Tag: مودی سرکار

  • مودی سرکار کا مسلمانوں کیخلاف من گھڑت بیانیہ جھوٹا ثابت

    مودی سرکار کا مسلمانوں کیخلاف من گھڑت بیانیہ جھوٹا ثابت

    مودی سرکار کا مسلمانوں کیخلاف من گھڑت بیانیہ جھوٹا نکلا، 2014 میں مودی کے زیر اقتدار آتے ہی بھارت میں مسلمانوں کے تاریک ترین باب کا آغاز ہوا۔

    مودی سرکار نے اپنے دس سالہ دور اقتدار میں مسلمانوں کی زندگی اجیرن کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا
    مودی نے انتہا پسند عوام کی حمایت اور ووٹ حاصل کرنے کیلئے ہمیشہ مسلمان مخالف بیانیے کا استعمال کیا
    مودی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران بھی مسلمانوں کو ناسور قرار دیا۔

    بی جے پی کی جانب سے مسلمانوں کیخلاف سب سے زیادہ استعمال ہونے والا منفی پروپیگنڈا ‘ہم پانچ ہمارے پچیس’ کی بنیاد پر تیار کیا گیا، مودی اور بی جے پی کے دیگر ارکان مسلسل مسلمانوں کی چار شادیوں اور بچوں کی تعداد کا مذاق اڑاتے نظر آتے ہیں۔

    مودی سرکار کا دعویٰ ہے کہ مسلمان چار شادیاں کرکے زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کررہے ہیں تاکہ ہندوؤں کے مقابلے اکثریت حاصل کر سکیں، مودی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران عوام کو ڈرانے کی بھونڈی کوشش کی کہ مسلمان ہندوؤں کے اثاثوں اور وسائل پر بھی قبضہ کرلیں گے۔

    مودی سرکار اپنے بیانیے کو سچ ثابت کرنے کیلئے 2001 سے 2011 کی مردم شماری کا استعمال کرتی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ مسلمانوں کی آبادی میں ہندوؤں کے مقابلے زیادہ اضافہ ہورہا ہے، حالیہ ریکارڈ اور سروے کے مطابق مودی سرکار کا دعویٰ جھوٹا ثابت ہوچکا ہے لیکن مودی اپنی روش برقرار رکھتے ہوئے پرانے اعداد و شمار کے استعمال کو ہی ترجیح دے رہا ہے۔

    بھارتی وزارت صحت کی جانب سے کروائے جانے والے 2019 سے 2020 کے نیشنل ہیلتھ سروے میں مسلمان بچوں کی پیدائش کی شرح میں واضح کمی دیکھنے میں آئی، بھارت کے سرکاری ریکارڈ کے مطابق مسلمان خواتین میں پیدائش کی شرح 4.41 سے 2.36 ہوگئی ہے۔

    2011 کی مردم شماری کے نتائج کے مطابق مسلمانوں کی آبادی 34 سے 172 ملین ہوئی جبکہ ہندو آبادی 303 ملین سے بڑھ کر 966 ملین تک پہنچ چکی تھی جو کہ اب ایک بلین سے بھی تجاوز کر چکی ہے، ورلڈ پاپولیشن ریویو کے مطابق 2022 میں بھارت کی آبادی 1.4 بلین تھی۔

    مودی سرکار مسلمانوں کیخلاف اپنے جھوٹے اور من گھڑت پروپیگنڈے کو فروغ دینے کیلئے بالی وڈ کا بھی استعمال کررہی ہے، حال ہی میں بالی وڈ فلم ‘ہمارے بارہ’ ریلیز کی گئی جو کہ مودی سرکار کے بیانیے کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے، فلم میں مسلمانوں اور دین اسلام کو توہین کا نشانہ بنایا گیا۔

    فلم میں مسلمانوں کیخلاف انتہائی ہتک آمیز ڈائیلاگ استعمال کیے گئے، بھارتی سپریم کورٹ میں فلم ہمارے بارہ کے خلاف شکایت جمع کروائی گئی جس کے نتیجے میں فلم کو ریلیز سے روک دیا گیا، سپریم کورٹ کے بعد بمبئی ہائی کورٹ نے بھی فلم کی ریلیز روک دی اور حکم دیا کہ فلم میں سے مسلمانوں کیخلاف تمام مواد کو نکالا جائے
    مسلمانوں کیخلاف مودی کے انتہاپسند بیانیے کی عکاسی کرتے ہوئے پہلے بھی کئی بالی وڈ فلمیں ریلیز کی جا چکی ہیں جن میں ستر حوریں اور کیریلا فائلز جیسی فلمیں شامل ہیں۔

    مودی سرکار کو اپنی انتہا پسند پالیسیوں کے باعث عالمی سطح پر شدید تنقید کا سامنا ہے لیکن مودی اپنی روش برقرار رکھتے ہوئے مسلمانوں کو مسلسل اپنے عتاب کا نشانہ بنانا رہا ہے، بی جے پی کی انتخابات میں اکثریت کھو دینا مودی کے انتہاپسند بیانیے کی ہار کا منہ بولتا ثبوت ہے لیکن کیا مودی اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرے گا؟۔

  • مودی سرکار کی حمایت گودی میڈیا کے گلے پڑگئی

    مودی سرکار کی حمایت گودی میڈیا کے گلے پڑگئی

    گودی میڈیا کی مودی حکومت کا ساتھ دے کر اپنے لیے مشکلات کی راہیں ہموار کرنے لگیں۔

    تفصیلات کے مطابق گزشتہ کئی عرصے سے مودی سرکار کا گودی میڈیا سرگرم ہے، گودی میڈیا کا وطیرہ بی جے پی اور مودی کی بے جا حمایت اور چاپلوسی کرنا ہے۔

    بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے حامی گودی میڈیا کا انحصار مودی حکومت کی آمدنی پر ہے لیکن بھارت کی چھ نیوز میڈیا کمپنیوں کی آمدنی گزشتہ ایک دھائی میں نہیں بڑھائی گئی۔

    2014 میں معروف تجزیہ کار رویش کمار نے گودی میڈیا کو عالمی دنیا سے متعارف کروایا تھا، دی وائر کے مطابق بھارتی میڈیا کارپوریٹ مفادات کی ملکیت ہے جبکہ اس کا ریونیو ماڈل صرف اشتہارات پر منحصر ہے
    مودی سرکار صحافیوں پر دباؤ ڈال کر اپنے مذموم سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے کام کر رہی ہے
    مودی کے بھارت میں کسی کو اختلاف رائے کی اجازت نہیں ہے۔

    گودی میڈیا مودی کے نظریے کا پرچار کرنے کے باوجود آمدنی میں باقی میڈیا ہاؤسز سے پیچھے ہے
    2014 میں ان کمپنیوں کی کل فروخت 6,325 کروڑ روپے تھی جو کہ 2023 میں 6,691 کروڑ روپے ہو گئی۔

    کئی بھارتی صحافیوں کا کہنا ہے کہ مودی حکومت نے گودی میڈیا کے طح شدہ فنڈز کو بھی پورا نہیں کیا
    مسلسل کاروبار میں کمی کے باعث بہت سے صحافی مودی سرکار سے مایوس دکھائی دیتے نظر آرہے ہیں۔

    اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا گودی میڈیا اپنے مفادات کے خلاف کام کر رہا ہے؟ دی وائر کے مطابق گودی میڈیا نے اپنے کاروبار میں فائدے سے زیادہ نقصان اٹھایا ہے، کم آمدنی اور زیادہ اخراجات گودی میڈیا کے نقصان کی بڑی وجوہات ہیں جس میں بھارتی معیشت کی خستہ حالی بھی شامل ہے۔

    دی وائر کے میڈیا نمائندوں نے گودی میڈیا سے کچھ سوالات کیے جیسے کہ چینلز کو مودی حکومت کی پشت پناہی کرنے اور اپوزیشن پر حملہ کرنے کے لیے کیا مراعات حاصل ہیں؟ میڈیا چینلز نے جواب دیا کہ بھارت کا ریونیو ماڈل ٹوٹا ہوا ہے جس کے باعث آمدنی بہت کم ہے۔

    دی وائر کا کہنا ہے کہ ایک اور وجہ یہ بھی بتائی گئی کہ میڈیا کے بڑے حصے گوتم اڈانی اور مکیش امبانی جیسے لوگوں کی ملکیت ہیں جو صرف اپنا کاروبار چمکانے میں مصروف ہیں، میڈیا چینلز کے نمائندوں نے بتایا کہ مودی کی جانب سے گودی میڈیا کو نفرت انگیز مواد نشر کرنے کا ٹاسک دیا گیا۔

    نمائندوں کا کہنا تھا کہ مودی کی قیادت میں کھلے عام انتہا پسندی اور تعصب کو فروغ دینے کے لیے ایک پلیٹ فارم مقرر کیا گیا جو گودی میڈیا چلا رہا ہے، دی وائر کے مطابق گودی میڈیا سے پوچھے گئے سوالوں کے جوابات سے مودی کا حقیقی مقصد سامنے آیا ہے۔

    دی وائر کا کہنا ہے کہ انتخابی نتائج کے بعد اب گودی میڈیا اپوزیشن کو نظر انداز نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس پر جھوٹے الزام عائد کرسکتا ہے، موجودہ دور بھارتی صحافت کا بدترین اور شرمناک دور ہے، انتہا پسند بی جے پی گودی میڈیا کے ذریعے بھارتی جمہوریت اور صحافت کی دھجیاں اڑنے میں مصروف ہے۔

  • اقتدار پر قابض ہوتے ہی مودی سرکار کی مسلم دشمنی سامنے آنے لگی

    اقتدار پر قابض ہوتے ہی مودی سرکار کی مسلم دشمنی سامنے آنے لگی

    مودی کی بھارتی اقلیتوں سے خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ جارحیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، مودی نے بھارت کو ہندوتوا ریاست میں تبدیل کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا۔

    تفصیلات کے مطابق 20 کروڑ مسلم آبادی والے ملک بھارت کی نئی مودی کابینہ میں ایک بھی مسلمان کو بھی شامل نہیں کیا گیا، مودی کی کابینہ میں71میں سے 61 وزرا کا تعلق بی جے پی اور باقی کا این ڈی اے اتحادیوں سے ہے مگر ایک بھی مسلم نمائندہ شامل نہیں ہے۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق مودی سرکار کی 71 رکنی کابینہ میں 30 وزرا اور 41 وزرائے مملکت شامل ہیں جس میں سے ایک بھی مسلمان نہیں، مودی کے اس ہتک آمیز رویے نے اس کی مسلمانوں سے نفرت کو دنیا پر عیاں کیا۔

    تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ بھارت کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ کابینہ میں کوئی بھی مسلمان شامل نہیں، 2014 اور 2019 کی مودی کابینہ میں محض ایک ایک مسلمان وزیر شامل تھا لیکن 2024 کی کابینہ میں ایک بھی شامل نہیں۔

    تجزیہ کاروں نے اس حوالے سے کہا کہ مضبوط اپوزیشن کے سامنے مودی کے متنازعہ سیاسی امور پر اتفاق رائے اس کی حکومت کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہوگا، مسلمانوں کو نظر انداز کرنے کا بی جے پی کا رویہ تنگ نظری کا ثبوت ہے اور یہ مسلمانوں کو پسماندہ رکھنا چاہتے ہیں۔

    مودی کے تیسری بار اقتدار میں آنے کے بعد کسی بھی مسلمان کو کابینہ میں شامل نہ کرکے یہ واضح پیغام دیا گیا ہے کہ اب بھارت میں آباد مسلمانوں کیلئے آنے والے ماہ و سال مزید مشکل ہو جائیں گے۔

    دنیا بھر میں انسانی حقوق کو لیکر واویلا کرنے والی تنظیموں کو بھارت میں مسلمانوں کیخلاف جاری ہتک آمیز رویے کا بھی نوٹس لیناچاہئے۔

  • دہلی چلو مارچ کو 100 دن مکمل ، مودی سرکار کی ہٹ دھرمی برقرار

    دہلی چلو مارچ کو 100 دن مکمل ، مودی سرکار کی ہٹ دھرمی برقرار

    دہلی چلومارچ کو 100 دن مکمل ہوگئے لیکن کسانوں اور مودی سرکارمیں ڈیڈلاک برقرار ہے، کسان زرعی ترقی کے لیے مینیمم سپورٹ پرائس کی قانونی ضمانت چاہتے ہیں۔

    کسانوں کے مطالبات تسلیم نہ ہونے پر دہلی چلو مارچ 100 ویں دن میں داخل ہو چکا ہے ، مودی سرکار نے ہر ممکن کوشش کے تحت کسانوں کو احتجاج سے روکنے اور ان پر دباؤ ڈالنے کی ناکام کوششیں کیں۔

    21 مئی کو لدھیانہ میں ایک ریلی کے دوران سمیوکت کسان مورچہ کی جانب سے مودی کا بائیکاٹ کرکے کالے جھنڈے لہرا کر بی جے پی کو سزا دینے کی کال دی گئی تھی۔

    کسان زرعی ترقی کے لیے مینیمم سپورٹ پرائس کی قانونی ضمانت چاہتے ہیں جس کے تحت کسان بنیادی اشیا ضرورت کم قیمت پر خرید سکیں
    مودی کی جانب سے کبھی کسانوں کے ویزے منسوخ کیے گئے تو کبھی تشدد کے ذریعے کسانوں کو ہراساں کیا گیا۔

    مودی سرکار کی جانب سے احتجاج کو بہانہ بنا کر بھارت کے سات اضلاع میں انٹرنیٹ کی سہولیات پر بھی مکمل پابندی عائد کی گئی تھی
    احتجاجی مظاہرین نے اس کیس کو سپریم کورٹ میں بھی اٹھایا مگر وہاں سے بھی متاثرین کو انصاف نہ مل سکا۔

    سپریم کورٹ کے جج جسٹس سوریہ کانت نے یہ کہہ کر کیس خارج کر دیا کہ ’’محض اخباری رپورٹس کی بنیاد پر درخواست دائر نہیں کی جا سکتی ‘‘۔

    کسان مزدور سنگھرش کمیٹی کے رہنما سرون سنگھ پانڈے نے کہا کہ’’مرکزی حکومت ہمیں پر امن احتجاج سے روک رہی ہے، ’’مرکزی حکومت پنجاب اور ہریانہ کی سرحدوں پر دہلی پولیس کی بھاری نفری تعینات کر کے کیا ثابت کرنا چاہتی ہے؟‘‘

    بھارتی ذرائع ابلاغ نے بھی مودی سرکار کی کسانوں سے متعلق جارحیت کا پول کھول دیادکن ہیرلڈ کی رپورٹ کے مطابق ’’کسانوں کو بغیر کسی وجہ کے قومی دارالحکومت میں داخل ہونے سے روکنا، ان کے ملک کے اندر آزادانہ طور پر سفر کرنے کے حق کی خلاف ورزی ہے‘‘

    نام نہاد جمہوریت مودی کے کھوکھلے دعوؤں کا منہ بولتا ثبوت ہے ، بھارتی حکومت اپنےکسان طبقے کوکچلنےمیں مصروف ہےاوران کےآزادی حق رائےکےآئینی حق کےخلاف ہرہتھکنڈا استعمال کر رہی ہے

  • بھارتی سرکاری ایجنسی مودی سرکار کی انتخابی مہم  کی آلہ کار بن گئی

    بھارتی سرکاری ایجنسی مودی سرکار کی انتخابی مہم کی آلہ کار بن گئی

    بھارتی سرکاری ایجنسی مودی سرکار کی انتخابی مہم کی آلہ کار بن گئی اور انتخابی نعروں کی تشہیر میں کروڑوں روپے خرچ کرنے لگیں۔

    ہندوتوا نظریہ بھارت میں چند حلقوں تک محدود سمجھا جاتا تھا لیکن آج یہ ملکی سیاست کامحوربن چکا ہے، بھارتی سیاست میں انتہا پسند ہندوؤں نےجامع حکمت عملی کے تحت بھارت کی سیکولر شناخت کو عملی طورپرختم کردیا۔

    بھارتی انتہاپسندوں کی یلغارنے ہرجائز اور ناجائز ہتھکنڈوں کا استعمال کرتے ہوئے مودی کے بھارتی حکومت پرقبضے کو سازگاربنایا۔

    ہندوتوانظریہ اوراقلیتوں کےدشمن مودی کی شخصی تشہیرمیں سب سےبڑاکردار الیکٹرانک اورسوشل میڈیا کا ہے، جس میں مودی کومسیحابناکرپیش کیا گیا۔

    بھارت کے تمام سرکاری اداروں پر اس وقت انتہا پسند ہندوؤں کا قبضہ ہوچکاہے اور یہ ادارے مودی کو الیکشن میں جتوانے کے لیے مکمل طور پر فعال ہیں۔

    اس حوالےسے حال ہی میں الجزیرہ کی ایک رپورٹ منظر عام پر آئی ہے جس کے مطابق ’’بھارتی سرکاری ایجنسی سنٹرل بیورو آف کمیونیکیشن بی جے پی کے انتخابی نعروں کی تشہیر میں کروڑوں روپے خرچ کر رہی ہے‘‘۔

    الجزیرہ رپورٹ میں کہا گیا کہ سی بی سی بی جےپی کے گوگل اشتہارات پر سب سے زیادہ خرچ کرنے والی ایجنسی بن گئی، بی جے پی نے نومبر کے تیسرے ہفتے میں’’مودی سرکار کی گارنٹی” نامی ٹیگ لائن کو گوگل پر نشر کیا گیا جس پر کروڑوں روپے لگائے گئے۔

    حال ہی میں نشر ہونے والے ایک اشتہار میں مودی کو بھگوان کا درجہ دے دیا گیا، درج کردہ شکایت کے مطابق ’’بی جےپی ان اشتہارات میں عوامی فنڈز کا غلط استعمال کر کے انتخابی قواعد کی خلاف ورزی کر رہی ہے”۔

    گوگل ایڈز ٹرانسپرنسی کےمطابق کانگریس نے 6 سالوں میں اتنے سیاسی اشتہارات نہیں چلوائے جتنے مودی سرکار نے 3 ماہ میں چلوائے ،

    رپورٹ کے مطابق مئی 2023میں مودی سرکارنے اپنی اشتہاری مہم کوتیزکرنےکےلیےسی بی سی کابجٹ 275فیصدبڑھاکر2بلین روپے سے تقریباً 7.5 بلین روپے کر دیا۔

    اپوزیشن جماعتوں نے بی جے پی پر بار ہا الزام لگایا ہے کہ وہ غیر جانبدار سرکاری ایجنسیوں کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کر رہی ہے
    عام آدمی پارٹی کے رکن اکشے مراٹھے نے کہا کہ’’مودی سرکار پورے بھارت کو ہندوتوا رجیم میں تبدیل کرنا چاہتی ہے‘‘۔

    مودی سرکار کی جانب سے الیکشن مہم کی مد میں سرکاری خزانے سے کروڑوں روپے خرچ کرنا اس بات کی واضح نشاندہی کرتا ہے کہ اکھنڈ بھارت کے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے مودی دوبارہ سے حکومت میں آنا چاہتا ہے۔

  • ہار کے خوف سے مودی سرکار کشمیر میں الیکشن سے فرار

    ہار کےخوف سے مودی سرکار کشمیر میں الیکشن سے فرار ہوگئی ، بی بی سی کی رپورٹ میں بتایا گیا بی جے پی کشمیر میں انتخابات میں حصہ نہیں لے رہی۔

    آرٹیکل370 کے تحت کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد مودی سرکار مقبوضہ کشمیر میں الیکشن سے فرار ہوگئی۔

    مودی سرکار نے کئی دہائیوں سےخون ریزی کےبعدکشمیرسےخصوصی حیثیت کا حق بھی چھین لیا، جس سے وادی میں حالات مزید کشیدہ ہوگئے لیکن ہار کے خوف اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے باعث بی جے پی مقبوضہ کشمیر میں انتخابات سے منہ چھپا رہی ہے۔

    بی بی سی کے مطابق بھارتی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بی جے پی کشمیر میں اس لیے انتخابات میں حصہ نہیں لے رہی کیونکہ بی جے پی کو اپنی ہار سے خوف ہے کیونکہ مقبوضہ کشمیر میں مضبوط مقامی سیاسی جماعتیں نیشنل کانفرنس اورپیپلزڈیموکریٹک پارٹی ہیں جوہندوقوم پرست بی جے پی کے مخالف ہیں۔

    بی بی سی کا کہنا ہے کہ دونوں جماعتوں نے جیت کے بعد کانگریس سے اتحاد کا فیصلہ کیا ہے،بی جےپی کشمیر میں جھوٹ اوردھوکےسےیہ ثابت کر رہی ہے کشمیر میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد حالات بہت بہتر ہوئے ہیں،کشمیری عوام کے مطابق حالات ویسے نہیں ہیں جیسا کہ ان کی تصویر کشی کی گئی ہے۔

    یہ پہلی بارہواہےکہ 1996کے بعد بی جے پی نے کشمیرمیں اپنا کوئی امیدوارکھڑانہیں کیا ، نیشنل کانفرنس پارٹی کے رکن عمرعبداللہ کےمطابق اگرکشمیری آرٹیکل 370کی منسوخی سےخوش ہوتےتوبی جےپی ضرورالیکشن میں کھڑی ہوتی۔

    بھارتی تجزیہ کارمسٹر باباکےمطابق ’’کشمیر دہلی کےبراہ راست کنٹرول میں رہا ہے اسکے باوجود کشمیری جمہوریت کوترجیح دیتےہیں‘‘۔

    مقبوضہ کشمیرمیں انتخابات سےبی جےپی کی فرارسےواضح طورپرظاہرہوتاہےکہ بی جے پی کے دعوےاوراصل حقائق کے درمیان بہت بڑا فرق ہے، مقبوضہ کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کا کہنا ہے کہ کشمیریوں نے انتہا پسند مودی سرکارکاامن پسند کشمیر کا جھوٹا دعویٰ مسترد کر دیا ہے۔

  • مسلم مخالف منشور کو مہرہ بنا کر مودی سرکار کی انتخابات میں جیت کی تیاری

    مسلم مخالف منشور کو مہرہ بنا کر مودی سرکار کی انتخابات میں جیت کی تیاری

    الجزیرہ میں شائع کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مسلم مخالف منشور کو مہرہ بنا کر مودی سرکار کی انتخابات میں جیت کی تیاری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق نام نہادجمہوریت بھارت میں گزشتہ کئی برسوں سے مسلمان اور دیگر اقلیتیں انتہا پسندی اور نفرت کا شکار ہیں ، مودی سرکار ہندوتوا نظریے کا پرچار کرتےہوئے ’’اکھنڈ بھارت ‘‘کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔

    بی جے پی اور مودی کے مسلم مخالف بیانیے پر انتخابات میں جیت کے حوالے سے الجزیرہ نے ایک رپورٹ شائع کی۔

    الجزیرہ کی رپورٹ میں کہا کہ ’مودی سرکار مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی مہم کے تحت انتہا پسندی کو فروغ دے رہی ہے، مودی سرکار جہاد کے لفظ کا استعمال کر کے بھارتی عوام کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکا رہی ہے۔‘‘

    رپورٹ میں کہنا تھا کہ مودی کی مسلم مخالف سوچ بھارت میں اقلیتوں کے خلاف جاری جسمانی تشدد کو ہوا دے رہی ہے جو بھارت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔

    حال ہی میں سماج وادی پارٹی کی ایک مقامی رہنما ماریہ عالم نے مسلمانوں سے کہا کہ "وہ ووٹ کا جہاد کریں”جس پر بی جے پی نے شدید نفرت کا اظہار کیا۔

    الجزیرہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے ایک انتخابی مہم کے دوران مودی نے مسلمانوں کو دراندازوں اور زیادہ بچے پیدا کرنے والوں سے تشبیہ دی مگر حقیقت میں مسلمان قومی آبادی کے 15 فیصد سے بھی کم رہ گئے ہیں۔

    اپوزیشن اور سول سوسائٹی کی نمائندگی میں تقریباً 20 ہزار شہریوں نے مودی سرکار کی طرف سے نفرت انگیز تقریر کے الزامات کے خلاف کارروائی کے لیے الیکشن کمیشن آف انڈیا کو خط لکھا۔

    گزشتہ ماہ اپریل میں بی جے پی نے سوشل میڈیا پر ایک مہم کی جھوٹی ویڈیو شائع کی جس میں متشدد اور لالچی مسلمان مرد حملہ آوروں کو قرون وسطیٰ کے ہندوستان پر حملہ کرنے اور اس کی دولت لوٹنے کی تصاویر دکھائی گئیں۔

    الجزیرہ کا کہنا تھا کہ مودی سرکار مختلف سازشی نظریات کے ذریعے یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ مسلمان بھارت پر کنٹرول حاصل کرلیں گے، ماضی میں مذہبی منافرت مودی کی فطرت کا حصہ رہی ہے۔

    بھارتی مصنف نیلنجن مکوپادھیائے نےالجزیرہ سےبات کہا کہ ’’بی جے پی اور مودی نے بھارتی جمہوریت کو بری طرح تباہ کیا ہے‘‘

    رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ بھارتی الیکشن کمیشن نے ابھی تک مودی کی انتہاپسند سرگرمیوں کے خلاف شکایات پر کوئی کارروائی نہیں کی، کانگریس کے رکن اسمبلی پرمود تیواری نے کہا کہ مودی نےوزیر اعظم کے عہدے کے وقار کو بدنام کیا ہےاور یہ الفاظ کبھی بھی ایک بھارتی وزیر اعظم کے الفاظ نہیں ہوسکتے ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق مودی کے نفرت انگیز ریمارکس نے مسلمانوں پر تشدد کے خطرات کو بڑھا دیا ہے، بی جے پی ہندو توا نظریے کے تحت کام کر رہی ہے جو کہ خود آر ایس ایس کے نظریے کی پیروکار جماعت ہے۔

    مودی سرکار کی دیگر اقلیتوں بالخصوص مسلم مخالف سرگرمیاں اور بیانات اس امر کی جانب واضح اشارہ کرتے ہیں کہ بی جے پی صرف ہندو انتہا پسند جماعت ہے۔

  • مودی کی نفرت انگیز تقاریر پر عالمی میڈیا کا شدید ردعمل

    مودی کی نفرت انگیز تقاریر پر عالمی میڈیا کا شدید ردعمل

    بھارتی وزیراعظم مودی کی نفرت انگیزتقاریرپر عالمی میڈیا نے شدید ردعمل کا اظہارکیا ، تقریرمیں مودی نے مسلمانوں کو براہ راست نشانے پر رکھتے ہوئے انہیں در انداز کہا۔

    مسلمانوں سے نفرت بی جےپی کے منشور کا لازمی جزو ہے، جسے الیکشن مہم میں مودی کی جانب سے بڑھ چڑھ کر استعمال کیا جاتا ہے۔

    بھارت میں حالیہ انتخابات کے پیش نظر مودی سرکار مسلمانوں کے خلاف زہر آلود تقریر کر کے اپنا ووٹ بینک بڑھانے میں مصروف ہیں تقریرمیں مودی نےمسلمانوں کو براہ راست نشانے پر رکھتے ہوئے انہیں در انداز کہا

    انتہاپسند مودی کے ایجنڈے پر کام کرنے والے بھارتی میڈیاکی جانب سے مودی کی نفرت انگیز تقاریر پر مجرمانہ خاموشی مگر عالمی میڈیا نے اسے آڑے ہاتھوں لیا۔

    الجزیرہ کی حالیہ رپورٹ کےمطابق مودی نے انتخابی مہم میں براہ راست مسلم مخالف بیانات دے کر ہندوتوا ایجنڈے کو فروغ دیا جو کہ بھارتی انتخابی ضابطوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

    الجزیرہ نے کہا کہ مودی سرکار کی جانب سے انتخابی بے ضابطگیوں کے باوجود بھارتی الیکشن کمیشن کی خاموشی لمحہ فکریہ ہے۔

    انتہائی مہم کے نام پر کی جانے والی تقریرمیں مودی نےمسلمانوں کو براہ راست نشانے پر رکھتے ہوئے انہیں در انداز کہا جن میں بنگلہ دیش اور میانمار کے پناہ گزین مسلمانوں کو بھی نشانہ بنایا۔

    مودی کی جانب سے پروپیگینڈاکرتےہوئےہندوانتہا پسندوں کو بھڑکایا گیا کہ مسلمانوں کی تعداد بھارت میں مسلسل بڑھ رہی ہے جو ہندوؤں کی آبادی کے لیے سنگین خطرہ ہے۔

    واشنگٹن پوسٹ کے مطابق حقیقتاً سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں مسلمانوں کی شرح پیدائش تمام کمیونٹیز میں سب سے زیادہ تیزی سے گر رہی ہے جو کہ گزشتہ تین دہائیوں میں تقریبا ًنصف رہ گئی ہے۔

    مودی سرکارمسلمانوں کی آبادی کےحوالے سےغلط اعداد و شمار پیش کرکے بھارت کو درپیش اصل مسائل کی جانب سے توجہ ہٹانا چاہتی ہے۔

    مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد بی جے پی اپنی ہندوقوم پرست پالیسیوں سے مذہبی منافرت کو بڑھا رہی ہے۔

    واشنگٹن پوسٹ نے کہا کہ جس سے عالمی سطح پر بھارت کے نام نہاد سیکولر ہونے کا دعوی جھوٹا ثابت ہو گیا، مودی کی انتخابی مہم میں مسلمانوں کی عبادت گاہوں کوآگ لگانا،ان کے گھروں کومسمارکرنااوران کی نسل کشی کیلئےکھلے عام مطالبات سرفہرست ہیں۔

    دی وائر کے مطابق بی جے پی کے دس سالہ دور حکومت کےدوران بھارت میں اسلاموفوبیا اور مہلک فرقہ وارانہ تصادم کو ہوا ملی ہے۔

    امریکامیں مسلم شہری حقوق کی تنظیم کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنزنےبھی مودی کی مسلم مخالف تقریر کی بھرپور مذمت کی۔

    ایگزیکٹوڈائریکٹر،کونسل ان امریکن اسلامک ریلیشنز کا کہنا تھا کہ مودی کےبیانات انتہائی غیرذمہ دارانہ ہیں لیکن انتہا پسند تنظیم کےسربراہ ہونے کی حیثیت سےبالکل بھی حیران کن نہیں، مودی کی انتہاپسندی نہ صرف مسلمانوں بلکہ خطےکیلئےبڑاخطرہ ہے، جس پر بین الاقوامی سطح پر فیصلہ کن کارروائی کی ضرورت ہے۔

  • مودی سرکار کا بھارت میں صاف اور شفاف الیکشن کا دعویٰ جھوٹا قرار

    مودی سرکار کا بھارت میں صاف اور شفاف الیکشن کا دعویٰ جھوٹا قرار

    مودی سرکار کا بھارت میں صاف اور شفاف الیکشن کا دعویٰ جھوٹا قرار ہوگیا، بی جے پی نے بھارت پر مکمل کنٹرول حاصل کرتے ہوئے ریاستی ڈھانچے کو تباہ کردیا ہے۔

    بھارت میں عام انتخابات کا آغازہوچکا ہے مگر یہ انتخابات دنیا کی سب سےبڑی جمہوریت کہلائے جانے والے بھارت کی تاریخ کے متنازعہ ترین انتخابات ہوں گے۔

    انتہا پسند ہندو جماعت بی جے پی نے بھارت پر مکمل کنٹرول حاصل کرتے ہوئے ریاستی ڈھانچے کو تباہ کردیا ہے ، اقتدار کی ہوس نے مودی کو اندھا کر رکھا ہے اور وہ ہر نا جائز ہتھکنڈہ اپناتے ہوئے مخالفین کو کچلنے میں مصروف ہے۔

    مودی کے عتاب کا شکار بھارتی اداروں سے لے کر سیاسی مخالفین اور فلم انڈسٹری سے لے کر تعلیمی ادارے غرض یہ کہ بھارت میں رہنے والے تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد مودی کے نشانے پر ہیں۔

    بھارت کے عام انتخابات میں جیتنے کے لیے مودی کے ہتھکنڈوں میں مخالفین کوکچلنا اور سیاسی مخالفین کی گرفتاریاں اور ان کے گھروں پر چھاپے، الیکشن کمشنر کی ردوبدل، مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر، مذہبی جذبات پر کو بھڑکانا، میڈیا کو اپنے حق میں استعمال کرنا اور انتخابات میں جیتنے کے لیے کرپشن کے زریعے انتخابی مہم کو فنڈنگ کرنا شامل ہیں۔

    مختلف غیر قانونی کارروائیوں کے ذریعے مودی سرکار نے آنے والے انتخابات کو متنازعہ بنا دیا ہے۔

    قومی انتخابات سے قبل دہلی کے وزیر اعلیٰ اورعام آدمی پارٹی کے رکن اروند کیجریوال کو کرپشن کے جھوٹے الزام میں گرفتارکیا گیا جبکہ پارٹی کے باقی رہنما بھی مختلف مقدمات میں پہلے سے حراست میں ہیں۔

    مودی کےحکم کےتحت انفورسمنٹ ڈویژن اورسی بی آئی کی جانب سے اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈران کے گھروں پر ریڈ کئے۔

    الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق مودی سرکار الیکشن میں جیتنے کے لیے ہر حربا استعمال کر رہی ہے اور سوشل میڈیا کا غیرقانونی استعمال کر کے بھارتی عوام کو گمراہ کرنے کے لیے مختلف وڈیوز اور میسیجز پھیلا رہی ہے۔

    مودی کی من مانیوں پر الیکشن کمیشن کی خاموشی پر اپوزیشن پارٹیوں نے سوالات اٹھائے، الیکشن سےقبل الیکشن کمشنرارون گوئل کا استعفیٰ اور متنازعہ انتخابی عمل کےدرمیان ریٹائرڈبیوروکریٹس گیانش کمار اور سکھبیر سنگھ سندھو کو الیکشن کمشنر مقرر کرنا بی جے پی کی ساکھ پر سوالیہ نشان ہے۔

    مودی کے اقتدار میں آنےکےبعدسےبھارتی میڈیا اب گودی میڈیا بن چکا ہے، مودی سرکار ایک جانب دنیاکی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ کر رہی ہے تو دوسری جانب انتخابات سے قبل ہی جیت کا اعلان کرتے نظر آتی ہے۔

    جمہوریت کاتقاضہ ہےکہ مخالفین کےمابین منصفانہ اور برابری کی بنیادپرمقابلہ اور تمام شہریوں کے ساتھ مساوی سلوک ہو لیکن مودی کا بھارت دونوں خصوصیات سے محروم ہے۔

    بھارتی ووٹرز کے مطابق مودی کے زیر اقتدار کرپشن اور دولت کی غیر مساوی تقسیم میں سنگین حد تک اضافہ ہوا ہے، بھارت 200 ملین سے زائد مسلمانوں کا گھر ہے لیکن مودی انہیں نظر انداز کرتے ہوئے محض ہندو انتہا پسندوں کو ترجیح دیتا ہے جن کی جانب سے مسلمانوں کے امتیازی سلوک اور تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔

    بی جے پی کو سیاسی فنڈنگ کا 58 فیصد حصہ بھارت کے امرا سے ہونے کا انکشاف، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی تنزلی ارب پتی افراد کی مرہون منت ہے۔

    2023 کے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس کی رپورٹ کے مطابق بھارت کی رینکنگ 180 ممالک میں سے 161 نمبر تک گر گئی، فروری 2020 میں مسلم مخالف دہلی فسادات کی رپورٹنگ بھی بھارتی نیوز چینل پر بند کر دی گئی تھی، نہ صرف اپنے نیوز چینلز بلکہ سوشل میڈیا ہینڈلرز اور یوٹیوبرز بھی مودی سرکار کے ریڈار پر آگئے ہیں۔

    بھارتی انفورسمنٹ ڈائریکٹریٹ مودی سرکار کے کہنے پر کانگرس لیڈروں کی رہائش گاہوں پر چھاپے مار کر انہیں بی جے پی میں شامل ہونے کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے ، 2017 میں جو مودی سرکار نے الیکٹورل بونڈ فنڈز قائم کیے تھے اور جسکا تقریبا 60فیصدپیسہ کھایا۔

    22 جنوری 2024 کو ایودھیہ میں صدیوں پرانی بابری مسجد کے مقدس مقام کو مسخ کر کے رام مندر کا افتتاح کیا گیا، رام مندر کی ابتدائی تقریب کو مودی کی الیکشن کیمپین کے طور پر استعمال کیا گیا۔

    اپنے دس سالہ دور اقتدار میں مودی سرکار نے دیگر اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو نشانے پر رکھتے ہوئے اپنی سیاست کو پروان چڑھایا ہے، بھارتی مسلمانوں کو ہر طرح سے زدوکوب کیا گیا جبکہ ان کے گھروں، کاروباری مراکز اور عبادت گاہوں کو بھی غیر قانونی تجاوزات کی آڑ میں مسمار کر دیا گیا۔

    رواں سال بھارت میں مودی سرکار کی جانب سے سی اے اے قانون میں بھی ترمیم کر دی گئی جس کے بعد بھارتی مسلمانوں سے ان کی شہریت کا حق بھی چھین لیا گیا تھا، ان تمام واقعات سے موجودہ انتخابات کے شفاف ہونے پر سوالیہ نشان ہیں۔

    ناقص انتظامات اوررشوت کےالزامات ،ڈپٹی ڈائریکٹر پاسپورٹ آفس لاہور فیض الحسن معطل
    اسلام آباد:وزیر داخلہ کے حکم پر اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد نسیم کو بھی معطل کر دیا گیا،نوٹیفکیشن جاری
    پاسپورٹ آفس لاہور زونل میں کرپشن،ایجنٹ مافیا،دفاتری نظام شدیدمتاثرپایا گیا،نوٹی فکیشن
    اسلام آباد:افسران کے خلاف الزامات سے متعلق چارج شیٹ بھی جاری کی جائیگی،نوٹیفکیش

  • مودی سرکار کی اگنی پتھ اسکیم پر کانگریس کی کڑی تنقید

    مودی سرکار کی اگنی پتھ اسکیم پر کانگریس کی کڑی تنقید

    مودی سرکار کی متعارف کرائی گئی اگنی پتھ اسکیم پر کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا اگنی پتھ اسکیم ان بہادر نوجوانوں کی توہین ہے۔

    مودی نے اقتدار سے چمٹے رہنے کیلئے بھارت کے عسکری ادارے کو بھی نہ بخشا، اپنےمذموم سیاسی ایجنڈےکی تکمیل کیلئےمودی سرکار فوج اور اس کے لئے مختص وسائل پر بھی قابض ہو گئی۔

    اہم ملکی ادارں کے علاوہ بھارتی عسکری ادارہ بھی مودی سرکار کے نشانے پر آگیا، جس پر کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نےمودی سرکار کی جانب سے بھارتی فوج کیلئے متعارف کرائی گئی اگنی پتھ اسکیم کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

    راہول گاندھی نے کہا کہ مودی کی جانب سے اسکیم زبردستی مسلط کی گئی، مسلح افواج میں بھرتی ہونے کیلئے اگنی پتھ سکیم ان بہادر نوجوانوں کی توہین ہے جو ملک کے دفاع کا خواب دیکھتے ہیں۔

    ایکس پراسکیم کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے راہول گاندھی کا کہنا تھا کہ یہ سب کچھ بھارتی فوج نہیں بلکہ مودی سرکار کا گھٹیا منصوبہ ہے۔

    گانگریس رہنماؤں نے اس سکیم کی سختی سے مخالف کرتے ہوئے کہا کہ حکومت بنتے ہی کانگریس اگنی پتھ سکیم کو ختم کرتے ہوئے افواج کو معاشی سماجی تحفظ کی ضمانت دے گی۔

    گزشتہ ماہ بھی راہول گاندھی نے اسکیم کی مخالفت کرتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ فوجیوں کی پنشن کیلئے مختص رقم اڈانی ڈیفنس کو جاتی ہے۔

    کانگریس رہنما کا کہنا تھا کہ اڈانی گروپ اگنی پتھ کے ذریعے حاصل ہونے والی رقم سے امریکی اور اسرائیلی کمپنیوں کے ساتھ شراکت داری کرے گا۔