Tag: منیر نیازی

  • مہندی کے پیڑ اور منیر کے شعر!

    مہندی کے پیڑ اور منیر کے شعر!

    اردو ادب میں منیر نیازی وہ خوش قسمت شاعر تھے جنھیں اُن کی زندگی میں بڑا شاعر تسلیم کیا گیا اور ان کی تعریف کی گئی۔

    ممتاز ادیب اور فکشن رائٹر انتظار حسین منیر نیازی کے فن و کمال کے معترف رہے اور منیر نیازی بھی اُن کی تحریروں کو سراہتے تھے۔ انتظار حسین نے کی شاعری اور شخصیت پر ایک مضمون لکھا تھا جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔ وہ لکھتے ہیں:

    دراصل میں اور منیر نیازی جنت میں ایک ہی وقت میں نکالے گئے تھے۔ ہم نے ایک دوسرے کو اسی حیثیت سے پہچانا ہے۔ چلتے پھرتے کسی موٹر پر ہماری مڈھ بھیڑ ہوتی ہے۔ منیر نیازی سنانے لگتا ہے کہ اس کی بستی کے آدمیوں کے کیسے گھنے پیڑ تھے۔ میں بیان کرنے لگتا ہوں کہ اپن بستی میں شام کیسے پڑتی ہے۔ اور مور کس رنگ سے بولتا تھا۔ منیر نے ہمیشہ اسی طرح سنایا اور سنا جیسے کہ وہ یہ داستان پہلی مرتبہ سن رہا ہے اور پہلی مرتبہ سن رہا ہے۔ ایک ملال کے ساتھ سناتا ہے اور ایک حیرت کے ساتھ سنتا ہے۔ ہم اپنی گمشدہ جنت اپنے دھیان میں بسائے پھرتے ہیں۔ اوروں کے تصور میں بھی اسے تو بسا تو رہنا چاہیے تھا۔ مگر لگتا یوں ہے کہ سب نے کسی نہ کسی رنگ سے اس کی تلافی کر لی ہے۔ یا ضعف حافظہ نے ان کی مدد کی ہے مگر ہمارا حافظہ ہمارا دشمن بن گیا ہے۔ حافظے نے بی بی حوا کو بھی بہت ستایا تھا۔ جنت سے نکلنے کے بعد انہیں جنت کی ایک عمر تک یاد آتی رہی۔ انہوں نے جنت کو بہت یاد کیا اور بہت روئیں۔ جنت کی یاد بہنے والے آنسو جو زمین پر گرے ان سے مہندی کے پیڑ اگے قصص الانبیاء میں لکھا ہے کہ روئے ارض پر جتنے مہندی کے پیڑ ہیں وہ سب بی بی حوا کے آنسوؤں کا فیض ہیں۔

    مجھے مہندی کے پیڑ اور منیر کے شعر اچھے لگتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ ان میں تھوڑی میری آنکھوں کی نمی بھی شامل ہے۔ جب منیر اپنے خانپور کو پکارتا ہے تو میرا بھی ایک بستی پکارنے کو جی چاہتا ہے۔ جب وہ اپنے باغوں اور جنگل کا ذکر کرتا ہے تو میں اسے اسی عالم میں چھوڑ کر اپنے جنگل کی طرف نکل جاتا ہوں۔ ہماری بستی کا جنگل کچھ بہت گھنا نہیں تھا مگر میری یادوں نے اسے گھنا بنا دیا ہے۔ جب میں منیر نیازی کے شعر پڑھتا ہوں تو لگتا ہے کہ یہ جنگل اور زیادہ گھنا ہو گیا ہے اور زیادہ پھیل گیا ہے۔ سو اپنا جنگل بہت گھنا ہو گیا ہے اور زیادہ پھیل گیا ہے، سو اب اپنا جنگل بہت گھنا اور بہت پھیلا ہوا ہے لیکن بات یہاں آ کر ختم نہیں ہو جاتی۔ لگتا ہے کہ اس سے آگے بھی کوئی جنگل ہے۔ اپنے جنگل میں چلتے چلتے میں اچانک کسی اور ہی جنگل میں جا نکلتا ہوں، زیادہ بڑے اور زیادہ پُر ہول جنگل میں۔ مجھے ڈر لگنے لگتا ہے جیسے کہ میں عہدِ قدیم میں سانس لے رہا ہوں۔ شاید عہدِ قدیم بھی ہمارے بچپن کے منطقے کے آس پاس ہی واقع ہے یا منیر نیازی نے اپنے شعروں سے کوئی عجب سی پگڈنڈی بنا دی ہے کہ وہ خانپور سے چل کر میری بستی کو چھوتی ہوئی عہد قدیم میں جا نکلتی ہے۔ تو اب صورت یہ ہے کہ میں منیر کے شعر پڑھتے ہوئے اپنے بچپن کے راستے عہد قدیم میں جا نکلتا ہوں۔ بچپن کے اندیشے اور وسوسے عہد قدیم کے آدمی کے وسوسوں اور اندیشوں سے جا ملتے ہیں۔

    جنگلوں میں کوئی پیچھے سے بلائے تو منیرؔ
    مڑ کے رستے میں کبھی اس کی طرف مت دیکھو

    مگر مجھے لگتا ہے کہ منیر نے خود مڑ کر دیکھ لیا ہے۔ وسوسے اور اندیشے عہد قدیم سے آج تک آتے آتے آدمی کے اندر اتر گئے ہیں۔ اب باہر سے ہم ہمت والے ہیں اندر سے خوف زدہ ہیں۔ پہلے ہم مڑ کر نہیں دیکھتے تھے، اب اندر دیکھنے سے ڈرتے ہیں۔ کیا اندر بھی کوئی جنگل ہے۔ جنگل اصل میں ہمارے پہلے باہر تھا، اب ہمارے اندر ہے۔ ہم تو جنگل سے نکل آئے اور بڑے بڑے شہر تعمیر کر کے اپنے چاروں طرف فصیلیں کھڑی کر لیں مگر جنگل ہماری بے خبری میں ہمارے اندر اتر گیا اور سات پردوں میں چھپ کر بیٹھا ہے۔ اب وہ ہمارے اندر سو رہا ہے۔ منیر نیازی وہ شخص ہے جس کے اندر جنگل جاگ اٹھا ہے اور سنسنا رہا ہے۔ اس نے مڑ کر جو دیکھ لیا ہے اس کی شاعری کو پڑھتے ہوئے لگتا ہے کہ ہم جنگل میں چل رہے ہیں اور پاتال میں اتر رہے ہیں، عجب عجب تصویریں ابھرتی ہیں۔

    دبی ہوئی ہے زیرِ زمیں اک دہشت گنگ صداؤں کی
    بجلی سی کہیں لرز رہی ہے کسی چھپے ہوئے تہ خانے میں
    ٭٭٭

    کرے گا تو بیمار مجھے یا
    بنے گا نامعلوم کا ڈر
    رہے گا دائم گہری تہ میں
    جیسے اندھیرے میں کوئی در

    پھر میرے تصور میں عجب عجب تصویریں ابھرنے لگتی ہیں۔ میں اپنے پاتال میں اترنے لگتا ہوں۔ اگلی پچھلی کہانیاں اور بھولے بسرے قصے یاد آنے لگتے ہیں چمکتی دمکتی اشرفیوں سے بھری زمین دوز دیگیں راجہ باسٹھ راجہ باسٹھ کے محل کے سنہری برج جو زمین کے اندھیرے میں جگمگ جگمگ کرتے ہیں۔ میری نانی اماں بہت سنایا کرتی تھیں کہ زمیں میں دبی یہ دیگیں کس طرح اندر ہی اندر سفر کرتی ہیں اور پکارتی ہیں اور جب کسی کو یہ پکار سنائی دے جاتی ہے تو اس پر کیا بیتتی ہے۔ ان کی باتیں اسی پکار کو سننے کی خواہش کی غمازی بھی کرتی ہیں مگر وہ ڈرتی بھی رہتی ہیں کہ کہیں سچ مچ کسی سنسان اندھیری رات میں یہ پکار انہیں سنائی نہ دے جائے۔ سانپ ان دیگوں کی رکھوالی کرتا ہے۔ میری نانی اماں یہ بتاتی تھیں کہ سانپوں کا ایک راجہ ہے۔ اسے وہ راجہ باسٹھ کہتی تھیں۔ ہندو دیو مالا کے تذکروں میں اس کا نام راجہ بسو کا لکھا ہے اس کا محل سونے کا بنا ہوا ہے اور پاتال کے اندھیرے میں جگمگاتا ہے۔ میری نانی اماں سانپ کا نام شاذ و نادر ہی لیتی تھیں۔ اشاروں کنایوں سے اس کا ذکر کرتی تھیں۔ منیر نیازی بھی اس کا نام لینے سے ڈرتا ہے مگر اس کا ذکر بہت کرتا ہے۔ اتنا خوف اور اتنی کشش آخر کیوں؟

    نامعلوم کا خوف اور نامعلوم کے لیے کشش اس خوف اور کشش کی صورت میں منیر نیازی کی شاعری میں کچھ ایسی ہی ہے کہ جیسے آدم و حوا ابھی ابھی جنت سے نکل کر زمیں پر آئے ہیں۔ زمین ڈرا بھی رہی ہے اور اپنی طرف کھینچ بھی رہی ہے۔ پاتال بھی ایک بھید ہے اور وسعت بھی ایک بھید ہے۔ بھید بھری فضا کبھی اس حوالے سے پیدا ہوتی ہے اور کبھی اس حوالے سے اور شعر کے ساتھ دیومالائی قصے اور پرانی کہانیاں لپٹی چلی آتی ہیں۔

    سفر میں ہے جو ازل سے یہ وہ بلا ہی نہ ہو
    کواڑ کھول کے دیکھو کہیں ہوا ہی نہ ہو
    نہ جا کہ اس سے پرے دشتِ مرگ ہو شاید
    پلٹنا چاہیں وہاں سے تو راستا ہی نہ ہو

    منیر نیازی کے لیے زمین اپنے پاتال اور اپنے پھیلاؤ کے ساتھ دہشت و حیرت سے بھرا ایک تجربہ ہے۔ مگر پھر وہی سوال کہ آخر کیوں؟ کیا اس کا تعلق بھی جنت سے نکلنے سے ہے؟ کیا یہ ہجرت کا ثمر ہے؟ مہندی کے یہ پیڑ خود بخود تو نہیں اگ آئے، قدیم آدمی کے تجربے تو ہمارے آپ کے اندر اور دیو مالاؤں اور داستانوں کے اندر دبے پڑے ہیں۔ آخر کوئی واقعہ تو ہوا ہے کہ یہ تجربے پھر سے زندہ ہوئے ہیں اور ایک نئی معصومیت اختیار کر گئے۔

    ہجرت کا تجربہ لکھنے والوں کی ایک پوری نسل کو اردو ادب کی باقی نسلوں سے الگ کرتا ہے۔ اس نسل کے مختلف لکھنے والوں کے یہاں اس تجربے نے الگ الگ روپ دکھائے ہیں۔ منیر نیازی کے یہاں اس کے فیض سے ایسا روپ ابھرا ہے جو ایک نئی دیو مالا کا سا نقشہ پیش کرتا ہے۔ باقی نئی شاعری کا کیا ہے وہ تو کسی تجربے کے حوالے کے بغیر خالی ٹی ہاؤس میں بیٹھ کر بھی ہو سکتی ہے۔

    (انتظار حسین کی یہ تحریر امجد طفیل کی کتاب بعنوان منیر نیازی: شخصیت و فن میں شامل ہے)

  • طلسمی رنگوں میں بھیگے ہوئے گھر!

    طلسمی رنگوں میں بھیگے ہوئے گھر!

    برطانیہ کا راج تھا اور ہندوستان کی حیثیت متحدہ علاقہ جات کی تھی۔ اردو کے ایک بڑے شاعر منیر نیازی نے اسی زمانے میں مشرقی پنجاب کی ایک بستی میں آنکھ کھولی۔ یہ ہوشیار پور سے متصل تھی۔

    مشرقی پنجاب کا زرخیز علاقہ اور قدرتی ماحول کے ساتھ یہاں کی خوب صورت وادیاں اور پہاڑی سلسلے بھی مشہور ہیں۔ یہ تحریر منیر نیازی کے آبائی علاقہ کی تخلیقی جھلک دکھاتی ہے۔ یہ اشفاق احمد کی تحریر ہے اور منیر نیازی کے فن و شخصیت سے متعلق مضمون کا حصّہ ہے جو اس ماحول، جغرافیائی اور سماجی صورت حال کو سامنے لاتی ہے:

    ’’اگر کوہِ شوالک سے اس بیدردی کے ساتھ جنگل نہ کاٹے جاتے تو پہاڑوں سے امڈتا ہوا سیلاب ہوشیار پور کی سر زمین کو یوں ہی اپنی لپیٹ میں نہ لے سکتا تھا۔ آبادی اس طرح ٹکڑوں میں تقسیم نہ ہوتی۔ اور اگر ہوتی تو ان کے درمیان رسل و رسائل کی آسانیاں تو برقرار رہتیں۔‘‘

    ’’ہوشیار پور اس کے گاؤں کے درمیان چو کا ایک لامتناہی سلسلہ پھیلا ہوا ہے برسات کے دنوں میں پہاڑ ی نالے اسے لبالب بھر دیتے ہیں اور جب پانی کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے تو ریت کا لق و دق صحرا اپنے شہر اور گاؤں کے درمیانی انگڑائی کی طرح پھیلنے لگتا ہے۔ اندھیری راتوں میں چور ان ریگزاروں میں سستا کر اپنے کام پر نکلتے ہیں۔ قبرستان کے اردگرد کبڑی کھجوروں کے جھنڈ میں مدھم سرگوشیاں ہوتی ہیں، کالی سیاہ ڈراؤنی راتوں میں اس ریگ زار کے ذرے ایک دوسرے سے چمٹے صبح کے انتظار میں آنکھیں جھپکا کرتے ہیں۔ اور کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ اندھیری راتوں میں کوئی دیوانہ چاند کی تلاش میں ادھر آ نکلتا ہے اور رات بھر سانپوں سے بھرے جنگل کی آوازیں سنتا رہتا ہے۔ صبح شہر سے گاؤں جانے والا کوئی بھی مسافر اسے اٹھا کر اپنے ساتھ لے جاتا ہے اور ریت کے ذرے پھر سے دھوپ میں چمکنے لگتے ہیں۔ ‘‘

    ’’یہ گاؤں، گاؤں بھی نہیں قصبہ بھی نہیں۔ اسے نوآبادیاتی بھی نہیں کہا جا سکتا۔ اور شہر کا سٹیلائٹ ٹاؤن بھی نہیں۔ ایک بستی ہے جو بستے بستے بڑی دیر تک اور بڑی دور تک بس گئی ہے۔ چھوٹی اینٹوں کے بل کھاتی ہوئی گلیاں نیچی چھتوں کے اونچی کرسیوں والی مکان رنگ برنگے شیشوں والی بند کھڑکیاں اور کھلے دروازوں پر بانس اور سرکنڈوں کی تیلیوں کی چھتیں۔‘‘

    ’’اس بستی میں پرانے منصب داروں کے گھر تھے۔ اب ان میں چمگادڑوں اور ابابیلوں کا بسیرا ہے۔ اس نگری میں ان لوگوں کے دو منزلہ مکان ہیں جو تلاش روزگار کے سلسلے میں افریقہ کویت یا بحرین میں بستے ہیں۔ ان لوگوں کے گھر والے یہاں رہتے ہیں۔ ان کی لڑکیوں کے سنگار میز اوپر کے کمروں میں ہوتے ہیں ۔ ان کی میزوں پر افریقہ کویت اور بحرین کے تحفے پڑے ہوتے ہیں۔ پھر یہ لڑکیاں افریقہ کویت یا بحرین چلی جاتی ہیں۔ اور جب لوٹتی ہیں تو ان کی چھوٹی چھوٹی بہنیں جوان ہو چکی ہوتی ہیں۔ جب وہ آتی ہیں تو افریقہ کی آبنوسی رکابیوں میں غیر ملکی شیرینیاں ولایتی رومالوں سے ڈھانپ کر ان چھوٹی اینٹ کی گلیوں میں چلتی ہیں جو آگے نکل کر جوگیوں کے مٹھ کی طرف نکل جاتی ہیں۔ یہ مٹھ ویران ہے اس کی کوٹھڑیاں اور کنڈ ڈھکے چکے ہیں۔ دھرم شالہ کے بس قدم آدم کھولے رہ گئے ہیں اور ان کھولوں میں پھونس کی چھت تلے گونگا رہتا ہے جب سرمئی شام اندھیری رات میں تبدیل ہو جاتی ہے تو بچے اس گلی کے آخری سرے تک جانے سے کتراتے ہیں۔ نہیں کھنڈروں سے نہیں اس گونگے سے خوف آتا ہے جس کی بے زبانی ان گری پڑی دیواروں میں صدائے بازگشت بن کر ہر وقت گونجتی رہتی ہے۔ ان بچوں نے آج تک کسی سے بات نہیں کی کہ یہ گونگا کئی صدیوں سے زندہ ہے۔ جب اس کی موت کا وقت قریب آتا ہے تو وہ ایک دلدوز چیخ مار کر پھونس کی جھونپڑی جلا دیتا ہے، خود اس میں بھسم ہو جاتا ہے اور اگلی صبح اسی خاکستر سے اٹھ کر ایک سو سال زندہ رہنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ یہ بات ہر بچے کے ذہن میں آپ سے آپ جنم لیتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ختم ہو جاتی ہے۔ اس بستی میں ان لوگوں کے گھر ہیں جو بڑے گھروں کے کارندے ہیں، کارندوں کی عورتیں بالوں میں پیتل کے کلپ لگا کر اور ماتھے پر پھول چڑیاں بنا کر گھروں میں کام کرنے آتی ہیں۔ دھاگے کی گولیوں سے کچے رنگ کے سرخ لیبل نکال کر ہونٹوں پر سرخی کی دھڑی جماتی ہیں اور ادھر ادھر دیکھ کر بڑے لوگوں کے دیوان خانوں میں گھس جاتی ہیں۔ انہیں بچوں نے ان کو دیوان خانوں میں داخل ہوتے اور وہاں سے نکلتے ہوئے دیکھا ہے۔ یہی بچے رات کو نانی اماں سے چڑیلوں کی کہانیاں سنتے ہیں اور انہیں مکانوں کے ہر چھجے کی اینٹ خون دکھائی دیتی ہے جسے بچے کچے لیبل کا رنگ…‘‘

    ’’کوہ شوالک سے اگر جنگل اس بے درد سے نہ کاٹے جاتے تو یہاں بھی گھٹا کا وہی رنگ ہوتا جو شمال کی گھٹاؤں کا ہوتا ہے۔ سرمئی اور دھولے بادل آگے بڑھتے برف پوش چوٹیوں اور شجر پار تراہوں سے ٹکراتے اور وادی میں جل تھل ہو جاتا۔ کوہ شوالک تو بے برگ و بار پہاڑ ہے۔ ا س کی چوٹیوں پر ٹھنڈک کہاں یہاں تو خود تبخیر کا عمل جاری ہے اس کے چاروں اور گھمڈے والی گھٹائیں اتنی گہری اور اس قدر نیلی اور ایسی دلدار ہوتی ہیں کہ جہاں جہاں سے گزرتی ہیں زمین کا وہ حصہ کشش ثقل سے عاری ہو جاتا ہے۔ پھر کوئی ذی روح زمین کے اس حصے پر قدم نہیں جما سکتا اور گھٹائیں اسے اچک کر اپنی گود میں اٹھا لیتی ہیں۔ آموں کے باغوں پر اڑتی ہیں تاریک ریگ زاروں پر جھولا جھلاتی ہیں اور گئے موسموں کے باس سنگھا کر تڑپاتی ہیں۔‘‘

    ’’یہ منیر نیازی کی بستی تھی جو اس کے اردگرد کم اور اس کے ذہن کی گہرائیوں میں طلسمی رنگوں میں بھیگے ہوئے گھر بسا کر بستی جاتی تھی۔‘‘

  • منیر نیازی کا تذکرہ جنھیں‌ اپنے عہد کا بڑا شاعر کہا جاتا ہے

    منیر نیازی کا تذکرہ جنھیں‌ اپنے عہد کا بڑا شاعر کہا جاتا ہے

    منیر نیازی کی شاعری کسی طلسم خانۂ حیرت سے کم نہیں ہے۔ اردو ادب میں اس ممتاز شاعر کا کلام ایک خواب ناک ماحول کو جنم دیتا ہے جو قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ہم عصروں‌ میں اپنے شعری اسلوب کی وجہ سے نمایاں‌ بھی ہوئے اور مقبول بھی۔ انھیں اپنے عہد کا بڑا شاعر مانا جاتا ہے۔

    اردو شاعری پر گہرے اثرات مرتب کرنے والے منیر نیازی کی آج برسی ہے۔ شاعر منیر نیازی نے کسی کلاسیکی روایت کا تعاقب نہیں کیا اور وہ کسی دبستان کے زیرِ اثر نظر نہیں‌ آتے بلکہ انھوں نے اپنی شاعری کا ایک نیا جہاں متعارف کروایا اور اس کی تقلید کرنے کی کوشش ان کے بعد آنے والوں نے کی ہے۔

    بیسویں صدی کی آخری نصف دہائی میں منیر نیازی کو ان کی اردو اور پنجابی شاعری کی وجہ سے جو پذیرائی اور مقبولیت ملی، وہ بہت کم شعرا کو نصیب ہوتی ہے۔ ان کی شاعری انجانے اور اچھوتے احساس کے ساتھ ان رویّوں کی عکاسی کرتی ہے جن سے منیر اور ان کے عہد کے ہر انسان کا واسطہ پڑتا ہے۔ منیر نیازی کے کلام کا قاری معانی کی کئی پرتیں اتارتا اور امکانات کی سطحوں کو کریدتا ہوا اس میں گم ہوتا چلا جاتا ہے۔

    بانو قدسیہ نے کہا تھا، میں منیر نیازی کو صرف بڑا شاعر تصوّر نہیں کرتی، وہ پورا ’’اسکول آف تھاٹ‘‘ ہے جہاں ہیولے، پرچھائیں، دیواریں، اُن کے سامنے آتے جاتے موسم، اور ان میں سرسرانے والی ہوائیں، کھلے دریچے، بند دروازے، اداس گلیاں، گلیوں میں منتظر نگاہیں، اتنا بہت کچھ منیر نیازی کی شاعری میں بولتا، گونجتا اور چپ سادھ لیتا ہے کہ انسان ان کی شاعری میں گم ہو کر رہ جاتا ہے۔ منیر کی شاعری حیرت کی شاعری ہے، پڑھنے والا اونگھ ہی نہیں سکتا۔

    منیر نیازی نے 19 اپریل 1928ء کو ہوشیار پور کے ایک قصبہ میں آنکھ کھولی۔ وہ پشتون گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد محمد فتح خان محکمۂ انہار میں ملازم تھے جو منیر نیازی کی زندگی کے پہلے برس ہی میں انتقال کرگئے تھے۔ منیر نیازی کی والدہ کو کتابیں پڑھنے کا شوق تھا اور ان ہی سے ادبی مذاق منیر نیازی میں منتقل ہوا۔ منیر نے ابتدائی تعلیم منٹگمری (موجودہ ساہیوال) میں حاصل کی اور یہیں سے میٹرک کا امتحان پاس کر کے نیوی میں بطور سیلر ملازم ہو گئے۔ لیکن یہ نوکری ان کے مزاج کے برعکس تھی۔ ملازمت کے دنوں میں بمبئی کے ساحلوں پر اکیلے بیٹھ کر ادبی رسائل پڑھتے تھے جس کا نتیجہ نیوی کی ملازمت سے استعفیٰ کی صورت سامنے آیا۔ انھوں نے لاہور کے دیال سنگھ کالج سے بی۔ اے کیا اور اس زمانہ میں کچھ انگریزی نظمیں بھی لکھیں۔ تعلیم مکمل ہوئی تھی کہ ملک کا بٹوارہ ہو گیا اور ان کا سارا خاندان پاکستان چلا آیا۔ یہاں انھوں نے ایک اشاعتی ادارہ قائم کیا، لیکن یہ اور دوسرے چھوٹے موٹے کاروبار میں ناکام ہونے کے بعد منیر نیازی لاہور چلے گئے۔ وہاں مجید امجد کے ساتھ ایک پرچہ ’’سات رنگ‘‘ جاری کیا اور اسی زمانے میں مختلف اخبارات اور ریڈیو کے لیے بھی کام کیا۔ 1960ء کی دہائی میں منیر نیازی نے فلموں کے لیے گانے بھی لکھے جو بہت مشہور ہوئے۔ فلم ’’شہید‘‘ کے لیے نسیم بانو کی آواز میں ان کا کلام ’’اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو‘‘ بہت پسند کیا گیا، اور نور جہاں کی آواز میں ’’جا اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کے سو جا‘‘ ایک مقبول نغمہ ثابت ہوا۔ اسی طرح 1976 میں ’’خریدار‘‘ کا گیت ’’زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا‘‘ ناہید اختر کی آواز میں آج بھی مقبول ہے۔

    منیر نیازی کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ انا پرست تھے اور کسی شاعر کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ قدیم شعراء میں بس میرؔ، غالبؔ اور سراج اورنگ آبادی ان کے پسندیدہ تھے۔ اسی طرح منیر نیازی نے شاعری کی اصناف، غزل اور نظم میں بھی معیار کو بلند رکھا ہے۔ لیکن گیت اور کچھ نثری نظمیں بھی لکھیں۔ منیر نیازی خود پسند ہی نہیں، بلا کے مے نوش بھی تھے اور آخری عمر میں ان کو سانس کی بیماری ہو گئی تھی۔ وہ 26 دسمبر 2006ء کو بیماری کے سبب وفات پاگئے تھے۔

    منیر نیازی کی زندگی میں تنہائی اور آوارگی کے ساتھ رومانس کا بڑا دخل رہا اور وہ خود کہتے تھے کہ زندگی میں‌ درجنوں عشق کیے ہیں۔ وہ ساری عمر شاعری کرتے رہے اور بے فکری کو اپنی طبیعت کا خاصہ بنائے رکھا۔ اپنے ہم عصروں میں نمایاں ہونے والے منیر نیازی لاہور میں حلقۂ اربابِ ذوق کے رکن بنے اور سیکرٹری بھی رہے، لیکن کسی مخصوص گروہ اور ادبی تنظیموں سے کوئی وابستگی اور تعلق نہ رکھا۔ وہ اپنی دھن میں‌ رہنے والے انسان تھے جس کے مزاج نے اسے سب الگ رکھا۔

    مجید امجد وہ شاعر تھے جن کے ساتھ رہ کر منیر نیازی کا تخلیقی جوہر کھلنے لگا۔ وہ ایک ساتھ بہت سا وقت گزراتے اور شعر و ادب پر بات کرتے، اور اپنی شاعری ایک دوسرے کو سناتے۔ بقول منیر نیازی دونوں روز ایک نئی نظم لکھ کر لاتے تھے اور ایک دوسرے کو سناتے۔ منیر نیازی کی تخلیقات فنون، اوراق، سویرا، ادب لطیف، معاصر اور شب خون وغیرہ میں شائع ہوتی تھیں۔

    منیر نیازی کی شخصیت بھی سحر انگیز تھی۔ وہ ہر محفل میں مرکزِ نگاہ ہوتے۔ ان کے ایک ہم عصر رحیم گل نے ان کی ظاہری شخصیت کا خاکہ ان الفاظ میں کھینچا ہے۔

    ‘ربع صدی قبل میں ایک نوجوان سے ملا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے سیاہ و سرخ قمیض میں اس کا چہرہ اور زیادہ سرخ نظر آتا تھا۔ اس کے سیاہ بال بانکپن سے اس کی پیشانی پر لہرا رہے تھے نیلگوں بھوری سی دو بڑی شفاف آنکھیں اس کے چہرے پر یوں جھلملا رہی تھیں جیسے سرخ ماربل میں سے دو چشمے ابل پڑے ہوں۔ ستواں ناک مگر نتھنے کچھ زیادہ کشادہ غالباً یہی وجہ تھی کہ اس کی قوتِ شامہ بہت تیز تھی اور وہ فطری طور پر بُوئے گل اور مانس بو کی مکروہات اور خصوصیات پا لیتا تھا۔ پہلی ملاقات میں منیر مجھے اچھا لگا۔’

    منیر نیازی کے یہ مشہور اشعار دیکھیے۔

    یہ کیسا نشہ ہے میں کس عجب خمار میں ہوں
    تو آ کے جا بھی چکا ہے، میں انتظار میں ہوں

    غم کی بارش نے بھی تیرے نقش کو دھویا نہیں
    تو نے مجھ کو کھو دیا میں نے تجھے کھویا نہیں

    آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے
    ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے

    مدت کے بعد آج اسے دیکھ کر منیرؔ
    اک بار دل تو دھڑکا مگر پھر سنبھل گیا

    آنکھوں میں اڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول
    عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو

    اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
    میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

    اردو میں منیر نیازی کے 13 اور پنجابی کے تین مجموعے شائع ہوئے جن میں اس بے وفا کا شہر، تیز ہوا اور تنہا پھول، جنگل میں دھنک، دشمنوں کے درمیان شام، سفید دن کی ہوا، سیاہ شب کا سمندر، چھ رنگین دروازے، پہلی بات ہی آخری تھی، ایک دعا جو میں بھول گیا تھا، محبت اب نہیں ہوگی، ایک تسلسل اور دیگر شامل ہیں۔

    انھوں اپنے دور کے اہلِ قلم اور بالخصوص نقادوں سے ایک محفل میں یہ شکوہ اپنے مخصوص انداز میں کیا تھا کہ ’ایک زمانے میں نقّادوں نے مجھے اپنی بے توجہی سے مارا اور اب اس عمر میں آ کر توجہ سے مار رہے ہیں۔‘ حکومتِ پاکستان نے انھیں‌ ’’ستارۂ امتیاز‘‘ اور ’’پرائڈ آف پرفارمنس‘‘ سے نوازا تھا۔

  • لُٹی محفلوں کی دھول اور عبرت سرائے دہر میں عہد ساز شاعر منیر نیازی کا تذکرہ

    لُٹی محفلوں کی دھول اور عبرت سرائے دہر میں عہد ساز شاعر منیر نیازی کا تذکرہ

    منیر نیازی کی شاعری ایک طلسم خانۂ حیرت ہے۔ اردو زبان کے اس ممتاز شاعر کا کلام ایک خواب ناک ماحول کو جنم دیتا ہے جو قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ منیر نیازی کے طرزِ بیان اور شعری اسلوب نے اردو شاعری پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ آج منیر نیازی کی برسی ہے۔

    اردو ادب میں منیر نیازی کو اپنے عہد کا بڑا شاعر مانا جاتا ہے جس نے کسی کلاسیکی روایت کا تعاقب نہیں کیا اور ان کی شاعری کسی دبستان کے اثر سے مغلوب نہیں‌ بلکہ وہ اپنی شاعری سے ایک نئے دبستان کی طرح ڈالنے والے ایسے شاعر ہیں جس کی تقلید کرنے کی کوشش ان کے بعد آنے والوں نے کی ہے۔

    بانو قدسیہ نے کہا تھا، میں منیر نیازی کو صرف بڑا شاعر تصوّر نہیں کرتی، وہ پورا ’’اسکول آف تھاٹ‘‘ ہے جہاں ہیولے، پرچھائیں، دیواریں، اُن کے سامنے آتے جاتے موسم، اور ان میں سرسرانے والی ہوائیں، کھلے دریچے، بند دروازے، اداس گلیاں، گلیوں میں منتظر نگاہیں، اتنا بہت کچھ منیر نیازی کی شاعری میں بولتا، گونجتا اور چپ سادھ لیتا ہے کہ انسان ان کی شاعری میں گم ہو کر رہ جاتا ہے۔ منیر کی شاعری حیرت کی شاعری ہے، پڑھنے والا اونگھ ہی نہیں سکتا۔

    بیسویں صدی کی آخری نصف دہائی میں منیر نیازی کو ان کی اردو اور پنجابی شاعری کی وجہ سے جو پذیرائی اور مقبولیت ملی، وہ بہت کم شعرا کو نصیب ہوتی ہے۔ ان کی شاعری انجانے اور اچھوتے احساس کے ساتھ ان رویّوں کی عکاسی کرتی ہے جن سے منیر اور ان کے عہد کے ہر انسان کا واسطہ پڑتا ہے۔ منیر نیازی کے کلام کا قاری معانی کی کئی پرتیں اتارتا اور امکانات کی سطحوں کو کریدتا ہوا اس میں گم ہوتا چلا جاتا ہے۔

    منیر نیازی نے 19 اپریل 1928ء کو ہوشیار پور کے ایک قصبہ میں آنکھ کھولی۔ وہ پشتون گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد محمد فتح خان محکمۂ انہار میں ملازم تھے جو منیر نیازی کی زندگی کے پہلے برس ہی میں انتقال کرگئے تھے۔ منیر نیازی کی والدہ کو کتابیں پڑھنے کا شوق تھا اور ان ہی سے ادبی مذاق منیر نیازی میں منتقل ہوا۔ منیر نے ابتدائی تعلیم منٹگمری (موجودہ ساہیوال) میں حاصل کی اور یہیں سے میٹرک کا امتحان پاس کر کے نیوی میں بطور سیلر ملازم ہو گئے۔ لیکن یہ نوکری ان کے مزاج کے برعکس تھی۔ ملازمت کے دنوں میں بمبئی کے ساحلوں پر اکیلے بیٹھ کر ادبی رسائل پڑھتے تھے جس کا نتیجہ نیوی کی ملازمت سے استعفیٰ کی صورت سامنے آیا۔ انھوں نے لاہور کے دیال سنگھ کالج سے بی۔ اے کیا اور اس زمانہ میں کچھ انگریزی نظمیں بھی لکھیں۔ تعلیم مکمل ہوئی تھی کہ ملک کا بٹوارہ ہو گیا اور ان کا سارا خاندان پاکستان چلا آیا۔ یہاں انھوں نے ایک اشاعتی ادارہ قائم کیا، لیکن یہ اور دوسرے چھوٹے موٹے کاروبار میں ناکام ہونے کے بعد منیر نیازی لاہور چلے گئے۔ وہاں مجید امجد کے ساتھ ایک پرچہ ’’سات رنگ‘‘ جاری کیا اور اسی زمانے میں مختلف اخبارات اور ریڈیو کے لیے بھی کام کیا۔ 1960ء کی دہائی میں منیر نیازی نے فلموں کے لیے گانے بھی لکھے جو بہت مشہور ہوئے۔ فلم ’’شہید‘‘ کے لیے نسیم بانو کی آواز میں ان کا کلام ’’اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو‘‘ بہت پسند کیا گیا، اور نور جہاں کی آواز میں ’’جا اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کے سو جا‘‘ ایک مقبول نغمہ ثابت ہوا۔ اسی طرح 1976 میں ’’خریدار‘‘ کا گیت ’’زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا‘‘ ناہید اختر کی آواز میں آج بھی مقبول ہے۔

    منیر نیازی کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ انا پرست تھے اور کسی شاعر کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ قدیم شعراء میں بس میرؔ، غالبؔ اور سراج اورنگ آبادی ان کے پسندیدہ تھے۔ اسی طرح منیر نیازی نے شاعری کی اصناف، غزل اور نظم میں بھی معیار کو بلند رکھا ہے۔ لیکن گیت اور کچھ نثری نظمیں بھی لکھیں۔ منیر نیازی خود پسند ہی نہیں، بلا کے مے نوش بھی تھے اور آخری عمر میں ان کو سانس کی بیماری ہو گئی تھی۔ وہ 26 دسمبر 2006ء کو بیماری کے سبب وفات پاگئے تھے۔

    حکومتِ پاکستان نے اردو اور پنجابی زبان کے اس مقبول شاعر کو ’’ستارۂ امتیاز‘‘ اور ’’پرائڈ آف پرفارمنس‘‘ سے نوازا تھا۔

    ان کی زندگی میں تنہائی اور آوارگی کے ساتھ رومانس کا بڑا دخل رہا اور وہ خود کہتے تھے کہ زندگی میں‌ درجنوں عشق کیے ہیں۔ وہ ساری عمر شاعری کرتے رہے اور بے فکری کو اپنی طبیعت کا خاصہ بنائے رکھا۔ اپنے ہم عصروں میں نمایاں ہونے والے منیر نیازی لاہور میں حلقۂ اربابِ ذوق کے رکن بنے اور سیکرٹری بھی رہے، لیکن کسی مخصوص گروہ اور ادبی تنظیموں سے کوئی وابستگی اور تعلق نہ رکھا۔ وہ اپنی دھن میں‌ رہنے والے انسان تھے جس کے مزاج نے اسے سب الگ رکھا۔

    مجید امجد وہ شاعر تھے جن کے ساتھ رہ کر منیر نیازی کا تخلیقی جوہر کھلنے لگا۔ وہ ایک ساتھ بہت سا وقت گزراتے اور شعر و ادب پر بات کرتے، اور اپنی شاعری ایک دوسرے کو سناتے۔ بقول منیر نیازی دونوں روز ایک نئی نظم لکھ کر لاتے تھے اور ایک دوسرے کو سناتے۔ منیر نیازی کی تخلیقات فنون، اوراق، سویرا، ادب لطیف، معاصر اور شب خون وغیرہ میں شائع ہوتی تھیں۔

    منیر نیازی کی شخصیت بھی سحر انگیز تھی۔ وہ ہر محفل میں مرکزِ نگاہ ہوتے۔ ان کے ایک ہم عصر رحیم گل نے ان کی ظاہری شخصیت کا خاکہ ان الفاظ میں کھینچا ہے۔

    ‘ربع صدی قبل میں ایک نوجوان سے ملا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے سیاہ و سرخ قمیض میں اس کا چہرہ اور زیادہ سرخ نظر آتا تھا۔ اس کے سیاہ بال بانکپن سے اس کی پیشانی پر لہرا رہے تھے نیلگوں بھوری سی دو بڑی شفاف آنکھیں اس کے چہرے پر یوں جھلملا رہی تھیں جیسے سرخ ماربل میں سے دو چشمے ابل پڑے ہوں۔ ستواں ناک مگر نتھنے کچھ زیادہ کشادہ غالباً یہی وجہ تھی کہ اس کی قوتِ شامہ بہت تیز تھی اور وہ فطری طور پر بُوئے گل اور مانس بو کی مکروہات اور خصوصیات پا لیتا تھا۔ پہلی ملاقات میں منیر مجھے اچھا لگا۔’

    منیر نیازی کے یہ مشہور اشعار دیکھیے۔

    یہ کیسا نشہ ہے میں کس عجب خمار میں ہوں
    تو آ کے جا بھی چکا ہے، میں انتظار میں ہوں

    غم کی بارش نے بھی تیرے نقش کو دھویا نہیں
    تو نے مجھ کو کھو دیا میں نے تجھے کھویا نہیں

    آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے
    ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے

    مدت کے بعد آج اسے دیکھ کر منیرؔ
    اک بار دل تو دھڑکا مگر پھر سنبھل گیا

    آنکھوں میں اڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول
    عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو

    اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
    میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

    اردو میں منیر نیازی کے 13 اور پنجابی کے تین مجموعے شائع ہوئے جن میں اس بے وفا کا شہر، تیز ہوا اور تنہا پھول، جنگل میں دھنک، دشمنوں کے درمیان شام، سفید دن کی ہوا، سیاہ شب کا سمندر، چھ رنگین دروازے، پہلی بات ہی آخری تھی، ایک دعا جو میں بھول گیا تھا، محبت اب نہیں ہوگی، ایک تسلسل اور دیگر شامل ہیں۔

    انھوں اپنے دور کے اہلِ قلم اور بالخصوص نقادوں سے ایک محفل میں یہ شکوہ اپنے مخصوص انداز میں کیا تھا کہ ’ایک زمانے میں نقّادوں نے مجھے اپنی بے توجہی سے مارا اور اب اس عمر میں آ کر توجہ سے مار رہے ہیں۔‘

  • لُٹی محفلوں اور عبرت سرائے دہر میں منیر نیازی کا تذکرہ

    لُٹی محفلوں اور عبرت سرائے دہر میں منیر نیازی کا تذکرہ

    اردو اور پنجابی کے صفِ اوّل کے شعرا کی بات ہو تو منیر نیازی کا نام ضرور لیا جائے گا۔ آج منیر نیازی کا یومِ پیدائش ہے۔

    منیر نیازی نے 9 اپریل 1928 کو مشرقی پنجاب کے شہر ہوشیار پور میں آنکھ کھولی۔ انھوں نے اپنے ادبی سفر میں‌ اردو اور پنجابی شاعری کے علاوہ فلمی نغمات بھی تحریر کیے جنھیں بے حد پسند کیا گیا۔

    اردو کے 13 اور پنجابی کے 3 شعری مجموعے ان کی تخلیقی یادگار ہیں۔ منیر نیازی کی شاعری نے ہر خاص و عام کو متاثر کیا اور ان کے اشعار زبان زدِ عام ہوئے۔ وہ اپنے دور کے مقبول شعرا میں سے ایک ہیں جن کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے حکومتِ پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز سے نوازا۔

    اشکِ رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو
    اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو

    لائی ہے اب اڑا کے گئے موسموں کی باس
    برکھا کی رت کا قہر ہے اور ہم ہیں دوستو

    پھرتے ہیں مثلِ موجِ ہوا شہر شہر میں
    آوارگی کی لہر ہے اور ہم ہیں دوستو

    شامِ الم ڈھلی تو چلی درد کی ہوا
    راتوں کی پچھلا پہر ہے اور ہم ہیں دوستو

    آنکھوں میں اڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول
    عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو

  • اک اوردریا کا سامنا تھا منیرمجھ کو

    اک اوردریا کا سامنا تھا منیرمجھ کو

    شاعری میں جداگانہ اسلوب اور منفر د لب و لہجے کے حامل   اردو اور پنجابی زبان کے معروف شاعر منیر نیازی کا آج 91 واں یوم پیدائش ہے، الگ اور بے باک انداز انہیں  دیگرشعراء سے ممتاز کرتا ہے۔

    اردو اور پنجابی زبان کے معروف شاعر منیر نیازی مشرقی پنجاب کے ضلع ہوشیار پور کے ایک گاؤں میں9 اپریل  1928 میں پیدا ہوئے۔انہوں نے بی اے تک تعلیم پائی اور جنگ عظیم کے دوران میں ہندوستانی بحریہ میں بھرتی ہو گئے لیکن جلد ہی ملازمت چھوڑ کر گھر واپس آ گئے۔

    قیام پاکستان کے بعد وہ لاہور آگئے اور یہاں وہ کئی اخبارات، ریڈیو اور بعد میں ٹیلی ویژن سے وابستہ رہے وہ بیک وقت شاعر، ادیب اور صحافی تھے۔

    منیر نیازی نے جنگل سے وابستہ علامات کو اپنی شاعری میں خوبصورتی سے استعمال کیا۔ انہوں نے جدید انسان کے روحانی خوف اور نفسی کرب کے اظہار کے لیے چڑیل اورچیل ایسی علامات استعمال کیں۔ منیر نیازی کی نظموں میں انسان کا دل جنگل کی تال پر دھرتا ہے اور ان کی مختصر نظموں کا یہ عالم ہے کہ گویا تلواروں کی آبداری نشتر میں بھر دی گئی ہو۔

    کج اونج وی راھواں اوکھیاں سن

    کج گَل وچ غم دا طوق وی سی

    کج شہر دے لوک وی ظالم سن

    کج مينوں مَرن دا شوق وی سی

    منیر نیازی اردواور پنجابی دونوں زبانوں میں شاعری کرتے تھے، اردو میں ان کے تیرہ شعری مجموعے شائع ہوئےجن میں تیزہوا اور تنہا پھول، دشمنوں کے درمیان شام، جنگل میں دھنک، سفید دن کی ہوا، ماہ منیر، سیاہ شب کا سمندر، چھ رنگین دروازے، آغاز زمستاں اور ساعت سیار شامل ہیں۔

    معروف شاعر کے پنجابی میں‌ بھی تین شعری مجموعے شائع ہوئے اس کے علاوہ کلیات منیر کی بھی اشاعت ہوئی جس میں ان کا مکمل کلام شامل ہے۔منیر نیازی کا سیاسی اور سماجی شعور انہیں احتجاجی شاعری کرنے کے لیے اکساتا تھا اسی لیے غزل میں بھی ان کا لب ولہجہ بلند آہنگ ہوجاتا ہے۔

    ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں، ہر کام کرنے میں

    ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو

    اسے آواز دینی ہو، اسے واپس بلانا ہو

    ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

    مدد کرنی ہو اس کی، یار کی ڈھارس بندھانا ہو

    بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو

    بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو

    کسی کو یاد رکھنا ہو، کسی کو بھول جانا ہو

    ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

    کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو

    حقیقت اور تھی کچھ اس کو جا کے يہ بتانا ہو

    ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں

    معروف شاعر منیر نیازی کی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی، ستارہ امتیاز اور اکادمی ادبیات پاکستان نے کمال فن ایوارڈ سے نوازا تھا۔

    شاعری میں جداگانہ اسلوب رکھنے والے شاعر 26 دسمبر سنہ 2006 کو لاہور میں وفات پاگئے۔شاعری میں احتجاج کی آواز جب بھی بلند ہوگی منیر نیازی کا نام ضرور یاد آئے گا، ان کی اپنی زندگی کی بہترین اور بھرپور عکاسی اس شعرسے ہوتی ہے۔

    اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو

    میں ایک دریا کے پار اترا تومیں نے دیکھا

  • نامورشاعرمنیرنیازی کوہم سےبچھڑے11 برس بیت گئے

    نامورشاعرمنیرنیازی کوہم سےبچھڑے11 برس بیت گئے

    شاعری میں جداگانہ اسلوب رکھنے والے اردو اور پنجابی زبان کے معروف شاعر منیر نیازی کو ہم سے بچھڑے گیارہ برس بیت گئے۔

    اردو اور پنجابی زبان کے معروف شاعر منیر نیازی مشرقی پنجاب کے ضلع ہوشیار پور کے ایک گاؤں میں 1928 میں پیدا ہوئے۔

    قیام پاکستان کے بعد وہ لاہور آگئے اور یہاں وہ کئی اخبارات، ریڈیو اور بعد میں ٹیلی ویژن سے وابستہ رہے وہ بیک وقت شاعر، ادیب اور صحافی تھے۔

    منیر نیازی اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں شاعری کرتے تھے، اردو میں ان کے تیرہ شعری مجموعے شائع ہوئےجن میں تیزہوا اور تنہا پھول، دشمنوں کے درمیان شام، جنگل میں دھنک، سفید دن کی ہوا، ماہ منیر، سیاہ شب کا سمندر، چھ رنگین دروازے، آغاز زمستاں اور ساعت سیار شامل ہیں۔

    معروف شاعر کے پنجابی میں‌ بھی تین شعری مجموعے شائع ہوئے اس کے علاوہ کلیات منیر کی بھی اشاعت ہوئی جس میں ان کا مکمل کلام شامل ہے۔

    منیر نیازی کا سیاسی اور سماجی شعور انہیں احتجاجی شاعری کرنے کے لیے اکساتا تھا اسی لیے غزل میں بھی ان کا لب ولہجہ بلند آہنگ ہوجاتا ہے۔

    ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
    ضروری بات کہنی ہو، کوئی وعدہ نبھانا ہو
    کسی سے دور رہنا ہو کسی کے پاس جانا ہو
    کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
    حقیقت اور تھی کچھ، اس کو جا کر یہ بتانا ہو
    ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

    معروف شاعر منیر نیازی کی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی، ستارہ امتیاز اور اکادمی ادبیات پاکستان نے کمال فن ایوارڈ سے نوازا تھا۔

    شاعری میں جداگانہ اسلوب رکھنے والے شاعر 26 دسمبر سنہ 2006 کو لاہور میں وفات پاگئے۔

    شاعری میں احتجاج کی آواز جب بھی بلند ہوگی منیر نیازی کا نام ضرور یاد آئے گا، ان کی اپنی زندگی کی بہترین اور بھرپور عکاسی اس شعرسے ہوتی ہے۔

    اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو

    میں ایک دریا کے پار اترا تومیں نے دیکھا


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • محبت اب نہیں ہوگی، یہ کچھ دن بعد میں ہوگی

    محبت اب نہیں ہوگی، یہ کچھ دن بعد میں ہوگی

    منفرد انداز اور شان بے نیازی کے مالک اردو اور پنجابی کے صف اول کے شاعر منیر نیازی کی آج دسویں برسی ہے۔

    منیر نیازی 9 اپریل سنہ 1928 کو مشرقی پنجاب کے شہر ہوشیار پور میں پیدا ہوئے۔ دیال سنگھ کالج میں تعلیم سے لے کر زندگی کی آخری سانس تک وہ لاہور میں رہے۔

    جنگل سے منسلک علامات کو خوبصورت شاعری کا حصہ بنانے والے منیر نیازی اپنی مختصر نظموں میں ایسی کاٹ دکھاتے گویا نشتر آبدار فضا میں لہرا رہا ہو۔

    منیر نیازی کا سیاسی اور سماجی شعور انہیں احتجاجی شاعری کرنے کے لیے اکساتا تھا۔ انہوں نے کبھی خود کو حکومت وقت کے ساتھ وابستہ نہیں کیا۔

    ان کی شخصیت کا ایک حصہ شان بے نیازی ان کی شاعری کا اہم جزو ہے۔

    زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا
    دنیا سے خامشی سے گزر جائیں ہم تو کیا

    ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
    ضروری بات کہنی ہو، کوئی وعدہ نبھانا ہو
    کسی سے دور رہنا ہو کسی کے پاس جانا ہو
    کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
    حقیقت اور تھی کچھ، اس کو جا کر یہ بتانا ہو
    ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

    عادت ہی بنالی ہے تم نے تو منیر اپنی
    جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا

    منیر نیازی نے اردو اور پنجابی زبان میں شاعر کی۔ ان کے اردو میں 13 اور پنجابی میں 3 اور انگریزی میں 2 شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں اس بے وفا کا شہر، تیز ہوا اور تنہا پھول، جنگل میں دھنک، دشمنوں کے درمیان شام، سفید دن کی ہوا، سیاہ شب کا سمندر، چھ رنگین دروازے، پہلی بات ہی آخری تھی، ایک دعا جو میں بھول گیا تھا، محبت اب نہیں ہوگی، ایک تسلسل اور دیگر شامل ہیں۔

    منیر نیازی صرف شاعر ہی نہیں بلکہ ادیب اور صحافی بھی تھے۔

    انہیں ہمیشہ اپنے معاشرے سے شکوہ رہا۔ ایک محفل میں انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں کہا کہ ’ایک زمانے میں نقادوں نے مجھے اپنی بے توجہی سے مارا اور اب اس عمر میں آ کر توجہ سے مار رہے ہیں‘۔

    منیر نیازی کی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی، ستارہ امتیاز اور اکادمی ادبیات پاکستان نے کمال فن ایوارڈ سے نوازا تھا۔ 26 دسمبر سنہ 2006 کو وہ لاہور میں وفات پاگئے۔ انہیں لاہور کے قبرستان ماڈل ٹاؤن کے بلاک میں پیوند خاک کیا گیا۔

    ستارے جو دمکتے ہیں
    کسی کی چشم حیراں میں
    ملاقاتیں جو ہوتی ہیں
    جمال ابر و باراں میں
    یہ نا آباد وقتوں میں
    دل ناشاد میں ہوگی
    محبت اب نہیں ہوگی
    یہ کچھ دن بعد میں ہوگی
    گزر جائیں گے جب یہ دن
    پھر ان کی یاد میں ہوگی

  • منفرد لب و لہجے کے شاعر منیر نیا زی کو بچھڑے نو برس بیت گئے

    منفرد لب و لہجے کے شاعر منیر نیا زی کو بچھڑے نو برس بیت گئے

    کراچی: منیر نیازی 9 اپریل 1923ءکو مشرقی پنجاب کے شہر ہوشیار پور میں پیدا ہوئے تھے۔

    میں تو منیر آئینے میں خود کو تک کر حیران ہوا
    یہ چہرہ کچھ اور طرح تھا پہلے کسی زمانے میں

    انہوں نے اردو کے 13 اور پنجابی کے 3 شعری مجموعے یادگار چھوڑے جن میں اس بے وفا کا شہر‘ تیز ہوا اور تنہا پھول‘ جنگل میں دھنک‘ دشمنوں کے درمیان شام‘ سفید دن کی ہوا‘آغاز زمستاں میں دوبارہ، سیاہ شب کا سمندر‘ ماہ منیر‘ چھ رنگین دروازے‘ ساعت سیار، پہلی بات ہی آخری تھی، ایک دعا جو میں بھول گیا تھا، محبت اب نہیں ہوگی اور ایک تسلسل کے نام شامل ہیں جبکہ ان کی پنجابی شاعری کے مجموعے چار چپ چیزاں‘ رستہ دسن والے تارے اور سفردی رات کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔انہوں متعدد فلموں کے نغمات بھی تحریر کئے جو بے حد مقبول ہوئے۔

    ملنا تھا اس سے ایک بار پھر کہیں منیر
    ایسا میں چاہتا تھا پر ایسا نہیں ہوا

    منیر نیازی کو ہمیشہ معاشرے کی ناروائی کا قلق رہا اوت ایک محفل میں انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں کہا تھا کہ ایک زمانے میں نقادوں نے مجھے اپنی بے توجہی سے مارا اور اب اس عمر میں آ کر توجہ سے مار رہے ہیں۔

    میں منیر آزردگی میں اپنی یکتائی سے ہوں
    ایسے تنہا وقت میں ہمدم مرا ہوتا کوئی

    منیر نیازی کی خدمات کے اعتراف کے طور پر حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز اور اکادمی ادبیات پاکستان نے کمال فن ایوارڈ سے نوازا تھا۔26 دسمبر 2006ءکواردو اور پنجابی کے صف اوّل کے شاعر منیر نیازی لاہور میں وفات پاگئے ۔ وہ لاہور میں قبرستان ماڈل ٹاﺅن،کے بلاک میں آسودہ خاک ہیں۔

    چاہتا ہوں میں منیر اس عمر کے انجام پر
    ایک ایسی زندگی، جو اس طرح مشکل نہ ہو

  • منفرداسلوب اور تشبیہات واستعارات شاعر منیر نیازی کو ہم سے بچھڑے 7 برس بیت گئے

    منفرداسلوب اور تشبیہات واستعارات شاعر منیر نیازی کو ہم سے بچھڑے 7 برس بیت گئے

    منیر نیازی 9 اپریل 1923ءکو مشرقی پنجاب کے شہر ہوشیار پور میں پیدا ہوئے تھے۔

    انہوں نے اردو کے 13 اور پنجابی کے 3 شعری مجموعے یادگار چھوڑے جن میں اس بے وفا کا شہر‘ تیز ہوا اور تنہا پھول‘ جنگل میں دھنک‘ دشمنوں کے درمیان شام‘ سفید دن کی ہوا‘آغاز زمستاں میں دوبارہ، سیاہ شب کا سمندر‘ ماہ منیر‘ چھ رنگین دروازے‘ ساعت سیار، پہلی بات ہی آخری تھی، ایک دعا جو میں بھول گیا تھا، محبت اب نہیں ہوگی اور ایک تسلسل کے نام شامل ہیں جبکہ ان کی پنجابی شاعری کے مجموعے چار چپ چیزاں‘ رستہ دسن والے تارے اور سفردی رات کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔انہوں متعدد فلموں کے نغمات بھی تحریر کئے جو بے حد مقبول ہوئے۔

    منیر نیازی کی خدمات کے اعتراف کے طور پر حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز اور اکادمی ادبیات پاکستان نے کمال فن ایوارڈ سے نوازا تھا۔26 دسمبر 2006ءکواردو اور پنجابی کے صف اوّل کے شاعر منیر نیازی لاہور میں وفات پاگئے ۔ وہ لاہور میں قبرستان ماڈل ٹاﺅن،کے بلاک میں آسودہ خاک ہیں۔