Tag: منشا یاد

  • جب احمد فراز مشاعرے کے پنڈال سے اٹھ کر باہر نکل گئے

    جب احمد فراز مشاعرے کے پنڈال سے اٹھ کر باہر نکل گئے

    کوثر نیازی پاکستان کے نامی گرامی سیاست داں تھے جن کا دور بطور مشیر اور وزیر کئی اعتبار سے ہنگامہ خیز اور متنازع بھی رہا، لیکن وہ صرف سیاست کے میدان میں متحرک نہیں رہے بلکہ ایک عالمِ دین، ادیب و شاعر اور عوام میں ایک زبردست مقرر کے طور بھی پہچانے گئے۔ پاکستان کے مقبول ترین شاعر احمد فراز اس دور میں آمریت کے خلاف اپنی مزاحمتی شاعری کی وجہ سے حکومتوں کے معتوب تھے۔ ان کی مولانا کوثر نیازی سے نہیں‌ بنتی تھی۔

    اس زمانے میں سرکاری اداروں اور حکومتی مالی امداد سے مختلف ادبی تنظمیوں کے پلیٹ فارم مشاعروں کا انعقاد کرتے تھے یہ ایک ایسے ہی مشاعرے کا دل چسپ احوال ہے جس میں کوثر نیازی اور احمد فراز نے اپنا کلام سنایا تھا۔ یہ معروف انشا پرداز اور ادیب منشا یاد کی کتاب ’’حسبِ منشا‘‘ سے لیا گیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    گردیزی صاحب چیئرمین سی ڈی اے اور میں ان کا پی آر اوتھا۔ سی ڈی اے ہر سال یوم آزادی کے سلسلے میں ایک کل پاکستان مشاعرہ منعقد کرتا تھا جس میں فیض احمد فیض، احمد فراز اور حبیب جالب کو مدعو نہیں کیا جاتا تھا اور فراز تو ویسے بھی ان دنوں خود ساختہ جلاوطنی کے بعد لندن میں مقیم تھے۔ تاہم مجھے ان شعرا کی کمی بہت محسوس ہوتی لیکن یہ ایک سرکاری ادارہ تھا، اس لیے ہم حکومتی پالیسی کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے تھے۔

    اس مشاعرے میں ان تینوں کے سوا دوسرے شہروں سے تقریباً سبھی اہم شعرا جیسے حفیظ جالندھری، احمد ندیم قاسمی، جمیل الدین عالی، احسان دانش، ظہور نظر، قتیل شفائی، منیر نیازی، وزیر آغا، پروین شاکر، خاطر غزنوی، دلاور فگار، شریف کنجاہی، شہزاد احمد، ظفر اقبال، عارف عبدالمتین، عاصی کرنالی، امجد اسلام امجد، عطاء الحق قاسمی، اسلم انصاری، نوشابہ نرگس، مظفر وارثی، ریاض مجید، ارشد ملتانی، محسن احسان، جوگی جہلمی، جانباز جتوئی، حمایت علی شاعر، چانگ شی شوئن (انتخاب عالم)، نصیر ترابی اور بعض دیگر شعرا شامل ہوتے رہے۔ لیکن فیض، فراز اور حبیب جالب کی کمی محسوس ہوتی تھی۔ لیکن یہ دور اور جنرل ضیاء الحق کے گزر جانے کے بعد جب سی ڈی اے کا مشاعرہ منعقد ہوا اور احمد فراز شہر میں موجود تھے تو میں نے انہیں مشاعرے میں شرکت کے لیے فون کیا۔

    انہوں نے صدر اور مہمانِ خصوصی وغیرہ کے بارے میں استفسار کیا تو میں نے بتایا کہ سید ضمیر جعفری صدارت کریں گے اور مولانا کوثر نیازی مہمانِ خصوصی ہوں گے۔ اس پر فراز صاحب نے مشاعرے میں شرکت کرنے سے معذرت کر لی۔میں نے بہت اصرار کیا مگر وہ نہ مانے۔ میں نے اپنے افسران کو بتا دیا کہ فراز نہیں مان رہے۔ لیکن مولانا اسلام آباد سے سینیٹر تھے اور سی ڈی اے کے کچھ مالی مفادات ان سے وابستہ تھے اس لیے انہیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا تھا۔

    ادھر احمد فراز کے بغیر مشاعرے کا کچھ لطف نہ آتا۔ ان دنوں ناصر زیدی، احمد فراز کے بہت قریب تھے اور یوں بھی وہ مشاعروں کے انتظامات اور رابطوں کے ماہر تصور کئے جاتے تھے۔ میں نے ان سے سفارش کرائی مگر فراز پھر بھی نہ مانے۔ جب میں نے بہت مجبور کیا تو اس شرط پر راضی ہوئے کہ وہ مولانا کے ساتھ اسٹیج پر نہیں بیٹھیں گے۔ ان کو پڑھوانے کا الگ انتظام کیا جائے۔ میں نے ان کی یہ شرط مان لی اور وہ آگئے۔ یہ مشاعرہ مقامی ہوٹل کے سوئمنگ پول کے کنارے ہو رہا تھا۔ میں خود انتظامی امور میں مصروف تھا اس لیے میں نے پروین شاکر سے نظامت کے لیے کہا۔ مگر وہ دیر سے آئیں اور میں نے ایک ایک کر کے شعرا کو اسٹیج پر بلایا اور مشاعرہ شروع کرا دیا۔ احمد فراز حسبِ وعدہ سامعین میں بیٹھ گئے۔ میں نے اشاروں سے ان کی منت سماجت کی کہ وہ اسٹیج پر آجائیں مگر وہ نہ مانے۔

    تھوڑی دیر میں پروین شاکر آگئیں تو میں نے نظامت ان کے حوالے کی اور ان سے کہا کہ وہ فراز صاحب سے کہیں کہ اسٹیج پر آجائیں کیوں کہ لوگ انہیں اسٹیج پر نہ دیکھ کر پریشان ہو رہے تھے بلکہ چہ میگوئیاں کر رہے تھے۔ پروین نے بھی انہیں اشاروں سے اسٹیج پر آنے کے لیے اصرار کیا۔ میرا خیال تھا کہ وہ اس کی بات نہیں ٹالیں گے مگر احمد فراز اپنی ضد پر قائم رہے۔ پھر جب ان کی باری آئی تو روسٹرم اسٹیج سے نیچے لایا گیا اور انہوں نے ’’سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں…‘‘ والی غزل پہلی بار اس مشاعرے میں سنائی جو بعد میں بہت مشہور ہوئی۔

    لطف کی بات یہ ہے کہ مولانا صاحب اس پر داد دیتے اور سر ہلاتے رہے لیکن جب مولانا صاحب کے پڑھنے کی باری آئی تو احمد فراز سگریٹ سلگا کر منہ سے دھواں نکالتے ہوئے مشاعرے سے اٹھ کر چلے گئے اور ان کے پڑھ لینے کے بعد اسی طرح منہ سے دھواں نکالتے کہیں سے نمودار ہو گئے۔

  • آسیب

    آسیب

    شروع میں تو کتنا عرصہ ہمیں یقین ہی نہ آیا کہ یہ جو دن رات کی دوڑ دھوپ کے باوجود ہماری پوری نہیں پڑتی اور آئے روز بیماری، لڑائی جھگڑے اور چھوٹے موٹے حادثات کی صورت، کوئی نہ کوئی آفت ہمیں گھیرے رکھتی ہے، اس کی اصل وجہ کیا ہے۔ ہم یہی سمجھتے رہے کہ یہ سب اللہ کی طرف سے ہے۔ بلکہ امی ابّا کا کہنا تھا کہ یہ ہمارے گناہوں کی سزا ہے۔

    حالانکہ یہ بات میری سمجھ میں کبھی نہیں آئی کہ جب اللہ میاں نے گناہوں کی سزا کے لئے اگلی دنیا میں دوزخ کی آگ بھڑکا رکھی ہے تو یہاں کیوں؟ یہ تو دہری سزا ہو گئی۔ اور یہ جو ہمارے آس پاس کے لوگ مزے کی زندگی بسر کر رہے ہیں تو کیا انہوں نے کبھی کوئی گناہ نہیں کیا اور ان کی رسی کیوں اتنی دراز ہے۔ اور حالانکہ اس بات کے اشارے کہ نظر نہ آنے والی کوئی مخلوق وہاں پہلے سے رہ رہی ہے مکان کی تعمیر کے وقت ہی سے مل رہے تھے۔ کبھی رنگ کا ڈبہ، کبھی سیمنٹ کی بوری اور کبھی مستریوں کاریگروں کے اوزار گم ہو جاتے۔ کبھی تازہ پلستر پر یوں الٹی سیدھی لکیریں ڈال دی جاتیں جیسے رات بھر بھتنے کٹم کاٹا کھیلتے رہے ہوں۔ بعض اوقات کوئی فضول سا جملہ بھی لکھ دیا جاتا جس کے ہجوں سے پتہ چلتا پرائمری اسکول سے بھاگے ہوئے کسی بچے کی تحریر ہے۔ اس لئے ہم اسے مزدوروں اور ملحقہ کچی بستی کے آوارہ لڑکوں کی کارروائی سمجھتے رہے۔ بلکہ مکان میں منتقل ہو جانے کے کچھ عرصہ بعد جب گھر کی عورتیں شکایت کرتیں کہ رات کو گلدان میں سجائے گئے پھول اگلی صبح کو پتی پتی ہوئے پڑے ملتے ہیں، ایک کمرے کی چیز دوسرے اور دوسرے کی تیسرے یا کوڑا دان میں ملتی ہے اور بچوں کے کھلونے اور وڈیو گیمز توڑ کر پھینک دی جاتی ہیں تو ہم اسے گھر کے بچوں کی شرارت سمجھتے اور انہیں سرزنش کر کے مطمئن ہوجاتے۔ وہ زیادہ اصرار کرتیں تو ہم، گھر کے مرد، انہیں ضعیفُ العقیدہ اور توہم پرست قرار دیتے اور ان کا مذاق اڑاتے۔

    مگر حیرت ہوتی کہ کمپیوٹر سائنس میں ماسٹر کی ڈگری رکھنے والی بھابی بھی ان کی ہمنوا ہو گئیں کہ گھر پر کسی آسیب کا سایہ ہے۔ چھوٹی بہن روحی نے فلاسفی پڑھی تھی اس نے شروع شروع میں کچھ روز فلسفہ بگھارا پھر وہ بھی چپ ہو گئی۔ بلکہ ہر وقت ڈری ڈری رہنے لگی۔ بعد میں پتہ چلا وہ میرا سویٹر بُن رہی تھی جب آدھا بُن چکی تو ایک صبح وہ سارا ادھڑا ہوا ملا۔ بچّوں کو ڈانٹا ڈپٹا گیا اور اس نے دوبارہ بُننا شروع کیا مگر وہ جتنا ہر روز بُنتی وہ اگلے روز ادھڑا ہوا ملتا۔ اور سرہانے رکھ کر سونے سے اسے ڈر لگتا مبادا وہ غیبی ہاتھ جو سویٹر ادھیڑتا تھا اس کا گلا دبا دے۔ آخرکار اس نے سویٹر بُننا ہی چھوڑ دیا اور میرے لئے بازار سے ریڈی میڈ خرید لائی۔

    قریب ہی کچی آبادی تھی اور اگرچہ بلدیہ نے اس کے گرد چار دیواری تعمیر کر رکھی تھی اور آنے جانے کے راستے مقرر کر دیے تھے مگر یہاں کے کھمبیوں کی طرح اگنے والے بچّے جہاں سے جی چاہتا دیوار پھلانگ کر آس پاس کی کوٹھیوں بنگلوں میں گھس آتے اور جو چیز ہاتھ لگتی اٹھا لے جاتے اور پھل دار درختوں پر تو بیتالوں کی طرح ایک ساتھ کئی کئی لٹکے نظر آتے۔ مگر اس سے محلّے کے لوگوں کو کچھ آسانیاں بھی تھیں۔ گھر کے کام کاج کے لئے لڑکے، لڑکیاں اور عورتیں کم معاوضے پر مل جاتیں اور ان کے مردوں کو آسانی سے بیگار میں پکڑا جا سکتا۔ خود ہمارے ہاں اسی آبادی کی ایک بیوہ عورت کام کرتی تھی۔ شروع میں وہ رات کو اپنے گھر چلی جاتی تھی مگر جب امی کو پتہ چلا وہ اپنے دو بچّوں کے ساتھ زمین کھود کر بنائے گئے غار نما کمرے میں رہتی ہے جس کے بیٹھ جانے کا دھڑکا لگا رہتا ہے انہوں نے سرونٹ روم کو، جو اسٹور کے طور پر استعمال ہو رہا تھا، خالی کر کے رہائش کے لئے دے دیا۔ ابّا کا خیال تھا ساری خرابی یہیں سے پیدا ہوئی تھی اور یہ ساری حرکتیں ملازمہ کی نو دس سالہ بیٹی کرتی تھی جسے پڑھنے اور کھیلنے کی عمر میں اسکول چھڑوا کر کام پر لگا دیا گیا تھا۔ لیکن وارداتوں کی نوعیت دیکھ کر یقین نہ آتا۔ یہ اتنی چھوٹی بچّی کے بس کی بات نہ تھی، پھر بھی اس کی خوب نگرانی اور باز پرس کی گئی مگر آخر کار اسے بری الذّمہ قرار دے دینا پڑا۔ اس کی بجائے خواتین کو ملازمہ کا چند ماہ کا بچّہ زیادہ پُر اسرار اور منحوس معلوم ہوتا تھا جو پیدا ہوتے ہی اپنے باپ کو کھا گیا تھا ورنہ اس زمانے میں صرف بخار سے بھی کوئی مرتا ہے۔ یوں بھی وہ عام بچّوں کے برعکس بہت کم روتا تھا۔ ماں اسے دودھ پلاتی یا بھوکا رکھتی، وہ گھنٹوں چپ چاپ پڑا انگوٹھا چوستا اور کھیلتا رہتا۔

    میرا اپنا خیال تھا کہ یہ کوئی ایسی غیر معمولی بات نہ تھی۔ پیدا کرنے والے کو تو پتہ ہی تھا اسے کس مٹی سے بنانا اور اس میں صبر و شکر کی کتنی مقدار ملانی ہے۔ مگر گھر کی عورتوں کو اس سے خوف آتا اور وہ کبھی دبے اور کبھی واشگاف لفظوں میں اس کا اظہار کرتیں۔ مگر ایک کی تنخواہ میں کام کرنے والی دو، انہیں اور کہاں مل سکتی تھیں، ناچار برداشت کرتی رہیں۔

    پھر رفتہ رفتہ پریشان کن واقعات جلدی جلدی اور تواتر سے رونما ہونے لگے۔ چھوٹی چھوٹی اور خاص طور پر خوشبودار چیزیں غائب ہونے لگیں۔ کبھی ہیر آئل کی شیشی، کبھی شیمپو اور کبھی پاؤڈر کا ڈبہ۔ واش ہینڈ بیسن سے صابن کی ٹکیا غائب ہو جاتی اور کسی روشن دان یا الماری کے اوپر جہاں کسی کوتاہ قد یا بچّے کا ہاتھ نہ پہنچ سکتا ہو پڑی ملتی۔ سنگھار میز کی اکثر چیزیں غائب یا خراب کر دی جاتیں۔ لپ اسٹک دیواروں پر اور شو پالش آئینوں پر مل دی جاتی۔ خوشبودار چیزوں کے ساتھ ہی گھر سے مہرومحبت کی خوشبو بھی اٹھ گئی۔ ایک دوسرے پر شک و شبے کا اظہار، الزام تراشیاں اور جھگڑے۔

    گھر میں ابّا جان کے علاوہ بھی کوئی نہ کوئی بیمار رہنے لگا۔ اور سرہانے رکھی دوا کی شیشی یا کیپسولز غائب ہو جاتے۔ لیکن عجیب بات یہ تھی کہ اکثر چیزیں کہیں دوسری جگہ پڑی مل جاتیں۔ بعض اوقات گندی اور ناکارہ چیزیں پاک صاف جگہوں اور پاک صاف چیزیں غسل خانے یا گٹر سے برآمد ہوتیں۔ لیکن پھر یہی بچگانہ حرکتیں خطرناک صورت اختیار کر گئیں جیسے وہ نامراد اپنی موجودگی کا بھر پور احساس دلانا چاہتے ہوں۔ اب چاقو، بلیڈ اور قینچی وغیرہ کا استعمال ہونے لگا۔ خوبصورت اور نئے سل کر آئے ہوئے کپڑے خاص طور پر نشانہ بنتے۔ شوخ رنگ کی ٹائیاں، کامدار دوپٹے، شادی کے جوڑے اور تکیوں کے پھول دار غلاف کاٹ، کتر دیے جاتے۔ آج اگر مُنّی اپنا فراک چاک ہو جانے پر رو رہی ہے یا روحی اپنے جہیز کے کسی قیمتی جوڑے میں شگاف ڈال دیے جانے پر آنسو بہا رہی ہے تو کل بھابی اپنی کسی ساڑھی یا دوپٹے پر قینچی چل جانے پر واویلا کر رہی ہیں۔ بالآخر گھر کے لوگ ایک دوسرے سے اور دور ہونے لگے۔ شاید ان بد ذاتوں اور بد ذوقوں کا مقصد بھی یہی تھا۔ بھابی نے ایک روز حساب لگایا کہ روحی کے مشترکہ کھاتے کے جہیز کو چھوڑ کر ان کا نقصان زیادہ ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے صرف قیمتی اور نئے جوڑوں پر جب کہ ہمارے معمولی اور پرانے کپڑوں پر قینچی چلی۔

    دراصل بھائی کی تنخواہ اور میرا کنبہ بڑا تھا۔ یہ ان کی دوسری شادی تھی۔ پہلی بے اولاد بیوی سے طلاق کے کئی سال بعد وہ مشکل سے دوسری شادی پر رضامند ہوئے تھے۔ اب ان کے دو بچّے تھے جن کی عمریں پانچ سال سے کم تھیں۔ میرے بچّوں کی تعداد ان سے تین گنا تھی۔ دو بڑے اور سمجھدار، چار چھوٹے جو پرائمری اور ہائی اسکولوں میں پڑھتے تھے۔ بھابی کو مشترکہ کھاتے کے مستقل نقصان کا قلق رہتا تھا۔ بہانہ ہاتھ آ گیا تو گھر کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ والدہ اور روحی ہمارے اور والد صاحب بھائی کے حصّے میں آئے اور کچی آبادی کی ماں بیٹی اسی تنخواہ پر دو گھروں کا کام کرتی رہیں۔

    دل چسپ بات یہ ہوئی کہ بھائی بھابی کے علیحدہ ہو جانے سے اچانک امن اور سکون ہو گیا جس سے ان کے اس شبے کو تقویت ملی کہ میرے بیوی بچّے ان کے قیمتی اور شاندار کپڑوں سے جلتے تھے اور موقع پا کر انہیں خراب کر دیتے تھے۔ ابّا ان کے دسترخوان پر کھاتے تھے، قدرتی طور پر وہ بھی ان کی ہمنوائی کرنے لگے۔ مجھے خود بھی شک ہو گیا اور میں نے اپنے کنبے کے ہر فرد سے باز پرس کی۔ راتوں کو اٹھ اٹھ اور چھپ چھپ کر ان کی جاسوسی کرتا خصوصاً لڑکیوں پر نگاہ رکھتا کہ سائے اور آسیب کی ہر کہانی کا تعلق عام طور پر کسی بالغ یا نابالغ لڑکی یا گھٹن اور ہسٹیریا میں مبتلا عورت ہی سے ہوتا ہے۔ جب مجھے یقین ہو گیا کہ میرے بچّوں کو پڑھائی سے فرصت نہیں اسی لئے وہ امتحانوں میں اوّل دوم آتے رہتے ہیں تو میں نے صفائی دینے کی کوشش کی اور کہا کہ یہ کوئی تیسرا ہے جو بھائیوں میں نفاق ڈال رہا ہے۔ غیر برادری کی بھابی نے سمجھ لیا میرا اشارہ ان کی طرف ہے۔ اس پر گھر میں خوب ہنگامہ ہوا۔ غریب کی تو معافی بھی کوئی قبول نہیں کرتا خواہ وہ سگا بھائی ہی کیوں نہ ہو۔ مگر اس دوران ایک اچھی بات یہ ہو گئی کہ میرے بڑے بیٹے کو نتیجہ نکلتے ہی کینیڈا کا ویزا مل گیا۔ اور ہمارے بھی دن پھر گئے۔ ہماری بات میں بھی وزن پیدا ہو گیا۔ لیکن زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ گھر میں روپے پیسے کی چوریاں ہونے لگیں۔ تاہم زیورات عام طور پر مل جاتے۔ بھابی کا نیکلس میری بیوی کے ٹرنک اور اس کی بالی بھابی کی الماری سے ملی۔ مگر نقدی غائب ہو جاتی اور اپنے پیچھے لڑائی جھگڑے کا ختم نہ ہونے والا طویل سلسلہ چھوڑ جاتی۔

    دونوں گھروں میں کشیدگی کی فضا تھی اور آنا جانا نہیں تھا اس لئے ادھر کی چیز ادھر کرنے والے یا تو بھوت تھے یا کام کرنے والی ماں بیٹی۔ جن کا دونوں طرف آنا جانا تھا۔ ماں مصیبت زدہ اور جہاں دیدہ تھی اسے روزگار اور پناہ ملی ہوئی تھی وہ ایسا کیسے کر سکتی تھی۔ اور لڑکی بھی کب، کیوں اور کیسے کر سکتی تھی۔ یوں بھی وہ بہت چھوٹی اور معصوم تھی اور اتنے بہت سے افراد کی مسلسل نگرانی کے بعد کبھی تو پکڑی جاتی۔ شاید یہ واقعی کوئی آسیب تھا۔ لیکن میرا جی نہ مانتا۔

    یہ گھر آسیب زدہ ہے۔ یہ خبر اخبار میں شائع ہوئے بغیر رشتے داروں، دوستوں اور جاننے والوں تک پہنچ گئی تھی اور جواب میں طرح طرح کے افسانے سنائے اور مشورے دیے جاتے۔ ہر شخص کے علم میں ایسے کئے واقعات تھے۔ کہیں راتوں کو میوزک بجتا تھا۔ کہیں پتھروں کی بارش ہوتی تھی۔ کسی گھر میں خود بخود آگ بھڑک اٹھتی اور کسی کی دیواروں پر سیکڑوں چھپکلیاں چپکی نظر آتیں۔ ان سب واقعات میں مشترک بات یہ تھی کہ بالآخر کسی پیر یا عامل کے وظیفے، تعویذ گنڈے اور جھاڑ پھونک نے اس مصیبت سے نجات دلائی۔ ناچار ہم نے بھی ایک کے بعد دوسرے عامل، پیر اور پہنچے ہوئے بزرگوں کی تلاش جاری رکھی۔ گھر میں آئے روز عجیب و غریب حلیے کا نیم خواندہ قسم کا کوئی عامل یا پیر نظر آتا۔ طرح طرح کے ٹونے ٹوٹکے اور وظیفے، دھونیاں، اگر بتیاں اور چراغ۔ کلامِ الٰہی کے خوف، وظیفوں کی مار اور عاملوں کی ڈانٹ پھٹکار سے وہ عارضی طور پر چلے بھی جاتے اور کچھ دن چین سے گزر جاتے مگر پھر کسی دن اچانک کوئی نیا اور پہلے سے زیادہ شدید واقعہ رونما ہو جاتا۔

    گھر کی خواتین کو پہلے ہی شک تھا یہ سب بھائی کی مطلقہ بیوی کروا رہی تھی۔ اب عامل لوگوں نے ان کے شک کو یقین میں بدل ڈالا۔ گھر کے کونوں کھدروں سے وقتاً فوقتاً تعویذ دھاگے، بالوں کے گچھے یا کچھ نہ کچھ برآمد ہوتا رہتا۔ جس کے پیچھے اسی کا ہاتھ سمجھا جاتا حالانکہ وہ بیچاری اپنے بھائی کے پاس پیرس چلی گئی تھی اور کہیں بے بی سٹر کی ملازمت کر کے وقت گزار رہی تھی۔ گھر میں صرف ایک میں تھا جو خلافِ عقل باتوں کو نہیں مانتا تھا اور اتنے بہت سے واقعات رونما ہونے کے بعد بھی پوری طرح یقین نہیں کرتا تھا کہ نظر نہ آنے والی مخلوق انسانی زندگی میں یوں دخیل اور اثر انداز ہو سکتی ہے۔ گھر اور باہر اس موضوع پر بحث مباحثے ہوتے رہتے اور میں اکثر ہنستا اور کہتا کہ اگر ایسا ہو سکتا ہے تو کوئی شریر یا متعصب قسم کا مسلمان یا کافر جن اپنی مرضی سے ہمارا یا پڑوسی ملک کا ایٹم بم بھی اٹھا کر چلا سکتا ہے۔ اس پر ابّا کہتے دیکھ لینا ایک روز ایسا ہی ہو گا۔

    میں ان کے ہونے نہ ہونے کے بارے میں بحث مباحثہ بھی بہت کرتا تھا۔ چنانچہ ایک رات بد ذاتوں نے مجھے سوتے میں بستر سے نیچے لڑھکا دیا۔ شکر ہے چوٹ زیادہ نہیں آئی۔ میں نے بتی جلا کر دیکھا۔ وہ دوسری طرف منہ کئے سو رہی تھی۔ شرمندگی ذرا کم ہو گئی کہ کسی نے اس حال میں دیکھا نہیں۔ مگر ایک نامعلوم سا شبہ رہا کہ شاید ابھی وہ کروٹ بدل کر مسکرائے گی یا بال کھول کر سرخ آنکھوں سے مجھے گھورے گی اور مردانہ آواز میں قہقہے لگانے لگے گی۔ مگر جب اس نے کروٹ بدلی، نہ قہقہہ لگایا تو میں چپ چاپ بستر پر دراز ہو گیا۔ مگر اس ڈر سے بتی نہیں بجھائی کہ پھر نیچے نہ گرا دیا جاؤں۔ اس کے بعد میں بھی محتاط ہو گیا اور کھلے بندوں انکار اور مذاق کرنا ترک کر دیا۔

    ابّا کے ایک دوست بڑے مستند اور مشہور حکیم تھے۔ وہ بھی بھوت پریت کو نہیں مانتے تھے۔ مذہبی حوالوں کی اپنے طور پر مختلف توجیہات کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر گھر کی کوئی عورت یا بچّہ ہسٹیریا میں مبتلا نہیں تھا تو کسی کو نیند میں چلنے کی عادت ضرور تھی اور وہ اسی عالم میں عجیب و غریب حرکتیں کرتا تھا۔ چنانچہ ہم راتوں کو اٹھ اٹھ کر ایک دوسرے کی پڑتال کرنے اور جاگنے لگے۔ مگر کچھ حاصل نہ ہوا۔

    کچھ وقت اسی طرح گزر گیا۔ ہم بھی اچھا کھانے اور پہننے لگے۔ بیٹے نے اب مجھے کمپیوٹر بھیج دیا تھا اور میں نے اس پر کام کرنا بھی سیکھ لیا تھا۔ چھوٹی چھوٹی ای میلز بھیجتے بھیجتے میری ٹائپنگ کی رفتار بھی بہتر ہو گئی تھی۔ لیکن مجھے قطعاً اندازہ نہ تھا کہ جب میں کمپیوٹر کھولتا ہوں۔ کوئی اور بھی میرے پہلو میں آ کر بیٹھ جاتا ہے اور چھیڑ خانی کرتا رہتا ہے۔ شروع میں یہی سمجھتا رہا کہ مجھے کمانڈز کا صحیح پتہ نہیں ہے، اس لئے مجھ سے اکثر غلطیاں سر زد ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن جب اچھی مشق ہو جانے کے بعد بھی کمپیوٹر میری ہدایات کی خلاف ورزیاں کرنے لگتا۔ کوئی دوسرا پروگرام کھول دیتا، جام ہو جاتا یا ہر پروگرام کو غیرقانونی قرار دے کر بند کرنے کی دھمکیاں دینے لگتا۔ تو میرا ماتھا ٹھنکا۔ بعض اوقات انٹرنیٹ کی کوئی ناپسندیدہ سائٹ کھول دیتا جو ہٹائے نہ ہٹتی۔ ایک بار میں نے بیٹے کی ای میل کھولی جس میں نئے سال کی مبارک باد دی گئی تھی۔ نئے سال کی خوشی میں خوب آتش بازی ہو رہی تھی۔ اسکرین پر انار سے چھوٹ رہے تھے۔ ہم سب اس منظر سے خوب محظوظ ہوئے مگر ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ اس آتش بازی میں سب کچھ جل کر راکھ ہو جائے گا۔ سارے پروگرامز، میرا قیمتی ڈیٹا، اور ونڈوز۔ میں نے الٹ پلٹ کر دیکھا مگر لگتا تھا کمپیوٹر ایک خالی ڈبے کے سوا کچھ نہیں۔ ابّا نے سنا تو بولے سچ ہے بنی آدم کو شیطان سے کہیں مفر نہیں۔ وہ آسیب اور وائرس کی صورت کمپیوٹر میں بھی چلا آیا ہے اور قیامت تک ہر جگہ اس کا پیچھا کرتا رہے گا۔

    پھر ہمیں تحریری پیغامات آنے لگے۔ میز کی دراز میں یا کسی تکیے کے نیچے عام سی سیاہی میں لکھا ہوا رقعہ ملتا۔ اتنی خیرات کر دو، صدقہ دو، دیگ پکا کر غریبوں کو کھلاؤ، محلّے کے بچّوں میں مٹھائی بانٹو، باقاعدگی سے نماز پڑھو وغیرہ۔ جب تک ایسی معقول ہدایات ملتی رہیں ہم ان پر عمل کرتے رہے۔ مگر ایک روز ایک عجیب قسم کا حکم ملا۔ گھر کے سب لوگ ٹی وی لاؤنج میں جمع ہو کر باری باری فرش پر ناک رگڑیں۔ ورنہ بہت بڑا نقصان ہو گا۔ ظاہر ہے ایسی مضحکہ خیز ہدایت پر عمل کرنا ہمارے لئے ممکن نہ تھا۔ جس پر وہ واقعی خفا ہو گئے اور اگلے روز استری اسٹینڈ پر بند کر کے رکھی ہوئی استری کا سوئچ خود بخود آن ہو گیا اور استری اور اسٹینڈ دونوں بھسم ہو گئے۔ اس سے اگلے روز رسی پر سوکھنے کے لئے لٹکائے گئے کپڑوں کو آگ لگ گئی اور بھائی کی مُنّی کی نکسیر پھوٹ پڑی۔

    اب ہم قدرتی طور پر ہر بات اور ناخوش گوار واقعے کو غیبی طاقتوں سے جوڑنے لگے۔ بچّوں کے ہوم ورک کے وقت بجلی چلی جاتی۔ نہانے یا کھانا پکانے کے وقت واٹر سپلائی بند ہو جاتی یا گھر کے کسی فرد کو چوٹ لگ جاتی تو ہمیں یقین ہو جاتا کہ سب انہی کا کیا دھرا ہے۔

    اس بار کسی ایسے عامل کی تلاش، جس کے عمل سے مستقل فائدہ ہو، میرے ذمے لگائی گئی۔ میرے لئے یہ ایک مشکل کام تھا، کیوں کہ وہ سب ان پڑھ یا کم پڑھے لکھے تھے اور ایسی بے سرو پا باتیں کرتے تھے جنہیں عقل سلیم ماننے کے لئے تیار نہ تھی۔ ان کی باتوں سے صاف پتہ چلتا تھا وہ جھوٹ بولتے تھے۔ ان کے دعوے اور داستانیں سنی سنائی اور گھڑی ہوئی معلوم ہوتی تھیں اور فوق الفطرت کے بارے میں ان کا تصور تک درست نہ تھا۔ مجھے ان سے ملتے اور اپنی بپتا سناتے ہوئے شرمندگی سی محسوس ہوتی کہ میں بھی عام پڑھے لکھے لوگوں کی طرح اپنے عقائد اور نظریات پر ڈھلمل یقین رکھتا ہوں۔ میں نے ان کی بے تکی باتوں پر خاموشی اختیار کی کیوں کہ گھر والوں کا اصرار تھا جلدی کسی کو لاؤ۔ کوئی ناقابلِ برداشت نقصان نہ ہو جائے۔

    اور شاید یہ سلسلہ کب تک یوں ہی چلتا رہتا اگر میرا بلیک ریفل والا پارکر بال پوائنٹ گم نہ ہو جاتا۔ یا پھر تیسرے چوتھے روز اسی سے لکھا ہوا بھوت کا رقعہ نہ ملتا۔ اس بار اسے قلم تو اچھا مل گیا تھا مگر کاغذ بہت خراب تھا۔ کسی پرانی رف کاپی سے پھاڑے ہوئے ورق سے کام چلایا گیا تھا۔ میں چونکا کیسا نالائق اور کاہل جن بھوت ہے ہاتھ بڑھا کر چین کے کسی کارخانے سے بہترین کاغذ اور جرمنی کے کسی اسٹور سے نیا شیفرڈ قلم حاصل کرنے کی بجائے اپنے ہی گھر میں چوری کرتا ہے۔ اب جو غور کیا تو عبارت میں دو ایک ہجّوں کی فاش غلطیاں دکھائی دیں۔ گھر کے سب چھوٹے بڑوں کی لکھائی کا آسیب کی اس تحریر سے موازنہ کیا گیا تو عقدہ وا ہو گیا۔ بے حد حیرت ہوئی کہ طبقاتی نفرت اور احساسِ محرومی اتنی کم سِن لڑکی کو بھوت بنا سکتا ہے۔ ہمارا ارادہ نرمی سے پیش آنے کا تھا مگر اس کی ماں اسے لے کر راتوں رات غائب ہو گئی۔

    (معروف افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس منشا یاد کی ایک تخلیق)

  • ایک تو چوہڑا اوپر سے کانا!

    ایک تو چوہڑا اوپر سے کانا!

    میں نے سوچا کہ سیّد ضیا جالندھری کی شاعری پر لکھنے والے تو مجھ سے بہتر لوگ موجود ہیں۔ میں شاید پورا انصاف نہ کر سکوں۔ البتہ میں ایک عرصہ سے ان کی شخصیت کے بارے میں ایک ایسا مضمون لکھنا چاہتاہوں جو خاکے سے بڑھ کر اور ان کے شایانِ شان ہو۔

    میں نے اس شخص کی طرح جسے راہ چلتے بائیسکل کا ایک پیڈل مل گیا تھا اور اس نے گھر جا کر بیوی سے کہا تھا کہ اسے سنبھال کر رکھ لو، پیسے جمع کر کے اس کے ساتھ بائیسکل لگوا لیں گے، خاکے کاعنوان بھی سوچ لیا تھا، ’’باتوں سے خوش بو آئے۔‘‘ اور کمپیوٹر میں محفوظ کر لیا تھا کہ خاکہ لکھ کر اس کا یہ عنوان رکھوں گا۔

    پھر ایک بار میں ان کے ہاں جا کر بیٹھ گیا۔ ان پر لکھے ہوئے خاکے، کوائف اور کچھ دیگر معلومات حاصل کیں۔ کچھ سوال و جواب بھی کیے۔ تھوڑی بہت گفتگو کی اورنوٹس لیے۔ یوں سمجھیے میں نے عمارت کی تعمیر کے لیے سارا ضروری میٹیریل جمع کر لیا۔ لیکن شاید کسی اپنے سے بڑے کی شخصیت کے بارے میں لکھنا بہت دشوار کام ہوتا ہے۔

    خصوصاً جب شخصیت بھی ضیا جالندھری جیسی پُر وقار، خوب صورت اور قابلِ احترام ہو تو یہ مشکل دو چند ہو جاتی ہے۔ آپ جانتے ہیں، عمارت محض اینٹ، پتھر، لکڑی اور سریے سے تو نہیں بنائی جاسکتی۔ ان چیزوں کو جوڑنے کے لیے چونے، گارے، ریت اور سیمنٹ وغیرہ کے مسالے کی ضرورت بھی ہوتی ہے لیکن جب درمیان میں ادب، احترام اور احتیاط کی رکاوٹیں ہوں تو راج گیری کیسے ہو۔

    حالا ں کہ میں نے راج مستریوں کو مساجد کے گنبدوں اور مقدس مزاروں کی تعمیر کے دوران مچانوں پر حقّوں اور جوتیوں سمیت کام کرتے دیکھا ہے، لیکن میں ایسا نہیں کرسکا۔یہی ڈر رہا کہ کہیں کوئی اینٹ ٹیڑھی نہ لگ جائے۔ کوئی دیوار بد گنیا نہ رہ جائے۔ کہیں چونا زیادہ یا کم نہ لگ جائے۔ خاکہ لکھنے کے لیے ضروری ہے کہ یا تو آپ متعلقہ شخصیت سے عمر یا مرتبے میں سینئر یا کم از کم برابر ہوں۔ جیسے ان کے دو خاکہ نگار جنابِ ابوالفضل صدیقی اور ممتاز مفتی صاحب تھے۔

    اسی لیے ایک تیسرے کم عمر خاکہ نگار نذرالحسن صدیقی کے خاکے میں وہ بات نہیں جو دوسرے صاحبان کے لکھے خاکوں میں ہے۔ خاکہ لکھنے کے لیے ایک اور شرط یہ ہوتی ہے کہ متعلقہ شخصیت سے دیرینہ تعلق اور پوری واقفیت اور بے تکلفی ہو اور آپ کو اس کے بطون میں جھانکنے کی توفیق اور موقع ملا ہو۔ اگرچہ یہ بھی ضروری نہیں کہ جس شخص سے آپ کے دیرینہ اور قریبی تعلقات ہیں، آپ اس کے بارے میں صحیح معلومات بھی رکھتے ہوں (جیسے وقار بن الٰہی چالیس سال کے تعلق اور قربت کے باوجود میرے بارے میں یہ نہیں جان سکے کہ میں ٹائی باندھنے میں خود کفیل ہوں۔ کیوں کہ اس میں ٹیکنیک انوالو ہے اور میرا ذہن ٹیکنیکل کاموں میں خوب چلتا ہے) پھر بھی نہ جاننے سے تھوڑا جاننا بہتر ہے، لیکن میرے اسی دوست وقار بن الٰہی کا ہی کہنا ہے کہ جو شخص ایک ہفتہ کے لیے چین جائے وہ لوٹ کر مضمون ضرور لکھتا ہے۔ جو شخص پندرہ روز یا ایک ماہ وہاں گزار آئے وہ سفر نامہ لکھتا ہے اور جو شخص ایک سال یا اس سے زیادہ وہاں رہ کر لوٹے وہ کچھ نہیں لکھتا۔ اسی طرح بعض لوگوں میں صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ ایک آدھ سرسری ملاقات کے بعد بھی لمبا چوڑا خاکہ لکھنے کی اہلیت رکھتے ہیں بلکہ بعض نے تو جیسے خاکہ پہلے سے لکھ رکھا ہوتا ہے اور کسی ایسی شخصیت کی تلاش میں ہوتے ہیں جو اس میں فٹ ہوسکے۔

    یہی وجہ ہے کہ بہت سے خاکے پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ پورے ناپ کے نہیں۔ کوئی حصہ تنگ ہے تو کوئی کھلا۔ ممتاز مفتی صاحب کو یہ سہولت حاصل تھی کہ وہ عمر میں ضیاء صاحب سے بڑے تھے اور بے تکلفی اور شوخی سے بخوبی کام لے سکتے تھے۔ انہوں نے بہت سے دوسرے اوکھے اولڑے لوگوں کی طرح 1989ء میں ضیا جالندھری کا خاکہ بھی لکھا اور اس کو ‘‘خوش گفتار‘‘ کا نام دیا۔ حالاں کہ اس سے پہلے وہ ضیا جالندھری صاحب کی خوش گفتاری سے بہت خائف رہتے تھے۔ 1985ء میں جب ہم نے رابطہ تنظیم بنائی تو میرے ان سے بعض ادیبوں کو رکن بنانے پر اختلافات رہے جن میں ضیا صاحب بھی شامل تھے۔

    میرا کہنا تھا کہ ضیا صاحب کی باتوں سے خوشبو آتی ہے، لیکن مفتی صاحب کا کہنا تھا کہ وہ اپنی باتوں سے اسی خوشبو کی وجہ سے اہلِ محفل کی توجہ کا مرکز بن جاتا ہے اور دوسرے نظر انداز ہوتے ہیں۔ بہرحال میں انہیں رضامند کرنے میں کام یاب ہوگیا اور ہم برسوں ضیا صاحب کی خیال انگیز نظموں، خوب صورت غزلوں اور خوشبو دار باتوں سے محظوظ ہوتے رہے۔

    ممتاز مفتی صاحب نے اپنے خاکے میں لکھا، ’’ضیا باتوں سے یوں بھرا پڑا ہے جیسے شہد مٹھاس سے بھرا ہوتا ہے یا جیسے عوام سرکار کے خلاف شکایات سے بھرے ہوتے ہیں۔‘‘ انہوں نے ایک مزے کی بات یہ بھی لکھی کہ ’’جنابِ والا جالندھر نے بڑی بڑی شخصیات پیدا کی ہیں۔ مثلاً میرے دوستوں میں حفیظ تھا۔ کلیم ہے۔ فیضی ہے، ایچ یو بیگ ہے، مجید ہے، حافظ ہے، مسعود ہے۔ (افسوس اب ان میں سے زیادہ تر ہے کی بجائے تھے ہوگئے ہیں) ایک سے ایک نہیں ملتا، لیکن جالندھریت کی وجہ سے سب ملتے ہیں، ملتے رہتے ہیں۔ اتفاقاً نہیں التزاماً ملتے رہتے ہیں۔ جالندھریے کو میل جول کا عارضہ لاحق ہوتا ہے۔ جالندھریا اجلا نہیں ہوتا۔ صابون سے منہ دھو کر آئے تو بھی میلا میلا لگتا ہے۔ کلف زدہ نہیں ہوتا۔دھوبی سے دھلے کپڑے پہنے تو بھی لگتا ہے، جیسے گھر کے دھلے ہوں۔جالندھریے میں ٹیں نہیں ہوتی۔ مونچھیں ہوں تو ہوں ان میں اکڑ نہیں ہوتی۔ لٹکی لٹکی رہتی ہیں۔ ضیا کو دیکھیے۔ اس میں لاہور ہے، کراچی ہے، اسلام آباد ہے، لیکن جالندھر نہیں ہے۔ خود کو جالندھری کہتا ہے، اس لیے ہم مانے لیتے ہیں۔ ورنہ جالندھر کا رنگ نہیں ہے۔‘‘

    جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، ضیا جالندھری صاحب، جالندھر شہر میں پیدا ہوئے۔ پورا خاندانی نام ضیا نثار احمد ہے۔ سیّد گھرانا تھا۔ نانی کے ہاں پیدائش ہوئی، انہوں نے ضیا نام رکھا، مگر والد نے کہا کہ میں تو نثار احمد نام رکھوں گا۔ اس طرح ننھیال اور ددھیال کے دیے ہوئے ناموں کو ملا کر ان کا پورا خاندانی نام ضیا نثار احمد طے پایا۔ ان کے والد سید سردار احمد شاہ لاہور کے تھے۔ والدہ گورداس پور کی اور نانی کا تعلق جالندھر سے تھا۔

    ایک زمانے میں ہمارے شاعروں میں شہروں کی نسبت سے نام رکھنے کا بہت رواج تھا۔ بعض شہر بھی علمی اور ادبی حوالوں سے ایسے تھے کہ ان سے نسبت باعثِ فخر ہوتی تھی۔ بعض شہروں کے ناموں میں صوتی حسن اور ایک وقار سا ہوتا ہے جیسے لاہور، لکھنؤ، دہلی، ملیح آباد، اکبرآباد، انبالہ، ہوشیار پور اور جالندھر وغیرہ۔ ایسے نام شاعر ادیب کے نام کے ساتھ لگ جاتے تو بھرپوریت کا احساس ہوتا۔

    اب راولپنڈی، سرگودھا، شیخوپورہ، گوجرانوالہ اور اٹک وغیرہ کو کوئی اپنے نام کے ساتھ کیا لگائے۔ کیوں کہ راولپنڈی میں پنڈ، سرگودھا میں گودھا، شیخو پورہ میں شیخو، گوجراں والا میں گوجر یا گاجر اور اٹک پورے کا پورا اتنے غیر شاعرانہ ہیں کہ اس سے بہتر ہے آدمی والد کے نام کے ساتھ چھوٹی ’ی‘ کا اضافہ کر کے اکبری، شاہدی، حمیدی، رفیقی یا گھر کے مختلف حصّوں کے حوالے سے فرشی، سقفی اور دریچوی وغیرہ بن جائے۔

    اگر طالبِ علمی کے زمانے میں میرے قصبے کا نام فاروق آباد کی بجائے چوہڑکانہ نہ ہوتا تو شاید میں منشا فاروق آبادی ہوتا۔ کوئی بھی ذوقِ سلیم رکھنے والا شخص چوہڑکانوی بننے سے تو رہا۔ بھلا چوہڑ کا نہ بھی کوئی نام تھا۔ ایک تو چوہڑا، اوپر سے کانا۔

    (معروف ادیب اور افسانہ نگار منشا یاد کی کتاب ‘حسبِ منشا’ سے اقتباس)