Tag: منٹو کی کہانی

  • بے خبری کا فائدہ (مختصر کہانی)

    بے خبری کا فائدہ (مختصر کہانی)

    اردو کے نام ور ادیب اور مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی مختصر کہانیاں (افسانچے) تقسیمِ ہند اور اس سے جڑے ان واقعات کی عکاس ہیں جو بربریت، دہشت، طاقت، جنون، وحشت، اختیار، بے حسی، سفاکی اور دوسری جانب مجبوری و بے بسی، غربت و افلاس اور خوف کے بطن سے جنم لیتے ہیں۔

    یہ ایک ایسی ہی کہانی ہے جو جنون، ڈر اور خوف کے ساتھ درندہ صفت انسان کی نفسیاتی کیفیت کی عکاس ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    لبلبی دبی۔ پستول سے جھنجھلا کر گولی باہر نکلی۔ کھڑکی میں سے باہر جھانکنے والا آدمی اسی جگہ دہرا ہوگیا۔

    لبلبی تھوڑی دیر کے بعد پھر دبی۔ دوسری گولی بھنبھناتی ہوئی باہر نکلی۔ سڑک پر ماشکی کی مشک پھٹی۔ اوندھے منہ گرا اور اس کا لہو مشک کے پانی میں حل ہوکر بہنے لگا۔

    لبلبی تیسری بار دبی۔ نشانہ چوک گیا۔ گولی ایک گیلی دیوار میں جذب ہوگئی۔

    چوتھی گولی ایک بوڑھی عورت کی پیٹھ میں لگی۔ وہ چیخ بھی نہ سکی اور وہیں ڈھیر ہوگئی۔

    پانچویں اور چھٹی گولی بیکار ہوگئی۔ کوئی ہلاک ہوا نہ زخمی۔

    گولیاں چلانے والا بھنا گیا۔ دفعتا سڑک پر ایک چھوٹا سا بچہ دوڑتا دکھائی دیا۔

    گولیاں چلانے والے نے پستول کا منہ اس طرف موڑا۔ اس کے ساتھی نے کہا، ’’یہ کیا کرتے ہو؟‘‘

    گولیاں چلانے والے نے پوچھا، ’’کیوں؟‘‘

    ’’گولیاں تو ختم ہوچکی ہیں۔‘‘

    ’’تم خاموش رہو۔ اتنے سے بچّے کو کیا معلوم؟‘‘

  • ’’ہیپ ٹلا کا اصل مطلب کیا ہے، کس زبان کا لفظ ہے؟‘‘

    ’’ہیپ ٹلا کا اصل مطلب کیا ہے، کس زبان کا لفظ ہے؟‘‘

    میں بمبئی ٹاکیز میں ملازم تھا۔ ان دنوں کمال امروہی کی فلمی کہانی’حویلی‘ ( جو ’محل‘ کے نام سے فلمائی گئی) کی تشکیل و تکمیل ہو رہی تھی۔ اشوک، واچا، حسرت (لکھنوی) اور میں سب ہر روز بحث و تمحیص میں شامل ہوتے تھے۔ ان نشستوں میں کام کے علاوہ کبھی کبھی خوب زوروں پر گپ بھی چلتی تھی، ایک دوسرے سے مذاق ہوتے۔

    شیام کو جب فلم’مجبور‘ کی شوٹنگ سے فراغت ہوتی تو وہ بھی ہماری محفل میں شریک ہو جاتا۔ کمال امروہی کو عام گفتگو میں بھی ٹھیٹھ قسم کے ادبی الفاظ استعمال کرنے کی عادت ہے۔ میرے لیے یہ ایک مصیبت ہو گئی تھی، اس لیے اگر میں عام فہم انداز میں کہانی کے متعلق اپنا کوئی نیا خیال پیش کرتا تو اس کا اثر کمال پر پوری طرح نہیں ہوتا تھا۔ اس کے برعکس اگر میں زور دار الفاظ میں اپنا عندیہ بیان کرتا تو اشوک اور واچا کی سمجھ میں کچھ نہ آتا۔ چناں چہ میں ایک عجیب قسم کی ملی جلی زبان استعمال کرنے لگا۔

    ایک روز صبح گھر سے بمبئی ٹاکیز آتے ہوئے میں نے اخبار کا اسپورٹس کالم کھولا۔ بڑے برن اسٹیڈیم میں کرکٹ میچ ہورہے تھے۔ ایک کھلاڑی کا نام عجیب و غریب تھا، ’’ہیپ ٹلا۔۔۔‘‘ ایچ، ای، پی، ٹی، یو، ایل، ایل، ایچ، اے۔۔۔ ہیپ ٹلا۔۔۔ میں نے بہت سوچاکہ آخر یہ کیا ہو سکتا ہے مگر کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ شاید ہیبت اللہ کی بگڑی ہوئی شکل تھی۔

    اسٹوڈیو پہنچا تو کمال کی کہانی کی فلمی تشکیل کا کام شروع ہوا۔ کمال نے اپنے مخصوص ادیبانہ اور اثر پیدا کرنے والے انداز میں کہانی کا ایک باب سنایا۔ مجھ سے اشوک نے رائے طلب کی، ’’کیوں منٹو؟‘‘

    معلوم نہیں کیوں، میرے منہ سے نکلا، ’’ٹھیک ہے، مگر ہیپ ٹلا نہیں!‘‘

    بات کچھ بن ہی گئی، ’’ہیپ ٹلا‘‘ میرا مطلب بیان کر گیا۔ میں کہنا یہ چاہتا تھا کہ سیکونس زور دار نہیں ہے۔

    کچھ عرصے کے بعد حسرت نے اسی باب کو ایک نئے طریقے سے پیش کیا۔ میری رائے پوچھی گئی تو میں نے اب کی دفعہ ارادی طور پر کہا، ’’بھئی حسرت بات نہیں بنی۔ کوئی ہیپ ٹلا چیز پیش کرو، ہیپ ٹلا۔‘‘ دوسری مرتبہ ہیپ ٹلا کہہ کر میں نے سب کی طرف رد عمل معلوم کرنے کے لیےدیکھا۔ یہ لفظ اب معنی اختیار کر چکا تھا۔

    چناں چہ اس نشست میں بلاتکلف میں نے اسے استعمال کیا۔ ہپ ٹلیٹی نہیں۔ ہپ ٹولائز کرنا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اچانک اس بار اشوک مجھ سے مخاطب ہوا، ’’ہیپ ٹلا کا اصل مطلب کیا ہے؟ کس زبان کا لفظ ہے؟‘‘

    شیام اس وقت موجود تھا۔ جب اشوک نے مجھ سے یہ سوال کیا، اس نے زور کا قہقہہ لگایا، اس کی آنکھیں سکڑ گئیں۔ ٹرین میں وہ میرے ساتھ تھا جب میں نے کرکٹ کے کھلاڑی کے اس عجیب و غریب نام کی طرف اس کو متوجہ کیا تھا، ہنس ہنس کے دہرا ہوتے ہوئے اس نے سب کو بتایا کہ یہ منٹو کی نئی منٹویت ہے۔ جب کچھ سمجھ میں نہ آیا تو ہیپ ٹلا کو کھینچ کر فلمی دنیا میں لے آیا، مگر کھینچا تانی کے بغیر یہ لفظ بمبے کے فلمی حلقوں میں رائج ہوگیا۔

  • طاقت کا امتحان

    طاقت کا امتحان

    کھیل خوب تھا، کاش تم بھی وہاں موجود ہوتے۔ مجھے کل کچھ ضروری کام تھا مگر اس کھیل میں کون سی چیز ایسی قابلِ دید تھی جس کی تم اتنی تعریف کر رہے ہو؟

    ایک صاحب نے چند جسمانی ورزشوں کے کرتب دکھلائے کہ ہوش گم ہوگیا۔
    مثلاً….!
    مثلاً کلائی پر ایک انچ موٹی آہنی سلاخ کو خم دینا۔
    یہ تو آج کل بچے بھی کر سکتے ہیں۔
    چھاتی پر چکی کا پتھر رکھوا کر آہنی ہتھوڑوں سے پاش پاش کرانا۔
    میں نے ایسے بیسیوں شخص دیکھے ہیں۔
    مگر وہ وزن جو اس نے دو ہاتھوں سے اٹھا کر ایک تنکے کی طرح پرے پھینک دیا کسی اور شخص کی بات نہیں، یہ تمہیں بھی ماننا پڑے گا۔
    بھلے آدمی یہ کون سا اہم کام ہے، وزن کتنا تھا آخر۔
    کوئی چار من کے قریب ہوگا، کیوں؟
    اتنا وزن تو شہر کا فاقہ زدہ مزدور گھنٹوں پشت پر اٹھائے رہتا ہے۔
    بالکل غلط ۔
    وہ کیوں؟
    غلیظ ٹکڑوں پر پلے ہوئے مزدور میں اتنی قوت نہیں ہوسکتی۔ طاقت کے لیے اچھی غذا کا ہونا لازم ہے۔ شہر کا مزدور… کیسی باتیں کر رہے ہو۔
    غذا والے معاملے کے متعلق میں تم سے متفق ہوں، مگر یہ حقیقت ہے۔ یہاں ایسے بہتیرے مزدور ہیں جو دو پیسے کی خاطر چار من بل کہ اس سے کچھ زیادہ وزن اٹھا کر تمھارے گھر کی دوسری منزل پر چھوڑ آ سکتے ہیں، کہو تو اسے ثابت کر دوں؟

    یہ گفت گو دو نوجوان طلبہ میں ہو رہی تھی جو ایک پُر تکلف کمرے کی گدی دار کرسیوں پر بیٹھے سگریٹ کا دھواں اڑا رہے تھے۔

    میں اسے ہرگز نہیں مان سکتا اور باور آئے بھی کس طرح قاسم چوب فروش کے مزدور ہی کو لو۔ کم بخت سے ایک من لکڑیاں بھی تو اٹھائی نہیں جاتیں۔ ہزاروں میں ایک ایسا طاقت ور ہو تو اچنبھا نہیں ہے۔

    چھوڑو یار اس قصے کو، بھاڑ میں جائیں یہ سب مزدور اور چولھے میں جائے ان کی طاقت۔ سنائو آج تاش کی بازی لگ رہی ہے؟

    تاش کی بازیاں تو لگتی ہیں رہیں گی، پہلے اس بحث کا فیصلہ ہونا چاہیے۔

    سامنے والی دیوار پر آویزاں کلاک ہر روز اسی قسم کی لا یعنی گفت گو سے تنگ آکر برابر اپنی ٹک ٹک کیے جا رہا تھا۔ سگریٹ کا دھواں ان کے منہ سے آزاد ہوکر بڑی بے پروائی سے چکر لگاتا ہوا کھڑکی کے راستے باہر نکل رہا تھا۔

    دیواروں پر لٹکی ہوئی تصاویر کے چہروں پر بے فکری و بے اعتنائی کی جھلکیاں نظر آتی تھیں۔ کمرے کا فرنیچر سال ہا سال سے ایک ہی جگہ پر جما ہوا کسی تغیر سے ناامید ہو کر بے حس پڑا سوتا تھا۔ آتش دان کے طاق پر رکھا ہوا کسی یونانی مفکر کا مجسمہ اپنی سنگین نگاہوں سے آدم کے ان دو فرزندوں کی بے معنی گفت گو سن کر تعجب سے اپنا سر کھجلا رہا تھا۔ کمرے کی فضا ان بھدی اور فضول باتوں سے کثیف ہو رہی تھی۔

    تھوڑی دیر تک دونوں دوست تاش کی مختلف کھیلوں، برج کے اصولوں اور روپیہ جیتنے کے طریقوں پر اظہارِ خیالات کرتے رہے۔ دفعتاً ان میں وہ جسے مزدور کی طاقت کے متعلق پورا یقین تھا اپنے دوست سے مخاطب ہوا۔
    باہر بازار میں لوہے کا جو گارڈر پڑا ہے وہ تمہارے خیال میں کتنا وزن رکھتا ہوگا۔

    پھر وہی بحث۔
    تم بتائو تو سہی۔
    پانچ چھے من کے قریب ہوگا۔
    یہ وزن تو تمہاری نظر میں کافی ہے نا؟
    یعنی تمہارا یہ مطلب ہے کہ لوہے کی یہ بھاری بھر کم لاٹھ تمہارا مزدور پہلوان اٹھائے گا۔ گدھے والی گاڑی ضرور ہوگی اس کے ساتھ ۔

    یہاں کے مزدور بھی گدھوں سے کیا کم ہیں۔ گیہوں کی دو تین بوریاں اٹھانا تو ان کے نزدیک معمولی کام ہے۔ مگر تمہیں کیا پتا ہوسکتا ہے۔ کہو تو، تمہارے کل والے کھیل سے کہیں حیرت انگیز اور بہت سستے داموں ایک نیا تماشا دکھائوں۔
    اگر تمہارا مزدور لوہے کا وہ وزنی ٹکڑا اٹھائے گا تو میں تیار ہوں۔
    تمہاری آنکھوں کے سامنے اور بغیر کسی چالاکی کے۔

    دونوں دوست اپنے اپنے سگریٹ کی خاک دان میں گردن دبا کر اٹھے اور باہر بازار کی طرف مزدور کی طاقت کا امتحان کرنے چل دیے۔ کمرے کی تمام اشیا کسی گہری فکر میں غرق ہوگئیں، جیسے انہیں کسی غیر معمولی حادثے کا خوف ہو، کلاک اپنی انگلیوں پر کسی متعینہ وقت کی گھڑیاں شمار کرنے لگا۔ دیواروں پر آویزاں تصویریں حیرت میں ایک دوسرے کا منہ تکنے لگیں۔ کمرے کی فضا خاموش آہیں بھرنے لگ گئی۔

    لوہے کا وہ بھاری بھر کم ٹکڑا لاش کا سا سرد اور کسی وحشت ناک خواب کی طرح تاریک، بازار کے ایک کونے میں بھیانک دیو کی مانند اکڑا ہوا تھا۔ دونوں دوست لوہے کے اس ٹکڑے کے پاس آ کر کھڑے ہوگئے اور کسی مزدور کا انتظار کرنے لگے۔

    بازار بارش کی وجہ سے کیچڑ میں لت پت تھا، جو راہ گزروں کے جوتوں کے ساتھ اچھل اچھل کر ان کا مضحکہ اڑا رہی تھی۔ یوں معلوم ہوتا گویا وہ اپنے روندنے والوں سے کہہ رہی ہے کہ وہ اسی آب و گل کی تخلیق ہیں جسے وہ اس وقت پائوں سے گوندھ رہے ہیں۔ مگر وہ اس حقیقت سے غافل اپنے دنیاوی کام دھندوں کی دھن میں مصروف کیچڑ کے سینے کو مسلتے ہوئے ادھر ادھر جلد جلد قدم اٹھاتے ہوئے جا رہے تھے۔

    کچھ دکان دار اپنے گاہکوں کے ساتھ سودا طے کرنے میں مصروف تھے اور کچھ سجی ہوئی دکانوں میں تکیہ لگائے اپنے حریف ہم پیشہ دکان داروں کی طرف حاسدانہ نگاہوں سے دیکھ رہے تھے اور اس وقت کے منتظر تھے کہ کوئی گاہک وہاں سے ہٹے اور وہ اسے کم قیمت کا جھانسا دیکر گھٹیا مال فروخت کردیں۔

    ان منیاری کی دکانوں کے ساتھ ہی ایک دوا فروش اپنے مریض گاہکوں کا انتظار کر رہا تھا۔ بازار میں سب لوگ اپنے اپنے خیال میں مست تھے اور یہ دو دوست کسی دنیاوی فکر سے بے پروا ایک ایسے مزدور کی راہ دیکھ رہے تھے جو ان کی دلچسپی کا سامان مہیا کر سکے۔

    دور بازار کے آخری سرے پر ایک مزدور کمر کے گرد رسی لپیٹے اور پشت پر ٹاٹ کا ایک موٹا سا ٹکڑا لٹکائے کیچڑ کی طرف معنی خیز نگاہوں سے دیکھتا ہوا چلا آ رہا تھا۔

    نان بائی کی دکان کے قریب پہنچ کر وہ دفعتاً ٹھٹکا، سالن کی دیگچیوں اور تنور سے تازہ نکلی ہوئی روٹیوں نے اس کے پیٹ میں نوک دار خنجروں کا کام کیا۔

    مزدور نے اپنی پھٹی ہوئی جیب کی طرف نگاہ کی اور گرسنہ دانتوں سے اپنے خشک لبوں کو کاٹ کر خاموش رہ گیا، سرد آہ بھری اور اسی رفتار سے چلنا شروع کر دیا۔ چلتے وقت اس کے کان بڑی بے صبری سے کسی کی دل خوش کن آواز ”مزدور“ کا انتظار کر رہے تھے مگر اس کے دل میں نہ معلوم کیا کیا خیالات چکر لگا رہے تھے۔

    دو تین دن سے روٹی بہ مشکل نصیب ہوئی ہے اب چار بجنے کو آئے ہیں مگر ایک کوڑی تک نہیں ملی۔ کاش آج صرف ایک روٹی کے لئے ہی کچھ نصیب ہو جائے بھیک؟ نہیں خدا کارساز ہے۔

    اس نے بھوک سے تنگ آ کر بھیک مانگنے کا خیال کیا مگر اسے ایک مزدور کی شان کے خلاف سمجھتے ہوئے خدا کا دامن تھام لیا اور اس خیال سے مطمئن ہو کر جلدی جلدی اس بازار کو طے کرنے لگا، اس خیال سے کہ شاید دوسرے بازار میں اسے کچھ نصیب ہو جائے۔

    دونوں دوستوں نے بیک وقت ایک مزدور کو تیزی سے اپنی طرف قدم بڑھاتے دیکھا، مزدور دبلا پتلا نہ تھا چناں چہ انہوں نے فوراً آواز دی۔

    مزدور…. یہ سنتے ہی گویا مزدور کے سوکھے دھانوں میں پانی مل گیا، بھاگا ہوا آیا اور نہایت ادب سے پوچھنے لگا۔

    جی حضور؟
    دیکھو، لوہے کا یہ ٹکڑا اٹھا کر ہمارے ساتھ چلو، کتنے پیسے لو گے؟
    مزدور نے جھک کر لوہے کے بھاری بھر کم ٹکڑے کی طرف دیکھا اور دیکھتے ہی اس کی آنکھوں کی وہ چمک جو مزدور کا لفظ سن کر پیدا ہوئی تھی، غائب ہوگئی۔

    وزن بلا شک و شبہ زیادہ تھا مگر روٹی کے قحط اور پیٹ پوجا کے لیے سامان پیدا کرنے کا سوال اس سے کہیں وزنی تھا۔

    مزدور نے ایک بار پھر اس آہنی لاٹھ کی طرف دیکھا اور دل میں عزم کرنے کے بعد کہ وہ اسے ضرور اٹھائے گا، ان سے بولا۔

    جو حضور فرمائیں؟
    یعنی تم یہ وزن اکیلے اٹھا لوگے؟ ان دو لڑکوں میں سے اس نے مزدور کی طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا جو کل شب جسمانی کرتب دیکھ کر آیا تھا۔
    بولو کیا لو گے؟ یہ وزن بھلا کہاں سے زیادہ ہوا؟ دوسرے نے بات کا رخ پلٹ دیا۔
    کہاں تک جانا ہوگا حضور؟
    بہت قریب، دوسرے بازار کے نکڑ تک۔
    وزن زیادہ ہے، آپ تین آنے دے دیجیے۔
    تین آنے؟
    جی ہاں، تین آنے کچھ زیادہ تو نہیں ہیں۔
    دو آنے مناسب ہے بھئی۔
    دو آنے آٹھ پیسے، یعنی دو وقت کے لیے سامانِ خورد و نوش، یہ سوچتے ہی مزدور راضی ہوگیا۔ اس نے اپنی کمر سے رسی اتاری اور اسے لوہے کے ٹکڑے کے ساتھ مضبوطی سے باندھ دیا، دو تین جھٹکوں کے بعد وہ آہنی سلاخ اس کی کمر پر تھی۔

    گو وزن واقعی ناقابلِ برداشت تھا مگر تھوڑے عرصے کے بعد ملنے والی روٹی نے مزدور کے جسم میں عارضی طور پر ایک غیر معمولی طاقت پیدا کر دی تھی، اب ان کاندھوں میں جو بھوک کی وجہ سے مردہ ہو رہے تھے، روٹی کا نام سن کر طاقت عود کر آئی۔

    گرسنہ انسان بڑی سے بڑی مشقت فراموش کر دیتا ہے، جب اسے اپنے پیٹ کے لیے کچھ سامان نظر آتا ہے۔

    آئیے۔ مزدور نے بڑی ہمت سے کام لیتے ہوئے کہا۔

    دونوں دوستوں نے ایک دوسرے کی طرف نگاہیں اٹھائیں اور زیرِ لب مسکرا دیے، وہ بہت مسرور تھے۔

    چلو، مگر ذرا جلدی قدم بڑھائو، ہمیں کچھ اور بھی کام کرنا ہے۔
    مزدور ان دو لڑکوں کے پیچھے ہو لیا، وہ اس حقیقت سے بے خبر تھا کہ موت اس کے کاندھوں پر سوار ہے۔

    کیوں میاں، کہاں ہے وہ تمہارا کل والا سینڈو؟
    کمال کردیا ہے اس مزدور نے، واقعی سخت تعجب ہے۔
    تعجب؟ اگر کہو تو اس لوہے کے ٹکڑے کو تمھارے گھر کی بالائی چھت پر رکھوا دوں۔
    مگر سوال ہے کہ ہم لوگ اچھی غذا ملنے پر بھی اتنے طاقت ور نہیں ہیں۔
    ہماری غذا تو کتابوں اور دیگر علمی چیزوں کی نذر ہو جاتی ہے۔ انہیں اس قسم کی سر دردی سے کیا تعلق؟ بے فکری، کھانا اور سو جانا۔
    واقعی درست ہے۔
    لڑکے مزدور پر لدے ہوئے بوجھ اور اس کی خمیدہ کمر سے غافل آپس میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔

    وہاں سے سو قدم کے فاصلے پر مزدور کی قضا کیلے کے چھلکے میں چھپی ہوئی اپنے شکار کا انتظار کر رہی تھی۔ گو مزدور کیچڑ میں پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا تھا مگر تقدیر کے آگے تدبیر کی ایک بھی پیش نہ چلی۔ اس کا قدم چھلکے پر پڑا، پھسلا اور چشم زدن میں لوہے کی اس بھاری لاٹھ نے اسے کیچڑ میں پیوست کر دیا۔
    مزدور نے مترحم نگاہوں سے کیچڑ اور لوہے کے سرد ٹکڑے کی طرف دیکھا، تڑپا اور ہمیشہ کے لیے بھوک کی گرفت سے آزاد ہوگیا۔

    دھماکے کی آواز سن کر دونوں لڑکوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا، مزدور کا سر آہنی سلاخ کے نیچے کچلا ہوا تھا، آنکھیں باہر نکلی ہوئی نہ معلوم کس سمت ٹکٹکی لگائے دیکھ رہی تھیں۔ خون کی ایک موٹی سی تہ کیچڑ کے ساتھ ہم آغوش ہو رہی تھی۔

    چلو آئو چلیں، ہمیں خواہ مخواہ اس حادثے کا گواہ بننا پڑے گا۔
    میں پہلے ہی کہہ رہا تھا کہ یہ وزن اس سے نہیں اٹھایا جائے گا لالچ!

    یہ کہتے ہوئے دونوں لڑکے مزدور کی لاش کے گرد جمع ہوتی ہوئی بھیڑ کو کاٹتے ہوئے اپنے گھر روانہ ہو گئے۔
    سامنے والی دکان پر ایک بڑی توند والا شخص ٹیلی فون کا چونگا ہاتھ میں لیے غالباً گندم کا بھائو طے کرنے والا تھا کہ اس نے مزدور کو موت کا شکار ہوتے دیکھا اور اس حادثے کو منحوس خیال کرتے ہوئے بڑبڑا کر ٹیلی فون کا سلسلہ گفت گو منقطع کردیا۔

    کم بخت کو مرنا بھی تھا تو میری دکان کے سامنے۔ بھلا ان لوگوں کو اس قدر وزن اٹھانے پر کون مجبور کرتا ہے!
    تھوڑی دیر کے بعد اسپتال کی آہنی گاڑی آئی اور مزدور کی لاش اٹھا کر عمل جراحی کے لیے ڈاکٹروں کے سپرد کر دی۔

    دھندلے آسمان پر ابر کے ایک ٹکڑے نے مزدور کے خون کو کیچڑ میں ملتے ہوئے دیکھا، اس کی آنکھوں میں آنسو چھلک پڑے۔ ان آنسوئوں نے سڑک کے سینے پر اس خون کے دھبوں کو دھو دیا۔

    آہنی لاٹھ ابھی تک بازار کے ایک کنارے پڑی ہوئی ہے، مزدور کے خون کا صرف ایک قطرہ باقی ہے جو دیوار کے ساتھ چمٹا ہوا نہیں معلوم کس چیز کا اپنی خونیں آنکھوں سے انتظار کر رہا ہے۔

    مصنف: سعادت حسن منٹو