Tag: منی بجٹ

  • ٹیکس ہدف کے حصول میں ناکامی، منی بجٹ کے خدشات

    ٹیکس ہدف کے حصول میں ناکامی، منی بجٹ کے خدشات

    اسلام آباد: ٹیکس ہدف کے حصول میں ناکامی پر منی بجٹ کے خدشات منڈلا رہے ہیں ، جولائی تاستمبرہدف حاصل نہ ہوا تو آئی ایم ایف منی بجٹ کا مطالبہ کرسکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو ( ایف بی آر) کو ٹیکس ہدف کے حصول میں ناکامی کا خدشہ ہے ، پہلی سہ ماہی میں ایف بی آر کو 2654 ارب روپے کا ٹیکس جمع کرنا ہے.

    ذرائع نے بتایا کہ ستمبر2024 میں 1190ارب روپےکاٹیکس جمع کرناہوگا، جولائی تاستمبرہدف حاصل نہ ہوا تو آئی ایم ایف منی بجٹ کا مطالبہ کرسکتا ہے۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ جولائی تا اگست 1464 ارب روپے کا ٹیکس جمع ہوا، جولائی تا اگست 1554 ارب روپے کا ٹیکس جمع کرنے کا ہدف تھا تاہم جولائی تا اگست ٹیکس ہدف 90 ارب روپے کم ہے۔

    حکام ایف بی آر نے کہا کہ جولائی تا اگست مسلسل مظاہرے ہونے سے معاشی سرگرمیوں کو نقصان پہنچا، آئے روز سڑکوں کی بندش اور ہڑتالوں نے ٹیکس ہدف کا حصول متاثر کیا۔

    حکام نے بتایا کہ نئے مالی سال میں چیئرمین کی تبدیلی نے بھی ٹیکس ہدف کے حصول کو متاثر کیا تاہم ستمبر میں ٹیکس اہداف کے حصول کے لیے بھرپور کوششیں کی جائیں گی، جولائی تا اگست ٹیکس جمع کرنے شرح 27 فیصد ہے جو بہت خوش آئند ہے۔

  • منی بجٹ کے خطرات منڈلانے لگے

    منی بجٹ کے خطرات منڈلانے لگے

    اسلام آباد : فیڈرل بورڈ اف ریونیو ( ایف بی آر ) اگست کا ٹیکس ہدف حاصل کرنے میں ناکام ہے،  جولائی تا اگست 1464 ارب روپے کا ٹیکس جمع ہوا، جبکہ 1554 ارب روپے کا ٹیکس جمع کرنے کا ہدف تھا۔

    تفصیلات کے مطابق منی بجٹ کے خطرات منڈلانے لگے، فیڈرل بورڈ اف ریونیو کو محصولات میں کمی کا خدشہ ہے۔

    ذرائع نے بتایا کہ پہلی سہ ماہی میں ایف بی آر کو 2654ارب روپے کا ٹیکس جمع کرنا ہے، جولائی تا اگست 1464 ارب روپے کا ٹیکس جمع ہوا، جولائی تا اگست 1554 ارب روپے کا ٹیکس جمع کرنے کا ہدف تھا تاہم جولائی تا اگست ٹیکس ہدف 90 ارب روپے کم ہے۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ ستمبر 2024 میں 1190 ارب روپے کا ٹیکس جمع کرنا ہوگا، جولائی تا ستمبر ٹیکس جمع کرنے کا ہدف حاصل نہ ہوا تو آئی ایم ایف منی بجٹ کا مطالبہ کرسکتا ہے۔

    حکام ایف بی آر نے کہا کہ جولائی تا اگست مسلسل مظاہرے ہونے سے معاشی سرگرمیوں کو نقصان پہنچا، آئے روز سڑکوں کی بندش اور ہڑتالوں نے ٹیکس ہدف کا حصول متاثر کیا۔

    نئے مالی سال میں چیئرمین  کی تبدیلی نے بھی ٹیکس ہدف کے حصول کو متاثر کیا تاہم ستمبر میں ٹیکس اہداف کے حصول کے لیے بھرپور کوششیں کی جائیں گی، جولائی تا اگست ٹیکس جمع کرنے شرح 27 فیصد ہے جو بہت خوش آئند ہے۔

  • حکومت کا آتے ہی منی بجٹ  لانے کا فیصلہ

    حکومت کا آتے ہی منی بجٹ لانے کا فیصلہ

    لاہور : وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے محکمہ خزانہ کو منی بجٹ تیار کرنے کی ہدایت کردی، پنجاب حکومت کا رواں ماہ کا بجٹ 31 مارچ کو مکمل ہو جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق حکومت پنجاب نے قلیل مدتی بجٹ لانے کا فیصلہ کرلیا ، وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نےمحکمہ خزانہ کو منی بجٹ تیار کرنے کی ہدایت کردی۔

    قلیل مدتی بجٹ کی تیاری مکمل کرنے کے بعد پنجاب اسمبلی کااجلاس طلب کیاجائےگا ، پنجاب اسمبلی کا اجلاس اگلے ہفتے طلب کیے جانے کا امکان ہے۔

    حکومتی ذرائع نے بتایا ہے کہ پنجاب حکومت کا رواں ماہ کا بجٹ 31 مارچ کو مکمل ہو جائے گا، پنجاب کےمنی بجٹ کی پنجاب اسمبلی سے منظوری لی جائے گی۔

    حکومتی ذرائع کا کہنا تھا کہ منی بجٹ کیلئے خصوصی رپورٹ وزیراعلیٰ کو پیش کی جائے گی، وزیراعلیٰ کی منظوری کے بعد وزیر خزانہ پنجاب اسمبلی میں بجٹ پیش کریں گے۔

  • آئی ایم ایف کی قرض کے ساتھ پاکستان  پر مزید شرائط عائد ، ایک اور منی بجٹ آنے کا خدشہ

    آئی ایم ایف کی قرض کے ساتھ پاکستان پر مزید شرائط عائد ، ایک اور منی بجٹ آنے کا خدشہ

    اسلام آباد : عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف ) کی قرض کے ساتھ مزید شرائط کے باعث حکومت پاکستان کی جانب سے ایک اور منی بجٹ پیش کئے جانے کا امکان ہے۔

    تفصیلات کے مطابق عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف ) نے قرض منظوری کیساتھ ہی دوسرے اقتصادی جائزے کیلئے پاکستان کے سامنے مزید شرائط رکھ دیں۔

    ذرائع ایف بی آر نے بتایا کہ پراپرٹی سیکٹر اور زرعی شعبے سے ٹیکس کی بہتر وصولی کاپلان مانگ لیا ہے، راپرٹی سیکٹر ،زرعی شعبے میں ہم آہنگی کے ذریعے محصولات بڑھانے کی صلاحیت ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ پراپرٹی سیکٹر اور زرعی شعبے پر ٹیکس عائد کر کے محصولات میں اضافہ کیا جائے، ایف بی آر کا پلان آئی ایم ایف نے منظور کر لیا تو منی بجٹ آ سکتا ہے۔

    ذرائع نے مزید کہا کہ پراپرٹی سیکٹر اورزرعی شعبےپر ٹیکس عائد کرنے کا اختیار نئی حکومت کو ہو گا جبکہ پراپرٹی سیکٹر اور زرعی شعبےپر ٹیکس عائد کر کے بجٹ بڑھایا جا سکتا ہے۔

    ذرائع کے مطابق پراپرٹی سیکٹر ،زرعی شعبے پر ٹیکس عائد کرنے کیلئے عالمی بینک کی تجاویز لی جائیں گی جبکہ زرعی آمدن پرٹیکس کی بہتری کیلئے صوبوں کو متحرک کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

  • آئندہ مالی سال کے بجٹ  میں ٹیکسوں کی بھر مار

    آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ٹیکسوں کی بھر مار

    اسلام آباد : حکومت فروری میں پاس ہونے والے منی بجٹ کو توسیع دینے پر غور کررہی ہے، اگر منی بجٹ وفاقی بجٹ میں ضم ہوا تو 510 ارب روپے کے ٹیکس عائد ہوجائیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ٹیکسوں کی بھرمار ہوگی ، ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے فروری میں پاس ہونے والے منی بجٹ کو توسیع دینے پر غور کیا جارہا ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ منی بجٹ وفاقی بجٹ میں ضم ہوا تو 510 ارب روپے کے ٹیکس عائد ہوجائیں گے، منی بجٹ کے ٹیکسز کو یکم مارچ سے 30 جون 2023 کے لیے عائد کیا گیا تھا۔

    4ماہ میں منی بجٹ سے 170 ارب روپے جمع کرنے کا ہدف تھا،اب منی بجٹ کو وفاقی بجٹ میں ضم کرنے سے 510 ارب روپے ملنے کی توقع ہے۔

    دستاویز کے مطابق منی بجٹ میں اشیا پر سیلز ٹیکس کی شرح 17 سے بڑھا کر 18 فیصد کی گئی تھی، اب نئے بجٹ میں اشیا پر سیلز ٹیکس کی شرح 18 فیصد برقرار رکھے جانے کا امکان ہے۔

    منی بجٹ میں لگژری آٹمز پر سیلز ٹیکس کی شرح 17 سے بڑھا کر 25 فیصد کی گئی تھی، نئے بجٹ میں بھی لگژری آئٹمز پر سیلز ٹیکس کی شرح 25 فیصد پر برقرار رکھے جانے کا امکان ہے۔

    نئے بجٹ میں نان فائلرز کی مانیٹرنگ سخت کرنے کی تجویز بھی سامنے آئی ہے، نان فائلرز سے لین دین کرنے والوں کی بھی مانیٹرنگ ہوگی۔

    نان فائلرز کی پوری چین کے خلاف کارروائیوں کی تیاریاں کی جارہی ہے جبکہ ٹیکس چوروں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے نئی حکمت عملی کی تیاری کرلی گئی ہے۔

    ذرائع ایف بی آر نے بتایا ہے کہ ٹیکس چوروں کے خلاف آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا فیصلہ کیا گیا ہے ، ٹیکس چوروں کے خلاف مقدمات میں تیزی لائی جائے گی۔

    ذرائع کے مطابق ٹیکس نظام کو ڈیجیٹلائز کرکے ٹیکس آمدن بڑھانے اور ٹیکس کو دستاویزی بنانے کے لیے جدید نظام اپنانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔

  • منی بجٹ بمقابلہ حکومتی بچت پروگرام، کتنی حقیقت اور کیا افسانہ!

    منی بجٹ بمقابلہ حکومتی بچت پروگرام، کتنی حقیقت اور کیا افسانہ!

    صدرِ مملکت نے 170 ارب روپے کے نئے ٹیکسوں پر مشتمل منی بجٹ (فنانس سپلیمنٹری بل 2013) کی منظوری دے دی ہے اور اس کے ساتھ ہی پہلے سے مہنگائی کی چکّی میں پستے ہوئے عوام مزید بوجھ تلےدب گئےہیں۔ وزیرِاعظم شہباز شریف نے حکومتی اخراجات میں 200 ارب روپے کا بچت پروگرام بھی پیش کیا ہے جس میں وفاقی کابینہ کے تنخواہیں اور مراعات نہ لینے سمیت کئی خوش کن اعلانات کیے گئے ہیں، لیکن یہ اعلانات منی بجٹ کے عوام پر پڑنے والے اثرات کو کم کرسکتے ہیں؟ ایسا نہیں ہے۔

    وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار جو 4 سال بیمار رہنے کے بعد بڑے بڑے دعوؤں کے ساتھ اچانک صحت یاب ہو کر وطن واپس آئے تھے، یہاں ان کے اقدامات سے عوام کی نبض ڈوبنے لگی ہے۔ وزیر خزانہ کبھی کبھی ٹی وی پر آتے ہیں اور جب بھی آتے ہیں عوام کے لیے ان کی تقریر اور کوئی اعلان بھیانک خواب ثابت ہوتا ہے۔ ایسا ہی گزشتہ ہفتے بھی ہوا۔ انہوں نے فنانس سپلیمنٹری بل 2023 المعروف منی بجٹ پیش کیا جس کے ذریعے 170 ارب روپے کے نئے ٹیکسوں کا راستہ نکالا گیا ہے۔

    غریب اور منہگائی کے ہاتھوں پریشان عوام کی خیر خواہ ہونے کا دعویٰ کرنے والی پی ڈی ایم کی حکومت نے اس بار نئے بوجھ تلے عوام کو یوں دبایا ہے کہ ان میں درد سے کراہنے کی سکت بھی ختم ہوچکی ہے۔ اس منی بجٹ پر صدر مملکت کے منظوری نے گویا عوام کے زندہ درگور کیے جانے کے فیصلے پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔

    دوسری طرف منی بجٹ پیش ہوتے ہی اپوزیشن اور عوامی سطح پر کیا خود حکومتی حلقوں میں ہیجانی کیفیت پیدا ہوگئی اور ن لیگ کے اندر اپنے ہی وزیر خزانہ کو ہٹانے کے مطالبات کی گونج سنائی دینے لگی۔ اسی دوران ملکی اور سوشل میڈیا پر حکمرانوں کی شاہ خرچیوں اور مراعات پر بھی انگلی اٹھائی جانے لگی۔ یہ اس کا اثر تھا یا کچھ اور کہ وزیراعظم نے گزشتہ روز وفاقی وزرا کے ہمراہ پریس کانفرنس میں حکومتی اخراجات میں 200 ارب روپے کی بچت کا پروگرام پیش کیا، لیکن کیا اس پر واقعی عمل بھی کیا جائے گا؟ ماضی میں‌ بھی حکومتیں ایسے اعلانات کرتی رہی ہیں، مگر ان کے ایوانِ اقتدار سے جانے کے بعد عوام کے سامنے آیا کہ ان کی آنکھوں میں دھول جھونکی گئی اور تمام اعلانات دھوکا اور فریب تھے۔

    گزشتہ ادوار کے ان اعلانات سے قطع نظر شہباز شریف کی حالیہ پریس کانفرنس میں جو بظاہر امید افزا باتیں‌ کی گئی ہیں، ان کے مطابق وفاقی وزرا، مشیران اور معاونینِ خصوصی تنخواہیں اور مراعات نہیں لیں گے۔ جب کہ بجلی، گیس اور پانی کے بل بھی اپنی جیب سے ادا کریں گے۔ کابینہ اراکین سے لگژری گاڑیاں واپس لینے اور انہیں نیلام کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ وزرا کے معاون عملے کو بیرون ملک ساتھ جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ بیرون ملک فائیو اسٹار ہوٹلوں میں قیام ممنوع جب کہ اندرون ملک سفر اکانومی کلاس میں کیا جائے گا۔ ناگزیر ہو تو سرکاری افسران بیرون ملک دوروں میں‌ شامل ہوں گے۔ تمام وزارتوں، محکموں اور ذیلی اداروں کے اخراجات میں 15 فیصد کٹوتی۔ جون 2024 تک تمام پرتعیش اشیا، ہر قسم کی نئی گاڑیوں کی خریداری اور کابینہ اراکین پر لگژری گاڑی استعمال کرنے پر پابندی لگائی گئی ہے۔ سرکاری ملازمین یا حکومتی اہلکاروں کو ایک سے زائد پلاٹ الاٹ نہیں ہوگا، دو سال تک کوئی نیا شعبہ نہیں بنایا جائے گا، سرکاری تقریبات میں سنگل ڈش پر اکتفا کیا جائے گا، تاہم غیر ملکی مہمانوں کی شرکت کی صورت میں یہ پابندی نہیں ہوگی۔

    وزیراعظم نے گرمیوں میں بجلی اور گیس کی بچت کیلیے سرکاری دفاتر صبح ساڑھے 7 بجے کھولنے کا فیصلہ، مارکیٹیں رات ساڑھے 8 بجے تک بند نہ کرنے پر ان کی بجلی منقطع کرنے، بینظر انکم سپورٹ پروگرام میں 25 فیصد اضافے سمیت کئی دیگر اعلانات بھی کیے۔ یہ سب اعلانات قابلِ ذکر ہیں‌ مگر کیا 170 ارب روپے کے بجٹ کی صورت گرائے گئے مہنگائی کے ایٹم بم کے اثرات سے غریب عوام بچ سکیں‌ گے اور انہیں کوئی ریلیف ملے گا؟ اس کا رد تو خود وزیراعظم کے اپنی پریس کانفرنس میں ادا کردہ ان جملوں سے ہورہا ہے جس میں انہوں نے اعتراف کیا کہ’’غربت میں یقیناً اضافہ ہوا ہے جب کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہونے پر یقیناً مہنگائی ہوگی کیونکہ جو شرائط طے کی ہیں ان کو بھی پورا کرنا ہے۔ غریب عوام کو مہنگائی کے بوجھ سے بچانے کے لیے ٹیکسز بڑی کمپنیوں پر لگائے گئے ہیں۔‘‘

    حکومت کا یہی کہنا ہے کہ عوام پر کم سے کم بوجھ ڈالا گیا ہے لیکن حقائق اس کے برعکس ہیں۔ جی ایس ٹی جو 17 سے بڑھا کر 18 فیصد کیا گیا ہے کیا وہ غریب ادا نہیں کرتا؟ وزیراعظم کے غریب پر بوجھ نہ ڈالنے والی بات کے غبارے سے ہوا تو ایف بی آر کی وہ دستاویز ہی نکال دیتی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کون کون سی اشیاء ہیں جو مہنگی ہوں گی، بلکہ یوں کہا جائے کہ اس فہرست میں ایسی کیا چیز رہ گئی جو مہنگی نہیں ہوگی۔ ٹیکس کی کوئی بھی شکل ہو اور وہ کسی بھی نام سے ہو اور کسی بھی پر عائد کیا جائے، اس کا بوجھ ہمیشہ عوام ہی پر پڑتا ہے۔

    دستاویز کے مطابق اس منی بجٹ کی منظوری اور اطلاق کے بعد کولڈ ڈرنکس، مشروبات، ڈبہ پیک فروٹ جوسز، شوگر فری جوسز، ڈبہ پیک دیگر اشیا میں خوردنی تیل، بسکٹ، جام، جیلی، نوڈلز، بچوں کے کھلونے، سگریٹ، چاکلیٹ، ٹافیاں، خواتین کے میک اَپ کا سامان، شیمپو، کریم، لوشن، صابن، ٹوتھ پیسٹ، ہیئر کلر، ہیئر جیل، شیونگ فوم، شیونگ جیل، شیونگ کریم اور شیونگ بلیڈز تک کے دام بڑھ جائیں‌ گے۔ کیا یہ سب اشیا ملک کے غریب عوام استعمال نہیں کرتے یا یہ پاکستان کی ایلیٹ کلاس کی ہی ضرورت ہے؟

    شادی ہالز اور ہوٹلوں پر ایڈوانس ٹیکس لگا ہے۔ اس کی وصولی شادی ہال مالکان صارفین سے ہی کریں گے اور ان میں اکثریت متوسط طبقے کی ہو گی۔ موبائل فونز پر ٹیکس بڑھنے سے بھی غریب ہی متاثر ہوں گے۔ اسٹیل کی قیمتوں میں تاریخی اضافے کے بعد ملک میں تعمیراتی صنعت جو پہلے ہی برے حال میں تھی، اس پر مزید برا اثر پڑے گا۔ سیمنٹ پر فی کلو ایکسائز ڈیوٹی میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے۔ اگر وزیراعظم کے دعوے کو لمحہ بھر کے لیے درست مانا جائے تو سوال تو اٹھے گا کہ ملک میں کیا صرف امرا کے بنگلے اور کوٹھیاں بنتے ہیں؟ کیا غریب ایک دو کمرے کے گھر اور فلیٹ نہیں بناتے؟

    اس منی بجٹ کے ساتھ ہی گیس کی قیمتوں میں 16 سے 113 فیصد اضافے تک کا نوٹیفیکشن جاری کردیا گیا ہے جب کہ بجلی کی قیمتیں بھی مرحلہ وار بڑھائی جائیں گی۔ یہ تو گرانی کے وہ منفی اثرات ہیں جو عوام مستقل برداشت کریں گے جب کہ آئے روز پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد ہر سطح پر ہونے والی مہنگائی، بجلی کے بلوں میں ہر ماہ کبھی فیول تو کبھی سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کے نام پر بھاری وصولی کا سلسلہ تو جاری ہی رہتا ہے۔ کرے کوئی اور بھرے کوئی کے مصداق حکومتی نااہلی اور کوتاہیوں کا بوجھ عوام برداشت کریں‌ گے۔

    اکثر ماہرینِ معیشت یہ کہتے نظر آرہے ہیں‌ کہ پاکستان اس وقت ڈیفالٹ کے دہانے پر ہے اور اگر وفاقی وزیر دفاع کے بیان پر یقین کیا جائے جو انہوں نے سیالکوٹ میں ایک تقریب کے دوران دیا تو ’’پاکستان دیوالیہ ہوچکا ہے۔‘‘ اس بیان کی وضاحت وزیر خارجہ کو بیرون ملک یہ کہہ کر کرنی پڑی کہ پاکستان کے دیوالیہ کرجانے کا وزیر دفاع کا بیان سیاسی بیان ہے۔ بہرحال ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچ جانے والا پاکستان اس وقت دنیا کی سب سے بڑی جہازی سائز کابینہ رکھتا ہے جب کہ معاشی طور پر خوشحال اور ہم سے کہیں بڑی آبادی والے ممالک کی کابینہ اراکین کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔

    اس وقت ملک میں 87 رکنی وفاقی کابینہ ہے جب کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ایک ہزار سے زائد اراکین ہیں۔ ان عوامی نمائندوں پر غریب عوام کی جیب سے کتنا خرچ ہوتا ہے یہ جاننے کے لیے ایک چشم کشا رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی کے ایک دن کا اجلاس عوام کو 5 کروڑ روپے کا پڑتا ہے۔ اجلاس جاری رہنے پر ہر رکن کو روزانہ کنوینس الاؤنس 2000، ڈیلی الاؤنس کی مد میں 4800، ہاؤسنگ الاؤنس کے 2 ہزار جو یومیہ 8800 بنتے ہیں۔ فری ٹریول اس کے علاوہ ہے۔

    ایک رکن قومی اسمبلی عوام کو ماہانہ 2 لاکھ 70 ہزار میں پڑتا ہے جس میں ان ممبران کو بنیادی تنخواہ کی مد میں ڈیڑھ لاکھ روپے، اعزازیہ 12700، سنچوری الاؤنس 5000 ، آفس مینٹیننس 8000 روپے، ٹیلیفون الاؤنس 10، ایڈہاک ریلیف کی صورت 15 ہزار روپے دیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ فری ٹریول ہے۔ مفت سفر کے مد تین لاکھ کے سفری واؤچر یا 90 ہزار روپے کیش بھی سالانہ دیا جاتا ہے۔ بزنس کلاس کے ہر سال ریٹرن 25 ٹکٹ بھی ان کے حلقہ انتخاب سے قریبی ایئرپورٹ سے اسلام آباد تک دیے جاتے ہیں۔ پارلیمنٹ لاجز میں رہائش، 1300 کار، 300 لیٹر پٹرول ان تمام مراعات کے علاوہ، تخفیف یا والی چیزیں یہ تھیں کیونکہ پارلیمنٹ میں جو لوگ موجود ہیں وہ سب یہ افورڈ کرسکتے ہیں۔

    جب یہ اراکین پارلیمنٹ کے رکن نہیں رہتے تب بھی گریڈ 22 کے سرکاری افسر کے مساوی میڈیکل سہولیات، خود اور اہلیہ کے لیے بلو پاسپورٹ بھی حاصل کرتے ہیں۔ اس ملک کے غریب عوام 503 ارب روپے سالانہ اشرافیہ کی پنشن کی مد میں بھی ادا کر رہے ہیں۔

    وزیراعظم کے تمام خوش رنگ اور امید افزا اعلانات سر آنکھوں پر لیکن اشرافیہ کی مراعات میں‌ تخفیف یا پابندی کے لیے انہوں نے حکومت کی جانب سے کوئی پلان نہیں دیا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ آئی ایم ایف کی وہ شرائط جو غریب کا گلا گھونٹنے کے لیے ہوتی ہیں ہر دور حکومت میں انہیں‌ فوری طور پر اور من وعن تسلیم کر لیا جاتا ہے لیکن یہی آئی ایم ایف جب بیوروکریٹس کے اثاثہ جات پبلک کرنے کا مطالبہ کرتا ہے تو اس پر چپ سادھ لی جاتی ہے۔ جس سے یہ تاثر مضبوط ہوتا ہے کہ ہمارے ساست داں اور حکومتیں عوام کی خیر خواہ ہونے کا لاکھ دعویٰ کریں لیکن ان کی ساری ہمدردیاں اور مفادات اس ملک کی اشرافیہ کے ساتھ ہوتی ہیں، مگر یہ سسلسلہ آخر کب تک چلے گا؟

  • حکومت کا منی بجٹ آج قومی اسمبلی سے منظور کرانے کا فیصلہ

    حکومت کا منی بجٹ آج قومی اسمبلی سے منظور کرانے کا فیصلہ

    اسلام آباد : وزیر مملکت خزانہ عائشہ غوث پاشا کا کہنا ہے کہ منی بجٹ آج قومی اسمبلی سے منظور کرالیا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق حکومت نے منی بجٹ آج قومی اسمبلی سے منظور کرانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

    وزیر مملکت خزانہ عائشہ غوث پاشا نے کہا ہے کہ سپلیمنٹری فنانس بل آج قومی اسمبلی سے پاس ہو جائے گا۔

    عائشہ غوث پاشا کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے بات چیت جاری ہے، آئی ایم ایف سےمعاملات مثبت سمت میں آگےبڑھ رہےہیں، معاہدےمیں مزیدتاخیر کا امکان نہیں ہے۔

    وزیر مملکت خزانہ نے امید ظاہر کی آئی ایم ایف کیساتھ اسٹاف لیول معائدہ جلد ہوجائے گا۔

    یاد رہے وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے ضمنی مالیاتی بل قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا ، جس کے مطابق لگژری اشیا پر سیلز ٹیکس 17 سے بڑھا کر 18 فیصد کی گئی تھی۔

    کولڈڈرنکس پرایف ای ڈی 13 سے بڑھا کر 20 فیصدکردی گئی جبکہ منرل واٹر اور انرجی ڈرنکس پرٹیکس میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔

    شوگرفری فروٹ جوسزپرپہلی بار10 فیصدٹیکس اور جوس کےڈبےکی قیمت پر10 فیصدٹیکس عائد کیا گیا۔

    سگریٹ کے پیکٹ کی کم از کم قیمت 15 روپے بڑھادی گئی، جس کے بعد سگریٹ پیکٹ کی کم ازکم قیمت 45 سےبڑھاکر60 روپے ہوگئی

    اس کے ساتھ ہی تمام ڈبہ پیک اشیاء جس میں خوردنی تیل، بسکٹ، جام، جیلی اور نوڈلزشامل ہیں سب مہنگے کردیئے گئے۔

    اس کے علاوہ فضائی ٹکٹ پرٹیکس50 ہزاریاٹکٹ کی مالیت کا20 فیصدلاگوہوگا، دونوں میں سےجورقم زیادہ ہوگی وہ ٹیکس وصول کیا جائے گا۔

  • لگژری اشیا پر سیلز ٹیکس بڑھانے کا فیصلہ

    لگژری اشیا پر سیلز ٹیکس بڑھانے کا فیصلہ

    اسلام آباد: باہر سے درآمد ہونے والی لگژری اشیا پر سیلز ٹیکس 17 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد کیا جارہا ہے جس کا نوٹی فکیشن جلد جاری کردیا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق منی بجٹ میں لگژری آئٹمز پر سیلز ٹیکس 17 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد کرنے کی منظوری طلب کی گئی ہے۔

    دستاویزات کے مطابق سینکڑوں لگژری آئٹمز پر سیلز ٹیکس کی شرح 25 فیصد کی جا رہی ہے، سیلز ٹیکس بڑھانے سے 4 ماہ میں 15 ارب روپے کی آمدن متوقع ہے۔

    مذکورہ لگژری آئٹمز میں 500 ڈالر مالیت سے زائد کے امپورٹڈ موبائل فون شامل ہیں جبکہ امپورٹڈ الیکٹرونکس آئٹمز پر بھی سیلز ٹیکس 25 فیصد کیا جا رہا ہے۔

    دستاویز کے مطابق امپورٹڈ میک اپ کے سامان، پالتو جانوروں کی امپورٹڈ خوراک، امپورٹڈ برانڈڈ شوز، برانڈڈ پرس، امپورٹڈ شیمپو، صابن، لوشن، شیونگ کریم، شیونگ جیل، امپورٹڈ سن گلاسز، پرفیومز، امپورٹڈ پرائیوٹ اسلحہ، امپورٹڈ برانڈڈ ہیڈ فونز، آئی پوڈ اور اسپیکرز پر سیلز ٹیکس 25 فیصد کیا جا رہا ہے۔

    مزید اشیا میں امپورٹڈ ٹریولنگ بیگ، سوٹ کیس، لگژری برتن، امپورٹڈ ٹائلز، سینیٹری کا سامان، امپورٹڈ فرنیچرز اور لکڑی کے شو پیس، امپورٹڈ منرل واٹر، انرجی ڈرنکس، امپورٹڈ جوسز، امپورٹڈ گاڑیوں، موسیقی کے امپورٹڈ آلات، امپورٹڈ بسکٹ، کیک اور بیکری آئٹمز شامل ہیں۔

    فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) ذرائع کا کہنا ہے کہ سیلز ٹیکس میں اضافے کا نوٹی فکیشن جلد جاری کردیا جائے گا۔

  • حکومت کی آج ہی قومی اسمبلی اورسینیٹ سے منی بجٹ  منظور کرانے کی تیاری

    حکومت کی آج ہی قومی اسمبلی اورسینیٹ سے منی بجٹ منظور کرانے کی تیاری

    اسلام آباد : حکومت نے آج ہی قومی اسمبلی اورسینیٹ سے منی بجٹ منظور کرانے کی تیاری کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق ضمنی بجٹ کی منظوری کے معاملے پر حکومت نے آج ہی قومی اسمبلی اورسینیٹ سے فنائس بل منظورکرانے کی منصوبہ بندی کرلی۔

    قائمہ کمیٹی خزانہ آج رپورٹ سینیٹ میں پیش کرے گی، ذرائع کا کہنا ہے کہ سینیٹ آج ہی منظوری دے کر سفارشات قومی اسمبلی کو بھیج دے گا۔

    ارکان قومی اسمبلی کو ایوان میں حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کردی گئی ہے۔

    گذشتہ روز سینیٹ کی قائمہ کمیٹی خزانہ نے ضمنی فنانس بل 2023 کثرت رائے سے منظور کر لیا تھا ، چیئرمین ایف بی آر نے بتایا تھا کہ ضمنی بجٹ کے زریعے 170 ارب روپے کے ٹیکس لگائے گئے ہیں،یہ ریونیو اگلے ساڑھے چار ماہ میں جمع ہوگا، دیگر تمام لگژری اشیاء پر بھی 25 فیصد ٹیکس لگایا جارہا ہے۔

    یاد رہے سینیٹ اجلاس کے بعد وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پارلیمنٹ ہاوس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ چیئرمین سینیٹ نے جمعہ تک کا وقت دیا ہے، آئینی طریقہ کار مکمل کرنے کیلئے یہ ضروری عمل ہے،

  • پٹرول کی قیمتوں میں اضافے اور منی بجٹ کیخلاف سندھ ہائیکورٹ میں درخواست دائر

    کراچی : سندھ ہائی کورٹ میں پٹرول کی قیمتوں میں اضافے اور منی بجٹ کیخلاف درخواست دائر کردی گئی ، جس میں استدعا کی گئی کہ گزشتہ روز پیش کیے گیے منی بجٹ کو واپس لینے کا حکم دیا جائے۔

    تفصیلات کے مطابق پٹرول کی قیمتوں میں اضافے اور منی بجٹ کیخلاف سندھ ہائیکورٹ میں درخواست دائر کردی گئی۔

    درخواست میں وزارت خزانہ ،اوگرا ،ایف بی آر و دیگر کو فریق بنایا گیا ہے ، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ غریب عوام ہر روز بڑھتی مہنگائی میں پس رہی ہیں، پیٹرول کی قیمتیں بڑھنے سے ہر اشیاکی قیمتیں بڑھ جائیں گی۔

    درخواست گزار نے کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات و دیگر اشیاکی قیمتوں میں اضافہ آئین کی خلاف ورزی ہے، گزشتہ روز پیش کیے گیے منی بجٹ کو واپس لینے کا حکم دیا جائے۔

    درخواست میں استدعا کی گئی کہ وفاقی حکومت کو منی بجٹ پر عمل درآمد سے روکا جائے۔