Tag: منوج کمار

  • منوج کمار نے کتنی جائیداد چھوڑی؟ مداح حیران رہ گئے

    منوج کمار نے کتنی جائیداد چھوڑی؟ مداح حیران رہ گئے

    بھارتی فلم انڈسٹری کے معروف اداکار منوج کمار طویل علالت کے بعد 87 برس کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے تھے، تجربہ کار اداکار کے اثاثوں سے ان کی کئی نسلیں مستفید ہوتی رہیں گی۔

    بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ منوج کمار ممبئی کے کوکیلا بین دھیرو بائی امبانی اسپتال میں زیر علاج تھے، دل کی مختلف بیماریوں کے باعث 4 اپریل کو ان کا انتقال ہوا۔

    رپورٹس کے مطابق اسپتال کی طرف سے جاری کیے گئے میڈیکل سرٹیفکیٹ کے مطابق اداکار کی موت کی ثانوی وجہ جگر کی خرابی بتائی گئی تھی۔

    معروف اداکار کا اصل نام ’ہری کرشنن گوسوامی‘ تھا اور حب الوطنی پر مبنی فلموں میں کام کرنے کی وجہ سے اُنہیں ’بھارت کمار‘ کے لقب سے بھی نوازا گیا تھا۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق تجربہ کار اداکار کی موت کے وقت ان کے اثاثوں کی کل مالیت 170 کروڑ بھارتی روپے تھی۔

    اتنے اثاثوں کی بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ وہ ناصرف ایک مشہور فلمی اداکار تھے بلکہ ایک سرمایہ کار اور کاروباری شخصیت بھی تھے۔

    واضح رہے کہ 2007 مین ریلیز ہونے والی فلم ’اوم شانتی اوم‘ باکس آفس پر سُپر ہٹ ثابت ہوئی تھی، تاہم تجربہ کار اداکار منوج اس میں دکھائے گئے ایک خاص منظر کی وجہ سے ناراض تھے۔

    اُس منظر میں شاہ رخ خان کے کردار ’اوم پرکاش مکھیجا‘ کو دکھایا گیا جو منوج کمار سے تعلق کا استعمال کرتے ہوئے پریمیئر میں داخل ہوتا ہے جبکہ پولیس ٹریڈ مارک کی وجہ سے اسے پہچاننے میں ناکام ہو جاتی ہے۔

    تاہم بعد میں پولیس اہلکار اس پر لاٹھی چارج کرتے ہوئے اسے پریمیئر سے بھگا دیتے ہیں۔

    اس پر تجربہ کار اداکار کا کہنا تھا کہ مجھے دکھ ہوا ہے شاہ رخ خان نے میری روح کو زخمی کیا ہے، یہ مجھے نیچا دکھانے اور تضحیک کرنے کی سازش ہے، پچھلے 50 سالوں سے فلمی دنیا سے میری توہین کی گئی ہے۔

    انہوں نے ہتک عزت کے مقدمے میں ہرجانے کے طور پر صرف ایک روپے کا مطالبہ کیا کیونکہ ان کے وکیل کے مطابق ان کی ساکھ انمول ہے۔

    تجربہ کار اداکار نے فلم سے اس سین کو ہٹانے کی درخواست کی تھی جس پر فلمسازوں نے اتفاق کیا تھا۔ شاہ رخ خان نے ان کو پہنچنے والی کسی بھی تکلیف پر معذرت کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں بالکل غلط تھا اگر انہیں تکلیف ہوئی ہے تو میں معذرت خواہ ہوں۔

    معافی کے باوجود یہ مسئلہ 2013 میں دوبارہ سامنے آیا جب ’اوم شانتی اوم‘ کو جاپان میں متنازع منظر کے ساتھ دوبارہ ریلیز کیا گیا۔ اس کے بعد تجربہ کار اداکار نے اس منظر کو نہ ہٹانے پر شاہ رخ خان اور ایروز انٹرنیشنل سے 100 کروڑ روپے ہرجانے کا مطالبہ کرتے ہوئے قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔

    ملائکہ اروڑا کے وارنٹ گرفتاری جاری، وجہ سامنے آگئی

    تجربہ کار اداکار نے اپنی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ فلم کو جاپان میں وعدے کے باوجود سین ڈیلیٹ کیے بغیر ریلیز کیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ قانونی کارروائی نے شاہ رخ خان اور فرح خان میں ذمہ داری کا احساس پیدا نہیں کیا۔ بعدازاں، انہوں احتساب کے فقدان سے مایوس ہو کر مقدمہ واپس لے لیا تھا۔

  • منوج کمار: بولی وڈ کے لیجنڈری اداکار جن کے والد اردو کے معروف شاعر تھے

    منوج کمار: بولی وڈ کے لیجنڈری اداکار جن کے والد اردو کے معروف شاعر تھے

    قومی تفاخر اور حب الوطنی کے موضوع پر بولی وڈ کی فلموں میں شان دار پرفارمنس کی وجہ سے منوج کمار کو ‘بھارت کمار‘ بھی کہا جانے لگا تھا۔ منوج کمار نے فلم انڈسٹری میں بطور اداکار ہی نہیں شہرت پائی بلکہ پروڈکشن اور ہدایت کاری کے شعبہ میں بھی کام کیا اور نوّے کی دہائی انڈسٹری میں خاصے متحرک رہے۔

    ہری کرشن گوسوامی المعروف منوج کمار 1937ء میں ایبٹ آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ ایچ ایل گوسوامی کے بیٹے تھے جو اردو شاعر کی حیثیت سے پہچان رکھتے تھے۔ ایبٹ آباد منوج کمار کا ننھیالی گاؤں تھا جب کہ ددھیال ضلع شیخو پورہ کے جنڈیالہ شیر خان سے تعلق رکھتا تھا۔ اداکار منوج کمار کی مذکورہ شہروں کے ساتھ لاہور سے بہت سی یادیں وابستہ تھیں۔ ہندوستان کی تقسیم کا اعلان ہوا تو منوج کمار کے والد کو بھی اپنی زمین چھوڑنا پڑی۔ بھارت میں‌ منوج کمار کی پڑھائی کا سلسلہ شروع ہوا۔ گھر کا ماحول علمی و ادبی تھا جس کے باعث منوج کمار کو بھی ادب سے دل چسپی رہی اور فلمیں دیکھنے کا بھی شوق پیدا ہوگیا۔

    منوج کمار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دلیپ کمار کی فلم ”جگنو‘‘ دیکھنے کے بعد وہ ان کے دیوانے ہوگئے۔ اس کے بعد فلم ”شبنم‘‘ دیکھی جس میں دلیپ کمار نے منوج کا کردار نبھایا تھا۔ اسی فلم کو دیکھنے کے بعد ہری کرشن گوسوامی نے اپنا نام منوج کمار رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت وہ دہلی میں مقیم تھے اور پھر نوجوانی میں فلم میں کام کرنے کا خواب سجائے 1956ء میں بمبئی چلے گئے۔ وہ ایک خوش قامت اور وجیہ صورت نوجوان تھے جس کے چچا بمبئی میں تھے اور یوں منوج کمار کو وہاں رہائش کا مسئلہ نہیں ہوا۔ کچھ وقت نگار خانوں کے چکر کاٹنے کے بعد منوج کمار کو فلم ”فیشن‘‘ میں کردار مل گیا۔ اس کے بعد اسے چند اور فلمیں سہارا، چاند، ہنی مون میں چھوٹے اور مختصر کردار نبھانے کا موقع ملا۔ پہلا لیڈنگ رول 1961ء میں منوج کمار نے فلم ”کانچ کی گڑیا‘‘ میں نبھایا اور اسی برس تین مزید فلموں ”پیا ملن کی آس‘‘، ”سہاگ سیندور‘‘ اور ”ریشمی رومال‘‘ میں کام کیا۔ اگلے ایک سال کے دوران منوج کمار کو ”اپنا بنا کے دیکھو‘‘اور ”گرہستی‘‘ جیسی فلمیں ملیں۔ لیکن شہرت انھیں راج کھوسلہ کی فلم ”وہ کون تھی؟‘‘ سے ملی۔ یہ فلم 1964ء میں ریلیز ہوئی اور باکس آفس پر شان دار کام یابی حاصل کی۔ اس فلم میں لتا منگیشکر کے گائے ہوئے دو گیتوں ”لگ جا گلے‘‘ اور ”نیناں برسیں رِم جھم رِم جھم‘‘ شامل تھے جو ہندوستان بھر میں مقبول ہوئے اور آج بھی ان کی مقبولیت برقرار ہے۔ اب فلم ”شہید‘‘ آئی جس میں منوج کمار نے بھگت سنگھ کا کردار ادا کیا تھا۔ یہ جنگِ‌ آزادی اور انقلابی تحریک کی وہ داستان تھی جسے ہندوستان بھر میں‌ سراہا گیا اور منوج کمار کی اداکاری کو بہت پسند کیا گیا۔

    اب منوج کمار فلمی دنیا میں بطور اداکار اپنی پہچان بنا چکے تھے۔ اس کے بعد انھوں نے خود کو بطور ہدایت کار منوانے کا فیصلہ کیا اور 1967ء میں ان کی فلم ”اُپکار‘‘ ریلیز ہوئی جس نے باکس آفس پر دھوم مچا دی۔ وطن سے محبت پر منوج کمار کے فلموں میں کردار کو شائقین نے بہت پسند کیا اور پھر وہ بھارت کمار کے نام سے مشہور ہوگئے۔ 1969ء میں فلم ”ساجن‘‘ اور اگلے ہی سال ”پورب اور پچھم‘‘ نے منوج کمار کی شہرت میں مزید اضافہ کیا۔ 1972ء کی ریلیز کردہ فلم ”بے ایمان‘‘ پر منوج کو بہترین اداکار کا فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا۔ اسی سال فلم ”شور‘‘ پر بھی وہ فلم فیئر ایوارڈ لے اڑے۔ پھر ان کی ایک بلاک بسٹر فلم ”کرانتی‘‘ سامنے آئی اور وہ اس ہدایت کار بھی تھے۔ یہ فلم سال کی بہترین فلم قرار پائی۔ بعد کے برسوں‌ میں منوج کمار نے خاص کام یابی نہیں سمیٹی لیکن انھیں فلم بین اور فن کار کوئی بھی فراموش نہیں کرسکا۔

    دل کے عارضے میں‌ مبتلا منوج کمار جمعہ (آج) کے روز ممبئی کے ایک اسپتال میں چل بسے۔ وہ حکم راں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رکن بھی رہے۔ 1950ء کی دہائی میں اداکاری کا آغاز کرنے والے منوج کمار نے بھارتی سنیما کا سب سے بڑا اعزاز ‘دادا صاحب پھالکے ایوارڈ‘ بھی حاصل کیا تھا۔

  • معروف بھارتی اداکار منوج کمار چل بسے

    معروف بھارتی اداکار منوج کمار چل بسے

    بھارتی فلم انڈسٹری کے ماضی کے معروف اداکار منوج کمار 87 سال کی عمر میں فانی دنیا کو خیر باد کہہ گئے۔

    بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق لیجنڈری اداکار منوج کمار کو طبیعت کی خرابی کے باعث ممبئی کے کوکیلا بین دھیرو بائی امبانی اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ جہاں دل سے متعلق پیچیدگیوں کی وجہ سے جمعہ کی صبح ان کا انتقال ہوگیا۔

    اسپتال کے میڈیکل سرٹیفکیٹ کے مطابق ان کی موت کی ثانوی وجہ جگر کی خرابی تھی۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے سوشل میڈیا پر ’لیجنڈری اداکار اور فلم ساز‘ کی موت کی خبر شیئر کی ہے۔

    بھارتی وزیر اعظم نے اداکار کے ساتھ تصاویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ فلم ساز شری منوج کمار جی کے انتقال سے گہرا صدمہ ہوا، وہ ہندوستانی سنیما کے ایک آئکن تھے، جنہیں خاص طور پر ان کے حب الوطنی کے جذبے کے لیے یاد کیا جاتا تھا، جس کی عکاسی ان کی فلموں میں بھی ہوتی تھی۔

    مودی کا کہنا تھا کہ منوج جی کے کاموں نے قومی فخر اور عزم کا جذبہ جگایا اور نسلوں کو متاثر کرتے رہیں گے۔ میرے خیالات اس گھڑی میں ان کے خاندان اور ان کے چاہنے والوں کے ساتھ ہیں۔

    منوج کمار کے بیٹے کنال گوسوامی نے بتایا کہ والد طویل عرصے سے صحت کے مسائل سے لڑ رہے تھے۔ ان کے بیٹے کا کہنا تھا کہ ’یہ خدا کا کرم ہے کہ انہوں نے اس دنیا کو پرامن طریقے سے الوداع کیا۔

    معروف بھارتی اداکار 83 برس کی عمر میں چل بسے

    یاد رہے کہ منوج کمار 1937 میں ایبٹ آباد، (اب خیبر پختونخواہ، پاکستان) میں پیدا ہوئے تھے جو اس وقت برصغیر کا حصہ تھا اور ان کا نام ہری کرشنن گوسوامی تھا۔

  • حسد اور تعصب کی نذر ہونے والی "کلرک”

    حسد اور تعصب کی نذر ہونے والی "کلرک”

    کیا آپ جانتے ہیں‌ کہ پاکستانی فلمی صنعت کے نام وَر اداکار اور اپنے وقت کے مقبول ہیرو محمد علی نے ایک زمانے میں بھارتی فلم میں بھی کام کیا تھا، لیکن شہنشاہِ جذبات کے لقب سے یاد کیے جانے والے اس فن کار کی یہ فلم منوج کمار کے تعصب اور حسد کی نذر ہوگئی۔

    محمد علی کے بارے میں‌ مشہور ہے کہ وہ ایک خدا ترس، محبت اور سب سے تعاون کرنے والے انسان بھی تھے۔ جب کبھی پاکستان فلم انڈسٹری کے سنہرے دور کا تذکرہ ہو گا، محمد علی کا نام ضرور لیا جائے گا۔

    یہ 1983ء کی بات ہے جب اس وقت کے حکم راں ضیاء الحق محمد علی کو اپنے ساتھ بھارت کے دورے پر لے گئے تھے۔ وہاں‌ اندرا گاندھی نے ضیاءُ الحق سے اس بات کا اظہار کیا کہ پاکستان اور بھارت کے مابین خوش گوار تعلقات کو فروغ دینے کے لیے فن و ثقافت کا سہارا لیا جائے اور ساتھ ہی یہ خواہش بھی ظاہر کردی کہ اداکار محمد علی بھارتی فلموں میں کام کریں۔ پاکستان واپسی کے بعد ضیاءُ الحق نے خصوصی طور پر محمد علی کو ملاقات کے لیے بلایا اور انھیں‌ بھارتی فلموں میں کا م کرنے کے لیے راضی کیا۔

    یوں‌ محمد علی اپنی بیوی اور اس زمانے کی مشہور اداکارہ زیبا کے ساتھ بھارت گئے اور وہاں‌ بھارتی فلم ڈائریکٹر، پروڈیوسر اور ایکٹر منوج کمار کی فلم "کلرک” میں کام کیا، لیکن محمد علی کی پرفارمنس نے منوج کمار کو حسد اور ایک قسم کے احساسِ‌ کمتری سے دوچار کردیا۔ فلم ریلیز ہوئی تو معلوم ہوا کہ تعصب کی بنیاد پر محمد علی کے اہم ترین سین کی کاٹ چھانٹ نے ان کے کردار کو‌ ثانوی کردیا ہے۔ منوج کمار کی اس حرکت کے باعث فلم بھی ناکامی سے دوچار ہو گئی۔