Tag: موت

  • روزانہ کتنے قدم چلنا خطرناک بیماریوں سے بچا سکتا ہے؟

    روزانہ کتنے قدم چلنا خطرناک بیماریوں سے بچا سکتا ہے؟

    پیدل چلنا صحت مند رہنے اور موت کا سبب بننے والی بے شمار بیماریوں سے بچانے کے لیے فائدہ مند ہے، حال ہی میں ماہرین نے اس حوالے سے قدموں کی تعداد کا بھی اندازہ لگایا ہے۔

    حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ صحت مند رہنے کے لیے 6 ہزار قدم چلنا کافی ہے۔

    امریکی ماہرین کے مطابق روزانہ 6 ہزار سے 8 ہزار قدم چلنا 60 سال کی عمر سے زیادہ کے لوگوں میں جلدی موت کے امکانات کو 54 فیصد تک کم کردیتا ہے، ہر روز 8 ہزار سے زائد قدم چلنے کے کوئی اضافی فوائد نہیں ہیں۔

    یونیورسٹی آف میسا چوسٹس کی ٹیم نے 15 مطالعوں کے نتائج پر نظر ثانی کی، جن میں روزمرہ کے چلے جانے والے قدم کے موت پر پڑنے والے اثرات کا مطالعہ کیا گیا۔ ماہرین نے یہ تحقیق 4 برِاعظموں کے 50 ہزار افراد پر کی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ پیدل چلنا موت کے خطرات میں کمی کے لیے اہم تھا اور چلنے کی رفتار کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

    تحقیق کی رہنما مصنف ڈاکٹر امانڈا پیلوچ کا کہنا ہے کہ تحقیق میں دیکھا گیا کہ جیسے جیسے قدموں کی تعداد بڑھی، خطرات میں کمی میں اضافہ ہوا، دلچسپ بات یہ ہے کہ تحقیق میں ہر روز قدموں کی تعداد کے علاوہ چلنے کی رفتار کے ساتھ کوئی واضح تعلق نہیں پایا گیا۔

    تحقیق میں یہ بھی معلوم ہوا کہ 60 سال سے کم عمر لوگوں کو روزانہ 8 ہزار قدم چلنے چاہیئں تاکہ قبل از وقت موت کے خطرے سے بچ سکیں۔

  • مرنے والے کے جسم کا ایک حصہ یادگار رکھنے کی عجیب و غریب روایت

    مرنے والے کے جسم کا ایک حصہ یادگار رکھنے کی عجیب و غریب روایت

    دنیا بھر میں موت کے حوالے سے عجیب و غریب روایات و رواج رائج ہیں تاہم حال ہی میں ایک ایسی روایت سامنے آئی ہے جس نے لوگوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔

    برطانوی میڈیا کے مطابق ایک خاتون نے ریڈ اٹ پر اپنی کہانی شیئر کی ہے اور بتایا ہے کہ اس کے سسرال میں ایک عجیب و غریب روایت ہے جس میں مرنے والے کے لواحقین اس کے دانت توڑ کر اپنے پاس محفوظ کرلیتے ہیں۔

    خاتون نے بتایا کہ یہ ٹوٹے ہوئے دانت میت کے قریبی رشتہ داروں میں تقسیم کیے جاتے ہیں، جو شخص میت کو جتنا زیادہ عزیز تھا اسے اسی کے مطابق دانت دیے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی تمام دانت جو کہ میت نے اپنی ساری زندگی میں جمع کیے ہیں وہ اس کے جسم کے ساتھ دفن کر دیے جاتے ہیں۔

    خاتون نے بتایا کہ جب اس کے شوہر کی دادی فوت ہوئیں تو ساس نے اسے دادی کا دانت دیا، جب خاتون نے دانت رکھنے سے انکار کیا تو ان کا شوہر خفا ہوگیا۔

    خاتون نے دلیل دی کہ وہ نہ تو کسی کے دانت اپنے ساتھ رکھیں گی اور نہ ہی وہ چاہیں گی کہ مرنے کے بعد ان کے دانت توڑے جائیں۔ خاتون نے بتایا کہ ان کے شوہر کا خاندان بہت اچھا ہے لیکن انہیں یہ رسم بالکل پسند نہیں۔

    سوشل میڈیا صارفین نے اس عجیب و غریب روایت پر مختلف تبصرے کیے۔ ایک صارف نے کہا کہ یہ پاگل پن کی انتہا ہے۔

    ایک اور صارف نے لکھا کہ یہ عجیب تو ہے لیکن یہ کسی کو نقصان تو نہیں پہنچا رہا، آپ کو اس کا پس منظر ضرور جاننا چاہیئے۔

  • وہ عنصر جو کرونا وائرس کی وجہ سے موت کا خطرہ بڑھائے

    وہ عنصر جو کرونا وائرس کی وجہ سے موت کا خطرہ بڑھائے

    امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق مریضوں کے پھیپھڑوں میں کرونا وائرس کی تعداد بہت زیادہ بڑھ جانا ممکنہ طور پر موت کی وجہ بنتا ہے۔

    نیویارک یونیورسٹی گروسمین اسکول آف میڈیسن اور نیویارک یونیورسٹی لینگون ہیلتھ کی اس تحقیق کے نتائج سابقہ خیالات سے متضاد ہیں جن میں کہا گیا تھا کہ نمونیا یا جسمانی مدافعتی ردعمل کی شدت بہت زیادہ بڑھ جانا کووڈ سے ہلاکت کا خطرہ بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

    تحقیق میں ثابت کیا گیا کہ جو لوگ کووڈ 19 کے باعث ہلاک ہوجاتے ہیں ان کے زیریں نظام تنفس میں وائرس کی مقدار یا وائرل لوڈ کی مقدار دیگر سے 10 گنا زیادہ ہوتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ پھیپھڑوں کو متاثر کرنے والے وائرس کی تعداد پر جسم کی ناکامی اس وبا کے دوران اموات کی بڑی وجہ ہے۔

    اس سے پہلے خیال کیا جاتا تھا کہ وائرس سے متاثر ہونے پر مدافعتی نظام جسم کے صحت مند ٹشوز پر حملہ آور ہوجاتا ہے اور جان لیوا ورم پھیلنے کا خطرہ بڑھتا ہے۔

    مگر اس تحقیق میں اس حوالے سے کوئی شواہد دریافت نہیں ہوسکے بلکہ ماہرین نے دریافت کیا کہ مدافعتی ردعمل پھیپھڑوں میں وائرس کی مقدار کے مطابق ہوتا ہے۔

    اس تحقیق میں سیکنڈری انفیکشنز، وائرل لوڈ اور مدافعتی خلیات کی تعداد کی جانچ پڑتال کی گئی تھی۔

    محققین نے بتایا کہ نتائج سے کورونا وائرس کے مریضوں کے زیریں نظام تنفس کے ماحول کا اب تک کا سب سے تفصیلی سروے فراہم کیا گیا ہے۔

    تحقیق میں نیویارک یونیورسٹی لینگون کے زیر تحت کام کرنے والے طبی مراکز میں زیرعلاج رہنے والے 589 کووڈ کے مریضوں کے نمونے اکٹھے کیے گئے تھے۔

    ان سب مریضوں کو مکینکل وینٹی لیٹر سپورٹ کی ضرورت پڑی تھی جبکہ 142 مریضوں کے سانس کی گزر گاہ کلیئر کرنے کا برونکواسکوپی بھی ہوئی تھی۔

    ماہرین نے جائزہ لیا کہ ان افراد کے زیریں نظام تنفس میں وائرس کی مقدار کتنی تھی جبکہ مدافعتی خلیات کی اقسام اور وہاں موجود مرکبات کا بھی سروے کیا گیا۔

    تحقیق میں انکشاف ہوا کہ کووڈ سے ہلاک ہونے والے مریضوں میں ایک قسم کے مدافعتی کیمیکل کی پروڈکشن اس بیماری کو شکست دینے والے افراد کے مقابلے میں اوسطاً 50 فیصد کم ہوجاتی ہے۔

    یہ کیمیکل جسم کے مطابقت پیدا کرنے والے مدافعتی نظام کا حصہ ہوتا ہے جو حملہ آور جرثوموں کو یاد رکھتا ہے تاکہ جسم مستقبل میں اس سے زیادہ اچھے طریقے سے نمٹ سکے۔

    ماہرین نے بتایا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ مدافعتی نظام میں مسائل کے باعث وہ کورونا وائرس سے مؤثر طریقے سے کام نہیں کر پاتا، اگر ہم مسئلے کی جڑ کو پکڑ سکیں، تو ہم مؤثر علاج بھی دریافت کرسکیں گے۔

  • جینا چاہتے ہیں تو ان غذاؤں سے دور ہوجائیں

    جینا چاہتے ہیں تو ان غذاؤں سے دور ہوجائیں

    سب ہی جانتے ہیں کہ تلے ہوئے کھانے کھانا انسانی صحت کے لیے بے حد خطرناک ہے، اور اب حالیہ تحقیق نے اسے جان لیوا بھی ثابت کردیا ہے۔

    طبی جریدے جرنل آف دی امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن میں شائع تحقیق کے مطابق تلے ہوئے کھانے، پراسیس گوشت اور میٹھے مشروبات پر مشتمل غذا کا زیادہ استعمال اچانک حرکت قلب تھم جانے سے موت کا خطرہ بڑھا دیتی ہے۔

    تحقیق میں 45 سال یا اس سے زائد عمر کے 21 ہزار افراد کی غذائی عادات کا جائزہ لیا گیا۔ ان افراد کی غذائی عادات کو 18 سال سے زیادہ دیکھا گیا اور ان کو مختلف گروپس میں تقسیم کیا گیا۔

    مثال کے طور پر سبزیاں پسند کرنے والے، میٹھے کے شوقین اور مکس غذاؤں کو خوراک کو حصہ بنانے والے وغیرہ۔

    ان میں سے ایک گروپ ایسا تھا جن کی غذا کا زیادہ تر حصہ چکنائی، تلے ہوئے کھانوں، انڈوں، پراسیس گوشت اور میٹھے مشروبات پر مشتمل تھا اور اسے سدرن کا نام دیا گیا تھا، کیونکہ امریکا کے جنوبی علاقوں میں اس طرح کا غذائی رجحان عام ہے۔

    تمام تر عناصر کو مدنظررکھتے ہوئے دریافت کیا گیا کہ سدرن طرز کی غذا میں اچانک حرکت قلب تھم جانے یا سڈن کارڈک اریسٹ سے موت کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں 46 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔

    اس کے مقابلے میں پھلوں، سبزیوں، گریوں، مچھلی اور زیتون کے تیل پر مشتمل غذا سے کارڈک اریسٹ سے موت کا خطرہ 26 فیصد تک کم کیا جاسکتا ہے۔

    اس سے قبل امریکا کے وی اے بوسٹن ہیلتھ کییئر سسٹم ہاسپٹل کی تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ بہت زیادہ تلی ہوئی غذاﺅں کو کھانا خون کی شریانوں کے مسائل بڑھا کر امراض قلب کا شکار بنا سکتا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ تلی ہوئی غذائیں جیسے فرنچ فرائز یا دیگر کو کھانا دل کی شریانوں کے مرض سی اے ڈی کا خطرہ بڑھانے کا باعث بنتا ہے۔

  • نیند کی کمی کا شکار افراد کے لیے بری خبر

    نیند کی کمی کا شکار افراد کے لیے بری خبر

    رات کی نیند میں خلل پڑنا یا کم نیند آنا آج کل ہر شخص کا مسئلہ ہے تاہم اب ماہرین نے اس حوالے سے تشویشناک خبر دی ہے۔

    برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق جن افراد کو رات میں نیند نہیں آتی یا آدھی رات کو جاگ جاتے ہیں، ان میں جلد موت کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔

    اس تحقیق میں 5 لاکھ درمیانی عمر کے افراد کو شامل کیا گیا تھا اور دریافت کیا گیا کہ نیند کے مسائل سے دوچار افراد بالخصوص ذیابیطس کے مریضوں میں اس کے نتیجے میں کسی بھی وجہ سے موت کا خطرہ 87 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ ہم پہلے سے ہی جانتے ہیں کہ نیند کی کمی اور خراب صحت کے درمیان مضبوط تعلق موجود ہے مگر نئے نتائج چونکا دینے والے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹروں کے نیند کے مسائل کو بہت سنجیدہ لینا چاہیئے تاکہ ان میں خطرے کو کم کیا جاسکے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ذیابیطس سے ویسے ہی مختلف امراض سے موت کا خطرہ 67 فیصد تک بڑھ جاتا ہے مگر ایسے مریضوں کو بے خوابی یا نیند کے دیگر مسائل کا سامنا ہو ان کے لیے یہ خطرہ 87 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

    اس سے قبل 2019 میں کیلی فورنیا یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ محض ایک رات کو کم سونے سے بھی ذہنی بے چینی، خوف یا اعصابی خلل کا خطرہ 30 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

    طبی جریدے جرنل نیچر ہیومن بی ہیوئیر میں شائع تحقیق میں ماہرین کا کہنا تھا کہ ہم نے گہری نیند کا ایک نیا فائدہ دریافت کیا ہے جو رات بھر میں دماغی کنکشن دوبارہ منظم کر کے ذہنی تشویش اور بے چینی کو کم کردیتا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ گہری نیند ذہنی بے چینی کی روک تھام میں مددگار ہے، جب تک ہم ہر رات ایسا کرتے رہیں۔ آسان الفاظ میں نیند دوا کے بغیر ہی ذہنی بے چینی، خوف و اعصابی خلل کے امراض کا علاج ہے، ان امراض کا شکار دنیا بھر میں کروڑوں افراد ہیں۔

  • دیر تک کام کرنے والے ہوشیار ہوجائیں

    دیر تک کام کرنے والے ہوشیار ہوجائیں

    کرونا وائرس کی وبا کے دوران گھر سے کام کرنا اور دیر تک کام کرنا معمول کا حصہ بن چکا ہے، تاہم ماہرین نے دیر تک کام کرنے والوں کو خبردار کیا ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ دیر تک کام کرنے کی وجہ سے دنیا میں ہر سال لاکھوں اموات ہوتی ہیں اور کرونا وائرس کے بعد جو معاشی صورتحال پیدا ہوئی ہے اس میں زیادہ دیر تک کام کرنے کے رجحان میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

    طویل اوقات کار کے زندگی پر پڑنے والے اثرات پر پہلی عالمی تحقیق میں ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ سنہ 2016 میں ایسے 7 لاکھ 45 ہزار افراد دل کے دورے اور فالج کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے جن کا براہ راست تعلق بہت دیر تک کام کرنے سے ہے۔

    سنہ 2000 کے مقابلے میں یہ شرح تقریباً 30 فیصد زیادہ ہے۔ تحقیق کے مطابق دیر تک کام کرنے والے افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اس وقت ایسے افراد عالمی آبادی کا تقریباً 9 فیصد ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کے شعبہ ماحولیات، موسمیاتی تبدیلی و صحت کی ڈائریکٹر ماریا نیرا کا کہنا ہے کہ ہفتے میں 55 گھنٹے یا اس سے زیادہ کام کرنا صحت کے لیے سنگین خطرہ ہے۔

    ڈائریکٹر جنرل ٹیڈ روس کے مطابق کووِڈ 19 کی وبا نے کئی لوگوں کے کام کرنے کے انداز اور طریقے بدل دیے ہیں۔ اب کئی صنعتوں میں ٹیلی ورکنگ عام ہو چکی ہے اور گھر اور دفتر کا فرق مٹتا جا رہا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ کوئی بھی کام ایسا نہیں جو آپ کی صحت سے بڑھ کر ہو، اس لیے حکومتوں، اداروں اور کام کرنے والوں کو صحت کے تحفظ کے لیے کچھ حدیں مقرر کرنی چاہئیں۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ سنہ ‏2000 سے 2016 کے دوران زیادہ دیر تک کام کرنے والوں میں دل کے امراض کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد 42 فیصد اور فالج سے 19 فیصد تک بڑھی۔

    تحقیق کے مطابق ہفتے میں 55 گھنٹے یا اس سے بھی زیادہ کام کرنے سے فالج کے حملے کا خدشہ تقریباً 35 فیصد اور دل کے کسی مرض کے ہاتھوں مرنے کا خطرہ 17 فیصد ان افراد سے زیادہ ہوجاتا ہے جو مقررہ وقت میں کام کرتے ہیں۔

  • آپ کی یہ عام عادت آپ کو موت کا شکار بنا سکتی ہے

    آپ کی یہ عام عادت آپ کو موت کا شکار بنا سکتی ہے

    دن کا زیادہ تر حصہ بیٹھ کر گزارنے کی عادت بے شمار امراض کا باعث بن سکتی ہے حتیٰ کہ یہ آپ کو موت کے منہ میں بھی دھکیل سکتی ہے۔

    حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق میں جسمانی طور پر زیادہ متحرک نہ رہنا متعدد امراض بشمول امراض قلب، فالج، ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس ٹائپ 2 اور متعدد اقسام کے کینسر اور قبل از وقت موت کا خطرہ بڑھانے والا عنصر ثابت ہوچکا ہے۔

    اس نئی تحقیق میں 168 ممالک کا سنہ 2016 کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا اور محققین نے دریافت کیا کہ سست طرز زندگی غیر متعدی امراض کا باعث بنتے ہیں۔ ہر ہفتے ڈیڑھ سو منٹ سے بھی کم معتدل یا 75 منٹ کی سخت جسمانی سرگرمیوں کو سست طرز زندگی قرار دیا جاتا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ امیر ممالک کے رہائشیوں میں سست طرز زندگی سے جڑے امراض کا خطرہ غریب ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کے مقابلے میں 2 گنا سے زیادہ ہے۔

    سنہ 2016 میں امیر ممالک میں جسمانی سرگرمیوں کی سطح متوسط ممالک کے مابلے میں دوگنا کم تھی تاہم متوسط ممالک میں سست طرز زندگی سے لوگوں کو زیادہ خطرے کا سامنا ہوتا ہے جس کی وجہ وہاں کی آبادی زیادہ ہونا ہے۔

    یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں سست طرز زندگی کے نتیجے میں ہونے والی مجموعی اموات میں سے 69 فیصد متوسط ممالک میں ہوئیں، اسی طرح غیرمتعدی امراض سے ہونے والی 80 فیصد اموات متوسط اور غریب ممالک میں ہوئیں۔

    اس طرز زندگی کے نتیجے میں سب سے زیادہ اموات لاطینی امریکا، کیرئیبین ممالک، ایشیا پیسیفک اور مغربی ممالک میں ہوئیں۔ اس کے مقابلے میں سب سے کم شرح سب صحارا افریقہ، اوشیانا، مشرقی اور جنوبی مشرقی ایشیا میں دیکھنے میں آئی۔

  • کرکٹ میچ کے دوران کھلاڑی جان کی بازی ہار گیا

    کرکٹ میچ کے دوران کھلاڑی جان کی بازی ہار گیا

    نئی دہلی: بھارت میں مقامی سطح پر کھیلے جانے والے ایک میچ کے دوران 27 سالہ کرکٹر جان کی بازی ہار گیا، کھلاڑی گیند لینے کے لیے جھکا تو گر گیا اور دوبارہ نہ اٹھ سکا۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق افسوسناک واقعہ ریاست حیدر آباد میں پیش آیا، 27 سالہ للت کمار ساکن بینک کا ملازم تھا اور اکثر مقامی سطح پر کھیلے جانے والے کرکٹ میچز میں حصہ لیا کرتا تھا۔

    اتوار کے روز کرکٹ گراؤنڈ میں کرکٹ کھیلتے وقت وہ گیند کو پکڑنے کے لیے جھکا تو نیچے گر گیا اور دوبارہ نہیں اٹھا۔

    دیگر کھلاڑیوں نے اسے فوری طور پر قریبی اسپتال منتقل کیا، وہاں پر ڈاکٹروں نے اس کا معائنہ کیا اور مردہ قرار دے دیا۔ پولیس نے مقدمہ درج کرتے ہوئے کارروائی کا آغاز کردیا۔

    یاد رہے کہ اس سے قبل اڑیسہ میں بھی اسی نوعیت کا واقعہ پیش آچکا ہے جب دوران میچ 18 سالہ کرکٹر دل کا دورہ پڑنے سے زندگی کی بازی ہار گیا۔

    ستیا جیت پردھان نمای کرکٹر کو اس وقت دل کا دورہ پڑا جب وہ نان اسٹرائیک اینڈ سے سنگل رن لینے کے لیے بھاگے اور وکٹ کے درمیان میں پہنچ کر گرگئے۔

    ستیا جیت کو فوری طور پر مقامی اسپتال پہنچایا گیا جہاں ڈاکٹرز نے ان کی موت کی تصدیق کردی۔ ڈاکٹرز کے مطابق کرکٹ کی موت اچانک دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی۔

  • نیند میں چلنے والی بچی کے ساتھ خوفناک حادثہ

    نیند میں چلنے والی بچی کے ساتھ خوفناک حادثہ

    روس میں ایک 3 سالہ بچی نیند میں چلتے ہوئے گھر کے سنسان حصے میں چلی گئی جہاں کے منفی درجہ حرارت سے اس کی موت واقع ہوگئی۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق 3 سالہ بچی انجلینا اپنے والدین اور ایک سال کی چھوٹی بہن کے ساتھ رہتی تھی، اسے نیند میں چلنے کی بیماری تھی اور اکثر اوقات وہ اپنے بستر سے نکل کر گھر کے کسی دوسرے حصے میں چلی جاتی تھی جہاں سے اس کے والدین اسے اٹھا کر واپس بستر پر لاتے تھے۔

    بچی کی ماں کا کہنا ہے کہ حادثے سے ایک روز قبل شام میں ان کی چھوٹی بچی کی پہلی سالگرہ تھی، جس کے بعد حسب معمول والدہ نے انجلینا کو اس کے کمرے میں سلایا اور خود بھی اپنے کمرے میں آ کر سوگئیں۔

    اگلی صبح انجلینا اپنے بستر پر موجود نہیں تھی، ماں نے دیکھا کہ وہ ہال وے (راہداری) میں بے حس و حرکت موجود تھی جہاں سخت سردی تھی۔

    والدین اسے لے کر فوراً اسپتال گئے جہاں ڈاکٹرز نے اس کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ہائپوتھرمیا (سخت سردی سے جم جانا) کا شکار ہوئی تھی۔

    پولیس کے مطابق اس رات راہداری میں درجہ حرارت منفی 15 ڈگری سینٹی گریڈ تھا، روس کے مذکورہ علاقے میں موسم سرما کے دوران پارہ منفی 17 سے منفی 25 سینٹی گریڈ تک پہنچ جانا معمول کی بات ہے۔

    پولیس نے ماں پر غفلت کے الزامات عائد کرتے ہوئے تفتیش شروع کردی ہے، اگر یہ الزام ثابت ہوگیا تو ماں کو 2 سال قید کی سزا ہوسکتی ہے، ماں کا نفسیاتی معائنہ بھی کیا جارہا ہے۔

    جوڑے کی دوسری 1 سالہ بچی کو فلاحی ادارے منتقل کردیا گیا ہے جہاں وہ تفتیش مکمل ہونے تک رہے گی۔

  • سرکاری اداروں کی سستی: خاندان 27 سال تک اپنے پیارے کی موت سے بے خبر رہا

    سرکاری اداروں کی سستی: خاندان 27 سال تک اپنے پیارے کی موت سے بے خبر رہا

    میڈرڈ: اسپین کی ایک عدالت نے ایک متاثرہ خاندان کو 1 لاکھ 20 ہزار پاؤنڈز کی رقم ادا کرنے کا حکم دیا ہے جو 27 سال تک اپنے پیارے کو لاپتہ سمجھتا رہا اور اسے اس کی موت کی خبر نہیں ہوئی۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق 8 دسمبر سنہ 1990 کو اسپین کے جنوبی شہر میں ایک کار کو حادثہ پیش آیا تھا جس میں موجود شخص موقع پر ہی ہلاک ہوگیا۔

    6 دن بعد مذکورہ شخص کے اہلخانہ نے اس کی گمشدگی کی رپورٹ درج کروائی یہ جانے بغیر کہ ان کا عزیز اس دنیا سے گزر چکا ہے۔

    اس کیس میں پولیس اور متعلقہ محکموں نے اس قدر غیر ذمہ داری اور غفلت کا مظاہرہ کیا کہ یہ خاندان 27 سال تک اپنے پیارے کی موت سے بے خبر رہا یہاں تک کہ 12 جون 2017 کو انہیں علم ہوا کہ وہ جسے لاپتہ سمجھ رہے ہیں وہ اس دنیا میں نہیں ہے۔

    سرکاری محکموں کی غفلت کا علم ہونے کے بعد محکمہ داخلہ کی جانب سے متاثرہ خاندان کو ایک معمولی رقم بطور معاوضہ دینے کی پیشکش کی گئی تاہم دکھ اور غصے سے بھرے بہن بھائی اور والدہ عدالت پہنچ گئے۔

    اب عدالت نے اسپین کی گورنمنٹ کو مذکورہ خاندان کو 1 لاکھ 20 ہزار پاؤنڈز بطور معاوضہ دینے کا حکم دیا ہے، اس میں سے 58 ہزار پاؤنڈز والدہ اور 18، 18 ہزار پاؤنڈز بہن بھائیوں کو دیے جائیں گے۔

    عدالت نے اس سے کہیں زیادہ رقم کا جرمانہ وزارت داخلہ پر بھی عائد کیا ہے۔

    مقامی پولیس نے بھی عدالت میں اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور بتایا کہ ان کے پاس موجود گمشدہ و لاپتہ افراد، اور لاوارث حالت میں ملنے والی لاشوں کے ڈیٹا میں ہم آہنگی کا فقدان ہے۔

    پولیس کے مطابق مختلف محکموں کے درمیان رابطوں کی کمی کی وجہ بھی اس خاندان کی اذیت کا سبب بنی۔