کراچی : ملیر میں اینٹی انکروچمنٹ ٹیم نے آپریشن کے دوران حلیم عادل شیخ کا فارم ہاؤس گرا دیا گیا، 200 سے زائد غیر قانونی فارم ہاؤس گرائے جارہے ہیں ، فارم ہاؤس سیاسی ،مذہبی رہنماؤں اور پولیس افسران کی ملکیت ہیں۔
تفصیلات کے مطابق ڈپٹی کمشنر کی ہدایت پر ملیر میں اینٹی انکروچمنٹ آپریشن کیا گیا، آپریشن 30سالہ منسوخ زمینوں پر کیا جارہا ہے، آپریشن کے دوران حلیم عادل شیخ کا فارم ہاؤس بھی گرادیا گیا۔
آپریشن میں200 سے زائدغیرقانونی فارم ہاؤس گرائے جارہےہیں ، فارم ہاؤس سیاسی ،مذہبی رہنماؤں،پولیس افسران کی ملکیت ہیں، 11دسمبر2018کو سندھ کی تمام 30سالہ زمینوں کومنسوخ کیا گیا تھا ، 30سالہ زمین زرعی، ڈیری،کیٹل،پولٹری فارمنگ کے لیے لیز پر دی گئی تھی۔
سرکاری زمینوں پر غیرقانونی طور پر کمرشل کام کرکے خرید و فروخت کی گئی۔
ڈی سی ملیر نے تمام متعلقہ محکموں سندھ رینجرز، ڈی آئی جی ایسٹ اور ایس ایس پی ملیر ، کمانڈر رینجرز 62 اور 42 ونگ ، ڈائریکٹر اینٹی انکروچمنٹ سمیت دیگر محکموں کو خط لکھا تھا۔
اینٹی انکروچمنٹ کا کہنا ہے کہ آپریشن کے دوران اب تک 500 ایکڑ سے زائد سرکاری زمین واگزار کرائی گئی ، واگزار زمین کی مالیت اربوں روپے ہے ، آپریشن کے دوران پولیس اور دیگر محکموں کے سیکڑوں اہلکار موجود ہے۔
اینٹی انکروچمنٹ آپریشن ایک ہفتہ تک جاری رہے گا ، ایس ایم بی کا کہناہے کہ کسی بھی شخص کو قبضےکی اجازت نہیں دی جائے گی۔
کراچی میں قومی شاہراہ پر سفر کرتے ہوئے ملیر سٹی پہنچیں تو یہاں ایک سڑک بکرا منڈی سے ہوتی ہوئی 7 کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے میمن گوٹھ کی طرف جارہی ہے۔ اس کے قریب ہاشم جوکھیو گوٹھ واقع ہے۔ اسی ملیر کے علاقے میں ایک قدیم قبرستان بھی ہے۔ کسی زمانے میں ملیر کھیت اور مختلف سبزیوں کی پیداوار اور پھلوں کے باغات کی وجہ سے مشہور تھا۔
یہاں ایک ایسا قبرستان ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ تقریباً سات سو سال پہلے بنا تھا۔ اس قبرستان میں تقریباً 600 سے زائد پکّی اور سیکڑوں کی تعداد میں کچّی قبریں موجود ہیں۔ یہ قبریں تین اور چار منزلہ ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ قدیم بلوچ گھرانوں کی 18 فٹ اونچی قبریں ہیں جو بلوچی تہذیب اور ثقافت کی عکاس بھی ہیں۔
ایک تحقیق کے مطابق یہاں صرف بلوچ کلمتی قبیلے کے سرداروں، امرا اور ان کے ملازمین دفن کیے جاتے تھے۔ یہ قبریں اپنے خاص طرزِ تعمیر کی وجہ سے توجہ حاصل کرلیتی ہیں۔
سندھ کے مختلف تاریخی قبرستانوں کی طرح یہاں بھی قبروں پر نقش و نگار بنائے گئے ہیں اور ان کی مدد سے مردے کی شناخت کو یقینی بنایا گیا ہے۔ یہاں خواتین کی قبروں پر زیورات اور بچوں کی قبروں پر پالنے کے نقوش بنائے گئے ہیں۔ سرداروں کی قبروں پر تاج کی شبیہ اور اسی طرح سپاہیوں کی قبریں جنگی ہتھیاروں کی تصاویر سے مزیّن ہیں۔
ایک خاص بات یہ ہے کہ یہاں ہر قبر کے کتبے پر مدفون کا نام عربی رسم الخط میں نقش کیا گیا ہے۔ مینا کاری کے کام کے علاوہ ان پر قرآنی آیات تحریر ہیں۔ اب یہاں کئی مقبرے برباد ہوچکے ہیں اور قبریں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔
کراچی: شہر قائد سے چھینے گئے موبائل فون افغانستان اور بنگلادیش میں فروخت ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
تفصیلات کے مطابق پولیس نے کراچی کے علاقے ملیر سے موبائل فون اسمگلنگ اور اسٹریٹ کرائم میں ملوث منظم گروہ کو گرفتار کیا ہے، یہ کارروائی پولیس نے خفیہ اطلاعات پرگلشن حدید کے قریب کی تھی۔
گرفتار ملزمان کے شہر کے مختلف اسٹریٹ کرمنل گروہوں سے رابطے تھے، گرفتار ملزمان کی نشان دہی پر شہر کے مختلف علاقوں سے 70 سے زائد قیمتی اسمارٹ فونز برآمد کیے گئے، پولیس نے آئی ایم ای آئی نمبر تبدیل کرنے والی ڈیوائس سمیت لیپ ٹاپ، سافٹ ویئر یو ایس بیز بھی تحویل میں لے لیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ گروہ کے ماسٹر مائنڈ حسن عبداللہ کے ہاتھ آنے کے بعد اس کی نشان دہی پر گروہ کے دیگر 4 ملزمان کو بھی گرفتار کیا گیا، ماسٹر مائنڈ ملزم عبداللہ چھینے گئے موبائل فون کا آئی ایم ای آئی نمبر تبدیل کرنے کا ماہر ہے۔
گروہ کا سرغنہ جہانگیر بدر تبدیل کیے گئے نمبرز والے فونز نیٹ ورک کے ذریعے بنگلا دیش اور افغانستان بھجواتا تھا، ملزم انٹرنیٹ پر خریداروں سے رابطے کرتا اور موبوئل فون مہارت کے ساتھ بیرون ملک بھجواتا تھا، گرفتار ملزم جہانگیر بدر نے تین سالوں سے کراچی میں موبائل فون چھننے کا انکشاف کیا۔
ادھر ایک کارروائی میں ماڈل پولیس اسٹیشن فیروز آباد نے طارق روڈ سے مارکیٹ سے سامان چوری کرنے والے ایک منظم گروہ کے 2 کارندےگرفتار کر لیے ہیں، پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمان مارکیٹوں سے بڑی تعداد میں سامان چوری کرتے تھے، یہ پہلے بھی گرفتار ہو کر جیل جا چکے ہیں، ملزمان کو سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے گرفتار کیا گیا۔
کراچی: شہر قائد میں سبزیوں کی کاشت کے لیے بھی پانی چوری کا انکشاف ہوا ہے، نیز کاشت کے لیے سرکاری زمین پر قبضہ بھی کیا گیا۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق کراچی کے علاقے ملیر میں پانی چوری کا ایک اور کیس سامنے آ گیا ہے، ملیر میں ابراہیم حیدری کی حدود میں سرکاری زمین پر مافیا کا قبضہ ہے، جس پر با اثر افرد نے غیر قانونی طور پر سبزیاں کاشت کر لی ہیں۔
سبزیوں کی کاشت کے لیے پانی چور مافیا نے غیر قانونی طور پر پانی کی لائنیں بھی لے رکھی تھیں، پانی چوری کے لیے لائنوں کو درمیان سے توڑ کر پائپ ڈالے گئے تھے، جہاں سے پانی چوری کر کے سرکاری زمین پر سبزیوں کے فارم کو پانی فراہم کیا جاتا تھا۔
تاہم انتظامیہ نے اس پر ایکشن لے لیا ہے، ڈپٹی کمشنر ملیت گھنور لغاری قبضہ مافیا کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے غیر قانونی پانی کی لائنیں توڑ ڈالیں، اس کارروائی کے دوران علاقہ پولیس اور بھاری مشینری موقع پر موجود تھی۔
ڈپٹی کشمنر کا کہنا تھا کہ سرکاری زمین پر قائم سبزیوں کے فارم کو ختم کر کے زمین وا گزار کرا لی گئی ہے۔
یاد رہے کہ دو دن قبل اے آر وائی نیوز نے ایک رپورٹ دی تھی کہ کراچی کے علاقے بڑا بورڈ سے لسبیلہ تک میں پانی کی لائن مرمت کرنے کے بہانے روڈ کٹنگ کر کے پانی کی چوری کی جا رہی ہے۔ ذرایع نے بتایا تھا کہ پانی کی لائن مرمت کرنے کے بہانے روڈ کٹنگ کرنے کے لیے اجازت بھی نہیں لی گئی ہے، کے ایم سی کے قانون کے مطابق 25 سال تک روڈ کٹنگ نہیں کی جا سکتی۔
کراچی: رکن سندھ اسمبلی حلیم عادل شیخ کا ملیر کی 253 ایکڑ زمین پر قبضے اور بیچنے کا انکشاف ہوا ہے۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق پی ٹی آئی رہنما حلیم عادل شیخ کے ستارے بھی گردش میں آ گئے، اینٹی کرپشن کے بعد اب قومی احتساب بیورو (نیب) نے بھی ان کے خلاف گھیرا تنگ کر لیا ہے۔
حلیم عادل شیخ پر ملیر کی 253 ایکڑ سرکاری زمین پر قبضے اور غیر قانونی طور پر فروخت کرنے کا الزام ہے، نیب نے ڈپٹی کمشنر ملیر کو تمام متعلقہ کاغذات 27 جولائی تک نیب میں جمع کرانے کی ہدایت کر دی ہے، نیب لیٹر میں اینٹی کرپشن کی جانب سے کی جانے والی انکوائری کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔
نیب لیٹر میں تمام زمینوں کا رقبہ اور پیمائش کا ذکر بھی کیا گیا ہے، ذرایع کا کہنا ہے کہ حلیم عادل شیخ پر مبینہ منی لانڈرنگ کا بھی الزام ہے۔
سابقہ ڈپٹی ڈائریکٹر اینٹی کرپشن ایسٹ ضمیر عباسی نے گزشتہ برس حلیم عادل شیخ کے خلاف تحقیقات کرکے چیف سیکریٹری سے مقدمے کی اجازت طلب کی تھی، اینٹی کرپشن کی رپورٹ میں زمین پر قبضے اور فروخت میں حلیم عادل شیخ، ان کے بڑے بھائی، بیٹے، ڈی سی ملیر، اور محکمہ ریونیو کے دیگر افسران کو ملزم قرار دیا گیا تھا۔
اینٹی کرپشن نے سپر ہائی وے پر جعلی ہاؤسنگ سوسائٹیز کا بڑا نیٹ ورک پکڑا تھا جس کے جعلی کاغذات پر سرکاری زمینوں کو پرائیویٹ کر کے دکھایا گیا تھا۔
اینٹی کرپشن رپورٹ کے مطابق ریونیو اور سیہون اتھارٹی کے افسران کی ملی بھگت سے اربوں روپے کی سرکاری زمین قبضہ کیا گیا تھا، اینٹی کرپشن نے ایس بی سی اے سمیت تمام رجسٹرارز کو بھی جعلی زمین سے متعلق آگاہ کیا اور ہدایات جاری کی گئیں کہ جعلی اسکیم اور پراجیکٹ کی زمین نہ لیز ہو سکتی ہے نہ ہی اس کے نقشے پاس ہوں گے۔
واضح رہے کہ نیب کی جانب سے شروع کی جانے والی تحقیقات میں حلیم عادل شیخ کو ہی نہیں بلکہ پاکستان تحریک انصاف سندھ کو بھی نقصان پہنچنے کا امکان ہے۔
کراچی: ملیر میں 17 سالہ لڑکی کے قتل کا معمہ حل ہوگیا، مقتولہ کی سگی بہن نے منگیتر کے ساتھ مل کر بہن کو قتل کیا۔
تفصیلات کے مطابق کراچی کے علاقے ملیر سعود آباد میں 3 روز پہلے 17 سالہ لڑکی کے قتل کا معمہ حل ہوگیا، مقتولہ کی بہن اوراس کا منگیترہی لڑکی کے قاتل نکلے۔
پولیس کو دیے گئے بیان میں علوینہ نے اپنی سگی بہن کو منگیتر کے ساتھ مل کر قتل کرنے کا اعتراف کیا، ملزمہ کا کہنا ہے کہ چھوٹی بہن کے پاس اس کی تصویریں تھیں اپنے دوست کے ساتھ مل کر بلیک میل کرتی تھی، ملزمہ نے بتایا کہ مظہر گھر میں عقبی دروازے سے داخل ہوا، گھر کا دروازہ میں نے کھولا۔
علوینہ نے بتایا کہ بہن کو قتل کرنے کے لیے چھری بھی میں نے فراہم کی اور قتل کے بعد مظہرکوموبائل فون اور نقدی دے کر گھر کے عقبی دروازے سے فرار کرایا، ملزمہ نے خود کو معصوم ظاہر کرنے کے لیے اپنے سر اور بازو پر خود زخم لگائے تھے۔
پولیس نے ملزمہ اور اس کے منگیتر سمیت چار ملزمان میڈیا کے سامنے پیش کردیئے، دوسری جانب مقتولہ علینہ کے دوست احسن نے الزامات کو جھوٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ معاملہ دونوں بہنوں کے درمیان تھا۔
خیال رہے کہ 3 روز قبل مقتولہ کی بہن علینہ نے واقعے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ دو ڈاکو گھر میں داخل ہوئے اور انہوں نے چھریوں کے وار سے علوینہ کو قتل کیا جبکہ چھریوں کے وار سے اسے بھی زخمی کردیا تھا۔
یاد رہے کہ مقتولہ علوینہ کے والد نے پولیس کو بیان ریکارڈ کرایا تھا کہ ڈاکو ہزاروں روپے مالیت کے طلائی زیورات، نقدی اور موبائل فون لےگئےاورمزاحمت پرمیری بیٹی کوقتل کردیا۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔
کراچی: کراچی کے علاقے اسٹیل ٹاؤن میں 4 افراد کو سر میں گولیاں مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اسٹیل ٹاؤن سے ملنے والی 4 نامعلوم لاشوں نے کھلبلی مچا دی۔
تفصیلات کے مطابق اسٹیل ٹاؤن لنک روڈ کے علاقے سے ملنے والی 4 لاشوں کی شناخت معمہ بن گئی۔ یہ تعین نہ ہوسکا کہ آیا یہ ٹارگٹ کلنگ تھی یا دشمنی کا شاخسانہ۔ ویرانے سے ملنے والی لاشوں نے خوف و ہراس پھیلا دیا۔
پولیس تاحال سراغ لگانے میں ناکام ہے کہ یہ لاشیں کس کی ہیں اور انہیں کیوں قتل کیا گیا۔ چاروں لاشوں کی آنکھوں پر پٹیاں بندھی ہوئی ہیں۔
پولیس کے مطابق وقوعہ سے نہ کوئی خول ملا اور نہ ہی خون کے نشانات ہیں۔ ایس ایس پی راؤ انوار کا کہنا ہے کہ بظاہر یوں لگتا ہے کہ چاروں افراد کو کسی اور جگہ مار کر لاشیں یہاں پھینک دی گئیں۔
ایس ایس پی راؤ انوار کے مطابق مرنے والوں میں سے 3 کی لمبی اور ایک کی چھوٹی داڑھی ہے جبکہ ایک فرد کی بائیں ٹانگ مصنوعی ہے۔ پولیس نے علاقے میں پہنچ کر لاشوں کو جناح اسپتال منتقل کردیا جبکہ واقعہ کی مزید تفتیش شروع کردی گئی ہے۔
کراچی: شہر میں پھیلے چکن گونیا وائرس میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ آج مزید 4 مریضوں میں چکن گونیا کی تشخیص ہوگئی۔ 19 دسمبر سے اب تک 136 افراد میں مرض کی علامات ظاہر ہوئیں۔
کراچی میں پھیلی وبا چکن گونیا کےمزید شکار سامنے آگئے۔
سندھ گورنمنٹ اسپتال سعود آباد میں چکن گونیا سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 4 ہوگئی۔ ایم ایس کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹے کے دوران تقریباً ساڑھے 7 سو مریض ایمرجنسی میں لائے گئے جن میں سے 45 پر چکن گونیا سے متاثر ہونے کا شبہ ہے۔ ان کے خون کے نمونے لیبارٹری بجھوا دیے گئے ہیں۔
ایم ایس ملیر سعود آباد اسپتال ڈاکٹر ریحانہ صبا باجوہ کے مطابق 19 دسمبر سے اب تک 136 افراد چکن گونیا کی علامات کے ساتھ آئے۔ لاہور کی تشخیصی لیب سے بہت جلد ٹیم کراچی آئے گی۔
دوسری جانب آغا خان اسپتال کراچی سے تا حال کسی بھی مریض سے متعلق رپورٹ حاصل نہیں ہوئی۔
ادھر سندھ گورنمنٹ اسپتال سعود آباد کو فراہم کردہ 8 ڈاکٹرز کی خدمات واپس لے لی گئیں۔ ایم ایس کے مطابق ایمرجنسی کے باوجود محکمہ صحت کی جانب سے اچانک یہ فیصلہ سمجھ سے بالاتر ہے۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ شہر کی صفائی کے بعد ہی چکن گونیا وائرس میں کمی ہوسکتی ہے۔
:احتیاطی تدابیر اپنائیں
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وبا کا کوئی علاج نہیں ہے تاہم احتیاطی تدابیر اپنا کر وائرس سے بچاؤ ممکن ہے۔
چکن گونیا وائرس چونکہ مچھر سے منتقل ہوتا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ مچھروں سے بچنے کے لیے خصوصی اقدامات کیے جائیں۔
اگر آپ چکن گونیا کے متاثرہ مریض سے ملے ہیں، یا کسی ایسے علاقے کا دورہ کیا ہے جہاں یہ وائرس پھیلا ہوا ہے تو محتاط رہیں اور اوپر بتائی گئی علامتوں کے معمولی طور پر ظاہر ہوتے ہی فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
وائرس کا شکار ہونے کی صورت میں زیادہ سے زیادہ آرام کریں۔
جسم میں پانی کی کمی سے بچنے کے لیے مائع اشیا کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔
وائرس کا نشانہ بننے سے صحت یاب ہونے تک اسپرین لینے سے گریز کریں۔
اگر آپ پہلے سے کسی مرض کا علاج کر رہے ہیں تو اپنے ڈاکٹر کو ضرور اس سے آگاہ کریں۔
کراچی : ملیر میں وبائی صورت اختیار کرنے والی پراسرار بیماری کے شہریوں پر وار تاحال جاری ہیں،محکمہ صحت اورماہرین اب تک مرض کی تشخیصں کرنے میں ناکام ہیں، سندھ گورنمنٹ اسپتال کی لیبارٹری وقت سے پہلے ہی بند کردی گئی۔
تفصیلات کے مطابق کراچی کے علاقے ملیر میں پھیلنے والی پرسرار بیماری چکن گونیا ہے یا کچھ اور؟ اس مرض کی تشخیص اب تک نہیں ہو سکی۔ محکمہ صحت اورماہرین اب تک اس مرض کی تشخیصں میں ناکام رہے ہیں۔
محمکہ صحت نے مچھر اورمریضوں کے سیمپل ٹیسٹ لیباٹری کو ارسال کردیے ہیں۔ ضلع ملیر کے علا قوں سعود آباد، لانڈھی اور گڈاپ میں پراسرار بیماری سے شہریوں کے متاثر ہونے کا سلسلہ جاری ہے،دوسری جانب موجودہ حالات کی سنگینی کے باوجود سندھ گورنمنٹ اسپتال کی لیبارٹری وقت سے پہلے ہی بند کردی گئی۔
اسکول کی ایک طالبہ کواس کی والدہ رکشا میں سندھ گورنمنٹ بیبھانی اسپتال لائی، بچی کی والدہ نے الزام عائد کیا کہ بچی کو طبی امداد نہیں دی جارہی۔ سرکاری اسپتالوں میں متاثرہ افراد کو ادویات کی عدم فراہمی کا سامنا ہے جبکہ لیب ٹیسٹ نہ ہونے کی وجہ سے مریض در در بھٹکنے پر مجبور ہیں۔
کراچی: شہر قائد کے علاقے ملیر میں پھیلنے والے چکن گونیا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ آج بھی 82 مریضوں کو مختلف اسپتالوں میں داخل کیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق کراچی کے علاقے ملیر میں مبینہ طور چکن گونیا وائرس سے سینکڑوں افراد متاثر ہوگئے۔ اب تک متعدد افراد کو مختلف اسپتالوں میں لایا جاچکا ہے جو جوڑوں کے شدید درد اور تیز بخار میں مبتلا ہیں۔
دوسری جانب محکمہ صحت نے پاکستان میں اس وائرس کی موجودگی کی تردید کردی ہے۔
محکمے کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ گو کہ اس سے قبل پاکستان میں اس وائرس کی موجودگی پائی گئی تھی جس نے کئی افراد کو اپنا نشانہ بنایا تاہم فی الحال اس وائرس کے پھیلنے کی تمام خبریں غلط اور گمراہ کن ہیں۔
ذرائع کے مطابق ماہرین صحت نے مچھر اور مریضوں کے خون کے نمونے لیبارٹری بجھوا دیے ہیں جہاں سے رپورٹ آنے کے بعد ہی باقاعدہ تصدیق کی جاسکے گی کہ آیا یہ چکن گونیا وائرس ہی ہے یا نہیں۔
اس بیماری سے اب تک ملیر کے علاوہ سعود آباد، لانڈھی اور گڈاپ میں بھی کئی افراد متاثر ہوچکے ہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں متاثرہ مریضوں کو ادویات کی شدید عدم فراہمی کا سامنا ہے۔
چکن گونیا وائرس ۔ ماہرین کیا کہتے ہیں؟
اے آر وائی نیوز کے پروگرام دا مارننگ شو میں بھی آج میزبانوں اور مہمانوں کا موضوع گفتگو یہی وائرس رہا۔
پروگرام میں طبی ماہرین حکیم آغا عبد الغفار، ڈاکٹر عاطف اور ڈاکٹر یوسف نے شرکت کی۔
سردیوں کے موسم میں بخار اور جسم میں درد کے عام ہونے کی صورت میں کیسے تشخیص کی جائے کہ آیا یہ عام بخار ہے یا چکن گونیا؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ماہرین نے واضح طور پر بتایا کہ چکن گونیا کے شکار افراد جوڑوں کے ناقابل برداشت درد کا شکار ہوجاتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ عام جوڑوں کا درد ایک یا 2 جوڑوں تک محدود رہے گا، لیکن ایک ساتھ تمام جوڑوں میں ناقابل برداشت اور شدید درد چکن گونیا کی علامت ہے۔
اسی طرح اس وائرس میں ہونے والا بخار بھی بہت تیز کم از کم 104 ڈگری تک ہوتا ہے۔
:سیلف میڈیکیشن سے پرہیز
حکیم آغا عبد الغفار اور ڈاکٹر عاطف کا کہنا تھا کہ ویسے تو سیلف میڈیکیشن یعنی ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر خود سے دوا لینا ایک غلط اور نقصان دہ عمل ہے، تاہم ڈینگی اور چکن گونیا میں اس سے سختی سے گریز کرنا چاہیئے، خاص طور پر اسپرین لینے سے پرہیز کرنا چاہیئے۔
اس کی وجہ بتاتے ہوئے حکیم آغا عبد الغفار کا کہنا تھا کہ اسپرین خون کو پتلا کرتی ہے۔ ڈینگی اور چکن گونیا کے متاثرہ شخص میں ویسے ہی خون کے سرخ خلیات بننے کا عمل کم ہوجاتا ہے اور خون کی کمی واقع ہونے لگتی ہے۔ ایسے میں اسپرین خون کی مقدار اور معیار پر مزید منفی اثر ڈال کر مرض کو جان لیوا بنا سکتی ہے اور مریض کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔
ڈاکٹر عاطف نے اس وائرس کی ہسٹری بتاتے ہوئے کہا کہ یہ وائرس افریقہ سے آیا ہے۔ اس وائرس کا پہلا کیس سنہ 1959 میں تنزانیہ میں رپورٹ کیا گیا۔ ان کے مطابق پاکستان میں اس مرض کا پھیلاؤ پچھلے 2 سال میں ہوا تاہم اس سے قبل اسے ڈینگی سمجھا گیا اور اس کے لیے ڈینگی کا ہی علاج کیا گیا۔
:بچے اور بزرگ افراد آسان ہدف
اس بارے میں مزید بتاتے ہوئے ڈاکٹر یوسف کا کہنا تھا کہ اس مرض کا آسان شکار 5 سال سے کم عمر بچے اور بزرگ افراد ہیں جن کی قوت مدافعت کمزور ہوتی ہے۔ انہوں نے اس وائرس کی ایک اہم علامت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ چھوٹے بچوں میں یہ جلد پر سرخ نشانات یا دھبوں کی صورت میں ظاہر ہوسکتا ہے۔
انہوں نے مزید وضاحت کی کہ چھوٹے بچوں کی جلد پر سرخ نشانات خسرہ اور ٹائیفائڈ میں بھی ظاہر ہوسکتے ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ ماہر معالجین سے رجوع کیا جائے اور صحیح تشخیص کے بعد درست علاج کیا جائے۔