Tag: منطق الطیر

  • حکایت: بطخ کا عذر

    حکایت: بطخ کا عذر

    ایک بطخ بڑی پاک وصاف ہو کر اور نہا دھو کر پانی سے باہر آئی اور سفید کپڑے پہن کر مجلس میں چلی آئی۔

    اس نے کہا کیا کوئی ایسی شخصیت بتا سکتے ہو جو میری طرح پاکیزہ طبیعت والی اور پاک و صاف دھج والی ہو؟ میں ہر لمحہ ٹھیک ٹھاک اچھی طرح غسل کرتی ہوں اور با رہا پانی پر مصلّیٰ بچھاتی ہوں، میری طرح اور کون پانی پر کھڑا ہو سکتا ہے؟ میری کرامات میں کوئی شک وشبہ نہیں۔ میں تمام پرندوں میں بڑی زاہدہ ہوں، میرا فکر و تخیل بھی پاک ہے، میرے کپڑے بھی ہمیشہ پاک و صاف ہوتے ہیں اور میری جائے نماز بھی پاک ہوتی ہے، مجھے پانی کے بغیر کہیں آرام نہیں ملتا۔ کیونکہ میری جائے پیدائش ہی پانی میں ہے۔ اگرچہ میرے دل میں غم والم کا ایک جہان پوشیدہ ہے مگر میں نے اس غم کو دھو ڈالا ہے کیونکہ پانی ہمیشہ میرا ساتھی ہوتا ہے، اس لیے میں خشکی میں گزارہ نہیں کر سکتی اور چونکہ میرا تمام کاروبار پانی ہی سے وابستہ ہے، اس لیے میں پانی سے کنارہ نہیں کر سکتی۔ جو چیز بھی دنیا میں ہے وہ سب پانی ہی سے زندہ ہے اس لیے میں پانی سے قطع تعلق نہیں کر سکتی۔ اندریں حالات میں وادیٔ معرفت کیسے طے کر سکتی ہوں؟ اور سیمرغ کے ساتھ کس طرح پرواز کر سکتی ہوں؟ جو ہمیشہ پانی کے ایک چشمے یا حوض میں رہنے کا محتاج ہو، وہ سیمرغ تک کیسے پہنچ سکتا ہے؟ اور اس سے کیسے اپنا مقصد حاصل کر سکتا ہے؟ اور جس کی جان آگ کی ایک چنگاری سے جل جاتی ہو وہ آگ کے سمندر میں کیسے گزر سکتا ہے؟

    اس مجلس میں ہد ہد بھی موجود تھا، اس نے بطخ کو جواب ​دیا۔

    اے پانی میں خوش رہنے والی! یہ پانی تو تیری جان کے ارد گرد آگ کے مانند بنا ہوا ہے۔ خوش گوار پانی کے اندر تُو خوابِ غفلت کا شکار ہو چکی ہے۔ پانی کے قطرے کے بغیر ساری آب و تاب ختم ہو جاتی ہے۔ پانی تو میلے اور ناشستہ چہرے کے لیے ہوتا ہے، اگر تیرا چہرہ گندا ہو تو پھر پانی کی جستجو کر، آخر کب تک یہ صاف پانی تیری ضرورت رہے گا اور کب تک تیرا میلا چہرہ دیکھنے کے قابل ہو گا؟

    (منطق الطّیر سے ماخوذ و ترجمہ)

  • منطق الطیرجدید:عطار کے پرندے اور تارڑ کا عشق

    منطق الطیرجدید:عطار کے پرندے اور تارڑ کا عشق

    چار چیزیں ہیں، جو  اُس کے فن میں رواں دواں ہیں۔

    ان میں سے ایک پرقوت تخیل ہے، جو کسی پکھیرو سا آسمانوں کی وسعتوں میں پرواز کرتا ہے۔ ایک ہے مسلسل سفر سے حاصل ہونے والا اَن مول تجربہ، ایک بے  پناہ مطالعہ ہے، اور  ایک ہے لکھنے کی میز۔

    مستنصر حسین تارڑ کا لکھنے کی میز سے اٹوٹ رشتہ ہے۔ قلم دوات نے بھی بے وفائی نہیں کی۔ اور یوں ایک کے بعد ایک، دلوں میں کھب جانے والی کتابیں جنم لیتی رہیں۔

    [bs-quote quote=”پرندے، پانی اور موت؛ یہ تین چیزیں ہیں، جو تارڑ کے فکشن کا جزو ہیں” style=”style-7″ align=”left”][/bs-quote]

    اور  ان میں سرفہرست ”بہاﺅ “ہے، اپنی نوعیت کا منفرد قصہ، پاروشنی کی کہانی، جو بہ قول عبداللہ حسین اردو فکشن کا مضبوط ترین نسوانی کردار ہے۔

    مگر یہاں پاروشنی موضوع نہیں، گو وہ مصنف کی زیست کا جزو ہے، مگر فی الحال نہیں۔ اس وقت تو پرندے ہمارے موضوع ہیں۔ الگ الگ خطوں سے آنے والے پرندے،ٹلہ جوگیاں کی سمت، جو جہلم سے بیس میل دور، تین ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔

    دیکھو، وہ پرندے جوگیوں کی کاخانقاہ کی سمت آتے ہیں، جو ایک چوٹی پر واقع ہے، جس کی بنیاد ایک گیانی گورکھ ناتھ نے دو ہزار سال پیش تر رکھی، جہاں اکبر نے ایک تالاب تعمیر کروایا۔

    فرید الدین عطار کی لازوال کتاب منطق الطیرکے پرندے،جس نے قونیہ کے مولانا روم کو بھی گھائل کیا وہ پرندے لاہور کے تارڑ کے دل کی کائنات میں اڑتے  پھرتے ہیں، اُس کی کہانیوں میں در آتے ہیں، پانی اور موت کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔

    پرندے، پانی اور موت؛ یہ تین چیزیں ہیں، جو تارڑ کے فکشن کا جزو ہیں۔

    [bs-quote quote=”منطق الطیر،جدید وہ کتاب ہے، جس کے تارڑ کے مداح منتظر تھے، بالخصوص وہ، جن کی توجہ کا محوران کا فکشن ہے” style=”style-7″ align=”left”][/bs-quote]

    نیشاپور کے عطار کی لازوال کتاب، جس کا اثر بانو قدسیہ کے ناول ”راجہ گدھ“ پر گہرا ہے، اُسے دوبارہ لکھنے کی ہمت تو وہی کرسکتا ہے، جو عشق سے لبریز ہو، چھلک رہا ہو۔

    رومی نے کہا تھا:”عطار عشق کے سات شہروں سے گزرا، جب کہ میں ابھی پہلی گلی کے موڑ پر ہوں!“

    اور جب تارڑ نے انتساب عطار کے نام کیا،تو لکھا :”پرندوں کی بولیاں میرے کانوں میں پھونکنے والے مرشد عطار کے نام۔“

    صاحبو، جو موضوع شجر ممنوعہ ٹھہرے، جیسے مذہب، اس پر قلم اٹھانے کے لیے بڑا حوصلہ درکار، مگر فکشن کی دنیا میں حوصلہ کافی نہیں۔ یہاں آرٹ شرط ہے۔حساس موضوع کوفکشن کرنا پل صراط عبور کرنے کے مترادف، اور منطق الطیر، جدید کا مصنف یہ کرگزرتا ہے کہ وہ ایک بلند پایہ ادیب ہے۔ ایک پنچھی، جو اب اس آسمان میں پرواز کرتا ہے، جہاں خوف کی پہنچ نہیں۔ اور کلاکار ایسا کہ اپنے پروں کے پھڑپھڑاہٹ سے، گرویدہ بنا لینے والے دل کش مناظر کو جنم دیتا ہے۔

    [bs-quote quote=”رومی نے کہا تھا:عطار عشق کے سات شہروں سے گزرا، جب کہ میں ابھی پہلی گلی کے موڑ پر ہوں” style=”style-7″ align=”left”][/bs-quote]

    ایک ماسٹر رائٹر کے مانند تارڑ نے ٹلہ جوگیاں کے سفر کی، ایک خواب سی دنیا تخلیق کی، ایک ناممکن دنیا، ایک انوکھی دنیا جہاں تاریخ، اساطیر اور مذہبی روایات سے نکلنے والے کرداروں سے ہماری ملاقات ہوتی ہے۔ 

    البتہ سب سے اہم ہیں وہ پرندے، جو صدیوں سے جیوت ہیں، جو سامی و غیرسامی ادیان کے بانیوں کی من موہنی صورت دیکھ چکے ہیں۔ ایک کوہ طور پر موجود تھا ایک نے صلیب اور سمندر کے درمیان چکر کاٹے ایک نے غار حرا میں چاندنی اترتے دیکھی۔ ایک پنچھی بلخ کے آتش کدہ سے آیا، ایک نے بدھ کی پسلی سے جنم لیا ، ایک کرشن کی بنسی سے برآمد ہوا۔

    یہ پنچھی ٹلہ جوگیاں کی سمت کیوں آتے ہیں؟ وہ اپنے ٹھکانوں سے اِس سمت کیوں اڑان بھرتے ہیں؟کیا وہ ہنوز متلاشی ہیں؟ تبصرہ نگار اس بابت خاموش ہے!

    تو صاحبو، کہانی آگے بڑھتی ہے۔ اب مزید پنچھی اترتے ہیں۔ اور یہی کہانی کا اہم ترین موڑ ہے۔ یہ پنچھی اِسی گندمی دھرتی سے ہیں، جو ہیر، سوہنی اور صاحباں کا نور  ہیں، قرة العین طاہرہ ہیں۔ اور یہاں تارڑ نے، ایک بلند پایہ ادیب کے مانند، جو وہ ہے، اپنے نظریہ کو ادب میں گوندھ دیا۔ ایسا نظریہ، جو اگر کوئی اور پیش کرتا، تو شاید پڑھنے والا دہل جاتا۔ یہ کہانی کا سب سے نازک حصہ ہے،سب سے دشوار، سب سے منفرد حصہ۔

    ادیان اور عشق، دو طرح کے پنچھی، مرد اور عورت۔ ایک انوکھا امتزاج۔ ایک پرخطر امتزاج۔

    منطق الطیر،جدید وہ کتاب ہے، جس کے تارڑ کے مداح منتظر تھے، بالخصوص وہ، جن کی توجہ کا محوران کا فکشن ہے۔”اے غزال شب“ کے بعد، اُس اہم ناول کے بعد جب پہلی بار سوویت یونین کے زوال کو کسی اردوناول نگار نے موضوع بنایا ایک طویل وقفہ در آیاتھا۔

    اور یہ بے سبب نہیں تھا کہ تارڑ کو تخلیقی اوج تک پہنچنا تھا۔اپنے مرشد عطارکی تخلیق کردہ صدیوں پرانی دنیا سے مشابہ دنیا تخلیق کرنی تھی۔

    [bs-quote quote=”ایک ماسٹر رائٹر کے مانند تارڑ نے ٹلہ جوگیاں کے سفر کی، ایک خواب سی دنیا تخلیق کی” style=”style-7″ align=”left”][/bs-quote]

    منطق الطیر ، جدید ایک مشکل ناول ہے۔صرف قارئین کے لیے نہیں، جن سے ناول تاریخ، مذہبی روایات اور اساطیر سے واقفیت کا تقاضا کرتا ہے، یہ مصنف کے لیے بھی آسان نہ تھا۔ مصنف، جو اب آٹھ عشرے جی چکا ہے، اورکچھ ایسا لکھنا چاہتا ہے، جو اس نے پہلے نہیں لکھا،کچھ ایسا کہنا چاہتا ہے، جو ان کہا ہے۔

    حقیقت و خواب کے مابین سفر کرتے ہوئے یہ ناول کہیں کہیں علامتی ہوجاتا ہے، اورکہیں کہیں اس میں تجریدی رنگ در آتا ہے۔کہیں کہیں یہ قاری کو پریشان کرتا ہے کہ یہ بیانیہ واقعات نگاری پر مشتمل نہیں۔

    اختتام میں، جب مذہبی بیانیوں کی نمائندگی کرنے والے پنچھی نیشاپور کی سمت جاتے ہیں، عطار کی سمت، تو وہ ویسے نہیں رہتے، جیسے وہ پہلے تھے کہ عشق کی سنہری آگ نے انھیں بدل دیا ہے، من موہنا بنا دیا ہے۔

    اور دیکھو، وہ اڑان بھر چکے ہیں۔ اور اپنے پیچھے ایک نومولود پنچھی چھوڑ کر۔ پنچھی، جو ہمارا ہے، جس سے ہم محبت کرتے ہیں۔