Tag: ممالیہ

  • جانوروں کے بال چرا کر اپنا گھونسلہ بنانے والا پرندہ

    جانوروں کے بال چرا کر اپنا گھونسلہ بنانے والا پرندہ

    مختلف جانوروں اور پرندوں کی بعض عادات نہایت عجیب ہوتی ہیں جو وہ اپنی بقا کے لیے اختیار کرتے ہیں تاہم حال ہی میں دریافت ہونے والے ایک پرندے کی نہایت انوکھی حرکت سامنے آئی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق یونیورسٹی آف الی نوائے کے سائنس دانوں نے ایک عجیب و غریب پرندہ دریافت کیا ہے جو ممالیوں کے بال نوچنے میں اپنا جواب نہیں رکھتا۔

    یہ سیاہ سینے والا ٹٹ ماؤس پرندہ ہے جو دیکھنے میں بہت خوبصورت لگتا ہے لیکن اس کی بھولی صورت پر نہ جائیں کیونکہ یہ دیگر بال والے جانوروں سے بغض رکھتا ہے اور ان کے بال نوچنے میں بہت تیز ہے۔ سائنس دانوں نے یوٹیوب پر موجود درجنوں ویڈیو دیکھنے کے بعد اس پرندے پر تحقیق شروع کی۔

    یہ تحقیق ایکولوجی نامی جرنل میں شائع ہوئی ہے اور اس پرندے کو کلیپٹو ٹرائیکی کا عادی بتایا ہے۔ اس لفظ کا مطلب ہے بال چرانا جو قدیم یونانی زبان کا ایک لفظ ہے اور ان کی دیو مالائی کہانیوں میں دوسرے کے بال چوری کرنے والے کئی کردار ملتے ہیں۔

    اس پرندے کو انسانوں، گائے، بکری، گلہری، کتوں، بلیوں اور خار پشت جیسی مخلوق کے بال توڑتے اور چوری کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ یہ پرندے ان بالوں سے اپنا گھونسلہ بناتے ہیں۔

    اربانا شیمپین میں الی نوائے یونیورسٹی سے وابستہ ارتقا اور جانوروں کے رویے کے ماہر پروفیسر مارک ہوبر کہتے ہیں کہ اگرچہ گھونسلے بنانے کے رجحان پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے لیکن دنیا کے معتدل علاقوں میں پرندوں کی جانب سے دوسرے جانوروں کے بالوں سے گھونسلہ سازی کے عام واقعات دیکھے گئے ہیں۔

    اس کی وجہ یہ ہے پرندے اپنے انڈوں کو گرم رکھنے کے لیے دوسرے جانوروں کے بالوں کو نوچتے اور چراتے ہیں، بالخصوص سردیوں میں یہ رجحان عام ہوجاتا ہے۔

  • بارہ سنگھے کی آنکھ وہ دیکھ سکتی ہے جو انسانی آنکھ بھی نہیں دیکھ سکتی

    بارہ سنگھے کی آنکھ وہ دیکھ سکتی ہے جو انسانی آنکھ بھی نہیں دیکھ سکتی

    بارہ سنگھا یورپ و امریکا کے میدانی و برفانی علاقوں میں رہنے والا ایسا جانور ہے جس میں چند ایسی خصوصیات موجود ہوتی ہیں جو کسی اور ممالیہ جاندار میں موجود نہیں ہوتیں۔

    اپنی ان خصوصیات کی وجہ سے بارہ سنگھا تمام ممالیہ جانوروں میں منفرد حیثیت رکھتا ہے، آئیں دیکھتے ہیں وہ کیا خصوصیات ہیں۔

    برطانیہ کی بائیو ٹیکنالوجی اینڈ بائیولوجیکل سائنس ریسرچ کونسل (بی بی ایس آر سی) کی ایک تحقیق کے مطابق برفانی بارہ سنگھے تابکار شعاعیں دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، بارہ سنگھے کے علاوہ کسی اور ممالیہ جانور حتیٰ کہ انسانی آنکھ بھی اس نوع کی نہیں ہوتی جن سے تابکار شعاعیں گزر سکیں۔

    ان شعاعوں کو دیکھنے کی وجہ سے بارہ سنگھے برف میں ان چیزوں کو دیکھ لیتے ہیں جو برف میں کیمو فلاج ہوجاتی ہیں، اس طرح سے انہیں اپنے شکاریوں سے بچنے میں مدد ملتی ہے۔

    اسی خصوصیت کی وجہ سے بارہ سنگھے بجلی کے پولز اور پاور لائنز سے بھی دور رہتے ہیں جن سے نکلتی شعاعیں وہ دیکھ لیتے ہیں۔

    تابکار شعاعیں دیکھ لینے کے باعث بارہ سنگھوں کی آنکھوں کا رنگ بھی ہر موسم میں تبدیل ہوجاتا ہے۔

    برفانی علاقوں کی تاریک راتوں اور سرمئی دنوں میں، بارہ سنگھوں کی آنکھیں قدرتی طور پر نیلے رنگ کی ہوجاتی ہیں جس سے انہیں زیادہ اندھیرے میں دیکھنے میں مدد مل سکے۔

    اسی طرح موسم گرما کی چمکیلی دوپہروں میں چیزوں کو بہتر طور پر دیکھنے کے لیے علیحدہ قسم کی بینائی کی ضرورت ہے جس کے لیے بارہ سنگھوں کی آنکھیں ایک بار پھر اپنا رنگ تبدیل کر کے سنہری رنگ کی ہوجاتی ہیں۔

    دراصل ہر طرح کی روشنی کے لیے آنکھوں کی حساسیت کی سطح مختلف ہوتی ہے اور بارہ سنگھے کی آنکھیں اس سطح کے لیے قدرتی طور پر ایڈجسٹ ہوتی رہتی ہیں۔

    بارہ سنگھے کی آنکھوں کی یہ خصوصیات کسی اور ممالیہ جاندار میں نہیں پائی جاتی۔

  • ہوشیار! کلائمٹ چینج کے باعث پہلا ممالیہ معدوم

    ہوشیار! کلائمٹ چینج کے باعث پہلا ممالیہ معدوم

    کینبرا: سائنسدانوں نے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ کلائمٹ چینج یا موسمیاتی تغیر کے باعث آسٹریلیا میں پائے جانے والے ایک چوہے کی نسل معدوم ہوچکی ہے۔

    بریمبل کے میلومیز نامی یہ چھوٹا چوہا گریٹ بیریئر ریف کا مقامی ممالیہ ہے اور انسانی افعال کے باعث موسمیاتی تغیر یا کلائمٹ چینج کی وجہ سے اس کی نسل مکمل طور پر ختم ہوچکی ہے۔ یہ کلائمٹ چینج کے باعث معدوم ہونے والی پہلا ممالیہ ہے۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے خواتین سب سے زیادہ متاثر

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے نمٹنے کے لیے کاربن اخراج کو ٹھوس بنانے کا طریقہ

    ماہرین کے مطابق یہ معدومی صرف ایک آغاز ہے، کلائمٹ چینج اور ماحولیاتی تبدیلیاں دنیا کے ہر جاندار کے لیے ایک خطرہ بن چکی ہیں۔

    برمبل کے نامی یہ چوہا آسٹریلیا کے کوئنز لینڈ کے شمالی ساحل پر پایا جاتا ہے۔ یہ ایک کم آبادی والا ممالیہ تھا جبکہ اسے بیریئر ریف کا مقامی ممالیہ کہا جاتا تھا۔

    ماہرین کے مطابق اس چوہے کی معدومی کی وجہ سطح سمندر کا بلند ہونا ہے۔ یہ علاقہ سمندر میں پانی میں اضافے کی وجہ سے کئی بار زیر آب آ چکا ہے جس ک باعث کئی چوہے ڈوب کے مر گئے جبکہ ان کے رہنے کے ٹھکانے بھی تباہ ہوگئے۔

    ماہرین نے حتمی طور پر اس نسل کو معدوم قرار دے دیا ہے اور کہا ہے کہ اب ان کی دوبارہ افزائش کا کوئی امکان نہیں ہے۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج اور پانی کی قلت سے مختلف ممالک کی جی ڈی پی میں کمی

    مزید پڑھیں: گلوبل وارمنگ سے گردوں کے امراض میں اضافے کا خطرہ

    واضح رہے کہ کلائمٹ چینج یعنی موسمیاتی تغیر اور گلوبل وارمنگ یعنی عالمی حدت میں اضافے کی وجہ سے 1901 سے لے کر 2010 تک سمندروں کی سطح میں 20 سینٹی میٹر کا اضافہ ہوچکا ہے۔

    اتنا اضافہ پچھلے 60 ہزار سال کی تاریخ میں بھی نہیں دیکھا گیا البتہ آسٹریلیا کے ساحلوں پر صرف 1993 سے 2014 تک کے عرصہ میں یہ اضافہ دگنی مقدار میں دیکھنے میں آیا ہے۔