Tag: ملکہ ترنم

  • ملکہ ترنم نور جہاں کو مداحوں سے بچھڑے 24 برس بیت گئے

    ملکہ ترنم نور جہاں کو مداحوں سے بچھڑے 24 برس بیت گئے

    لاہور: لازوال گیتوں سے اپنی آواز جادو جگانے والی برصغیر کی نامور گلوکارہ ملکہ ترنم نور جہاں کو مداحوں سے بچھڑے 24 برس بیت گئے مگر اُن کا فن آج بھی ان کے مداحوں کے دلوں میں زندہ ہے۔

    تمغہ امتیاز اور پرائیڈ آف پرفارمنس کی حامل پاکستان کی معروف گلو کارہ ملکہ ترنم نور جہاں کی آج24ویں برسی منائی جارہی ہے۔

    ملکہ ترنم نور جہاں 21 ستمبر1926 کو قصور میں پیدا ہوئیں، ان کا اصل نام اللہ وسائی جبکہ نور جہاں ان کا فلمی نام تھا۔

    انہوں نے اپنے فنی کیرئیر کا آغاز 1935 میں پنجابی زبان میں بننے والی پہلی اولین فلم ’شیلا عرف پنڈ دی کڑی‘سے بطور چائلڈ اسٹار بیبی نور جہاں کے نام سے کیا۔

    موسیقار غلام حیدر نے1941میں انہیں اپنی فلم ’خزانچی‘ میں پلے بیک سنگر کے طور پر متعارف کروایا اور اسی برس بمبئی میں بننے والی فلم ’خاندان‘ ان کی زندگی کا ایک اور اہم سنگ میل ثابت ہوئی۔

    اسی فلم کی تیاری کے دوران ہدایت کار شوکت حسین رضوی سیان کی شادی ہوگئی، قیام پاکستان کے بعد وہ اپنے شوہر شوکت حسین رضوی کے ہمراہ ممبئی سے کراچی منتقل ہوگئیں۔

    انہوں نے بطور اداکارہ بھی متعدد فلمیں کیں جن میں گلنار، چن وے، دوپٹہ، پاٹے خان، لخت جگر، انتظار،نیند، کوئل، چھومنتر، انار کلی اور مرزا غالب کے نام شامل ہیں۔

    میڈم نور جہاں نے 1965 کی جنگ میں اے وطن کے سجیلے جوانوں، رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو، میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں راکھاں، میرا ماہی چھیل چھبیلا کرنیل نی جرنیل نی، اے پتر ہٹاں تے نہیں وکدے گا کرپاک فوج کے جوش وجذبے میں بے پناہ اضافہ کیا۔

    انہیں شاندار پرفارمنس کے باعث صدارتی ایوارڈ تمغہ امتیاز اور بعد میں پرائیڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا گیا، میڈم نور جہاں نیتقریبا10 ہزار سے زائد غزلیں و گیت گائے جن میں سے بیشتر اب بھی لوگوں کے ذہنوں میں زندہ ہیں۔

    نادیہ خان اپنی زندگی میں مسائل کا شکار رہیں شاید اس لیے تنقید کرتی ہیں، شزا خان

    ملکہ ترنم نور جہاں 23 دسمبر 2000 کو 74 برس کی عمر میں انتقال کر گئیں، اگرچہ ایسا لگتا ہے کہ وہ ہم میں نہیں لیکن ان کے گائے ہوئے گیت آج بھی عوام میں بے پناہ مقبول ہیں۔

  • نور جہاں اور پاؤ بھر اچار

    نور جہاں اور پاؤ بھر اچار

    سعادت حسن منٹو جیسے بڑے قلم کار نے کئی سال قبل اپنے وقت کی ایک بڑی گلوکارہ اور اداکارہ نور جہاں پر یہ مضمون لکھا تھا۔ اس میں منٹو نے نور جہاں کے فن اور ان کی شخصیت سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کچھ دل چسپ باتیں بھی لکھی ہیں۔ مثلاً‌ وہ بتاتے ہیں کہ گلوکارہ اپنی آواز کے بگڑنے اور گلے کے خراب ہونے کا خیال کیے بغیر کھانے پینے میں کوئی احتیاط نہیں کرتی تھیں۔

    منٹو نے ملکۂ ترنّم نور جہاں کے بارے میں لکھا: میں نے شاید پہلی مرتبہ نور جہاں کو فلم ’’خاندان‘‘ میں دیکھا تھا۔ ’نور جہاں‘ ان دنوں فلم بین لوگوں کے لئے ایک فتنہ تھی، قیامت تھی۔ لیکن مجھے اس کی شکل و صورت میں ایسی کوئی چیز نظر نہ آئی۔ ایک فقط اس کی آواز قیامت خیز تھی۔

    سہگل کے بعد، میں نور جہاں کے گلے سے متاثر ہوا۔ اتنی صاف و شفاف آواز، مرکیاں اتنی واضح، کھرج اتنا ہموار، پنچم اتنا نوکیلا! میں نے سوچا، اگر یہ لڑکی چاہے تو گھنٹوں ایک سُر پر کھڑی رہ سکتی ہے، اسی طرح، جس طرح بازی گر تنے ہوئے رسہ پر بغیر کسی لغزش کے کھڑے رہتے ہیں۔

    نور جہاں کی آواز میں اب وہ لوچ، وہ رس، وہ بچپنا اور وہ معصومیت نہیں رہی، جو کہ اس کے گلے کی امتیازی خصوصیت تھی۔ لیکن پھر بھی نور جہاں، نورجہاں ہے۔ گو لتا منگیشکر کی آواز کا جادو آج کل ہر جگہ چل رہا ہے۔ اگر کبھی نور جہاں کی آواز فضا میں بلند ہو تو کان اس سے بے اعتنائی نہیں برت سکتے۔

    نور جہاں کے متعلق بہت کم آدمی جانتے ہیں کہ وہ راگ ودیا اتنا ہی جانتی ہے جتنا کہ کوئی استاد۔ وہ ٹھمری گاتی ہے، خیال گاتی ہے، دھرپد گاتی ہے، اور ایسا گاتی ہے کہ گانے کا حق ادا کرتی ہے۔ موسیقی کی تعلیم تو اس نے یقیناً حاصل کی تھی کہ وہ ایسے گھرانے میں پیدا ہوئی، جہاں کا ماحول ہی ایسا تھا۔ لیکن ایک چیز خداداد بھی ہوتی ہے۔ موسیقی کے علم سے کسی کا سینہ معمور ہو، مگر گلے میں رس نہ ہو تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ خالی خولی علم سننے والوں پر کیا اثر کرسکے گا۔ نور جہاں کے پاس علم بھی تھا اور وہ خداداد چیز بھی کہ جسے گلا کہتے ہیں۔ یہ دونوں چیزیں مل جائیں تو قیامت کا برپا ہونا لازمی ہے۔

    میں یہاں آپ کے لیے ایک دل چسپ بات بتاؤں کہ وہ لوگ جن پر خدا کی مہربانی ہوتی ہے، وہ اس سے ناجائز فائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔ میرا مطلب ابھی آپ پر واضح ہو جائے گا۔ چاہیے تو یہ کہ جو چیز خدا نے عطا کی ہو، اس کی حفاظت کی جائے، تاکہ وہ مسخ نہ ہو۔ لیکن میں نے اکثر دیکھا ہے کہ لوگ ان کی پروا نہیں کرتے۔ بلکہ غیر شعوری یا شعوری طور پرپوری کوشش کرتے ہیں کہ وہ تباہ و برباد ہو جائے۔

    شراب گلے کے لئے سخت غیر مفید ہے لیکن سہگل مرحوم ساری عمر بلا نوشی کرتے رہے۔ کھٹی اور تیل کی چیزیں گلے کے لئے تباہ کن ہیں، یہ کون نہیں جانتا؟ مگر نور جہاں پاؤ پاؤ بھر تیل کا اچار کھا جاتی ہے۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ جب اسے فلم کے لئے گانا ہوتا ہے تو وہ خاص اہتمام سے پاؤ بھر اچار کھائے گی، اس کے بعد برف کا پانی پیے گی، پھر مائیکرو فون کے پاس جائے گی۔ اس کا کہنا یہ ہے کہ ’’اس طرح آواز نکھر جاتی ہے۔‘‘

    یوں آواز کیونکر نکھرتی ہے، گلا کیسے صاف ہوتا ہے، اس کے متعلق نور جہاں ہی بہتر جانتی ہے۔ یوں میں نے اشوک کمار کو بھی برف استعمال کرتے دیکھا ہے کہ جب اسے گانے کی صدا بندی کرانا ہوتی ہے وہ سارا وقت برف کے ٹکڑے چباتا رہتا ہے۔ جب تک ریکارڈ زندہ ہیں، سہگل مرحوم کی آواز کبھی نہیں مرسکتی۔ اسی طرح نور جہاں کی آواز بھی ایک عرصے تک زندہ رہے گی اور آنے والی نسلوں کے کانوں میں اپنا شہد ٹپکاتی رہے گی۔

  • سجل علی نے ’نیت شوق بھر نہ جائے کہیں‘ گنگنا کر ملکہ ترنم کی یاد تازہ کر دی

    سجل علی نے ’نیت شوق بھر نہ جائے کہیں‘ گنگنا کر ملکہ ترنم کی یاد تازہ کر دی

    عالمی شہرت یافتہ  اداکارہ سجل علی نے میڈم نور جہاں کی گائی غزل ’نیت شوق بھر نہ جائے کہیں’ گنگنا کر ملکہ ترنم کی یاد تازہ کر دی۔

    معروف اداکارہ سجل علی نے بی بی سی ریڈیو شو میں شرکت کی، جہاں انہوں نے اپنے شوبز کیریئر پر تفصیلی گفتگو کی۔

    سجل علی نے انٹرویو کے دوران گیم راؤنڈ ناصر کاظمی کی غزل ’ نیت شوق بھر نہ جائے کہیں ’ گنگنا‘ کر ملکہ ترنم سے اپنی محبت کا اظہار کیا۔

    سجل کی سریلی آواز میں گائی غزل کو مداحوں کی جانب سے خوب پسند کیا جارہا ہے، غزل کے ذریعے انہوں نہ صرف ایک بار پھر میڈم نورجہاں کی یاد تازہ کی بلکہ   سب کے دل بھی جیت لیے۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by BBC Asian Network (@bbcasiannetwork)

    اس کے علاوہ سجل نے بی بی سی ریڈیو شو میں ایک بار پھر بالی وڈ اداکارہ  سری دیوی کے ساتھ کام کا تجربہ شیئر کیا ساتھ ہی ان کی بیٹی جھانوی کپور سے قریبی تعلقات کے بارے میں بات کی۔

    سجل علی نے کہا کہ سری دیوی کے ساتھ کام کا تجربہ میرے لیے  غیر یقینی تھا کیوں کہ سری دیوی کو دیکھ کر ہی انسان سب کچھ بھول جاتا ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ ایک اچھے اداکار کیلئے اس کا اچھا انسان ہونا بھی ضروری ہے تاکہ کوئی بھی شخص ان کے ساتھ  اچھا محسوس کرسکے اور سری دیوی میں یہ تمام خصوصیات پائی جاتی تھیں۔

  • ملکہ ترنم نور جہاں‌ کی برسی

    ملکہ ترنم نور جہاں‌ کی برسی

    آج ملکہ ترنم نور جہاں کی 20ویں برسی منائی جارہی ہے۔ پاکستان کی اس نام وَر گلوکار اور فلمی اداکار کا اصل نام اللہ وسائی تھا۔ وہ محلہ کوٹ مراد خان، قصور میں پیدا ہوئی تھیں۔ انھوں نے بطور چائلڈ آرٹسٹ پہلی بار کلکتہ میں‌ بننے والی فلم سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا تھا۔

    1935ء میں ’’شیلا عرف پنڈ دی کڑی‘‘ سے اسکرین پر سفر شروع کرنے والی نور جہاں نے چند مزید فلموں میں کام کرنے کے بعد 1938ء میں لاہور کا رخ کیا جہاں انھیں فلم ساز دل سکھ پنجولی اور ہدایت کار برکت مہرا کی فلم ’’گل بکائولی‘‘ میں اہم کردار نبھانے کا موقع ملا۔ یہی وہ فلم تھی جس میں انھوں نے گلوکارہ کے طور پر بھی خود کو آزمایا۔ اسی فلم سے ان کی شہرت اور مقبولیت کا آغاز ہوا۔

    1941ء میں موسیقار غلام حیدر نے انھیں اپنی فلم ’’خزانچی‘‘ میں پلے بیک سنگر کے طور پر متعارف کروایا۔ 1941ء میں ہی بمبئی میں بننے والی فلم ’’خاندان‘‘ ان کی زندگی کا ایک اور اہم سنگ میل ثابت ہوئی۔ اس فلم کی تیاری کے دوران ہی ہدایت کار شوکت حسین رضوی ان کی محبت میں‌ گرفتار ہوئے اور بعد میں دونوں نے شادی کرلی۔

    قیامِ پاکستان سے پہلے نورجہاں کی جو فلمیں مشہور ہوئیں ان میں لال حویلی، بڑی ماں، نادان، نوکر، زینت، انمول گھڑی شامل ہیں۔ تقسیم کے بعد انھوں نے پاکستانی فلم ’’چن وے‘‘ میں کام کیا۔ وہ اس فلم کی ہدایت کار بھی تھیں۔ بعد میں گلنار، دوپٹہ، پاٹے خان، لختِ جگر، انتظار، نیند، کوئل اور دیگر فلمیں‌ ریلیز ہوئیں۔ اس کے بعد انھوں نے اداکاری سے کنارہ کرلیا اور گلوکاری تک محدود ہوگئیں۔ انھوں نے لگ بھگ 995 فلموں کے لیے نغمات ریکارڈ کروائے جن میں آخری فلم ’’گبھرو پنجاب دا‘‘ تھی جو 2000ء میں ریلیز ہوئی تھی۔

    1965ء کی جنگ کے دوران میڈم نور جہاں کی آواز میں‌ گونجنے والے یہ ملی نغمے آج بھی اسی قومی جوش و جذبے اور ہمت و بہادری کی یاد دلاتے ہیں جن کے بول تھے "اے وطن کے سجیلے جوانو، رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو، اے پتر ہٹاں تے نہیں وکدے”۔

    حکومتِ پاکستان نے ملکہ ترنم میڈم نور جہاں کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور نشانِ امتیاز عطا کیا۔ وہ کراچی میں‌ ڈیفنس کے قبرستان میں مدفون ہیں۔

  • ملکہ ترنم نور جہاں کی پرانی تصویر نے ماضی کے دریچے کھول دیے

    ملکہ ترنم نور جہاں کی پرانی تصویر نے ماضی کے دریچے کھول دیے

    ملکہ ترنم نور جہاں کو گو کہ اس دنیا سے گزرے 19 برس بیت چکے ہیں، لیکن وہ اپنی سریلی اور خوبصورت آواز کے ذریعے اب تک اپنے مداحوں کے دل میں زندہ ہیں، ان کی نواسی کی سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ایک تصویر نے ان کی بھولی بسری یادیں پھر سے تازہ کردیں۔

    نور جہاں کی نواسی نتاشا خالد نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر ایک پرانی تصویر شیئر کی جو ان کی والدہ حنا درانی کی شادی کے موقع کی ہے۔

    تصویر میں دلہن بنی حنا اپنی والدہ ملکہ ترنم نور جہاں کے کندھے پر سر رکھے ہوئے ہیں اور دونوں نہایت خوشگوار موڈ میں ہیں۔ یہ تصویر یقیناً کسی بھی بیٹی کو جذباتی کرنے کے لیے کافی ہے۔

    نتاشا نے اپنی والدہ اور نانی کے لیے لکھا کہ میں نے اتنی خوبصورت دلہن، اور دلہن کی اتنی خوبصورت ماں آج تک نہیں دیکھی۔

    نتاشا کی تصویر کو مداحوں نے بے حد پسند کیا اور اب تک تصویر کو 28 ہزار سے زائد لائیکس موصول ہوچکے ہیں۔

    خیال رہے کہ ملکہ ترنم نور جہاں نے دو شادیاں کیں، ان کی 4 بیٹیاں اور 2 بیٹے ہیں جن میں سے ان کی صاحبزادی ظل ہما نے بھی اپنی ماں کی میراث گائیکی کو اپنایا۔

    ملکہ ترنم سنہ 2000 میں 27 رمضان کی شب کراچی کے ایک اسپتال میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئیں۔ عمر بھر عظمت، شہرت اور دولت کمانے کے ساتھ ساتھ وہ فلاحی کاموں میں بھی بے انتہا آگے تھیں اور کئی غریب گھرانوں کے گھر کا سہارا بنی رہیں۔

  • ملکہ ترنم نور جہاں کی آج 93 ویں سالگرہ ہے

    ملکہ ترنم نور جہاں کی آج 93 ویں سالگرہ ہے

    کراچی: آواز میں جاذبیت، کانوں میں رس گھول دینے والے نور جہاں کے مدھر سرلوگ آج تک نہ بھول سکے، ملکہ ترنم نورجہاں کی آج 93ویں سالگرہ منائی جارہی ہے۔

    فن گائیکی کا سرمایہ، مدھر اورسریلی آواز کی مالک برصغیر کی معروف گلوکارہ ملکہ ترنم نورجہاں، موسیقی کا ایک درخشاں عہد تھیں، اکیس ستمبرانیس سوچھبیس کوقصورمیں جو تارہ روشن ہوا وہ لوگوں کے دلوں میں گھر کرگیا۔

    نور جہاں کا اصل نام اللہ وسائی تھا، اپنے فن اورمحبت کی بنا پر لوگوں نے انہيں ملکہ ترنم کا خطاب ديا، نورجہاں نے اپنے فنی کیرئر کا آغاز انیس سو پینتیس میں بطورچائلڈ اسٹارفلم پنڈ دی کڑیاں سے کیا جس کے بعد انمول گھڑی،ہیرسیال اور سسی پنو جیسی مشہور فلموں میں اداکاری کے جوہر آزمائے۔

    سن 1941ءمیں موسیقار غلام حیدر نے انہیں اپنی فلم خزانچی میں پلے بیک سنگر کے طور پر متعارف کروایا۔ 1941ءمیں ہی بمبئی میں بننے والی فلم خاندان ان کی زندگی کا ایک اور اہم سنگ میل ثابت ہوئی۔ اسی فلم کی تیاری کے دوران ہدایت کار شوکت حسین رضوی سے ان کی محبت پروان چڑھی اور دونوں نے شادی کرلی۔

    قیام پاکستان سے پہلے ان کی دیگر معروف فلموں میں،دوست، لال حویلی، بڑی ماں، نادان، نوکر، زینت، انمول گھڑی اور جگنو کے نام سرفہرست ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے فلم چن وے سے اپنے پاکستانی کیریئر کا آغاز کیا۔ اس فلم کی ہدایات بھی انہی نے دی تھی۔ بطور اداکارہ ان کی دیگر فلموں میں گلنار، دوپٹہ، پاٹے خان، لخت جگر، انتظار،نیند، کوئل، چھومنتر، انار کلی اور مرزا غالب کے نام شامل ہیں۔

    اس کے بعد انہوں نے اداکاری سے کنارہ کشی اختیار کرکے خود کو گلوکاری تک محدود کرلیا۔ ایک ریکارڈ کے مطابق انہوں نے 995 فلموں کے لئے نغمات ریکارڈ کروائے جن میں آخری فلم گبھرو پنجاب دا تھی جو 2000ءمیں ریلیز ہوئی تھی۔

    میڈم نے مجموعی طور پردس ہزار سے زیادہ غزلیں گائیں،میڈم نورجہاں الفاظ کی ادائیگی اور سر کے اتار چڑھاؤ میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھیں،یہی وجہ تھی کہ بھارت کی مشہور گلوکاروں نے بھی ان کے فن کو خوب سراہا، گلیمر کی دنیا سے لے کر جنگ کے محاذ تک ملکہ ترنم نور جہاں نے اپنی آواز کے سحر سے سب کو اپنی آواز کے سحر میں جکڑے رکھا۔

    لتا منگیشکر نے اپنے آڈیشن میں میڈم کا گایا ہوا گیت گایا، محمد رفیع صاحب کے ساتھ میڈم نور جہاں نے صرف ایک گیت گایا تھا۔لوگ آج بھی جب نور جہاں کے مدھر اور سریلے گیتوں کو سنتے ہیں تو مسحور ہو کر رہ جاتے ہیں۔

    انہوں نے 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران قومی نغمے بھی گائے جو ہماری قومی تاریخ کا اہم حصہ ہیں، حکومتِ پاکستان نے انکی خدمات کو سراہتے ہوئے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارگردگی اور نشان امتیاز سے نوازا۔

    ملکہ ترنم نور جہاں 23دسمبر 2000ء کو طویل علالت کے بعد انتقال کر گئی تھیں، وہ کراچی کے ڈیفنس سوسائٹی قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

  • ملکہ ترنم نورجہاں کو ہم سے بچھڑے تیرہ برس بیت گئے

    ملکہ ترنم نورجہاں کو ہم سے بچھڑے تیرہ برس بیت گئے

    سروں کی ملکہ۔ملکہ ترنم نورجہاں کو ہم سے بچھڑے تیرہ برس بیت گئے مگر اُن کی آواز اور انداز آج بھی زندہ ہیں۔  چھ برس کی عمر سے ہی گائیکی کا شوق رکھنے والی اللہ وسائی نے جب موسیقی کی دنیامیں قدم رکھا تو انہیں نورجہاں کا نام دیاگیا۔ فن موسیقی میں ایسا انمول ہیرا پاکستان کی دھرتی کو ملا جو اپنی مثال آپ تھا۔

    نورجہاں کی آوازنے سات دہائیوں تک لوگوں کو اپنے سحر میں جکڑے رکھا۔فیض کا کلام ہو، غزل ہو یا شوخ گانا۔ ہرسر نورجہاں کے سامنے سر جھکاتا۔ ملکہ ترنم نے جو بھی گایا، سننے والوں کو مسحور کیا۔ بے شمار کامیاب فنکاروں کو پس پردہ آواز کے ذریعے کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کرنے والی عظیم گلوکارہ نے اپنا فلمی کیریئرمیں کئی بھارتی فلموں نادان، نوکر، لال حویلی، دل، ہمجولی اور جگنو وغیرہ جبکہ پاکستان میں فلم دوپٹہ، گلنار، انتظار، لخت جگر، کوئل اور انار کلی میں کام کیا۔

    ہزار سے زائد پنجابی اور اردو فلموں میں نورجہاں نے دس ہزار گانے گائے۔ حب الوطنی کےجذبے سے سرشار نورجہاں نےانیس سو پینسٹھ کی جنگ میں اپنی آواز سے پاکستانیوں کا حوصلہ بڑھایا۔ فلمی، غیر فلمی غزل گائیکی میں یکتا ملکہ ترنم، نورجہاں کو دنیا سے گزرے جتنا وقت بڑھتا جارہاہے،ان کی آواز کی کمی اتنی ہی زیادہ محسوس ہوتی ہے۔