Tag: ملی نغمات

  • شہناز بیگم: مشرقی پاکستان کی پہلی گلوکارہ جنھوں نے اردو میں ملّی نغمات پیش کیے

    شہناز بیگم: مشرقی پاکستان کی پہلی گلوکارہ جنھوں نے اردو میں ملّی نغمات پیش کیے

    پاکستان میں‌ شہناز بیگم کا نام اور ان کی مسحور کن آواز اردو زبان میں‌ ان کے گائے ہوئے ملّی نغمات کی وجہ سے آج بھی مقبول ہے۔ اس گلوکارہ کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا جو بنگلہ دیش بن جانے کے بعد اپنے آبائی وطن منتقل ہوگئی تھیں۔

    یہ اتفاق ہے کہ پاکستان کے ملّی نغمے گانے والی اس مشہور گلوکارہ کی تاریخِ وفات 23 مارچ ہے جب قراردادِ پاکستان پیش کی گئی تھی۔

    2019ء میں‌ وفات پانے والی شہناز بیگم مشرقی پاکستان کی وہ پہلی گلوکارہ تھیں جنھوں نے اردو زبان میں ملّی نغمات کو اپنی آواز دی اور لازوال شہرت حاصل کی۔ انھوں‌ نے شہنشاہِ غزل مہدی حسن سے گلوکاری کے اسرار و رموز سیکھے تھے۔

    سابق مشرقی پاکستان کی شہناز بیگم کی پُراثر آواز آج بھی ارضِ پاک کی فضاؤں میں سنائی دیتی ہے اور ان کے گائے ہوئے قومی نغمات ہر چھوٹے بڑے کی زبان پر ہوتے ہیں۔ خوب صورت شاعری اور گلوکارہ کی دل پذیر آواز ہر قومی دن پر گلی گلی اور ہر تقریب میں‌ ہماری سماعتوں کو لطف و سرور اور سرشاری عطا کرتی ہے۔ شہناز بیگم جب بھی پاکستان آتیں تو ان سے قومی نغمات ”جیوے جیوے پاکستان، اور ”سوہنی دھرتی اللہ رکھے” سنانے کی فرمائش کی جاتی جسے وہ ضرور پورا کرتیں۔ اس پر وہ بنگلہ دیش میں مطعون بھی کی جاتیں اور انھیں غدارِ وطن بھی کہا گیا، مگر جن نغمات نے انھیں شہرت اور جن لوگوں‌ نے انھیں‌ عزّت اور پیار دیا، ان کی فرمائش ٹالنا شاید ان کے لیے ممکن نہیں‌ تھا۔

    شہناز بیگم کا اصل نام شہناز رحمت اللہ تھا جو 1952ء کو مشرقی پاکستان کے شہر ڈھاکہ کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئی تھیں۔ شہناز بیگم نے اسکول کے زمانے میں گانا شروع کردیا تھا۔ وہ دس سال کی تھیں جب ریڈیو پاکستان، ڈھاکہ اسٹیشن سے ایک پروگرام کا حصّہ بنیں اور بنگلہ زبان میں پاکستانی قومی نغمہ گایا۔ 65ء کی جنگ میں بھی انھوں نے اپنی آواز میں‌ گانے ریکارڈ کروائے اور خوب داد و تحسین وصول کی۔

    ڈھاکہ میں حالات شدید خراب ہوئے تو شہناز بیگم کراچی منتقل ہوگئیں اور یہاں ” جییں تو اس دھرتی کے ناتے، مریں تو اس کے نام” جیسا خوب صورت نغمہ گایا۔ شہناز بیگم نے 1971ء میں بھارت کے مشرقی پاکستان پر حملے کے بعد کراچی میں ریڈیو سے مہدی حسن خاں کے ساتھ مل کر نغمۂ یکجہتی گایا جس کے اشعار یہ تھے:

    پاک زمیں کے سارے ساتھی، سارے ہم دَم ایک ہیں
    پورب پچھم دور نہیں ہیں، پورب پچھم ایک ہیں
    وہ سلہٹ ہو یا خیبر ہو، سُندر بن ہو یا کشمیر
    ہم دونوں کا ایک وطن ہے اِک نظریہ اک تقدیر

    اس گلوکارہ کی آواز میں پاکستان ٹیلی ویژن پر قومی نغمہ ”وطن کی مٹی گواہ رہنا” سب سے پہلے گونجا تھا۔ جنگ کے بعد بھی شہناز بیگم نے ایک بار پھر حبُ الوطنی کا ثبوت دیتے ہوئے صہبا اختر کا تحریر کردہ نغمہ ” آیا نیا زمانہ آیا ، بھیا بھول نہ جانا، پاکستان بچانا” گا کر ہم وطنوں کا دل جیت لیا۔

    ”سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے” وہ گیت تھا جسے پاکستان کی گولڈن جوبلی کے موقع پر پاکستان ٹیلی ویژن کی طرف سے پہلا انعام دیا گیا اور یہ بتایا گیا کہ پاکستانی عوام اس عظیم گلوکارہ کو نہیں بھولے ہیں۔

    یہ منفرد قومی نغمہ "موج بڑھے یا آندھی آئے، دیا جلائے رکھنا ہے” کس نے نہیں‌ سنا ہو گا۔ آج بھی شہناز بیگم کی آواز میں یہ شاعری دلوں کو گرماتی اور جوش و ولولہ بڑھاتی ہے۔

  • یومِ دفاع: جنگی ترانے اور ملّی نغمات کے بول دشمن پر تازیانے کی طرح برسے

    یومِ دفاع: جنگی ترانے اور ملّی نغمات کے بول دشمن پر تازیانے کی طرح برسے

    1965ء میں پاکستان کی افواج نے سرحدی محاذوں پر بھارت کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا کر جہاں دنیا سے اپنی طاقت اور شجاعت کا لوہا منوایا، وہیں پاکستانی شاعروں کے تخلیق کردہ جنگی ترانوں اور رزمیہ شاعری کی گونج اور قوم کی امنگوں اور جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے ملّی نغمات کے بول بھی سرحد پار ایوانوں میں بیٹھے ہوئے دشمن کے لیے کسی تازیانے سے کم نہ تھے۔

    ستمبر کی جنگ کے دوران پاکستانی شاعروں نے اپنے جذبۂ حبُ الوطنی کا جس طرح اظہار کیا وہ نہ صرف یہ کہ ایک قومی شعری سرمائے کے طور پر محفوظ ہوچکا ہے بلکہ مادرِ گیتی اور پاک فوج سے محبت کی ایک لازوال اور ناقابلِ فراموش یادگار ہے۔

    شعرا نے اپنے کلام سے جہاں فوجی جوانوں کا حوصلہ بڑھایا وہیں اس رزمیہ ادب نے قوم کے اندر جذبۂ آزادی کو مزید توانا کیا اور یہ شاعری قومی وحدت کی یادگار لڑی ثابت ہوئی۔ یہ چند اشعار دیکھیے جو جنگِ ستمبر اور بعد کے ادوار میں تخلیق کیے گئے۔

    لگاؤ نعرۂ تکبیر ہر چہ بادا باد
    مجاہدوں کو پہنچتی ہے غیب سے امداد
    (احسان دانش)

    تو وارث پاک اُجالوں کی
    تو دھرتی شیر جوانوں کی
    تری خوشبو کو چھلکائیں گے
    ترے پیار کی جُگنی گائیں گے
    (ضمیر جعفری)

    میری سرحد پہ پہرا ہے ایمان کا
    میرے شہروں پہ سایہ ہے قرآن کا
    میرا ایک اک سپاہی ہے خیبر شکن
    چاند میری زمیں، پھول میرا وطن
    (ساقی جاوید)

    سرفروشی ہے ایماں تمہارا
    جرأتوں کے پرستار ہو تم
    جو حفاظت کرے سرحدوں کی
    وہ فلک بوس دیوار ہو تم
    (جمیل الدّین عالی)

    اپنی جاں نذر کروں اپنی وفا پیش کروں
    قوم کے مردِ مجاہد تجھے کیا پیش کروں
    (مسرور انور)

    ہمارا پرچم یہ پیارا پرچم
    یہ پرچموں میں عظیم پرچم
    (سیف زلفی)

    اردو میں جذبۂ قومیت کے اشتراک سے قومی شاعری کو ایک الگ صنفِ ادب کے طور پر متعارف کرانے والے اہم قومی شعرا صبا اکبر آبادی، طفیل ہوشیار پوری، سید ضمیر جعفری، کرم حیدری، کلیم عثمانی، مشیر کاظمی، کیف بنارسی، ساقی جاوید، جمیل الدین عالی، تنویر نقوی، حمایت علی شاعر، رئیس امروہوی، احمدندیم قاسمی، منیر نیازی، ریاض الرحمن ساغر اور کئی شعرا شامل ہیں۔ پاکستان کی آزاد فضاؤں میں ان شعرا کے ترانے اور ملّی نغمات کی گونج ہمیشہ سنائی دیتی رہے گی۔

  • خوب صورت ملّی نغمات اور مقبول فلمی گیتوں کے خالق کلیم عثمانی کی برسی

    خوب صورت ملّی نغمات اور مقبول فلمی گیتوں کے خالق کلیم عثمانی کی برسی

    “اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں” اور “یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے” وہ ملّی نغمات ہیں جو پاکستان کی فضاؤں میں ہمیشہ گونجتے رہیں گے۔ حبُ الوطنی کے جذبات، عزم و ہمّت، دلیری اور شجاعت کے احساس کے ساتھ کلیم عثمانی کی یہ شاعری زبان و ادب میں ان کے فن اور مقام کا تعیّن بھی کرتی ہے۔

    جذبۂ حب الوطنی سے سرشار کلیم عثمانی کے کئی قومی اور ملّی نغمات ٹی وی اور ریڈیو سے نشر ہوئے اور انہی نغمات کی وجہ سے ان کا نام آج بھی زندہ ہے۔ پاکستان کے اس ممتاز شاعر اور نغمہ نگار نے 28 اگست 2000ء کو ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    ان کا اصل نام احتشام الٰہی تھا۔ وہ 28 فروری 1928ء کو ضلع سہارن پور، دیو بند میں‌ پیدا ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد انھو‌ں نے پاکستان ہجرت کی اور لاہور میں سکونت اختیار کرلی۔

    شعر و سخن کی دنیا میں‌ کلیم عثمانی نے مشہور شاعر احسان دانش سے اصلاح لی۔ انھوں نے فلم نگری کے لیے گیت نگاری کا آغاز کیا تو بڑا آدمی، راز، دھوپ چھائوں جیسی کام یاب فلموں‌ کے لیے گیت لکھنے کا موقع ملا جو بہت مقبول ہوئے۔

    آپ نے فلم راز کا یہ گیت ضرور سنا ہو گا جس کے بول تھے:
    میٹھی میٹھی بتیوں سے جیا نہ جلا، یہ اپنے وقت کا مقبول ترین گیت تھا جسے کلیم عثمانی نے تحریر کیا تھا۔

    پاکستانی فلمی صنعت میں انھوں نے جوشِ انتقام، ایک مسافر ایک حسینہ، عندلیب، نازنین نامی فلموں کے لیے نغمات تحریر کیے اور خوب شہرت پائی۔

    1973ء میں کلیم عثمانی کو فلم گھرانا کے اس مقبول ترین گیت “تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا پلکیں بچھا دوں….” پر نگار ایوارڈ عطا کیا گیا تھا۔

    مرحوم لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • ملّی نغمہ سوہنی دھرتی اللہ رکھے، قدم قدم آباد اور مسرور انور

    ملّی نغمہ سوہنی دھرتی اللہ رکھے، قدم قدم آباد اور مسرور انور

    جشنِ آزادی کے موقع پر وطنِ عزیز پاکستان کے طول و عرض میں وطن کی سلامتی و استحکام کے لیے اور آزادی کی نعمت کا شکر ادا کرتے ہوئے دعا کی صورت یہ ملّی نغمہ گونج رہا ہے،’’سوہنی دھرتی اللہ رکھے، قدم قدم آباد۔‘‘

    پاکستانیوں کے دل کی آواز بننے والا یہ نغمہ ہر سماعت میں‌ محفوظ ہے اور آج آزادی کے جشن اور یادگار دن پر جھوم جھوم کر سنا اور گایا جارہا ہے۔

    اس ملّی نغمے کے خالق پاکستان کے نام وَر شاعر مسرور انور ہیں جنھوں نے فلمی گیت بھی لکھے اور اپنے وطن پاکستان کے لیے بھی ایسے نغمات تخلیق کیے جن کی مقبولیت آج ہی نہیں آنے والے وقتوں میں بھی برقرار رہے گی۔

    مسرور انور 1962ء سے 1990ء تک پاکستانی فلمی صنعت کے لیے گیت نگاری کرتے رہے اور ممتاز ترین نغمہ نگاروں میں شامل ہوئے۔ انھوں نے 1970ء کے اوائل میں جو ملّی نغمات لکھے انھیں بے حد مقبولیت ملی اور سوہنی دھرتی اللہ رکھے کے علاوہ سرفروشی اور وقت پڑنے پر جذبہ شہادت سے مغلوب ہوکر میدانِ جنگ میں اترنے والے قوم کے دلیر شیر جوانوں سے اس نغمے کے ذریعے مخاطب ہوئے اور کہا، اپنی جاں نذر کروں، اپنی وفا پیش کروں، قوم کے مردِ مجاہد تجھے کیا پیش کروں….!

    مسرور انور کا یہ ملّی نغمہ وطن کی مٹی گواہ رہنا بھی سبھی کی سماعتوں میں تازہ ہے۔ انھوں نے وطن کی خوب صورتی اور آزادی پر نثار ہوتے ہوئے یہ نغمہ بھی قوم کے لیے پیش کیا جو آج پھر ہمارے لبوں پر رقصاں ہے، جگ جگ جیے میرا پیارا وطن، لب پہ دعا ہے دل میں لگن۔

    سوہنی دھرتی اللہ رکھے وہ نغمہ تھا جو شہناز بیگم کی آواز میں پاکستان کی ثقافتی پہچان بن گیا۔