Tag: منٹو

  • ’منٹو طبعی موت نہیں مرا!‘

    ’منٹو طبعی موت نہیں مرا!‘

    منٹو کی موت ایک بڑا سانحہ تھی۔ کئی لکھنے والے دل برداشتہ ہوئے تھے۔

    ایک تعزیتی جلسے میں حمید اختر نے کہا تھا، ’وہ طبعی موت نہیں مرا۔ اسے مار ڈالا گیا ہے۔ اسے مارنے والوں میں سب سے زیادہ ہاتھ اسے کے دوستوں کا ہے۔ اچھے اور برے دونوں قسم کے دوستوں کا۔ برے دوستوں نے اس کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھایا اور اس کی دشمنی کے لیے اس کے ساتھ مل کر اسے برباد کرتے رہے اور اچھے دوستوں نے اس سے کنارہ کشی اختیار کر کے اسے مار ڈالا ہے۔‘ (منٹو زندہ ہے، از حمید اختر)

    سب جانتے ہیں کہ منٹو کی ناگہانی موت کے لیے شراب ذمے دار ہے۔ لیکن اس کے دوست حمید اختر کا خیال کچھ اور تھا۔

    ’اس کی زندگی میں جہاں محرومیاں ہی محرومیاں ہیں۔ آسائش کی محرومیاں، محبت کی محرومیاں، محبوبہ کی محرومی، اچھے مکان کی محرومی اور ضروریات زندگی سے محرومی، کہاں کہاں یہ محرومی راستہ روک کر کھڑی رہتی ہے۔ سنگدل، بے مہر اور ظالمانہ محرومی سے ٹکر مار کر انسان شراب نہیں پیے گا تو کیا کرے گا۔ اب یہ دوسری بات ہے کہ منٹو اور منٹو کی طرح کے دوسرے لاکھوں لوگ اچھی شراب سے بھی محروم رہتے ہیں۔ اس سے کسک اور بڑھتی ہے اور نتیجہ جو ہوتا ہے، وہ ظاہر ہی ہے۔‘ (منٹو زندہ ہے، از حمید اختر)

  • اگر، مگر اور لیکن…(منٹو کا ‘خط’)

    اگر، مگر اور لیکن…(منٹو کا ‘خط’)

    برادرم! السلام علیکم

    مجھے یہاں آئے ہوئے ساڑھے تین مہینے گزر چکے ہیں، لیکن میں تمہیں خیریت کا خط تک نہ لکھ سکا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ماحول میرے لئے نیا تھا۔ بہرحال اس ماحول سے یقیناً بہتر ہے جس میں، مَیں نے 42 برس تک جھک ماری تھی۔

    وہاں جب تک رہا، سولی پر لٹکتا رہا۔ جب سے یہاں آیا ہوں، نہ صفیہ نے مجھ سے کوئی فرمائش کی ہے اور نہ ہی نگہت، نزہت اور نصرت میں سے کسی نے، ورنہ اکثر یہ ہوتا تھا:
    ابا فلاں چیز لا دو ، فلاں چیز لا دو۔

    تمہیں تو علم ہے کہ مجھے اپنی بچیوں سے بے انتہا محبت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان کی فرمائش اپنی تنگدستی کی بنا پر پوری نہ کر پاتا تھا تو خون کے آنسو رویا کرتا تھا۔ حتی کہ بعض منحوس سال ایسے بھی آئے تھے کہ بچی کی سالگرہ تھی اور جیب میں پھوٹی کوڑی نہیں۔ ایسے ماحول میں، مَیں کب تک رہ سکتا تھا؟ قدرت تو مجھے ایسے انسان کش ماحول میں اور رکھنا چاہتی تھی۔ لیکن میں نے خود ایسے وسائل اختیار کر لئے تھے کہ آپ کے جہنم زار سے نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔

    میں جب تک وہاں رہا، آپ لوگوں ہی کے غموں میں گھلتا رہا۔ نہ صرف گھلتا رہا بلکہ آہستہ آہستہ معدوم ہی ہو رہا تھا۔ میں بھی تمہارے دکھوں اور غموں کو اس لئے رقم کر آیا ہوں تاکہ آنے والی نسلیں تم سب کو مظلوم کی حیثیت سے یاد رکھ سکیں۔

    میں یہاں ہر وقت یہی دعا کیا کرتا ہوں کہ یہ زندگی میرے تمام ہمعصر افسانہ نگاروں کو جلد نصیب ہو۔ اس لیے کہ وہاں پر رہ کر میں نے جیسی ان کی زندگی بسر ہوتے دیکھی تھی، وہ تو مجھ سے بھی بدتر تھی۔ جب مجھی کو وہاں سے آنا پڑا تو نہ جانے وہ کیوں ٹکے ہوئے ہیں؟ آپ کے تمام لکھنے والوں سے تعلقات ہیں، جو لاہور میں موجود ہیں۔ ان سے زبانی کہہ دیں، جو لاہور سے باہر ہیں، انہیں بذریعہ خط مطلع کر دیں کہ وہ سب کے سب بیوی بچوں سمیت میرے پاس آ جائیں۔ میں نے یہاں تمام ابتدائی معاملات طے کر لئے ہیں۔ اس لئے کسی کو کوئی تکلیف نہ ہوگی۔

    زمانے نے نہ میری قدر کی اور نہ دوسرے اہلِ قلم کی۔ تمہیں علم ہے؟ اگر ہم لوگ تمہارے ہاں نہ ہوتے تو سوائے علم، ادب اور آرٹ کے، سب کچھ ہوتا۔ یہاں جو بھی پہنچ گیا ہے، مزے میں ہے۔ اکثر قلم کاروں سے ملاقات رہتی ہے۔ سب میری ہی طرح پھولے بیٹھے ہیں۔ بعض نے تو تمہارے نمائش آباد کی شان میں ایسی ایسی ہجویات سپردِ قلم کی ہیں کہ جب تک کلیجہ کو دونوں ہاتھوں سے نہ تھام لیا جائے سنی ہی نہیں جا سکتیں۔ اگر وہ چھپ گئیں تو تمہارے ہاں کے بعض سر پھرے سرِ بازار پٹیں گے۔ بہرحال ہجویات کا وہ مجموعہ جب بھی شائع ہوا ، تمہیں اس کا ایک نسخہ ضرور بھیجوں گا۔ نقوش میں اس کا تبصرہ کر دینا۔

    تمہارے ہاں کے ادیب اور تمہارے پڑوسی ملک کے ادیب اپنے اپنے نا خداؤں سے جو بڑی خوشگوار قسم کی امیدیں وابستہ کیے بیٹھے ہیں، وہ سراسر حماقت ہے۔ ان خوشگوار قسم کی امیدوں کے پیٹ میں تو صرف بہن خوش فہمی لمبی تانے سو رہی ہے۔ تمہارے ہاں کی سیاست تو بڑی دھڑن تختہ قسم کی ہے۔ آج کوئی وزیر ہے تو کل جیل میں ہے۔ اگر کوئی چند دن پہلے جیل میں تھا اور ساتھ ہی غدارِ وطن بھی، تو آناً فاناً وزیر ہو جاتا ہے۔ یہاں پر میرے احباب جب تمہارے ہاں کی سیاست کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں تو یقین جاننا میں مارے شرم کے پانی پانی ہو جاتا ہوں۔

    تمہیں علم ہے کہ مجھ پر آپ کے ہاں پانچ مقدمے صرف فحاشی کے جرم میں چلے تھے۔ حالانکہ میں نے کوئی فحش تحریر نہیں لکھی تھی۔ اس ضمن میں مجھ پر کیا کیا ستم نہیں ڈھائے گئے تھے۔ کبھی وارنٹ نکلے، کبھی گرفتار ہوا، کبھی دوستوں سے ادھار مانگ کر جرمانہ ادا کیا۔ اس کے باوجود میں نے "انصاف زندہ باد” کا نعرہ لگایا تھا۔ اگر میں کچھ دن اور وہاں رہ جاتا تو بہت ممکن تھا، مجھ پر قتل، ڈاکہ زنی، اور زنا بالجبر کے جھوٹے مقدمے بنا دیے جاتے۔ جہاں ناکردہ گناہوں کی سزا ملتی ہو، وہاں کون مسخرہ رہے۔

    اگر حکومت کے عتاب سے بچ جائیں تو نقاد پیچھا نہیں چھوڑتے۔ تم تو جانتے ہی ہو کہ میں ساری عمر نقادوں سے دور بھاگا ہوں۔ یہ بھی صحیح ہے کہ بعض نقاد بھی مجھ سے دور بھاگتے ہیں۔ اصل میں یہ لوگ وہ ہیں جو بگڑے ہوئے افسانہ نویس اور بگڑے ہوئے شاعر ہوتے ہیں یہ لوگ جب تخلیق کی قوت سے محروم ہوتے ہیں، تو تنقید میں علامہ بن جاتے ہیں۔ مجھے ان سب سے خدا واسطے کا بیر رہا ہے۔ اس لئے کہ جب یہ قلم ہاتھ میں لے کر بیٹھتے ہیں تو اچھی بھلی چیز میں سو سو عیب نکالتے ہیں۔ لیکن ان حضرات کو اپنی تحریر کے عیوب کا کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ خدا کے لئے مجھے ان بے تحاشا لکھے پڑھوں سے بچانا۔ ایسا نہ ہو کہ میرے موجود نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے اپنے قلم کو تیز کر لیں اور میرے فن کی دوشیزگی کا جھٹکا کر دیں۔
    آج ادب جبھی ترقی کرے گا کہ جو نقاد کہے۔ اس کا الٹا کیا جائے، نقادوں کا منشا بھی یہی ہوتا ہے، لیکن اسے میرے سوا سمجھا کوئی نہیں ہے۔

    کاش مجھے یہاں کوئی نقاد مل جائے تاکہ میں اس سے تنقیدی بحث کر سکوں۔ تنقیدی بحث کرتے ہوئے اگر کسی نے ان تینوں لفظوں کا صحیح استعمال کر لیا تو سمجھ لیجئے بازی لے گیا۔ وہ تین الفاظ یہ ہیں: اگر، مگر اور لیکن۔

    جب تک نقاد تخلیق کی قوتوں سے مالا مال نہ ہوں گے۔ ان کی تحریروں میں نہ توازن پیدا ہوگا اور نہ واقعیت کے ساتھ خلوص۔ جب فن کار کے دل کے ساتھ نقاد کا بھی دل دھڑکے گا تو پھر جو کچھ لکھا جائے گا، اس پر ایمان لانا ہی پڑے گا۔

    یہاں شرابِ طہور عام ہے، پانی نہ پیجئے۔ شرابِ طہور نوش کر لیجئے۔ تمہارے ہاں تو بڑی تھرڈ کلاس قسم کی شراب ملتی تھی اور اس جگر پاش شراب کے لئے بھی مجھے کیا کیا جتن نہیں کرنے پڑتے تھے۔ بعض اوقات اس نامراد کے لئے ذلیل تک ہوا، دوستوں میں میری عزت نہ رہی۔ جدھر جاتا تھا، احباب منہ موڑ لیتے تھے۔ راستہ تک چھوڑ کر انجان بن جاتے تھے۔ اگر کسی سے مڈبھیڑ ہو جاتی تو وہ میرے منہ پر جھوٹی قسمیں کھا کھا کر کہتا تھا کہ میری جیب میں دھیلا تک نہیں ہے۔ حالانکہ میں جانتا تھا کہ اس کی جیب میں دھیلا چھوڑ اتنے روپے ہیں کہ وہ مجھے اس خانہ خراب کی کئی بوتلیں خرید کر دے سکتا ہے۔ میں نے شراب کو خانہ خراب اس لئے کہا ہے کہ اس کی بنا پر کئی بار خانہ میں خرابی پید اہوئی تھی۔

    ایک بڑی خطرناک مگر راز کی بات کہتا ہوں، اس کا ذکر کسی سے نہ کرنا، ورنہ پٹو گے، یہاں جتنی لڑکیاں ہیں وہ سب ہزاروں برس پرانی ہیں۔ لیکن ان کمبختوں کا جسم اور بانکپن تقدس توڑ ہے۔ اس مسئلہ پر تم سے بات کرنا قطعی حماقت ہے۔ اس لئے کہ تم اس مسئلے میں نرے چغد واقع ہوئے ہو۔ تمہاری چغدیت کا احترام کرنے کے باوجود میں یہ کہوں گا کہ ان سب میں ایسی پروقار کشش اور سپردگی سی پائی جاتی ہے کہ تمہارے ہاں کی لڑکیاں ان کے سامنے بالکل بکواس ہیں۔
    یہاں ایسے ایسے جمال آور لڑکے بھی ہیں کہ تمہارے ہاں کا کوئی شاعر اور ادیب دیکھ لے تو اس کمبخت کے بے ہوش ہونے کے قطعی امکانات موجود ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ جانبر ہی نہ ہوسکے۔

    میں ساری عمر ادبی تخلیقات کے سلسلے میں اپنے ہم عصروں سے شرمندہ نہیں ہوا تھا۔ اس لئے بھی کہ میرے مقابلہ ہی کا کون تھا؟ لیکن یہاں آیا تو غالب نے بڑا پریشان کیا، بڑا پھبتی باز ہے۔ کہنے لگا: تُو تو میرا چور ہے۔ میرے شعروں سے تو نے اپنے افسانوں کے عنوان چنے۔ کتابوں کے نام تک جب نہ سوجھے تو میرے شعروں کو دھر رگڑا اور محسن کشی ایسی کی کہ میرے بارے میں جو فلمی کہانی لکھی، اس میں بجائے میری شکر گزاری کے اظہار کے میری کسی خوبی کا ذکر تک نہیں کیا۔ بلکہ الٹی میری کمزوریاں گنوا کے رکھ دیں کہ میں بڑا وہ تھا، عورت باز تھا، جوا کھیلتا تھا، اور اس کی پاداش میں جیل تک ہو گئی تھی۔ وغیرہ وغیرہ

    تمہیں علم ہے کہ میں تمام لکھنے والوں میں صرف غالب ہی کو تو مانتا تھا۔ جب اس نے بھی مجھ سے ایسی ایسی باتیں کیں تو میں نے دل میں کہا: لعنت ہو سعادت حسن منٹو تمہاری حقیقت نگاری پر۔ لیکن غالب ہے بڑا زندہ دل قسم کا انسان، میری اتنی زیادتی کے باوجود گاڑھی چھنتی ہے۔ ہم اکثر ایک ساتھ پیتے ہیں، اور پیتے ہی میں جب ہم حقیقت آشنا ہو جاتے ہیں اور ہماری انا بیدار ہوتی ہے تو غالب کہتا ہے: میں تم سے بڑا افسانہ نگار ہو سکتا تھا۔ لیکن میں نے اسے فضول چیز سمجھ کر ہاتھ ہی نہیں لگایا تھا۔

    اور میں اس سے کہتا ہوں: شعر کہنا کون سا کمال ہے مرزا صاحب، میری تو نثر کی ہر ہر سطر میں ایک شعر کیا پوری غزل کی غزل پنہاں ہوتی ہے۔

    بات دونوں کی غلط ہے، اس کا علم اسے بھی ہے اور مجھے بھی۔ لیکن ہم اپنی اپنی انا کا کیا کریں۔

    چچا سام کا دبدبہ تو تمہارے ہاں دن دونی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے، مبارک ہو!

    بڑوں کی عزت ضرور کرنی چاہئے۔ لیکن سعادت مندی کے معنی یہ بالکل نہیں ہیں کہ تم اپنی ننھی سی جان بھی خطرے میں ڈال دو۔ میں نے یہ خبر بد بھی سنی ہے کہ اب تو تمہارے ہاں کا سارا کا سارا کام وہی کرتے ہیں۔ اور تم سب الوؤں کی طرح ہاتھ پر ہاتھ رکھے اندھیرے کے منتظر ہو۔ اتنی تن آسانی اچھی نہیں، ورنہ پچھتاؤ گے۔ حتی کہ تم لوگوں نے اپنی خودداری تک کو قفل لگا کے الماریوں میں رکھ دیا ہے۔

    مصیبت یہ ہے کہ میں یہاں سے چچا سام کے نام کوئی خط نہیں لکھ سکتا۔ ورنہ میں اس سے اپنی حدود میں رہنے کی درخواست ضرور کرتا۔ دعا کرو کہ وہ خود ہی میرے پاس جلد سے جلد آجائیں تاکہ تمہاری جان چھوٹے، میں تو ان سے نمٹ ہی لوں گا۔ فراڈ کو فراڈ ہی پچھاڑ سکتا ہے۔

    میں نے یہ بھی سنا ہے کہ جب سے یہاں آیا ہوں، تمہارے ہاں میرا بڑا سوگ منایا گیا۔ خدا کی قسم، یہ سنتے ہی میرا دل کباب ہو گیا۔ اس لئے کہ جب تک میں وہاں رہا، سب نے مل جل کر مجھے اپنے ہاں سے دور کرنا چاہا۔ جب یہاں کچھ دوسروں کی اور کچھ اپنی مرضی سے آ گیا ہوں۔ تو ریڈیو پر اس ناچیز کی گمشدگی کے اعلانات کیوں کیے جاتے ہیں۔ یہ وہی ریڈیو والے ہیں جو مجھے اپنے ہاں ناک تک صاف نہیں کرنے دیتے تھے۔ رسالے اور اخبارات بھی میرے روپوش ہونے پر خصوصی ماتم کیوں کر رہے ہیں؟ ان کا بھی میرے ساتھ یوسف کے بھائیوں جیسا سلوک تھا۔ ان حالات میں تمہیں اپنے اس منافقانہ رویہ پر شرم آنی چاہئے۔

    یہاں میرے کچھ قدر دان پیدا ہو گئے ہیں۔ اور پچھلے دنوں انہوں نے میرے ذمہ یہ کام کیا تھا کہ میں یہاں کے بارے میں اپنی سہ ماہی رپورٹ پیش کروں۔ یہ فریضہ میرے سپرد اس لئے ہوا تھا کہ ان کے خیال کے مطابق مجھ جیسا حقیقت نگار یہاں کوئی نہیں ہے۔ میں نے اپنی عادت کے مطابق سب کچھ لکھ دیا ہے۔ اس میں اپنے ایک دوست کی خوب ڈٹ کر مخالفت بھی کی ہے۔ اور اس کا جو معاشقہ اندر ہی اندر چل رہا تھا، اس کا بھی کچا چٹھا لکھ دیا ہے۔

    حتی کہ میں نے رپورٹ میں یہ بھی لکھ دیا ہے کہ یہاں جو داڑھی نہ منڈوانے کا دستور ہے وہ بعض نستعلیق قسم کی طبیعتوں پر گراں گزرتا ہے۔ اس لئے اس کی اجازت ہونی چاہئے کہ جس کا دل چاہے داڑھی رکھے جس کا دل نہ چاہے نہ رکھے۔

    اتنے بڑے حاکم کے سامنے اتنا کہہ دینا اور کسی قسم کی جھجک محسوس نہ کرنا، خالہ جی کا گھر نہ تھا، تمہارے ہاں ایسی کوئی کھری بات کہہ دیتا تو میری زبان گدی سے نکلوا دی جاتی۔

    اطلاعاً عرض ہے۔ یہاں میری کتاب "گنجے فرشتے” کافی پسند کی گئی ہے۔ ہو سکے تو میری بیوی بچّوں کا خیال رکھنا۔

    خاکسار
    سعادت حسن منٹو
    20/اپریل 1955ء

    (منٹو کی وفات کے تین ماہ بعد اردو کے مشہور جریدے نقوش کے منٹو نمبر میں محمد طفیل نے منٹو کا فرضی خط بنام مدیر نقوش شایع کیا تھا)

  • منٹو کیوں مرنا چاہتا تھا؟

    منٹو کیوں مرنا چاہتا تھا؟

    اردو کے سب سے بڑے افسانہ نگار کا ذکر کیا جائے تو شاید چند ہی لوگوں کے ذہن میں سعادت حسن منٹو کے علاوہ کسی اور کا نام آئے ۔ مختلف مکاتب فکر کی نظر میں متنازعہ ہونے کے باوجود منٹو ایک لیجنڈ سمجھے جاتے ہیں ۔ 

    منٹو ایک خودار اور انا پرست ا اور طنطنے والے انسان تھے مگر منٹو کی شراب نوشی ان کے کردار کی ایسی خامی تھی جس نے نہ صرف انھیں انتہائی پستی میں گرا دیا بلکہ اسی کی وجہ سے وہ کسمپرسی کے عالم میں خون تھوکتے ہوئے دنیا سے گئے ۔ شراب نوشی نے خوش حال زندگی گزارنے والے ہر دلعزیز منٹو کو اس حال کو پہنچا دیا جہاں ان کا خاندان اور دوست ان سے منہ چھپائے پھرتے کہ کہیں شراب کے لیے قرض نہ مانگ لے ۔ شراب کے لیے وہ کسی بھی حد تک جا سکتے تھے ۔ ایک بار بیٹی بیمار ہوئی گھر میں پیسے نہیں تھے ان کی اہلیہ ہمسائے سے قرض لے کر آئی تو منٹو ان پیسوں سے بچی کی دوا کی بجائے شراب کی بوتل لے آئے ۔ وہ منٹو جو سب کا دوست اور آئیڈیل تھا جسے لوگ سر آنکھوں پر بٹھاتے تھے وہ منٹو اپنا دشمن خود ہی تھا ۔

    اور بالاخرعظیم افسانہ نگار منٹو شرابی منٹو کے ہاتھوں شکست کھا گیا ۔ ہندوستان میں منٹو نے آسودہ زندگی گزاری بہت سے فلم سازوں کی آنکھ کا وہ تارا تھے ۔ مصوررسالے کے مدیر رہے اتنا کماتے تھے زندگی کی آسائشین ان کی دسترس میں تھیں ۔ تقسیم ہند کے بعد اپنے قریبی دوست اشوک کمار سے ناراض ہو کر بغیر کسی کو بتائے پاکستان چلے آئے ان کا خیال تھا کہ انڈیا کی طرح پاکستان میں بھی ان کی پزیرائی ہو گی تاہم یہاں آکر وہ یکسر مختلف حالات سے دوچار ہوئے ۔ کچھ ہی دنوں بعد ان کے افسانے ٹھنڈا گوشت پر فحاشی کا الزام لگا جس پر انھیں قید اور جرمانے کی سزا ہوئی ۔ بعد میں اور بھی افسانوں کے خلاف مقدمے بنے ۔ ان کے بھانجے مسعود پرویز نے فلم بیلی بنائی جس کے لیے منٹو کی خدمات لیں گئی ۔ یہ فلم فیل ہو گئی اور ایک فلم فیل ہو تو بہت سے لوگ فیل ہو جاتے ہیں منٹو کا بھی یہی حال تھا ۔ فلم کے فلاپ ہونے کے بعد ان کی بے روزگاری بڑھی اور ساتھ ہی شراب نوشی بھی ۔

    منٹو کی شراب نوشی اس حد تک بڑھ گئی کہ انھیں اس کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا ۔ وہ روز ایک افسانہ لکھ کر پبلشر کے حوالے کرتے اور تیس روپے لے کر شراب خرید لیتے اور پھر رات گئے تک شراب پیتے رہتے ۔ اگلے دن پھر یہی روٹین ہوتی ۔ کثرت شراب نوشی نے منٹو کو جسمانی اور ذہنی طور پر تباہ کر دیا تھا اور کئی بار وہ دیوانوں کی طرح باتیں کرنے لگتے

    ۔ جن لوگوں نے منٹو کے عروج کا زمانہ دیکھا تھا وہ کہتے تھے کہ یہ منٹو اصل منٹو کا سایہ بن کر رہ گئے تھے ۔ انھیں شراب نوشی سے نجات دلانے کے لیے ہسپتال میں بھی داخل کروایا گیا مگر وہ وہاں بھی گھر والوں سے چھپ کر شراب پی لیتے اور یہ شراب ان کے جگری دوست شاد امرتسری مہیا کرتے ۔ وہ کہتے تھے کہ اگر منٹو کو شراب نہ دی تو یہ موت سے پہلے مر جائے گا ۔ قتیل شفائی نے اپنی کتاب گھنگھرو ٹوٹ گئے میں لکھا ہے کہ شاد امرتسری نے انھیں بتایا شراب کے ذریعے منٹو رفتہ رفتہ خودکشی کر رہا تھا گر یہ اس سے چھین لی جاتی تو وہ واقعی خودکشی کر لیتا ۔ شاد امرتسری نے بتایا کہ ایک دن منٹو آپدیدہ ہو گیا اور کہنے لگا شاد میں مر جانا چاہتا ہوں ۔ جتنا جلد مر جاوں اچھا ہے کیونکہ میں اب جینے کے قابل نہیں رہا ۔ شاد سمجھے کہ شاید وہ اپنی شراب نوشی اور اس کی وجہ سے معاشرے میں اٹھائی جانے والی ذلت کی بات کریں گے مگر انہوں نے ایک عجیب بات کہی کہ کثرت شراب نوشی کی وجہ سے میں مردانہ اوصاف سے تقریبا محروم ہو چکا ہوں ۔ دیکھو میری عمر ہی کیا ہے ابھی پینتالیس بھی نہیں ۔ کبھی اگر کوئی ایسا ارادہ کر بھی لوں تو محض کمرے میں جا کر بیوی کو دیکھتا رہتا ہوں ۔ بیوی چونکہ میری حالت سے بخوبی آگاہ ہے اس لیے اگر اس کی آنکھ کھل جاتی تو وہ تسلی دے کر مجھے رخصت کر دیتی کہ آپ آرام کریں تھک گئے ہوں گے ۔

    مگر اس کے بعد مجھ پر صبح تک قیامت گزر جاتی ۔ شاد امرتسری نے کہا کہ منٹو نے بتایا کہ اس حالت کو کئی ماہ گزر چکے ہیں ۔ لہذا مجھے اب مر جانا چاہیے ۔ شاد کے مطابق منٹو جو صبح سے شام تک پیتا رہتا تھا ۔ وہ مر جانا چاہتا تھا کیونکہ اس میں خود کو گولی مارنے کی ہمت نہیں تھی۔ اگر اس کی شراب چھین لی جاتی تو وہ ادھر کا ہی رخ کرلیتا ۔ قتیل شفائی نے کثرت شراب نوشی کے باعث منٹو کی ذہنی حالت کی خرابی کے متعلق بھی ایک واقعہ نقل کیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ ایک بار میں منٹو سے ملنے ان کے گھر گیا تو منٹو نے کہا قتیل میری جان تم نے مجھے بتایا تو نہیں کہ تم ملنے آرہے ہو مگر جب تم آرہے تھے تو مجھے پتہ چل گیا جب تم لکشمی منزل ( لکشمی بلڈنگ میں منٹو رہائش پزیر تھے یہ تاریخی عمارت ابھی بھی موجود ہے لیکن فرنٹ کے علاوہ ساری بلڈنگ گرا دی گئی تاہم تاخیر سے ہی سہی مگر اس کا فرنٹ بچا لیا گیا ) پہنچے تو مجھے پتہ چل گیا کہ تم آ گئے ہو ۔ میرے کان میں ہر وقت ایک آٖواز آتی رہتی ہے یہ کہہ کر انھوں نے اپنا کان میرے کان سے لگا دیا کہ سنو مگر مجھے کوئی آواز نہ آئی تو بولے کچھ دیر رکو وہ آواز آ جائے گی ۔ قتیل شفائی کے مطابق ایسے متعدد واقعات پیش آئے ۔ منٹو کی موت کا دردناک احوال ان کے بھانجے حامد جلال نے کچھ یوں بیان کیا جسے پڑھ کر انسان کا دل درد میں ڈوب جاتا ہے ۔ انہوں نے لکھا زندگی کے آخری لمحوں میں جب منٹو کو ہسپتال لے جایا جا رہا تھا تو انہوں نے کہا کہ مجھے شدید سردی لگ رہے مجھ پر دو رضائیاں ڈال دو ۔

    کچھ دیر بعد انہوں نے بھانجے کوکہا کہ میرے کوٹ کی جیب میں ساڑھے تین روپے پڑھے ہیں اس میں کچھ رقم اور ملا کر مجھے ویسکی منگوا دو ۔ شراب پینے کے لیے اس کا اصرار بڑھتا رہا تو ان کی تسلی کے لیے ایک پوا منگوایا گیا ۔ شراب کو دیکھ کر منٹو کی آنکھوں میں عجیب آسودگی نظر آئی اور انہوں نے کہا کہ میرے لیے دو پیگ بنا دو۔ وہسکی پی تو درد سے تڑپ اٹھے اور غشی طاری ہو گئی ۔ اتنے میں ایمبولینس منگوائی گئی تو تو پھر وہسکی کی فرمائش کی چمچ سے وہسکی منہ میں ڈالی گئی تو سب بہہ گئی ۔ اسکے بعد ایمبولینس میں ڈال کر ہسپتال لے جایا گیا تو راستے میں ہی دم توڑ گئے ۔ منٹو کو گزرے 67 سال گزر چکے ہیں وہ معاشرہ جس نے زندگی میں منٹو کی تذلیل کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا مرنے کے بعد آج اس کے نام کی مالا جپتے دکھائٰی دیتا ہے اورسینہ تان کر کہتا ہے کہ منٹو ہمارا ہے ۔

    اگر نقاد منٹو کو اردو کا سب سے بڑا افسانہ نگار نہ بھی تسلیم کریں مگر یہ بات سچ ہے کہ منٹو نے اردو کا سب سے منفرد افسانہ نگار ہے منٹو وہ آئینہ ہے جس نے معاشرے کو اس کا اصل چہرہ دکھایا اور ایک ماہر ڈاکٹر کی طرح ناسوربنتے معاشرتی زخموں کی اپنی تحریروں سے جراحی کرنے کی کوشش کی ۔ ان کے مزار کی لوح پرعبارت سو فیصد درست ثابت ہوئی کہ ان کا نام لوح جہان پر حرف مکرر نہیں تھا ۔منٹو جسمانی طور پر تو صرف تینتالیس برس ہی زندہ رہ سکے مگراردو ادب زندہ رہنے کے لیے ہمیشہ منٹو کی تحریروں سے حرارت حاصل کرتا رہے گا ۔

  • بھارت: ٹی وی اداکارہ کی خود کشی

    بھارت: ٹی وی اداکارہ کی خود کشی

    ممبئی: بھارتی ٹی وی سیریل میں کام کرنے والی ایک اداکارہ نے خود کشی کر لی۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے شہر اندور کی رہنے والی اور ممبئی میں متعدد ٹی وی سیریلز میں کام کرنے والی اداکارہ پریکشا مہتا نے خود کشی کر لی۔

    میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ 25 سالہ اداکارہ ذہنی دباؤ میں تھی، اور کرونا وائرس کی روک تھام کے لیے نافذ لاک ڈاؤن کی وجہ سے کام نہ ملنے پر پریشانی کا شکار تھی۔

    اندور پولیس نے واقعے کا مقدمہ درج کر کے مزید تفتیش شروع کر دی ہے، پولیس موت کی درست وجہ جاننے کی کوشش کر رہی ہے کہ آیا اداکارہ نے کیریئر کی وجہ سے خود کشی کی یا کسی اور وجہ سے۔

    دوسری طرف سیریل کرائم پیٹرول کی اداکارہ پریکشا مہتا کی فیملی نے یہی خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کام نہ ملنے کی وجہ سے اداکارہ انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوئی۔ پولیس کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ اندور کے ہیرا نگر پولیس اسٹیشن کے علاقے بجرنگ نگر میں پیش آیا، اداکارہ نے رات گئے گلے میں پھندا لگا کر جان دی۔

    اداکارہ کے والد نے میڈیا کو بتایا کہ ممبئی میں وہ ایک ٹی وی سیریل میں کام کر رہی تھی، اس دوران لاک ڈاؤن ہوا اور اسے کام چھوڑ کر گھر آنا پڑا، جیسا کہ ممبئی میں کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور لاک ڈاؤن مسلسل جاری رکھا جا رہا ہے، امکان ہے وہ اس سے ڈپریشن میں آ گئی تھی۔

    اداکارہ پریکشا مہتا نے سب سے پہلے ڈراما کلاسک افسانہ نویس سعادت حسن منٹو کے ڈرامے ‘کھول دو’ میں کام کیا تھا، جس سے اس نے زبردست پذیرائی حاصل کی، اس کے بعد اس نے متعدد اہم ڈراموں میں کام کیا، کئی ایوارڈ بھی جیتے۔

  • مجید امجد کی نظم منٹو اور سعادت حسن منٹو!

    مجید امجد کی نظم منٹو اور سعادت حسن منٹو!

    مجید امجد کا شمار اردو کے اہم نظم گو شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی نظمیں اپنے موضوعات ہی کی وجہ سے منفرد نہیں بلکہ ان کا تخیل اور تخلیقی جوہر ان کی شاعری کا حسن ہیں اور انھیں‌ اپنے عہد کے دیگر شعرا میں نمایاں کرتے ہیں۔

    متنوع موضوعات اور لب و لہجے کی انفرادیت کے ساتھ مجید امجد کی بعض نظمیں آج بھی ہمیں‌ اپنی گرفت میں‌ لے لیتی ہیں۔ ان کی شاعری کے متعدد مجموعے شایع ہوئے جن میں شب رفتہ، شب رفتہ کے بعد، چراغ طاق جہاں وغیرہ شامل ہیں۔ 11 مئی کو مجید امجد کی برسی منائی جاتی ہے جب کہ مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کا یومِ پیدائش بھی آج ہی ہے۔

    مجید امجد نے ایک نظم "منٹو”‌ کہی تھی جو اس دن کی مناسبت سے آپ کے ذوق کی نذر ہے۔

    "منٹو”
    میں نے اس کو دیکھا ہے
    اجلی اجلی سڑکوں پر، اک گرد بھری حیرانی میں
    پھیلتی بھیڑ کے اوندھے اوندھے کٹوروں کی طغیانی میں
    جب وہ خالی بوتل پھینک کے کہتا ہے
    ”دنیا! تیرا حسن، یہی بد صورتی ہے”
    دنیا اس کو گھورتی ہے
    شور سلاسل بن کر گونجنے لگتا ہے
    انگاروں بھری آنکھوں میں یہ تند سوال
    کون ہے یہ جس نے اپنی بہکی بہکی سانسوں کا جال
    بام زماں پر پھینکا ہے
    کون ہے جو بل کھاتے ضمیروں کے پر پیچ دھندلکوں میں
    روحوں کے عفریت کدوں کے زہر اندوز محلکوں میں
    لے آیا ہے یوں بن پوچھے اپنے آپ
    عینک کے برفیلے شیشوں سے چھنتی نظروں کی چاپ
    کون ہے یہ گستاخ
    تاخ تڑاخ!

  • منٹو کی سالگرہ پر گوگل ڈوڈل ان کے نام

    منٹو کی سالگرہ پر گوگل ڈوڈل ان کے نام

    اردو کے کلاسک ادیب اور صاحب اسلوب افسانہ نویس سعادت حسن منٹو کی 108 ویں سالگرہ کے موقع پر گوگل نے اپنا ڈوڈل ان کے نام کردیا۔

    گوگل آج اپنے ڈوڈل کے ذریعے منٹو کو خراج عقیدت پیش کررہا ہے، آج منٹو کا 108 واں یوم پیدائش ہے۔ مختصر اور جدید افسانے لکھنے والے یہ بے باک مصنف 11 مئی 1912 کو پنجاب کے ضلع لدھیانہ کے شہر شملہ میں پیدا ہوئے۔

    منٹو کے مضامین کا دائرہ معاشرتی تقسیم زر کی لا قانونیت اور تقسیم ہند سے قبل انسانی حقوق کی پامالی رہا اور متنازعہ موضوعات پر کھل کر قلم طراز ہوتا رہا جس پر کئی بار انہیں عدالت کے کٹہرے تک بھی جانا پڑا مگر قانون انھیں کبھی سلاخوں کے پیچھے نہیں بھیج سکا۔

    منٹو کا ہمیشہ یہی کہنا رہا کہ میں معاشرے کے ڈھکے ہوئے یا پس پردہ گناہوں کی نقاب کشائی کرتا ہوں جو معاشرے کے ان داتاؤں کے غضب کا سبب بنتے ہیں، اگر میری تحریر گھناؤنی ہے تو وہ معاشرہ جس میں آپ جی رہے ہیں وہ بھی گھناؤنا ہے کہ میری کہانیاں اسی پردہ پوش معاشرے کی عکاس ہیں۔

    ان کے تحریر کردہ افسانوں میں چغد، لاؤڈ اسپیکر، ٹھنڈا گوشت، کھول دو، گنجے فرشتے، شکاری عورتیں، نمرود کی خدائی، کالی شلوار، بلاؤز اور یزید بے پناہ مقبول ہیں۔

    منٹو نے اپنی زندگی کا آخری دور انتہائی افسوسناک حالت میں گزارا، 18 جنوری 1955 کی ایک سرد صبح ہند و پاک کے تمام اہل ادب نے یہ خبر سنی کہ اردو ادب کو تاریخی افسانے اور کہانیاں دینے والا منٹو خود تاریخ بن گیا۔

  • کرامات

    کرامات

    لوٹا ہوا مال برآمد کرنے کے لیے پولیس نے چھاپے مارنے شروع کیے۔

    لوگ ڈر کے مارے لوٹا ہوا مال رات کے اندھیرے میں باہر پھینکنے لگے، کچھ ایسے بھی تھے جنھوں نے اپنا مال بھی موقع پا کر اپنے سے علیحدہ کردیا تاکہ قانونی گرفت سے بچے رہیں۔

    ایک آدمی کو بہت دقت پیش آئی۔ اس کے پاس شکر کی دو بوریاں تھیں جو اس نے پنساری کی دکان سے لوٹی تھیں۔ ایک تو وہ جوں کی توں رات کے اندھیرے میں پاس والے کنوئیں میں پھینک آیا لیکن جب دوسری اٹھا کر اس میں ڈالنے لگا تو خود بھی ساتھ چلا گیا۔

    شور سن کر لوگ اکھٹے ہوگئے۔ کنوئیں میں رسیاں ڈالی گئیں۔

    دو جوان نیچے اترے اور اس آدمی کو باہر نکال لیا، لیکن چند گھنٹوں کے بعد وہ مرگیا۔

    دوسرے دن جب لوگوں نے استعمال کے لیے اس کنوئیں میں سے پانی نکالا تو وہ میٹھا تھا!

    اسی رات اس آدمی کی قبر پر دیے جل رہے تھے۔

    مصنّف : سعادت حسن منٹو

  • منٹو کی تین مختصر کہانیاں

    منٹو کی تین مختصر کہانیاں

    تقسیمِ ہند کے اعلان اور بٹوارے کے بعد ہجرت کرنے والوں پر جو قیامتیں گزریں، اسے اس دور میں خاص طور پر ادیبوں نے اپنی تخلیقات کا موضوع بنایا۔ پاک و ہند کے نام ور مصنفین نے ہجرت کرتے انسانوں کا دکھ اور اس راستے میں انسانیت کی پامالی کو اپنی تحریروں میں پیش کیا ہے۔

    ہم اردو افسانے کے ایک معتبر نام سعادت حسن منٹو کی وہ کہانیاں آپ کے سامنے رکھ رہے ہیں جو مختصر نویسی میں مصنف کے کمال کی نظیر ہیں اور ظلم و ناانصافی کے اس ماحول کی عکاس ہیں۔ یہ کہانیاں منٹو کے مجموعہ ‘‘سیاہ حاشیے’’ سے لی گئی ہیں۔

    دعوتِ عمل
    آگ لگی تو سارا محلہ جل گیا۔
    صرف ایک دکان بچ گئی، جس کی پیشانی پر یہ بورڈ آویزاں تھا
    ‘‘ یہاں عمارت سازی کا جملہ سامان ملتا ہے’’

    خبردار
    بلوائی مالکِ مکان کو بڑی مشکلوں سے گھسیٹ کر باہر لے آئے۔
    کپڑے جھاڑ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا اور بلوائیوں سے کہنے لگا۔
    ‘‘تم مجھے مار ڈالو لیکن خبردار جو میرے روپے پیسے کو ہاتھ لگایا۔’’

    پیش بندی
    پہلی واردات ناکے کے ہوٹل کے پاس ہوئی، فوراً ہی وہاں ایک سپاہی کا پہرہ لگا دیا گیا۔
    دوسری واردات دوسرے ہی روز شام کو اسٹور کے سامنے ہوئی، سپاہی کو پہلی جگہ سے ہٹا کر دوسری واردات کے مقام پر متعین کردیا گیا۔
    تیسرا کیس رات کے بارہ بجے لانڈری کے پاس ہوا۔
    جب انسپکٹر نے سپاہی کو اس نئی جگہ پہرہ دینے کا حکم دیا تو اس نے کچھ دیر غور کرنے کے بعد کہا۔
    ‘‘ مجھے وہاں کھڑا کیجیے جہاں نئی واردات ہونے والی ہے۔’’

  • اردو کے کلاسک ادیب سعادت حسن منٹو کی 107 ویں سالگرہ

    اردو کے کلاسک ادیب سعادت حسن منٹو کی 107 ویں سالگرہ

    آج اردو کے کلاسک ادیب اور صاحب اسلوب افسانہ نویس سعادت حسن منٹو کی 107 ویں سالگرہ ہے۔

    منٹو نے معاشرے کی ننگی سچائیوں کو افسانوں کا موضوع بنایا تو اخلاقیات کے نام نہاد علم بردار پریشانی کا شکار ہو گئے اور ان کے خلاف محاذ بنا لیا۔

    اس منفرد اور بے مثال افسانہ نگار کے قلم کی کاٹ کے سامنے منافقانہ روش رکھنے والے سماج کے اخلاق کے نام نہاد محافظ نہیں ٹک سکے، منٹو کی اس روش کے خلاف یہی بغاوت ان کی شہرت کا باعث بنی۔

    مختصر اور جدید افسانے لکھنے والے یہ بے باک مصنف 11 مئی 1912 کو پنجاب ہندوستان کے ضلع لدھیانہ کے شہر شملہ میں پیدا ہوئے۔

    کشمیری نسل کا یہ خوب صورت، فیشن ایبل، صاف ستھرے کپڑے زیب تن کرنے والا مخصوص سنہری فریم کا چشمہ لگانے والا یہ افسانہ نگار ہم عصر ادیبوں میں نمایاں شخصیت کا مالک تھا لیکن پھر انتہائی کسمپرسی کی حالت میں، دوستوں سے محروم اور دشمنوں کے نرغے میں گِھر کر محض تینتالیس سال کی عمرمیں اس دارِفانی سے کوچ کر گیا۔

    منٹو اپنی بیوی صفیہ کے ساتھ

    منٹو کا قلم مخصوص طور پر تحلیلِ نفسی یا ذہنی ہیجانات اور فطرتِ انسانی کے امتزاج کی عکّاسی کرنے والا ایک ایسا نادر نمونہ تھا جس نے انھیں شہرت کے ساتھ ساتھ ذلت و رسوائی سے بھی دوچار کیا۔ معاشرے کو اس کی اپنی ہی تصویر دکھانے والے عکّاس کو اس کی بے ساختگی پر جو تازیانے کھانے پڑے وہ ایک ناقابل فراموش داستان ہے لیکن اس بات سے کسی کو انحراف نہیں کہ چھوٹے افسانوی نشتروں سے معاشرے کے پھوڑوں کی سرجری کرنے والا یہ افسانہ نگار بیسویں صدی کی سب سے زیادہ متنازع فیہ شخصیت کا اعزاز یافتہ مصنف تھا جس نے طوائفوں پر، دلالوں پر اور انسانی فطرت پر قلم اٹھایا جس کا مقابلہ ڈی ایچ لارنس سے کیا جا سکتا ہے اورڈی ایچ لارنس کی طرح منٹو نے بھی ان موضوعات کو مخصوص طور پر ابھارا جو ہند و پاک کی سوسائٹی میں معاشرتی طور پر گناہ تصوّر کیے جاتے تھے۔

    منٹو اپنی بیٹیوں نزہت، نگہت اور نصرت کے ساتھ

    منٹو کے مضامین کا دائرہ معاشرتی تقسیمِ زرکی لاقانونیت اور تقسیمِ ہند سے قبل انسانی حقوق کی پامالی رہا اور مزید متنازع فیہ موضوعات پر کھل کر قلم طراز ہوتا رہا جن پر کئی بار انھیں عدالت کے کٹہرے تک بھی جانا پڑا مگر قانون انھیں کبھی سلاخوں کے پیچھے نہیں بھیج سکا۔

    منٹو کا ہمیشہ یہی کہنا رہا کہ ’’میں معاشرے کے ڈھکے ہوئے یا پس پردہ گناہوں کی نقاب کشائی کرتا ہوں جو معاشرے کے ان داتاؤں کے غضب کا سبب بنتے ہیں اگر میری تحریر گھناؤنی ہے تو وہ معاشرہ جس میں آپ لوگ جی رہے ہیں وہ بھی گھناؤنا ہے کہ میری کہانیاں اُسی پردہ پوش معاشرے کی عکّاس ہیں۔‘‘

    ان کے تحریر کردہ افسانوں میں چغد، لاؤڈ اسپیکر، ٹھنڈا گوشت، کھول دو، گنجے فرشتے، شکاری عورتیں، نمرود کی خدائی، کالی شلوار، بلاؤز اور یزید بے پناہ مقبول ہیں۔

    اپنی عمر کے آخری سات برسوں میں منٹو دی مال لاہور پر واقع بلڈنگ دیال سنگھ منشن میں مقیم رہے، جہاں اپنی زندگی کا آخری دور انھوں نے انتہائی افسوس ناک حالت میں گزارا۔ سستی شراب کے بے پناہ استعمال سے ان کا جگر بے حد متاثر ہو چکا تھا اور آخر کار 18 جنوری 1955 کی ایک سرد صبح اہلِ لاہور نے بلکہ ہند و پاک کے تمام اہلِ ادب نے یہ خبر سنی کہ اردوادب کو تاریخی افسانے اور کہانیاں دینے والا منٹو خود تاریخ بن گیا۔

    سعادت حسن منٹو کی پچاسویں برسی پر حکومتِ پاکستان نے ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی یاد میں پانچ روپے مالیت کا ڈاک ٹکٹ شایع کیا تھا۔

  • منٹو، جو ہمارے ساتھ ساتھ چلتا ہے

    منٹو، جو ہمارے ساتھ ساتھ چلتا ہے

    ہم نے بہت سوں کو پڑھا، اور بھول گئے، آگے بڑھ گئے، مگر منٹو کا معاملہ ایسا نہیں۔

    ہم نے اُسے پڑھا، آگے بڑھے،اور تب ہم نے جانا کہ وہ بھی ہمارے ساتھ ساتھ چلتا ہے اور جب تک ہمارے پیروں میں دم ہے، جب تک ہم چلتے جائیں گے، منٹو ہمارے ساتھ ساتھ چلے گا۔

    اسی قوت کے سہارے منٹو آج 2019 میں ہمارے ساتھ ہے، گو وہ بہت سے، جو اس کے ساتھ چلے تھے، جو بڑے پرقوت تھے، جن کے ہاں بڑا تنوع تھا، پیچھے رہ گئے، مگرمنٹو ہمارے ساتھ ساتھ آگے بڑھا، اور وہ ہماری نئی نسل کے ساتھ بھی آگے بڑھے گا، مجھے یقین ہے۔

    سید فرید حسین

    اب وہ ٹرینڈ بن گیا ہے صاحب، پاکستانی اور بھارتی سنیما اس کی زیست کو زینت بنا چکے ہیں، اس کے کام کا انگریزی میں ترجمہ ہورہا ہے، یعنی وہ نسل، جو اردو سے نابلد ہے، وہ بھی کسی نہ کسی طرح منٹو سے جڑی ہوئی ہے۔

    یہ کتاب منٹو خزانہ، جس کا نام سینئر صحافی غلام محی الدین نے تجویز کیا، اور جس کے افسانوں کا انتخاب معروف ناشر اور سماجی کارکن، سید فرید حسین کے پرخلوص مطالعے اورلگن کی دین ہے، منٹو کے عشق کو مہمیز کرے گی۔ الاﺅ کچھ اور روشن ہوگا، کچھ اور روشنی بڑھے گا منٹوکو مزید پڑھا جائے گا۔ مزید چاہا جائے گا۔ یہ بیت چکا شخص مزید زیر بحث آئے گا۔

    یہ کیسا کمال ہے کہ جو کچھ وہ سات عشرے پہلے لکھ گیا، وہ آج بھی متعلقہ ہے، آج بھی قابل مطالعہ ہے، آج بھی سانس لیتا ہے۔

    چلیں، منٹو سے ایک بار پھر ملتے ہیں ، ایک خزانہ آپ کے ہاتھ میں ہے، آئیں، اس کی خیرہ کن روشنی میں کھو جائیں۔

    رمضان اور محرم میں، پورے ماہ تک جاری رہنے والے انوکھے کتب میلوں کے روح رواں سید فرید حسین کے ادارہ فرید پبلشرز کی شایع کردہ یہ کتاب 398 صفحات پر مشتمل ہے۔ قیمت 600 روپے ہے، یہ ڈسٹ کور کے ساتھ، اچھے ڈھب پر شایع کی گئی ہے۔