Tag: ملاوی

  • ملاوی کے نائب صدر کے لاپتہ طیارے سے متعلق ڈیفنس فورس کا اہم بیان

    ملاوی کے نائب صدر کے لاپتہ طیارے سے متعلق ڈیفنس فورس کا اہم بیان

    ملاوی کے نائب صدر کا طیارہ گزشتہ روز اڑان بھرنے کے بعد لاپتہ ہوگیا تھا، جسے تلاش کرنے کے لئے کوششیں جاری تھیں۔ تاہم اب ڈیفنس فورس کی جانب سے اہم بیان سامنے آگیا ہے۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق افریقی ملک کے ایک اعلیٰ فوجی عہدیدار کا کہنا ہے کہ ملاوی کے نائب صدر کا لاپتہ طیارہ ممکنہ طور پر جنگل میں گر کر تباہ ہوگیا ہے۔

    ملاوی ڈیفنس فورس کے کمانڈرپاؤل ویلنٹینو پھیری کا کہنا تھا کہ نائب صدر ساؤلوس کلاؤس کا طیارہ ممکنہ طور پر چکنگوا کے جنگل میں گر کر تباہ ہوا، مگر تاحال طیارہ مل نہیں سکا ہے۔

    ملاوی ڈیفنس فورس کے کمانڈر کا کہنا تھا کہ گھنا جنگل اور دھند ریسکیو آپریشن میں رکاوٹ کا سبب رہے ہیں۔

    واضح رہے کہ گزشتہ روز افریقی ملک ملاوی کے نائب صدر کو لے جانے والا طیارہ لاپتہ ہوگیا تھا۔

    صدر کے دفتر نے اس حوالے سے بیان جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ملاوی کے نائب صدر اور نو دیگر افراد کو لے جانے والا ایک فوجی طیارہ لاپتہ ہو گیا ہے جس کی تلاش جاری ہے۔

    51 سالہ نائب صدر ساؤلوس چلیما کو لے جانے والا طیارہ پیر کو دارالحکومت لِلونگوے سے روانہ ہوا لیکن تقریباً 45 منٹ بعد شمال میں تقریباً 370 کلومیٹر (230 میل) دور مزوزو انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر اپنی طے شدہ لینڈنگ میں ناکام رہا۔

    جنگ بندی قرارداد کے بعد بھی اسرائیلی بمباری جاری، مزید 8 فلسطینی شہید

    ملاوی کے صدر لازارس چکویرا کے دفتر کے بیان میں کہا گیا تھا کہ ایوی ایشن حکام کا طیارے سے رابطہ اس وقت منقطع ہو گیا جب وہ ”ریڈار سے دور ہو گیا“۔

  • سمندر سے محروم ”ملاوی“ کی کہانی

    سمندر سے محروم ”ملاوی“ کی کہانی

    جمہوریہ ملاوی، جسے ماضی میں ”نیسا لینڈ“ کہا جاتا تھا، سمندر سے محروم ملک ہے۔

    افریقا کے جنوب مشرق واقع یہ ملک سطح مرتفع اور جھیلوں کی خوب صورت سرزمین رکھتا ہے جس کے شمال میں تنزانیہ، مشرق اور جنوب میں موزمبیق اورمغرب میں زمباوے واقع ہے۔ اس مختصر سی مملکت کا کل رقبہ 46 ہزارمربع میل سے کچھ کم ہے جب کہ اس رقبہ میں ایک بہت بڑی جھیل بھی شامل ہے جس کا مقامی نام تو کچھ اور ہے لیکن دنیا کے نقشوں پر اسے ”ملاوی جھیل“ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

    ایک زمانے تک ”زومبا“ اس مملکت کا دارُالحکومت تھا جو ملک کے جنوب میں واقع تھا لیکن 1975ء کے بعد سے نسبتاََ وسطی علاقے کا شہر”للونگوے“ یہاں کا دارُالحکومت ہے، یہ شہر ملک کا صنعتی اور کاروباری مرکز بھی ہے۔ اس سرزمین پر انسانی قدموں کی تاریخ پچاس ہزار سال قدیم ہے۔

    ”بنٹو“ زبان بولنے والے قبائل نے یہاں تیرہویں صدی سے پندرہویں صدی کے درمیان حکومت کی ہے، ان خاندانوں کا طرّۂ امتیاز ہے کہ انہوں نے تعلیم و تعلم کی اس قدر سرپرستی کی کہ اس دوران اور اس کے بعد کی مکمل تاریخ رقم کی گئی اور بہت کچھ جزیات تک بھی کتابوں میں میسر ہیں جب کہ افریقا جیسی سرزمین پر اس حد تک معلومات کی فراہمی شاذ و نادر ہی ہوا کرتی ہے۔

    اٹھارویں صدی کے آخر میں یورپی فاتحین نے یہاں یلغار کی اور ان کا مقصد انسانوں کے شکار کے ذریعے غلاموں کی فراہمی تھا، چنانچہ جب تک یورپی سامراج یہاں رہا ”ملاوی“ کا علاقہ غلام فراہم کرنے والی بہت بڑی منڈی بنا رہا۔ 6 جولائی 1964ء کو ملاوی نے آزادی پائی۔

    آبادی میں اضافے کی شرح پورے براعظم افریقا میں یہاں سب سے زیادہ ہے۔ اس ملک میں شہری زندگی نہ ہونے کے برابر ہے اور آبادی کی اکثریت دیہات میں ہی رہتی ہے۔

    ملاوی کا نصف علاقہ قابلِ زراعت ہے اور لگ بھگ اتنے ہی علاقے پر وسیع و عریض جنگلات قائم ہیں۔ ملاوی کی جھیل یہاں پانی کے حصول کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ اسی کے کنارے پر غلاموں کی خرید و فروخت کا بہت بڑا مرکز تھا جو اب ایک طرح سے بندرگاہ کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ تمباکو، چائے اور گنّا یہاں کی نقد آور فصلیں ہیں۔ زرعی ترقی کے باعث ملاوی افریقہ کا واحد ملک ہے جو خوراک میں خود کفیل ہے۔ یہاں کی آبادی میں افریقا کی تقریباََ تمام زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن ”چچوا“ یہاں کی مقامی و قومی زبان ہے اور کم و بیش دو تہائی اکثریت یہ زبان بولتی ہے۔ برطانوی سامراجی حکومت کی باقیات کے طور پر انگریزی کو دفتری زبان کا درجہ حاصل ہے اور پڑھے لکھے لوگوں کی اکثریت انگریزی سے بھی شناسا ہے۔

    افریقی جنگلوں کی طرح یہاں بھی چیتے، شیر، ہاتھی اور زیبرے کثرت سے پائے جاتے ہیں اور کسی حد تک ان کے شکار کی اجازت بھی ہے۔

    (مترجم: ڈاکٹر ساجد خاکوانی)

  • ملاوی: سابق ڈپٹی اسپیکر نے پارلیمنٹ میں خود کو گولی مار دی

    ملاوی: سابق ڈپٹی اسپیکر نے پارلیمنٹ میں خود کو گولی مار دی

    ملاوی: جنوب مشرقی افریقا کے ملک ملاوی میں ایک سابق ڈپٹی اسپیکر نے پارلیمنٹ کے اندر خود کو گولی مار دی۔

    تفصیلات کے مطابق جمعرات کے دن ملاوی کے سابق ڈپٹی اسپیکر کلیمنٹ چیویا نے پارلیمنٹ ہاؤس میں پستول سے خود کشی کر لی۔

    کلیمنٹ چیویا دو سال قبل دفتر چھوڑتے وقت ملنے والی گاڑی کے اخراجات سے متعلق بات چیت کے لیے وھیل چیئر پر پارلیمنٹ گئے تھے۔

    پچاس سالہ چیویا نے 2019 میں اپنی پانچ سالہ مدت کے اختتام پر اپنی سرکاری گاڑی خرید لی تھی، لیکن انھوں نے چھ ماہ بعد پیش آنے والے حادثے میں ہونے والے نقصانات کی ادائیگی کے لیے پارلیمنٹ سے رجوع کیا تھا، وہ چاہتے تھے کہ پارلیمنٹ کی جانب سے یہ ادائیگی ہو۔

    پولیس ترجمان جیمز کڈزیرا نے جمعرات کو پیش آنے والے واقعے کی تصدیق کی ہے لیکن فی الحال مکمل تفصیل فراہم کرنے سے گریز کیا ہے، پارلیمنٹ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ سابق ڈپٹی اسپیکر نے پارلیمنٹ کی عمارت میں خودکشی کر لی۔

    گاڑی سے متعلق پارلیمنٹ کا مؤقف ہے کہ حادثے کے وقت گاڑی کی انشورنس ختم ہو چکی تھی، پارلیمنٹ بیان کے مطابق سابق ڈپٹی اسپیکر معذور ہو چکے تھے اور وہ وھیل چیئر پر پارلیمنٹ گئے، اس لیے ان کی سیکیورٹی چیکنگ زیادہ سخت نہیں کی گئی تھی۔

    پارلیمنٹ بیان میں اس واقعے کو چیویا کی سروس کی شرائط کے اطلاق پر ان کی مایوسی سے جوڑا گیا ہے، بیان کے مطابق چیویا گاڑی کے نقصانات کی ادائیگی پارلیمنٹ سے کروانا چاہتے تھے، وہ یہ کیس عدالت بھی لے کر گئے جہاں یہ کیس تاحال زیر التوا ہے۔

  • کم عمری کی شادیوں کے خلاف برسر پیکار افریقی لیڈر

    کم عمری کی شادیوں کے خلاف برسر پیکار افریقی لیڈر

    مشرقی افریقی ملک ملاوی میں ایک ضلع کی انتظامی صدر نے کم عمری کی شادیوں کے خلاف اقدامات کرتے ہوئے زبردستی شادی کے بندھن میں بندھی ہوئی بچیوں کو اسکول بھیجنا شروع کردیا۔

    ملاوی میں کم عمری کی شادیوں کا رجحان دنیا میں سب زیادہ پایا جاتا ہے۔

    یہاں ہر 2 میں سے 1 لڑکی کی شادی 18 سال کی عمر سے پہلے کردی جاتی ہے یعنی ملک کی تقریباً نصف سے زائد بچیاں ناپسندیدہ شادی کے رشتے میں جکڑی ہوئی ہیں۔

    تاہم جھیل ملاوی کے ساتھ واقع ضلع دیدزا کی انتظامی سربراہ تھریسا اس رجحان کے خلاف بھرپور اقدامات کر رہی ہیں۔

    تھریسا اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے زبردستی کی شادی کے بندھن میں بندھی بچیوں کو نجات دلا چکی ہیں۔ وہ اب تک 24 سو شادیوں کو منسوخ کرچکی ہیں۔

    اپنے ان اقدامات کی وجہ سے تھریسا اپنے ضلع میں ایک مقبول ترین شخصیت بن چکی ہیں۔ ان کے مداحوں میں وہ والدین بھی شامل ہیں جو صرف سماجی و خاندانی روایات سے مجبور ہو کر اپنی بچیوں کو کم عمری میں بیاہ دیتے ہیں۔

    تھریسا شادی سے نجات پانے والی ان بچیوں کو دوبارہ اسکول بھیج رہی ہیں۔ اس کے لیے وہ ملک بھر سے رقم جمع کرتی ہیں جو ان بچیوں کی تعلیمی ضروریات پوری کرنے میں کام آتی ہے۔

    براعظم افریقہ میں کم عمری کی شادیوں کا رجحان خطرناک حد تک بلند ہے۔ کچھ ممالک میں اس رجحان کے خلاف کام کیا جارہا ہے اور کئی افریقی ممالک میں اس پر پابندی عائد کی جاچکی ہے۔

    سنہ 2016 کے وسط میں گیمبیا اور تنزانیہ میں کم عمری کی شادی کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا۔ جرم کا ارتکاب کرنے والے افراد کے لیے سخت سزاؤں کا بھی اعلان کیا گیا تھا۔

    تھریسا کو امید ہے کہ ملاوی میں بھی اس رجحان کے خلاف آگاہی پیدا ہوگی اور بہت جلد وہ اس تباہ کن رجحان سے چھٹکارہ پالیں گے۔

  • امریکی گلوکارہ میڈونا، غریب بچوں کے لیے 4 نئے اسکول تعمیر کرنے کا اعلان

    امریکی گلوکارہ میڈونا، غریب بچوں کے لیے 4 نئے اسکول تعمیر کرنے کا اعلان

    لاہور : امریکی گلوکارہ میڈونا نے مشرقی افریقہ ملک ملاوی میں چار نئے اسکول قائم کرنے کا اعلان کیا ہے جس کے بعد ان کی جانب سے کھولے گئے اسکولوں کی تعداد 14 ہوجائے گی.

    بین الااقوامی خبر رساں ایجنسی کے مطابق معروف گلوکارہ نے اس بات کا اعلان نئے سال کی آمد کی موقع پر کیا، میڈونا کا کہنا تھا کہ یہ اسکول ایک این جی او کے اشتراک کے ساتھ تعمیر کیے جا رہے ہیں جس کا مقصد پسماندہ علاقوں کو علم کے زیور سے آراستہ کرنا ہے۔

    اس موقع پرامریکی گلوکارہ میڈونا کا مخیر حضرات اور سماجی تنظیموں سے تعاون کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بہ حیثیت انسان محروم اور مستحق لوگوں کی مدد کرنا ہمارا  اولین فرض ہے اور علم سے بہتر کوئی مدد نہیں ہو سکتی ہے کیوں کہ علم انسان کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے.

    انہوں نے مزید کہا کہ معیاری تعلیم کا حصول ہر بچے کا بنیادی حق ہے اور میں اس سلسلے میں سب کو دعوت دیتی ہوں کہ آئیں، ہمارے ساتھ مل کام کریں اور پھر اس تعلیمی سے انقلاب سے دنیا بھر میں برپا ہونے والی مثبت تبدیلی کو دیکھیں جس سے پُر امن اور پُر رونق دنیا کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا۔

    خیال رہے کہ امریکہ کی صف اول کی گلوکارہ میڈونا اس سے قبل بھی ملاوی کے پسماندہ علاقوں میں 10 اسکول تعمیر کروا چکی ہیں جہاں سیکڑوں طالب علم مستفید ہو رہے ہیں تاہم بچوں کی تعداد زیادہ ہونے کے سبب مفت تعلیم کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے میڈونا نے مزید 4 اسکولز کھولنے کا اعلان کیا ہے.

    امریکی گلوکارہ اپنی جدید موسیقی، انداز اور مغربی لباس کے باعث دنیا بھر میں کافی شہرت رکھتی ہیں جب اُن کی ازدواجی زندگی بھی اکثر میڈیا میں زیر بحث رہتی ہے اور وہ آئے دن متنازعہ خبروں کا حصہ بھی رہتی ہیں تاہم سماجی کاموں میں دلچسپی نے اُن کی شخصیت کے ایک الگ پہلو کو اجاگر کرنے میں مدد دی ہے۔

  • افریقی ملک ملاوی میں آدم خوروں کی موجودگی

    افریقی ملک ملاوی میں آدم خوروں کی موجودگی

    مشرقی افریقہ کے ملک ملاوی میں 5 مبینہ آدم خوروں کو ہجوم نے تشدد کر کے ہلاک کردیا۔ تشدد کو بڑھنے سے روکنے کے لیے حکومت نے جنوبی علاقوں میں رات کا کرفیو نافذ کردیا۔

    بین الاقوامی رپورٹس کے مطابق افریقہ کا ملک ملاوی اس وقت آدم خوروں (انسانوں کو کھانے یا ان کا خون پینے والے) کی دہشت کی لپیٹ میں آگیا جب کچھ افراد نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے کچھ لوگوں کو دوسرے انسانوں کا خون پیتے دیکھا ہے۔

    اس افواہ کی تصدیق تو نہ ہوسکی تاہم یہ افواہ جنگل کی آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی اور لوگوں نے اپنے گھروں کے گرد حفاظتی باڑھ تعمیر کرلی جبکہ کچھ آدم خوروں کو مارنے کے لیے ان کی تلاش میں نکل گئے۔

    بعض اطلاعات کے مطابق یہ آدم خور پڑوسی ملک موزمبیق سے یہاں آئے۔

    گزشتہ روز ملاوی کے جنوبی علاقے میں ہجوم نے 5 مبینہ آدم خوروں کو ہلاک کردیا جس کے بعد ملک بھر میں مزید خوف و ہراس پھیل گیا۔

    تشدد کو بڑھنے سے روکنے کے لیے حکومت نے متاثرہ علاقوں میں رات کا کرفیو لگا دیا۔ ملاوی کے صدرکا کہنا ہے واقعہ کی مکمل تحقیقات کی جائیں گی۔

    دوسری جانب اقوام متحدہ نے بھی ملاوی کے 2 اضلاع سے اپنے عملے کو محفوظ مقام پر منتقل ہونے کی ہدایت کردی ہے جبکہ موزمبیق میں فی الحال اپنی تمام امدادی کارروائیاں معطل کردی ہیں۔

    یاد رہے کہ ملاوی کا شمار دنیا کے غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے جہاں جادو ٹونے کا رواج نہایت عام ہے۔

    اس سے قبل سنہ 2002 میں بھی یہاں آدم خوروں کی موجودگی کی اطلاعات سامنے آئی تھیں جب کچھ بچوں اور خواتین نے دعویٰ کیا کہ ایک شخص نے ان پر حملہ کر کے ان کا خون پینے کی کوشش کی۔

    بعد ازاں اس مبینہ آدم خور کو بھی ہجوم نے تشدد کر کے ہلاک کردیا تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔