Tag: ملکہ وکٹوریہ

  • آگرے والا عبدالکریم اور ملکہ وکٹوریہ

    آگرے والا عبدالکریم اور ملکہ وکٹوریہ

    بہت پیارے شوہر البرٹ اور بے حد عزیز ملازم جان براؤن کے مرنے کے بعد جب ملکہ وکٹوریہ کی زندگی پر ہو کا عالم طاری تھا، ایسے میں آگرے سے ایک چوبیس برس کا خوب رو نوجوان آیا اور خدمت کرتے کرتے ملکہ کے دل میں البرٹ اور براؤن جیسی چاہت جگا دی۔

    یہ آگرہ جیل میں ایک دیسی ڈاکٹر کا بیٹا عبدالکریم تھا، جو اردو، فارسی، عربی اور انگریزی پڑھتا ہوا اور قرآن حفظ کرتا ہوا ہندوستان سے آیا اور ملکہ نے اس سے کہا کہ ہندوستانی بول کر دکھاؤ۔ وہی لفظ ملکہ نے دُہرائے اور خود اپنی آواز سن کر اتنی خوش ہوئیں کہ اگلے ہی لمحے عبدالکریم، منشی عبدالکریم ہوگئے۔ ہر چند کہ ملکہ کی بینائی ان کا ساتھ چھوڑ رہی تھی لیکن جب منشی نے ہاتھ پکڑ کر ان سے اردو لکھوائی تو جھروکوں سے جھانکنے والوں نے ایسے افسانے تراشے کہ لگتا تھا شاہی محل میں کوئی انسان نہیں بھوت پریت چلا آیا ہے۔

    ادھر ملکہ نے اپنی آنکھوں کے جھرکوں سے ہندوستان کے ایسے سہانے خواب دیکھنے شروع کیے کہ جن میں کہیں پگڑیاں باندھے توانا مرد تھے تو کہیں ساڑھیوں میں لپٹی لپٹائی شرمیلی عورتیں۔ کہیں مسجدوں سے بلند ہوتی اذان تھی اورکہیں چنگھاڑتے ہاتھیوں کا شور۔ حالت یہ ہوئی کہ ملکہ نے اپنے درو دیوار ہندوستان سے آئی ہوئی سوغاتوں اور اپنا تن بدن مہاراجوں کے بھیجے ہوئے زیورات سے سجالیا۔

    اس دوران آگرے کا وہ نوجوان برطانیہ کا جینٹل مین بن گیا اور محل اور دربار کی اونچی نشستوں پر بیٹھنے اور شاہی سواریوں میں سفر کرتے کرتے وہ تمام لوگوں کے آنکھوں میں کانٹا بن کر کھٹکنے لگا جن کی آنکھوں کی رنگت اس کی آنکھوں کی رنگت سے جدا تھی۔
    وہ تو تین تین دن انتظار کرتے تھے اور ملکہ سے ملاقات کی سعادت نصیب نہیں ہوتی تھی اور یہ کہ گھنٹوں ملکہ کے خلوت خانے میں راز و نیاز کیا کرتا تھا اور کبھی اپنا منصب بڑھانے کی فرمائشیں کیا کرتا تھا اور کبھی ترچھی نظروں سے دیکھنے والوں کی شکایتوں کے طومار باندھا کرتا تھا اور اگلی ہی صبح ان کے نام ملکہ کا خط آتا تھا کہ خبردار۔

    البرٹ اب تک ملکہ کے دل و دماغ میں سمایا ہوا تھا۔ اس کے گلے میں پڑے ہوئے لاکٹ میں اب بھی البرٹ کی چھوٹی سی تصویر تھی۔ ملکہ جب کوئی خوش نما منظر دیکھتی اس تصویر کو بلند کر کے اسے بھی دکھاتی۔ ملکہ کی چاہت کے انداز سب سے جدا تھے اسی لئے کوئی نہ انہیں سمجھ پایا نہ ان کی محبت کو اور ایک مرحلے پر ملکہ کو پاگل دئیے جانے کے منصوبے باندھے جانے لگے۔

    اپنے چہیتے منشی کی خاطر ملکہ نہ جانے کس کس سے لڑی، کس کس کا منہ نوچا، کتنی ہی بار آٹھ آٹھ آنسو روئی اور کتنی ہی بار اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر دیکھا کہ بخار اترا کہ نہیں۔ محل کی زندگی سپاٹ ہو چلی تھی۔ بس کبھی کبھار ملازمائیں گاتیں اور ملکہ بیٹھی مسکراتیں پھر سو انگ رچائے جانے لگے۔ اسٹیج سجنے لگے اور سارا شاہی خاندان اور تمام ملازم اداکاری کرنے لگے، جہاں کہیں رنگ دار اور داڑھی والے اداکاروں کی ضرورت ہوتی۔ ہندوستانی ملازم یہ فرض بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیتے۔ منشی عبدالکریم بھی سوانگ رچاتے اور ملکہ دل ہی دل میں داد دیا کرتیں۔ جس کو بھی موقع ملتا وہ ملکہ کے کان میں یہ بات ضرور پھونکتا کہ منشی اسٹیج ہی کا نہیں سچ مچ کا بہروپیا ہے۔ آپ کو خبر نہیں کہ آپ نے آستین میں کیا سانپ پال رکھا ہے۔کچھ تو ملکہ کی سماعت میں ثقل آ چلا تھا۔ کچھ انہوں نے ایک کان سے سن کر دوسرے سے اڑا دینے کاگر سیکھ لیا تھا کہ اب اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا۔

    منشی پر الزام لگا کہ وہ ہندوستان کے شورش پسندوں سے جا ملا ہے وہ مسلم لیگ بنا رہا ہے، اس کے دوست تاج برطانیہ کے راز کابل کے دربار کو بھیج رہے ہیں۔ وہ سوزاک اور جریان جیسے مرض میں میں مبتلا ہے وغیرہ وغیرہ۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ 1897ء میں ملکہ نے اپنے مشیروں کی بات پر دھیان دینا شروع کیا۔ مؤرخوں کو خبر بھی نہیں کہ اس سن میں ملکہ منشی کو لکھ رہی تھیں کہ میں نے اپنے وصیت نامے میں تمہاری فلاح کا بڑا خیال رکھا ہے کس کو پتا تھا کہ ملکہ اتنی عمر پائیں گی۔ ولی عہد شہزادے خود بوڑھے ہوئے جا رہے تھے اور ملکہ تھیں کہ جیے جارہی تھیں۔ مئی1897ء میں ان کی عمر کی 78 ویں سال گرہ ہوئی تو بولیں کہ میں کافی جی لی لیکن دعا کرتی ہوں کہ اپنے ملک اور اپنے پیاروں کی خاطر مجھے تھوڑی سی مہلت اور مل جائے۔

    وہ خوب ملی۔ ان کے ذاتی طبیب اور منشی عبدالکریم کے ذاتی دشمن ڈاکٹر ریڈ کے سپرد یہ کام تھا کہ ملکہ کی سانس اور نبض پر نگاہ رکھیں۔ انہیں اور ساڑھے تین سال اور انتظار کرنا پڑا تب کہیں 17 جنوری 1901ء کی صبح انہوں نے دیکھا کہ ملکہ کے چہرے پر فالج کا اثر ہے۔ ولی عہد شہزادہ اس انتظار میں ساٹھ برس کا ہوگیا تھا کہ ملکہ کی آنکھ بند ہو تو اس کے چاہنے والوں کے مجسمے پھوڑے اور کاغذ نذر آتش کرے۔ ملکہ پر غشی کا عالم طاری، صاف ظاہر تھا کہ یہ وقت رخصت ہے لیکن یہ بھی ظاہر تھا کہ وہ ابھی جانے کو تیار نہیں۔ پہلی بار کسی نے ان کے جذبات کا خیال کیا اور منشی عبدالکریم ان کے کمرے میں لائے گئے۔ وہ آنکھیں موندے لیٹی تھیں اور زندگی کے ٹمٹماتے دئیے سے لڑے جا رہی تھیں۔ منشی نے ان کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور آنسوؤں کے سیلاب کو روکنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے باہر چلے گئے۔ ہو نہ ہو وہ زیرِ لب کچھ ضرور پڑھ رہے ہوں گے۔

    (رضا علی عابدی کی کتاب ”ملکہ وکٹوریہ اور منشی عبدالکریم“ سے انتخاب)

  • خداداد خان کو وکٹوریہ کراس سے کیوں نوازا گیا تھا؟

    خداداد خان کو وکٹوریہ کراس سے کیوں نوازا گیا تھا؟

    برطانیہ کے سب سے بڑے عسکری اعزاز وکٹوریہ کراس کو بہادر سپاہیوں کے سینے پر سجانے کا سلسلہ 1857ء میں شروع ہوا تھا۔

    1911ء میں دہلی میں شاہِ برطانیہ جارج پنجم نے اعلان کیا کہ اگر کوئی ہندوستانی سپاہی محاذِ جنگ پر قابلِ رشک کارنامہ انجام دے گا تو وہ بھی اس برطانوی اعزاز کا مستحق سمجھا جائے گا۔ خداداد خان برصغیر کے وہ پہلے سپاہی تھے جنھوں نے وکٹوریہ کراس اپنے سینے پر سجایا۔

    پہلی عالمی جنگ میں برصغیر کے طول و عرض سے بھی چوڑے چکلے سینوں والے کڑیل جوان فوج میں بھرتی ہو کر یورپ کے مختلف محاذوں پر روانہ ہوئے تھے اور برطانیہ کی جنگ لڑی تھی۔ یوں تو کئی جوانوں کو محاذ پر پامردی سے دشمن کا مقابلہ کرنے پر عسکری اعزازات سے نوازا گیا تھا، لیکن وکٹوریہ کراس جیسا اعلیٰ ترین عسکری اعزاز پہلی مرتبہ خداداد خان کو دیا گیا۔ ان کا تعلق موضع ڈھب تحصیل چکوال، ضلع جہلم سے تھا۔ بلوچ رجمنٹ کا یہ سپاہی کراچی میں تعینات تھا جسے پہلی عالمی جنگ میں فرانس کے ایک محاذ پر جانے کا حکم ملا۔

    24 اگست 1914ء کو وہ اور ان کے ساتھی سپاہی سمندر کے راستے کراچی سے روانہ ہوئے اور ستمبر میں فرانس کی ایک بندرگاہ پر اترے۔ انھیں ہولی بیک کے محاذِ جنگ پر بھیج دیا گیا جہاں خداداد خان نے بہادری کی مثال قائم کی۔

    یہ 13 اکتوبر 1914ء کی بات ہے۔ سپاہی خداداد خان کے دستے کا کمان آفیسر دشمن کی فائرنگ سے شدید زخمی ہوگیا اور مشین گن چلانے والے پانچ سپاہی بھی یکے بعد دیگرے مارے گئے، لیکن زخمی ہوجانے والے خداداد خان نے اپنی مشین گن نہ چھوڑی اور محاذ پر ڈٹے رہے۔ جس مورچے پر خداداد خان موجود تھے، وہاں انھیں جرمنی کی دشمن فوج کا سامنا تھا۔

    اس معرکے میں ساتھیوں کا جانی نقصان دیکھنے اور خود بھی زخمی ہوجانے کے باوجود سپاہی خداداد خان اپنے مورچے سے دشمن پر حملہ جاری رکھے ہوئے تھے، یہاں تک کہ انھیں واپس ہونے کا حکم دے دیا گیا اور واپسی پر ان کے کارنامے کے اعتراف میں حکومتِ برطانیہ کی جانب سے 31 اکتوبر 1914ء کو خداداد خان کے لیے سب سے بڑے عسکری اعزاز وکٹوریہ کراس کا اعلان کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی اس سپاہی کو صوبیدار بھی بنا دیا گیا۔

    یہ تمغہ ملکہ وکٹوریہ کے حکم پر جاری کیا گیا تھا جسے کریمیا کی جنگ میں روس سے چھینی دو توپوں کی دھات سے تیّار کیا جاتا ہے۔

    وکٹوریہ کراس اور صوبیداری کے ساتھ خداداد خان کو ضلع منڈی بہاءُ الدّین کے چک پچیس میں پچاس ایکڑ زمین بھی الاٹ ہوئی اور وہیں ان کا مدفن بھی موجود ہے۔ صوبیدار خداداد خان 8 مارچ 1971ء کو راولپنڈی میں وفات پاگئے تھے۔

  • وکٹوریہ کو یورپ کی ساس اور قیصرِ ہند کیوں کہتے ہیں؟

    وکٹوریہ کو یورپ کی ساس اور قیصرِ ہند کیوں کہتے ہیں؟

    انیسویں صدی عیسوی میں‌ سلطنتِ برطانیہ کی فرماں روا دنیا کی بااثر خاتون سمجھی جاتی تھیں جنھیں ملکہ وکٹوریہ کہا جاتا تھا۔ 1819 سے 1901 تک زندہ رہنے والی اس فرماں روا کے دور ہی میں‌ ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے قدم جمائے تھے اور بعد میں وہ قیصرِ ہند کہلائیں۔

    کیا آپ جانتے ہیں کہ ملکہ وکٹوریہ کو یورپ کی ساس بھی کہا جاتا ہے؟

    ان کی بادشاہی تقریباً 64 سال رہی اور سلطنتِ برطانیہ کی طاقت بڑھتی رہی اور ملکہ وکٹوریہ کا عالمی سطح پر زبردست اثر رسوخ رہا۔ ملکہ بننے کے بعد 1839 میں انھوں نے اپنے عم زاد شہزادہ البرٹ سے شادی کی اور ان کی رفاقت 21 سال قائم رہی۔

    ملکہ وکٹوریہ نو بچوں کی ماں بنیں جن کی شادیاں یورپ کے مختلف شاہی خاندانوں میں کی گئیں اور اس طرح ملکہ وکٹوریہ کو "یورپ کی ساس” کہا جانے لگا۔

    ملکہ وکٹوریہ کو ہندوستان سے بھی خاص انسیت تھی۔ ملکہ کی خواہش پر انھیں دو ہندوستانی خدمت گار دیے گئے جنھوں‌ نے انھیں ہندوستانی پکوان، زبان اور رسم و رواج سے بھی واقف کرایا۔

  • کراچی اور سکھر کے بازاروں کا ملکہ وکٹوریہ سے کیا تعلق ہے؟

    کراچی اور سکھر کے بازاروں کا ملکہ وکٹوریہ سے کیا تعلق ہے؟

    ایک زمانہ تھا جب بادشاہ، ملکہ، راجا اور نواب کسی سلطنت یا وسیع علاقے کے حکم راں اور مختار ہوا کرتے تھے۔

    اگر وہ رحم دل، انصاف پسند، رعایا کے خیر خواہ اور ان کا خیال رکھنے والے ہوتے تو وہ بھی ان سے محبت کرتے اور وقت پڑنے پر خود کو تاج و ریاست کا وفادار ثابت کرتے۔

    ملکہ وکٹوریہ انیسویں صدی عیسوی میں سلطنتِ برطانیہ کی مقبول حکم راں اور دنیا کی با اثر خاتون رہی ہیں۔

    یہ وہی ملکہ ہیں جن کے دور میں برصغیر کو برطانوی کالونی میں تبدیل کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا۔ ان کے 64 سالہ دورِ حکم رانی میں انھیں ایسی ملکہ کے طور پر دیکھا جاتا تھا جس نے تاجِ برطانیہ کا وقار بلند کیا اور سلطنت کی حکم راں ہونے کے ناتے اپنی طاقت اور عالمی سطح پر اپنا اثر رسوخ منوایا۔

    سلطنت کے امور احسن طریقے سے چلانے اور تاجِ برطانیہ کو نوآبادیات اور مختلف کالونیوں کی صورت میں مضبوط اور مستحکم بنانے کے لیے کوششوں کی وجہ سے وہ خواص، امرا اور عام لوگوں میں مقبول رہیں۔

    اپنے فیصلوں اور اقدامات کی وجہ سے حکومت اور خواص ملکہ سے گہری عقیدت رکھتے تھے اور اس کا اظہار کرنے کی غرض سے اس دور میں اپنی ملکہ کے نام پر دور دراز کے اپنے زیرِ تسلط علاقوں میں نشانِ وقار اور یادگار کے طور پر عظیم الشان بازار قائم کیے۔

    سب سے پہلا بازار آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں تعمیر کیا گیا جس کا نام کوئن وکٹوریہ مارکیٹ رکھا گیا۔

    اس کے بعد ہندوستان میں برطانوی عمل داروں نے اپنی ملکہ سے عقیدت کا اظہار کرنے کے لیے سکھر شہر کا انتخاب کیا اور وہاں وکٹوریہ مارکیٹ قائم کی گئی۔

    اسی طرح شہر کراچی میں برطانوی انتظامیہ نے صدر کے علاقے میں ایک اور خوب صورت عمارت تعمیر کی اور یہاں بازار سجایا جسے آج ہم ایمپریس مارکیٹ کے نام سے جانتے ہیں۔

    آسٹریلیا کی کوئن وکٹوریہ مارکیٹ 1878، پاکستان کے شہر سکھر کی وکٹوریہ مارکیٹ 1883 اور کراچی میں موجود ایمپریس مارکیٹ 1889 میں تعمیر کی گئی تھی۔

  • ملکہ وکٹوریہ کے قدیم دور میں جینے والا خوبصورت جوڑا

    ملکہ وکٹوریہ کے قدیم دور میں جینے والا خوبصورت جوڑا

    ماضی کے سحر میں گرفتار ہونا اور اس سے انسیت اور محبت میں مبتلا ہونا ایک عام بات ہے۔ ہم میں سے اکثر افراد ماضی کو یاد کرتے ہوئے اس میں واپس جانا چاہتے ہیں۔

    تاہم ماضی کی طرف لوٹ جانا کوئی قابل فہم بات نہیں، البتہ ایک امریکی جوڑا ماضی کے سحر میں اس قدر گرفتار ہے کہ انہوں نے اپنا طرز زندگی بالکل اپنے پسندیدہ قدیم دور جیسا بنا ڈالا ہے۔

    امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں رہنے والے سارہ اور جبرائیل تاریخ و ثفافت کے طالب علم تھے۔ ان دونوں کی دوستی، محبت اور پھر شادی پر منتج ہوئی۔

    تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے جب انہوں نے برطانیہ کی ملکہ وکٹوریا کے دور کے بارے میں پڑھا تو یہ دونوں اس سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے اپنی زندگی کو بھی اسی دور کے مطابق ڈھالنے کا فیصلہ کرلیا۔

    ملکہ وکٹوریہ برطانیہ کی ملکہ تھیں اور ایک زمانے میں متحدہ ہندوستان بھی ان کا ماتحت رہا۔ ملکہ وکٹوریہ سنہ 1837 سے اپنی موت یعنی 1901 تک تخت پر براجمان رہیں۔

    ماضی کے دلدادہ اس جوڑے کا کہنا ہے کہ اس دور سے ہمیں اس قدر انسیت محسوس ہوتی تھی کہ ہمیں لگتا تھا شاید ہمارا ایک جنم اس دور میں بھی ہوا تھا۔ یا پھر ہم اپنے وقت سے بہت دیر بعد پیدا ہوئے۔

    بہرحال ماضی میں جینے کی خواہش کو تشنہ رکھنے کے بجائے انہوں نے اسے حقیقت بنانے کا سوچا۔ اس جوڑے نے پورٹ ٹاؤن سینڈ میں ایک مکان خریدا۔ یہ مکان ملکہ وکٹوریہ کے عہد 1888 میں ہی تعمیر کیا گیا تھا۔

    گھر کی آرائش کے دوران انہوں نے جدید ٹیکنالوجی کی تمام اشیا گھر سے نکال باہر کیں اور قدیم دور میں استعمال ہونے والی چیزوں کو ذخیرہ کر لیا۔

    جیسے پانی کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے فریج کی جگہ آئس باکس، جسے سارہ دن میں 2 بار خالی کر کے پھر سے بھرتی ہے، ڈبل روٹی کو گھر میں بنانے کا برتن، اور قدیم دور کا آتش دان۔

    ان کے کچن میں صرف اینٹیک اشیا موجود ہیں جنہیں سارہ روزانہ کھانے پکانے میں استعمال کرتی ہے۔

    ان کے پاس نہ تو گاڑیاں ہیں اور نہ ہی موبائل فون، گھر سے باہر سفر کے لیے یہ قدیم دور کی بائیسکل استعمال کرتے ہیں۔

    اپنے فارغ وقت میں سارہ ڈائری لکھتی ہے اور اپنے عزیز و اقارب کو خطوط بھیجتی ہے جن کے لیے وہ ایک اینٹیک قلم استعمال کرتی ہے۔

    یہ جوڑا ملبوسات بھی اسی دور کے لحاظ سے زیب تن کرتا ہے جو نہایت دیدہ زیب اور خوبصورت معلوم ہوتے ہیں۔

    اس گھر میں داخل ہو کر یوں لگتا ہے جیسے آپ ٹائم مشین کے ذریعے قدیم دور میں آگئے ہوں۔ جدید ٹیکنالوجی سے گریزاں ہونے کے باوجود اس گھر میں انٹرنیٹ کی سہولت ضرور موجود ہے جس سے یہ دنیا بھر سے جڑے رہتے ہیں۔

    جبرائیل کا کہنا ہے، ’ہمارے گھر میں کمپیوٹر ضرور موجود ہے، لیکن وہ ہماری زندگی پر حکومت نہیں کرتا۔ ہم اسے مقررہ اوقات میں صرف کام کے لیے استعمال کرتے ہیں‘۔

    یہ جوڑا یقیناً اپنی زندگی کا حکمران ضرور ہے جو وقت کو اپنی مرضی اور پسند کے مطابق دھکیل کر پیچھے لے گیا اور ماضی میں ایک خوش باش زندگی بسر کر رہا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • قومی ہیروز کو پاک فوج کاسلام ! 3شخصیات کی فوجی اعزاز کے ساتھ تدفین

    قومی ہیروز کو پاک فوج کاسلام ! 3شخصیات کی فوجی اعزاز کے ساتھ تدفین

    کراچی: پاکستان میں انسانیت کومتعارف کرانے والے عظیم بے مثال انسان عبدالستار ایدھی کو پورے فوجی اعزاز میں انیس توپوں کے ساتھ سپردخاک کردیا ۔

    ملکی تاریخ میں اس سے پہلے صرف تین شخصیات کی فوجی اعزاز کے ساتھ تدفین کی گئی، قومی پرچم میں لپٹے جسد خاکی کو پاک بحریہ کے سیکیورٹی حصار میں گن کیرج وہیکل پر میٹھا در سے نیشنل اسٹیڈیم پہنچایا گیا۔

    4

    نیشنل اسٹیڈیم میں درویش صفت ایدھی صاحب کے جسد خاکی کو آرمی کے جوان پورے اعزاز کے ساتھ جنازے کے مقام پر لائے، جہاں مولانا احمد خان نیازی کی امامت میں جنازہ پڑھایاگیا۔

    تینوں مسلح افواج کےسربراہان نے عبدالستار ایدھی کو سلامی پیش کی، پاک فوج کے مسلح جوانوں نےقوم کے محسن کو توپوں کی سلامی میں رخصت کیا، انسانیت کے خادم عبدالستار ایدھی تیسرے پاکستانی ہیں جنھیں پاک فوج نے سلامی دی اور مکمل اعزاز کے ساتھ لحد میں اتارا۔

    5

    سب سے پہلے بابائے قوم محمد علی جناح کی تدفین مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ کی گئی، قائداعظم محمد علی جناح پاکستان کی وہ پہلی شخصیت تھے جن کی میت گن کیرج وہیکل پر لائی گئی تھی، بابائے قوم کاجسد خاکی لحد میں اتارتے وقت پاک فوج نےگارڈ آف آنر پیش کیا تھا۔

    3

    دوسری مرتبہ یہ اعزاز پاک فوج کے سربراہ جنرل ضیاء الحق کونصیب ہوا، انہیں بھی فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیاگیا تھا۔

    1

    عبدالستارایدھی تیسرے پاکستانی ہیں جنھیں پاک فوج نے سلامی دی اور مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ لحد میں اتارا گیا۔

    6

    عسکری روایات کے مطابق فوجی اعزاز کے طور پر جنازے کو گن کیرج وہیکل پر لایا جاتا ہے، یہ روایت برطانیہ کے شاہی توپ خانے نے قائم کی تھی، برطانیہ کی ملکہ وکٹوریہ کا تابوت بھی گن کیرج وہیکل پر ہی لایا گیا تھا۔

    2

     

    عموماً یہ اعزاز ایسی شخصیت کو دیا جاتا ہے جو اپنی وفات کے وقت سربراہ مملکت ہو، تاہم عبدالستار ایدھی کو سربراہ مملکت نہ ہونے کے باوجود یہ اعزاز دیا گیا۔

    گن کیرج وہیکل

    7