Tag: مورخ

  • سید سلیمان ندویؒ: مشہور عالمِ دین اور اہم کتب کے مصنف کا تذکرہ

    سید سلیمان ندویؒ: مشہور عالمِ دین اور اہم کتب کے مصنف کا تذکرہ

    برصغیر میں علم و فضل، تدبر اور اپنی بصیرت میں ممتاز و یگانہ شخصیات میں سید سلیمان ندویؒ کا نام سرِ فہرست ہے۔ یہی ہیں بلکہ عالمِ اسلام میں سید سلیمان ندویؒ کو ان کی مذہبی فکر، دینی خدمات اور قابلیت کی وجہ سے نہایت عزت و احترام سے یاد کیا جاتا ہے۔

    یہ ایک اتفاق ہے کہ آج 22 نومبر کو دنیا کے افق پر نمودار ہونے والا یہ آفتاب اس مٹی کو علم و حکمت کی کرنوں سے ضیا بار کر کے اسی روز ہمیشہ کے لیے ڈوب گیا. اردو ادب کے نام ور سیرت نگار، عالم، مؤرخ اور قابلِ قدر کتابوں کے مصنف کا ایک بڑا کارنامہ سیرتُ النّبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس کاشانۂ علم و فضل ان کا احسان مند رہے گا۔

    ان کے استاد علامہ شبلی نعمانی تھے جنھوں نے سیرت کی پہلی دو جلدیں لکھیں، مگر زندگی نے وفا نہ کی اور 1914 کو ان کے انتقال کے بعد باقی چار جلدیں سید سلیمان ندوی نے مکمل کیں۔ یہ ایک ایسا کام تھا جس میں تحقیق اور مہارت کی ضرورت تھی جسے بلاشبہہ انھوں نے خوبی سے نبھایا۔ دارُالمصنفین، اعظم گڑھ کا قیام عمل میں لائے اور ایک ماہ نامہ معارف کے نام سے شروع کیا۔

    صوبہ بہار کے ایک گاؤں میں 1884 کو پیدا ہونے والے سید سلیمان ندوی نے 1901 میں دارالعلوم ندوۃ العلما میں داخلہ لیا جہان انھیں علامہ شبلی نعمانی کی رفاقت نصیب ہوئی۔ ایک قابل اور نہایت شفیق استاد کی صحبت نے ان کی شخصیت کی تعمیر اور صلاحیتوں کو اجالنے میں اہم کردار ادا کیا۔ استاد کی وفات کے بعد وہ ان کے قائم کردہ ادارے ندوۃ المصنّفین سے وابستہ ہو گئے اور اسی دوران سیرتُ النبی صلی اللہ علیہ وسلم مکمل کی۔

    تقسیمِ ہند کے بعد سلیمان ندوی نے جون 1950 میں پاکستان آنے کا فیصلہ کیا۔ ہجرت کے بعد وطنِ عزیز کے لیے آپ نے جو کارنامہ انجام دیا وہ پاکستان کے دستور کا اسلامی خطوط پر ڈھالنا تھا۔ اس حوالے سے مختلف مکاتبِ فکر کے علما کے ساتھ مل کر آپ نے دستور کے راہ نما اصول مرتب کیے۔ پاکستان آمد کے بعد سید سلیمان ندوی زیادہ عرصہ زندہ نہ رہے اور 1953 میں کراچی میں وفات پائی۔

    آپ کی نماز جنازہ مفتی محمد شفیع نے پڑھائی تھی۔ ان کی تدفین اسلامیہ کالج کے احاطے میں کی گئی۔ ان کی تصانیف میں عرب و ہند کے تعلقات، یادِ رفتگاں، سیرِ افغانستان، حیاتِ شبلی وغیرہ شامل ہیں۔

  • آج مفسرِ قرآن اورمورخ محمد جریرطبری کا یوم وفات ہے

    آج مفسرِ قرآن اورمورخ محمد جریرطبری کا یوم وفات ہے

    آج مشہورمسلم مفسراورمورخ ابو جعفر محمد بن جریربن یزیر الطبری کا یومِ وفات ہے، آپ نے چھیاسی سال کی طویل عمر پائی اور تمام عمر دین کی خدمت میں مشغول رہے۔

    محمد بن جریر بن یزید الطبری الاملی ابو جعفر کی پیدائش طبرستان کے علاقہ آمل میں خلیفہ عباسی المعتصم باللہ کے عہد خلافت میں 224ھ/ 838ءمیں ہوئی۔ آمل دریائے ہراز کے ساحل پر واقع ہے۔

    روایت مشہور ہے کہ ایک رات آپ کے والد نےخواب میں دیکھا کہ ابن جریر ،نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دونوں مبارک ہاتھوں کے درمیان کھڑے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ و علیہ وسلم کے ہاتھ مبارک میں کنکریاں ہیں جنھیں ابن جریر ایک ایک اٹھا کر پھینکتے جاتے ہیں۔ جب خواب کی تعبیر اس وقت کے علماء کرام سے معلوم کی گئی تو انہوں نے کہا کہ ابن جریر بڑے ہوکر دین کی خدمت سر انجام دیں گے۔ اور یہ خواب گویا آپ کے تحصیل علم کا ایک سبب بن گیا۔

    آپ نے قرآن مجید سات سال کی عمر میں حفظ کر لیا۔ آٹھ سال کے ہوئے تو امامت جیسا اہم فریضہ انجام دینے لگے۔ نو سال کی عمر میں حدیث لکھنا شروع کیا اور جب سولہ سال کی عمر کو پہنچے تو امام احمد بن حنبل کی زیارت کا شوق پیدا ہوا۔ چنانچہ آپ نے بغداد کا سفر کیا۔ اس دوران آپ کے اخراجات آپ کے والد ادا کرتے تھے۔ والد محترم نے انتقال کے وقت آپ کے لیے ایک زمین کا ٹکرا چھوڑا تھا جس سے آپ گزر بسر کیا کرتے تھے۔

    ابتدا میں طبری نے رے میں علم حاصل کیا پھر کوفہ کا رخ کیا۔ وہاں محمد بن بشار، اسماعیل بن محمد السدی، ہناد بن السری، محمد بن عبدالاعلیٰ الصنعانی، احمد بن منیع، یعقوب بن ابراہیم الدوقی اور محمد بن العلاء الھمدانی سے شرف تلمذ حاصل کیا۔ اس کے بعد شام اور بیروت گئے۔

    وہاں عباس بن ولید البیرونی کی صحبت میں قرآن مجید کی مختلف روایات قرات کی مشق کی، پھر مصر روانہ ہوئے اور درمیان میں ایک بار پھر شام جانا ہوا ور پھر مصر واپسی ہوئی۔ وہاں فقہ شافعی کی تحصیل کی۔ آپ کے شیوخ میں اسماعیل بن ربیع بن سلیمان المرادی، اسماعیل بن ابراہیم المزنی اور محمد بن عبدالحکم مشہور ہیں۔ مصر سے پھر آپ بغداد لوٹے اور تاوفات آپ پھر بغداد میں ہی رہے۔

    طبری کی تصانیف میں سب سے زیادہ اہم اور مقبول ان کی تفسیر جامع البيان عن تأويل آي القرآن اور تاریخ الرسل و الملوک ہیں۔ اول الذکر تفسیر طبری اور آخر الذکر تاریخ طبری کے نام سے مشہور ہیں۔ طبری فقہ شافعی کے پیروکار تھے، لیکن بعد میں ان کے آراء اور فتاوی کی بنیاد پر ایک مسلک وجود میں آیا جو ان ہی کی نسبت سے جریری کے نام سے مشہور ہوا۔

    آپ نے عباسی خلیفہ المُقتدر باللہ کے عہد خلافت میں پیر 28 شوال 310ھ / 17 فروری 923 ء کو 86 سال کی عمر میں بغداد میں وفات پائی۔ جنازے کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اتنی کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی جن کی تعداد اللہ تعالٰیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ کئی مہینوں تک آپ کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی جاتی رہی ۔