Tag: ملٹری کورٹس

  • کس کا ملٹری ٹرائل ہوگا کس کا نہیں یہ کون طے کرے گا ؟ آئینی بینچ نے  سوالات اٹھا دیے

    کس کا ملٹری ٹرائل ہوگا کس کا نہیں یہ کون طے کرے گا ؟ آئینی بینچ نے سوالات اٹھا دیے

    اسلام آباد : سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے 9 مئی کے مخصوص ملزمان کے ملٹری ٹرائل پر سوالات اٹھا دیے کہ کس کا ملٹری ٹرائل ہوگا کس کا نہیں یہ کون طے کرے گا؟

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت ہوئی، سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔

    آئینی بینچ نے 9 مئی کے مخصوص ملزمان کے ملٹری ٹرائل پر سوالات اٹھا دیے، جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ دائرہ اختیارکون طےکرتاکس کاٹرائل ملٹری کورٹس میں ہوگاکس کا نہیں؟۔

    جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ 9 مئی کے تمام ملزمان کی ایف آئی آر تو ایک جیسی تھی، یہ تفریق کیسے ہوئی کچھ کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں اور کچھ کا اے ٹی سی میں ہوگا؟

    جسٹس نعیم اختر افغان نے وزارت دفاع کے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ خواجہ صاحب 9 مئی کے کل کتنے ملزمان تھے ؟ جن ملزمان کوملٹری کورٹس بھیجا ان سے متعلق کوئی اے ٹی سی کا آرڈرتو دکھائیں۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے بھی سوال کیا ملٹری کسٹڈی لینے کا پراسس کون شروع کرتا ہے؟ جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے وکیل سے کہا کوئی مثال دیں جہاں آئین معطل کئے بغیر سویلین کا ملٹری ٹرائل ہوا ہو۔

    جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے جی ایچ کیو،کراچی بیس سمیت مختلف تنصیبات پر دہشت گرد حملے ہوئے، ہمیں بتائیں ان حملوں کا کہاں ٹرائل ہوا؟ ایک آرمی چیف کاطیارہ ہائی جیک کرنےکی سازش کا کیس بنا تھا، خواجہ صاحب وہ کیس عام عدالت میں چلا آپ ایک فریق کے وکیل تھے، ان سب کا ٹرائل عام عدالتوں میں چلا تو 9 مئی والوں نے ایسا کیا کیا کہ ملٹری کورٹس جائیں؟ ان تمام مقدمات کی ایک ایک ایف آئی آر بھی ہمیں دیں۔

    جسٹس جمال مندوخیل کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ اے ٹی سی سے ملزم بری ہورہا اسے فوجی عدالت سے سزا ہو رہی ہے، کیا فوجی عدالتوں میں کوئی خاص ثبوت فراہم کیا جاتا ہے؟ انسداد دہشت گردی عدالتوں کوکیوں مضبوط نہیں بنایا جاتا؟ عدالتوں نےفیصلہ تو شواہد دیکھ کر ہی کرنا ہوتا ہے۔

    جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کیا 9 مئی دہشت گردی سے زیادہ سنگین جرم ہے جوٹرایل فوجی عدالت میں ہورہا ہے؟ اچھے تفتیشی افسران اور پراسیکیوٹر رکھیں تو عدالتوں سے سزائیں بھی ہوں گی۔

    جسٹس مسرت ہلالی نے سوال اٹھایا کہ جہاں آئین معطل نہ ہووہاں ملٹری کورٹس میں سویلین کا ٹرائل ہوسکتا؟ کون اور کیسے طے کرتا کونسا کیس ملٹری کورٹس میں کونسا سول کورٹس میں جائے گا۔

    جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ سیکشن 94 کے تحت کمانڈنگ افسر کا ذکر ہے اس پر تفصیل سے دلائل دوں گا، جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ ملٹری کورٹس ضرور بنائیں، جسٹس جمال خان مندوخیملٹری کورٹس سمیت ہر عدالت کا احترام ہے، آئین کے اندر رہتے ہوئے ملٹری کورٹس بنائیں، محرم علی کیس میں سپریم کورٹ نے کہا آئین سےمتصادم عدالت نہیں بنائی جاسکتی۔

    جسٹس امین الدین نے کہا کہ سزا یافتہ ملزمان سے متعلق کوئی آرڈر نہیں دےسکتے سب کی سیکیورٹی عزیز ہے، وکالت نامے پر دستخط سمیت کسی بھی شکایت پر متعلقہ عدالت سےرجوع کریں، جیل مینوئل کے تحت وکالت نامے پر دستخط کرنے کا حق سب کو حاصل ہے۔

    ایڈووکیٹ فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز سےسپریم کورٹ رپورٹ منگوا لے، جس پر جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے ہم اپنے اسکوپ سے باہر نہیں جائیں گے۔

    ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے دلائل میں کہا کہ خواجہ حارث نے نیب ترامیم کیس میں 6 ماہ تک دلائل دئیے تھے، خواجہ حارث ٹیسٹ میچ کی طرح لمبا کھیلتے ہیں تو جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ آپ ٹی ٹوئنٹی کی طرح کھیلنا چاہتے ہیں؟ انہیں اپنی مرضی سے دلائل دینے دیں۔

    بعد ازاں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت ملتوی کردی گئی۔

  • ملٹری کورٹس میں ٹرائل سانحہ اے پی ایس جیسے مجرموں کیلئے تھا، کیا سویلین کے ساتھ وہی برتاؤ کیا جاسکتا ہے؟ جسٹس مسرت ہلالی  کا سوال

    ملٹری کورٹس میں ٹرائل سانحہ اے پی ایس جیسے مجرموں کیلئے تھا، کیا سویلین کے ساتھ وہی برتاؤ کیا جاسکتا ہے؟ جسٹس مسرت ہلالی کا سوال

    اسلام آباد : فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل کے کیس میں جسٹس مسرت ہلالی نے سوال اٹھایا کہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل سانحہ اے پی ایس جیسے مجرموں کیلئے تھا، کیا سویلین کے ساتھ وہی برتاؤ کیا جاسکتا ہے؟

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت ہوئی۔

    جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی ، وزارت دفاع کےوکیل خواجہ حارث کی جانب سے دلائل کا آغاز کیا گیا۔

    جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا آپ جسٹس منیب کی ججمنٹ سے پیراگراف پڑھ رہے تھے وہیں سے شروع کریں، آرٹیکل 233 بنیادی حقوق کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔

    جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے آئین کے مطابق بھی رولز معطل ہوتے ہیں ختم نہیں، آرٹیکل 5 کے مطابق بھی رائٹس معطل نہیں ہوسکتے تو خواجہ حارث نے بتایا کہ آرٹیکل 233 کا ایک حصہ آرمڈفورسز اور دوسرا حصہ سویلینز کا ہے، عدالتی فیصلے کی بنیاد پر آرٹیکل 8 (5) اور 8 (3) مختلف ہیں یکجا نہیں کیا جاسکتا، جس پر جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ آپ کا نکتہ کل سمجھ آچکا، آگے بڑھیں اور بقیہ دلائل مکمل کریں۔

    خواجہ حارث نے سویلین کا ملٹری ٹرائل کالعدم قرار دینے والافیصلہ پڑھا اور کہا ایف بی علی کیس میں طے پا چکا تھا سویلین کا بھی فوجی عدالت میں ٹرائل ہوسکتا، اکثریتی فیصلے میں آرٹیکل آٹھ تین اور آٹھ پانچ کی غلط تشریح کی گئی۔

    جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ دیکھتے ہیں اس پر ہم آپ سے اتفاق کریں یانہ کریں تو وکیل نے کہا کہ غلط تشریح کی بنیاد پرکہہ دیا گیا ایف بی علی کیس الگ نوعیت کا تھا، ایف بی علی پر ریٹائرمنٹ کے بعد ٹرائل چلایا گیا تھا جب وہ سویلین تھے، فیصلے میں کہا گیا جرم سرزد ہوتے وقت ریٹائر نہیں تھے، اس لئے ان کا کیس الگ ہے۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے 9 مئی والے ملزمان تو آرمڈ فورسز سے تعلق نہیں رکھتے، آج کل ایک اصطلاح ایکس سروس مین کی ہے، یہ ایکس سروس مین بھی نہیں تھے، چلیں ہم صرف شہری کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔

    جسٹس جمال نے استفسار کیا سوال یہ ہے سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کس حدتک ہو سکتا ہے، جسٹس مسرت ہلالی نے بھی ریمارکس میں کہا کہ سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل اے پی ایس جیسے مجرمان کیخلاف ٹرائل کیلئے تھا، کیا تمام سویلین سے وہی برتاؤ کیا جاسکتا ہے جیسے سانحہ اے پی ایس میں کیا گیا، پاکستان کا آئین معطل نہیں ہے۔

    وکیل وزارت دفاع نے بتایا کہ بنیادی حقوق رہتے ہیں اس بارےمیں عدالتی فیصلے موجود ہیں، جس پر جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ہمیں بتائیں ملٹری کورٹس سےمتعلق بین الاقوامی پریکٹس کیاہے، وکیل وزارت دفاع نے بتایا کہ بین الاقوامی سطح پر میں مثالیں پیش کروں گا۔

    جسٹس جمال مندوخیل کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ روزانہ کی بنیاد پر فوجی جوان شہید ہو رہےہیں، ہمیں شہدا کا احساس ہے، سوال یہ ہے ان شہدا کے مقدمات فوجی عدالتوں میں کیوں نہیں چلتے، کوئی محض سوچ رکھتا ہو کیا اس کے خلاف بھی ملٹری کورٹس میں کیس چلےگا، سوال یہ ہے کونسے کیسز ہیں آرٹیکل 8 کی شق 3 کے تحت ملٹری کورٹس میں چلیں گے۔

    جسٹس نعیم اختر افغان نے خواجہ حارث سے مکالمے میں کہا کہ خواجہ صاحب لگتا ہےآپ کی تیاری مکمل نہیں ہے، 5 رکنی بینچ نے آرمی ایکٹ کی کچھ دفعات کالعدم کی ہیں، ہم بھی ان دفعات کو کالعدم رکھیں پھر تو سویلین کا فوجی ٹرائل ہو ہی نہیں سکتا، اگرہم کسی اور نتیجے پر پہنچیں تو طے کرنا ہوگا کون سے سویلین کا فوجی ٹرائل ہوسکتا ہے۔

    جسٹس نعیم کا مزید کہنا تھا کہ اب آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں2023 میں ترمیم بھی ہو چکی، ہمیں اس ترمیم کی روشنی میں بتائیں، کل جسٹس جمال نے فوجی چوکی کی مثال دے کر سوال اسی لئے پوچھا تھا۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے بھی ریمارکس دیے پارلیمنٹ کا اختیار بلاشبہ ہے قانون بنائے کہ کیا کیا چیزجرم ہے، پارلیمنٹ چاہے تو کل قانون بنا دے ترچھی آنکھ سے دیکھنا جرم ہے، اس جرم کا ٹرائل کہاں ہوگا وہ عدالت قائم کرنا بھی پارلیمنٹ کی آئینی ذمہ داری ہے، آئین پاکستان پارلیمنٹ کو یہ اختیار اور ذمہ داری دیتا ہے۔

    بعد ازاں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔

  • فوجی عدالت سے سزاؤں کے اعلان پر پی ٹی آئی کا رد عمل

    فوجی عدالت سے سزاؤں کے اعلان پر پی ٹی آئی کا رد عمل

    اسلام آباد: فوجی عدالت سے سزاؤں کے اعلان پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا رد عمل آ گیا۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف نے فوجی عدالت سے سویلینز کے خلاف سزائیں مسترد کر دیں، قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے کہا کہ پی ٹی آئی کے زیر حراست افراد کے خلاف سزائیں انصاف کے اصولوں کے منافی ہیں۔

    عمر ایوب نے کہا فوجی عدالت سے سویلینز کے خلاف سزاؤں کو مسترد کرتے ہیں، زیر حراست افراد عام شہری ہیں، ان پر فوجی عدالتوں میں مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔

    عمر ایوب نے ٹوئٹ میں لکھا کہ مسلح افواج ریاست کے انتظامی اختیار کا حصہ ہیں، ایسی عدالتوں کا قیام عام شہریوں سمیت عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے، ایسے فیصلوں سے آئین کی بنیادی خصوصیت طاقت کی تقسیم کی نفی ہوئی ہے۔

    سانحہ 9 مئی میں ملوث مجرمان کو سزائیں سنا دی گئیں

    سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے ملٹری کورٹ کا فیصلہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا، اور کہا کہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے، سزائیں ہر فورم پر چیلنج کریں گے، اور انصاف کے حصول کے لیے پی ٹی آئی اپنی جدوجہد جاری رکھے گی۔

    واضح رہے کہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے 9 مئی واقعات میں ملوث 25 مجرموں کو سزائیں سنا دیں، آئی ایس پی آر کے مطابق جناح ہاؤس حملے میں ملوث جان محمد خان، محمد عمران محبوب، عبدالہادی، علی شان اور داؤد خان کو دس، دس سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی، جی ایچ کیو حملے میں ملوث راجا احسان اور عمر فاروق کو بھی دس سال قید بامشقت کی سزا دی گئی۔

    پنجاب رجمنٹل سینٹر مردان حملہ کیس میں رحمت اللہ کو دس سال، پی اے ایف بیس میانوالی حملہ کیس میں انور خان، بابر جمال کو دس دس سال، بنوں کینٹ حملہ کیس میں محمد آفاق کو نو سال، چکدرہ قلعہ حملہ کیس میں داؤد خان کو سات سال، ملتان کینٹ چیک پوسٹ حملہ کیس میں زاہد خان چار، خرم شہزاد کو تین سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔

    آئی ایس پی آر کے مطابق ملوث مجرموں کے خلاف ناقابلِ تردید شواہد اکٹھے کیے گئے ہیں، آئی ایس پی آر نے مجرموں کے اعترافی بیانات بھی جاری کیے، مجرم کہتے ہیں کہ انھوں نے بانی کی گرفتاری کے بعد رہنماؤں کے اکسانے پر حملے کیے۔

    https://urdu.arynews.tv/9-may-jan-mohammad-pti/

  • ملزم کا بنیادی حق ہے کہ ٹرائل میں سزا یا جزا وقت کیساتھ ملنی چاہیے، ماہر قانون اشتر اوصاف

    ملزم کا بنیادی حق ہے کہ ٹرائل میں سزا یا جزا وقت کیساتھ ملنی چاہیے، ماہر قانون اشتر اوصاف

    اسلام آباد : ماہر قانون اشتر اوصاف نے سپریم کورٹ کے ملٹری کورٹس سے متعلق فیصلے پر کہا کہ ملزم کا بنیادی حق ہے کہ ٹرائل میں سزا یا جزا وقت کیساتھ ملنی چاہیے تاہم سزا اور جزا سپریم کورٹ سے زیرالتوا کیس سےمشروط ہوں گی۔

    تفصیلات کے مطابق ماہر قانون اشتر اوصاف نے اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو میں سپریم کورٹ کی جانب سے ملٹری کورٹس کو فیصلے سنانے کی اجازت کے حوالے سے کہا کہ یہ ملزم کا بنیادی حق ہے کہ ٹرائل میں سزا یا جزا وقت کیساتھ ملنی چاہیے، عدالت نے کہا سزا اور جزا سپریم کورٹ سے زیرالتوا کیس سےمشروط ہوں گی۔

    ماہر قانون کا کہنا تھا کہ ملزمان جیل میں اس لئے ہیں کہ فیصلے نہیں ہورہے ، جو لوگ بری ہوجائیں گے وہ اپنے گھروں کو جاسکیں گے ، کیس زیر التوا ہونے پر ملزمان کو سزا یا جزا نہیں ہوسکی۔

    انھوں نے بتایا کہ ہائیکورٹ کے پاس بھی اختیار ہے کہ ان فیصلوں کو دیکھ سکے ، ملٹری کورٹ کیس ابھی چلے گا اور سپریم کورٹ فیصلہ دےگی آئین میں ترمیم کےتحت بہت سے دہشتگردوں کے ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہوئے۔

    یاد رہے سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے ملٹری کورٹس کو فیصلہ سنانے کی اجازت دے دی ہے، عدالت نے فوجی عدالتوں کو 85 ملزمان کے فیصلے سنانے کی اجازت دی۔

    سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ جن ملزمان کو رہا نہیں کیا جا سکتا انہیں سزا سنانے پر جیلوں میں منتقل کیا جائے، فوجی عدالتوں کے فیصلے سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمے کے فیصلے سے مشروط ہوں گے۔

  • سویلیز کا ملٹری ٹرائل: جو شخص آرمڈ فورسز میں نہیں وہ اس کے ڈسپلن کے نیچے کیسے آسکتا ہے؟جسٹس مندوخیل نے سوال اٹھادیا

    سویلیز کا ملٹری ٹرائل: جو شخص آرمڈ فورسز میں نہیں وہ اس کے ڈسپلن کے نیچے کیسے آسکتا ہے؟جسٹس مندوخیل نے سوال اٹھادیا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں ملٹری کورٹس فیصلے کیخلاف اپیلوں پر سماعت میں جسٹس مندوخیل نے سوال کیا کیا جو شخص آرمڈ فورسز میں نہیں وہ اس کے ڈسپلن کے نیچے کیسے آسکتا ہے؟

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں ملٹری کورٹس فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔

    جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ملٹری کورٹس کے زیرحراست افرادکی ایف آئی آرکی نقول نہیں دی گئی، وفاقی حکومت کے وکیل خواجہ حارث دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملٹری کورٹس کیس میں عدالتی فیصلہ دو حصوں پر مشتمل ہے، ایک حصے میں آرمی ایکٹ دفعات کو کالعدم قرار دیا گیا ہے، دوسرے حصے میں ملزمان کی ملٹری کورٹ میں کسٹڈی ہے۔

    جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیئے ملٹری کورٹس کا پورا کیس آرٹیکل 8 کے گرد گھومتا ہے، جسٹس محمدعلی مظہر نے استفسار کیا کیا 5 رکنی بینچ نے آرمی ایکٹ دفعات کو آرٹیکل 8 سے متصادم قرار دیا، آرمی ایکٹ کی دفعات کو آرٹیکل 8 سے متصادم ہونے کا کیا جواز دیا گیا۔

    جسٹس مندوخیل نے سوال کیا جو شخص آرمڈفورسز میں نہیں وہ اس کے ڈسپلن کے نیچے کیسے آسکتا ہے؟ جس پر وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ اگر قانون اجازت دیتا ہے تو ڈسپلن کا اطلاق ہوگا۔

    جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیے ایک شخص آرمی میں ہے، اس پر ملٹری ڈسپلن کا اطلاق ہوگا، کوئی محکمہ زراعت میں ہے اس پر محکمہ زراعت کے ڈسپلن کا اطلاق ہوگا، کوئی شخص کسی محکمے میں ہیں نہیں اس پر آرمڈ فورسز کے ڈسپلن کا اطلاق کیسے ہوگا، کیا غیر متعلقہ شخص کو ڈسپلن کے نیچے لانا آرٹیکل 8 کی خلاف ورزی نہیں ہوگی۔

    خواجہ حارث نے بتایا کہ مخصوص حالات میں سویلین پر بھی آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے، سپریم کورٹ کے اس نقطہ پر کوئی عدالتی فیصلہ موجود ہے، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے ایف بی علی اور شیخ ریاض علی کیس میں یہی قرار دیا گیا،4 ججز نے فیصلے میں آرمی ایکٹ دفعات کو کالعدم کیا۔

    وکیل کا کہنا تھا کہ عدالت کےپاس آرمی ایکٹ دفعات کو کالعدم کرنے کا اختیار نہیں تو جسٹس مندوخیل نے کہا کہ اس طرح تو کوئی اکسانے کا سوچے اس پر بھی آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوگا، کیا آرمی ایکٹ نےآرٹیکل 8 کے سیکشنز غیر موثر نہیں کر دیے، کیا سویلین پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہو سکتا ہے۔؟

    خواجہ حارث نے کہا کہ ملٹری ٹرائل میں بھی فیئر ٹرائل کے آرٹیکل 10 اےموجود ہوتا ہے، جس پر جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ملٹری کورٹ فیصلے کیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں کویہاں سنا جا رہا ہے، عدالتی فیصلے میں سب سے پہلے نقائص کی نشاندہی کریں۔

    جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیئے آئینی بینچ انٹرا کورٹ اپیلوں میں بھی آئینی نقطہ کا جائزہ لے سکتا ہے جبکہ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ برادر جج کی آبزرویش سے میرا اختلاف نہیں، فیصلے میں نقائص کی نشاندہی بھی ضروری ہے۔

    جسٹس مندوخیل کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ پاکستان میں سب سے بڑا عہدہ صدر پاکستان کا ہے، اگر صدر ہاؤس پر حملہ ہو ملزم کا ٹرائل اے ٹی سی میں ہوگا، اگر آرمی املاک پر حملہ ہو تو ٹرائل ملٹری کورٹ میں ، جس پر وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ یہ فیصلہ قانون سازوں نے قانون سازی سے کیا ہے۔

    جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا ملٹری کورٹ ٹرائل میں وکیل کی اجازت ہوتی ہے، کیا ملٹری کورٹ میں ملزم کو تمام مواد فراہم کیا جاتا ہے ؟ تو حکومتی وکیل نے بتایا کہ ملٹری کورٹ میں ملزم کو وکیل اورتمام متعلقہ مواد فراہم کیا جاتا ہے۔

    جسٹس مندوخیل نے سوال کیا اگر ایک فوجی اپنے افسر کا قتل کر دے تو کیس کہاں چلے گا؟ وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ قتل کا کیس عام عدالت میں چلے گا, جس پر جسٹس مندوخیل نے سوال کیا جوشخص آرمی ایکٹ کا سبجیکٹ نہیں اسکو بنیادی حقوق سے کیسے محروم کیا جا سکتا۔

    عدالت نے ملٹری کورٹس سے متعلق انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی کردی۔

  • پیپلز پارٹی ملٹری کورٹس کے حق میں نہیں، بلاول بھٹو

    پیپلز پارٹی ملٹری کورٹس کے حق میں نہیں، بلاول بھٹو

    اسلام آباد : پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی ملٹری کورٹس کے حق میں نہیں، حکومت چاہتی ہے تو ملٹری کورٹس پراتفاق رائے پیدا کرے۔

    تفصیلات کے مطابق چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پیپلزپارٹی ملٹری کورٹس کےحق میں نہیں، سویلین کے ملٹری ٹرائل سے متعلق 2 تجاویز ڈرافٹ میں شامل تھیں، ایک تجویز تھی ملٹری انسٹالیشن پرحملہ کرنےوالوں کاٹرائل ملٹری کورٹس میں ہونا چاہیے۔

    چیئرمین پی پی نے بتایا کہ جےیوآئی کےمؤقف بھی سنا اور حکومت آرٹیکل 8 میں ترمیم چاہتی تھی تو پیچھے ہٹے، میری پارٹی کامؤقف تھااس وقت آئین کےآرٹیکل8 میں ترمیم کایہ وقت درست نہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ حکومت ملٹری کورٹس کا ہونا سمجھتی ہے تو اتفاق رائے پیدا کرے اور ترمیمی ڈرافٹ لائے۔

    رکن اسمبلی نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی سےمتعلق نومئی کے ثبوت ہیں تو حکومت سامنےلائے اور قانونی طور پر اس کو آگے لیکر جائے۔ بانی پی ٹی آئی کی ملٹری کورٹس میں پیشی سے متعلق آئینی ترمیم کےبغیر آگے نہیں جاسکتے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ ملٹری کورٹس سے متعلق عدالت کافیصلہ موجود ہے۔ کوئی ذاتی نظام نہیں بنانا چاہتے جو کسی کورول ان یارول آؤٹ کرتے ہیں۔

  • 9 مئی کے کتنے لوگ فوجی عدالتوں  میں بے قصور نکلے؟ تفصیلات طلب

    9 مئی کے کتنے لوگ فوجی عدالتوں میں بے قصور نکلے؟ تفصیلات طلب

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے نو مئی مقدمات میں بے قصور افراد کی تفصیلات طلب کرلیں، عدالت نے قرار دیا جو ملزمان بری ہوسکتے ہیں ان کی بریت کی جائے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ نےسماعت کی۔

    درخواست گزاروں کے وکیل فیصل صدیقی نےعدالتی کارروائی براہ راست نشر کرنے کی استدعا کی، جس پر جسٹس امین الدین خان نے کہا لائیونشریات کی درخواست پر فیصلہ جاری کریں گے۔

    جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا ملزمان میں کسی کی رہائی ہوئی یا ہوسکتی ہے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا ٹرائل مکمل ہوچکا لیکن ابھی فیصلے نہیں سنائےگئے تو جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے آپ نے کہا تھا کچھ کیسز بریت کے ہیں اور کچھ کی سزائیں مکمل ہوچکیں۔

    جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا حکم امتناع کےباعث بریت کے فیصلے نہیں ہوسکے، درخواست گزاروں کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا بریت پرکوئی حکم امتناع نہیں تھا۔

    جسٹس امین الدین نے قرار دیا جن ملزمان کی بریت ہوسکتی ہے انھیں توبری کریں، جس کو چھ ماہ کی سزا ہے وہ ایک سال گرفتار نہیں رہنا چاہیے، جس پر اٹارنی جنرل نے وضاحت پیش کی کہ کچھ ملزمان ایسےہیں جن کی گرفتاری کا دورانیہ سزا میں تصورہوگا۔

    جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیئے فوجی عدالتوں کادائرہ اختیارہی تسلیم نہ کریں توبات ختم ہوگی۔

    دوران سماعت درخواست گزاروں نے بینچ اور نجی وکلا پر اعتراض کیا، جسٹس ریٹائرڈ جواد ایس خواجہ کے وکیل نے نورکنی لارجر بینچ بنانے کی استدعا کی۔

    جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے پہلے نو رکنی بینچ بن جاتا توآج اپیلوں پرسماعت ممکن نہ ہوتی۔

    سماعت کے دوران کےپی حکومت نےسویلنزٹرائل کالعدم قراردینے کیلئے اپیلیں واپس لینے کا کہا تو عدالت نے قرار دیا کے پی حکومت اپیلیں واپس لینےکیلئے باضابطہ درخواست دے۔

    جسٹس شاہد وحید نے ریمارکس دیئے یہ وفاق کا کیس ہے،صوبائی حکومتیں کیسےاپیل دائرکرسکتی ہیں، جس پر بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا صوبائی حکومتیں ضرورت سے زیادہ تیزی دکھارہی ہیں۔

    سپریم کورٹ نے کہا بتایا جائے نو مئی کےکتنےلوگ ملٹری کورٹس میں بے قصور نکلے؟ کتنے ملزمان بری ہوسکتے ہیں کتنے نہیں اور کتنے ملزمان ہیں جنھیں کم سزائیں ہونی ہیں۔

    سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سے اٹھائیس مارچ تک تفصیلات طلب کرلیں اور فوجی عدالتوں میں محفوظ شدہ فیصلوں کی سمری بھی پیش کرنے کی ہدایت کردی ساتھ ہی عدالت نے قرار دیا حکم امتناع میں سمری کے مطابق ترمیم ہوگی۔

  • ملٹری کورٹس میں سویلینز کا ٹرائل غیر آئینی قرار

    ملٹری کورٹس میں سویلینز کا ٹرائل غیر آئینی قرار

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کو غیر آئینی قرار دے دیا، سپریم کورٹ نے فیصلہ 1-4 کے تناسب سےسنایا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف کیس کا فیصلہ سنادیا ، فیصلے میں ملٹری کورٹس میں ٹرائل کیخلاف درخواستیں منظورکرلیں گئیں۔

    سپریم کورٹ نے ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کوغیرآئینی قرار دے دیا، جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں 5رکنی بینچ نے فیصلہ سنایا، فیصلہ چار ایک کی بنیاد پر سنایا گیا، سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الاحسن نے فیصلہ پڑھ کر سنایا۔

    سپریم کورٹ نے ملڑی ایکٹ کا سیکشن ٹو ون ڈی کو ائین کے بر خلاف قرار دے دیا اور کہا ملزمان کے جرم کی نوعیت کےاعتبارسےمقدمات عام عدالتوں میں چلائیں جائیں گے۔

    یاد رہے سپریم کورٹ کا پانچ رکنی لارجر بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

    سماعت کے آغاز میں وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا عدالت میں یقین دہانی کرانے کے باوجود فوجی عدالتوں نے سویلین کا ٹرائل شروع کردیا ہے، جس پرجسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ہمیں اس بارے میں معلوم ہے، پہلے اٹارنی جنرل کو سن لیتے ہیں۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ دہشت گردوں کا ٹرائل کرنے کے لیے آئینی ترمیم ضروری تھی عام شہریوں کیلئے نہیں؟ قانون پڑھیں تو واضح ہوتا ہے یہ تو فورسز کے اندر کیلئے ہوتا ہے، آپ اس کا سویلین سے تعلق کیسے دکھائیں گے؟ ماضی کی فوجی عدالتوں میں جن کا ٹرائل ہوا وہ کون تھے؟ کیا دوہزار پندرہ کے ملزمان عام شہری تھے؟ غیرملکی یا دہشت گرد؟

    اٹارنی جنرل نے کہا ملزمان میں ملکی و غیرملکی دونوں ہی شامل تھے، دوہزارپندرہ میں جن کا ٹرائل ہوا ان میں دہشت گردوں کےسہولت کاربھی شامل تھے۔

    اٹارنی جنرل نے ایف بی علی کیس کا بھی حوالہ دیا اور یہ بھی کہا کسی کو ڈیوٹی ادا کرنے سے روکنابھی قانون میں جرم بن جاتا ہے، جب ڈیوٹی سےروکا جائےتوپھردیگرافراد بھی اسی قانون میں آتے ہیں۔

  • بلوچستان نیشنل پارٹی  نے ملٹری کورٹس کی مخالفت کردی

    بلوچستان نیشنل پارٹی نے ملٹری کورٹس کی مخالفت کردی

    لاہور : بلوچستان نیشنل پارٹی نے ملٹری کورٹس کی مخالفت کردی ، رہنما ہاشم نوتیزئی نے کہا کہ موقف واضح ہے  ملٹری کورٹس نہیں ہونی چاہیے۔

    تفصیلات کے مطابق بلوچستان پارٹی کے رہنما ہاشم نوتیزئی نے اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو میں فوجی عدالتوں کے سوال پر کہا کہ ملٹری کورٹس پر بی این پی کا موقف واضح ہے یہ نہیں ہونی چاہیے۔

    ہاشم نوتیزئی کا کہنا تھا کہ جو عدالتیں موجود ہیں بس اسی میں ہر کسی کا ٹرائل ہو۔

    خیال رہے سپریم کورٹ میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف درخواستیں زیر سماعت ہیں۔

    عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کی جانب سے یقین دہانی کرائے جانے کے بعد فوجی عدالتوںکی کارروائی روکنے کی استدعا مسترد کر دی اور سماعت جولائی کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کر دی تھی۔

  • پی ٹی آئی،حکومت مذاکرات میں عمران خان رکاوٹ تھے، بلاول بھٹو

    پی ٹی آئی،حکومت مذاکرات میں عمران خان رکاوٹ تھے، بلاول بھٹو

    اسلام آباد: وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے الزام عائد کیا ہے کہ عمران خان کی وجہ سے مذاکرات میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔

    تفصیلات کے مطابق پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ نو مئی سے قبل پیپلزپارٹی مذاکرات کی سب سے بڑی حامی تھی، مذاکرات جاری تھے لیکن عمران کےرویئے کی وجہ سےخرابی ہوئی، اب ہمارے پاس بحیثیت سیاسی جماعت کوئی آپشن نہیں کہ بات چیت کریں۔

    وزیر خارجہ نے دعویٰ کیا کہ ہمارے اور پی ٹی آئی وفود نے انتخابات کی تاریخ پرمذاکرات کرلئےتھے، عمران خان کی وجہ سے مذاکرات میں رکاوٹ پیدا ہوئی اور نومئی کے بعد انہوں نے تمام ریڈ لائنز کراس کر دی ہیں، ہم کچھ نہیں کرسکتے۔

    بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ذاتی حیثیت میں کسی جماعت پر پابندی کی مخالفت کرتا ہوں،لیکن کسی بھی سیاسی جماعت کو سوچنا ہوگا کہ اگرکوئی سیاسی جماعت دہشت گرد تنظیم بنناچاہ رہی ہوتو کیاکیاجائے؟ میں سمجھتا ہوں کہ پی ٹی آئی کے اندر یہ صلاحیت ہے کہ وہ سیاسی جماعت بنے۔

    میڈیا سے گفتگو میں چیئرمین پیپلزپارٹی وزیرخارجہ بلاول بھٹو نے واضح کیا کہ میڈیا میں ملٹری کورٹس کے حوالے سےغلط فہمی ہے، حکومت آئینی ترمیم سے کوئی نئی ملٹری کورٹس قائم نہیں کررہی، آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ پہلےسے موجود ہے، جس قانون کی خلاف ورزی ہوئی اسی قانون کےمطابق کارروائی ہوگی۔

    بلاول بھٹو نے ایران پاکستان تعلقات سے متعلق کہا کہ ایک سال میں جن ممالک سےتعلقات بہترہوئے ان میں ایران بھی شامل ہے، دونوں ممالک نے سیکیورٹی مسائل کے مشترکہ حل پرزور دیا، ایران پاکستان کے درمیان بارڈرمارکیٹ اوربجلی ترسیل کاافتتاح ہوا جو کہ خوش آئند ہے۔

    وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ بھارت سے دو طرفہ تعلقات بحالی پانچ اگست اقدام کی واپسی کےبعدممکن ہے، بھارت سے بات کرنی ہےتو چند معاملات پر فیصلہ کرنا ہو گا،بھارت یکطرفہ طورپربین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کررہا ہے،ہمارے جو بھی اندرونی معاملات ہوں ہم کشمیر پر متفق ہیں۔