Tag: ملی نغمے

  • عالی جی: تہذیب، فن اور ادب کے ایک قدآور کا تذکرہ

    عالی جی: تہذیب، فن اور ادب کے ایک قدآور کا تذکرہ

    پاکستانی شعر و ادب میں جن چند شخصیات نے مجموعی طور پر اپنی انفرادیت اور تخلیقی اُپج کے نقوش چھوڑے ہیں، اُن میں جمیل الدّین عالی کا نام سرِفہرست ہے۔عالی صاحب کی تخلیقی شخصیت کے کئی حوالے ہیں۔ وہ صحیح معنوں میں ایک ہمہ جہت اور ہمہ صفت شخصیت کے مالک رہے۔

    ایک جانب انہوں نے کئی مقبول اور یادگار ملی نغمات لکھے تو دوسری طرف دوہے جیسی نظر انداز کی گئی صنف کو اپنی تخلیقی قوت کے سبب ایک نئی زندگی دی۔ یہی نہیں جمیل الدین عالی پاکستانی شعر و ادب میں نمایاں ترین کردار ادا کرنے کے ساتھ علمی اور تعمیری میدانوں میں بھی کئی اہم کارناموں کے باعث قابلِ ستایش ہیں۔ اُن کی علمی قابلیت اور دانش وارنہ شخصیت کا ادارک سب کو تھا، اور اسی لیے اُن کے چاہنے والے اُنہیں جمیل الدین عالی کے بہ جائے عالی جی کہہ کے پکارتے تھے۔

    عالی جی کی غیر معمولی انتظامی صلاحیتیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اس حوالے سے انجمن ترقی اردو جیسے تاریخی ادارے سے طویل علمی وابستگی اور پاکستان کی پہلی وفاقی اردو یونیورسٹی کے قیام کے ساتھ رائٹرز گلڈ جیسے ادارے میں مرکزی اور انتظامی کردار نے عالی جی کو اُن کی زندگی ہی میں لیجنڈ بنا دیا تھا۔

    جمیل الدین عالی کی شاعری کا سفر 1939ء سے نویں جماعت ہی سے شروع ہو گیا تھا، تاہم جب مشاعروں میں شرکت کرنے لگے تو استاد کی ضرورت محسوس ہوئی، چچا سراج الدین خاں سائل کی شاگردی میں آئے لیکن اُن کے پہلی ہی مشورے پر عمل نہ کیا اور یوں آگے چل کر بھی کسی باقاعدہ استاد کی شاگردی میں نہ آئے۔ 1956ء میں معروف مزاح نگار اور شاعر ابن انشا جو عالی جی کے دوست تھے، اُنہیں بابائے اردو مولوی عبدالحق سے ملوانے لے گئے، اسی ملاقات کے بعد جمیل الدین عالی کی نیاز مندی مولوی عبدالحق سے قائم ہوگئی اور اسی نیازی مندی کے سبب وہ انجمن ترقیٔ اردو جیسے تاریخی ارادے سے جڑتے چلے گئے اور یہ تعلق اُن کی آخری سانس تک قائم رہا۔

    عالی جی راٹرز گلڈ کے اعزازی سیکرٹری رہے، منتخب جنرل سیکرٹری بھی رہے۔ انجمن ترقی اردو کے رکنِ منتظمہ اور معتمدِ اعزازی رہے۔ اردو ڈکشنری بورڈ کے رکن اور اعزازی صدر نشیں بھی رہے۔ وفاقی وزیرِ تعلیم ڈاکٹر عطا الرّحمٰن کے تعاون سے وفاقی اردو کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دلانے میں کام یاب ہوئے، لیکن اس کے پیچھے عالی صاحب کو ایک طویل اور صبر آزما جد وجہد سے گزرنا پڑا۔

    مشاعروں میں وہ اپنی غزلیں اپنے مخصوص ترنم سے سناتے اور خاص طور پر لوگ اُن سے دوہے سنتے اور سنتے ہی چلے جاتے۔وہ اکثر مشاعروں میں اپنے کلام کا اختتام ’جیوے جیوے پاکستان جیسے مقبول عام قومی ترانے پر کرتے اور لوگ دیوانہ وار اُن کے ساتھ اس لازوال قومی ترانے کو اُن کے ساتھ ساتھ دہراتے۔

    عالی جی کا پہلا شعری مجموعہ ’غزلیں، دوہے، گیت ‘ 1957ء میں سامنے آیا، ملی نغمات پر مشتمل مختصر مجموعہ ’جیوے جیوے پاکستان ‘1974ء میں شایع ہوا۔ اسی سال اُن کا غزلوں، نظموں اور دوہے پر مشتمل اہم مجموعہ ’لاحاصل‘ بھی اشاعت پزیر ہوا۔ عالی جی کا آخری شعری مجموعہ ’اے مرے دشت ِ سخن کی صورت میں سامنے آیا۔ انہوں نے خاکہ نگاری کے حوالے سے ایک کتاب ’بس اک گوشۂ بساط‘ کے نام سے لکھی، چند سفر نامے بھی لکھے، عالی جی کی مزید کتابوں میں نئی کرن، شنگھائی کی عورتیں اور ایشین ڈرامے شامل ہیں۔

    عالی صاحب کی ایک کتاب اُن کی غیر معمولی طویل ترین نظم ’انسان ‘ ہے، اس نظم کی پہلی جلد 7800 مصرعوں پر مشتمل ہے۔ اُنہوں نے’انسان‘ کو 1950ء کے عشرے میں شروع کیا اور 2007ء میں یہ طویل ترین نامکمل نظم، پہلے حصے کے طور پر شایع ہوئی، ایک اندازے کے مطابق عالی صاحب اپنے انتقال تک اس اہم نظم کے دس ہزار سے زاید مصرعے لکھ چکے تھے۔ یہ نظم طوالت کے علاوہ اپنی فارم، اپنے اسلوب، اپنے ڈکشن اور اپنے ہمہ جہتی موضوعات کے سبب بھی اہم ہے۔ اس نظم کا مرکزی کردار انسان اور اس کا تاریخی و ارتقائی سفر ہے۔

    عالی جی کے ابتدائی دور کے دو شعر ملاحظہ کجیے

    کچھ نہ تھا یاد بہ جز کارِ محبت اک عمر
    وہ جو بگڑا ہے تو اب کام کئی یاد آئے

    تم ایسے کون خدا ہو کہ عمر بھر تم سے
    اُمید بھی رکھوں اور نا اُمید بھی نہ رہوں

    دوسری جانب جمیل الدین عالی نے کئی دہائیوں تک بڑی معتبر اور معیاری کالم نگاری بھی کی۔ اُن کے کالموں میں علمی اور ادبی موضوعات کے ساتھ سماجی، تہذیبی اور سیاسی مسائل کی رنگ آمیزی بھی شامل رہی۔

    جمیل الدین عالی زندگی بھر کئی محاذوں پر نبرد آزما رہے۔ ایک جانب اُن کا خاندانی پس منظر، بھرپور شخصیت، ذہانت اور علمیت کے باوصف زندگی کے مختلف طبقات میں نمایاں رہی۔ علم وادب سے براہ راست وابستگی نے بھی اُن کی اہمیت میں چار چاند لگائے رکھے جب کہ بیوروکریسی میں شامل ہونے کے سبب وہ کئی اہم اور بڑے عہدوں پر فائز رہے۔ اُنہیں 1991ء ’تمغۂ حسنِ کارکردگی‘، 1998ء ، میں ’ہلالِ امتیاز‘ اور اکادمی ادبیات کی جانب سے ’کمالِ فن ‘ایوارڈ بھی دیا گیا۔

    جمیل الدین عالی نے سات مارچ 1977ء کے عام انتخابات میں کراچی میں پیپلز پارٹی کی جانب سے حصہ لیا لیکن ناکام رہے جب کہ ایم کیو ایم کی حمایت سے وہ 1997ء میں سینیٹ کی سیٹ پر منتخب ہوئے۔

    جمیل الدین عالی کی شخصیت اور اُن کی شاعری کا ذکر اُن کے ملی نغمات کے بغیر اداھورا رہ جائے گا۔ اس ضمن میں اہم بات یہ ہے کہ اپنے اکثر مقبولِ عام نغموں کی دھنیں بھی خود عالی جی نے بنائیں کیوں کہ یہ اُن کا شوق رہا ہے، تاہم انہوں نے اپنی کسی دُھن کو موسیقار کے تخلیقی مزاج پر حاوی نہیں ہونے دیا۔

    جیوے جیوے پاکستان پاکستان پاکستان جیوے پاکستان

    دین، زمین، سمندر، دریا، صحرا، کوہستان
    سب کے لیے سب کچھ ہے اس میں، یہ ہے پاکستان

    ریڈیو پاکستان کے سینئر پروڈیوسر، نام ور موسیقار اور گلوکار مہدی ظہیر نے عالی صاحب کا ایک ایسا یادگار اور شان دار ترانہ ریکارڈ کرایا جس نے غیرمعمولی مقبولیت حاصل کی۔ یہ ملی ترانہ پاکستان میں منعقد ہونے والی پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس کے لیے ہنگامی طور پر عالی جی نے اُس وقت کے وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی فرمایش پر راتوں رات لکھا، اور مہدی ظہیر نے اپنی ولولہ انگیز آواز میں گا کے امر کر دیا:

    ہم تابہ ابد سعی و تغیر کے ولی ہیں
    ہم مصطفوی، مصطفوی، مصطفوی ہیں

    پاکستان کے تمام ملی نغمات میں عالی جی کے لکھے ہوئے، اس ملی نغمے کو ہمیشہ یادگار حیثیت حاصل رہے گی۔ یہ ملی نغمہ جس خوب صورتی، جذبۂ حب الوطنی اور وارفتگی سے لکھا گیا، میڈم نور جہاں نے اپنی لافانی اور سُریلی آواز میں اُس ملی نغمے کو اُسی قدر سپردگی، تمکنت اور وقار کے ساتھ اپنے فوجی بھائیوں کی نذر کیا:

    اے وطن کے سجیلے جوانو
    میرے نغمے تمھارے لیے ہیں

    جمیل الدین عالی نے ایک طویل، بھرپور، خوش حال اور خوش خوش و خرم زندگی گزاری۔ وہ عارضۂ قلب کی بڑھتی ہوئی پیچدگیوں کے ساتھ کچھ ضمنی امراض میں بھی مبتلا ہوئے اور 23 نومبر 2015ء کو خالقِ حقیقی سے جا ملے، تاہم اُن کی شخصیت کی اثر انگیزی اور تخلیقی کاموں کی گونج اب تک برقرار ہے اور آیندہ بھی رہے گی۔

    (عالی جی کے یومِ وفات پر معروف شاعر، ادیب اور سینئر صحافی خالد معین کے مضمون سے منتخب پارے)

  • یومِ وفات: نسیم بیگم کی آواز اور سریلے گیتوں کی مدھرتا آج بھی کانوں میں رس گھول رہی ہے

    یومِ وفات: نسیم بیگم کی آواز اور سریلے گیتوں کی مدھرتا آج بھی کانوں میں رس گھول رہی ہے

    پسِ پردہ فلمی گلوکار کی حیثیت سے انڈسٹری میں نام و مقام بنانے والی اور سریلی آواز کی مالک نسیم بیگم نے 29 ستمبر 1971ء کو ہمیشہ کے لیے دنیا سے اپنا ناتا توڑ لیا تھا، لیکن پاک وطن کی فضاؤں میں ہر سال یومِ دفاع پر جب یہ نغمہ گونجتا ہے تو گویا ان کی یاد بھی زندہ ہوجاتی ہے۔

    اے راہِ حق کے شہیدو، وفا کی تصویرو!
    تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں

    یہ نغمہ مشہور شاعر اور فلمی گیت نگار سیف الدّین سیف نے لکھا تھا اور اس کی موسیقی سلیم اقبال نے ترتیب دی تھی۔

    نسیم بیگم کی سریلی اور پُرسوز آواز میں کئی قومی نغمات اور فلمی گیت ریکارڈ ہوئے جنھیں دہائیاں گزر جانے کے بعد آج بھی نہایت ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔

    پاکستان کی اس مقبول فلمی گلوکارہ نے 1936ء میں امرتسر کی ایک مغنیہ کے گھر جنم لیا تھا۔ موسیقی اور راگ راگنی کا سے انھیں ممتاز مغنیہ اور اداکارہ مختار بیگم نے آشنا کیا۔

    نسیم بیگم نے اپنی فنی زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان لاہور سے کیا۔ پھر مشہور فلمی موسیقار شہریار نے انھیں فلم بے گناہ کا ایک نغمہ ’’نینوں میں جل بھر آئے روٹھ گیا میرا پیار‘‘ گانے کا موقع دیا اور وہ فلمی دنیا میں متعارف ہوئیں۔ ان کا گایا ہوا یہ نغمہ بے پناہ مقبول ہوا اور نسیم بیگم اپنے زمانے کی مقبول ترین گلوکارہ بنیں۔ انھوں نے چار نگار ایوارڈ بھی اپنے نام کیے۔

    نسیم بیگم نے یہ نگار ایوارڈ جن نغمات پر حاصل کیے ان میں سو بار چمن مہکا‘، اس بے وفا کا شہر ہے‘، چندا توری چاندنی میں اور نگاہیں ہوگئیں پُرنم شامل تھے۔

    ان کے گائے ہوئے دیگر مقبول نغمات میں ہم بھول گئے ہر بات‘ آجائو آنے والے‘ نام لے لے کے ترا ہم تو جیے جائیں گے‘ دیساں دا راجہ میرے بابل دا پیارا‘ سرفہرست ہیں۔

    پاکستان کی اس مقبول ترین کلاسیکی گلوکارہ نے سلیم رضا، منیر حسین، مہدی حسن، احمد رشدی اور مسعود رانا کے ساتھ متعدد دو گانے بھی گائے جو سننے والوں میں بے حد مقبول ہوئے۔

    نسیم بیگم کی آواز میں امر ہوجانے والے گیتوں کی مدھرتا آج بھی سننے والوں کے کانوں میں رس گھول رہی ہے۔

  • معروف گلوکار اخلاق احمد کو مداحوں سے بچھڑے 22 برس بیت گئے

    معروف گلوکار اخلاق احمد کو مداحوں سے بچھڑے 22 برس بیت گئے

    4 اگست 1999ء کو پاکستان کے نام وَر گلوکار اخلاق احمد نے ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ اخلاق احمد کی آواز میں کئی فلمی گیت مقبول ہوئے اور آج بھی بڑے ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں۔

    اخلاق احمد 1952ء کو کراچی میں پیدا ہوئے تھے۔ میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ اسٹیج پروگراموں میں شوقیہ گلوکاری کرنے لگے۔ 1971ء میں انھوں نے کراچی میں بننے والی فلم ’’تم سا نہیں دیکھا‘‘ کے لیے ایک گانا ریکارڈ کروایا تھا اور یہیں سے ان کے فلمی کیریئر کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد فلم ’’بادل اور بجلی‘‘ اور ’’پازیب‘‘ میں بھی اخلاق احمد کے گیت شامل ہوئے، لیکن ان کے ذریعے وہ مقبولیت انھیں نہیں ملی جو بعد میں ان کے حصّے میں آئی۔

    1974ء میں اداکار ندیم نے اپنی فلم ’’مٹی کے پتلے‘‘ میں اخلاق احمد کے آواز میں ایک نغمہ شامل کیا اور موسیقار روبن گھوش نے لاہور میں اخلاق احمد کی آواز میں اپنی فلم ’’چاہت‘‘ کا ایک نغمہ ’’ساون آئے، ساون جائے‘‘ ریکارڈ کروایا۔ یہ نغمہ اخلاق احمد کے فلمی سفر کا مقبول ترین نغمہ ثابت ہوا۔ اس گیت پر انھیں خصوصی نگار ایوارڈ بھی عطا ہوا۔

    اسی عرصے میں اخلاق احمد نے پاکستان ٹیلی وژن کے پروگراموں میں گلوکاری کا آغاز کیا اور ملک گیر شہرت اور مقبولیت حاصل کی۔ فلم نگری میں انھوں نے شرافت، دو ساتھی، پہچان، دلربا، امنگ، زبیدہ، انسان اور فرشتہ، انسانیت، مسافر، دوریاں، بسیرا جیسی کام یاب ترین فلموں کے لیے گیت گائے جو بہت پسند کیے گئے۔ اخلاق احمد کا شمار پاکستان میں مقبولیت کے اعتبار سے صفِ اوّل کے گلوکاروں میں ہوتا ہے۔

    خلاق احمد نے آٹھ نگار ایوارڈ اپنے نام کیے تھے۔ 1985ء میں انھیں خون کا سرطان تشخیص ہوا تھا اور وفات کے وقت علاج کی غرض سے لندن میں مقیم تھے۔ انھیں کراچی کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • تعصب یا حبُ الوطنی؟

    تعصب یا حبُ الوطنی؟

    بینجمن بریٹن کو دنیا کا مشہور موسیقار اور لازوال دھنوں کا خالق کہا جاتا ہے۔

    موسیقی اس کا عشق اور اس فن سے اسے محبت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی تخلیق کردہ دھنیں لوگوں کے دلوں میں اتر گئیں اور یادگار ٹھیریں، لیکن اس باکمال آرٹسٹ اور ماہر موسیقار نے وہ دن بھی دیکھا جب اس کی متعدد کاوشیں مسترد کردی گئیں اور ستم یہ ہے کہ وجہ بھی نہیں بتائی گئی۔ اس حوالے سے دریافت کرنے پر تسلی بخش جواب بھی نہیں‌ دیا گیا اور یہ موسیقار آخری سانس تک اس کا سبب نہ جان سکا۔

    یہ 1957 کی بات ہے جب ملکۂ برطانیہ نے ملائیشیا کی آزادی کے پروانے پر اپنی مہر ثبت کی۔ اگست کا مہینہ گویا سَر پر تھا۔ قوم پہلا جشنِ آزادی منانے کے لیے بے تاب تھی۔ کیلنڈر پر جون کی تاریخیں تیزی سے بدل رہی تھیں، مگر نو آزاد ریاست کی حکومت اب تک قومی جھنڈے اور ترانے کا فیصلہ نہیں کرسکی تھی اور اس سلسلے میں فکرمند تھی۔

    بینجمن بریٹن دنیائے موسیقی کا وہ نام تھا جسے اس حوالے سے بھی پہچانا جاتا تھا۔ حکومت نے اس سے رابطہ کیا اور اس نے جلد ہی ایک دُھن سرکاری نمائندے کے سامنے رکھ دی، مگر اسے سندِ قبولیت نہ ملی۔ اس کا سبب نہیں بتایا گیا بلکہ حکام کی خاموشی حد درجہ پُراسرار معلوم ہو رہی تھی۔ بعد میں بینجمن بریٹن سے مزید دھنیں طلب کی گئیں جو اس نے مکمل کر کے حکام کو تھما دیں، مگر عجیب بات یہ ہے کہ ملائیشیا کا ملّی نغمہ اس کے ایک ہم عصر کی دھن سے آراستہ ہے۔

    یہ راز 1976 میں بریٹن کی موت کے بعد کھلا جب ایک برطانوی محقق نے ملّی نغموں کی تاریخ مرتب کی. معلوم ہوا کہ ملائیشیا کے حکام نے اس موسیقار کی اوّلین دھن کو قومی ترانے کے لیے ناموزوں قرار دے کر متعدد مقامی گیتوں کے ‘‘ٹیپ’’ تھما دیے اور ہدایت کی کہ ایسی دُھن ترتیب دے جو ان سے مماثلت رکھتی ہو۔

    ماہر موسیقار نے یومِ آزادی سے ایک ہفتہ قبل اپنی ترتیب دی ہوئی چند دھنیں حکومتی نمائندے کے سپرد کردیں اور مطمئن ہو گیا، لیکن یومِ آزادی پر پڑھے گئے ترانے کی دھن ایک فرانسیسی موسیقار کی ترتیب دی ہوئی تھی۔ وہ حیران تھا کہ ایسا کیوں‌ ہوا مگر وہ زندگی بھر اس کی اصل وجہ نہیں‌ جان سکا۔

    محققین کے نزدیک اس کا سبب بریٹن کی برطانوی شہریت تھی۔ غالباً حکومت کو بعد میں یہ خیال آیا کہ بینجمن اسی ملک کا باشندہ ہے جس کی غلامی سے وہ ابھی آزاد ہوئے ہیں اور اسی برطانیہ کے ایک موسیقار سے ترانے کی دھن بنوانا کسی بھی وقت موضوعِ بحث بن سکتا ہے۔ قوم شاید اسے قبول نہ کرے اور یوں‌ عجلت میں‌ ایک فرانسیسی موسیقار کی خدمات حاصل کر کے قومی ترانے کی دھن بنوائی گئی۔ (تلخیص و ترجمہ: عارف عزیز)

  • یوم آزادی پر لہو گرماتے تاریخ سازملی نغمے

    یوم آزادی پر لہو گرماتے تاریخ سازملی نغمے

    ارضِ پاکستان کے شہری آزادی کا جشن بھرپور انداز میں مناتے ہیں، آج کے دن ہرمحب وطن شہری کے لبوں پرملی نغموں کی سریلی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔

    جب قومی نغموں میں جذبہ اور وطن سے محبت کا جنون شامل ہو اور توقومی ترانے کی مدھر دھن اور سُر آزادی کے پروانوں کو مدہوش کر نے کے ساتھ لطف اندوز کرنے کا ساماں ہوتے ہیں ۔

    یوم آزادی کی تقریبات میں قومی ترانے، قومی نغمے اور اسکے دھن کے رس گھولتے سُر اپنی مخصوص دُھن میں جشن آزادی کے تقدس اوراہمیت کو اور بڑھا دیتی ہے۔

    جشن آزادی پر وطن سے محبت کا اظہار کرنے والے چند ملی نغمے اسے بھی ہیں جو کئی دہائیوں سے ہر محب وطن کے دلوں میں اپنی جگہ بنائے ہوئے ہیں اور وہ آج بھی قوم کا لہو گرماتے ہیں۔

    پاکستان کے مشہور و معروف گلوکاروں کے چند ایسے ملی نغمے جن تخلیق کے بعد سے کبھی ان کی شہرت میں کمی نہیں آئی مندرجہ ذیل ہیں۔

    جنید جمشید کا دل دل پاکستان کبھی کوئی بھول سکتا ہے کیا!!۔

    جنون بینڈ کا جذبہ جنون تو ہمت نہ ہار آج بھی پاکستان کے جوانوں کو جھومنے پر مجبورکردیتا ہے

    اور جب بات ہو لیجنڈ نصرت فتح علی خان کے پاکستان پاکستان کی ، تو بس کمال ہی ہوگیا

  • فواد چوہدری کا معروف گلوکارہ شہنازبیگم کے انتقال پر اظہارتعزیت

    فواد چوہدری کا معروف گلوکارہ شہنازبیگم کے انتقال پر اظہارتعزیت

    اسلام آباد: وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ شہناز بیگم کے گائے نغمے نوجوان نسل میں بھی یکساں مقبول ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے معروف گلوکارہ شہنازبیگم کے انتقال پر اظہارتعزیت کرتے ہوئے کہا کہ ان کے گائے نغمے قوم کی آواز بن چکے ہیں۔

    فواد چوہدری نے کہا کہ شہناز بیگم کے گائے نغمے نوجوان نسل میں بھی یکساں مقبول ہیں، ان کی آواز نغموں اورفن کی صورت میں ان کی یاد دلاتی رہے گی۔

    واضح رہے کہ ’’سوہنی دھرتی اللہ رکھے‘‘ اور ’’جیوے جیوے پاکستان‘‘ جیسے مقبول گیت گانے والے نامور گلوکارہ شہناز بیگم 67 برس کی عمر میں جل بسیں۔

    معروف گلوکارہ شہناز بیگم انتقال کرگئیں

    شہناز بیگم کی نماز جنازہ آج بعد نماز ظہر ڈھاکہ میں ادا کی جائے گی۔ مرحومہ نے سوگواران میں شوہر، ایک بیٹا اورایک بیٹی کو چھوڑا ہے۔

    معروف گلوکارہ شہنازبیگم 2 جنوری 1952 کو ڈھاکہ میں پیدا ہوئیں، انہوں نے کچھ عرصہ پہلے عمرہ کی ادائیگی کے بعد گلوکاری کو خیرباد کہہ دیا تھا۔