Tag: ممتاز مفتی

  • "ہم تو چلم پییں گے چاہے آگ جہنم سے لاؤ۔”

    "ہم تو چلم پییں گے چاہے آگ جہنم سے لاؤ۔”

    پہاڑ کی کھوہ میں ایک فقیر رہتا تھا جو دن رات عبادت میں مصروف رہتا تھا۔ اس کے ساتھ ایک بالکا بھی تھا۔ فقیر حقہ پینے کا شوقین تھا، اس لیے اس نے اپنے بالکے کو حکم دے رکھا تھا ہر وقت آگ کا انتظام رکھے۔

    ایک روز آدھی رات کے وقت فقیر نے بالکے کو حکم دیا کہ چلم بھر دے۔ بالکے نے دیکھا کہ بارش کی وجہ سے آگ بجھ چکی تھی۔ اتفاق سے ماچس بھی ختم ہو چکی تھی۔ بالکا گھبرا گیا کہ اب کیا کرے۔

    اس نے فقیر سے کہا "جناب آگ تو بجھ چکی ہے، ماچس ہے نہیں کہ سلگا لوں، بتائیے اب کیا کروں؟” فقیر جلال میں بولا "ہم تو چلم پییں گے چاہے آگ جہنم سے لاؤ۔”

    بالکا چل پڑا چلتے چلتے جہنم کے صدر دروازے پر جا پہنچا۔ دیکھا کہ صدر دروازے پر ایک چوکیدار بیٹھا اونگھ رہا ہے۔ بالکے نے اسے جھنجھوڑا، پوچھا "کیا یہ جہنم کا دروازہ ہے؟” چوکیدار بولا، "ہاں یہ جہنم کا دروازہ ہے۔”

    بالکے نے کہا، "لیکن یہاں آگ تو دکھائی نہیں دیتی۔”

    چوکیدار نے کہا، "ہر جہنمی اپنی آگ اپنے ساتھ لاتا ہے۔”

    (ممتاز مفتی کی "تلاش” سے اقتباس)

  • ممتاز مفتی: اپنے دور کی ایک مشہور شخصیت، ایک مقبول ادیب

    ممتاز مفتی: اپنے دور کی ایک مشہور شخصیت، ایک مقبول ادیب

    ممتاز مفتی کو اردو ادب میں بحیثیت افسانہ نگار، ناول نویس، خاکہ نگار پہچانا گیا جب کہ ان کے تحریر کردہ انشائیے اور سفر نامے ہر خاص و عام میں مقبول ہوئے۔ انھوں نے موضوعات کی سطح پر نئے امکانات اور اپنے تخیّل کی بلند پروازی سے اصنافِ‌ ادب کو ایک نئی معنویت سے آشنا کیا۔ آج ممتاز مفتی کی برسی ہے۔

    ممتاز مفتی نے افسانوی اور غیر افسانوی ادب تخلیق کیا اور ان کی تصانیف کو بہت زیادہ پسند کیا گیا۔ ممتاز مفتی کے موضوعات کا کینوس بہت وسیع ہے لیکن جنس، عورت اور انسانی نفسیات کو ان کے یہاں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ انسانی نفسیات کے مطالعے سے ممتاز مفتی کو ہمیشہ گہرا شغف رہا۔ ممتاز مفتی نے اپنی تحریروں میں انسانی نفسیات کے مختلف پہلوؤں کو نہایت خوب صورتی اور بے تکلفی سے اجاگر کیا جس کی مثال نثر کے میدان میں بہت کم ملتی ہے۔ ممتاز مفتی ایسے ادیب تھے جس نے سیاسی، سماجی، تہذیبی، مذہبی اور قومی مسائل پر بھی قلم اٹھایا اور اسے خوبی سے نبھایا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ممتاز مفتی نے موضوع، مواد اور تکنیک کے اعتبار سے کئی تجربے کیے جو انھیں اردو زبان کے ادیبوں سے جدا کرتے ہیں۔ ان کے افسانوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوگی کہ ان کا موضوع گمبھیر نفسیاتی مسائل اور عام زندگی کی مشکلات ہیں۔

    ان کا اصل نام ممتاز حسین تھا۔ وہ 11 ستمبر 1905ء کو بٹالہ، ضلع گورداس پور میں‌ پیدا ہوئے۔ لاہور سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد درس و تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔ ممتاز مفتی متعدد اہم سرکاری عہدوں پر فائز رہے۔ ممتاز مفتی کا پہلا افسانہ 1936ء میں شائع ہوا تھا۔’’علی پور کا ایلی‘‘، ’’الکھ نگری‘‘ ان کے وہ ناول تھے جو قارئین میں بہت مقبول ہوئے جب کہ ان کا سفر نامہ ’’لبیک‘‘ اور ’’ہند یاترا‘‘ بھی قارئین نے بہت پسند کیے۔ شخصی خاکوں اور تذکروں کی بات کی جائے تو ممتاز مفتی کی تصانیف پیاز کے چھلکے، اوکھے لوگ، اور اوکھے لوگ لائقِ‌ مطالعہ ہیں۔ ممتاز مفتی کے افسانے ان کہی، گہما گہمی، چپ، روغنی پتلے اور سمے کا بندھن کے نام سے کتابی شکل میں منظرِ عام پر آئے جب کہ ’غبارے ‘ کے نام سے انشائیوں بھی شایع ہوا۔

    27 اکتوبر 1995ء کو ممتاز مفتی انتقال کرگئے تھے۔ انھیں اسلام آباد کے ایک قبرستان میں سپرد‌ خاک کیا گیا۔ حکومتِ پاکستان نے ممتاز مفتی کو ستارۂ امتیاز سے نوازا تھا۔

  • جہانِ ادب میں ممتاز، ممتاز مفتی کا تذکرہ

    جہانِ ادب میں ممتاز، ممتاز مفتی کا تذکرہ

    اردو ادب میں‌ ممتاز مفتی کی پہچان ان کی افسانہ اور ناول نگاری، خاکہ نویسی، سفر نامے اور انشائیے ہیں اور موضوعات کی سطح پر نئے امکانات اور اپنے تخیّل کی بلند پروازی سے اردو ادب کی مختلف اصناف کو ایک نئی معنویت سے آشنا کرنا ممتاز مفتی کا امتیازی وصف ہے۔ آج اردو کے اس ادیب کی برسی ہے۔

    ممتاز مفتی نے افسانوی اور غیر افسانوی نثر سے زبان و ادب کو مالا مال کیا اور ان کی تصانیف اردو ادب کا بیش قیمت سرمایہ ہیں۔ ممتاز مفتی کے موضوعات کا کینوس بہت وسیع ہے لیکن جنس، عورت اور انسانی نفسیات کو ان کے یہاں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ انسانی نفسیات کے مطالعے سے ممتاز مفتی کو ہمیشہ گہرا شغف رہا۔ ممتاز مفتی نے اپنی تحریروں میں انسانی نفسیات کے مختلف پہلوؤں کو نہایت خوب صورتی اور بے تکلفی سے اجاگر کیا جس کی مثال نثر کے میدان میں بہت کم ملتی ہے۔ ممتاز مفتی ایسے ادیب تھے جس نے سیاسی، سماجی، تہذیبی، مذہبی اور قومی مسائل پر بھی قلم اٹھایا اور اسے خوبی سے نبھایا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ممتاز مفتی نے موضوع، مواد اور تکنیک کے اعتبار سے کئی تجربے کیے جو ان کو دوسرے نثر نگاروں سے جدا کرتے ہیں۔ ان کے افسانوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوگی کہ ان کا موضوع گمبھیر نفسیاتی مسائل اور عام زندگی کی مشکلات ہیں۔

    ممتاز مفتی کا اصل نام ممتاز حسین تھا۔ وہ 11 ستمبر 1905ء کو بٹالہ، ضلع گورداس پور میں‌ پیدا ہوئے۔ لاہور سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد درس و تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔ انھوں‌ نے متعدد سرکاری عہدوں پر خدمات انجام دیں۔

    ممتاز مفتی کا پہلا افسانہ 1936ء میں شائع ہوا تھا۔’’علی پور کا ایلی‘‘، ’’الکھ نگری‘‘ ان کے وہ ناول تھے جو قارئین میں بہت مقبول ہوئے جب کہ ان کا سفر نامہ ’’لبیک‘‘ اور ’’ہند یاترا‘‘ بھی قارئین نے بہت پسند کیے۔ شخصی خاکوں اور تذکروں کی بات کی جائے تو ممتاز مفتی کی تصانیف پیاز کے چھلکے، اوکھے لوگ، اور اوکھے لوگ لائقِ‌ مطالعہ ہیں۔ ممتاز مفتی کے افسانے ان کہی، گہما گہمی، چپ، روغنی پتلے اور سمے کا بندھن کے نام سے کتابی شکل میں منظرِ عام پر آئے جب کہ ’غبارے ‘ کے نام سے انشائیوں بھی شایع ہوا۔

    27 اکتوبر 1995ء میں ممتاز مفتی اس دارِ فانی کو خیرباد کہہ گئے تھے۔ وہ اسلام آباد کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ انھیں حکومتِ پاکستان نے ستارۂ امتیاز سے نوازا تھا۔

  • یومِ‌ وفات: ممتاز مفتی نے اپنی کہانیوں کے کرداروں کے باطن کو موضوع بنایا اور قارئین میں مقبول ہوئے

    یومِ‌ وفات: ممتاز مفتی نے اپنی کہانیوں کے کرداروں کے باطن کو موضوع بنایا اور قارئین میں مقبول ہوئے

    اردو ادب میں اپنے افسانوں اور ناول نگاری کے سبب پہچان بنانے والے ممتاز مفتی کو ان کے سفر ناموں کی بدولت بے پناہ مقبولیت ملی۔ وہ اپنی ڈراما نگاری اور خاکہ نویسی کے لیے بھی مشہور ہیں۔ آج ممتاز مفتی کی برسی ہے۔

    ممتاز مفتی اردو افسانے کی روایت میں ایک اہم افسانہ نگار کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انھوں نے موضوع، مواد اور تکنیک کے اعتبار سے کئی تجربے کیے۔ ان کے افسانوں کا موضوع گمبھیر نفسیاتی مسائل اور عام زندگی کی مشکلات ہیں۔ ’علی پور کا ایلی‘ ممتاز مفتی کا ایک ضخیم ناول ہے جسے بہت سراہا گیا اور قارئین میں بے حد مقبول ہوا۔

    ممتاز مفتی کا اصل نام ممتاز حسین تھا۔ وہ 11 ستمبر 1905ء کو بٹالہ، ضلع گورداس پور میں‌ پیدا ہوئے۔ لاہور سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد درس و تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔ ممتاز مفتی کا پہلا افسانہ 1936ء میں شائع ہوا تھا۔

    ممتاز مفتی کا ناول ’’الکھ نگری‘‘ بھی قارئین میں بہت مقبول ہوا جب کہ سفر نامے ’’لبیک‘‘ اور ’’ہند یاترا‘‘ کو بہت پزیرائی ملی۔ ان کے خاکوں کے مجموعے پیاز کے چھلکے، اوکھے لوگ، اور اوکھے لوگ کے نام سے شایع ہوئے۔ ممتاز مفتی کے افسانے ان کہی، گہما گہمی، چپ، روغنی پتلے اور سمے کا بندھن کے نام سے کتابی شکل میں منظرِ عام پر آئے۔
    انھوں نے انشائیے بھی لکھے اور ’غبارے ‘ کے نام سے ان کے انشائیوں کا مجموعہ بہت پسند کیا گیا۔

    27 اکتوبر 1995ء کو ممتاز مفتی نے اس دارِ فانی کو الوداع کہا، وہ اسلام آباد کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

    حکومتِ پاکستان نے ادبی خدمات کے اعتراف میں ممتاز مفتی کو ستارۂ امتیاز سے نوازا۔

  • تیز طرّار محبوبہ اور انشا جی کی دیوانگی

    تیز طرّار محبوبہ اور انشا جی کی دیوانگی

    احمد بشیر کا کہنا ہے کہ ابنِ انشا نے بڑی سوچ بچار سے عشق لگایا تھا، ایسی محبوبہ کا چناؤ کیا تھا جو پہلے ہی کسی اور کی ہو چکی تھی اور شادی شدہ اور بچّوں والی تھی۔

    جس کے دل میں انشا کے لیے جذبۂ ہم دردی پیدا ہونے کا کوئی امکان نہ تھا۔ جس سے ملنے کے تمام راستے مسدود ہو چکے تھے۔ اپنے عشق کو پورے طور پر محفوظ کر لینے کے بعد اس نے عشق کے ساز پر بیراگ کا نغمہ چھیڑ دیا۔

    مواقع تو ملے مگر انشا نے کبھی محبوبہ سے بات نہ کی، اس کی ہمّت نہ پڑی۔ اکثر اپنے دوستوں سے کہتا: ’’یار اُسے کہہ کہ مجھ سے بات کرے۔‘‘

    اس کے انداز میں بڑی منت اور عاجزی ہوتی پھر عاشق کا جلال جاگتا، وہ کہتا: ’’دیکھ اس سے اپنی بات نہ چھیڑنا۔ باتوں باتوں میں بھرما نہ لینا۔‘‘

    محبوبہ تیز طرّار تھی، دنیا دار تھی۔ پہلے تو تمسخر اڑاتی رہی۔ پھر انشا کی دیوانگی کو کام میں لانے کا منصوبہ باندھا۔

    اس دل چسپ مشغلے میں میاں بھی شریک ہوگیا۔ انشا کو فرمائشیں موصول ہونے لگیں۔ اس پر انشا پھولے نہ سماتا۔

    دوستوں نے اسے بار بار سمجھایا کہ انشا وہ تجھے بنا رہی ہے۔ انشا جواب میں کہتا کتنی خوشی کی بات ہے کہ بنا تو رہی ہے۔ یہ بھی تو ایک تعلق ہے۔ تم مجھے اس تعلق سے محروم کیوں کر رہے ہو۔

    ایک روز جب وہ فرمائش پوری کرنے کے لیے شاپنگ کرنے گیا تو اتفاق سے میں بھی ساتھ تھا۔

    میں نے انشا کی منتیں کیں کہ انشا جی اتنی قیمتی چیز مت خریدو۔ تمہاری ساری تنخواہ لگ جائے گی۔

    انشا بولا۔ ’’مفتی جی، تمہیں پتا نہیں کہ اس نے مجھے کیا کیا دیا ہے۔ اس نے مجھے شاعر بنا دیا۔ شہرت دی۔ زندگی دی!‘‘

    انشا کی آنکھوں میں آنسو چھلک رہے تھے۔

    (ممتاز مفتی کی کتاب ’’اور اوکھے لوگ‘‘ سے ماخوذ)

  • اردو ادب میں‌ منفرد و ممتاز، ممتاز مفتی کی برسی

    اردو ادب میں‌ منفرد و ممتاز، ممتاز مفتی کی برسی

    ممتاز مفتی اردو ادب کا وہ معتبر نام ہے جس نے اپنے ناولوں، افسانوں سے تخلیقی ادب میں اپنی پہچان بنائی اور اپنے سفر ناموں کے سبب مقبولیت اور پذیرائی حاصل کی۔ خاکہ نگاری اور ڈراما نویسی کے علاوہ ان کے مضامین بھی اردو ادب کا نثری سرمایہ ہیں۔

    اپنی فکر و نظر کی گہرائی سے افسانوی اور غیر افسانوی ادب کی مختلف اصناف کو نئے موضوعات اور نئی معنویت سے ہمکنار کرنے والے ممتاز مفتی کی آج برسی منائی جارہی ہے۔

    ممتاز مفتی کا اصل نام ممتاز حسین تھا۔ وہ 11 ستمبر 1905ء کو بٹالہ، ضلع گورداس پور میں‌ پیدا ہوئے۔ لاہور سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد درس و تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔ ممتاز مفتی کا پہلا افسانہ 1936ء میں شائع ہوا تھا۔

    ممتاز مفتی کا سوانحی ناول ’’علی پور کا ایلی‘‘ اور ’’الکھ نگری‘‘ قارئین میں بہت مقبول ہوئے۔ اسی طرح ان کے سفر نامے ’’لبیک‘‘ اور ’’ہند یاترا‘‘ کو بہت پزیرائی ملی جب کہ ان کے خاکوں کے مجموعے پیاز کے چھلکے، اوکھے لوگ، اور اوکھے لوگ کے نام سے شایع ہوئے۔

    ممتاز مفتی کے افسانے ان کہی، گہما گہمی، چپ، روغنی پتلے اور سمے کا بندھن کے نام سے کتابی شکل میں منظرِ عام پر آئے۔

    27 اکتوبر 1995ء کو ممتاز مفتی نے اس دارِ فانی کو الوداع کہا، وہ اسلام آباد کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

    حکومتِ پاکستان نے ممتاز مفتی کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انھیں ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا۔

  • اردو ادب کی بے مثال مصنف بانو قدسیہ کی پہلی برسی

    اردو ادب کی بے مثال مصنف بانو قدسیہ کی پہلی برسی

    اردو ادب کی شاہکار تصنیف ’راجہ گدھ‘  اور دیگر بے شمار لازوال تصانیف کی خالق بانو قدسیہ کی پہلی برسی منائی جارہی ہے‘ داستان سرائے کی اس مکین کے رخصت ہونے سے اردو ادب ایک بے مثال و بے بدل مصنف سے محروم ہوگیا۔

    مشہور ناول نویس، افسانہ نگار اور ڈرامہ نگار بانو قدسیہ 28 نومبر سنہ 1928 کو فیروز پور(بھارت) میں پیدا ہوئی تھیں۔ انھیں بچپن سے ہی کہانیاں لکھنے کا شوق تھا اور پانچویں جماعت سے انہوں نے باقاعدہ لکھنا شروع کردیا بانو قدسیہ نے ایف اے اسلامیہ کالج لاہور جب کہ بی اے کنیئرڈ کالج لاہور سے کیا۔

    سنہ 1950 میں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا اورمشہور افسانہ نگاراورڈرامہ نویس اشفاق احمد سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئیں۔ معروف مصنف ممتاز مفتی اپنی تصنیف ’الکھ نگری‘ میں ان کی شادی کا قصہ نہایت دلچسپ انداز میں بیان کرتے ہیں، جس کے مطابق اشفاق احمد کا پٹھان خاندان ایک غیر پٹھان لڑکی سے ان کی شادی پر آمادہ نہیں تھا، اور ان دونوں کا نکاح بانو قدسیہ کے گھر پر نہایت رازداری سے ہوا تھا۔

    شادی کے بعد بانو قدسیہ نے اپنے شوہر کے ہمراہ میں ادبی پرچہ داستان گو جاری کیا۔

    bano-2

    بانو قدسیہ کا شمار اردو کے اہم افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے، ان کے افسانوی مجموعوں میں ناقابل ذکر، بازگشت، امر بیل، دست بستہ، سامان وجود ، توجہ کی طالب، آتش زیرپا اور کچھ اور نہیں کے نام شامل ہیں۔ انہوں نے کئی ناول بھی تحریر کیے۔ ان کا شہرہ آفاق ناول راجہ گدھ اپنے اسلوب کی وجہ سے اردو کے اہم ناولوں میں شمار ہوتا ہے۔

    ان کی دیگر تصانیف میں ایک دن، شہر لا زوال، پروا، موم کی گلیاں، چہار چمن، دوسرا دروازہ، ہجرتوں کے درمیاں اور ان کی خود نوشت راہ رواں کے نام سر فہرست ہیں۔

    انہوں نے ٹیلی ویژن کے لیے بھی کئی یادگار ڈرامہ سیریلز اور ڈرامہ سیریز تحریر کیے جن کے متعدد مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ حکومت پاکستان نے آپ کو ستارہ امتیاز کا اعزاز عطا کیا ہے۔

    ممتاز مفتی اپنی ایک تحریر میں لکھتے ہیں، ’پہلی مرتبہ میں نے بانو کو اس وقت سنا جب قدسی کے بڑے بیٹے نوکی نے کہا، امی ایڈیٹر صاحب آپ سے ملنے آئے ہیں۔ قدسی ڈرائینگ روم میں چلی گئیں۔

    پھرڈرائنگ روم میں کوئی باتیں کر رہی تھی۔ افسانوں کی باتیں، کرداروں کی باتیں، مرکزی خیال، انداز بیان کی خصوصیات کی باتیں، ان باتوں میں فلسفہ، نفسیات اور جمالیات تھی۔

    میں حیرت سے سن رہا تھا۔ اللہ اندر تو قدسی گئی تھی لیکن یہ باتیں کون کر رہی ہے۔ قدسی نے تو کبھی ایسی باتیں نہیں کیں وہ تو خالی جی ہاں، جی ہاں ہے اگر، مگر، چونکہ، چنانچہ، کون ہے کرتی تھی۔ تب مجھے پتہ چلا بانو کون ہے‘۔

    اپنے ناول راجہ گدھ میں بانو قدسیہ نے ایک کردار پروفیسر سہیل کی زبانی حرام اور حلال کے نظریے کو نہایت انوکھے انداز میں بیان کیا ہے۔ ’جس وقت حرام رزق جسم میں داخل ہوتا ہے وہ انسانی جینز کو متاثر کرتا ہے۔ رزق حرام سے ایک خاص قسم کی میوٹیشن ہوتی ہے جو خطرناک ادویات، شراب اور ریڈی ایشن سے بھی زیادہ مہلک ہے۔ رزق حرام سے جو جینز تغیر پذیر ہوتے ہیں وہ لولے، لنگڑے اور اندھے ہی نہیں ہوتے بلکہ نا امید بھی ہوتے ہیں نسل انسانی سے۔ یہ جب نسل در نسل ہم میں سفر کرتے ہیں تو ان جینز کے اندر ایسی ذہین پراگندگی پیدا ہوتی ہے جس کو ہم پاگل پن کہتے ہیں۔ یقین کر لو رزق حرام سے ہی ہماری آنے والی نسلوں کو پاگل پن وراثت میں ملتا ہے اور جن قوموں میں من حیث القوم رزق حرام کھانے کا لپکا پڑ جاتا ہے وہ من حیث القوم دیوانی ہونے لگتی ہیں‘۔

     بانو قدسیہ چار فروری کو علالت کے بعد لاہور کے نجی اسپتال میں انتقال کرگئی تھیں‘ جس کے بعد اردو ادب کا ایک اورباب بند ہوگیا۔ انہیں ان کے محبوب شوہر اشفاق احمد کے پہلو میں سپردِ خاک کیا  گیا تھا۔