Tag: موسمیاتی تبدیلی

  • موسمیاتی تبدیلی: عالمی عدالتِ انصاف کا فیصلہ اور نیا عالمی ضمیر

    موسمیاتی تبدیلی: عالمی عدالتِ انصاف کا فیصلہ اور نیا عالمی ضمیر

    رواں سال دنیا کے لیے موسمیاتی بحران کی شدت اور عالمی ماحولیاتی انصاف کے مطالبات کے حوالے سے ایک اہم موڑ ثابت ہو رہا ہے۔ جولائی کے آخر میں عالمی عدالتِ انصاف (ICJ) نے موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں ایک تاریخی مشاورتی رائے دی ہے، جسے چھوٹی جزیرہ ریاستوں، ماحولیاتی کارکنان اور ترقی پذیر ممالک کی دیرینہ کاوشوں کی فتح قرار دیا جا رہا ہے۔

    یہ فیصلہ ایک طرف بین الاقوامی قوانین میں ماحولیاتی ذمہ داریوں کی وضاحت کرتا ہے، تو دوسری طرف عالمی طاقتوں کو ایک اخلاقی آئینہ دکھاتا ہے۔ دنیا کی اعلی ترین عدالت میں اس کیس کا دورانیہ 6 سال پر محیط تھا۔ یہ آئی سی جے کے سامنے آنے والا اب تک کا سب سے بڑا معاملہ تھا جس میں 91 ملکوں نے تحریری بیانات جمع کرائے جب کہ 97 ملکوں نے زبانی دلائل میں حصہ لیا۔

    عدالتی رائے کی روشنی میں پاکستان نہ صرف مضبوط مؤقف اپنا سکتا ہے بلکہ موسمیاتی انصاف پر مبنی فنڈنگ اور امداد کا مطالبہ بھی کر سکتا ہے۔

    یہ سفر 2019 میں اُس وقت شروع ہوا جب موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ بحرالکاہل کی چھوٹی ریاست وانواتو (Vanuatu) نے بین الاقوامی عدالت سے یہ درخواست کی کہ وہ اقوامِ متحدہ کے رکن ممالک کی ماحولیاتی ذمہ داریوں کی قانونی تشریح کرے۔ وانواتو کے ساتھ ٹووالو، مارشل آئی لینڈز، اور دیگر درجنوں جزیرہ ریاستیں بھی کھڑی ہو گئیں جو سمندر کی سطح بلند ہونے کی وجہ سے اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ طلبہ، سماجی تنظیموں‌ اور سول سوسائٹی کے نیٹ ورکس نے اسے ایک عالمی تحریک میں بدل دیا۔ یہ محض قانونی مشورہ نہیں بلکہ انسانیت کا وہ مقدمہ تھا جس میں مدعا علیہ پوری دنیا تھی۔

    عالمی عدالت انصاف نے اپنے فیصلے میں واضح طور پر کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات نہ کرنا بین الاقوامی انسانی حقوق اور ماحولیاتی قوانین کی خلاف ورزی کے زمرے میں آ سکتا ہے۔ عدالت نے اس بات پر زور دیا کہ تمام ریاستیں ماحول کو نقصان سے بچانے کی قانونی اور اخلاقی ذمہ داری رکھتی ہیں، مشترکہ مگر امتیازی ذمہ داری کا اصول ان پر لاگو ہوتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ امیر اور صنعتی ممالک کو زیادہ بوجھ اٹھانا ہوگا۔

    عالمی عدالت کے فیصلے پر بڑے ممالک کا ردعمل دلچسپ مگر مختلف رہا۔ امریکہ، آسٹریلیا اور بھارت نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ مشاورتی رائے ”مذاکرات کے عمل کو متاثر کر سکتی ہے۔

    موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچاؤ کے لیے فوری، مؤثر اور مساوی اقدامات عالمی قانون کے تحت ضروری ہیں۔ انسانی حقوق، بالخصوص زندگی، صحت، اور باعزت رہائش کا حق، موسمیاتی تبدیلی سے براہِ راست متاثر ہو رہا ہے۔

    یہ رائے اگرچہ باضابطہ ”قانونی طور پر لازم” نہیں، مگر اقوامِ متحدہ، ماحولیاتی ادارے، اور دنیا بھر کی عدالتیں اس کو مستقبل میں حوالہ کے طور پر استعمال کر سکتی ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک کے لیے، جو عالمی آلودگی کے محض 1 فیصد کے ذمہ دار ہیں مگر شدید موسمیاتی آفات (سیلاب، خشک سالی، گلیشیئر پگھلاؤ، ہیٹ ویو اور دیگر) کا سامنا کر رہے ہیں، یہ فیصلہ ایک اخلاقی اور قانونی بنیاد فراہم کرتا ہے تاکہ وہ ترقی یافتہ ممالک سے موسمیاتی انصاف کا مطالبہ کر سکیں۔ 2022 کے تباہ کن سیلاب، جس نے پاکستان کی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا، ماحولیاتی عدم مساوات کی زندہ مثال ہے۔ اب اس عدالتی رائے کی روشنی میں پاکستان نہ صرف اقوام متحدہ میں مضبوط مؤقف اپنا سکتا ہے بلکہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے موسمیاتی انصاف پر مبنی فنڈنگ اور امداد کا مطالبہ بھی کر سکتا ہے۔

    عالمی عدالت کے فیصلے پر بڑے ممالک کا ردعمل دلچسپ مگر مختلف رہا۔ امریکہ، آسٹریلیا اور بھارت نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ مشاورتی رائے ”مذاکرات کے عمل کو متاثر کر سکتی ہے۔” ان نمائندوں کا کہنا تھا کہ اقوامِ متحدہ کے موسمیاتی فورمز زیادہ موزوں پلیٹ فارم ہیں۔ گویا وہ قانونی ذمہ داری کے بجائے رضاکارانہ اقدامات پر زور دیتے ہیں۔ چین نے کہا کہ ترقی پذیر دنیا کو مالی مدد ضرور ملنی چاہیے مگر ہر ملک کی ”قومی خود مختاری” کا احترام بھی لازم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چین بھی قانونی پابندیوں کے بجائے باہمی سمجھوتوں کو ترجیح دیتا ہے۔ یورپی یونین نے جزوی حمایت کی، اور کہا کہ وہ پہلے ہی Net Zero کے اہداف اور گرین انرجی پر کام کر رہے ہیں، مگر بعض یورپی ملکوں نے فیصلے کے قانونی اثرات کو کم کرنے کی کوشش کی

    یہ واضح ہے کہ بڑی طاقتیں فیصلے کے سیاسی اور قانونی مضمرات سے باخبر ہیں مگر مکمل قبولیت کے لیے تیار نہیں۔ لیکن عالمی دباؤ اور اخلاقی بوجھ کے باعث وہ اس سے مکمل طور پر انکار بھی نہیں کر سکتیں۔

    عدالتی فیصلے کے فوراً بعد، دنیا بھر میں اس پر مختلف آرا سامنے آئیں۔ چھوٹے ممالک، ترقی پذیر دنیا، اور ماحولیاتی تحریکوں نے اسے ”انصاف کی طرف پہلا عملی قدم” قرار دیا۔ وانواتو کے وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی، رالف ریگنوا (Ralph Regenvanu) نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ”یہ فیصلہ ہماری توقعات سے بھی زیادہ مضبوط ہے، اب دنیا یہ نہیں کہہ سکتی کہ ماحولیاتی تباہی کے خلاف کارروائی صرف ایک اخلاقی مسئلہ ہے، یہ ایک قانونی ذمہ داری ہے۔“

    تاہم کچھ بڑی طاقتوں، خاص طور پر وہ ممالک جن کی معیشتیں کوئلے، تیل اور گیس پر انحصار کرتی ہیں، نے اس فیصلے کو نرم الفاظ میں لیا اور خود پر لاگو قانونی نتائج کو نظر انداز کیا۔ ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئندہ اقوامِ متحدہ کی ماحولیاتی کانفرنسیں (COP) اس فیصلے کی بنیاد پر مزید سخت قانونی معاہدوں کی طرف جا سکتی ہیں۔ ”ماحولیاتی انصاف“ اب صرف ایک سماجی نعرہ نہیں رہا، بلکہ اقوام متحدہ، عالمی عدالتیں، اور بین الاقوامی معاہدے اسے قانونی اور عملی اصول کے طور پر تسلیم کر رہے ہیں۔ اس تناظر میں ICJ کا یہ فیصلہ ایک سنگِ میل ہے، جو درج ذیل پہلوؤں کو اجاگر کرتا ہے:

    آلودگی پھیلانے والا ازالہ کرے: جو ملک ماحول کو نقصان پہنچاتے ہیں، انہیں ہی مالیاتی طور پر اس کا ازالہ کرنا چاہیے۔

    نسل در نسل انصاف: موجودہ نسل کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئندہ نسلوں کو محفوظ ماحول دے۔

    شہری حقوق اور ماحول: صاف ماحول تک رسائی کو بنیادی انسانی حق کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔

    پاکستان، جو دنیا کے سب سے کم کاربن خارج کرنے والے ملکوں میں شامل ہے، ہر سال موسمیاتی آفات کا بوجھ سہتا ہے۔ 2022 کے سیلاب میں ملک کا ایک تہائی حصہ زیرِ آب آگیا۔ 1700 سے زائد افراد جان سے گئے اور 3 کروڑ سے زائد متاثر ہوئے، جب کہ معاشی نقصان 30 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا۔ 2025 میں بھی غیر متوقع گرمی کی لہر، قحط، اور قبل از وقت مون سون نے ماحولیاتی بحران کی سنگینی کو مزید بڑھایا ہے۔ پاکستان کے لیے ICJ کا فیصلہ اس لیے اہم ہے کہ یہ بین الاقوامی قانون میں اس کے مقدمے کو تقویت دیتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک پر مالی، تکنیکی اور اخلاقی دباؤ بڑھے گا۔ پاکستان اب Loss & Damage فنڈ، گرین کلائمیٹ فنڈ، اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر قانونی بنیاد پر معاوضے کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ پاکستانی عدالتیں اور پارلیمان اب ماحولیاتی انصاف کے اصولوں کو داخلی قانون سازی میں شامل کر سکتی ہیں۔

    عالمی عدالت انصاف کا یہ فیصلہ اگرچہ قانونی طور پر لازم نہیں، مگر اس کا اخلاقی وزن اور سیاسی اثر زبردست ہے۔ یہ انسانی تاریخ کے اس موڑ پر آیا ہے جہاں موسمیاتی تبدیلی صرف ماحولیاتی مسئلہ نہیں بلکہ بقاء کا مسئلہ بن چکی ہے۔ پاکستان، جو ماحولیاتی عدم مساوات کا زندہ استعارہ ہے، اب ایک مضبوط مقدمہ پیش کر سکتا ہے: ”ہم نے آلودگی نہیں پھیلائی، مگر ہم مر رہے ہیں۔” اب وقت ہے کہ عالمی ضمیر جاگے، اور قانون، اخلاق، اور انصاف ایک ہی زبان بولیں۔ اب یہ اقوام، سول سوسائٹی، اور پالیسی سازوں پر منحصر ہے کہ وہ اس قانونی رائے کو عملی اقدامات میں کیسے ڈھالتے ہیں۔

  • موسمیاتی تبدیلی اور بارشیں: جب فطرت بغاوت پر اتر آئے

    موسمیاتی تبدیلی اور بارشیں: جب فطرت بغاوت پر اتر آئے

    بارش، جو کبھی خوشحالی اور زرخیزی کی علامت سمجھی جاتی تھی، اب تباہی، سیلاب اور انسانی المیوں کو جنم دے رہی ہے۔ دنیا کے مختلف خطوں میں معمول سے ہٹ کر ہونے والی شدید بارشیں ایک نئے اور غیر متوقع مظہر کی صورت اختیار کر چکی ہیں، جسے سائنسدان موسمیاتی تبدیلی کا براہِ راست نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی بارشوں کے اس بگڑتے ہوئے انداز کا تعلق عالمی درجۂ حرارت میں اضافے سے ہے؟ اور اگر ہاں، تو کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں؟

    ماہرین کے مطابق زمین کا ماحولیاتی نظام نہایت متوازن اور حساس ہے۔ جب فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اور دیگر گرین ہاؤس گیسوں کی مقدار بڑھتی ہے، تو نہ صرف درجۂ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ فضائی نمی میں بھی غیر معمولی تبدیلی آتی ہے۔ نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن (NOAA) کے مطابق، ہر ایک ڈگری سیلسیئس درجۂ حرارت کے اضافے کے ساتھ فضا میں 7 فیصد زیادہ نمی جذب ہو سکتی ہے، جو مستقبل میں شدید بارشوں اور طوفانی موسم کی شدت کو بڑھا سکتی ہے۔

    بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ (2023) میں خبردار کیا گیا کہ ہر گزرتے عشرے کے ساتھ دنیا میں بارش کے پیٹرن میں شدت، طوالت اور بے ترتیبی بڑھ رہی ہے جس کے نتیجے میں جنوبی ایشیا، وسطی افریقہ اور لاطینی امریکہ سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ عالمی موسمیاتی تنظیم کی 2024 کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ عالمی درجۂ حرارت 1.5 ڈگری کے قریب پہنچ چکا ہے، اور اس کی وجہ سے بارش کے سائیکل میں غیر معمولی تبدیلی آئی ہے۔ کہیں طوفانی بارشیں ہیں، تو کہیں مکمل خشک سالی۔

    اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کی 2025 کی رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان جنوبی ایشیا کے ان پانچ ممالک میں شامل ہے جو شدید بارشوں اور اس کے نتیجے میں ہونے والے اربن فلڈنگ، مٹی کے تودے گرنے اور زرعی تباہی کے سب سے زیادہ خطرات سے دوچار ہیں جب کہ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام اور آئی ایم ایف کی 2024 کی مشترکہ تحقیق میں بتایا گیا کہ غیر متوقع بارشیں ترقی پذیر ممالک کی معیشت کو ہر سال اوسطاً 235 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا رہی ہیں، جن میں زراعت، انفراسٹرکچر اور انسانی جان و مال شامل ہے۔

    رواں اور گذشتہ سال کے چند بڑے واقعات کا ذکر کیا جائے تو رواں سال میں برازیل کے جنوبی علاقہ (ریو گراندے دو سل) مئی میں مسلسل دو ہفتے کی طوفانی بارشوں سے 170 افراد ہلاک اور 6000 سے زائد مکانات تباہ ہوئے جب کہ تقریباً 3.4 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ چین کے صوبہ ہنان میں جولائی کے آغاز میں آنے والی صرف 5 دن کی بارش نے 12 اضلاع کو ڈبو دیا۔ نقصان کا اندازہ 2 ارب ڈالر کے قریب لگایا گیا، 200,000 افراد بے گھر ہوئے۔ 2024 میں پاکستان کے صوبے بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں شدید بارشیں ہوئیں، مارچ تا جون غیر متوقع بارشوں اور ژالہ باری سے فصلیں تباہ ہوئیں اور معاشی نقصان کا تخمینہ تقریباً 180 ارب روپے (تقریباً 630 ملین ڈالر) لگایا گیا۔ جرمنی اور بیلجیم میں دریائے رائن کے کنارے شدید بارشوں سے صنعتی علاقے متاثر ہوئے۔ نقصان کا اندازہ 1.2 ارب یورو۔

    رواں سال مون سون سیزن کے دوران پاکستان شدید بارشوں اور سیلابی صورتحال کا سامنا کر رہا ہے۔ این ڈی ایم اے اور مختلف میڈیا رپورٹس کے مطابق اب تک 279 افراد جاں بحق اور 676 زخمی ہو چکے ہیں۔ پنجاب سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جہاں 151 افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے، جب کہ خیبر پختونخوا میں 64، بلوچستان میں 20، سندھ میں 25، گلگت بلتستان میں 9، اسلام آباد میں 8 اور آزاد کشمیر میں 2 اموات رپورٹ ہوئی ہیں۔ شدید بارشوں نے نہ صرف انسانی جانیں لیں بلکہ 1,500 سے زائد مکانات کو تباہ کر دیا یا ان کو نقصان پہنچایا، 370 کے قریب مویشی ہلاک ہوئے اور کئی اہم انفراسٹرکچر، سڑکیں اور پل منہدم ہو گئے۔

    جولائی کے وسط تک ملک میں ہونے والی بارشیں گزشتہ برس کے مقابلے میں 82 فیصد زیادہ ریکارڈ کی گئیں، جب کہ پہاڑی علاقوں میں شدید گرمی کے باعث گلیشیئر کے پگھلنے سے بھی فلش فلڈز اور گلیشیئر لیک آؤٹ برسٹ فلڈز (GLOFs) کے واقعات میں اضافہ ہوا۔ ماہرین کے مطابق ملک کے شمالی علاقوں میں مزید شدید بارشوں اور لینڈ سلائیڈنگ کے خطرات موجود ہیں، جو آنے والے ہفتوں میں صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا سکتے ہیں۔

    ورلڈ میٹررو لوجیکل آرگنائزیشن (WMO) کی 2025 کی رپورٹ کے مطابق شدید بارشوں کے بڑھتے ہوئے واقعات کا براہِ راست تعلق ماحولیاتی تبدیلی سے ہے۔ موجودہ صدی کے وسط تک ایسے واقعات کی شدت دو گنا ہونے کا امکان ہے۔ رواں سال اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کی رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان جنوبی ایشیا کے ان پانچ ممالک میں شامل ہے جو شدید بارشوں اور اس کے نتیجے میں ہونے والے اربن فلڈنگ، مٹی کے تودے گرنے اور زرعی تباہی کے سب سے زیادہ خطرات سے دوچار ہیں۔ فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن کے مطابق، 2025 میں صرف پاکستان اور بھارت میں زرعی پیداوار میں 11% کمی کا اندیشہ ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق، موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے سیلاب اور بارشوں کے باعث 2024 میں تقریباً 33 ملین افراد نے اندرونِ ملک نقل مکانی کی۔

    یہ صورتِ حال شہری نظام پر مزید دباؤ بڑھا رہی ہے جس کے نتیجے میں ایک نیا بحران جنم لے رہا ہے۔ پاکستان کے بڑے شہر پہلے ہی ماحولیاتی دباؤ، بے ہنگم آبادی، ناقص منصوبہ بندی اور بنیادی ڈھانچے کی خستہ حالی کا شکار ہیں۔ جب اچانک موسلا دھار بارش ہوتی ہے تو نکاسی آب کا نظام بیٹھ جاتا ہے، کرنٹ لگنے کے حادثات ہوتے ہیں، بجلی، مواصلات اور آمدورفت کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے، کچی بستیوں میں مکانات گرنے اور اموات کے واقعات بڑھ جاتے ہیں۔

    بدلتے موسموں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اس صورتحال سے نپٹنے کے لیے جو ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا سبب بن چکی ہے۔ ہمارے پالیسی سازوں کو جنگی بنیادوں پر حکمت عملی اپناتے ہوئے اقدامات کرنے ہوں گے جیسے شہری سیلابی نقشے (Urban Flood Maps) بنانا ہوں گے جو ہر بڑے شہر کے لیے خطرے کے زون کی نشاندہی کریں۔ اس کے علاوہ نالوں کی صفائی کے ساتھ ان پر قائم تجاوزات کا خاتمہ، بارش کے پانی کا ذخیرہ، اور مقامی وارننگ سسٹمز کی تنصیب، شجر کاری و سبز انفراسٹرکچر، شہروں میں پارکس، کھلی زمین اور قدرتی نالے کو محفوظ کرنا ہو گا تاکہ پانی جذب ہو سکے۔ موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ڈیزاسٹر مینجمنٹ بلز کو نافذ کیا جائے اور اور اس حوالے سے فنڈنگ یقینی بنائی جائے۔

    بارشوں کا تیز اور غیر متوقع انداز موسمیاتی تبدیلی کی زندہ مثال ہے۔ اگرچہ بارش ایک قدرتی عمل ہے، مگر اس بات میں اب کوئی دو رائے نہیں رہی کہ اس کی شدت، وقت، مقام اور اثرات میں جو تبدیلی آ رہی ہے وہ واضح طور پر انسانی سرگرمیوں سے جڑی ہے جس کے نتیجے میں موسمیاتی تبدیلی رونما ہوئی۔ پاکستان جیسے ممالک، جہاں وسائل کم اور خطرات زیادہ ہیں، وہاں مؤثر منصوبہ بندی، سائنسی حکمتِ عملی اور مقامی سطح پر عوام کی شرکت ہی ہمیں ان بارشوں کو ”رحمت” بنائے رکھنے میں مدد دے سکتی ہے۔ ورنہ یہ ”عذاب” بن کر ہمارے دروازے پر دستک دے رہی ہیں۔

  • رواں سال مون سون بارشیں کم ہوں گی یا زیادہ؟ محکمہ موسمیات نے خبردار کردیا

    رواں سال مون سون بارشیں کم ہوں گی یا زیادہ؟ محکمہ موسمیات نے خبردار کردیا

    پاکستان اس وقت شدید موسمیاتی تبدیلی کی لپیٹ میں ہے، خیبر پختوخوا اور پنجاب کے بہت سے علاقوں کے عوام نے اسے طوفان کی صورت میں برداشت بھی کیا ہے رواں سال مون سون بارشیں کم ہوں گی یا زیادہ؟ محکمہ موسمیات نے خبردار کردیا۔

    سائیکلون وارننگ سینٹر محکمہ موسمیات نے کہا ہے کہ بحیرہ عرب میں مون سون سیزن کی ابتدائی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگیا ہے جس کے سبب ممکنہ طوفان کا بھی قوی امکان ہے۔

    اس سلسلے میں گزشتہ ایک ماہ کے دوران تین مرتبہ خیبر پختوخوا اسلام آباد اور پنجاب میں طوفانی بارشیں اولے پڑنے کا سلسلہ شروع ہوا۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام سوال یہ ہے میں میزبان ماریہ میمن سے محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر جنرل مہر صاحبزاد خان نے گفتگو کرتے ہوئے بڑے خطرے سے آگاہ کیا۔

    انہوں نے بتایا کہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ موسم مستحکم نہیں ہورہا یا اس میں ٹھہراؤ نہیں آرہا جس کی وجہ سے آنے والے دنوں میں 29 ۔ 30 اور 31 مئی کو دوبارہ شدید طوفانی بارشوں کا اسپیل آئے گا ٓور یہ سلسلہ آگے بھی چلے گا۔

    مہر صاحبزاد خان نے بتایا کہ اس ھوالے سے ہم پہلے بھی الرٹ جاری کرچکے ہیں او پی ڈی ایم اے کو بھی آگاہ کردیا گیا تھا۔

    ان کا کہنا تھا کہ اس صورتحال کو غیر متوقع اور غیر فطری بھی کہا جا سکتا ہے کیونکہ مئی کا مہینہ عام طور پر شدید خشک اور گرم ہوتا ہے۔

    اس سال مون سون سیزن تین چار دن قبل یعنی جون کے آخر میں شروع ہوسکتا ہے۔ معمول کے مطابق مون سون کے دوران پنجاب میں 344 ملی میٹر بارش ہوتی ہے۔ اس مرتبہ پنجاب میں 388 ملی میٹر بارش ہو سکتی ہے۔

  • سندھ میں آم کی فصل 50 فیصد تک کم ہونے کا خدشہ

    سندھ میں آم کی فصل 50 فیصد تک کم ہونے کا خدشہ

    موسمیاتی تبدیلی اور گرمی کی شدت کے باعث پانی کی قلت کی صورتحال تشویشناک حد تک خراب ہے جس کے سبب اندورن سندھ پھلوں کے بادشاہ آم کی فصل بھی شدید متاثر ہوئی ہے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز حیدرآباد کے نمائندے اشوک شرما کی رپورٹ کے مطابق سندھ بھر میں پانی کی قلت اور موسم کی سختیوں کی وجہ سے آم کی فصل کو بھی خطرات لاحق ہیں۔

    سندھ میں حالیہ شدید گرمی کی لہر اور نہروں میں پانی کی شدید قلت سے زراعت کا شعبہ شدید متاثر ہورہاہے ، زرعی پانی کے بحران کے باعث پھلوں کے بادشاہ آم، سمیت دیگر فصلیں شدید متاثر ہورہی ہیں۔

    عمومی طورپر آم مئی کے پہلے ہفتہ میں تیار ہوکر مارکیٹ پہنچ جاتا ہے تاہم گردآلود طوفانی ہوائیں چلنے گرمی کی شدت میں اضافے اور نہری پانی کی شدید قلت کے باعث آم ابھی تک مارکیٹ میں نہ پہنچ سکا۔

    آم کی کاشت سندھ میں 13 ہزار ایکڑ رقبے پر کی جاتی ہے جو صوبے کی سب سے بڑی فصل کہلاتی ہے جبکہ ٹنڈو الہٰیار دوسرے اور حیدرآباد تیسرے نمبر پر ہے۔ سندھ میں مجموعی طور پر آم کی سالانہ پیداوار 3 لاکھ 92ہزار میٹرک ٹن ہوتی ہے۔

    اس حوالے سے کاشت کاروں کا کہنا ہے کہ رواں سال آم کے درختوں کو پانی فراہمی 70 فیصد کم ہوئی جس کی وجہ سے باغات خشک سالی کا شکار ہیں۔ کاشت کار کا کہنا ہے کہ پانی کم ملنے سے آم کا سائز بھی چھوٹا ہوگیا اور اس کی کوالٹی بھی متاثر ہوئی ہے۔

    زمینداروں کا کہنا ہے کہ پانی کی قلت اور مختلف امراض کے باعث باغات کو بڑئے پیمانے پر نقصانات کا سامنا کرنا پڑا کس کے باعث رواں موسم میں آم کی فصل 50 فیصد تک کم ہوسکتی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ سندھ میں عام طور پر فلڈ ایریگیشن کا رواج ہے مگر اس وقت پانی کی کمی کے باعث پورے سیزن میں صرف دو بار ہی پانی ملا ہے۔ اس دوران باغات کو پانی دینے کے لیے نالیاں بنائی گئیں اور ہر درخت کے نیچے گڑھا کھودا گیا تاکہ پانی کم استعمال ہو ایسی صورتحال میں اس سال آم کی پیداوار کے ساتھ ایکسپورٹ پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

  • بلوچستان میں خشکابہ کی سستی فصلیں کیوں ختم ہو رہی ہیں؟ ویڈیو رپورٹ

    بلوچستان میں خشکابہ کی سستی فصلیں کیوں ختم ہو رہی ہیں؟ ویڈیو رپورٹ

    بلوچستان میں موسمیاتی تبدیلی خشکابہ کی سستی اور نامیاتی فصلوں کو ختم کر رہی ہے۔ بارشیں کم اور بے وقت ہونے کے باعث بارانی علاقوں میں گندم سمیت ربیع کی تمام فصلوں کی پیداوار 67 فی صد کم ہو گئی ہے، جب کہ زیرے کی پیداوار 2 فی صد رہ گئی ہے۔

    محمد رفیق کوئٹہ سے ملحقہ دشت میں گندم کی بوائی میں مصروف ہے۔ یہ خشکابہ علاقہ ہے موسم سرما کی بارشوں سے یہاں گندم اور دیگر فصلیں ہوتی ہیں۔ محمد رفیق کو حالیہ بارشوں سے 2 ایکڑ زمین پر نمی ملی تو وہ بیج بو کر قسمت آزما رہا ہے۔ مگر وہ زیادہ پر امید نہیں ہے۔

    زیارت سے لے کر ساراوان اور جھالاوان کے اضلاع کے بیش تر علاقوں میں بارانی زراعت صدیوں سے کاشت کاری کا بنیادی طریقہ ہے، محمد رفیق کا خاندان پرکھوں سے کاشت کاری کرتا چلا آیا ہے۔

    گزشتہ 10 سال کا دستیاب ریکارڈ بتا رہا ہے کہ کوئٹہ اور گرد و نواح کے اضلاع میں موسم سرما کی بارشیں 20 فی صد کم ہوئی ہیں۔بارانی زراعت 41 ہزار ایکڑ سے 15 ہزار ایکڑ پر آ گئی ہے۔ گندم سمیت ربیع کی فصلوں کی سالانہ پیداوار 48 ہزار سے 15 ہزار ٹن ہو گئی ہے۔ ماہرین کے مطابق بارشیں کم ہونے کے ساتھ بے وقت بھی ہو رہی ہیں جو تشویش ناک ہے۔

    سریاب کی لائبریری کا المیہ، ایک تشویش ناک ویڈیو رپورٹ

    خوشکابہ فصلیں سستی اور نامیاتی ہونے کے باعث اہمیت کا حامل ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہونے کے ساتھ حکومتی سطح پر بھی توجہ نہیں دی جا رہی۔ کسان کہتے ہیں نقصان اٹھاتے جا رہے ہیں مگر حکومت آب پاشی کا متبادل نظام دینے سمیت کسی قسم کی مدد نہیں کرتی۔

    زرعی ماہر عبدالصمد مینگل بارشوں میں کمی اور بدلاؤ کی وجہ ان علاقوں میں جنگلات کی کٹائی کو قرار دیتے ہیں۔ ماہرین اس خطے میں درخت لگانے پر زور دے رہے ہیں وہ سمجھتے ہیں جنگلات بحال ہوں گے تو خوشکابہ فصلوں کو بچایا جا سکتا ہے۔

    جن علاقوں میں نہر نہیں یا پانی کا کوئی اور ذریعہ نہیں، ان علاقوں کو خشکابہ علاقے کہتے ہیں۔ خشکابہ علاقوں میں کاشت کاری کا انحصار بارشوں پر ہوتا ہے، بارش ہو تو فصلیں اگائی جاتی ہیں۔

    ملٹی میڈیا – ویڈیو خبریں دیکھنے کے لیے کلک کریں

  • موسمیاتی تبدیلیوں سے خواتین کس طرح متاثر ہو رہی ہیں؟ تشویشناک ویڈیو رپورٹ

    موسمیاتی تبدیلیوں سے خواتین کس طرح متاثر ہو رہی ہیں؟ تشویشناک ویڈیو رپورٹ

    پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ خواتین متاثر ہو رہی ہیں، پاکستان میں خوراک کی پیداوار میں مرکزی کردار ادا کرنے والی 70 فی صد خواتین اس اس بحران کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔

    دنیا میں موسمیاتی تبدیلی ایک بہت بڑا عالمی چیلنج بن چکا ہے، جس کا سب سے زیادہ شکار خواتین ہوتی ہیں۔

    موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ممالک کی فہرست میں پانچویں نمبر پر موجود پاکستان کو تیزی سے پگھلتے گلیشیئرز سے لے کر تباہ کن سیلابوں کا سامنا ہے۔ پاکستان میں زراعت کے شعبے میں 68 فی صد خواتین جب کہ 28 فی صد مرد اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔

    اقوام متحدہ پاپولیشن فنڈ کی رپورٹ کے مطابق 2022 کے سیلاب سے متاثرہ سندھ اور بلوچستان کے علاقوں میں 6 لاکھ 50,000 حاملہ خواتین کی صحت کی سہولیات کو شدید متاثر کیا۔ ایک اندازے کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بے گھر ہونے والے دس افراد میں سے 4 سے 5 خواتین ہوتی ہیں، جب کہ مردوں کے مقابلے میں شدید موسمیاتی آفات خواتین کی جنسی اور تولیدی صحت پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں۔

    ویڈیو رپورٹ: مٹی کے تیل سے چلنے والا پنکھا اور دیگر عجائبات، گھر میں قائم میوزیم نے لوگوں کو حیران کر دیا

    اقوام متحدہ کی 2023 کی ایک رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اس صدی کے وسط تک عالمی سطح پر موسمیاتی بحران 158.3 ملین مزید خواتین اور لڑکیوں کو غربت کی طرف دھکیل سکتا ہے۔

    اس سلسلے میں پاکستان میں ماہرین مردانہ ماحول میں سماجی رویوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔

  • موسمیاتی تبدیلیاں، گلگت میں سالانہ ترقیاتی بجٹ سے زیادہ نقصان کا تخمینہ

    موسمیاتی تبدیلیاں، گلگت میں سالانہ ترقیاتی بجٹ سے زیادہ نقصان کا تخمینہ

    ایبٹ آباد: موسمیاتی تبدیلیوں سے آگاہی، اس کے تدارک، قدرتی ماحول کے تحفظ کی مشترکہ جدوجہد کے لیے ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ساتھ ایبٹ آباد یونین آف جرنلسٹس نے معاہدے کی یادداشت پر دستخط کیے ہیں۔

    ہفتے کے روز گلگت بلتستان کے صحافیوں کے وفد نے ڈبلیو ڈبلیو ایف کے تعاون سے ایبٹ آباد پریس کلب کا دورہ کیا، مقررین کا کہنا تھا پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات کا سامنا ہے، اس میں قدرتی ماحول سے مالا مال گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا سرفہرست ہیں۔

    انھوں نے کہا 2010 کے بعد گلگت میں موسمیاتی تغیر و تبدل کے اثرات گہرے ہوتے جا رہے ہیں، جس کی وجہ سے سالانہ ترقیاتی بجٹ سے زیادہ نقصان کا تخمینہ ہے، گلگت بلتستان کے مالی بحران کی وجہ سے ترقیاتی منصوبے تاخیر کا شکار ہیں، اور سینکڑوں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں۔

    گلگت

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے نثار احمد کا کہنا تھا دنیا میں پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں میں پہلے 8 ویں نمبر پر تھا، جو اب پانچویں نمبر پر آچکا ہے، موسمیاتی تبدیلیوں سے گلیشیئر متاثر ہو رہے ہیں، حکومت کی اب ترجیح ہے کہ اس تبدیلی پر کیسے قابو پایا جائے، بارشوں سے جہاں سیلابی کیفیت پیدا ہو رہی ہے اس کے پانی کو جمع کرنے کے لیے اقدامات اٹھانے ہوں گے۔

    ملک میں سڑکوں کے جال اور زرعی زمینوں پر تعمیرات بھی موسمیاتی تبدیلیوں کی اہم وجوہ ہیں، جو پانی کے ذخائر کو کم کر رہے ہیں، اس میں اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ گھروں کی چھتوں پر بارش کے پانی کو زمین کو ری چارج کرنے کے اقدامات اٹھائے جائیں، اس میں واٹر اکاؤنٹیبلیٹی کے منصوبے کے تحت 17 اضلاع میں سو سے زائد دیہات میں کام کیا جا رہا ہے، جن میں گلگت کے 10 اضلاع اور خیبر پختونخوا کے 6 اور پنجاب کا ایک ضلع شامل ہے۔

    انھوں نے کہا کہ میڈیا کا کردار اہم ہے، ان کی شراکت سے موسمیاتی تبدیلیوں کے مسائل کو اجاگر کرنے اور اس کے تدارک کے لیے کام کرنے سے مثبت نتائج مرتب ہوں گے۔ مقررین کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان کے مسائل کو اجاگر کرنے اور صحافتی سرگرمیوں کو فروغ دینے میں ایبٹ آباد کے اخبارات کا اہم کردار رہا ہے۔

    تقریب میں ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے صوبائی منیجر سعیدالسلام ، کمیونیکشن منیجر نثار احمد، صدر ایبٹ آباد یونین آف جرنلسٹ ثاقب خان، گلگت پریس کلب کے سابق صدر امتیاز علی تاج، جی بی یونین کے فہیم اختر، صدر ایبٹ آباد پریس کلب محمد شاہد چوہدری، جنرل سیکریٹری سردار شفیق احمد، ایبٹ آباد یونین آف جرنلسٹس کے جنرل سیکریٹری عاطف قیوم نے بھی خطاب کیا۔

  • پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں سے سالانہ 4 ارب ڈالر نقصان کا انکشاف

    پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں سے سالانہ 4 ارب ڈالر نقصان کا انکشاف

    اسلام آباد: پلاننگ کمیشن آف پاکستان نے انکشاف کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان کو سالانہ 4 ارب ڈالر نقصان ہوا ہے۔

    پلاننگ کمیشن کی دستاویز کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک میں پاکستان آٹھویں نمبر پر آ چکا ہے، جب کہ کلائمٹ چینج سے پاکستان کو سالانہ 4 ارب ڈالر نقصان ہوا۔

    کمیشن نے کہا ہے کہ اگر صورت حال کو کنٹرول نہ کیا گیا تو 2080 تک درجہ حرارت میں 4 ڈگری مزید اضافہ ہو سکتا ہے، موسمیاتی تبدیلیوں سے زیر زمین پانی کے ذخائر میں تیزی سے کمی ہو رہی ہے۔

    دستاویز کے مطابق 2030 تک موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو 348 ارب ڈالر کی ضرورت ہے، موسمیاتی تبدیلی فنانسنگ کے لیے پانڈا بانڈز، گرین بانڈز کا اجرا کلائمیٹ فنانس اسٹریٹجی میں شامل کیا گیا ہے۔

    موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ منصوبے بھی شروع کیے جائیں گے۔

    کمیشن کا کہنا ہے کہ نیشنل کلین ایئر پالیسی سے ٹرانسپورٹ، زراعت، صنعتی دھوئیں کو 81 فی صد کنٹرول کیا جا سکتا ہے، پانی ذخیرہ کرنے کی کم صلاحیت، ناقص ایری گیشن سسٹم جیسے مسائل کو حل کرنا ہوگا، موسمیاتی تبدیلی کے باعث متعدد فصلوں کی پیداواری گروتھ تاحال بہتر نہیں ہے۔

  • موسمیاتی تبدیلی، آسٹریلیا میں پارہ 40 ڈگر تک چلا گیا

    موسمیاتی تبدیلی، آسٹریلیا میں پارہ 40 ڈگر تک چلا گیا

    کینبرا: موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے دنیا بھر کے موسموں میں بدلاؤ آ گیا ہے اور موسم زیادہ شدید ہو گئے ہیں، آسٹریلیا میں پارہ 40 ڈگر تک چلا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق آسٹریلیا میں گرمی کی شدید لہر سے مختلف شہروں میں پارہ چالیس ڈگری تک چلا گیا ہے، کوئنز لینڈ، وکٹوریا، نیو ساؤتھ ویلز سمیت دیگر شہروں میں سورج آگ برسا رہا ہے۔

    بیورو آف میٹرولوجی نے شمالی، مشرقی اور وسطی آسٹریلیا کے بڑے حصوں کے لیے ہیٹ ویو کی وارننگ جاری کی ہے، جس میں مغربی آسٹریلیا اور تسمانیہ کے علاوہ ہر ریاست اور علاقہ شامل ہے۔

    وکٹوریہ، نیو ساؤتھ ویلز اور کوئنز لینڈ میں ہیٹ ویو کی صورت حال سے قبل شمالی علاقہ جات، مغربی کوئنز لینڈ اور جنوبی آسٹریلیا نے اتوار کو سب سے زیادہ درجہ حرارت کا سامنا کیا۔

    چند روز میں درجہ حرارت 47 ڈگری تک جانے کی بھی پیش گوئی کی گئی ہے، گرمی کی شدت کے باعث جنگلات میں آگ لگنے کا بھی خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔ موسمیات کے مطابق ملک بھر میں درجہ حرارت اوسط سے 12 سے 16 سینٹی گریڈ زیادہ ہے۔

    ایڈیلیڈ شہر میں درجہ حرارت اتوار کو 38 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا، لی کریک، ٹارکولا، پورٹ آگسٹا اور وومیرا میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 40 سینٹی گریڈ سے زیادہ رہا۔

    واضح رہے کہ NSW اور وکٹوریہ میں آج پیر کو متعدد مقامات پر 40C سے زیادہ درجہ حرارت ریکارڈ کرنے کی پیش گوئی کی گئی تھی۔ بروکن ہل میں درجہ حرارت 44 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچنے کی توقع تھی، ملڈورا میں 46 سینٹی گریڈ اور بورکے 42 سینٹی گریڈ تک پہنچنے کی پیش گوئی کی گئی تھی۔

  • پاکستان نے آبادی اور معیشت پر موسمیاتی تبدیلی کے سنگین اثرات کا خاکہ پیش کردیا

    پاکستان نے آبادی اور معیشت پر موسمیاتی تبدیلی کے سنگین اثرات کا خاکہ پیش کردیا

    اسلام آباد : عالمی عدالت انصاف میں پاکستان نے آبادی اور معیشت پر موسمیاتی تبدیلی کے سنگین اثرات کا خاکہ پیش کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق عالمی عدالت انصاف میں موسمیاتی تبدیلی پر ریاستوں کی ذمہ داریوں پرسماعت ہوئی، اٹارنی جنرل آف پاکستان منصور عثمان اعوان نے پاکستان کی نمائندگی کی۔

    پاکستان نے آبادی ،معیشت پرموسمیاتی تبدیلی کےسنگین اثرات کا خاکہ پیش کردیا، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے بتایا کہ 2022 سیلاب میں ملک کا ایک تہائی حصہ ڈوبنےسے33ملین افرادمتاثرہوئے، سیلاب کےباعث تعمیر نواخراجات کاتخمینہ 16 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا۔

    منصور عثمان اعوان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا عالمی سطح پر گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں حصہ 1 فیصد سے بھی کم ہے، موسمیاتی تبدیلی کےاثرات سے پاکستان 15 گنا زیادہ نقصان کا سامنا کر رہا ہے۔

    انھوں نے بتایا کہ موسمیاتی تبدیلی پرپیرس معاہدہ ذمہ داریوں پرتوجہ مرکوز کرنے کا بنیادی فریم ورک ہے، آب و ہوا کی ذمہ داریوں کومتعلقہ صلاحیتوں کیساتھ ہم آہنگ ہونا چاہئے، ذمہ داریوں سےمتعلق تنازعات کو معاہدوں پر میکنزم کےذریعےحل کرناچاہیے۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ انسداد موسمیاتی تبدیلیوں پر ذمہ داری گرین ہاؤس گیسز کے اخراج جیسے نقصانات پر لاگو ہے، یہ غلط ہے کنونشن آن کلائمنٹ چینج اور پیرس معاہدہ لیکس اسپیشلز تشکیل دیتے ہیں، مذکورہ معاہدے بین الاقوامی قانون کے تحت ذمہ داریوں کو ختم نہیں کرتے۔

    انھوں نے کہا کہ ذمہ داری اسوقت شروع ہوتی ہے جب کوئی ملک مضر اثرات پرمطلوبہ علم رکھتاہو، گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کے تناظر میں لاعلمی کا دعویٰ کوئی عذر نہیں ہے، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات محسوس کرنیوالی پہلی نسل ہیں ، بلاشبہ آخری نسل بھی ہیں جو اس کے بارے میں کچھ کرسکتی ہے۔