Tag: ملکہ زبیدہ

  • ملکہ زبیدہ کا تذکرہ جنھوں‌ نے فلاحی کاموں پر بے دریغ اپنی دولت خرچ کی

    ملکہ زبیدہ کا تذکرہ جنھوں‌ نے فلاحی کاموں پر بے دریغ اپنی دولت خرچ کی

    اسلامی خلافتِ عباسیہ میں جہاں‌ ہارون الرشید کا نام علم و فنون کے دلدادہ حکم راں کے طور پر مشہور ہے، وہیں‌ ان کی نہایت مال دار اور باثروت شریکِ حیات زبیدہ بنتِ جعفر کو بھی اسلامی دنیا میں بہت عزّت اور احترام حاصل ہے۔ اس کی وجہ زبیدہ کے وہ فلاحی کام ہیں جن کا تعلق اسلام اور مسلمانوں‌ کی ترقی و خوش حالی سے تھا۔ ان میں نہرِ زبیدہ بھی شامل ہے جس نے مکّہ اور قرب و جوار میں حاجیوں‌ کو پانی کی قلت سے نجات دی۔

    زبیدہ کا اصل نام تو امۃ العزیز تھا مگر کہتے ہیں کہ انھیں ان کے دادا ’زبیدہ‘ کہہ کر بلاتے تھے۔ یہی نام ان کی پہچان بنا۔ زبیدہ 762 عیسوی میں موصل میں پیدا ہوئی تھیں اور 10 جولائی 831ء کو بغداد میں وفات پائی۔ انھیں مقبرہ خیزران میں سپرد خاک کیا گیا۔ آج ملکہ زبیدہ کی برسی ہے۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ وہ ایک خوش شکل، نرم مزاج اور رحم دل عورت تھیں۔ ان کے والد ایک مال دار شخص تھے جن کے کاروبار اور جائیداد بعد میں زبیدہ کو منتقل ہوئیں۔ ان کی شادی اپنے چچا زاد ہارون الرشید سے ہوئی اور وہ پانچویں عباسی خلیفہ بنے۔ زبیدہ نے اپنی جائیدادوں سے آمدن اور متعدد کاروباری منصوبوں کا سلسلہ شادی کے بعد بھی جاری رکھا۔ اس کے لیے انھوں نے تجربہ کار معاون رکھے۔ مصنّف ہیو کینیڈی لکھتے ہیں کہ ’ہارون الرشید کی سب سے مشہور ملکہ، زبیدہ ایک پڑھی لکھی اور قابل خاتون تھیں جو تقریباً تیس سال تک دربار میں اپنا مقام اور اثر و رسوخ برقرار رکھنے میں کام یاب رہیں۔‘

    السیوطی نے ’تاریخِ خلفا‘ میں لکھا ہے کہ زبیدہ کو والد کی طرف سے قیمتی جائیدادیں، پیسہ، زمین اور ملازمائیں ملی تھیں۔

    زبیدہ اپنی انسان دوستی، غریبوں اور محتاجوں کی امداد کے لیے مشہور تھیں۔ انھوں نے خاص طور پر لوگوں کو خوراک اور رہائش فراہم کرنے کے لیے اپنی دولت خرچ کی۔ اس کے علاوہ سلطنت میں کئی تعمیراتی منصوبوں اور فلاحی اداروں کے لیے اپنی دولت خرچ کی۔ اسی طرح وہ علم و فنون کی سرپرستی میں بھی پیش پیش رہیں۔ انھوں نے بغداد میں کتابوں اور مخطوطات کے وسیع ذخیرے کے لیے مشہور ’زبیدیہ لائبریری‘ کی تعمیر کے لیے مالی مدد کی۔ تاریخ داں کہتے ہیں کہ زبیدہ کا محل ادبی اور سائنسی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔

    فلاحی کاموں کی بات کی جائے تو زبیدہ نے عراق سے مکّہ تک حاجیوں کے قافلوں کے لیے گزر گاہ بنوائی، جسے ’درب زبیدہ‘ کہا جاتا ہے۔ حاجیوں اور مسافروں کے لیے کئی سرائیں تعمیر کروائیں، کنویں کھدوائے اور مساجد تعمیر کروائیں۔ ابنِ بطوطہ نے بھی ملکہ زبیدہ کے ان کاموں کا حوالہ دیا ہے جو لوگوں‌ کی زندگی آسان بنانے کے لیے کیے گئے۔ تبریز نامی شہر کی دوبارہ آباد کاری کے علاوہ مصر کے تاریخی شہر اسکندریہ کی ازسر نو تعمیر کے ساتھ کئی پل، نہریں وغیرہ انھوں نے خطیر رقم خرچ کرکے بنوائیں۔ وہ کئی یتیم خانوں اور اسپتالوں کی مالی سرپرستی کرتی رہیں۔

    مشہور ہے کہ ملکہ زبیدہ حج کی غرض سے مکہ مکرمہ میں تھیں تو اہل مکہ اور حجاج کرام کو درپیش پانی کی قلت سے رنجیدہ ہوئیں اور ان کے حکم پر اس وقت کے ماہرین نے سخت مشکلات کے باوجود ایک نہر کھودی اور کہتے ہیں کہ اس موقع پر جب انجینئروں نے دشواریوں اور رکاوٹوں کا اظہار ان کے سامنے کیا تو ملکہ نے کہا کہ ہر قیمت پر نہر کھودی جائے گی۔ اس کام کے لیے جتنا بھی خرچ آئے پروا نہ کرو، حتّی کہ اگر کوئی مزدور ایک کدال مارنے کی اجرت ایک اشرفی بھی مانگے تو ادا کی جائے۔

  • نہرِ زبیدہ کا قصّہ جس کی تعمیر پر زبیدہ بنتِ جعفر نے بے دریغ اپنی دولت خرچ کی

    نہرِ زبیدہ کا قصّہ جس کی تعمیر پر زبیدہ بنتِ جعفر نے بے دریغ اپنی دولت خرچ کی

    عباسی خلیفہ ہارون الرشید کی شریک حیات زبیدہ بنتِ‌ جعفر کو اسلامی دنیا میں ملکہ کی حیثیت سے جو امتیاز اور عزت و احترام حاصل ہوا، اس کی وجہ ان کی سخاوت اور فیاضی اور بہت سے فلاحی کام ہیں جن میں نہرِ زبیدہ کی تعمیر بھی شامل ہے۔

    یہ نہر مکّہ اور قرب و جوار میں حاجیوں اور زائرین کو لگ بھگ 1200 سال تک پانی کی فراہمی یقینی بناتی رہی۔ ملکہ نے اس منصوبے پر بے دریغ اپنی دولت خرچ کی۔ منصوبہ کی کی تکمیل کے بعد جب ملکہ کو اخراجات کی تفصیل پیش کی گئی تو انھوں نے اسے دریا میں پھینک دیا اور کہا کہ یہ کام اللہ کی رضا کے لیے کیا تھا، اس کا حساب بھی قیامت کے روز ہی ہوگا۔ پوڈ کاسٹ سنیے…

  • سعودی عرب میں سکوں کی تاریخ پر کانفرنس: عباسی دور کی ملکہ زبیدہ کا ذکر

    سعودی عرب میں سکوں کی تاریخ پر کانفرنس: عباسی دور کی ملکہ زبیدہ کا ذکر

    ریاض: سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں سکوں کی تاریخ پر کانفرنس منعقد ہوئی جس میں تمام مسلمان بادشاہوں اور ملکاؤں کی جانب سے جاری کیے گئے سکوں کی تاریخ پیش کی گئی۔

    اردو نیوز کے مطابق سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں اسلامی کرنسی کی تاریخ پر بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔

    کانفرنس میں دنیا بھر کے ماہرین کنگ عبد اللہ فنانشل ڈسٹرکٹ میں شماریات، سکے، بینک نوٹوں اور تمغوں کے مطالعہ پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے جمع ہوئے۔

    18 مئی کو بین الاقوامی میوزیم ڈے کے موقع پر ہونے والی اس تقریب کا اہتمام سعودی عجائب گھر کمیشن نے کیا تھا جس کا مقصد اسلامی سکوں کی تاریخی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے مملکت کے ثقافتی ورثے کو محفوظ کرنا ہے۔

    کانفرنس کے اسپیکر ڈاکٹر ایلین بیرن نے قدیم اور قرون وسطیٰ کے دور میں دی گریٹ کوئینز آف اسلام کے نام سے ہونے والے سیشن میں خواتین حکمرانوں کے بااثر کردار پر گفتگو
    کی۔

    ڈاکٹر ایلین بیرن نے ان خواتین کی ہمت اور ذہانت کے بارے میں گفتگو کی جس کی وجہ سے وہ تاریخ کے دھارے کو تشکیل دینے میں کامیاب ہوئیں۔

    انہوں نے شجر الدر، اور زبیدہ بنت جعفر جیسی ملکاؤں کا حوالہ دیا جو اسلامی دنیا کی پہلی ملکہ تھیں اور جنہوں نے اپنے نام سے سکے جاری کیے تھے۔

    ڈاکٹر ایلین بیرن نے جنیوا میں نومسماٹیکا جینیویس ایس اے نامی کمپنی کی بنیاد رکھی جو 2000 سے سکے فروخت اور نیلام کر رہی ہے اور قیمتوں کے ریکارڈ توڑ رہی ہے۔

    ڈاکٹر بیرن ویانا اور روم میں حکومتی عجائب گھر کے منصوبوں پر کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں، انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں یہ بتانے میں بہت اہم کردار ادا کرے گا کہ سکے نہ صرف عربی دنیا بلکہ پوری دنیا کی ثقافت کے لیے کتنے اہم ہیں۔

    ایک اور مقرر ڈاکٹر احمد الدسوقی جو قاہرہ یونیورسٹی کے شعبہ اسلامی آثار قدیمہ کے ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں نے بازنطینی دینار کے بارے میں بتایا۔

    انہوں نے کہا کہ خالص عرب اسلامی پیسوں کی منتقلی کا مرحلہ ایک بڑا واقعہ تھا جس نے اسلامی ریاست کو اس وقت کی عالمی طاقتوں خاص طور پر بازنطینی ریاست کی سطح پر لا کھڑا کیا۔