نے جبر کے ماحول میں استقامت کا مظاہرہ کرکے پاکستان کا سر فخر سے بلند کردیا ہے۔

    وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کہا کہ ملالہ قوم کی بہادر بیٹی ہے، جس نے ملک و قوم کا نام روشن کیا ہے۔

    چیئرمین سینیٹ نئیر بخاری سندھ اور بلوچستان کے وزرا اعلیٰ ق لیگ کی سینیئر نائب صدر روبینہ سلہری نے بھی ملالہ کو نوبل انعام ملنے پر مبارکبا دی، ان کا کہنا تھا ملالہ یوسفزئی کو نوبل پرائز ملنا پاکستان کے لیے اعزاز ہے۔

  • وقت آگیا ہےکہ تعلیم دشمنوں کیخلاف کارروائی کی جائے، ملالہ یوسف زئی

    وقت آگیا ہےکہ تعلیم دشمنوں کیخلاف کارروائی کی جائے، ملالہ یوسف زئی

    اوسلو: بچیوں کی تعلیم کیلئے دہشتگردروں کامقابلہ کرنےو الی ملالہ یوسف زئی نے امن کا نوبل انعام پالیا، نوبل انعام دینے کی تقریب ناروے کے شہر اوسلو میں ہوئی۔

    تعلیم اور امن کے دشمنوں کا مقابلہ کرنے والی سوات کی گل مکئی کی ہمت کو عالمی سطح پر تسلیم کرتے ہوئے نوبل انعام سے نوازا گیا،اس موقع پرملالہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ نوبل انعام کیلئے اپنے انتخاب پر شکریہ ادا کرتی ہیں ، انہوں نے عالمی رہنمائوں سے مطالبہ کیا کہ وہ متحد ہوکر تعلیم کو اپنی پہلی ترجیح بنائیں۔

     تقریب سے خطاب میں نوبل امن کمیٹی کے چیرمین کا کہنا تھا کہ ملالہ کا واحد جرم اس کی اسکول جانے کی خواہش تھی، ملالہ امن ایوارڈ حاصل کرنیوالی کم عمرترین لڑکی ہے، ان کا کہنا تھا کہ ملالہ اور کیلاش ستیارتھی امن کے علمبردار ہیں، ملا لہ یوسف زئی کو ملنے والا نوبل انعام پاکستان میں دوسرا نوبل انعام ہے، اس سے قبل ڈاکٹر عبدالسلام کو طبیعات کے میدان میں نوبل انعام دیا گیا تھا ۔

      ملالہ کا کہنا تھا دہشتگرد میری آواز دبا نہ سکے، میں حقوق کے لیے آواز اُٹھارہی ہوں، تعلیم بنیادی زندگی کا اہم جزہے مگر سوات میں دہشتگردوں نے اُسکول بس پر فائرنگ کرکے میری آواز کو دبانے کی کوشش کی، انہوں نے عالمی رہنماؤں سے سوال کیا کہ اسلحہ فراہم کرنا آسان لیکن کتاب دینا مشکل کیوں؟، ٹینک بنانا آسان اور اسکول بنانا مشکل کیوں؟ ایسا کیوں ہے طاقتور ممالک دنیا میں امن لانے کے قابل نہیں، آئیے دنیا کی پہلی اور آخری نسل بنیں جو تعلیم کے فروغ کیلئے کام کرے۔

    ملالہ یوسفزئی کا کہنا تھا چاہتی ہوں کہ خواتین کو مساوی حقوق دیے جائیں، میں اپنے ہاتھوں پر مہندی سے حساب کے فارمولے بنایاکرتی تھی ، ایک بھارتی اور پاکستانی ساتھ ملکر بچوں کے حقوق کے لیے کام کرسکتے ہیں، میں ان لڑکیوں کی آوازہوں جوتعلیم سے محروم ہیں، میں کائنات سومرواور کلثوم کی آوازہوں ۔

  • لڑکیوں کی تعلیم کیلئے لڑنے والی ملالہ کو نوبل انعام مل گیا

    لڑکیوں کی تعلیم کیلئے لڑنے والی ملالہ کو نوبل انعام مل گیا

    اوسلو: ملالہ یوسف زئی پاکستان سے نوبل انعام لینے والی دوسری شخصیت اور دنیا کی کم عمر ترین انعام یافتہ قرار پاگئی۔

    نوبل انعام کمیٹی کے سربراہ کا کہنا ہے ملالہ کا جرم یہ تھا کہ اس نے لڑکیوں کی تعلیم کے آواز بلند کی ، قوم کو سر بلندکرنے والی ملالہ یوسف زئی بارہ جولائی انیس سو ستانوے میں پیداہوئی ہے، گیارہ برس کی عمرمیں گل مکئی کے نام سے بی بی سی ویب سائٹ پربلاگ لکھنا شروع کیا، اپنے بلاگز میں ملالہ نے بلا خوف وخطر سوات میں بچیوں کو تعلیم کے زیور سے محروم رکھنے اور طالبان کے خوفناک عزائم سے آگاہ کیا۔

    انہوں نے سوات میں بچیوں کو تعلیم کی طرف راغب کرنے انتھک جدوجہد کی، جس کی پاداش میں طالبان نےنو اکتوبر دوہزار بارہ کو ملالہ یوسفزئی کو اس وقت نشانہ بنایا جب وہ سکول سے گھرلوٹ رہی تھی،برطانوی وزیراعظم گورڈن براون نے بھی ملالہ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں خراج تحسین پیش کیا تھا ۔

    ملالہ نے کئی بین الاقوامی ایوارڈ اپنے نام کیے،جن میں انٹرنیشنل چلڈرن پیس پرائز، پہلا پاکستانی نیشنل یوتھ پرائز۔ ورلڈ چلڈرن پرائز سمیت امن کا نوبل انعام اپنے نام کیا، کینیڈین حکومت نے ملالہ کی خدمات کا اعتراف ان کو اعزازی شہریت سے نوازا، بارہ جولائی دوہزار تیرہ میں ملالہ نے اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر خطاب کیا جس میں تعلیم کے حصول پر زور دیا۔

     ستمبر دوہزار تیرہ میں برمنگھم میں ملالہ کے نام سے لائبریری کا افتتاح ہوا، مئی دوہزار چودہ میں ملالہ کو ہیلی فیکس یونی ورسٹی نے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا۔۔اپریل دوہزار تیرہ میں نیویارک ٹائم کے فرنٹ پیج پر ملالہ کا پوسٹر چھپا اور دنیا کی سو بااثر شخصیات میں ان کا نام شامل ہوا۔