Tag: منٹو کے افسانے

  • یہ تین کہانیاں سعادت حسن منٹو کو مرنے نہیں دیں گی!

    یہ تین کہانیاں سعادت حسن منٹو کو مرنے نہیں دیں گی!

    سعادت حسن منٹو نہیں‌ رہا، مگر اس کی کہانیوں کے کردار آج بھی زندہ ہیں جن میں کم ہی تعمیری اور مثبت سوچ کے ساتھ معاشرے کو کچھ دے رہے ہیں، اکثریت انہی کی ہے جن کو اپنا حال اور مستقبل بہتر بنانے کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے وہ کر گزریں گے، ان کے نزدیک کوئی اصول، اخلاقی پیمانہ، قاعدہ قانون معنی نہیں رکھتا۔ بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اپنے مکر و فریب کا جال پھیلائے یہ لوگ جنھیں منٹو نے اپنے افسانوں میں پیش کیا، ہمارے اردگرد موجود ہیں۔

    کل منٹو کی برسی تھی۔ وہی منٹو جس نے انسانوں کو حیوان بنتے دیکھا۔ کبھی دین دھرم کے نام پر ظلم دیکھا تو کبھی ذات پات اور برادری کے زعم میں انسانوں کی تذلیل دیکھی اور کبھی دولت اور طاقت کے زور پر انسانیت کا قتل۔

    سماج کے طاقت وَر اور بااختیار طبقات کی ناراضی مول لینے میں‌ سعادت حسن منٹو نے ہچکچاہٹ یا کم زوری کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اس نے مخصوص ذہنیت کے حامل اور روایتی سوچ رکھنے والوں کو بھی نہیں چھوڑا، اور اپنی تحریروں میں انفرادی اور اجتماعی بے حسی اور منافقت کا پردہ چاک کرتا رہا۔ موت تو ایک اٹل حقیقت ہے۔ منٹو بھی مٹی میں‌ مل گیا، اور آج تک لوٹ کر نہیں آیا، مگر کیا غضب ہے کہ ان سارے کرداروں کا آج بھی نئے چہروں اور ناموں کے ساتھ ہماری دنیا میں آنا جانا لگا ہوا ہے جنھیں منٹو نے اپنے قلم کی نوک سے ادھیڑ کر رکھ دیا تھا۔

    ہندوستان کے بٹوارے کے بعد جو واقعات پیش آئے اور لوگوں پر جو قیامتیں گزریں، وہ اردو ادب کا حصّہ ہے۔ منٹو نے بھی تقسیم کے بعد انسانیت کی پامالی کے مناظر کو اپنی تحریروں میں دکھایا۔ مشہور افسانہ نگار اور ادیب سعادت حسن منٹو کی یہاں ہم وہ تین کہانیاں نقل کررہے ہیں جو مختصر نویسی میں مصنّف کے کمال کی نظیر بھی ہیں، اور ظلم اور ناانصافی کی جھلک بھی دکھاتی ہیں۔ ‘‘سیاہ حاشیے’’ سے لی گئی ایک کہانی پڑھیے۔

    عنوان: پیش بندی

    پہلی واردات ناکے کے ہوٹل کے پاس ہوئی، فوراً ہی وہاں ایک سپاہی کا پہرہ لگا دیا گیا۔

    دوسری واردات دوسرے ہی روز شام کو اسٹور کے سامنے ہوئی، سپاہی کو پہلی جگہ سے ہٹا کر دوسری واردات کے مقام پر متعین کردیا گیا۔

    تیسرا کیس رات کے بارہ بجے لانڈری کے پاس ہوا۔ جب انسپکٹر نے سپاہی کو اس نئی جگہ پہرہ دینے کا حکم دیا تو اس نے کچھ دیر غور کرنے کے بعد کہا۔

    ‘‘ مجھے وہاں کھڑا کیجیے جہاں نئی واردات ہونے والی ہے۔’’

    ایک اور کہانی ملاحظہ کیجیے جس میں سعادت حسن منٹو ہماری موقع پرستی یا تاجرانہ ذہنیت کا پردہ چاک کرتے ہیں۔

    عنوان: دعوتِ عمل

    آگ لگی تو سارا محلہ جل گیا۔

    صرف ایک دکان بچ گئی، جس کی پیشانی پر یہ بورڈ آویزاں تھا، ‘‘ یہاں عمارت سازی کا جملہ سامان ملتا ہے’’

    منٹو نے 11 مئی 1912ء کو سمرالہ، ضلع لدھیانہ میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم امرتسر سے حاصل کی اور بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں وقت گزارا، مگر تعلیم مکمل نہ کرسکے اور واپس امرتسر آگئے۔ لکھنے لکھانے کا شوق تھا۔ ادب، فلم اور صحافت میں نام کمایا۔ ابتدا میں انھوں نے لاہور کے رسالوں میں کام کیا۔ پھر آل انڈیا ریڈیو دہلی سے وابستہ ہوگئے جہاں انہوں نے ڈرامے اور فیچر لکھے۔ بعدازاں بمبئی منتقل ہوگئے جہاں فلمی صحافت سے وابستہ ہوئے اور کئی رسالوں کی ادارت کی۔ افسانہ نگاری کے ساتھ انھوں نے فلموں کی کہانیاں اور مکالمے، خاکے بھی تحریر کیے اور تقسیم کے بعد لاہور چلے آئے۔ منٹو کے قلم نے جنسی موضوعات اور ہجرت پر جو کہانیاں لکھیں‌، اس نے منٹو کو جرأت مند، کھرا اور صاف گو بھی ثابت کیا اور اسی پر انھیں گھٹیا اور سستے قلم کار کا طعنہ بھی اور فحش نگاری کا الزام بھی ان پر لگا۔ 18 جنوری 1955ء کو منٹو دنیا سے چلے گئے۔

    منٹو کی یہ کہانی پڑھ کر خیال آتا ہے کہ کیسے کوئی انسان مال و دولت کی خاطر اپنی زندگی گنوانے کو تیار ہوجاتا ہے۔ اور ظاہر ہے ایسا شخص موقع ملنے پر مال ہتھیانے کے لیے کسی دوسرے انسان سے اس کی زندگی چھین بھی سکتا ہے۔ کہانی پڑھیے۔

    عنوان:خبردار

    بلوائی مالک مکان کو بڑی مشکلوں سے گھسیٹ کر باہر لے آئے۔

    کپڑے جھاڑ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا اور بلوائیوں سے کہنے لگا۔

    ‘‘تم مجھے مار ڈالو لیکن خبردار جو میرے روپے پیسے کو ہاتھ لگایا۔’’

    سعادت حسن منٹو نے تو اپنے ہم پیشہ، اہلِ قلم اور اخبار و جرائد کے مالکان کو بھی نہیں‌ بخشا اور جھوٹ، غلط بیانی، دھوکہ دہی اور ناانصافی پر خوب بولے۔ منٹو کا ایک مضمون پیشِ‌ خدمت ہے:

    "مجھے شکایت ہے ان لوگوں سے جو اردو زبان کے خادم بن کر ماہانہ، ہفتہ یا روزانہ پرچہ جاری کرتے ہیں اور اس ’’خدمت‘‘ کا اشتہار بن کر لوگوں سے روپیہ وصول کرتے ہیں مگر ان مضمون نگاروں کو ایک پیسہ بھی نہیں دیتے، جن کے خیالات و افکار ان کی آمدن کا موجب ہوتے ہیں۔

    مجھے شکایت ہے ان ایڈیٹروں سے جو ایڈیٹر بھی ہیں اور مالک بھی۔ جو مضمون نگاروں کی بدولت چھاپے خانے کے مالک بھی ہیں لیکن جب ایک مضمون کا معاوضہ دینا پڑ جائے تو ان کی روح قبض ہو جاتی ہے۔

    مجھے شکایت ہے ان سرمایہ داروں سے جو ایک پرچہ روپیہ کمانے کے لیے جاری کرتے ہیں اور اس کے ایڈیٹر کو صرف پچیس یا تیس روپے ماہوار تنخواہ دیتے ہیں۔ ایسے سرمایہ دار خود تو بڑے آرام کی زندگی بسر کرتے ہیں، لیکن وہ ایڈیٹر جو خون پسینہ ایک کر کے ان کی دولت میں اضافہ کرتے ہیں، آرام دہ زندگی سے ہمیشہ دور رکھے جاتے ہیں۔ مجھے شکایت ہے ان ناشروں سے جو کوڑیوں کے دام تصانیف خریدتے ہیں اور اپنی جیبوں کے لیے سیکڑوں روپے اکٹھے کر لیتے ہیں۔ جو سادہ لوح مصنفین کو نہایت چالاکی سے پھانستے ہیں اور ان کی تصانیف ہمیشہ کے لیے ہڑپ کر جاتے ہیں۔ مجھے شکایت ہے ان سرمایہ دار جہلا سے جو روپے کا لالچ دے کر غریب اور افلاس زدہ ادیبوں سے ان کے افکار حاصل کرتے ہیں اور اپنے نام سے انہیں شائع کرتے ہیں۔

    سب سے بڑی شکایت مجھے ان ادیبوں، شاعروں اور افسانہ نگاروں سے ہے جو اخباروں اور رسالوں میں بغیر معاوضے کے مضمون بھیجتے ہیں۔ وہ کیوں اس چیز کو پالتے ہیں جو ایک کھیل بھی ان کے منہ میں نہیں ڈالتی۔ وہ کیوں ایسا کام کرتے ہیں جس سے ان کو ذاتی فائدہ نہیں پہنچتا۔ وہ کیوں ان کاغذوں پر نقش و نگار بناتے ہیں جو ان کے لیے کفن کا کام بھی نہیں دے سکتے۔

    مجھے شکایت ہے…… مجھے شکایت ہے…… مجھے ہر اس چیز سے شکایت ہے جو ہمارے قلم اور ہماری روزی کے درمیان حائل ہے۔ مجھے اپنے ادب سے شکایت ہے جس کی کنجی صرف چند افراد کے ہاتھ میں دے دی گئی ہے۔ ادب کی کنجی پریس ہے۔ جس پر چند ہوس پرست سرمایہ داروں کا قبضہ ہے۔ چند ایسے تاجروں کا قبضہ ہے جو ادب سے اتنے ہی دور ہیں جتنے کہ وہ تجارت کے نزدیک۔ مجھے اپنے ہم پیشہ ادیبوں سے شکایت ہے جو چند افراد کی ذاتی اغراض اپنے قلم سے پوری کرتے ہیں، جو ان کے جائز اور ناجائز مطالبے پر اپنے دماغ کی قاشیں پیش کر دیتے ہیں۔ مجھے شکایت ہے۔ مجھے اپنے آپ سے بھی شکایت ہے۔ اس لیے کہ میری آنکھیں بہت دیر کے بعد کھلی ہیں۔ بڑی دیر کے بعد یہ مضمون میں لکھنے بیٹھا ہوں جو آج سے بہت پہلے مجھ لکھ دینا چا ہیے تھا۔

  • خالد میاں!

    خالد میاں!

    یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو اپنے بیٹے کی موت کے وہم میں ذہنی تناؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کی پہلی سالگرہ سے دو دن قبل اس کے باپ کو وہم ستانے لگا کہ بچہ ایک سال کا ہونے سے پہلے ہی مر جائے گا۔ یہ افسانہ سعادت حسن منٹو کی تخلیق ہے۔

    ممتاز نے صبح سویرے اٹھ کر، حسب معمول تینوں کمرے میں جھاڑو دی۔ کونے کھدروں سے سگرٹوں کے ٹکڑے، ماچس کی جلی ہوئی تیلیاں اور اسی طرح کی اور چیزیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالیں۔ جب تینوں کمرے اچھی طرح صاف ہوگئے تو اس نے اطمینان کا سانس لیا۔

    اس کی بیوی باہر صحن میں سورہی تھی۔ بچہ پنگوڑے میں تھا۔ ممتاز ہر صبح سویرے اٹھ کر صرف اس لیے خود تینوں کمروں میں جھاڑو دیتا تھا کہ اس کا لڑکا خالد اب چلتا پھرتا تھا اور عام بچوں کے مانند، ہر چیز جو اس کے سامنے آئے، اٹھا کر منہ میں ڈال لیتا تھا۔

    ممتاز ہر روز تینوں کمرے بڑے احتیاط سے صاف کرتا مگر اس کو حیرت ہوتی جب خالد فرش پر اسے اپنے چھوٹے چھوٹے ناخنوں کی مدد سے کوئی نہ کوئی چیز اٹھا لیتا۔ فرش کا پلستر کئی جگہ سے اکھڑا ہوا تھا۔ جہاں کوڑے کرکٹ کے چھوٹے چھوٹے ذرے پھنس جاتے تھے۔ ممتاز اپنی طرف سے پوری صفائی کرتا مگر کچھ نہ کچھ باقی رہ جاتا جو اس کا پلوٹھی کا بیٹا خالد جس کی عمر ابھی ایک برس کی نہیں ہوئی تھی، اٹھا کر اپنے منہ میں ڈال لیتا۔

    ممتاز کو صفائی کا خبط ہوگیا تھا۔ اگر وہ خالد کو کوئی چیز فرش پر سے اٹھا کر اپنے منہ میں ڈالتے دیکھتا تو وہ خود کو اس کا ملزم سمجھتا۔ اپنے آپ کو دل ہی دل میں کوستا کہ اس نے کیوں بداحتیاطی کی۔ خالد سے اس کو پیار ہی نہیں عشق تھا، لیکن عجیب بات ہے کہ جوں جوں خالد کی پہلی سالگرہ کا دن نزدیک آتا تھا اس کا یہ وہم، یقین کی صورت اختیار کرتا جاتا تھا کہ اس کا بیٹا ایک سال کا ہونے سے پہلے پہلے مر جائے گا۔

    اپنے اس خوف ناک وہم کا ذکر ممتاز اپنی بیوی سے بھی کر چکا تھا۔ ممتاز کے متعلق یہ مشہور تھا کہ وہ اوہام کا بالکل قائل نہیں۔ اس کی بیوی نے جب پہلی بار اس کے منہ سے ایسی بات سنی تو کہا،’’آپ اور ایسے وہم۔۔۔ اللہ کے فضل و کرم سے ہمارا بیٹا سو سال زندہ رہے گا۔۔۔ میں نے اس کی پہلی سالگرہ کے لیے ایسا اہتمام کیا ہے کہ آپ دنگ رہ جائیں گے۔‘‘

    یہ سن کر ممتاز کے دل کو ایک دھکا سا لگا تھا۔ وہ کب چاہتا تھا کہ اس کا بیٹا زندہ نہ رہے لیکن اس کے وہم کا کیا علاج تھا۔ خالد بڑا تندرست بچہ تھا۔ سردیوں میں جب نوکر ایک دفعہ اس کو باہر سیر کے لیے لے گیا تو واپس آکر اس نے ممتاز کی بیوی سے کہا، ’’بیگم صاحب، آپ خالد میاں کے گالوں پر سرخی نہ لگایا کریں۔ کسی کی نظر لگ جائے گی۔‘‘

    یہ سن کر اس کی بیوی بہت ہنسی تھی، ’’بے وقوف مجھے کیا ضرورت ہے سرخی لگانے کی۔ ماشاء اللہ اس کے گال تو قدرتی لال ہیں۔‘‘

    سردیوں میں خالد کے گال بہت سرخ رہتے تھے مگر اب گرمیوں میں کچھ زردی مائل ہوگئے تھے۔ اس کو پانی کا بہت شوق تھا۔ چنانچہ جب وہ انگڑائی لے کر اٹھتا اور دودھ کی بوتل پی لیتا تو دفتر جانے سے پہلے ممتاز اس کو پانی کی بالٹی میں کھڑا کردیتا۔ دیر تک وہ پانی کے چھینٹے اڑا اڑا کر کھیلتا رہتا۔ ممتاز اور اس کی بیوی خالد کو دیکھتے اور بہت خوش ہوتے۔ لیکن ممتاز کی خوشی میں غم کا ایک برقی دھکا سا ضرور ہوتا۔

    وہ سوچتا خدا میری بیوی کی زبان مبارک کرے، لیکن یہ کیا ہے کہ مجھے اس کی موت کا کھٹکا رہتا ہے۔ یہ وہم کیوں میرے دل و دماغ میں بیٹھ گیا ہے کہ یہ مر جائے گا۔ کیوں مرے گا۔۔۔؟ اچھا بھلا صحت مند ہے۔ اپنی عمر کے بچوں سے کہیں زیادہ صحت مند۔ میں یقیناً پاگل ہوں۔ اس سے میری حد سے زیادہ بڑھی ہوئی محبت دراصل اس وہم کا باعث ہے۔ لیکن مجھے اس سے اتنی زیادہ محبت کیوں ہے۔۔۔؟ کیا سارے باپ اسی طرح بچوں سے پیار کرتے ہیں۔ کیا ہر باپ کو اپنی اولاد کی موت کا کھٹکا لگا رہتا ہے۔۔۔؟ مجھے آخر ہو کیا گیا ہے؟

    ممتاز نے جب حسب معمول تینوں کمرے اچھی طرح صاف کر دیے تو وہ فرش پر چٹائی بچھا کر لیٹ گیا۔ یہ اس کی عادت تھی۔ صبح اٹھ کر، جھاڑو وغیرہ دے کر وہ گرمیوں میں ضرور آدھے گھنٹے کے لیے چٹائی پر لیٹا کرتا تھا۔ بغیر تکیے کے اس طرح اس کو لطف محسوس ہوتا تھا۔

    لیٹ کر وہ سوچنے لگا، ’’پرسوں میرے بچے کی پہلی سالگرہ ہے۔ اگر یہ بخیر و عافیت گزر جائے تو میرے دل کا سارا بوجھ ہلکا ہو جائے گا۔ یہ میرا وہم بالکل دور ہو جائے گا۔۔۔ اللہ میاں یہ سب تیرے ہاتھ میں ہے۔‘‘

    اس کی آنکھیں بند تھیں۔ دفعتاً اس نے اپنے ننگے سینے پر بوجھ سا محسوس کیا۔ آنکھیں کھولیں تو دیکھا خالد ہے۔ اس کی بیوی پاس کھڑی تھی۔ اس نے کہا، ’’ساری رات بے چین سا رہا ہے سوتے میں جیسے ڈر ڈر کے کانپتا رہا ہے۔‘‘

    خالد، ممتاز کے سینے پر زور سے کانپا۔ ممتاز نے اس پر ہاتھ رکھا اور کہا، ’’خدا میرے بیٹے کا محافظ ہو۔‘‘ ممتاز کی بیوی نے خفگی آمیز لہجے میں کہا، ’’توبہ، آپ کو بس وہموں نے گھیر رکھا ہے۔ ہلکا سا بخار ہے، انشاء اللہ دور ہو جائے گا۔‘‘ یہ کہہ کر ممتاز کی بیوی کمرے سے چلی گئی۔

    ممتاز نے ہولے ہولے بڑے پیار سے خالد کو تھپکنا شروع کیا جو اس کی چھاتی پر اوندھا لیٹا تھا اور سوتے میں کبھی کبھی کانپ اٹھتا تھا۔ تھپکنے سے وہ جاگ پڑا۔ آہستہ آہستہ اس نے اپنی بڑی بڑی سیاہ آنکھیں کھولیں اور باپ کو دیکھ کر مسکرایا۔ ممتاز نے اس کا منہ چوما۔ ’’کیوں میاں خالد کیا بات ہے۔ آپ کانپتے کیوں تھے؟‘‘

    خالد نے مسکرا کر اپنا اٹھا ہوا سر باپ کی چھاتی پر گرا دیا۔ ممتاز نے پھر اس کو تھپکانا شروع کردیا۔ دل میں وہ دعائیں مانگ رہا تھا کہ اس کے بیٹے کی عمر دراز ہو۔ اس کی بیوی نے خالد کی پہلی سالگرہ کے لیے بڑا اہتمام کیا تھا۔ اپنی ساری سہیلیوں سے کہا تھا کہ وہ اس تقریب پر ضرور آئیں۔ درزی سے خاص طور پر اس کی سالگرہ کے کپڑے سلوائے تھے۔ دعوت پر کیا کیا چیز ہوگی، یہ سب سوچ لیا تھا۔ ممتاز کو یہ ٹھاٹ پسند نہیں تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی کو خبر نہ ہو اور سالگرہ گزر جائے۔ خود اس کو بھی پتا نہ چلے اور اس کا بیٹا ایک برس کا ہو جائے۔ اس کو اس بات کا علم صرف اس وقت ہو جب خالد ایک برس اور کچھ دنوں کا ہوگیا ہو۔

    خالد اپنے باپ کی چھاتی پر سے اٹھا۔ ممتاز نے اس سے محبت میں ڈوبے ہوئے لہجے میں کہا، ’’خالد بیٹا، سلام نہیں کرو گے ابا جی کو۔‘‘

    خالد نے مسکرا کر ہاتھ اٹھایا اور اپنے سر پر رکھ دیا۔ ممتاز نے اس کو دعا دی، ’’جیتے رہو۔‘‘ لیکن یہ کہتے ہی اس کے دل پر اس کے وہم کی ضرب لگی اور وہ غم و فکر کے سمندر میں غرق ہوگیا۔

    خالد سلام کر کے کمرے سے باہر نکل گیا۔ دفتر جانے میں ابھی کافی وقت تھا۔ ممتاز چٹائی پر لیٹا رہا اور اپنے وہم کو دل و دماغ سے محو کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ اتنے میں باہر صحن سے اس کی بیوی کی آواز آئی، ’’ممتاز صاحب، ممتاز صاحب۔۔۔ ادھر آئیے۔‘‘ آواز میں شدید گھبراہٹ تھی۔ ممتاز چونک کر اٹھا۔ دوڑ کر باہر گیا۔ دیکھا کہ اس کی بیوی خالد کو غسل خانے کے باہر گود میں لیے کھڑی ہے اور وہ اس کی گود میں بل پہ بل کھا رہا ہے۔ ممتاز نے اس کو اپنی بانہوں میں لے لیا اور بیوی سے جو کانپ رہی تھی پوچھا، ’’کیا ہوا؟‘‘

    اس کی بیوی نے خوف زدہ لہجے میں کہا، ’’معلوم نہیں۔۔۔ پانی سے کھیل رہا تھا۔۔۔ میں نے ناک صاف کی تو دہرا ہوگیا۔‘‘

    ممتاز کی بانہوں میں خالد ایسے بل کھا رہا تھا، جیسے کوئی اسے کپڑے کی طرح نچوڑ رہا ہے۔ سامنے چارپائی پڑی تھی۔ ممتاز نے اس کو وہاں لٹا دیا۔ میاں بیوی سخت پریشان تھے۔ وہ پڑا بل پہ بل کھا رہا تھا اور ان دونوں کے اوسان خطا تھے کہ وہ کیا کریں۔ تھپکایا، چوما، پانی کے چھینٹے مارے مگر اس کا تشنج دور نہ ہوا۔ تھوڑی دیر کے بعد خود بخود دورہ آہستہ آہستہ ختم ہوگیا اور خالد پر بے ہوشی سی طاری ہوگئی۔ ممتاز نے سمجھا، مر گیا ہے۔ چنانچہ اس نے اپنی بیوی سے کہا، ’’ختم ہو گیا۔‘‘

    وہ چلائی، ’’لا حول ولا۔۔۔ کیسی باتیں منہ سے نکالتے ہیں۔ کنولشن تھی، ختم ہوگئی۔ ابھی ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘

    خالد نے اپنی مرجھائی ہوئی بڑی بڑی سیاہ آنکھیں کھولیں اور اپنے باپ کی طرف دیکھا۔ ممتاز کی ساری دنیا زندہ ہوگئی۔ بڑے ہی درد بھرے پیار سے اس نے خالد سے کہا، ’’کیوں خالد بیٹا۔۔۔ یہ کیا ہوا آپ کو؟‘‘

    خالد کے ہونٹوں پر تشنج زدہ مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ ممتاز نے اس کو گود میں اٹھا لیا اور اندر کمرے میں لے گیا۔ لٹانے ہی والا تھا کہ دوسری کنولشن آئی۔ خالد پھر بل کھانے لگا۔ جس طرح مرگی کا دورہ ہوتا ہے، یہ تشنج بھی اسی قسم کا تھا۔ ممتاز کو ایسا محسوس ہوتا کہ خالد نہیں بلکہ وہ اس اذیت کے شکنجے میں کسا جارہا ہے۔

    دوسرا دورہ ختم ہوا تو خالد اور زیادہ مرجھا گیا۔ اس کی بڑی بڑی سیاہ آنکھیں دھنس گئیں۔ ممتاز اس سے باتیں کرنے لگا، ’’خالد بیٹے، یہ کیا ہوتا ہے آپ کو؟‘‘

    ’’خالد میاں، اٹھو نا۔۔۔ چلو پھرو۔‘‘

    ’’خالدی۔۔۔ مکھن کھائیں گے آپ؟‘‘

    خالد کو مکھن بہت پسند تھا مگر اس نے یہ سن کر اپنا سر ہلا کر ہاں نہ کی، لیکن جب ممتاز نے کہا، ’’بیٹے، گگو کھائیں گے آپ؟‘‘ تو اس نے بڑے نحیف انداز میں نہیں کے طور پر اپنا سر ہلایا۔ ممتاز مسکرایا اور خالد کو اپنے گلے سے لگا لیا، پھر اس کو اپنی بیوی کے حوالے کیا اور اس سے کہا، ’’تم اس کا دھیان رکھو میں ڈاکٹر لے کر آتا ہوں۔‘‘

    ڈاکٹر ساتھ لے کر آیا تو ممتاز کی بیوی کے ہوش اڑے ہوئے تھے۔ اس کی غیر حاضری میں خالد پر تشنج کے تین اور دورے پڑ چکے تھے۔ ان کے باعث وہ بے جان ہو گیا تھا۔ ڈاکٹر نے اسے دیکھا اور کہا، ’’تَرُدّو کی کوئی بات نہیں۔ ایسی کنولشن بچوں کو عموماً آیا کرتی ہے۔ اس کی وجہ دانت ہیں۔ معدے میں کرم وغیرہ ہوں تو وہ بھی اس کا باعث ہو سکتے ہیں۔ میں دوا لکھ دیتا ہوں۔ آرام آجائے گا۔ بخار تیز نہیں ہے، آپ کوئی فکر نہ کریں۔‘‘

    ممتاز نے دفتر سے چھٹی لے لی اور سارا دن خالد کے پاس بیٹھا رہا۔ ڈاکٹر کے جانے کے بعد اس کو دو مرتبہ اور دورے پڑے۔ اس کے بعد وہ نڈھال لیٹا رہا۔ شام ہوگئی تو ممتاز نے سوچا، ’’شاید اب اللہ کا فضل ہوگیا ہے۔۔۔ اتنے عرصے میں کوئی کنولشن نہیں آئی۔۔۔ خدا کرے رات اسی طرح کٹ جائے۔‘‘

    ممتاز کی بیوی بھی خوش تھی، ’’اللہ تعالیٰ نے چاہا تو کل میرا خالد دوڑتا پھرے گا۔‘‘

    رات کو چونکہ مقررہ اوقات پر دوا دینی تھی، اس لیے ممتاز چارپائی پر نہ لیٹا کہ شاید سو جائے۔ خالد کے پنگوڑے کے پاس آرام کرسی رکھ کر وہ بیٹھ گیا اور ساری رات جاگتا رہا، کیونکہ خالد بے چین تھا، کانپ کانپ کر بار بار جاگتا تھا، حرارت بھی تیز تھی۔

    صبح سات بجے کے قریب ممتاز نے تھرمامیٹر لگا کے دیکھا تو ایک سو چار ڈگری بخار تھا۔ ڈاکٹر بلایا۔ اس نے کہا، ’’تَرُدو کی کوئی بات نہیں، برونکائٹس ہے میں نسخہ لکھ دیتا ہوں۔ تین چار روز میں آرام آجائے گا۔‘‘

    ڈاکٹر نسخہ لکھ کر چلا گیا۔ ممتاز دوا بنوا لایا۔ خالد کو ایک خوراک پلائی مگر اس کو تسکین نہ ہوئی۔ دس بجے کے قریب وہ ایک بڑا ڈاکٹر لایا۔ اس نے اچھی طرح خالد کو دیکھا اور تسلی دی، ’’گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘ سب ٹھیک نہ ہوا۔ بڑے ڈاکٹر کی دوا نے کوئی اثر نہ کیا۔ بخار تیز ہوتا گیا۔

    ممتاز کے نوکر نے کہا، ’’صاحب، بیماری وغیرہ کوئی نہیں۔ خالد میاں کو نظر لگ گئی ہے، میں ایک تعویذ لکھوا کر لایا ہوں۔ اللہ کے حکم سے یوں چٹکیوں میں اثر کرے گا۔‘‘

    سات کنوؤں کا پانی اکھٹا کیا گیا۔ اس میں یہ تعویذ گھول کر خالد کو پلایا گیا۔ کوئی اثر نہ ہوا۔ ہمسائی آئی، وہ ایک یونانی دوا تجویز کر گئی۔ ممتاز یہ دوا لے آیا مگر اس نے خالد کو نہ دی۔ شام کو ممتاز کا ایک ر شتے دار آیا، ساتھ اس کے ایک ڈاکٹر تھا۔ اس نے خالد کو دیکھا اور کہا، ’’ملیریا ہے۔ اتنا بخار ملیریا ہی میں ہوتا ہے۔ آپ اس پر برف کا پانی ڈالیے، میں کونین کا انجکشن دیتا ہوں۔‘‘

    برف کا پانی ڈالا گیا۔ بخار ایک دم کم ہوگیا۔ درجہ حرارت اٹھانوے ڈگری تک آگیا۔ ممتاز اور اس کی بیوی کی جان میں جان آئی۔ لیکن تھوڑے ہی عرصے میں بخار بہت ہی تیز ہوگیا۔ ممتاز نے تھرمامیٹر لگا کر دیکھا۔ درجۂ حرارت ایک سو چھ تک پہنچ گیا تھا۔

    ہمسائی آئی۔ اس نے خالد کو مایوس نظروں سے دیکھا اور ممتاز کی بیوی سے کہا، ’’بچے کی گردن کا منکا ٹوٹ گیا ہے۔‘‘ ممتاز اور اس کی بیوی کے دل بیٹھ گئے۔ ممتاز نے نیچے کارخانے سے اسپتال فون کیا۔ اسپتال والوں نے کہا مریض لے آؤ۔ ممتاز نے فوراً ٹانگہ منگوایا۔ خالد کو گود میں لیا۔ بیوی کو ساتھ بٹھایا اور اسپتال کا رخ کیا۔ سارا دن وہ پانی پیتا رہا تھا۔ مگر پیاس تھی کہ بجھتی ہی نہیں تھی۔ اسپتال جاتے ہوئے راستے میں اس کا حلق بے حد خشک ہوگیا۔ اس نے سوچا اتر کر کسی دکان سے ایک گلاس پانی پی لے، لیکن خدا معلوم کہاں سے یہ وہم ایک دم اس کے دماغ میں آن ٹپکا، دیکھو اگر تم نے پانی پیا تو تمہارا خالد مر جائے گا۔

    ممتاز کا حلق سوکھ کے لکڑی ہوگیا مگر اس نے پانی نہ پیا۔ اسپتال کے قریب ٹانگہ پہنچا تو اس نے سگریٹ سلگایا۔ دو ہی کش لیے تھے تو اس نے ایک دم سگریٹ پھینک دیا۔ اس کے دماغ میں یہ وہم گونجا تھا: ممتاز سگریٹ نہ پیو تمہارا بچہ مر جائے گا۔

    ممتاز نے ٹانگہ ٹھہرایا۔ اس نے سوچا: یہ کیا حماقت ہے۔۔۔ یہ وہم سب فضول ہے۔ سگریٹ پینے سے بچے پر کیا آفت آسکتی ہے۔

    ٹانگے سے اتر کر اس نے سڑک پر سے سگریٹ اٹھایا۔ واپس ٹانگے میں بیٹھ کر جب اس نے کش لینا چاہا تو کسی نامعلوم طاقت نے اس کو روکا: نہیں ممتاز، ایسا نہ کرو۔ خالد مر جائے گا۔

    ممتاز نے سگریٹ زور سے پھینک دیا۔ ٹانگے والے نے گھور کے اس کو دیکھا۔ ممتاز نے محسوس کیا کہ جیسے اس کو اس کی دماغی کیفیت کا علم ہے اور وہ اس کا مذاق اڑا رہا ہے۔ اپنی خفت دور کرنے کی خاطر نے ٹانگے والے سے کہا، ’’خراب ہو گیا تھا سگریٹ‘‘ یہ کہہ اس نے جیب سے ایک نیا سگرٹ نکالا۔ سلگانا چاہا مگر ڈر گیا۔ اس کے دل و دماغ میں ہلچل سی مچ گئی۔ ادراک کہتا تھا کہ یہ اوہام سب فضول ہیں مگر کوئی ایسی آواز تھی، کوئی ایسی طاقت تھی جو اس کی منطق، اس کے استدلال، اس کے ادراک پر غالب آجاتی تھی۔

    ٹانگہ اسپتال کے پھاٹک میں داخل ہوا تو اس نے سگریٹ انگلیوں میں مسل کر پھینک دیا۔ اس کو اپنے اوپر بہت ترس آیا کہ وہ اوہام کا غلام بن گیا ہے۔

    اسپتال والوں نے فوراً ہی خالد کو داخل کرلیا۔ ڈاکٹر نے دیکھا اور کہا، ’’برونکو نمونیا ہے، حالت مخدوش ہے۔‘‘ خالد بے ہوش تھا۔ ماں اس کے سرہانے بیٹھی ویران نگاہوں سے اس کو دیکھ رہی تھی۔ کمرے کے ساتھ غسل خانہ تھا۔ ممتاز کو سخت پیاس لگ رہی تھی۔ نل کھول کر اوک سے پانی پینے لگا تو پھر وہی وہم اس کے دماغ میں گونجا: ممتاز، یہ کیا کررہے ہو تم۔ مت پانی پیو۔۔۔ تمہارا خالد مر جائے گا۔

    ممتاز نے دل میں اس وہم کو گالی دی اور انتقاماً اتنا پانی پیا کہ اس کا پیٹ اپھر گیا۔ پانی پی کر غسل خانے سے باہر آیا تو اس کا خالد اسی طرح مرجھایا ہوا بے ہوش اسپتال کے آہنی پلنگ پر پڑا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ کہیں بھاگ جائے۔۔۔ اس کے ہوش و حواس غائب ہو جائیں۔۔۔ خالد اچھا ہو جائے اور وہ اس کے بدلے نمونیا میں گرفتار ہو جائے۔

    ممتاز نے محسوس کیا کہ خالد اب پہلے سے زیادہ زرد ہے۔ اس نے سوچا، یہ سب اس کے پانی پی لینے کا باعث ہے۔ اگر وہ پانی نہ پیتا تو ضرور خالد کی حالت بہتر ہو جاتی۔ اس کو بہت دکھ ہوا۔ اس نے خود کو بہت لعنت ملامت کی مگر پھر اس کو خیال آیا کہ جس نے یہ بات سوچی تھی وہ ممتاز نہیں کوئی اور تھا۔ اور کون تھا۔۔۔؟ کیوں اس کے دماغ میں ایسے وہم پیدا ہوتے تھے۔ پیاس لگتی تھی، پانی پی لیا۔ اس سے خالد پر کیا اثر پڑ سکتا ہے۔ خالد ضرور اچھا ہو جائے گا۔ پرسوں اس کی سالگرہ ہے۔ انشاء اللہ خوب ٹھاٹ سے منائی جائے گی۔

    لیکن فوراً ہی اس کا دل بیٹھ جاتا۔ کوئی آواز اس سے کہتی: خالد ایک برس کا ہونے ہی نہیں پائے گا۔ ممتاز کا جی چاہتا کہ وہ اس آواز کی زبان پکڑ لے اور اسے گدی سے نکال دے مگر یہ آواز تو خود اس کے دماغ میں پیدا ہوتی تھی خدا معلوم کیسے ہوتی تھی۔ کیوں ہوتی تھی۔

    ممتاز اس قدر تنگ آگیا کہ اس نے دل ہی دل میں اپنے اوہام سے گڑگڑا کر کہا: خدا کے لیے مجھ پر رحم کرو۔ کیوں تم مجھ غریب کے پیچھے پڑ گئے ہو۔

    شام ہو چکی تھی۔ کئی ڈاکٹر خالد کو دیکھ چکے تھے۔ دوا دی جارہی تھی۔ کئی انجکشن بھی لگ چکے تھے مگر خالد ابھی تک بے ہوش تھا۔ دفعتاً ممتاز کے دماغ میں یہ آواز گونجی: تم یہاں سے چلے جاؤ۔ فوراً چلے جاؤ، ورنہ خالد مر جائے گا۔

    ممتاز کمرے سے باہر چلا گیا۔ اسپتال سے باہر چلا گیا۔ اس کے دماغ میں آوازیں گونجتی رہیں۔ اس نے اپنے آپ کو ان آوازوں کے حوالے کر دیا۔ اپنی ہر جنبش، اپنی ہر حرکت ان کے حکم کے سپرد کر دی۔ یہ اسے ایک ہوٹل میں لے گئیں۔ انھوں نے اس کو شراب پینے کے لیے کہا۔ شراب آئی تو اسے پھینک دینے کا حکم دیا۔ ممتاز نے ہاتھ سے گلاس پھینک دیا تو اور منگوانے کے لیے کہا۔ دوسرا گلاس آیا تو اسے بھی پھینک دینے کے لیے کہا۔

    شراب اور ٹوٹے ہوئے گلاسوں کے بل ادا کر کے ممتاز باہر نکلا۔ اس کو یوں محسوس ہوتا تھا کہ چاروں طرف خاموشی ہی خاموشی ہے۔ صرف اس کا دماغ ہے جہاں شور برپا ہے۔ چلتا چلتا وہ اسپتال پہنچ گیا۔ خالد کے کمرے کا رخ کیا تو اسے حکم ہوا: مت جاؤ ادھر۔۔۔ تمہارا خالد مر جائے گا۔

    وہ لوٹ آیا۔ گھاس کا میدان تھا۔ وہاں ایک بنچ پڑی تھی، اس پر لیٹ گیا۔ رات کے دس بج چکے تھے۔ میدان میں اندھیرا تھا۔ چاروں طرف خاموشی تھی۔ کبھی کبھی کسی موٹر کے ہارن کی آواز اس خاموشی میں خراش پیدا کرتی ہوئی گزر جاتی۔ سامنے اونچی دیوار میں اسپتال کا روشن کلاک تھا۔ ممتاز، خالد کے متعلق سوچ رہا تھا: کیا وہ بچ جائے گا۔ یہ بچے کیوں پیدا ہوتے ہیں جنھیں مرنا ہوتا ہے۔ وہ زندگی کیوں پیدا ہوتی ہے جسے اتنی جلدی موت کے منہ میں جانا ہوتا ہے۔ خالد ضرور۔۔۔

    ایک دم اس کے دماغ میں ایک وہم پھوٹا۔ بنچ پر سے اتر کر وہ سجدے میں گر گیا۔ حکم تھا اسی طرح پڑے رہو جب تک خالد ٹھیک نہ ہو جائے۔ ممتاز سجدے میں پڑا رہا۔ وہ دعا مانگنا چاہتا تھا مگر حکم تھا کہ مت مانگو۔ ممتاز کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ خالد کے لیے نہیں، اپنے لیے دعا مانگنے لگا: خدایا مجھے اس اذیت سے نجات دے۔۔۔ تجھے اگر خالد کو مارنا ہے تو مار دے، یہ میرا کیا حشر کررہا ہے تو۔۔۔

    دفعتاً اسے آوازیں سنائی دیں۔ اس سے کچھ دور دو آدمی کرسیوں پر بیٹھے کھانا کھا رہے تھے اور آپس میں باتیں کررہے تھے۔

    ’’بچہ بڑا خوبصورت ہے۔‘‘

    ’’ماں کا حال مجھ سے تو دیکھا نہیں گیا۔‘‘

    ’’بے چاری ہر ڈاکٹر کے پاؤں پڑ رہی تھی۔‘‘

    ’’ہم نے اپنی طرف سے تو ہر ممکن کوشش کی۔‘‘

    ’’بچنا محال ہے۔‘‘

    ’’میں نے یہی کہا تھا ماں سے کہ دعا کرو بہن!‘‘

    ایک ڈاکٹر نے ممتاز کی طرف دیکھا جو سجدے میں پڑا تھا۔ اس کو زور سے آواز دی، ’’اے، کیا کررہا ہے تو۔۔۔ اِدھر آ۔۔۔‘‘

    ممتاز اٹھ کر دونوں ڈاکٹروں کے پاس گیا۔ ایک نے اس سے پوچھا، ’’کون ہو تم؟‘‘

    ممتاز نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر جواب دیا، ’’میں ایک مریض۔۔۔‘‘

    ڈاکٹر نے سختی سے کہا، ’’مریض ہو تو اندر جاؤ۔۔۔ یہاں میدان میں ڈنٹر کیوں پیلتے ہو؟‘‘

    ممتاز نے کہا، ’’جی، میرا بچہ ہے۔۔۔ اُدھر اس وارڈ میں۔‘‘

    ’’وہ تمہارا بچہ ہے جو۔۔۔‘‘

    ’’جی ہاں۔۔۔ شاید آپ اسی کی باتیں کر رہے تھے۔۔۔ وہ میرا بچہ ہے۔۔۔ خالد۔‘‘

    ’’آپ اس کے باپ ہیں؟‘‘

    ممتاز نے اپنا غم و اندوہ سے بھرا ہوا سر ہلایا، ’’جی ہاں میں اس کا باپ ہوں۔‘‘

    ڈاکٹر نے کہا، ’’آپ یہاں بیٹھے ہیں۔ جائیے آپ کی وائف بہت پریشان ہیں۔‘‘

    ’’جی اچھا‘‘ کہہ کر ممتاز وارڈ کی طرف روانہ ہوا۔ سیڑھیاں طے کرکے جب اوپر پہنچا تو کمرے کے باہر اس کا نوکر رو رہا تھا۔ ممتاز کو دیکھ کر اور زیادہ رونے لگا، ’’صاحب، خالد میاں فوت ہوگئے۔‘‘

    ممتاز اندر کمرے میں گیا۔ اس کی بیوی بے ہوش پڑی تھی۔ ایک ڈاکٹر اور نرس اس کو ہوش میں لانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ممتاز پلنگ کے پاس کھڑا ہوگیا۔ خالد آنکھیں بند کیے پڑا تھا۔ اس کے چہرے پر موت کا سکون تھا۔ ممتاز نے اس کے ریشمیں بالوں پر ہاتھ پھیرا اور دل چیر دینے والے لہجے میں اس سے پوچھا، ’’خالد میاں۔۔۔ گگو کھائیں گے آپ؟‘‘

    خالد کا سَر نفی میں نہ ہلا۔ ممتاز نے پھر درخواست بھرے لہجے میں کہا، ’’خالد میاں۔۔۔ میرے وہم لے جائیں گے اپنے ساتھ؟‘‘

    ممتاز کو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے خالد نے سَر ہلا کر ہاں کی ہے۔

  • پری چہرہ نسیم بانو جو نور جہاں کے لباسِ فاخرہ میں بڑی پُر وقار دکھائی دیتی تھی

    پری چہرہ نسیم بانو جو نور جہاں کے لباسِ فاخرہ میں بڑی پُر وقار دکھائی دیتی تھی

    برصغیر پاک و ہند کی فلمی صنعت میں متعدد اداکارائوں کو ”پری چہرہ‘‘ کا خطاب دیا گیا اور انھوں نے اپنے فنِ اداکاری ہی نہیں حسن و جمال کے سبب بھی لاکھوں دلوں پر راج کیا۔ نسیم بانو بھی ایک ایسی ہی اداکارہ تھیں جنھوں نے فلم پکار میں ملکہ نور جہاں کا کردار نبھایا تھا۔

    نسیم بانو اپنے وقت کی معروف اداکارہ سائرہ بانو کی والدہ اور لیجنڈ اداکار دلیپ کمار کی ساس تھیں۔ اردو کے مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کے نسیم بانو سے متعلق ایک مضمون سے چند پارے ملاحظہ کیجیے۔

    ‘ان دنوں ایکٹرسوں میں ایک ایکٹرس نسیم بانو خاصی مشہور تھی۔ اس کی خوب صورتی کا بہت چرچا تھا۔ اشتہاروں میں اسے پری چہرہ نسیم کہا جاتا تھا۔ میں نے اپنے ہی اخبار میں اس کے کئی فوٹو دیکھے تھے۔ خوش شکل تھی، جوان تھی، خاص طور پر آنکھیں بڑی پُرکشش تھیں اور جب آنکھیں پرکشش ہوں تو سارا چہرہ پُرکشش بن جاتا ہے۔

    نسیم کے غالباً دو فلم تیار ہو چکے تھے جو سہراب مودی نے بنائے تھے، اور عوام میں کافی مقبول ہوئے تھے۔ یہ فلم میں نہیں دیکھ سکا، معلوم نہیں کیوں؟ عرصہ گزر گیا۔ اب منروا مودی ٹون کی طرف سے اس کے شان دار تاریخی فلم ’’پکار‘‘ کا اشتہار بڑے زوروں پر ہورہا تھا۔ پری چہرہ نسیم اس میں نور جہاں کے روپ میں پیش کی جارہی تھی اور سہراب مودی خود اس میں ایک بڑا اہم کردار ادا کررہے تھے۔

    فلم کی تیاری میں کافی وقت صرف ہوا۔ اس دوران میں اخباروں اور رسالوں میں جو’’اسٹل‘‘ شائع ہوئے بڑے شان دار تھے۔ نسیم، نور جہاں کے لباسِ فاخرہ میں بڑی پُروقار دکھائی دیتی تھی۔

    ’’پکار‘‘ کی نمائشِ عظمیٰ پر میں مدعو تھا۔ جہانگیر کے عدل و انصاف کا ایک من گھڑت قصہ تھا جو بڑے جذباتی اور تھیٹری انداز میں پیش کیا گیا تھا۔ فلم میں دو باتوں پر بہت زور تھا۔ مکالموں اور ملبوسات پر۔ مکالمے گو غیر فطری اور تھیٹری تھے، لیکن بہت زور دار اور پرشکوہ تھے جو سننے والوں پر اثر انداز ہوتے تھے۔ چوں کہ ایسا فلم اس سے پہلے نہیں بنا تھا، اس لیے سہراب مودی کا ’’پکار‘‘ سونے کی کان ثابت ہونے کے علاوہ ہندوستانی صنعت فلم سازی میں ایک انقلاب پیدا کرنے کا موجب ہوا۔

    نسیم کی اداکاری کم زور تھی، لیکن اس کم زوری کو اس کے خداداد حسن اور نور جہاں کے لباس نے جو اس پر خوب سجتا تھا، اپنے اندر چھپا لیا تھا۔ مجھے یاد نہیں رہا، خیال ہے کہ’’پکار‘‘ کے بعد نسیم غالباً دو تین فلموں میں پیش ہوئی، مگر یہ فلم کام یابی کے لحاظ سے’’پکار‘‘ کا مقابلہ نہ کرسکے۔

    اس دوران میں نسیم کے متعلق طرح طرح کی افواہیں پھیل رہی تھیں۔ فلمی دنیا میں اسکینڈل عام ہوتے ہیں۔ کبھی یہ سننے میں آتا تھا کہ سہراب مودی، نسیم بانو سے شادی کرنے والا ہے۔ کبھی اخباروں میں یہ خبر شائع ہوتی تھی کہ نظام حیدر آباد کے صاحب زادے معظم جاہ صاحب نسیم بانو پر ڈورے ڈال رہے ہیں اور عنقریب اسے لے اڑیں گے۔

    میں اب فلمی دنیا میں داخل ہو چکا تھا۔

    اس دوران میں ایک اعلان نظروں سے گزرا کہ کوئی صاحب احسان ہیں۔ انہوں نے ایک فلم کمپنی تاج محل پکچرز کے نام سے قائم کی ہے۔ پہلا فلم ’’اجالا‘‘ ہوگا جس کی ہیروئن پری چہرہ نسیم بانو ہے۔

    کہانی معمولی تھی، موسیقی کم زور تھی، ڈائریکشن میں کوئی دم نہیں تھا۔ چناں چہ یہ فلم کام یاب نہ ہوا اور احسان صاحب کو کافی خسارہ اٹھانا پڑا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کو اپنا کاروبار بند کرنا پڑا مگر اس کاروبار میں وہ اپنا دل نسیم بانو کو دے بیٹھے۔

    ایک دن ہم نے سنا کہ پری چہرہ نسیم نے مسٹر احسان سے دلّی میں شادی کرلی ہے اور یہ ارادہ ظاہر کیا ہے کہ وہ اب فلموں میں کام نہیں کرے گی۔

    نسیم بانو کے پرستاروں کے لیے یہ خبر بڑی افسوس ناک تھی۔ اس کے حسن کا جلوہ کیوں کہ صرف ایک آدمی کے لیے وقف ہوگیا تھا۔

    نسیم بانو کو تین چار مرتبہ میک اپ کے بغیر دیکھا تو میں نے سوچا، آرائشِ محفل کے لیے اس سے بہتر عورت اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ وہ جگہ، وہ کونا جہاں وہ بیٹھتی یا کھڑی ہوتی ایک دم سج جاتا۔

    لباس کے انتخاب میں وہ بہت محتاط ہے اور رنگ چننے کے معاملے میں جو سلیقہ اور قرینہ میں نے اس کے یہاں دیکھا ہے اور کہیں نہیں دیکھا۔ زرد رنگ بڑا خطرناک ہے کیوں کہ زرد رنگ کے کپڑے آدمی کو اکثر زرد مریض بنا دیتے ہیں، مگر نسیم کچھ اس بے تکلفی سے یہ رنگ استعمال کرتی تھی کہ مجھے حیرت ہوتی تھی۔ نسیم کا محبوب لباس ساڑی ہے، غرارہ بھی پہنتی ہے، مگر گاہے گاہے۔

    نسیم کو میں نے بہت محنتی پایا۔ بڑی نازک سی عورت ہے، مگر سیٹ پر برابر ڈٹی رہتی تھی۔ ‘

  • ’’ہیپ ٹلا کا اصل مطلب کیا ہے، کس زبان کا لفظ ہے؟‘‘

    ’’ہیپ ٹلا کا اصل مطلب کیا ہے، کس زبان کا لفظ ہے؟‘‘

    میں بمبئی ٹاکیز میں ملازم تھا۔ ان دنوں کمال امروہی کی فلمی کہانی’حویلی‘ ( جو ’محل‘ کے نام سے فلمائی گئی) کی تشکیل و تکمیل ہو رہی تھی۔ اشوک، واچا، حسرت (لکھنوی) اور میں سب ہر روز بحث و تمحیص میں شامل ہوتے تھے۔ ان نشستوں میں کام کے علاوہ کبھی کبھی خوب زوروں پر گپ بھی چلتی تھی، ایک دوسرے سے مذاق ہوتے۔

    شیام کو جب فلم’مجبور‘ کی شوٹنگ سے فراغت ہوتی تو وہ بھی ہماری محفل میں شریک ہو جاتا۔ کمال امروہی کو عام گفتگو میں بھی ٹھیٹھ قسم کے ادبی الفاظ استعمال کرنے کی عادت ہے۔ میرے لیے یہ ایک مصیبت ہو گئی تھی، اس لیے اگر میں عام فہم انداز میں کہانی کے متعلق اپنا کوئی نیا خیال پیش کرتا تو اس کا اثر کمال پر پوری طرح نہیں ہوتا تھا۔ اس کے برعکس اگر میں زور دار الفاظ میں اپنا عندیہ بیان کرتا تو اشوک اور واچا کی سمجھ میں کچھ نہ آتا۔ چناں چہ میں ایک عجیب قسم کی ملی جلی زبان استعمال کرنے لگا۔

    ایک روز صبح گھر سے بمبئی ٹاکیز آتے ہوئے میں نے اخبار کا اسپورٹس کالم کھولا۔ بڑے برن اسٹیڈیم میں کرکٹ میچ ہورہے تھے۔ ایک کھلاڑی کا نام عجیب و غریب تھا، ’’ہیپ ٹلا۔۔۔‘‘ ایچ، ای، پی، ٹی، یو، ایل، ایل، ایچ، اے۔۔۔ ہیپ ٹلا۔۔۔ میں نے بہت سوچاکہ آخر یہ کیا ہو سکتا ہے مگر کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ شاید ہیبت اللہ کی بگڑی ہوئی شکل تھی۔

    اسٹوڈیو پہنچا تو کمال کی کہانی کی فلمی تشکیل کا کام شروع ہوا۔ کمال نے اپنے مخصوص ادیبانہ اور اثر پیدا کرنے والے انداز میں کہانی کا ایک باب سنایا۔ مجھ سے اشوک نے رائے طلب کی، ’’کیوں منٹو؟‘‘

    معلوم نہیں کیوں، میرے منہ سے نکلا، ’’ٹھیک ہے، مگر ہیپ ٹلا نہیں!‘‘

    بات کچھ بن ہی گئی، ’’ہیپ ٹلا‘‘ میرا مطلب بیان کر گیا۔ میں کہنا یہ چاہتا تھا کہ سیکونس زور دار نہیں ہے۔

    کچھ عرصے کے بعد حسرت نے اسی باب کو ایک نئے طریقے سے پیش کیا۔ میری رائے پوچھی گئی تو میں نے اب کی دفعہ ارادی طور پر کہا، ’’بھئی حسرت بات نہیں بنی۔ کوئی ہیپ ٹلا چیز پیش کرو، ہیپ ٹلا۔‘‘ دوسری مرتبہ ہیپ ٹلا کہہ کر میں نے سب کی طرف رد عمل معلوم کرنے کے لیےدیکھا۔ یہ لفظ اب معنی اختیار کر چکا تھا۔

    چناں چہ اس نشست میں بلاتکلف میں نے اسے استعمال کیا۔ ہپ ٹلیٹی نہیں۔ ہپ ٹولائز کرنا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اچانک اس بار اشوک مجھ سے مخاطب ہوا، ’’ہیپ ٹلا کا اصل مطلب کیا ہے؟ کس زبان کا لفظ ہے؟‘‘

    شیام اس وقت موجود تھا۔ جب اشوک نے مجھ سے یہ سوال کیا، اس نے زور کا قہقہہ لگایا، اس کی آنکھیں سکڑ گئیں۔ ٹرین میں وہ میرے ساتھ تھا جب میں نے کرکٹ کے کھلاڑی کے اس عجیب و غریب نام کی طرف اس کو متوجہ کیا تھا، ہنس ہنس کے دہرا ہوتے ہوئے اس نے سب کو بتایا کہ یہ منٹو کی نئی منٹویت ہے۔ جب کچھ سمجھ میں نہ آیا تو ہیپ ٹلا کو کھینچ کر فلمی دنیا میں لے آیا، مگر کھینچا تانی کے بغیر یہ لفظ بمبے کے فلمی حلقوں میں رائج ہوگیا۔

  • نام وَر افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی برسی

    نام وَر افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی برسی

    اردو کے مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کے ہم عصروں میں کئی نام وَر ہوئے، نہایت قابل اور باصلاحیت، تخلیقی جوہر سے مالا مال ادیب و شاعر منٹو کے رفیق اور ہم کار بھی رہے، مگر منٹو نے اپنی الگ راہ نکالی اور اپنی تخلیقات کے سبب پہچانے گئے۔

    منٹو کے افسانے، مضامین، ان کے خاکے صرف پڑھے نہیں جاتے بلکہ آج بھی ان کے موضوعات کو‌ زیرِ بحث لایا جاتا ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ منٹو نے حقیقتوں، سچائیوں اور تلخیوں کو بیان کرنے میں کوئی رعایت نہیں کی۔ سماج کے ہر روپ کو قارئین کے سامنے لانے سے گریز نہیں‌ کیا۔

    آج اردو کے اس عظیم افسانہ نگار کا یوم وفات ہے۔ منٹو 11 مئی 1912ء کو ضلع لدھیانہ میں پیدا ہوئے۔ عملی زندگی اور قلمی سفر کا آغاز لاہور کے رسائل سے وابستہ ہوکر کیا۔ پھر آل انڈیا ریڈیو دہلی سے وابستہ ہوگئے جہاں ڈرامے اور فیچر لکھے جو کام یاب ہوئے۔ بعدازاں بمبئی منتقل ہوگئے جہاں متعدد فلمی رسائل کی ادارت کی۔ اسی زمانے میں انھوں نے فلموں کی کہانیاں اور مکالمے بھی لکھنے کا آغاز کیا۔

    قیامِ پاکستان کے بعد لاہور آگئے جہاں 18 جنوری 1955ء کو جگر کے عارضے کے باعث انتقال کیا۔

    منٹو کے موضوعات میں بڑا تنوع ہے۔ انھیں جنس نگاری اور تقسیم کے وقت کے فسادات کو اپنے افسانوں میں‌ ڈھالنے کی وجہ سے خوب شہرت ملی اور جہاں ان کی کہانیاں پسند کی گئیں، وہیں فحش نگاری کا الزام بھی لگا۔ لیکن منٹو کی حقیقت پسندی، جرأت و بے باکی ادیبوں کے لیے مثال بھی بنی۔

    منٹو کی چند تصاویر دیکھیے۔افسانے اور مختصر کہانیوں کے علاوہ منٹو کے لکھے ہوئے خاکے اور مختلف موضوعات پر ان کے مضامین بھی اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔