Tag: منگول حکمران

  • قبلائی خان: وہ منگول بادشاہ جو اپنی محبوب رفیقِ حیات کی موت کے بعد زندگی سے اکتا گیا تھا!

    قبلائی خان: وہ منگول بادشاہ جو اپنی محبوب رفیقِ حیات کی موت کے بعد زندگی سے اکتا گیا تھا!

    دنیا کی تاریخ منگول خاندان کے بادشاہوں کی شان دار فتوحات اور عظیم الشّان سلطنت کے ساتھ ان کی سفاکی اور قتل و غارت گری کو فراموش نہیں کرسکتی جس کے لیے چنگیز خان مشہور ہے اور قبلائی خان بھی اپنے دادا کے نقشِ‌ قدم پر چلا، لیکن قبلائی خان کو ایک خوش مذاق اور ثقافت کو فروغ دینے والا فاتح بھی کہا جاتا ہے۔

    قبلائی خان نے سنہ 1260 میں چین کے شاہی تخت پر قبضہ کر کے وہاں 34 سال تک حکومت کی تھی۔ منگولوں نے چینی سونگ خاندان کے ساتھ مل کر اپنے مشترکہ دشمن جورچن کی کمر توڑ کر رکھ دی اور پھر سونگ کے بھی خلاف ہو گئے۔ چنگیز خان کے بعد اس کے پوتے قبلائی خان نے فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا۔ محققین نے قبلائی خان کا سنہ پیدائش 1215ء لکھا ہے اور وہ 1294ء تک زندہ رہا۔ اس کی تاریخِ وفات 18 فروری ہے۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ چنگیز خان کی وسیع و عریض‌ رقبے پر پھیلی ہوئی سلطنت کو سنبھالتے ہوئے اور سونگ خاندان سے بادشاہت چھیننے کے بعد سنہ 1271 میں قبلائی خان نے یوان خاندان کی بادشاہت کا باضابطہ طور پر اعلان کیا تھا۔ اس نے چین کو مختلف گروہوں میں تقسیم کیا جن میں منگول اکثر چینیوں سے بالاتر ہوتے، تاہم محققین کہتے ہیں‌ کہ ہر شعبے میں نسلی بنیاد پر یہ تقسیم نہیں‌ کی گئی تھی۔ قبلائی خان نے اپنے طرزِ حکومت میں اعتدال اور اپنے قانون میں توازن کو اہمیت دی تھی اور یہی وجہ ہے کہ اس بہت سے مشیر چین سے تھے۔ یہی نہیں بلکہ اس کی ریاست میں مذہب اور ثقافت کا امتزاج بھی دیکھا گیا اور اس دور میں سلطنت میں اسلام نے فروغ پایا اور مؤرخین لکھتے ہیں‌ کہ قبلائی خان کے دور میں بہت سے صوبوں میں مسلمان گورنر مقرر کیے گئے۔ اس دور میں منگول سلطنت نے مختلف شعبہ جات میں‌ ترقی کی اور تجارت و کاروباری سرگرمیاں‌ تیز ہوئیں۔ وینس کے مشہور سیاح مارکو پولو بھی قبلائی خان کے دربار میں‌ پہنچا تھا اور اس نے وہاں‌ بڑی عزّت اور مرتبہ پایا۔ مارکو پولو نے اپنے سفرنامے میں قبلائی خان کی تعریف کرتا ہے اور اس دور کے حالات و واقعات بیان کرتا ہے جو بہت دل چسپ بھی ہیں۔

    قبلائی خان کی خواہش رہی کہ وہ اپنی سلطنت کو وسعت دے اور اس کے لیے اس نے فتوحات کی جس حکمتِ عملی کو اپنایا اس میں بڑا خسارہ بھی ہوا۔ وہ موجودہ دور کے ویتام اور میانمار تک حملے کرنے کے علاوہ جاپان پر ناکام حملہ بھی کرچکا تھا جس میں پیسہ اور انسانی جانیں ضایع ہوئیں‌ اور ماہرین کہتے ہیں کہ منگول سلطنت کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا۔ بعد کے برسوں‌ میں وہ اپنی‌ محبوب بیوی کی رحلت کی وجہ سے پژمردہ رہنے لگا تھا۔ اس دور کے مؤرخین نے لکھا ہے کہ وہ جینے سے گویا بیزار ہوگیا اور مٹاپے نے اسے جوڑوں کے درد میں مبتلا کردیا۔ قبلائی خان نے 78 سال کی عمر میں وفات پائی۔ اس کے بعد یوان خاندان کی چین پر تقریباً‌ سو سال تک حکومت رہی۔

    معروف سیاح مارکو پولو قبلائی خان کے دربار میں لگ بھگ بیس سال تک رہا اور اس نے قبلائی خان کی ذاتی زندگی بارے دل چسپ باتیں تحریر کی ہیں۔ بعض کتب میں لکھا ہے کہ قبلائی خان کی چار بیویاں اور کثیر تعداد میں باندیاں بھی تھیں۔ اس نے کئی محلاّت اور عظیم الشّان عمارتیں تعمیر کروائی تھیں۔ مشہور ہے کہ قبلائی خان کے ساتھ اس کی بیویوں‌ اور کنیزوں‌ کے علاوہ خادموں کو بھی اس خیال سے ساتھ دفنا دیا گیا تھا کہ وہ اگلے جہان میں بادشاہ کی خدمت کرسکیں۔

  • منگول باشندے چنگیز خان کا مدفن کیوں‌ دریافت نہیں‌ کرنا چاہتے؟

    منگول باشندے چنگیز خان کا مدفن کیوں‌ دریافت نہیں‌ کرنا چاہتے؟

    چنگیز خان کو تاریخ میں بہادر اور فاتح ہی نہیں‌ ظالم اور سفاک حکم راں بھی لکھا گیا ہے جس کی بہادری کے قصّے اور ظلم کی کئی داستانیں مشہور ہیں۔

    اس منگول سردار کا اصل نام تموجن تھا جو اپنی لیاقت، شجاعت اور سوجھ بوجھ میں مقامی قبائل کے سورماؤں اور سرداروں میں ممتاز ہوا۔ اپنے قبیلے کا سردار بننے کے بعد اس نے دیگر منگول قبائل کی مکمل حمایت اور ہر طرح سے مدد حاصل کرلی اور یوں ایک مضبوط ریاست قائم کرنے میں‌ کام یاب ہوا۔ منگول قبائل نے تموجن کو چنگیز خان کا خطاب دے دیا۔

    چنگیز خان نے ایشیا کا ایک بڑا حصہ فتح کرلیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ طاقت اور تلوار کے زور پر عظیم فاتح بننا چاہتا تھا اور اس کے لیے ہر قسم کا ظلم اور جبر اس کے نزدیک جائز تھا، مگر منگول اسے ایک عظیم حکم راں مانتے ہیں جس نے انھیں‌ عزت اور پہچان دی۔

    بعض مؤرخین کے نزدیک چنگیز خان وہ حکم راں‌ تھا جس نے منگولیا کو مہذب معاشرہ دیا اور ان کا وقار بلند کیا۔ یہی وجہ ہے کہ منگولیا میں چنگیز خان کا نام بڑی عزت اور فخر سے لیا جاتا ہے۔

    کیا آپ نے منگولوں کے اس ہیرو اور تاریخ‌ کے مشہور کردار کے مقبرے کا ذکر سنا ہے؟

    کوئی نہیں‌ جانتا کہ چنگیز خان کہاں‌ دفن ہے اور منگولیا کے باشندے تو یہ جاننا ہی نہیں‌ چاہتے کہ ان کے محبوب حکم راں کی قبر کہاں ہے۔

    شاید یہ بات آپ کے لیے تعجب خیز ہو، مگر اس کی بھی ایک وجہ ہے۔

    منگولیا کے لوگ سمجھتے ہیں‌ کہ چنگیز خان بعد از مرگ بے نشاں رہنا چاہتا تھا اور اگر وہ یہ خواہش رکھتا کہ مرنے کے بعد لوگ اس کی قبر پر‌ آئیں اور اسے یاد کیا جائے تو ایک حکم راں‌ کی حیثیت سے اپنی آخری آرام کے لیے ضرور کوئی وصیت چھوڑتا جس پر عمل کیا جاتا، مگر ایسا نہیں‌ ہے اور اسی لیے کوئی نہیں‌ چاہتا کہ چنگیز خان کی قبر تلاش کی جائے۔

    دنیا کے مختلف ممالک میں شاہان و سلاطین، راجاؤں اور امرائے وقت کے نہایت شان دار اور قابلِ ذکر طرزِ تعمیر کے حامل مقبرے دیکھنے کو ملتے ہیں، لیکن چنگیز خان جیسے نام ور کا کوئی نشان نہیں‌ ملتا جو حیرت انگیز ہے۔

    کہتے ہیں‌ کہ اس بادشاہ نے وصیت کی تھی کہ اس کی تدفین خاموشی سے کی جائے اور قبر کا نشان باقی نہ رہے اور ایسا ہی کیا گیا۔

    چنگیز خان کی موت کو آٹھ صدیاں گزر چکی ہیں، لیکن منگولیا میں‌ کسی کو اس کی قبر تلاش کرنے میں‌ کوئی دل چسپی نہیں‌ ہے۔

    بادشاہ کی وصیت کے علاوہ مقامی لوگوں‌ میں‌ یہ بھی مشہور ہے کہ اگر چنگیز خان کی قبر دریافت کر لی گئی اور اسے کھودا گیا تو یہ دنیا تباہ ہو جائے گی۔

    منگولیائی قدامت پسند ہیں اور مؤرخین کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بزرگوں کا بہت احترام کرتے ہیں اور ان کی حکم عدولی کو اخلاقی جرم تصور کرتے ہیں، اور اس لیے بھی وہ چنگیز خان کی قبر تلاش نہیں‌ کرنا چاہتے۔

    عام لوگ سمجھتے ہیں‌ کہ چنگیز خان کو ‘كھینتی’ پہاڑیوں میں برخان خالدون نامی چوٹی پر دفنایا گیا تھا۔