Tag: مور

  • تھرپارکر میں مور رانی کھیت بیماری سے مرنے لگے

    تھرپارکر میں مور رانی کھیت بیماری سے مرنے لگے

    تھرپارکر : مور رانی کھیت بیماری سے مرنے لگے، بیمارمور پہلے بینائی سے محروم پھر کھانا پینا چھوڑ دیتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق شدید گرمی اور حبس سے موروں کی اموات تھرپارکر کے مختلف علاقوں میں شدید گرمی اور حبس نے نہ صرف انسانوں بلکہ چرند پرند کے لیے بھی مشکلات پیدا کر دی ہیں۔

    علاقے کے مکینوں نے بتایا کہ شدید گرمی کی وجہ سے رانی کھیت بیماری بھی پھیل گئی ہے، ضلع کے مختلف علاقوں میں پانی اور خوراک کی قلت کی وجہ سے مور شدید متاثر ہو رہے ہیں، جس کے نتیجے میں پندرہ مور مر چکے ہیں اور کئی بے حال ہیں۔

    اس بیماری کے پہلے مرحلے میں مور اندھے ہو جاتے ہیں اور کھانا پینا چھوڑ دیتے ہیں، موروں کو گھروں میں بٹھا کر زیادہ پانی چھڑکنے سے ان کی حالت کچھ بہتر ہو جاتی ہے اور وہ نرم غذا بھی کھا لیتے ہیں۔

    مقامی لوگوں کا مطالبہ ہے کہ محکمہ جنگلی حیات گاؤں کی سطح پر کیمپس لگا کر انہیں فوری طبی امداد فراہم کرے۔

    وائلڈ لائف کے ڈپٹی ڈائریکٹر میر اعجاز تالپور کا کہنا تھا کہ تھر میں حالیہ شدید گرمی اور حبس کے باعث موروں کی حالت خراب ہو رہی ہے، ضلع کے مختلف 2300 دیہات میں مور موجود ہیں جہاں پانی اور خوراک کی قلت پیدا ہو چکی ہے اور کچھ مور رانی کھیت بیماری کا شکار ہوئے ہیں۔

    گزشتہ دو ماہ میں 11 موروں کی ہلاکت ہوئی ہے، ڈپٹی ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ ان کی ٹیمیں اس وقت تھرپارکر کے مختلف علاقوں میں مقامی رہائشیوں کی مدد سے موروں کو بچانے کے لیے کام کر رہی ہیں۔ "الحمداللہ اب بارشیں شروع ہوئی ہیں تو اب گرمی کا زور ٹوٹ جائے گا اور موروں کی زندگیوں کو درپیش خطرات سے بچایا جا سکے گا۔

    سیزن وائز ہر سال جون اور جولائی میں ایسی گرمی کی وجہ سے موروں کی ہلاکتیں ہوتی ہیں جو آہستہ آہستہ بارشیں ہونے سے کنٹرول ہو جاتی ہیں۔

    میر اعجاز تالپور نے مزید کہا کے تھرپارکر کے باشندے اور محکمہ جنگلی حیات کے اہلکار مشترکہ کوششیں کر رہے ہیں تاکہ موروں کو شدید گرمی اور رانی کھیت بیماری سے بچایا جا سکے، امید ہے کہ بارشوں کے آغاز سے حالات بہتر ہو جائیں گے اور موروں کی اموات میں کمی آئے گی۔

  • خونخوار چیتا اور مور آمنے سامنے، پھر کیا ہوا؟

    خونخوار چیتا اور مور آمنے سامنے، پھر کیا ہوا؟

    جنگل کا بادشاہ شیر عموماً جانوروں کا شکار کرتے ہیں لیکن سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں شیر نے مور پر حملہ کرنے کی ناکام کوشش کی۔

    سماجی رابطے کی مختلف ویب سائٹس پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ چیتے نے گھات لگا کر دبے پاؤں مور کو اپنا نوالہ بنانے کی کوشش کی، شیر کی جانب سے پرندے کو اپنا شکار بنانے کی یہ انوکھی ویڈیو ہے۔

    ماہرین کا ماننا ہے کہ شیروں کے جبڑوں میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ وہ شکار کی گردن منٹوں میں توڑ سکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ قد آور جانورں پر حملہ کرنے سے بھی نہیں کتراتے ہیں۔

    مذکورہ ویڈیو بھارتی محکمہ جنگلی حیات کے افسر پروین کسوان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر شیئر کی جو بعد ازاں یوٹیوب سمیت دیگر سوشل میڈیا سائٹس پر دیکھی گئی۔

    پروین کسوان جنگلی حیات سے متعلق اس طرح کی انوکھی اور دلچسپ ویڈیوز شیئر کرتے رہتے ہیں۔

  • آنکھیں ہیں، لیکن یہ دیکھتے کہاں ہیں!

    آنکھیں ہیں، لیکن یہ دیکھتے کہاں ہیں!

    سناٹا اور اتنا گہرا۔ ہاں ایسا بھی ہوتا ہے، ایسی جگہ جہاں انسانوں پر انسان خدا ہیں۔

    پالنے والی تو رب کی ذات ہے، ہاں بس وہی، لیکن جہاں ارباب ہوں وہاں کیا ہوتا ہوگا، میں نہیں جانتا، جانتا تو وہی ہے جس پر بیت رہی ہو ہم تو بس سفید صفحات کو اپنے من کی سیاہی میں ڈبوتے رہتے ہیں۔

    یاد آیا ایک دن میں نے اپنے استاد سے جو ہمیں تختی پر لکھنا سکھاتے تھے کہا، سَر، سیاہی ختم ہوگئی ہے اب میں تختی کیسے لکھوں؟ ہاں یاد ہے مجھے، مسکرائے تھے اور کہا تھا، بیٹا سیاہی کا مقدر ختم ہوجانا ہی ہے، لکھنا ہے تو روشنائی سے لکھو کہ جسے زوال نہیں۔
    وقت کی دھول سَر میں ڈالتا، در بہ در گھومتا پھرتا میں ایک اور جگہ پہنچا، جہاں میں نے سنا، چراغ تو بجھائے جاسکتے ہیں، پھونکوں سے نہ بجھ سکیں تو زور آور ہوائیں انہیں گل کردیتی ہیں لیکن نور ہاں نور کو کوئی نہیں بجھا سکتا، ہاں کوئی بھی نہیں کہ زوال بس تاریکی کا نصیبا ہے۔

    ہم سب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں سب کیوں؟ میں، ہاں میں ہوں، تھر کی اس حالت کا ذمے دار۔ اور کوئی نہیں۔ میں پچھلے پچیس برس سے تھر جاتا رہتا ہوں میں نے ان تھریوں کا نمک کھایا ہے جن کے پاس نمک خریدنے کے بھی پیسے نہیں تھے!

    ہاں میں نے ان کا نمک کھایا ہے، ان کے گیت سنے ہیں، انہوں نے اپنے حصے کا پانی مجھے پلایا، خود پیاسے رہے اور میری پیاس بجھائی ہے، میں شہروں کے اذیت ناک خون آلود ماحول سے فرار ہو کر وہاں جاتا رہا ہوں اور وہ مجھے آسودہ اور تازہ دم کر کے واپس بھیجتے رہے ہیں۔ میں جاتا بھی رہا اور اس اصرار کے ساتھ کہ میں واپس آؤں گا، وہ خندہ پیشانی اور کشادہ دلی سے اپنے بازو وا کیے رہے۔ ہاں ہمیشہ ایسا ہی ہوا۔

    ان کے احسانات کی فہرست بہت طویل ہے، میں کیا کیا لکھوں لیکن کبھی انہوں نے مجھ سے کوئی تقاضا نہیں کیا، کچھ بھی تو نہیں مانگا انہوں نے، کبھی نہیں، کبھی بھی تو نہیں۔

    تپتی ریت کے جہنم میں انہوں نے میرے لیے جنت بنائی ہوئی تھی۔ کالی، مگر تاروں بھری رات میں وہ پیتل کی تھالی اور خالی مٹکے کو ساز بناتے اور گیت گاتے، سوز سے تو وہ خود بنے ہوئے ہیں، ہجر و فراق کی آگ میں جلتے ہوئے گیت، محبوب اور برسات کو رجھانے والے گیت اور نہ جانے کیا کیا گیت، دل میں اتر جانے والے گیت، اکھیوں کو بھگو دینے والے گیت۔

    سوتے سمے، وہ میرے لیے دودھ بھرا پیتل کا کٹورا لاتے اور پیار سے کہتے، سائیں ہمارا سب کچھ آپ کے لیے حاضر ہے، لیکن سائیں، ہمارے پاس یہی کچھ ہے، بس قبول کریں۔ میرا سن کر کوسں دور سے کوئی تھری آتا۔ بس سائیں آپ کا سنا تو ملنے آگیا، ہاں ننگے پاؤں
    آگیا، آپ حاضری قبول کریں اور جاتے سمے وہ ہاتھ جوڑ کر کہتا۔ سائیں حاضری قبول! اتنی عاجزی تو میں نے کہیں اور نہیں دیکھی۔ میں ان کی آنکھوں میں نمی اس وقت بھی دیکھتا تو تھا، لیکن میں سوچتا کہ ان کی آنکھیں ریت کی چنگاریاں، جو تھر میں اڑتی رہتی ہیں، کی وجہ سے نَم ہوں گی۔ بینا دیکھتے ہیں اور میں کہاں ہوں بینا۔

    ہاں خالق نے ہی تو کہا ہے کہ ان کی آنکھیں ہیں لیکن یہ دیکھتے کہاں ہیں، ان کے کان تو ہیں لیکن سماعت سے محروم۔ ہندو مسلم ہاں دونوں ہی میرے دوست ہیں، ایک ہی محلے میں رہنے والے کوئی فریق نہیں جن کی جھونپڑیاں، جنہیں وہ گھاس پھونس سے بناتے اور انہیں چونرا کہتے ہیں، ساتھ ساتھ تھیں اور تھیں کیا اب بھی ہیں۔ کوئی ایک دوسرے کو برا نہیں کہتا۔ عید دیوالی ساتھ ساتھ، ہاں ایسا ہی ہے۔

    عیدِ قرباں قریب تھی، جب میں تھر میں تھا، میں نے اپنے دوست جان محمد، جسے ہم جانو کہتے ہیں کے چونرے میں مقیم تھا۔ میں نے اس کے والد، جنہیں میرے بچے دادا کہتے ہیں، سے پوچھا بابا سائیں عید آگئی ہے، آپ کس جانور کی قربانی کریں گے؟

    تُو بڑا چَریا ہے، دیکھ نہیں رہا کتنی بکریاں اور بکرے گھوم رہے ہیں۔ بس کر لیں گے قربانی میں نے کہا۔ بابا سائیں گائے کی قربانی کیوں نہیں؟ پریشان ہوکر ادھر ادھر دیکھا اور قریب آکر رازدارانہ انداز میں کہا دیکھو! ہم یہاں گائے کی قربانی نہیں کرتے، میں نے پوچھا کیوں؟ تو کہا۔ اس لیے کہ ہندو ہمارے بھائی ہیں اور ان کے لیے گائے مقدس ہے۔ ہاں گؤ ماتا کہتے ہیں وہ اسے، اس لیے ہم گائے کی قربانی نہیں کرتے۔ حیرت سے پوچھا، کیا آپ نہیں کرتے یا۔۔۔ ابھی میرا سوال ادھورا تھا کہ بابا سائیں بولے، پورے تھر میں ایسا ہی ہوتا ہے اور اب سے نہیں سدا سے ایسا ہی ہے۔

    رواداری کسے کہتے ہیں یہ مجھے اس دن معلوم ہوا تھا، لچھمن داس اور ماما شیرو، دین محمد اور رام لعل، دُرمحمد اور کیلاش اگر ساتھ بیٹھے کھانا کھا رہے ہوں، ایک ہی کٹورے سے پانی پی رہے ہوں، ایک سا لباس پہنے ہوئے ہوں، تو کون پہچان پائے گا کہ ہندو کون ہے اور مسلم کون جب شادی بیاہ میں، دکھ سکھ میں، رونے ہنسنے میں سب ایک جیسے ہوں تو کون پہچان پائے گا کہ کون ہندو ہے اور کون مسلم، اور پھر جب درد سانجھا اور بھوک ایک جیسی ہو تو پھر رہ جاتا ہے بس انسان اور درد۔

    تھر میں ایسی ہی رواداری ہے، ہاں کبھی کبھی سننے میں ضرور آتا ہے کہ کوئی ساہوکار وڈیرا کسی معصوم کو روند دیتا ہے لیکن اس مظلوم کے درد کا مداوا نہ بھی کرسکتے ہوں، اس کے ساتھ کھڑے ضرور ہوتے ہیں سب۔ کبھی اس کی سنگت نہیں چھوڑتے کہ بس یہی کچھ وہ کرسکتے ہیں۔

    بھوک، پیاس، دکھ درد تھریوں کے ساتھ ہی رہتے ہیں لیکن وہ مجسم صبر یہ یقین بھی رکھتے ہیں کہ ابر برسے گا اور بھوک پیاس کو صحرا میں دفن کر دے گا اور جب برسات ہو تو پھر بے خودی کو سراپا دیکھا جا سکتا ہے۔ تھر میں تھری بے خود ہوجاتے اور مست ملنگ ناچتے ہیں کہ برسات وہاں زندگی کی علامت جو ہے لیکن برسات بھی تو ساتھ نہیں دیتی ان کا، بس برسی تو برسی، نہیں تو نہیں۔ قناعت کیا ہوتی ہے، ہاں یہ آپ تھر میں دیکھ سکتے ہیں، میں نے اگر کبھی کسی کا قصیدہ پڑھا ہے تو وہ بس تھر ہی کے باسی ہیں۔

    اخلاص، محبت، اپنائیت کے پُتلے، لیکن کیا بس یہی کافی تھا جو میں نے کیا؟ ان کی بھوک کا مذاق اڑایا، میں نے مرتا چھوڑ دیا انہیں، موت تو سدا سے رقص کناں ہے وہاں، ہمیں ہوش کیوں نہیں آیا، ہاں اس لیے جس تن لاگے وہ تن جانے۔ ہمیں کیا مرتے ہیں تو مریں۔ بھوک سے کہاں مرے وہ، وہ تو نمونیے اور بخار سے مرے ہیں اور سب جانتے ہیں کہ یہ امراض لاعلاج ہیں، کوئی دوا ہی نہیں دریافت ہوئی اس مرض کی۔ ان کے بچے مریں، ان کے مویشی مریں، ان کے مور مریں اور وہ خود مرجائیں، ہمیں کیا جناب۔

    دل کو ہے درپیش پھر سے ضبط کا اک امتحاں
    آنسوﺅں نے پھر پکڑلی ہے، رواں ہونے کی ضد

    مصنف: عبداللطیف ابُوشامل