Tag: موسمیاتی تبدیلیاں

  • 2025: ماحولیاتی تباہیاں اور پاکستان میں مون سون: عالمی بحران، ایک مقامی حقیقت

    2025: ماحولیاتی تباہیاں اور پاکستان میں مون سون: عالمی بحران، ایک مقامی حقیقت

    سال 2025 دنیا کے لیے ایک فیصلہ کن موڑ ثابت ہوا۔ عالمی درجۂ حرارت میں مسلسل اضافے نے مختلف خطّوں کو شدید اور غیر معمولی ماحولیاتی آفات کی زد میں ڈال دیا۔ عالمی ادارۂ موسمیات (WMO) کے مطابق، 2025 کے پہلے آٹھ ماہ میں زمین کا اوسط درجۂ حرارت صنعتی دور سے پہلے کے مقابلے میں 1.4 ڈگری سیلسیس زیادہ رہا۔ یہ وہ سنگین حقیقت ہے جس نے دنیا کے کئی خطوں میں قہر برپا کر دیا، اور پاکستان بھی اس کی لپیٹ سے محفوظ نہ رہا۔

    دنیا بھر میں 2025 کی ماحولیاتی تباہیاں

    اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (UNEP) کی رپورٹ کے مطابق، سال 2025 کے دوران یورپ نے اپنی تاریخ کی سب سے طویل گرمی کی لہر دیکھی۔ اٹلی، اسپین اور فرانس میں درجہ حرارت 45 ڈگری سے اوپر جا پہنچا۔ نتیجتاً فصلیں جھلس گئیں، بجلی کا نظام ناکام ہوا اور ہزاروں افراد متاثر ہوئے۔اسی دوران امریکہ اور کینیڈا میں جنگلاتی آگ نے لاکھوں ہیکٹر رقبہ راکھ کر دیا۔ بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی (IPCC) نے اپنی تازہ رپورٹ میں نشاندہی کی ہے کہ بڑھتا ہوا درجۂ حرارت اور طویل خشک سالی جنگلاتی آگ کے خطرے کو دگنا کر رہا ہے۔

    افریقہ میں ایتھوپیا، صومالیہ اور سوڈان جیسے ممالک شدید خشک سالی اور قحط کی زد میں رہے، جہاں لاکھوں افراد خوراک اور پانی کی کمی کا شکار ہوئے۔ جنوبی ایشیا کے کئی حصوں میں سمندری طوفان اور بارشیں تباہی لائیں، خصوصاً پاکستان، بنگلہ دیش اور فلپائن میں لاکھوں لوگ متاثر ہوئے۔ یہ سب مظاہر ایک ہی سمت اشارہ کر رہے ہیں: دنیا ماحولیاتی بحران کے نازک ترین دوراہے پر کھڑی ہے۔

    پاکستان میں مون سون کی تباہ کن بارشیں

    پاکستان میں 2025 کی مون سون بارشیں اپنی شدت اور پھیلاؤ کے اعتبار سے گزشتہ کئی دہائیوں کی نسبت زیادہ خطرناک ثابت ہوئیں۔ کشمیر، گلگت بلتستان،لاہور، پشاور اور اندرونِ سندھ کے کئی علاقے زیرآب آ گئے اور تباہیوں کی نئی داستانیں رقم ہوئیں۔ اقوام متحدہ کے ایک مطالعے کے مطابق، بارشوں کی شدت موسمیاتی تبدیلی کے باعث کم از کم 30 فیصد بڑھ گئی، اور یہ اضافہ انسانی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی گرین ہاؤس گیسوں کا نتیجہ ہے۔ سندھ اور جنوبی پنجاب میں لاکھوں ایکڑ زرعی زمین ڈوب گئی۔ کپاس، چاول اور گنے کی فصلیں تباہ ہوئیں، جس سے پاکستان کی معیشت کو کھربوں روپے کا نقصان ہوا۔ شہری علاقوں میں نکاسیِ آب کے ناقص نظام نے صورتحال کو مزید خراب کیا۔ گلگت بلتستان اور کے پی کے میں گاؤں کے گاؤں صفحۂ ہستی سے مٹ گئے، سیکڑوں لوگ جاں بحق ہوئے اور انفرا اسٹرکچر کو ناقابلِ تلافی نقصان ہوا۔

    گلگت بلتستان اور گلیشیئرز کا خطرہ

    پاکستان کے شمالی علاقوں میں ایک اور خاموش مگر مہلک خطرہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ گلگت بلتستان کے گلیشیئرز دنیا میں سب سے تیزی سے پگھلنے والے گلیشیئرز میں شمار ہوتے ہیں۔ UNEP اور پاکستان میٹرولوجیکل ڈپارٹمنٹ کی مشترکہ رپورٹ کے مطابق، گزشتہ بیس برسوں میں گلیشیئرز کے حجم میں 25 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ اس پگھلاؤ نے درجنوں گلیشیائی جھیلیں پیدا کر دی ہیں، جن میں سے کئی ہر وقت پھٹنے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ 2025 کے دوران ضلع غذر اور ہنزہ میں کم از کم تین بار ایسے واقعات پیش آئے جن سے مقامی آبادی کو نقل مکانی کرنا پڑی۔ یہ صورتحال نہ صرف مقامی برادریوں کے لیے خطرہ ہے بلکہ ملک بھر کی آبی سلامتی کے لیے بھی۔ دریائے سندھ کا زیادہ تر بہاؤ انہی گلیشیئرز پر منحصر ہے۔ اگر یہ تیزی سے پگھلتے رہے تو آنے والے برسوں میں پاکستان کو پانی کے شدید بحران کا سامنا ہو سکتا ہے۔

    سماجی و معاشی نقصانات

    2025 کی تباہ کاریوں نے پاکستان میں نہ صرف بنیادی ڈھانچے کو متاثر کیا بلکہ لاکھوں افراد کی زندگیوں کو براہِ راست بدل دیا۔ دیہی علاقوں میں مکانات منہدم ہوئے، تعلیمی ادارے بند ہوئے اور صحت کی سہولتیں مفلوج ہوئیں۔ متاثرہ علاقوں میں ڈینگی اور ہیضہ جیسے امراض کے پھیلنے کا خطرہ بڑھ گیا۔ زراعت، جو پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی ہے، سب سے زیادہ متاثر ہوئی۔ اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (FAO) کے مطابق، صرف مون سون بارشوں اور سیلابوں کے باعث پاکستان کی زرعی پیداوار میں 15 فیصد کمی واقع ہوئی۔

    عالمی تباہیاں اور پاکستان کا ربط

    پاکستان کی صورتحال کو اگر دنیا کے دیگر خطوں میں رونما ہونے والی آفات کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جائے تو یہ ایک ہی کہانی کے مختلف ابواب ہیں۔ یورپ میں گرمی کی لہریں، افریقہ میں خشک سالی، امریکہ و کینیڈا میں جنگلاتی آگ، اور پاکستان میں بارشوں کے طوفان سب ایک ہی سلسلے کا حصہ ہیں۔ IPCC کی چھٹی رپورٹ (AR6) نے خبردار کیا تھا کہ اگر درجہ حرارت 1.5 ڈگری سے اوپر چلا گیا تو دنیا کو شدید اور ناقابلِ واپسی نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 2025 کی صورتحال نے یہ خدشات ایک تلخ حقیقت میں بدل دیے ہیں۔

    پاکستان کو فوری طور سے ہنگامی بنیادوں درج ذیل اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ ارلی وارننگ سسٹمز کو دیہی سطح تک مضبوط اور قابلِ عمل بنانے کے ساتھ شہری منصوبہ بندی میں ماحولیاتی لچک کو شامل کرنا ہو گا تاکہ بڑے شہروں میں نکاسی آب اور انفراسٹرکچر مستقبل کے دباؤ کو برداشت کر سکے، زرعی شعبے کو کلائمٹ ریزیلینٹ بیج اور ٹیکنالوجی فراہم کی جائے تاکہ فصلیں غیر معمولی بارشوں یا خشک سالی کو برداشت کر سکیں، گلگت بلتستان کے گلیشیئرز پر ریسرچ اور مانیٹرنگ سسٹم کو جدید بنانا ہو گا تاکہ GLOFs جیسے واقعات سے بروقت نمٹا جا سکے،عالمی سطح پر کلائمٹ فنانس کے حصول کے لیے پاکستان کو زیادہ متحرک سفارت کاری کے ذریعے باور کرانا ہو گا کہ پاکستان موسمیاتی تباہیوں کا مرکز بن چکا ہے تاکہ نقصانات کی تلافی اور لچکدار معیشت کی تعمیر ممکن ہو سکے۔

    2025 کی ماحولیاتی تباہیاں ہمیں یہ سبق دیتی ہیں کہ موسمیاتی بحران اب مستقبل کی دھمکی نہیں بلکہ حال کی حقیقت ہے۔ پاکستان کی مون سون بارشیں اور گلگت بلتستان کے پگھلتے گلیشیئرز اس بحران کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والی نسلیں ایک ایسے پاکستان کی وارث ہوں گی جہاں پانی کمیاب، زمین بنجر اور موسم مہلک ہوگا۔ یہ لمحہ موجود ایک انتباہ ہے کہ ہمیں اپنی پالیسیوں، طرزِ زندگی اور ترقیاتی منصوبوں کو فوری طور پر ماحولیاتی تقاضوں کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔ ورنہ، 2025 کی تباہیاں محض آغازہیں اور انجام؟؟

    حوالہ جات:
    عالمی موسمیاتی تنظیم (WMO)، 2025 — عالمی موسم کی صورتحال پر رپورٹ
    اقوام متحدہ ماحولیاتی پروگرام (UNEP)، 2025 — ماحولیاتی ایمرجنسی پر تازہ رپورٹس
    بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی (IPCC)، چھٹی جامع رپورٹ (AR6)، 2023–2025 کے نتائج
    فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (FAO)، 2025 — جنوبی ایشیا میں زراعت پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات
    پاکستان محکمہ موسمیات (PMD)، 2025 — مون سون بلیٹن اور گلیشیئر مانیٹرنگ رپورٹس
    ایشیائی ترقیاتی بینک (ADB)، 2024–2025 — پاکستان میں موسمیاتی اور قدرتی آفات سے تحفظ کی حکمتِ عملی

  • رائے: جنوبی ایشیا کو کرائیوسفیئر کے تحفظ اور علاقائی استحکام کے لئے متحد ہونا ہوگا

    رائے: جنوبی ایشیا کو کرائیوسفیئر کے تحفظ اور علاقائی استحکام کے لئے متحد ہونا ہوگا

    اس سال ماحولیات کا عالمی دن ایسے وقت میں منایا جا رہا ہے جب گزشتہ چھ ماہ کے دوران جنوبی ایشیا میں قومی انتخابات اس خطے کے تین اہم ممالک پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت میں ہوئے۔

    قیادت کی گرما گرمی اور الیکشن مہم کی بیان بازی میں جنوبی ایشیا کی مشترکہ تاریخ، ثقافت اور ماحولیات کو نظر انداز کیا گیا۔ خطے کے ممالک کے درمیان تعاون کی کمی کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے- یہ سادہ سی حقیقت اس قدر اہم ہے کہ اگر ہم نے مل کر کام نہ کیا تو اس خطے میں رہنے والے تمام لوگوں کا مستقبل آب و ہوا سے پیدا ہونے والی آفات کی وجہ سے خطرے میں پڑ جائے گا۔

    عائشہ خان لکھتی ہیں کہ جنوبی ایشیا میں موسمیاتی تبدیلی کے مسائل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، لیکن اپنی سماجی و ثقافتی مماثلتوں کے باوجود یہ دنیا کا سب سے کم باہمی تعلق والا خطہ ہے۔

    موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی وجہ سے اِن ممالک کو زیادہ مؤثر طریقے سے مل کر تعاون کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ موسمیاتی تبدیلی قومی حدود سے قطع نظر عالمی سطح پر ہر کسی کو متاثر کرتی ہے۔ جب ایک مسئلہ دوسرے کی طرف لے جاتا ہے اور صورت حال کو مزید خراب کرتا ہے۔ اور یہ کیفیت ڈومینو اثر کو پیدا کرتی ہے جس سے موسمیاتی تبدیلی کے نتائج مزید سنگین ہو جاتے ہیں۔

    جنوبی ایشیا میں خطرات کا سلسلہ پہاڑوں سے شروع ہوتا ہے اور سمندر کی طرف جاتا ہے، جس کے درمیان کی ہر چیز متاثر ہوتی ہے۔ یہ خطہ اچانک رونما ہونے والے جغرافیائی تغیرات، مختلف آب و ہوا کے علاقوں اور ماحولیاتی نظام کی ایک متنوع رینج سے بھی نشان زد ہے، جو مل کر برصغیر کی پیچیدہ جیوفزیکل اکائی تشکیل دیتے ہیں۔

    شمالی اور جنوبی قطبوں کے بعد تیسرا قطب منجمد پانی کے سب سے زیادہ ذخائر رکھتا ہے۔ یہ نو ممالک میں 4.2 ملین مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے اور تبتی سطح مرتفع، ہمالیہ، قراقرم، ہندوکش، پامیر اور تیان شان پہاڑوں کو گھیرے ہوئے ہے۔ یہاں جو کچھ ہوتا ہے وہ اس علاقے تک محدود نہیں رہے گا۔ اِن موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا یہ سلسلہ مقامی اور عالمی موسمیاتی نظام کو متاثر کرے گا۔ انسانی ٹائم اسکیل پر وہ لمحہ جب کرائیوسفیئر (زمین کے وہ حصے جہاں پانی منجمد ہے) نمایاں طور پر تبدیل ہوتا ہے (ٹپنگ پوائنٹ) آہستہ آہستہ ہوتا نظر آتا ہے۔ لیکن ایک بار جب یہ ایک خاص حد کو عبور کر لیتا ہے تو اس کے اثرات رک نہیں سکتے اور یہ زمین کے نظام میں بڑی تبدیلیوں کا باعث بن سکتا ہے۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ وقت کے ساتھ پھیلنے والی ایسی تبدیلیوں کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر معدومیت ہوسکتی ہے۔آج کچھ لوگوں کو خدشہ ہے کہ کرہ ارض اپنی چھٹی معدومیت کی طرف بڑھ رہا ہے۔

    جنوبی ایشیا بار بار آنے والی ان شدید آفات سے نمٹنے کے لئے کس حد تک تیار ہے؟ کیا معمول کے مطابق کام کرنا اب بھی ایک قابل عمل آپشن ہے؟ یہ کچھ سوالات ہیں جن کو حل کرنے کی ضرورت ہے اس سے پہلے کہ کوئی بھی مکالمہ شروع کیا جائے تاکہ تعاون پر بات چیت کے لئے راہ نکالی جا سکے۔ اب سے پہلے ماضی میں صورتحال کو برقرار رکھنا ممکن تھا کیونکہ علاقائی ممالک، اگرچہ بڑھتی ہوئی مشکلات کے باوجود، ماحولیاتی خدمات میں خلل اور موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے مسائل کو سنبھالنے کے قابل تھے۔ لیکن اب صورتِ حال واضح نہیں ہے کہ آیا وہ یہ کام جاری رکھ سکتے ہیں یا نہیں۔

    تاہم، موجودہ عالمی اخراج اور ضروری تخفیف کی کوششوں کے درمیان بڑھتا ہوا گیپ جو کہ کرہ زمین کو 1.5 سینٹی گریڈ کی محفوظ حد کے اندر رہنے کے لئےچاہیے وہ پہنچ سے باہر ہو رہا ہے۔ خطے میں صورتحال غیر یقینی ہے اور تیزی سے بدل رہی ہے۔ دو ارب آبادی والے اِس خطے میں عدم استحکام کے دنیا پر تباہ کن اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ انفرادی ممالک کی اِس خطرے سے نمٹنے کی صلاحیتیں ناکافی معلوم ہوتی ہیں۔

    زمین کی غیر خطی آب و ہوا کے رد عمل کی تاریخ غیر یقینی صورتحال میں اضافہ کرتی ہے، جس سے معمول کے مطابق موسمیاتی اِقدامات کے بجائے نئے حل تلاش کرنا ضروری ہوجاتا ہے جو خطرات کو کم کرتے ہیں۔

    نئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ گلوبل وارمنگ نے جنوبی ایشیا کے بلند و بالا پہاڑوں میں برف کے پگھلنے کی شرح کو تیز کردیا ہے۔ اگر ہم زمین کے درجہ حرارت کو تبدیل کرتے رہیں (جیسے تھرموسٹیٹ کے درجہ حرارت کو اوپر نیچے کرتے رہنا) تو یہ بالآخر بہت تیزی سے بہت زیادہ برف پگھلنے کا سبب بنے گا۔ اس سے سمندر کی سطح میں ایک بڑا اضافہ ہوسکتا ہے جسے ہم روکنے یا پلٹنے کے قابل نہیں ہوں گے۔

    لہذا، جغرافیائی سیاسی فالٹ لائنوں کے باوجود، پانی تعاون کے لئے ایک زبردست کیس فراہم کرتا ہے۔ ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کے پہاڑوں (ایچ کے ایچ) کی برف اور گلیشیئرز زندگی کے وسیلے کے طور پر کام کرتے ہیں جو 10 دریاؤں کے بیسن کو برقرار رکھتے ہیں اور 1.9 ارب لوگوں کو سہارا دیتے ہیں۔ ایک مربوط نقطہ نظر کی عدم موجودگی خطے کو اُن خطرات کا سامنا کرنے کے لئے ہوشیار اور تیار نہیں کرتی ہے جو مستقبل میں آہستہ ، اچانک اور انتہائی موسمیاتی واقعات سے جنم لے سکتے ہیں۔

    انٹرنیشنل سینٹر فار انٹیگریٹڈ ماؤنٹین ڈیویلپمنٹ کی حالیہ رپورٹ، ایلیوٹنگ ریور بیسن گورننس اینڈ کوآپریشن ان ایچ کے ایچ ریجن، مشکلات کے ساتھ ساتھ بیسن کے حوالے سے تعاون کو مضبوط کرنے کے لئے درکار اقدامات کی یاد دہانی ہے۔ یہ کامیاب پالیسیاں بنانے اور اس کے مؤثر نفاذ کو یقینی بنانے کے لئے حکومتی کردار پر روشنی ڈالتا ہے۔ رپورٹ کے کچھ کلیدی مسائل واٹر گورننس فریم ورک تیار کرنے، خواتین واٹر پروفیشنلز کے لئے مواقع پیدا کرنے، موجودہ علم کو دستاویزی شکل دینے، مشترکہ نقطہ نظر اور اوزاروں کو اپنانے کی حوصلہ افزائی کرنے اور عوام پر مرکوز نقطہ نظر کی حمایت کرنے سے متعلق ہیں جو جامع اور وسیع بنیاد ہوں۔

    پہاڑی ماحولیاتی نظام اور برادریوں کے بغیر منجمد پانی اور برف کے بارے میں کوئی بات چیت نہیں ہوسکتی ہے۔ تبدیلیوں، مشکلات اور آفتوں کے محاذ پر زندگی بسر کرنے والی پہاڑی برادریوں میں بہت سی مماثلتیں پائی جاتی ہیں جو سرحدوں کو کاٹتی ہیں اور مشترکہ مشکلات پیش کرتی ہیں۔ زراعت کے لئے پگھلے ہوئے پانی پر زیادہ انحصار برادریوں کو زیادہ غیر محفوظ بنادیتا ہے۔ زیادہ اونچائی اور فصلوں کا مختصر موسم زراعت کے لئے استعمال ہونے والے پگھلے ہوئے پانی کے وقت اور مقدار میں تغیر کو جذب کرنے کے لئے بہت کم گنجائش چھوڑتا ہے۔ ہائیڈرولوجی پیٹرن میں تبدیلیوں کے پہاڑی برادریوں کی زندگیوں پر بے شمار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ غذائی قلت، نقل مکانی، قابل کاشت زمین کا نقصان اور غربت میں اضافہ پانی کے بہاؤ کے انداز میں تبدیلی سے جڑے کچھ موروثی خطرات ہیں۔

    علاقے کی زیادہ تر آبادی پیشہ کے اعتبار سے زراعت، مویشیوں اور ماہی گیری پر انحصار کرتی ہے۔ کسی بھی طرح کی اچانک موسمی رکاوٹیں کمیونٹیز کو چاہے وہ اوپری طرف رہتی ہوں یا نیچے کی طرف دونوں کو متاثر کرتی ہیں جس سے ایک رد عمل کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جو سماجی توازن کو بگاڑتا ہے، مفاد پرست گروہوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرتا ہے اور اختلافات اور تصادم کا باعث بنتا ہے۔

    جنوبی ایشیا میں اوسطاً 25 سالہ نوجوان ایک اہم ڈیموگرافک (مطالعہ جمہور)کا حصہ ہے جو معاشرے کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اِن نوجوانوں کے نئے نقطہ نظر اور عزائم سماجی ترقی کو بہت فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ تاہم، اگر دولت کی غیر مساوی تقسیم اور وسائل اور مواقع تک محدود رسائی جیسے اِن کے خدشات پر توجہ نہیں دی گئی تو بدامنی کا خطرہ بھی ہے۔

    اس سے پہلے کہ موقع ہاتھ سے نکل جائے، جنوبی ایشیا کے لئے اب بھی وقت ہے کہ وہ اپنے ماضی پر نظرثانی کرے، حال کا تجزیہ کرے اور محفوظ مستقبل کے لئے منصوبہ بندی کرے۔

    جنوبی ایشیا میں موسمیاتی تبدیلیوں کی حرکیات ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں، لیکن اپنی سماجی و ثقافتی مماثلتوں کے باوجود باہمی تعاون کے فقدان کے باعث یہ دنیا کا سب سے کم مربوط خطہ ہے، جو اپنے لوگوں کو بڑھتے ہوئے خطرات سے دوچار کرتا ہے۔

    سماجی اصول اس بات کا تعین کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں کہ لوگ مشکل وقت کا کیسے سامنا کریں گے۔خوراک کی بڑھتی ہوئی قلّت اور بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ، جنوبی ایشیا کے لئے ہمدردی، افہام و تفہیم اور احترام کی ثقافت کو فروغ دینا ضروری ہے جو اس کی مشترکہ تاریخ کے ثقافتی اقدار کی علامت ہو۔

    نومبر میں آذربائیجان میں ہونے والی موسمیاتی کانفرنس جنوبی ایشیا کو عالمی ماحولیاتی تشخیص میں کرائیوسفیئر (زمین کے وہ حصے جہاں پانی منجمد ہے) کی شمولیت کی وکالت کرنے کے لئے متحد ہونے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ یہ ہماری پہاڑی برف کی حفاظت کے لئے تعاون کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ خطے کی ماحولیاتی سالمیت کے تحفظ کے لئے سول سوسائٹی کو اپنی کوششیں تیز کرنی چاہئیں۔ اگر تیسرا قطب بربادی کا شکار ہوتا ہے تو یہ پورے خطے کے لئے تباہی کا باعث بنے گا۔

    (عائشہ خان کی یہ تحریر ڈائیلاگ ارتھ پر شایع ہوچکی ہے اور اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہے)

  • ’موسمیاتی تبدیلیوں کا مالی بوجھ ترقی یافتہ ممالک برداشت کریں‘

    ’موسمیاتی تبدیلیوں کا مالی بوجھ ترقی یافتہ ممالک برداشت کریں‘

    واشنگٹن: امریکی نمائندہ خصوصی برائے ماحولیات جان کیری نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کا مالی بوجھ ترقی یافتہ ممالک برداشت کریں۔

    عرب نیوز کے مطابق جان کیری نے کہا ہے کہ امریکا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں کے مسائل سے نمٹنے کے لیے زیادہ سے زیادہ مالی بوجھ برداشت کرنا چاہیے۔

    جان کیری نے پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ ترقی پذیر ممالک کا گلوبل وارمنگ میں سب سے کم حصہ ہے، لیکن ان میں سے اکثریت ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے خطرے کی زد میں ہیں۔

    جو بائیڈن کے نمائندہ خصوصی کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں جو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات دکھائی دے رہے ہیں، ان کی وجہ وہ 20 ممالک ہیں جو سب سے زیادہ ترقی یافتہ ہیں، جب کہ سب سے زیادہ متاثر ہونے والے 17 ممالک براعظم افریقہ میں موجود ہیں، اور افریقی ممالک دنیا بھر میں ہونے والے کاربن اخراج میں سے صرف تین فیصد کے لیے ذمہ دار ہیں۔

    انھوں نے اگلی عالمی ماحولیاتی کانفرنس کوپ28 کے عرب امارات میں انعقاد پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکا صدر شیخ محمد بن زاید کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔

    جان کیری نے کہا کاربن کے اخراج میں اضافے کی سائنسی حقیقت کو مسترد نہیں کیا جا سکتا، ہمیں اس اخراج کو قابو کرنا ہوگا۔ ترقی پذیر ممالک کے خدشات سے نمٹنے کے لیے امریکا کی جانب سے 12 ارب ڈالر کی امداد مختص کی گئی ہے۔

  • موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے عام لوگ کیا کریں؟

    موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے عام لوگ کیا کریں؟

    اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ آلودگی، موسمیاتی یا ماحولیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ سائیکل چلا کر کیا جا سکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ میں ایک قرارداد منظور کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آلودگی اور موسمیاتی یا ماحولیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے لوگوں میں سائیکل چلانے کے رجحان کو فروغ دیا جائے گا۔

    یہ قرارداد دنیا کے 193 ممالک نے منظور کی، اور اسے اقوام متحدہ میں ترکمانستان نے پیش کیا تھا۔

    خیال رہے کہ سائیکلنگ ایک بہترین جسمانی سرگرمی یا ورزش سمجھی جاتی ہے، ماہرین صحت اس کی تجویز دیتے ہیں، ایندھن والی سواریوں کے مقابلے میں سائیکل کے استعمال سے ظاہر ہے کہ آلودگی کم ہو سکتی ہے۔

    اس قرارداد میں اقوام متحدہ کے رکن ممالک کو تجویز دی گئی ہے کہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے شہری اور دیہی علاقوں کی پبلک ٹرانسپورٹ میں سائیکل کو بھی شامل کیا جائے۔

    سڑک پر سائیکل چلانے والوں کے لیے حفاظتی اقدامات کو بڑھانے اور بائیک کی سواری کے فروغ سے دیرپا ترقی اور گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی کا عالمی ہدف حاصل کیا جا سکتا ہے۔

    ترکمانستان نے اپنی پیش کردہ قرارداد کے ذریعے تجویز دی کہ دنیا بھر میں جب بھی اور جہاں بھی عالمی، علاقائی اور ملکوں کی قومی ترقی کی پالیسی اور پروگرام مرتب کیے جائیں، ان میں سائیکل چلانے کے رجحان کو فروغ دینے کے لیے خصوصی اقدامات بھی کیے جائیں۔

  • ’’رہبر اول‘‘ کے بارے میں‌ جانیے

    ’’رہبر اول‘‘ کے بارے میں‌ جانیے

    قیامِ پاکستان کے بعد جہاں ملک میں اس وقت کے قابل اور باصلاحیت لوگوں نے مختلف شعبوں کا نظام سنبھالا اور وطنِ عزیز کو ہر لحاظ سے مضبوط اور مستحکم کرنے، ہر شعبے میں خود کفیل اور توانا ہونے کے لیے دن رات کام کیا وہیں، سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے پر بھی توجہ دی گئی اور ماہرین نے اپنی صلاحیتوں کو منوایا۔ اس حوالے سے فضا میں راکٹ بھیجنے کا تجربہ بھی کیا گیا جو 1962 کی بات ہے۔

    سون میانی وہ مقام ہے جہاں سے جون کی سات تاریخ کو شام 7 بج کر 53 منٹ پر پاکستان نے اپنا پہلا راکٹ فضا میں‌ بلند ہوا۔

    یہ راکٹ 80 میل کی بلندی تک پہنچا جسے ’’رہبر اول‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ پاکستانی سائنس دانوں اور انجینئروں نے اسے موسم کی صورتِ حال جاننے کے لیے تیار کیا تھا۔

    اس راکٹ کے پہلے تجربے کے ساتھ ساتھ اس کی مدد سے ماہرین یہ جاننا چاہتے تھے کہ بحیرہ عرب کے ساحلی علاقے میں ہوائوں کا رخ اور فضا کی کیفیت کیا ہے۔

    پاکستان اس وقت اسلامی ممالک میں وہ پہلا ملک تھا جس نے راکٹ کا یہ تجربہ کیا۔

  • بحرِ ہند: سونامی کی لہریں کتنی دیر میں کراچی تک پہنچ سکتی ہیں؟

    بحرِ ہند: سونامی کی لہریں کتنی دیر میں کراچی تک پہنچ سکتی ہیں؟

    دنیا بھر میں موسمی اور ماحولیاتی تبدیلیوں نے زمین اور اس پر سانس لیتی ہر نوع کی مخلوق کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں ماحول کے لیے خطرہ اور آلودگی بڑھ رہی ہے۔

    2018 کے گلوبل کلائمٹ رسک انڈيکس ميں پاکستان کو ان ممالک کی فہرست ميں شامل کیا گیا تھا جو موسمی تبديليوں سے سب سے زيادہ متاثر ہوں گے۔ جغرافيائی لحاظ سے پاکستان جس خطے میں واقع ہے، اس میں ماہرین کی پيش گوئيوں کے مطابق درجۂ حرارت ميں اضافے کی رفتار سب سے زيادہ رہے گی۔

    2018 کے ایک جائزے کے مطابق پاکستان میں‌ دو دہائیوں کے دوران موسمی تبديليوں کی وجہ سے طوفان، سيلاب اور ديگر قدرتی آفات کی وجہ سے جانی اور مالی نقصانات بھی ہوئے ہیں۔

    اگر بات کریں‌ کراچی کی تو 1945 ميں اس شہر نے سونامی کا سامنا کیا تھا۔ عالمی اداروں کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کبھی بحرِ ہند ميں بڑا زلزلہ آیا تو سونامی کی لہريں صرف ايک سے ڈيڑھ گھٹنے ميں کراچی کے ساحل تک پہنچ سکتی ہيں جو پورے شہر کو لے ڈوبيں گی۔

    ماہرین کے مطابق پاکستان بھر ميں کبھی چار لاکھ ہيکٹر زمين پر مينگرو کے جنگلات تھے جو گھٹ کر ستر ہزار ہيکٹر تک محدود ہو گئے ہیں۔ مينگرو کے درخت سونامی جيسی قدرتی آفات میں دفاع کا کام کرتے ہيں۔
    عالمی حدت اور موسمی تغیرات کی وجہ سے پاکستان میں زراعت بھی متاثر ہے۔ مختلف فصلوں کی پیداوار پر منفی اثرات کے باعث خدشہ ہے کہ آئندہ برسوں میں پاکستان کو غذائی قلت کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔