Tag: موت کے سوداگر

  • ٹرکوں پر پر لدھے کنٹینرز عوام کے لیے موت کے سوداگر، وجہ کیا ہے؟

    ٹرکوں پر پر لدھے کنٹینرز عوام کے لیے موت کے سوداگر، وجہ کیا ہے؟

    پاکستان میں ٹرکوں پر لدے کنٹینرز سڑک پر گزرتے لوگوں کے جان و مال کے لیے سنگین خطرہ بنے ہوئے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ 80 فی صد سے زائد کنٹینرز ڈبل لاکس کے بغیر چلائے جاتے ہیں۔

    اگرچہ یہ ملک میں معاشی سرگرمیوں کا بنیادی حصہ ہیں، لیکن سڑکوں پر کنٹينر لدے ٹرالرز عوام کے لیے موت کے سوداگر بنے نظر آتے ہیں، کیوں کہ غیر محفوظ کنٹینرز کی وجہ سے کئی افراد قیمتی جانوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔

    17 سال پرانا کیس

    کراچی میں اسی طرح کے ایک حادثے کے شکار نوجوان عمار پاریکھ کے مرحوم والد نے کنٹینر مافیا کی لاقانونیت کے خلاف عدالت میں مقدمہ کر دیا تھا، جو 17 سال گزرنے کے باوجود اب تک زیر سماعت ہے، جب کہ درخواست گزار بھی دنیا سے گزر چکے ہیں۔

    عمار مرحوم کے بھائی نے بتایا کہ پورٹ قاسم سے نکلنے والا کنٹینر جام صادق پل سے جیسے ہی کے ای اسٹیشن کی طرف اترا، وہاں وہ الٹ گیا اور اس کی زد میں میرے بھائی عمار کی گاڑی آ گئی، اس حادثے میں وہ اپنے ڈرائیور سمیت جاں بحق ہو گئے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ لاکس کے بغیر چل رہا تھا۔

    حفاظتی ڈبل لاک

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے حادثات کی بڑی وجہ حفاظتی لاک کے بغير کنٹینرزعام ٹرکوں پر لادے جانا ہے، جو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے، جس کا اعتراف سابق ڈی جی پورٹ اینڈ شپنگ انور شاہ بھی کرتے ہيں۔

    ان کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق ہر کنٹینر کا چاروں طرف سے ڈبل لاک ہونا لازمی ہے، انٹرنیشنل اسٹینڈرڈ ڈبل ٹوسٹ لاک دنیا میں جرمنی سمیت چند ہی ممالک بناتے ہیں ليکن بدقسمتی سے پاکستان میں مقامی غیر معیاری لاکس کا استعمال عام ہے۔

    ذمہ دار کون؟

    کراچی گڈز کیریئر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن کے ایگزیکٹو ممبر سردار ادریس بلوچ نے بتایا کہ ملک میں غیر معیاری لاکس کو چیک کرنے کا کوئی نظام موجود نہیں ہے، محکمے اور ٹرمینل کمپنياں ايک دوسرے کو اس ناکامی کے لیے ذمہ دار ٹھہراتی ہيں۔

    انھوں نے کہا کہ قوانين ميں سختی لانے يا پابندی کی صورت میں گڈز ٹرانسپورٹ کمپنياں بھی من مانی کرتی نظر آتی ہيں، کارروائی کی صورت میں بات ہڑتالوں کی دھمکيوں سے ہر طرح کی بليک ميلنگ تک پہنچ جاتی ہے۔ سابق صدر آل کراچی کیریئر ٹرانسپورٹ ایسوسی ايشن رانا محمد اسلم نے بھی بتایا کہ غیر معیاری لاکس کو چیک کرنے کا کوئی نظام ہے نہ ہی کسی کو اس کی زحمت کرنا گوارا ہے۔

    ہزار پر صرف 100 کنٹینرز

    اس انڈسٹری سے وابستہ ماہرين کے مطابق ہر ایک ہزار کنٹینرز میں سے صرف 100 کنٹینرز پر ہی بین الاقوامی معيار کے مطابق لاک لگے ہيں، جب کہ باقی کنٹينرز پر اطلاق کے لیے کوئی محکمہ سنجيدہ نظر نہيں آتا، جس کے باعث عوام کے جان و مال کا ضياع معمول بن چکا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر کنٹینر کا چاروں طرف سے ڈبل لاک ہونا لازمی ہے، لیکن پاکستان میں مقامی سطح پر غیر معیاری لاکس کا استعمال عام ہو گیا ہے، جب کہ غیر معیاری لاکس کو چیک کرنے کا کوئی نظام بھی موجود نہیں ہے۔

  • کراچی میں فیس بک پیج کے ذریعے آئس کی خریدو فروخت کا انکشاف

    کراچی میں فیس بک پیج کے ذریعے آئس کی خریدو فروخت کا انکشاف

    کراچی : شہر قائد میں موت کے سوداگر فیسس بک پیج کے ذریعے اس ملک کے مستقبل کے معماروں میں آئس نامی نشہ فروخت کرنے لگے، زیر حراست ملزمان نے سنسنی خیز انکشافات کردیے۔

    تفصیلات کے مطابق اس بات کا انکشاف ضلع جنوبی کے سینئر سپریٹنڈنٹ پولیس ( ایس ایس پی ) شیراز نظیر نے میڈیا بریفنگ میں منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث گروہ کے ممبران کی گرفتاری کے بعد ان سے حاصل ہونے والی معلومات کی روشنی میں کیا۔

    ایس ایس پی شیراز نظیر نے انکشاف کیاتھا کہ منشیات کی فروخت میں ملوث ملزمان اپنے لیے گاہک تلاش کرنے ، رقم کی ادائیگی اور مال پہنچانے کے لیے جدید ذرائع اختیار کررہے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ منشیات فروشی میں ملوث گروہ کے کچھ ارکان کو حراست میں لیا گیا ہے ، جن میں ایک خاتون بھی شامل ہیں، جو کسی زمانے میں ایک اسکول میں ٹیچنگ کیا کرتی تھیں۔

    انہوں نے بتایا کہ آئس کے حصول کے لیے رقم آن لائن منتقل کی جاتی ہے جو کہ بلوچستان میں وصول ہوتی ہے، بلوچستان کے شہر حب سے چلنے والے منشیات کےاس نیٹ ورک کے مرکزی کردار خالد رئیسی اور مطیع الرحمان ہیں۔

    فیس بک پیج کی مدد سے گاہکوں کو تلاش کیا جاتا ہے ، انہیں خالص مال پہنچانے کا یقین دلایا جاتا ہے ، اور ادائیگی کے بعدآن لائن بتایا جاتا ہے کہ فلاں دکان کے پیچھے سے منشیات اٹھالو۔کبھی کبھار منشیات پتھروں کے نیچے بھی چھپا کر دی جاتی ہے۔

    زیر حراست ملزمان میں ایک خاتون بھی شامل ہے جس کا کہنا ہے کہ وہ اسکول میں ٹیچنگ کرتی تھی ، برے دوستوں کی صحبت کے سبب منشیات کی لت لگ گئی، جسے پورا کرنے کے لیے اس نے اس گینگ میں شمولیت اختیار کی ۔

    ایس ایس پی ضلع جنوب کے مطابق یہ ملزمان کراچی کے فارم ہاؤسز اور ہاکس بے پر منشیات دیتے ہیں، آئس نامی یہ نشہ اکثر پرائیویٹ پارٹیز میں بھی سپلائی کیا جاتا ہے۔ ملزمان نے تفتیش کے دوران انکشاف کیا کہ آئس کے قیمت کے بدلے چوری کی گاڑی بھی قبول کرلی جاتی ہے ، جس کی وجہ سے گاڑیوں کی چوریوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

    یاد رہے کہ اس سے پہلے بھی رواں ماہ مئی میں کراچی کے علاقے بہادر آباد سے تعلیمی اداروں میں آئس نشہ فروخت کرنے والا 15 رکنی گروہ گرفتار کیا گیا تھا ، ملزمان میں ایم کیو ایم کی خاتون کونسلر بھی شامل تھیں۔ گرفتار خاتون ملزمہ نارتھ ناظم آباد یوسی 21 کی کونسلر اور خود بھی آئس نشے کی عادی تھی۔

    پولیس کے مطابق ملزمان اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں منشیات فروخت کرتے تھے، گروہ نوجوان لڑکے لڑکیوں کو ٹریپ کرتا تھا ان کی ویڈیو بناتا اور بلیک میل کرتا تھا۔

    رواں ماہ 2 جولائی کو انسدادِ منشیات فورس نے کراچی میں ایک کارروائی کے دوران 18 کلو گرام منشیات پکڑی، یہ منشیات فیصل آباد سے کراچی اسمگل کی گئی تھی۔

    کے پی پولیس نے بھی افغانستان سے پاکستان آئس منشیات کا دھندا کرنے والا عالمی نیٹ ورک رواں ماہ پکڑا تھا۔گرفتار کیے گئے 12 اسمگلرز سے کروڑوں روپے مالیت کی منشیات بر آمد ہوئی تھی، پولیس کے مطابق عالمی اسمگلروں کی گرفتاری حساس اداروں کی مدد سے عمل میں لائی گئی تھی۔