Tag: ملیریا

  • پاکستان میں ملیریا کی نئی دوا کے سلسلے میں بڑی پیش رفت

    پاکستان میں ملیریا کی نئی دوا کے سلسلے میں بڑی پیش رفت

    اسلام آباد: ڈائریکٹوریٹ آف ملیریا کنٹرول پاکستان نے ملک کے پہلے G6PD پائلٹ منصوبے کے نتائج جاری کر دیے ہیں، جو ڈائریکٹوریٹ ملیریا اور عالمی ادارے ترقی برائے ادویات کے تعاون سے پاکستان کے 9 متاثرہ اضلاع میں کامیابی سے مکمل کیا گیا ہے۔

    ترجمان وزارت صحت کے مطابق اس سلسلے میں منعقدہ ایک تقریب میں ڈبلیو ایچ او، یونیسیف، گلوبل فنڈ، میڈیسنز فار ملیریا وینچر سمیت قومی و بین الاقوامی اداروں کے نمائندے شریک ہوئے، اور قومی ادارہ تدارک برائے ملیریا کے ڈائریکٹر ڈاکٹر مختار نے منصوبے پر بریفننگ دیتے ہوئے کہا منصوبہ G6PD ٹیسٹنگ کے عملی نفاذ پر مرکوز تھا۔

    وزیر مملکت برائے صحت ڈاکٹر مختار بھرتھ نے کہا نتائج نے واضح کیا کہ بنیادی صحت کے نظام میں G6PD ٹیسٹنگ کو مؤثر طریقے سے ضم کیا جا سکتا ہے، 2022 کے سیلاب میں 28 لاکھ سے زائد ملیریا کیسز رپورٹ ہونے کے بعد اس ایجنڈے کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے، ہم اس پائلٹ منصوبے کے نتائج کو اپنی قومی حکمت عملی سے ہم آہنگ کر رہے ہیں۔

    انھوں نے بتایا اس منصوبے کا مقصد پاکستان میں ملیریا کے خلاف استعمال ہونے والی نئی دوا Tafenoquine کا استعمال تھا، نئی دوا ٹیفنو کوئن پرانی 14 روزہ دوا primaquine کے مقابلے میں مریضوں کی پیروی کو زیادہ مؤثر بناتی ہے، گزشتہ سال ستمبر میں ڈبلیو ایچ او کی منظوری کے بعد ڈریپ نے Tafenoquine کی رجسٹریشن کر دی ہے۔

    ڈاکٹر مختار بھرتھ نے کہا قبل ازیں پاکستان میں پریما کوئن دوا ملیریا کے مریض چودہ دن کے استعمال کے بعد مکمل صحت یاب ہوتا تھا، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ملیریا کے مریض دو تین دن کھانے کے بعد یہ دوا چھوڑ دیتا تھا، جس سے مریض صحت یاب نہیں ہوتا تھا، مریضوں کی دوائی کا مکمل کورس نہ لینے کا یہ رویہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں چیلنج بنا ہوا تھا۔

    انھوں نے کہا ٹیفنو کوئین دوا کے استعمال کے بعد ملیریا کے خاتمے کی کوششوں میں بڑی پیش رفت ہوگی اور پاکستان جلد ان ممالک کی صف میں کھڑا ہوگا جو اس دوا کی مکمل تحقیق کے بعد اس دوا کا استعمال شروع کر رہے ہیں، پاکستان ان چند ممالک کی صف میں ہوگا جو جلد ملیریا کا مکمل طور پر خاتمہ کر دیں گے۔

    وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کو قومی اور بین القوامی اداروں نے بڑی کامیابی قرار دیا ہے، پاکستان اگلے سال 2026 میں انٹرنیشنل کانفرنس برائے خاتمہ ملیریا کروانے جا رہا ہے، اس کانفرنس میں دنیا بھر کے سائنس دانوں، ماہرین، اور مندوبین کو مدعو کیا جائے گا، کانفرنس میں پاکستان ملیریا کے تدارک کے لیے تمام عالمی معیار کی کوششوں کا حصہ بنے گا۔

  • سندھ: ملیریا، ڈینگی سمیت دیگر بیماریوں نے وبائی صورت اختیار کر لی، میڈیکل ٹیم تشکیل

    سندھ: ملیریا، ڈینگی سمیت دیگر بیماریوں نے وبائی صورت اختیار کر لی، میڈیکل ٹیم تشکیل

    کراچی: سندھ بھر میں ملیریا اور ڈینگی سمیت دیگر بیماریوں نے وبائی صورت اختیار کر لی، جس کے تدارک کے لیے ایک طبی ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ سندھ میں ملیریا اور ڈینگی سمیت دیگر بیماریوں نے وبائی صورت اختیار کر لی ہے، جس کے بعد مختلف اضلاع میں روزانہ سیکڑوں افراد مختلف بیماریوں میں مبتلا ہونے لگے ہیں۔

    ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سندھ کی ہدایت پر لیاقت یونیورسٹی جامشورو کے رجسٹرار نے 6 رکنی میڈیکل ٹیم تشکیل دے دی، ٹیم کے کنوینئر پروفیسرعبدالرحمان سیال ہیں، جب کہ باقی پانچ ممبران ہیں۔

    ملک بھر میں انسولین کا بحران، انفلوئنزا ویکسین بھی غائب

    ادھر دوسری طرف شوگر کے مریضوں کے لیے انسولین کا اسٹاک ختم ہونے کے باعث کراچی سمیت ملک بھر میں لاکھوں مریضوں کو مشکلات کا سامنا ہے، موسم کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ انفلوئنزا ویکسین بھی مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہے۔

    ماہرین صحت کہتے ہیں کہ شوگر کے مریضوں کے لیے ادویات اور ویکسین کی بروقت فراہمی لازمی ہے، ان کا تسلسل ٹوٹنے سے مریض کے لیے صحت کے سنگین مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔

  • ماہرین  نے ملیریا سے بچاؤ کا مؤثر طریقہ دریافت کرلیا

    ماہرین نے ملیریا سے بچاؤ کا مؤثر طریقہ دریافت کرلیا

    امریکی اور افریقی ماہرین نے ملیریا سے تحفظ کا ایک نیا اور اب تک کا سب سے مؤثر طریقہ علاج دریافت کرنے کا دعویٰ کیا ہے جو کہ بیماری سے 6 ماہ تک تحفظ فراہم کر سکتا ہے۔

    میڈیا رپورٹ کے مطابق امریکا کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھن (این آئی ایچ) کی جانب سے لیبارٹری میں تیار کرہ اینٹی باڈیز کے ذریعے افریقی اور امریکی ماہرین نے ملیریا سے متاثر افراد کا علاج کرکے ایک نیا اور اب تک کا سب سے مؤثر طریقہ دریافت کرلیا۔

    امریکی ماہرین نے ملیریا کی ادویات سے صحت یاب ہونے والے افراد سے لی گئی اینٹی باڈیز سے لیبارٹری میں نئی اینٹی باڈیز تیار کیں اور انہیں ملیریا کے شکار افراد کو آئی وی انجکشن کے ذریعے دیا گیا۔

    تجربے کے لیے ماہرین نے افریقی ملک مالی میں 330 رضاکاروں کی خدمات حاصل کیں اور انہیں تین مختلف گروپوں میں تقسیم کیا۔

    ماہرین نے تینوں گروپس میں سے ایک گروپ کو لیبارٹری میں تیار کردہ اینٹی باڈیز کا ہائی ڈوز دیا جب کہ دوسرے گروپ کو کم ڈوز دیا اور تیسرے گروپ کو انہوں نے فرضی دوائی دی۔

    ماہرین نے تمام رضاکاروں کا 24 ہفتوں تک علاج کیا اور ان کے بلڈ ٹیسٹس کرنے سمیت ان کے دیگر ٹیسٹس بھی کیے گئے۔

    تحقیق سے معلوم ہوا کہ جن رضاکاروں کو لیبارٹری میں تیار کردہ اینٹی باڈیز کا ہائی ڈوز دیا گیا تھا ان پر دوائی نے 86 فیصد اثر کیا جب کہ کم ڈوز والے افراد پر دوائی کا اثر 75 فیصد تک تھا۔

    تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اینٹی باڈیز لینے والے افراد ملیریا سے کم از کم 6 ماہ تک محفوظ رہے، یعنی انہیں اسی سیزن میں مچھروں کے کاٹنے کے باوجود دوبارہ ملیریا نہیں ہوا۔

    ماہرین کے مطابق ابھی مذکورہ طریقہ علاج پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے اور اگر اس کی مزید نتائج بھی حوصلہ کن نکلتے ہیں تو یہ ملیریا سے بچاؤ اور علاج کا سب سے مؤثر سستا علاج بھی ہوسکتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت اینٹی باڈیز سے کینسر سمیت پھیلنے والی بیماریوں کا علاج بھی ہو رہا ہے اور ملیریا کی بیماری کا یہ طریقہ علاج کوئی منفرد نہیں ہے۔

    واضح رہے کہ اس وقت ملیریا کے علاج اور تحفظ کے لیے ویکسین سمیت دیگر ادویات موجود ہیں مگر ان سب کے باوجود اس بیماری سے دنیا بھر میں سالانہ 6 لاکھ سے زائد افراد ہلاک جب کہ دو سے ڈھائی کروڑ لوگ بیمار ہوتے ہیں۔

    ملیریا سب سے زیادہ ایشیا اور افریقا میں کو متاثر کرتی ہے، تاہم دنیا بھر میں اس بیماری سے لوگ متاثر ہوتے ہیں۔

    ملیریا خصوصی مچھروں کے کاٹنے کے بعد ہوتی ہے اور یہ دو سے تین ہفتوں تک مریض کو متاثر کرکے رکھتی ہے۔

  • 2 سیلاب متاثرہ بچے ملیریا کے باعث دم توڑ گئے

    2 سیلاب متاثرہ بچے ملیریا کے باعث دم توڑ گئے

    خیرپور: صوبہ سندھ کے شہر خیرپور میں 2 سیلاب متاثرین کے بچے ملیریا کے باعث دم توڑ گئے، سیلاب زدہ علاقوں میں مختلف وبائی امراض سمیت ملیریا اور ڈینگی کا پھیلاؤ جاری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق خیرپور کے سٹی اسپتال میں 2 سیلاب متاثرین بچے ملیریا کے باعث انتقال کر گئے۔

    اسپتال کے انچارج ڈاکٹر کامران شاہانی کا کہنا ہے کہ انتقال کرنے والے بچوں میں 2 سالہ عرفان اور ایک سالہ ایان شامل ہے۔

    ڈاکٹر کامران کے مطابق دونوں بچے سیلاب متاثرین کے تھے اور کچھ روز سے ملیریا میں مبتلا تھے۔

    دوسری جانب سندھ کے 9 سیلاب زدہ اضلاع میں مچھر مار اسپرے کا آغاز آئندہ ہفتے ہوگا۔

    ذرائع کے مطابق سندھ کے 9 سیلاب زدہ اضلاع میں لاروا اور مچھر مار اسپرے کیا جائے گا، ان اضلاع میں میرپور خاص، مٹیاری، شہید بے نظیر آباد، لاڑکانہ، جامشورو، دادو، نوشہرو فیروز اور قمبر شہداد کوٹ شامل ہیں۔

    انسداد لاروا کے لیے مقامی تیار کردہ بی ٹی آئی پی کے پاؤڈر استعمال ہوگا، پاؤڈر میں موجود بیکٹیریا خشکی اور پانی میں لاروا کی افزائش روکتا ہے۔

  • ملیریا کے حوالے سے سندھ کے حساس اضلاع میں مچھر دانیاں تقسیم نہیں ہوئیں: انکشاف

    ملیریا کے حوالے سے سندھ کے حساس اضلاع میں مچھر دانیاں تقسیم نہیں ہوئیں: انکشاف

    اسلام آباد: ذرائع وزارت صحت نے انکشاف کیا ہے کہ ملیریا کے حوالے سے سندھ کے حساس اضلاع کے بیش تر دیہات میں مچھر دانیاں تقسیم نہیں ہوئیں۔

    تفصیلات کے مطابق وزارت صحت کا کہنا ہے کہ سندھ کے 12 سیلاب زدہ اضلاع ملیریا کے حوالے سے حساس ہیں، جن میں 6 مشرقی، اور 6 مغربی اضلاع شامل ہیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ خیرپور، سانگھڑ، شہید بینظیر آباد، نوشہروفیروز، بدین، میرپور خاص، قمبر، جیکب آباد، جامشورو، لاڑکانہ، شکارپور، اور دادو ملیریا کے حوالے سے حساس ہیں۔

    ذرائع کے مطابق وفاق سندھ حکومت کو دوا لگی مچھر دانیاں اور ادویات فراہم کر چکی ہے، لیکن سندھ کے حساس اضلاع کے بیش تر دیہات میں مچھر دانیاں تقسیم نہیں ہوئیں۔

    پیشگی اقدامات نہ ہونے پر سندھ کے 12 اضلاع میں ملیریا کیسز بڑھے، سندھ کے ملیریا کے حوالے سے 12 حساس اضلاع میں مؤثر سرویلنس بھی نہیں کی گئی۔

    رواں ماہ سندھ میں بچوں میں 1 لاکھ 66743 آبی ڈائریا کیس، جب کہ رواں برس بچوں میں 8 لاکھ 38951 آبی ڈائریا کیس رپورٹ ہو چکے ہیں۔

    رواں ماہ سندھ میں بچوں میں 13 ہزار 377 اسہال کے کیس رپورٹ ہوئے، جب کہ رواں برس بچوں میں 91 ہزار 904 اسہال کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔ سندھ میں رواں سال بچوں میں ہیضے کے بھی 438 کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔

    رواں ماہ سندھ میں ڈائریا، اسہال سے 6 بچے جاں بحق ہوئے، جب کہ رواں سال ڈائریا، اسہال سے 7 بچے جاں بحق ہو چکے ہیں۔

  • ملیریا پاکستان میں پھیلنے والی دوسری بڑی عام بیماری

    ملیریا پاکستان میں پھیلنے والی دوسری بڑی عام بیماری

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج ملیریا سے بچاؤ کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، اس دن کا مقصد لوگوں میں ملیریا سے بچاؤ اور اس کے متعلق پیدا شدہ خدشات اور غلط فہمیوں کے متعلق آگاہی فراہم کرنا ہے۔

    ملیریا اینو فلیس نامی مادہ مچھر کے ذریعے پھیلنے والا متعدی مرض ہے جس کا جراثیم انسانی جسم میں داخل ہو کر جگر کے خلیوں پر حملہ آور ہوتا ہے۔

    ملیریا کی صحیح تشخیص نہ ہونے سے ہر سال دنیا بھر میں ملیریا کے 20 کروڑ کیسز رپورٹ ہوتے ہیں جبکہ اس کی وجہ سے ہر سال 6 لاکھ 27 ہزار اموات ہوتی ہیں۔

    ملیریا کا سبب بنے والے مچھر کو عالمی ادارہ صحت نے دنیا کا مہلک ترین جانور قرار دیا ہے۔

    مچھر بلاشبہ ایک خطرناک کیڑا ہے اور ہلاکت خیزی میں یہ بڑے بڑے جانوروں کو مات کردیتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 10 لاکھ افراد مچھر کے کاٹنے (اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماریوں) سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔

    اس کے مقابلے میں سانپ کے کاٹے سے ہر سال 50 ہزار افراد ہلاک ہوتے ہیں جبکہ خطرناک ترین شارک بھی سال میں بمشکل 10 افراد کا شکار کر پاتی ہے۔

    علاوہ ازیں دنیا بھر میں ہلاکت خیز ہتھیار بناتے اور مہلک ترین کیمیائی تجربات کرتے انسان بھی سال میں 4 لاکھ 75 ہزار اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ (جنگوں اور قدرتی آفات میں ہونے والی انسانی ہلاکتیں اس کے علاوہ ہیں۔)

    لیکن مچھر مذکورہ بالا تمام شکاریوں سے چار ہاتھ آگے ہے۔

    پاکستان کا شمار آج بھی ملیریا کے حوالے سے دنیا کے حساس ترین ممالک میں کیا جاتا ہے اور ملک میں ملیریا دوسری عام پھیلنے والی بیماری ہے۔

    پاکستان بھر میں ہر سال کے 10 لاکھ ملیریا کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔

    طبی ماہرین کے مطابق بخار، کپکپی، سر درد، متلی، کمر اور جوڑوں میں درد ملیریا کی بنیادی علامات ہیں۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملیریا کی بروقت تشخیص اور علاج نہ ہونے کی صورت میں یہ مرض جان لیوا ہو سکتا ہے۔

  • ملیریا کی نئی دوا بچوں میں کتنی مؤثر ہے؟

    ملیریا کی نئی دوا بچوں میں کتنی مؤثر ہے؟

    ملیریا کی نئی دوا ٹیفنوکوئن کے حوالے سے محققین نے دریافت کیا ہے کہ اس کے استعمال سے 95 فی صد بچوں کو ملیریا سے طویل المدت تحفظ حاصل ہوا۔

    2020 میں جی ایس کے اور ایم ایم وی نے باہمی اشتراک سے اس حوالے سے کی گئی ایک تحقیق میں معلوم کیا کہ 2 سے 6 سال کے بچوں کو ٹیفنوکوئن (Tafenoquine) کی 50 ملی گرام والی ایک خوراک، ملیریا کی موجودہ دوا ’کلوروکوئن‘ کے ساتھ دینے پر 95 فی صد بچوں کو ملیریا سے طویل مدتی تحفظ حاصل ہوتا ہے۔

    تین دن قبل آسٹریلوی حکومت نے بچوں کے لیے ملیریا کی اس نئی دوا کے استعمال کی منظوری دے دی ہے، یہ دوا ’گلیکسو اسمتھ کلائن‘ (جی ایس کے) نے عالمی تنظیم ’میڈیسنز فار ملیریا وینچر‘ (ایم ایم وی) کے تعاون سے 2017 میں تیار کی ہے۔

    آسٹریلوی حکومت نے اس دوا کی منظوری دے کر دیگر 9 ممالک اور عالمی ادارۂ صحت کو بھی اس اس دوا کی منظوری کے لیے درخواستیں جمع کروا دی ہیں، یاد رہے کہ اس سے قبل مذکورہ دوا کو کئی ممالک میں بالغ افراد کے استعمال کے لیے پہلے ہی منظوری دی جا چکی ہے۔ ان ممالک میں یہ دوا ’کوزینس‘ (Kozenis) کے برانڈ نام کے ساتھ دستیاب ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ملیریا کے شکار بالغ افراد کو اس دوا کی 150 ملی گرام کی 2 خوراکیں دی جاتی ہیں، اب طبی ماہرین نے کہا ہے کہ چھوٹے بچوں کو 50 ملی گرام والی ایک خوراک دی جانی چاہیے۔ تاہم 62 فی صد بچوں میں اس دوا کے استعمال سے متلی اور اُلٹی کی معمولی شکایات سامنے آئی ہیں، یہ علامات کچھ دنوں کے بعد خود دور ہو گئیں۔

    اس حوالے سے جو تحقیقی مطالعہ کیا گیا، اس کے نتائج میں ماہرین نے پایا کہ چار ماہ گزرنے کے بعد بھی 95 فی صد بچوں کو ملیریا نہیں ہوا۔ اس تحقیق کے مثبت نتائج موصول ہونے کے بعد دوا ساز کمپنی نے اس دوا کی منظوری کے لیے آسٹریلیا کو درخواست جمع کروائی جو حکومت کی جانب سے قبول کر لی گئی۔

    واضح رہے کہ یہ دوا بطورِ خاص ’پلازموڈیم ویویکس‘ (P. vivax) نامی طفیلیے (پیراسائٹ) سے ہونے والے ملیریا کے علاج اور بچاؤ کےلیے تیار کی گئی ہے۔ یہ پیراسائٹ پاکستان سمیت جنوبی ایشیائی ممالک، جنوب مشرقی ایشیا، جنوبی امریکا اور افریقا کے مشرقی ممالک (سوڈان، صومالیہ، کینیا اور ایتھوپیا) میں ہر سال کم از کم 50 لاکھ افراد کو متاثر کرتا ہے، اور اس سے متاثر ہونے کا امکان بڑوں کے مقابلے میں 2 سے 6 سال کے بچوں میں 4 گنا زیادہ ہوتا ہے۔

  • مؤثر کرونا ویکسین بنانے والی کمپنی کا ملیریا ویکسین کے حوالے سے اہم اعلان

    مؤثر کرونا ویکسین بنانے والی کمپنی کا ملیریا ویکسین کے حوالے سے اہم اعلان

    برلن: جرمنی کی کمپنی بائیو این ٹیک نے کرونا ویکسین کے بعد اب ملیریا سے بھی بچاؤ کی مؤثر ویکسین بنانے کا اعلان کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بائیو این ٹیک کووِڈ نائٹین کے خلاف اپنی کامیابی کو استعمال کرتے ہوئے mRNA ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے ملیریا کے لیے پہلی ویکسین تیار کرنا چاہتی ہے، کمپنی نے مچھر سے پیدا ہونے والی بیماری کے خاتمے کے لیے 2022 کے آخر میں کلینکل ٹیسٹنگ شروع کرنے کا عزم کر لیا ہے۔

    بایو این ٹیک کے چیف ایگزیکٹو اوغور شاہن کا کہنا ہے کہ کرونا وبا کے خلاف رسپانس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سائنس اور اختراع سے لوگوں کی زندگیاں بدلی جا سکتی ہیں، جب سب مل کر ایک مقصد کے لیے کام کرتے ہیں۔

    انھوں نے کہا ہم HIV اور تپِ دق یعنی ٹی بی پر پہلے ہی کام کر رہے ہیں اور ملیریا تیسرا بڑا مرض ہے جس پر کام ابھی باقی ہے، ہر سال لوگوں کی بہت بڑی تعداد اس مرض سے متاثر ہوتی ہے، بہت سے لوگ مر جاتے ہیں بالخصوص جب مرض سنگین صورت اختیار کر جائے، جب کہ چھوٹے بچوں میں تو اس سے اموات کی شرح بہت زیادہ ہے۔

    عالمی ادارۂ صحت کے مطابق 2019 میں دنیا بھر میں تقریباً 23 کروڑ افراد ملیریا سے متاثر ہوئے جن میں سے 4 لاکھ سے زیادہ افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، عالمی ادارے کا اندازہ ہے کہ اُس سال ملیریا سے ہونے والی اموات میں سے 67 فی صد پانچ سال سے کم عمر بچوں کی تھی، جب کہ 94 فی صد مریض اور اموات افریقا میں ہوئیں۔

    البتہ شاہن کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ ابھی بالکل ابتدائی مرحلے میں ہے اور اس کی کامیابی کی فی الحال کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی، انھوں نے کہا کہ کمپنی سمجھتی ہے کہ کووِڈ 19 کے خلاف mRNA ویکسین بنانے سے حاصل کردہ تجربے کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ اس چیلنج سے نمٹنے کا یہ بہترین وقت ہے۔

    واضح رہے کہ ملیریا مچھروں کے کاٹنے سے پھیلنے والا ایک انفیکشن ہے جو مدافعت کے نظام کو دھوکا دیتا ہے، اس لیے ویکسین کا ہدف اس کو سامنے لانا اور مدافعت کے نظام کو اس انفیکشن پر حملے کے قابل بنانا ہے۔

    اِس وقت دنیا بھر میں ملیریا کی صرف ایک ویکسین Mosquirix دستیاب ہے، لیکن یہ صرف 39 فی صد تک مؤثر ہے۔

  • 70 برس کی کوششوں کے بعد چین نے بڑی کامیابی حاصل کر لی، عالمی ادارے کی تصدیق

    70 برس کی کوششوں کے بعد چین نے بڑی کامیابی حاصل کر لی، عالمی ادارے کی تصدیق

    جنیوا: چین نے آخر کار 70 برس کی کوششوں کے بعد ملک سے ملیریا کی بیماری ختم کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے، عالمی ادارہ صحت نے بھی چین کی جانب سے اعلان کرتے ہوئے مبارک باد دے دی۔

    فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے چین سے متعلق بدھ کو اعلان کرتے ہوئے 70 برس بعد چین کو ملیریا سے پاک قرار دے دیا، 1940 کی دہائی میں چین میں ملیریا کے سالانہ 3 کروڑ کیسز رپورٹ ہوتے تھے، لیکن گزشتہ چار برسوں میں ایک کیس بھی سامنے نہیں آیا۔

    ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیدروس اڈہانوم نے کہا کہ ہم چین کے لوگوں کو ملیریا سے چھٹکارا حاصل کرنے پر مبارک باد دیتے ہیں، انھیں یہ کامیابی کئی دہائیوں کی کوشش سے اور بہت مشکل سے ملی ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کی جانب سے اس اعلان کے بعد چین دنیا کے ان ممالک میں شامل ہو گیا ہے جنھوں نے ملیریا پر قابو پایا، ان ممالک کی تعداد چین کے شامل ہونے سے 40 ہو گئی ہے، اس سے قبل گزشتہ تین برسوں کے دوران ایلسلواڈور، الجیریا، ارجنٹینا، پیرا گوئے اور ازبکستان نے ملیریا فری ممالک کا درجہ حاصل کیا ہے۔

    خیال رہے کہ جن ممالک میں مسلسل 3 برس تک ملیریا کا کوئی کیس سامنے نہیں آتا، وہ ڈبلیو ایچ او کی سرٹیفیکیشن حاصل کر سکتے ہیں، انھیں ٹھوس ثبوت پیش کرنا ہوتا ہے اور وبا کو دوبارہ سر نہ اٹھانے دینے کی صلاحیت دکھانا ہوتی ہے۔

    ڈبلیو ایچ او کے مطابق 1950 میں بیجنگ نے ملیریا کے خاتمے کے لیے دوائیاں دینے کا سلسلہ شروع کیا تھا، چین نے مچھروں کی افزائش کو روکا، اور گھروں میں مچھر مارنے والا اسپرے کیا گیا۔

    واضح رہے کہ نومبر میں شائع ہونے والی ملیریا رپورٹ 2020 کے مطابق 2000 میں ملیریا سے دنیا میں 7 لاکھ سے زائد اموات ہوئیں، جو 2018 میں 4 لاکھ کے قریب اور 2019 میں بھی 4 لاکھ سے زیادہ تھیں۔ 2019 میں عالمی سطح پر ملیریا کے 23 کروڑ سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے، جب کہ دنیا میں ملیریا سے ہونے والی 90 فی صد اموات افریقہ میں ہوئیں، ان میں بچوں کی تعداد 2 لاکھ 65 ہزار تھی۔

  • مچّھر کس کو زیادہ تنگ کرتے ہیں؟

    مچّھر کس کو زیادہ تنگ کرتے ہیں؟

    اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ دوسروں کی نسبت‌ مچؑھر انھیں زیادہ کاٹتے ہیں اور عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ جن کا خون میٹھا ہوتا ہے، انھیں مچھر زیادہ تنگ کرتے ہیں۔ تاہم سائنس دانوں کے مطابق اس کا سبب جسم کا وہ کیمیائی عمل ہے جو ہماری فضا کو متاثر کرتا ہے اور اسی کی مدد سے مچھر اپنے ہدف کا تعین کرتا ہے۔

    مچھروں کی کثرت اور ان کے پنپنے کے موسم میں ہمارا کھلی آستین یا گہرے رنگ کے کپڑے پہن کر باہر جانا مشکل ہوجاتا ہے۔ مچھر کہیں‌ بھی چین سے بیٹھنے نہیں‌ دیتے اور سَر پر منڈلاتے رہتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو ایسے موسم میں‌ مچھر زیادہ ہی پریشان کرتے ہیں۔

    ماہرینِ حشریات کے مطابق مچھر اپنے مخصوص طرزِ عمل، حسّی غدود اور انسانی جسم سے فضا میں خارج ہونے والے کیمیکلز کی مدد سے اپنے ہدف کا تعین کرتے ہیں۔ خاص طور پر کاربن ڈائی آکسائیڈ اس حوالے سے ان کی راہ نمائی کرتی ہے۔

    مچھروں کے انسانوں‌ کو کاٹنے یا ان کا خون چوسنے اور اس معمولی جسامت والے کیڑے کی وجہ سے پھیلنے والی مختلف بیماریوں‌ پر امریکا، جرمنی، جاپان اور دیگر ممالک کی مستند جامعات سے منسلک ماہرین اور مشہور تحقیقی مراکز سے وابستہ سائنس دانوں کی رپورٹوں کے مطابق لاکھوں انسان اس جاندار کی وجہ سے مہلک بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں اور مچھر ہر سال بڑی تعداد میں‌ انسانوں کی ہلاکت کا سبب بنتے ہیں۔

    محققین کے مطابق جب کوئی فرد کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتا ہے تو یہ فوراً ہوا میں جذب نہیں ہوجاتی بلکہ مرغولوں کی صورت میں سفر کرتی ہے اور یہی مچھر کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔

    سائنس دانوں کے مطابق کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مدد سے مچھر 50 میٹر (164 فٹ) کی دوری سے اپنے ہدف کا تعین کرلیتے ہیں اور اس کی طرف بڑھتے ہوئے دیگر عوامل بھی انھیں اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ یہ عوامل جسمانی درجۂ حرارت، آبی بخارات اور رنگت وغیرہ ہوتے ہیں جو ہر فرد کی جسمانی حالت کے مطابق مختلف ہوتے ہیں۔

    محققین کا کہنا ہے کہ سب سے اہم عامل جس کی بنیاد پر مچھر اپنے ہدف کا انتخاب کرتا ہے، وہ کیمیائی مرکبات ہیں جو ہماری جلد پر جراثیم پیدا کرتے ہیں۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ پسینے کے غدود سے خارج ہونے والی رطوبتوں کو یہ جراثیم، طیران پذیر (اُڑجانے والے) مرکبات میں تبدیل کر دیتے ہیں جو فضا میں شامل ہوکر مچھر کے سَر پر موجود نظامِ شامہ سے ٹکراتے ہیں۔ ہر انسان کی جینیاتی ساخت کے لحاظ سے ان کی مقدار اور تناسب مختلف ہوسکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر انسان کے جسم کی بُو بھی مختلف ہوتی ہے۔

    جینیاتی ساخت اور مرکبات کا یہی اختلاف ایک ہی گھر میں موجود بلکہ قریب بیٹھے ہوئے افراد کو مچھروں کے لیے ایک دوسرے سے منفرد بناتا ہے۔

    سائنسی تحقیق کے مطابق جس انسان کی جلد پر زیادہ اقسام کے جراثیم ہوتے ہیں وہ مچھروں کے لیے کم کشش رکھتا ہے جب کہ جس کی جلد پر جراثیم کی کم اقسام پائی جاتی ہیں اس کا خون یہ "کرمکِ آوارہ” زیادہ رغبت سے چوستا ہے۔