Tag: ملکہ پکھراج

  • جوانی کی لُٹیا

    جوانی کی لُٹیا

    اللہ بخشے حفیظ جالندھری صاحب کے کلام کو قومی ترانے کی صورت ڈیوٹی کے طور پر ہم روز لاکھوں لوگ گاتے ہیں۔

    یہ سمجھ میں آتا ہے یا نہیں آتا لیکن حب الوطنی کے تقاضے نبھاتے گاتے ہیں لیکن اگر ملکہ پکھراج اور اُن کے بعد طاہرہ سید ’ابھی تو میں جوان ہوں‘ نہ گاتیں تو حفیظ صاحب بھی ادھورے رہتے۔ سیارہ ڈائجسٹ کے دفتر میں وہ اکثر مقبول جہانگیر کو ملنے آتے اور اکثر سموسے کھا رہے ہوتے۔ میں ہمیشہ مؤدب ہو کر ملتا اور ایک روز شومئی قسمت ملکہ پکھراج کی گائیکی کی تعریف کی تو حفیظ صاحب مشتعل ہو گئے۔ کہنے لگے ’اُس نے میرے کلام کا بیڑا غرق کردیا، میں نے اُسے گا کر بتایا تھا کہ اسے اس دھن میں گاؤ لیکن اُس نے اپنی من مانی کی، میری نہ مانی۔‘

    کچھ دیر بعد غصہ کم ہوا تو کہنے لگے، ’اب میں ’ابھی تو میں جوان ہوں‘ گا کر بتاتا ہوں کہ اسے کیسے گانا چاہیے تھا۔ تب حفیظ صاحب نے منہ ٹیڑھا کر کے اپنا کلام گانا شروع کردیا اور بے شک ایک زمانے میں ہندوستان بھر کے مشاعروں میں اُن کے ترنم کی دھوم تھی لیکن اب اس بڑھاپے میں اُن کی آواز میں دراڑیں آگئی تھیں، نہ سُر پر قابو تھا اور نہ لَے پر کچھ اختیار تھا۔ میں نے شکر ادا کیا کہ ملکہ پکھراج نے ’ابھی تو میں جوان ہوں‘ اپنی من مرضی سے گایا، اگر حفیظ صاحب کی لَے اختیار کرتیں تو جوانی کی لٹیا کب کی ڈوب چکی ہوتی۔

    (مستنصر حسین تارڑ کی تحریر سے اقتباس)

  • ملکہ پکھراج:‌ راگ راگنیوں کی ماہر، برصغیر کی مشہور مغنّیہ

    ملکہ پکھراج:‌ راگ راگنیوں کی ماہر، برصغیر کی مشہور مغنّیہ

    ٹھمری کے انگ میں غزل گائیکی کا ایک منفرد اور بڑا نام ملکہ پکھراج کا ہے۔ کہتے ہیں، سُر ان کے سامنے گویا ہاتھ باندھے کھڑے رہتے اور جو کچھ وہ گنگناتیں ذہن پر نقش ہو جاتا تھا۔ انھیں پہاڑی اور ڈوگری زبانوں کے لوک گیت گانے میں ملکہ حاصل تھا۔

    ملکہ پکھراج برصغیر پاک و ہند میں کلاسیکی گائیکی اور راگ راگنیوں کی مشہور مغنّیہ تھیں جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ 2004ء ان کی زندگی کا آخری سال تھا۔

    ملکہ پکھراج اپنی آواز، سر سنگیت کے ساتھ اپنے چھوٹے سے گاؤں میں محرم کے جلوس میں مرثیے سناتی ہوئی کسی طرح ریاست جمّوں کے مہاراجہ کے دربار تک پہنچیں اور وہاں سے لاہور اور پھر لاہور سے کراچی تک اپنے فن کی بدولت ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعے ہر خاص و عام میں‌ پہچانی گئیں۔

    ملکہ پکھراج کا اصل نام حمیدہ تھا۔ وہ 1910ء میں جمّوں کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئیں۔ اردو اور فارسی زبانوں پر عبور اور ادب کا اعلیٰ ذوق رکھنے والی اس مغنّیہ نے قیامِ پاکستان کے بعد ملکہ پکھراج کے لقب سے خوب شہرت سمیٹی۔ ٹھمری، غزل اور بھجن کے ساتھ موسیقی کی متعدد اصناف میں انھوں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔

    ان کی آواز میں اردو زبان کے معروف شاعر حفیظ جالندھری کا گیت ‘ابھی تو میں جوان ہوں’ بہت مشہور ہوا اور یہ ملک بھر میں ملکہ پکھراج کی پہچان بھی بنا۔ اردو کے مشہور شاعر عبدالحمید عدم کی غزل ‘وہ باتیں تیری فسانے تیرے’ بھی ملکہ پکھراج کی آواز میں‌ بہت مقبول ہوئی تھی۔

    ملکہ پکھراج کے شوہر سید شبیر حسین شاہ اعلیٰ تعلیم یافتہ سرکاری افسر تھے جن کا ایک ناول جھوک سیال بہت مشہور ہے۔ ملکہ پکھراج نے کم عمری ہی میں گانا شروع کردیا تھا۔ مشہور ہے کہ وہ نو سال کی تھیں جب جموں میں مہاراجہ ہری سنگھ کی تاج پوشی پر انھیں تقریب کے دوران اپنی آواز کا جادو جگانے کا موقع ملا۔ وہاں ملکہ پکھراج کے سامعین میں والیِ ریاست، امرا اور معزز مہمانوں جن میں‌ فن کار بھی شامل تھے، ان کے مداح ہوگئے۔مہاراجہ اور اعلیٰ‌ درباری منصب دار اس عمر میں‌ آواز اور فن پر گرفت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے اور بعد میں مہاراجہ نے ملکہ پکھراج کو دربار سے وابستہ کر لیا اور ملکہ پکھراج اگلے نو سال تک وہیں رہیں۔

    ملکہ پکھراج کے فن کا اعتراف کرتے ہوئے حکومتِ پاکستان نے صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔ پاکستان کی اس نام ور گلوکارہ کی آپ بیتی بھی شایع ہوچکی ہے۔

    لاہور میں وفات پانے والی ملکہ پکھراج شاہ جمال کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • یومِ وفات:‌ ملکہ پکھراج کو پہاڑی راگ گانے میں‌ کمال حاصل تھا

    یومِ وفات:‌ ملکہ پکھراج کو پہاڑی راگ گانے میں‌ کمال حاصل تھا

    برصغیر کی مشہور مغنّیہ ملکہ پکھراج 2004ء میں آج ہی کے دن اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    کہتے ہیں، سُر ان کے آگے گویا ہاتھ باندھے کھڑے رہتے اور جو بھی وہ گنگناتیں ذہنوں پر نقش ہو جاتا۔ وہ کلاسیکی گائیکی اور راگ راگنیوں کی ماہر تھیں اور اُن چند پاکستانی گلوکاراؤں میں‌ سے ایک تھیں‌ جن کو پہاڑی راگ گانے میں‌ کمال حاصل تھا۔

    ملکہ پکھراج کا اصل نام حمیدہ تھا۔ وہ 1910ء میں جمّوں میں پیدا ہوئیں۔ اردو اور فارسی زبانوں پر عبور اور ادب کا اعلیٰ ذوق رکھنے والی اس مغنّیہ نے پاکستان میں اپنے ہم عصر گلوکاروں میں‌ اپنی آواز اور مخصوص انداز کے سبب نمایاں‌ پہچان بنائی۔ ملکہ پکھراج نے ٹھمری، غزل اور بھجن کے ساتھ کئی اصناف میں اپنے فن کا مظاہرہ کرکے خوب داد سمیٹی اور ماہر موسیقاروں نے ان کے کمالِ فن کا اعتراف کیا۔

    ان کی آواز میں اردو زبان کے معروف شاعر حفیظ جالندھری کا گیت ‘ابھی تو میں جوان ہوں’ بہت مشہور ہوا اور ملکہ پکھراج کی پہچان بنا۔ مشہور شاعر عبدالحمید عدم کی غزل ‘وہ باتیں تیری فسانے تیرے’ بھی ملکہ پکھراج کی آواز میں‌ بہت مقبول ہوئی اور ان کی شناخت بنی۔

    ملکہ پکھراج کے شوہر سید شبیر حسین شاہ اعلیٰ تعلیم یافتہ سرکاری افسر تھے جن کا ایک ناول جھوک سیال بہت مشہور ہے۔ ملکہ پکھراج نے کم عمری ہی میں گانا شروع کردیا تھا اور وہ نو سال کی تھیں جب جموں میں مہاراجہ ہری سنگھ کی تاج پوشی کا موقع آیا تو انھیں تقریب میں گانے کا موقع ملا اور وہاں ملکہ پکھراج کے سامعین میں والیٔ ریاست، وزرا اور امرا کے ساتھ عوام بھی ان کے مداح ہوگئے۔ انھوں نے مہاراجہ اور اعلیٰ‌ درباری منصب داروں کو اتنا متاثر کیاکہ انھیں دربار ہی سے وابستہ کر لیا گیا اور وہ اگلے نو سال تک وہیں مقیم رہیں۔

    ملکہ پکھراج کو حکومتِ پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔ پاکستان کی اس نام ور گلوکارہ کی سوانح عمری بھی شایع ہوئی تھی جس کا انگریزی ترجمہ بھی کیا گیا۔

    لاہور میں وفات پانے والی اس مشہور مغنّیہ کو شاہ جمال کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • برِّصغیر کی عظیم مغنیہ ملکہ پکھراج کا یومِ وفات

    برِّصغیر کی عظیم مغنیہ ملکہ پکھراج کا یومِ وفات

    آج برصغیر کی مشہور مغنیہ ملکہ پکھراج کا یومِ وفات ہے۔ انھوں نے 4 فروری 2004ء کو ہمیشہ کے لیے دنیا سے ناتا توڑ لیا تھا۔ کہتے ہیں، سُر ان کے آگے گویا ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے اور جو بھی وہ گنگناتیں، ذہنوں میں نقش ہو جاتا۔ ملکہ پکھراج ان پاکستانی گلوکاراؤں میں‌ سے ایک تھیں‌ جنھیں پہاڑی راگ گانے میں‌ کمال حاصل تھا۔

    ملکہ پکھراج کا اصل نام حمیدہ تھا۔ وہ 1910ء میں جمّوں میں پیدا ہوئیں۔ وہ اردو اور فارسی زبانوں پر عبور اور ادب کا اعلیٰ ذوق رکھتی تھیں۔ وہ پاکستان میں پہاڑی راگ گانے کے حوالے سے اپنے دور کے دیگر گلوکاروں میں‌ نمایاں‌ تھیں۔ ملکہ پکھراج نے ٹھمری، غزل، بھجن اور لوک گیتوں میں‌ اپنے فن کا مظاہرہ کرکے خوب داد سمیٹی اور خاص طور پر فنِ موسیقی اور ساز و آواز کے ماہروں نے ان کے کمالِ فن کا اعتراف کیا۔

    ان کی آواز میں اردو زبان کے معروف شاعر حفیظ جالندھری کا گیت ‘ابھی تو میں جوان ہوں’ بہت مشہور ہوا اور ملکہ پکھراج کی پہچان بنا۔ مشہور شاعر عبدالحمید عدم کی غزل ‘وہ باتیں تیری فسانے تیرے’ بھی ملکہ پکھراج کی آواز میں‌ بہت مقبول ہوئی اور ان کی شناخت بنی۔

    ملکہ پکھراج کے شوہر سید شبیر حسین شاہ اعلیٰ تعلیم یافتہ سرکاری افسر تھے اور اردو کے مشہور ناول جھوک سیال کے خالق تھے۔ ان کی صاحب زادی طاہرہ سیّد بھی پاکستان کی مشہور گلوکارہ ہیں۔

    ملکہ پکھراج کو حکومتِ پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔ پاکستان کی اس نام ور گلوکارہ کی سوانح عمری بھی شایع ہوئی تھی جس کا انگریزی ترجمہ بھی کیا گیا۔

  • گلو کارہ ملکہ پکھراج کو بچھڑے گیا رہ برس بیت گئے

    گلو کارہ ملکہ پکھراج کو بچھڑے گیا رہ برس بیت گئے

    لاہور : غزل، راگ اور گیت گا ئیگی کا ذکر ہو اور ملکہ پکھراج کا نا م نہ گو نجے بھلا کیسے ممکن ہے، ملکہ پکھراج کا شمار ان کلا کا روں میں ہوتا ہے جن کی آواز کا جادو آج بھی شائقین مو سیقی کو اپنے سحر میں جکڑے ہو ئے ہے۔

    انہوں نے حفیظ جا لندھری کی غزل ابھی تو میں جوان ہوں کو امر کر د یا ملکہ پکھراج راگ پہاڑی اور ڈوگری زبانوں کی لوک موسیقی کی ماہر تھیں ،چالیس کی دہائی میں ان کا شمار برصغیر کے صف اول کے گانے والوں میں ہوتا تھا ،وہ ٹھمری کے انگ میں غزل گاتیں تو سامعین سر دھنتے۔

    ملکہ پکھراج جموں و کشمیر ریاست کے راجہ ہری سنگھ کے دربار سے وابستہ رہیں۔ شیخ عبداللہ کی کتاب آتش چنار میں اس کا ذکر ہے کہ وہ مہاراجہ سے کتنا قریب تھیں۔

    انہیں راجہ ہری سنگھ کا دربار ہنگامی طور پر اس لیے چھوڑنا پڑا کہ ان پر راجہ کو زہر دے کر مارنے کا الزام لگا دیا گیا تھا۔ وہ جموں سے پہلے دہلی گئیں اور پھر پاکستان بننے کے بعد وہ لاہور آگئیں جہاں انہیں پکھراج جموں والی کے نام سے جانا جاتا تھا۔

    لاہور میں ان کی شادی شبیر حسین شاہ سے ہوئی جنہوں نے پاکستان ٹی وی کا مشہور اردو ڈرامہ سیریل جھوک سیال بنایا تھا۔

    ملکہ پکھراج نے حفیظ جالندھری کی بہت سی غزلیں اور نظمیں گائیں جن میں سے کچھ بہت مشہور ہوئیں، خاص طور پر: ’ابھی تو میں جوان ہوں‘۔ ریڈیو پاکستان کے موسیقی کے پروڈیوسر کالے خان نے زیادہ تر ان کے لیے دھنیں بنائیں۔

    چھوٹی بیٹی مشہور گلوکارہ طاہرہ سید ہیں جو اپنی والدہ کی طرح ڈوگری اور پہاڑی انداز کی گائیکی میں مہارت رکھتی ہیں۔

    ملکہ پکھراج کا تعلق جموں سے تھا اوروہ انیس سو چودہ میں پیدا ہوئیں،گیا رہ فروری دو ہزار چار کو یہ عظیم مغنیہ جہان فانی سے کو چ کر گئیں۔