Tag: موت کا خطرہ

  • غصہ صرف عقل نہیں کھاتا بلکہ جان بھی لے سکتا ہے

    غصہ صرف عقل نہیں کھاتا بلکہ جان بھی لے سکتا ہے

    بچپن سے یہی سنتے آئے ہیں کہ غصہ عقل کو کھا جاتا ہے لیکن تحقیق نے یہ بھی بتا دیا کہ صرف عقل ہی نہیں غصہ صحت کیلئے بھی بہت نقصان دہ ہے جس سے جان بھی جا سکتی ہے۔

    ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ زیادہ غصہ کرنے سے نہ صرف آپ کی ذہنی صحت متاثر ہوتی ہے بلکہ یہ جسمانی طور پر بھی آپ پر حملہ آور ہوسکتا ہے۔

    نیویارک میں کولمبیا یونیورسٹی کی جانب سے کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق غصہ دل اور خون کی نالیوں کو نقصان پہنچا کر موت کا خطرہ بڑھا سکتا ہے۔

    محققین کا کہنا ہے کہ جب لوگوں کو کسی بھی برے رویہ یا کسی یاد پر غصہ آتا ہے تو ان کے خون کی شریانوں کی اندرونی سطح کے خلیات ٹھیک طرح سے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔

    محققین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ غصہ خون کی شریانوں کو غیر صحت مندانہ طریقے سے سکیڑ دیتا ہے اور اس سے دل کی بیماری کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

    اگر کوئی بھی شخص ہر وقت غصے میں رہتا ہے تو ایسی صورت میں اس کی خون کی شریانوں کو دائمی نقصان پہنچ رہا ہوتا ہے۔

    ان خلیوں کو پہنچنے والا نقصان خون کے بہاؤ میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہے، جس سے دل پر دباؤ بڑھتا ہے اس طرح دل کا دورہ پڑنے یا فالج کا خطرہ بڑھ سکتا ہے اور یہ حالت اگر طویل عرصے تک قائم رہے تو یہ امراض قلب کی وجہ بن سکتی ہے۔

    جرنل آف دی امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں محققین کا کہنا ہے کہ بے چینی اور اداسی صحت کو غصے کی طرح نقصان نہیں پہنچاتی۔

    نیدرلینڈز کی ریڈ باؤڈ یونیورسٹی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مصنف ڈاکٹر ایرک بجلویلڈ کا کہنا ہے کہ لوگ جب زیادہ مشکل اہداف پر کام کرتے ہیں تو وہ زیادہ فرسٹریشن اور غصہ محسوس کرتے ہیں ان کے مطابق عمومی طور پر لوگ ذہنی کاوشوں کو ناپسند کرتے ہیں۔

  • آلہ سماعت استعمال کرنے والے افراد کیلئے اہم خبر

    آلہ سماعت استعمال کرنے والے افراد کیلئے اہم خبر

    کیلیفورنیا : سماعت کی کمزوری میں مبتلا افراد کیلئے آلہ سماعت استعمال کرنا بے حد ضروری ہے، بصورت دیگر مستقبل میں ان کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

    امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق سماعت کے مسائل کے شکار جو افراد آلہ سماعت پابندی سے استعمال کرتے ہیں، ان میں جلدی موت کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔

    دی لانسیٹ ہیلتھی لونگیوٹی جریدے میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں 10ہزار افراد کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا جن میں سے 18سو سے زائد افراد وہ تھے جو سماعت کے مسائل سے دوچار تھے۔

    نتائج سے پتہ چلا کہ آلہ کو کبھی کبھار استعمال کرنے والے افراد اوروہ افراد اسے کبھی استعمال نہیں کرتے تھے، ان میں جلد موت کے خطرہ ان لوگوں کے مقابلے میں زیادہ تھا جو آلات باقاعدہ استعمال کرتے تھے۔

    یونیورسٹی آف کیک اسکول آف میڈیسن، کیلیفورنیا میں اسسٹنٹ پروفیسر اور اوٹولیرینگولوجسٹ (کان، ناک اور گلے کے ماہر) نے کہا کہ تحقیق میں جو کچھ ہم نے پایا وہ یہ تھا کہ آلاتِ سماعت باقاعدگی سے استعمال کرنے والے افراد میں جلد موت کا خطرہ 24 فیصد کم ہوتا ہے۔

    مطالعہ یہ بھی بتاتا ہے کہ خطرے میں کمی عمر، نسل، آمدنی، تعلیم، طبی تاریخ اور سماعت کے مسائل کی شدت، ان سب عوامل سے قطع نظر تھی۔

  • موبائل فون کے زیادہ استعمال سے جلد موت کا خطرہ

    موبائل فون کے زیادہ استعمال سے جلد موت کا خطرہ

    موبائل فون کے اب تک بے شمار نقصانات سامنے آچکے ہیں، اب حال ہی میں ایک نئی تحقیق میں انکشاف ہوا کہ موبائل فون کا زیادہ استعمال جلد موت کے خطرے کو بڑھا دیتا ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق ایک نئی تحقیق میں سائنسدانوں نے یہ حیران کن انکشاف کیا ہے کہ موبائل فون کا زیادہ استعمال لوگوں میں خطرناک بیماریوں کا سبب بن کر ان کی عمر میں کمی کر سکتا ہے۔

    سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ اسکرین زیادہ دیر تک دیکھنے سے آنکھوں کو جو نقصان پہنچتا ہے وہ جسم کے دیگر اعضا پر بھی منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔

    اس تحقیق میں سائنسدانوں نے مکھیوں پر تجربات کیے ہیں، اس دوران جن مکھیوں کو زیادہ روشنی میں رکھا گیا تھا ان کی عمر دیگر مکھیوں کی نسبت واضح طور پر کم ہو گئی تھی۔

    نتائج میں سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ اسکرین سے آنکھوں کو پہنچنے والا نقصان دیگر اعضا کے ساتھ ساتھ مدافعتی نظام کو بھی کمزور کرتا ہے اور کئی حوالوں سے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔

  • روزانہ ایک کپ کافی سے اچانک موت کے خطرے میں کمی

    روزانہ ایک کپ کافی سے اچانک موت کے خطرے میں کمی

    کافی انسانی صحت کے لیے نہایت مفید ہے اور حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق سے علم ہوا کہ کافی کسی انسان کی اچانک موت کے خطرے میں کمی کرتی ہے۔

    جرنل آف امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن میں شائع تحقیق کے مطابق دن میں 1 سے 8 کپ کافی پینے والے افراد کی اچانک موت کے خطرے میں 20 فیصد تک کمی ہوسکتی ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ کسی شخص کا جسم کیفین جذب کرنے کی کتنی صلاحیت رکھتا ہے، تاہم وہ افراد جن کا جسم کم یا آہستہ کیفین جذب کرتا ہے انہیں بھی کافی کے تمام فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔

    اس سے قبل ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کافی پینے کے ساتھ قیلولہ کیا جائے تو آپ کی مستعدی میں اضافہ ہوگا اور آپ خود کو زیادہ چاک و چوبند محسوس کریں گے۔

    ماہرین اسے ’نیپ۔چینو‘ کا نام دیتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ صرف قیلولہ کرنا یعنی کچھ دیر سونا یا صرف کافی پینا سستی و غنودگی بھگانے کے لیے کافی نہیں۔

    اگر آپ دونوں کو ایک ساتھ استعمال کریں گے تو دگنا فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ کافی پینے کے بعد 20 منٹ کا قیلولہ آپ کو پہلے سے زیادہ چاک و چوبند بنادے گا۔

  • روزانہ کتنے قدم چلنے سے ‘موت کا خطرہ’ پچاس فی صد کم ہو جاتا ہے؟

    روزانہ کتنے قدم چلنے سے ‘موت کا خطرہ’ پچاس فی صد کم ہو جاتا ہے؟

    میساچوسٹس: امریکا میں ہونے والی ایک نئی تحقیق میں یہ اہم بات معلوم ہوئی ہے کہ اگر روزانہ زیادہ سے زیادہ قدم پیدل چلا جائے تو درمیانی عمر کے افراد میں موت کی شرح نمایاں حد تک کم ہو سکتی ہے۔

    میساچوسٹس یونیورسٹی کے انسٹیٹوٹ فار اپلائیڈ سائنسز کے ماہرین نے جسمانی سرگرمیوں کے اثرات کی جانچ پڑتال کے لیے ریسرچ اسٹڈی کی، اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جاما نیٹ ورک میں شائع ہوئے ہیں، روزانہ قدموں کے شمار کے تجزیے کی مدد سے حاصل شدہ نئے نتائج میں اہم انکشاف ہوا۔

    تحقیق کے مطابق درمیانی عمر میں جسمانی طور پر زیادہ متحرک رہنا دل کی شریانوں سے جڑے امراض سے موت کا خطرہ نمایاں حد تک کم کرتا ہے، ایسا مانا جاتا ہے کہ جسمانی سرگرمیاں متعدد بیماریوں جیسے دل کی شریانوں کے امراض، ذیابیطس اور کینسر کی اقسام سے تحفظ فراہم کرتی ہیں۔

    کرونا ویکسین کی افادیت کیوں‌ کم ہو گئی؟ محققین نے معلوم کر لیا

    محققین نے تحقیق میں قدموں کی تعداد کو مدنظر رکھا اور روزانہ قدموں کی تعداد اور مختلف امراض سے موت کے خطرے میں کمی کے درمیان واضح تعلق کو دریافت کیا، تحقیق میں بتایا گیا کہ روزانہ کم از کم 7 ہزار قدم چلنا مختلف امراض سے موت کا خطرہ 50 سے 70 فی صد تک کم کر سکتا ہے۔

    یاد رہے کہ اس سے قبل اپریل 2021 میں امریکا کی کیلیفورنیا یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ جوانی میں جسمانی سرگرمیوں اور ورزش کو معمول بنا کر درمیانی عمر میں ہائی بلڈ پریشر جیسے خاموش قاتل مرض میں مبتلا ہونے کا خطرہ نمایاں حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔

    مارچ 2020 میں ایک طبی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ دن میں کچھ وقت چہل قدمی کرنا ذیابیطس اور بلڈ پریشر جیسے امراض کا خطرہ کم کر سکتا ہے۔

  • وہ دوا جو کووڈ 19 کے مریضوں میں موت کا خطرہ کم کرے

    وہ دوا جو کووڈ 19 کے مریضوں میں موت کا خطرہ کم کرے

    کرونا وائرس کے خلاف لڑنے کے لیے ویکسین تو بنا لی گئی تاہم اس کی کوئی حتمی دوائی آج تک نہیں طے ہوسکی، اب حال ہی میں ماہرین نے ایسی دوا کی طرف اشارہ کیا ہے جو کووڈ کے مریضوں میں مرنے کا خطرہ کم کرسکتی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق طبی ماہرین نے ایک ایسی دوا کو دریافت کیا ہے جو کووڈ 19 سے بہت زیادہ بیمار افراد میں موت کا خطرہ 20 فیصد تک کم کردیتی ہے، آکسفورڈ یونیورسٹی کے ریکوری ٹرائل کے دوران اسپتال میں زیر علاج کووڈ مریضوں کی صحت یابی میں مدد دینے والی تیسری دوا کو دریافت کیا گیا۔

    درحقیقت یہ پہلی دوا ہے جو بہت زیادہ بیمار افراد کے جسم میں پیدا ہونے والے ورم کی روک تھام کی بجائے براہ راست وائرس کا مقابلہ کرتی ہے۔ اس دوا یا مونوکلونل اینٹی باڈی کا امتزاج ری جینیرون نے تیار کیا ہے اور ان مریضوں پر بھی کام کرتی ہے جن میں کرونا وائرس کی بیماری کے ردعمل میں اینٹی باڈیز نہیں بنتیں۔

    ایسے مریضوں کا علاج نہ ہو تو 30 فیصد ہلاک ہوجاتے ہیں جبکہ یہ شرح ان مریضوں میں 15 فیصد ہے جس میں وائرس کے خلاف ایک اینٹی باڈی ردعمل پیدا ہوتا ہے۔

    آکسفورڈ کے ریکوری ٹرائل کے پروفیسر سر مارٹن لانڈرے نے بتایا کہ یہ بہت اہم ہے، ہم نے جو دریافت کیا ہے، اسے ہم ایک اینٹی وائرل علاج کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں، اس طرح ہم ان مریضوں کی اموات کی شرح کم کرسکتے ہیں جن میں وائرس کے خلاف اینٹی باڈی ردعمل پیدا نہیں ہوتا اور ایسے ہر 3 میں سے ایک کی ہلاکت کا خطرہ ہوتا ہے، تاہم اس دوا سے یہ خطرہ کم کیا جاسکتا ہے۔

    یہ دوا لیبارٹری میں تیار کیے جانے والے 2 مونوکلونل اینٹی باڈیز کے امتزاج پر مبنی ہے، جو کرونا وائرس کے 2 مختلف حصوں میں اسپائیک پروٹین کو جکڑ کر اسے خلیات میں داخل ہونے سے روکتے ہیں۔

    اس سے قبل امریکا میں کچھ چھوٹے ٹرائلز میں لوگوں میں اس کی کچھ افادیت کو ثابت کیا گیا تھا اور بتایا گیا کہ بیماری کے آغاز میں اس کے استعمال سے لوگوں کی بیماری کو پھیلنے سے روک کر اسپتال میں داخلے کا امکان کم کیا جاسکتا ہے۔

    برطانوی ٹرائل میں 9 ہزار 785 کووڈ مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن میں سے 30 فیصد میں وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز موجود نہیں تھیں، 50 فیصد میں اینٹی باڈیز تھیں جبکہ باقی مریضوں کے بارے کچھ واضح نہیں کیا گیا۔

    ٹرائل میں اینٹی باڈیز سے محروم افراد میں اموات کی شرح 30 فیصد سے گھٹ کر 24 فیصد تک آگئی، یعنی ہر 100 مریضوں میں سے 6 کی زندگیاں بچالی گئیں۔

    ان کا اسپتال میں قیام بھی 4 دن کم ہوگیا اور وینٹی لیٹر پر جانے کا امکان بھی ہوا، تاہم اس دوا کا ان افراد پر کوئی اثر نہیں ہوا جن میں اینٹی باڈیز موجود تھیں۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ نتائج کو دیکھتے ہوئے ہسپتال میں داخلے پر کووڈ کے مریضوں کے اینٹی باڈی ٹیسٹ ہوسکتا ہے کہ مستقبل قریب میں عام ہوجائیں، تاکہ اس کے مطابق اس نئی دوا کا استعمال کرایا جاسکے۔

  • نسلی امتیاز کی وجہ سے امریکی ماؤں میں دوران زچگی موت کی شرح میں اضافہ

    نسلی امتیاز کی وجہ سے امریکی ماؤں میں دوران زچگی موت کی شرح میں اضافہ

    امریکا میں گزشتہ چند دہائیوں میں زچگی کے دوران خواتین کی موت کی شرح میں اضافہ ہوگیا ہے جس کی وجوہات میں طبی عملے کی غفلت اور نسلی امتیاز جیسے حیران کن عوامل شامل ہیں۔

    امریکا کے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پری وینشن کی حال ہی میں جاری کردہ رپورٹ میں حیران کن انکشافات کیے گئے ہیں۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ امریکا میں بسنے والی سیاہ فام خواتین میں حمل کے دوران موت کا خطرہ، سفید فام خواتین کے مقابلے میں 3 گنا زیادہ ہوتا ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ اس کی وجہ سیاہ فام طبقے کے لیے طبی عملے کی لاپرواہی اور ان کی کمزور معاشی حالت ہے۔ اسپتالوں میں سیاہ فام طبقے کو طبی عملے کا امتیازی سلوک سہنا پڑتا ہے جس سے ان کی صحت کو سخت خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔

    زچگی کے دوران خواتین کی زندگی کو لاحق خطرات صرف سیاہ فام خواتین تک ہی محدود نہیں۔ رپورٹ کے مطابق تمام امریکی ماؤں کے لیے حمل کے دوران خطرات میں اضافہ ہوگیا ہے۔

    ایک اندازے کے مطابق اس وقت ہر امریکی عورت کو حمل کے دوران، اپنی والدہ کے مقابلے میں 50 فیصد زائد سنگین طبی خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ اس سے قبل زچگی کے دوران اموات کی وجہ زیادہ خون بہنا اور انفیکشن ہوتا تھا، تاہم اب امریکی مائیں موٹاپے، ذیابیطس، امراض قلب، اور سی سیکشن کی شرح میں اضافے کی وجہ سے موت کا شکار ہوسکتی ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں مجموعی طور پر سنہ 1990 سے 2015 کے دوران زچگی کے دوران ماؤں کی اموات میں 44 فیصد کمی آچکی ہے تاہم امریکا میں اس شرح میں اضافہ ہوا۔ امریکا میں چند دہائی قبل 1 لاکھ میں سے 12 ماؤں کو زچگی کے دوران موت کا خطرہ لاحق ہوتا تھا تاہم اب یہ تعداد 17 ہوچکی ہے۔

    رپورٹ میں ماہرین نے زچگی کے بعد ماؤں کے لیے طبی عملے کی غفلت کی طرف بھی اشارہ کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ بچے کی پیدائش کے بعد ماؤں کی طرف ڈاکٹرز کی توجہ کم ہوجاتی ہے نتیجتاً وہ چھوٹے موٹے طبی مسائل جن پر باآسانی قابو پایا جاسکتا ہے، سنگین صورت اختیار کر کے جان لیوا بن جاتے ہیں۔

    رپورٹ میں تجویز کیا گیا کہ ایک طرف تو حاملہ ماؤں کو صحت مند طرز زندگی گزارنے کی طرف راغب کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں، دوسری طرف طبی عملے کو بھی اس بات کی تربیت دی جائے کہ پہلے مرحلے سے لے کر آخری وقت تک ماں اور بچے دونوں کو توجہ دی جائے۔