Tag: موسمیاتی تبدیلی

  • کوپ 29: معاہدہ ہو گیا، امیر ممالک 1.3 کھرب ڈالر دینے کے لیے تیار ہو گئے

    کوپ 29: معاہدہ ہو گیا، امیر ممالک 1.3 کھرب ڈالر دینے کے لیے تیار ہو گئے

    باکو: کوپ 29 میں موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے مالیاتی معاہدے پر اتفاق ہو گیا۔

    کوپ 29 میں موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے مالیاتی معاہدے پر اتفاق ہو گیا، امیر ملکوں نے 1.3 ٹریلین ڈالر فنڈ دینے کی یقین دہانی کرا دی۔

    امیر ممالک نے کوپ 29 کانفرنس وعدہ کیا کہ ترقی پذیر ملکوں میں موسمیاتی تبدیلی سے تباہی روکنے کے لیے 2035 تک ریکارڈ 300 ارب ڈالر دیں گے، یہ فنڈ گرانٹ اور پراجیکٹس کے لیے دیے جائیں گے، نجی سطح پر سرمایہ کاری بھی کی جائے گی۔

    اقوام متحدہ کے موسمیاتی ادارے کے سربراہ سائمن اسٹیل نے اس معاہدے کو خوش آئند قرار دیا، تاہم سماجی تنظیمیں اس معاہدے کو دھوکا سمجھ رہی ہیں۔

    پاور شفٹ افریقا نامی تھنک ٹینک کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ امیر ملکوں نے فوری فنڈ دینے کی بجائے مستقبل کے وعدے کیے ہیں، جو موسمی تغیر سے متاثرہ ملکوں کے ساتھ دھوکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ملکوں میں زندگیاں ختم ہو رہی ہیں اور یہ پیسے بعد میں دیں گے۔

    واضح رہے کہ کلائمٹ فنانس پر مرکزی توجہ کے ساتھ کوپ 29 نے باکو، آذربائیجان میں تقریباً 200 ممالک کو اکٹھا کیا، جو آخرکار اس معاہدے پر پہنچ گئے کہ: ترقی پذیر ممالک کو تین گنا پبلک فنانس دیا جائے گا، یعنی پچھلے ہدف 100 ارب امریکی ڈالر سالانہ سے اب 2035 تک سالانہ 300 ارب امریکی ڈالر فنڈ دیا جائے گا، سرکاری اور نجی ذرائع سے 2035 تک ہر سال 1.3 ٹریلین امریکی ڈالر کی رقم ترقی پذیر ممالک کو بہ طور مالی اعانت دی جائے گی.

    اقوام متحدہ کے موسمیاتی تغیر کے ایگزیکٹو سیکریٹری سائمن اسٹیل نے کہا ’’یہ نیا مالیاتی ہدف انسانیت کے لیے ایک انشورنس پالیسی ہے، اس لیے ہر انشورنس پالیسی کی طرح یہ بھی اسی وقت کام کرے گی جب پریمیم بروقت اور مکمل طور پر ادا کیے جائیں، اور اربوں جانوں کے تحفظ کے لیے وقت پر وعدے پورے کیے جائیں۔‘‘

  • کوپ 29 کیا ہے اور پاکستان کے لیے کیوں اہم ہے؟

    کوپ 29 کیا ہے اور پاکستان کے لیے کیوں اہم ہے؟

    مجتبیٰ بیگ

    کہنے کو تو یہ ایک کانفرنس ہوتی ہے مگر اِس میں ہونے والی سرگرمیاں کسی میلے سے کم نہیں ہوتیں۔ ہرسال ساری دنیا سے حکومتی، سول سوسائٹی، درس و تدریس، تحقیق، سائنسی علوم، صحافت اور تجارت سمیت مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے لوگ کسی ایک ملک کے بڑے شہر میں جمع ہوکر موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام کی کوششوں کا جائزہ لیتے ہیں۔

    دس دن تک روزانہ صبح سے شام تک کانفرنس، اس دوران چھوٹے چھوٹے کئی ذیلی اجلاس، کھانا پینا اور ساتھ ساتھ گپ شپ، گفت و شنید اور کانفرنس گاہ سے باہر پرجوش موسمیاتی کارکنوں کے موسمیاتی تبدیلی کے ذمہ داروں کے خلاف مظاہرے اور دھرنے جاری رہتے ہیں۔ چند ہزار لوگ اس میں حکومتی خرچے پر شامل ہوتے ہیں جبکہ کثیر تعداد اپنے نجی اداروں کی مالی معاونت سے اور ایک بڑی تعداد اپنے خرچے پر بھی اس میں شامل ہوتی ہے۔

    کانفرنس ہال کے سبز پنڈال میں سول سوسائٹی کے نمائندے، صحافی، دنیا کی قدیم تہذیبوں کے پیروکار، ماہرین تعلیم، موسمیاتی و ماحولیاتی کارکنان اور مبصرین جبکہ نیلے پنڈال میں ہر قسم اور ہر سطح کے بابو لوگ یعنی حکومتی نمائندے، سرکاری اہلکار، سرکاری تیکنیکی ماہرین و نمائندے اور وہ سب لوگ جو کسی نہ کسی ملک کے حکومتی وفد کے ساتھ ہوں وہ سب بڑی شان کے ساتھ وہاں بیٹھے ہوتے ہیں۔

    دونوں پنڈالوں میں بیٹھے لوگوں کا مقصد ایک یعنی موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام جبکہ راستہ الگ الگ ہوتا ہے۔ سبز پنڈال والے موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام کے لیے کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ اقدامات کرنے کے حامی ہوتے ہیں جبکہ نیلے پنڈال میں بیٹھے لوگوں کی کوشش کسی کو ناراض کیے بغیر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کے اقدامات کرنا ہوتی ہے جو قدرے مشکل اور وقت طلب ہے۔

    گزشتہ تیس سال میں کل اٹھائیس کانفرنسیں ہوچکی ہیں جبکہ انتیسویں کانفرنس اگلے ماہ کے دوسرے اور تیسرے ہفتے میں آذر بائیجان کے شہر باکو میں ہونے جارہی ہے۔ اسی کی دہائی کے آخر میں سائنسدانوں کی جانب موسمیاتی تبدیلی کے رسمی انکشاف کے بعد 1992 میں اقوام متحدہ کے تحت سارے ملکوں نے موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام کا ایک تاریخی معاہدہ کیا تھا جسے یو این ایف سی سی (یونائٹیڈ نیشنز فریم ورک کنونشن فار کلائمیٹ چینج) کہتے ہیں جس پر عملدرآمد کے سیکریٹریٹ نے ہر سال موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام کے جائزے کے لیے کانفرنس آف پارٹیز کرانے کا اعلان کیا تھا جو اب کوپ کے نام سے جانی جاتی ہے۔

    سب سے پہلی کوپ 1995 میں جرمنی کے شہر برلن میں ہوئی تھی۔ اس کے بعد سے مستقل ہر سال یہ کانفرنس ہورہی ہے جس میں 2019 اور 2020 میں کویڈ کی وجہ سے تعطل آیا تھا۔ سب سے پہلی کوپ میں بمشکل بارہ سو لوگ شریک ہوئے تھے جبکہ گزشتہ سال ہونے والی کوپ 28 میں 80 ہزار سے زائد افراد کی شرکت ریکارڈ تھی اور قیاس ہے کہ اس سال یہ تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر جائے گی۔

    1997 میں جاپان کے شہر کیوٹو میں ہونے والی کوپ 3 اس لیے اہم ہے کیونکہ اس میں ترقی یافتہ ممالک کے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کے لیے کیوٹو پروٹوکول نام سے معاہدہ کیا گیا تھا جبکہ 2009 میں کوپن ہیگن میں ہونے والی کوپ 15 میں ترقی یافتہ ملکوں کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے متاثرہ ترقی پذیر ممالک کی امداد کے لیے 2020 تک 100 ارب ڈالر کا موسمیاتی مالیات کا فنڈ قائم کریں جس کا ہدف بڑی مشکلوں سے 2022 تک پورا ہو پایا تھا، اس میں بھی ترسیلات سے زیادہ مالی وعدوں اور عزائم کی اکثریت ہے۔

    سال 2015 میں کوپ 21 میں پیرس معاہدہ ہوا تھا جو موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اس میں عزائم اور وعدوں کے بجائے باقاعدہ اہداف رکھے گئے ہیں جن کے مطابق دنیا کے تمام ممالک کو فوسل فیول سے قابل تجدید توانائی کی طرف منتقلی کے ذریعے 2030 تک گرین ہاؤس گیسوں کا عالمی اخراج نصف تک لانا ہے اور 2050 تک مکمل طور پر قابل تجدید توانائی کی طرف منتقل ہو کر عالمی اخراج صفر تک پہنچا دینا ہے تاکہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو ترجیحاً 1.5 ڈگری تک روکا جاسکے۔

    دو سال قبل مصر کے شہر شرم الشیخ میں ہونے والی کوپ 27 میں معمول کی موسمیاتی امداد کے فنڈ کے علاوہ موسمیاتی آفات سے بچاؤ کے لیے ہنگامی امداد کا فنڈ بھی قائم کرنے کا اعلان ہوا تھا تاکہ ترقی پذیر اور غریب ممالک میں موسمیاتی آفات سے ہونے والی تباہیوں کا فوری طور پر ازالہ کیا جاسکے۔ اس فنڈ کو لاس اینڈ ڈیمیج فنڈ کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے قیام میں پاکستان اور بنگلہ دیش نے کلید ی کردار اد کیا تھا۔ تاہم یہ فنڈ مکمل طور پر اب تک فعال نہیں ہوسکا ہے حالانکہ دبئی میں ہونے والی کوپ 28 میں بھی اس پر کافی بات ہوئی تھی۔

    اگلے ماہ باکو میں ہونے والی کوپ 29 میں 100 ارب ڈالر کے موسمیاتی فنانس کے فنڈ کو سالانہ بنیادوں پر فعال کرنے، گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی تلافی کے سرٹیفکیٹس جنہیں کاربن کریڈٹ کہتے ہیں اس کی تجارت کو پوری دنیا میں پھیلانے، لاس اینڈ ڈمیج فنڈ کو فوری طور پر فعال کرنے کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلی سے موافقت کے اقدامات کی ہر طرح کی سپورٹ کرنے جیسے اہم نکات پر پیش رفت ہونے کا بھی امکان ہے۔

    کوپ 29 پاکستان کے لیے بھی دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح یکساں اہم ہے کیونکہ پاکستان بھی اُن ممالک میں شامل ہے جن کا گلوبل وارمنگ کی ذمہ دار گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں حصہ تو ایک فیصد سے بھی کم ہے جبکہ موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں اس کا پانچواں نمبر ہے۔ 2022 کے سیلابوں میں سندھ میں ہونیوالے جانی و مالی نقصانات 3 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہیں جن کا ایک معمولی حصہ بھی پاکستان کو نہیں ملا ہے کیونکہ لاس اینڈ ڈمیج فنڈ میں اب تک چند ملین ڈالر سے زائد رقم نہیں آسکی ہے۔ اسی طرح موسمیاتی فنانس کی مد میں بھی اب تک موسمیاتی موافقت کے آٹھ پروجیکٹ پاکستان کو ملے ہیں جن کی مالیت پچیس کروڑ ڈالر ہے اور جو سب کی سب گرانٹ نہیں بلکہ بڑا حصہ آسان شرائط کے قرضوں پر مشتمل ہے۔

    کاربن کریڈٹ کے ذریعے ایسے کاموں کی تلافی کی جاتی ہے جن سے گرین ہاؤس گیسیں لازمی نکلتی ہیں اس لیے تلافی کے طور پر کاربن جذب کرنے کے ایسے کاموں کی مالی سپورٹ کی جاتی ہے جو کہیں اور کیے جارہے ہوں اس طرح کاربن جذ ب کرنے والے کو اپنے کام کا معاوضہ مل جاتا ہے اور کریڈٹ خریدنے والے کے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی تلافی ہوجاتی ہے۔ کاربن کریڈٹ کی خرید وفروخت کی مارکیٹ بھی اب تک پوری دنیا میں پھیل نہیں سکی ہے جس کا کوپ 29 میں واضح لائحہ عمل طے کرنا ہوگا تاکہ کاربن کے اخراج کی تلافی کرنے والے اس بڑے ذریعے کو فروغ دیا جاسکے۔ پاکستان میں اگر سنجیدگی سے کاربن مارکیٹ قائم اور اسے پیشہ وارانہ انداز سے چلایا جائے تو اس میں 2 ارب ڈالر سالانہ تک کمانے کی گنجائش ہے۔

    موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام کے دو بڑے ذریعے تخفیف اور موافقت ہیں۔ تخفیف کا مطلب ہے فوسل فیول کا استعمال ختم یا کم کرکے قابل تجدید توانائی کی طرف منتقلی جبکہ موافقت کا مطلب ہے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے مقابلے کے لیے اپنی صلاحیت بڑھانا اور اپنے انفرااسٹرکچر، صنعت، زراعت اور آمدو رفت کے وسائل کو پائیداراور مستحکم بنانا تاکہ موسمیاتی آفات سے کم سے کم نقصان ہو۔ اب تک دنیا میں موسمیاتی تخفیف کے لیے تو معقول اقدامات کیے جارہے ہیں تاہم موافقت کے نتائج جانچنے کا کوئی پیمانہ نہ ہونے کے باعث موافقت کے منصوبوں کی سپورٹ کم کی جارہی ہے۔ اس مسئلے کا حل نکالنے کے لیے بھی کوپ 29 میں عملی اقدامات تجویز کیے جانے کی امید ہے۔ پاکستان کو سندھ اور بلوچستان میں خاص طور پر موسمیاتی تبدیلی سے موافقت قائم کرنے کے لیے 10 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔

    الغرض پاکستان سمیت موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ تمام ممالک کی نظریں کوپ 29 پر لگی ہوئی ہیں تاکہ اگر وہ اپنے ایجنڈا میں شامل نصف نکات پر بھی کسی واضح لائحہ عمل کا اعلان کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو موسمیاتی تبدیلی کے ذمہ دار ترقی یافتہ ممالک کے پاس موسمیاتی فنانس اور لاس اینڈ ڈمیج فنڈ میں اپنا پورا حصہ ڈالنے سے بچنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہے گا اور اسی طرح کاربن مارکیٹ کے پھیلاؤ اور موسمیاتی موافقت کے منصوبوں کی سپورٹ کے لیے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کو قابل پیمائش اہداف دینے ہوں گے تاکہ مل جل کر دنیا کے شمالی اور جنوبی حصے سیارہ زمین کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچا سکیں۔

    (ماحولیات اور موسمیاتی تبدیلیاں مجتبیٰ بیگ کا موضوع ہیں جس پر وہ مضامین لکھتے رہتے ہیں، ماحولیاتی انسائیکلوپیڈیا کے عنوان سے ان کی ایک تصنیف اور بطور مترجم دو کتابیں شایع ہوچکی ہیں)

  • پاکستان  کا آئی ایم ایف سے 2 ارب ڈالر کا اضافی فنڈ لینے کا فیصلہ

    پاکستان کا آئی ایم ایف سے 2 ارب ڈالر کا اضافی فنڈ لینے کا فیصلہ

    اسلام آباد : پاکستان نے آئی ایم ایف سے ارب ڈالر کا اضافی فنڈ لینے کا فیصلہ کرلیا ،وزیر خزانہ سالانہ میٹنگز کے دوران درخواست کریں گے۔

    تفصیلات کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے لیے 2 ارب ڈالر کی اضافی فنڈنگ کا فیصلہ کرلیا گیا ، ذرائع نے بتایا کہ حکومت آئی ایم ایف سےمزید2 ارب ڈالر لینے کی کوشش کرے گی۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ کلائمیٹ فنانسنگ کیلئے آئی ایم ایف سے دوبارہ فنانسنگ کی درخواست کی جائےگی، سالانہ میٹنگز  کے دوران وزیر خزانہ آئی ایم ایف سے 2 ارب ڈالر کی درخواست کریں گے۔

    ذرائع نے کہا کہ ایم ڈی آئی ایم ایف سے ملاقات پرکلائمیٹ فنانسنگ کیلئے وزارت خزانہ نے ورکنگ مکمل کی، ایم ڈی آئی ایم ایف سے حتمی بات کے بعد پاکستان کو 2 ارب ڈالر تک فنانسنگ ہو سکتی ہے۔

    کلائمیٹ فنانسنگ کیلئے پہلی درخواست کو آئی ایم ایف نے فوری نہیں مانا تھا تاہم قرض پروگرام کے بعد اہداف پر عمل درآمد ابتدائی جائزہ رپورٹس کا جائزہ لیا جائے گا۔

    صدرعالمی بینک سےموسمیاتی تبدیلی کےمنصوبوں کی فنانسنگ کیلئےمنصوبوں پربات ہوگی جبکہ 26 اکتوبرتک وزیر خزانہ سیکرٹری اوراسٹیٹ بینک حکام کیساتھ اجلاسوں میں شریک ہوں گے۔

    وزیر خزانہ آئی ایم ایف کی سالانہ میٹنگز میں شرکت کے بعد ہفتے کے اختتام تک واپس آئیں گے،ذرا

  • کاربن کریڈٹ مارکیٹ: زرِ مبادلہ کمانے کا اہم موقع

    کاربن کریڈٹ مارکیٹ: زرِ مبادلہ کمانے کا اہم موقع

    موسمیاتی تبدیلیاں پوری دنیا کو متاثر کررہی ہیں۔ اور پاکستان، جس کا حصہ فضائی آلودگی میں بہت ہی کم ہے، موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے 10 ملکوں میں سرفہرست ہے۔

    تقریباً ہر سال ہی سیلاب ملک کے کسی نہ کسی حصے میں تباہی مچاتے ہیں۔ مگر سال 2022 میں سندھ میں کلاوڈ برسٹ کے نتیجے میں آنے والے سیلاب سے متاثرہ لوگوں کو تاحال آباد نہیں کیا جاسکا ہے۔

    ان تباہ کن بارشوں کے بعد اقوم متحدہ کے سیکریٹری جنرل اینتھونی نے ستمبر میں پاکستان کا دورہ کیا۔ دورے کے اختتام پر بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ کی جانے والی میڈیا ٹاک کو بطور صحافی راقم نے براہِ راست کور کیا تھا۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا کہنا تھا کہ وہ جو کچھ دیکھ کر آئے ہیں، بہت ہی تباہ کن ہے۔ مگر جو تباہی پاکستان میں آئی ہے، اس میں پاکستان ذمہ دار نہیں ہے۔ اس تباہی کی ذمہ داری مغربی ملکوں پر عائد ہوتی ہے کیونکہ انہوں نے ترقی کے نام پر فضا کو بہت زیادہ آلودہ کردیا ہے۔ اور اب مغرب کو اس تباہی سے ہونے والے گھروں کے انفرااسٹرکچر کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

    اسی سال موسمی تبدیلیوں کے حوالے سے بھارت کے مرکزی بینک کے سابق گورنر رکھو رام راجن نے جیکبسن لیکچر سیریز سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ منطقۂ حرارہ جنوبی کے ملکوں کے پاس جس میں ایشیائی اور افریقی ملک شامل ہیں اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ موسمی تبدیلیوں سے نمٹ سکیں اور اس بات کے خدشات موجود ہیں کہ لوگ ان ملکوں سے مغرب کی جانب ہجرت شروع کر دیں، ایسے مہاجرین کو کلائمٹ ریفوجی کہا جاتا ہے۔ اس لئے مغرب کو ان افراد اور حکومتوں کی مدد کرنا ہوگی جو موسمی تبدیلیوں سے متاثر ہورہے ہیں۔

    انتھک سفارتی کاوشوں کے بعد پاکستان نے سال 2023 میں دنیا کو اس بات پر قائل کیا کہ وہ سال 2022 میں ہونے والی بارشوں سے ہونے والی تباہی کے بعد اب تعمیر نو کے لئے فنڈز مہیا کرے۔ پاکستان نے عالمی بینک اور دیگر امداد دینے والے غیر ملکی اداروں کے اشتراک سے بارشوں اور سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ 16 ارب ڈالر لگایا ہے۔ جس میں سے پاکستان 8 ارب ڈالر اپنے وسائل سے خرچ کرے گا جبکہ 8 ارب ڈالر کی معاونت عالمی برادری سے طلب کی گئی ہے اور کلائمٹ ریزیلینٹ فنڈز کے ذریعے عالمی برادری نے 9 ارب ڈالر فراہمی کا وعدہ کیا مگر یہ رقم تاحال موصول نہیں ہوسکی ہے۔

    شدید بارشوں اور سیلاب کے علاوہ پاکستان میں موسم کی شدت بڑھتی جارہی ہے۔ شدید سردیاں اور گرمی کے مہینوں‌ میں بلند درجہ حرارت، بے وقت بارشیں اور سیلاب جیسے چند مسائل ہیں جن کا سامنا پاکستان کر رہا ہے۔ سخت موسمی حالات کی وجہ سے صنعتوں میں پیداواری عمل، محنت کشوں اور مصنوعات کی بروقت نقل و حرکت میں خلل، افرادی قوت کی پیداواری صلاحیت میں کمی، بیماریوں اور اموات کی وجہ سے بھی معاشی نقصان بڑھ جاتا ہے۔ اور ایک اندازے کے مطابق پاکستان کو موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے سالانہ 4 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوتا ہے جو کہ آئی ایم ایف کے سالانہ معاونت سے تقریباً چار گنا زیادہ ہے۔

    موسمی تبدیلیاں ہو کیوں رہی ہیں۔ اس کا جواب سائنس دان یوں دیتے ہیں کہ مغربی ملکوں کی صنعتوں سے ماضی میں اور اس وقت بھی ایسی گیسوں کا اخراج جاری ہے جس سے کرۂ ارض میں موجود ہوا آلودہ ہوگئی ہے۔ اور اس آلودگی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ گیسوں، گاڑیوں اور ڈیری کے جانوروں سے خارج ہونے والی گرین ہاؤس گیسوں جن میں آبی بخارات، کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اوزون ون، نائٹرو آکسائیڈ اور اس جیسی دیگر گیسیں شامل ہیں، بہت زیادہ مقدار میں فضا میں شامل ہوگئی ہیں، فضا میں ان گیسوں کے جمع ہونے سے موسم پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ سورج کی تپش سے فضا یا یہ گیسیں بہت زیادہ گرم ہوجاتی ہیں جس سے مجموعی درجۂ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق میتھین گیس کا ایک مالیکیول چالیس سال تک فضا میں موجود رہتا ہے۔

    اب سوال یہ ہے کہ اگر مغرب فضاؤں کو آلودہ کررہا ہے۔ اور اس حوالے سے پاکستان جیسے ملکوں کی معاونت کو تیار بھی نہیں تو اس کا حل کیا ہے؟ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر سالانہ چار ارب ڈالر کا نقصان ہورہا ہے تو پاکستان مغربی کمپنیوں سے سالانہ کم از کم فوری طور پر ایک ارب ڈالر کاربن کریڈٹس کی رضا کارانہ مارکیٹ میں فروخت سے کما سکتا ہے۔ اس وقت پاکستان میں 5 کروڑ ڈالر مالیت کے کاربن کریڈٹس کے چھ منصوبے چل رہے ہیں۔ دنیا میں کاربن کریڈٹ مارکیٹ کا حجم مسلسل بڑھ رہا ہے اور یہ مارکیٹ 950 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ اور آنے والے وقتوں میں یہ مارکیٹ مذید بڑھ سکتی ہے۔

    جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ مغربی ملکوں کی صنعتیں بڑے پیمانے پر گرین ہاؤس گیسز کا اخراج کر رہی ہیں۔ اب ان کمپنیوں کو حکومت نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ جتنی گیس وہ فضا میں چھوڑ رہی ہیں اس کے مساوی کاربن کریڈٹ کو خرید لیں اور اس کا جمع تفریق صفر ہو۔ یعنی کاربن کا اخراج اور کاربن کریڈٹس یعنی فضا سے کاربن کم کرنا ہے۔ کاربن کریڈٹ یا فضا سے کاربن اخراج کو صفر رکھنے کے لئے مختلف طریقہ کار استعمال ہوتے ہیں۔ جن میں ایمیشن ٹریڈنگ، کاربن کیپ ٹریڈنگ، کم کاربن کا اخراج کرنے والی ٹیکنالوجیز، متبادل توانائی میں سرمایہ کاری اور مستحکم ترقی جیسے منصوبے شامل ہیں۔

    اگر ایک درخت لگانے سے ایسے طریقوں سے کاشت کرنے جس سے زیادہ سے زیادہ گرین ہاؤس گیسز فضا سے ختم ہوں۔ اور ان اقدامات کی وجہ سے اگر ایک ٹن کاربن ڈآئی آکسائیڈ گیس فضا سے ختم ہو تو اس کو ایک کاربن کریڈٹ کہتے ہیں۔ ہر ملک میں کاربن کریڈٹ کی قیمت مخلتف ہے۔ یورپی یونین کے کسی ملک میں اگر ایک کاربن کریڈٹ دستیاب ہو تو اس کی قیمت 30 سے 50 یورو کے درمیان ہو گی۔ جبکہ پاکستان میں ایک ٹن کاربن کے اخراج کو جذب کرنے پر 10 سے 15 ڈالر کا ایک کاربن کریڈٹ ہوگا۔

    کاربن کریڈٹ حاصل کرنے کے لئے کیا کرنا ہوگا؟ اگر آپ کے پاس ایک قطع زمین موجود ہے تو آپ کو کاربن کریڈٹ کی رپورٹ تیار کرنے والی کسی کنسلٹنٹ کمپنی سے رابطہ کرنا ہوگا جس کی شہرت کاربن کریڈٹ مارکیٹ میں اچھی ہو۔ یہ کنسلٹنٹ آپ کے لئے کاربن کریڈٹ رپورٹ تیار کرے گا۔ جس کے کئی مراحل ہیں جیسا کہ ڈیٹا جمع کرنا، تجزیہ کرنا، زمین کی ساخت، موسمی حالات کے حوالے سے موضوع درخت کی قسم، درختوں کی تعداد جیسی معلومات پر مبنی رپورٹ۔ اس رپورٹ کی بنیاد پر ایک تیسری پارٹی اس کا جائزہ لیتی ہے۔ اور سرٹیفکٹ جاری کرتی ہے۔ اس رپورٹ کی تیاری میں چند ہزار ڈالر سے لے کر ایک لاکھ ڈالر تک اخراجات ہوسکتے ہیں۔ یہ اخراجات اس پر منحصر ہیں کہ رپورٹ کی پیچیدگی کتنی ہے۔ رپورٹ کاربن کریڈٹس کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی کا دس فیصد تک ہوسکتے ہیں۔ رپورٹ کی تیاری اور تصدیق کے بعد کریڈٹس کو فروخت کر لئے مارکیٹ میں بروکرز کمپنیاں موجود ہیں انہیں فروخت کرنے کے لئے دیا جاتا ہے۔ جو کہ 10 سے 15 فیصد تک کمیشن لیتے ہیں۔ یعنی ایک کاربن کریڈٹ کے باغبانی اور زراعت کے منصوبے میں رپورٹ کی تیاری اور فروخت پر 25 فیصد تک اخراجات فیس کی صورت میں نکل سکتے ہیں۔ یعنی اگر ایک کاربن کریڈٹ 10 ڈالر کا ہے تو اس میں سے 2.5 ڈالر رپورٹ کی تیاری اور فروخت کے کمیشن کی نذر ہوجائیں گے۔ اور آپ کو 7.5 ڈالر ملیں گے۔

    کاربن کریڈٹ کی رضاکارانہ مارکیٹ میں فروخت کو پاکستان اپنے لئے قیمتی زرمبادلہ کمانے کا موقع بنا سکتا ہے۔ پاکستان گرین انیشیٹو کے پاس 7 کروڑ 96 لاکھ ہیکٹر زمین زراعت کے لیے دستیاب ہے۔ جس میں سے 2 کروڑ 41 لاکھ ہیکٹر زیر کاشت ہے اور حکومت کے پاس 91 لاکھ ہیکٹر زمین بے آباد پڑی ہے۔ اور اسی بے آباد زمین میں سے 48 لاکھ ہیکٹر پاکستان گرین انیشیٹو کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔ باقی ماندہ زمین پر کاربن کریڈٹس کے لئے درخت لگا کر مقامی ماحولیات کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ پھل دار درختوں کے ذریعے مقامی خوارک اور روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے جبکہ اسی کاربن کریڈٹس کو فروخت کر کے سالانہ کم از کم ایک ارب ڈالر بھی کمائے جاسکتے ہیں۔

  • یونیسف سندھ میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات برداشت کرنے والے اسکول تعمیر کرنے کے لیے متحرک

    یونیسف سندھ میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات برداشت کرنے والے اسکول تعمیر کرنے کے لیے متحرک

    کراچی: یونیسف پاکستان کے سربراہ عبداللہ فاصل کا کہنا ہے کہ ہیٹ ویو سے لے کر سیلاب تک موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات کی وجہ سے بچوں کو بار بار تعلیم سے محروم ہونا پڑ رہا ہے، صوبہ سندھ میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات برداشت کرنے والے اسکول تعمیر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

    تفصیلات کے مطابق یونیسف کا کہنا ہے کہ پاکستان کے جنوبی حصوں میں مون سون بارشوں اور سیلاب نے تباہی مچا دی ہے، پاکستان کے سیلاب سے متاثرہ صوبے سندھ میں 2 لاکھ 30 ہزار بچوں کو تعلیم کی فراہمی معطل ہے، یونیسف نے پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کی صلاحیتوں کے حامل اسکولوں اور بچوں کی ضروری خدمات میں فوری سرمایہ کاری پر زور دیا۔

    یونیسف پاکستان کے سربراہ عبداللہ فاصل نے اس حوالے سے تفصیل بتائی، انھوں نے کہا پاکستان کو پہلے ہی تعلیمی ایمرجنسی کا سامنا ہے اور 26.2 ملین بچے اسکولوں سے باہر ہیں، ہمیں امید ہے کہ بارش کا پانی تیزی سے کم ہوگا، اور بچے اپنے کلاسوں میں واپس جا سکیں گے، لیکن اندیشہ ہے کہ اسکولوں کی طویل بندش سے بچوں کی واپسی کے امکانات کم ہو جائیں گے۔

    انھوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے باعث 1300 سے زائد اسکولوں کو نقصان پہنچا ہے، جن میں سے 228 مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں، محکمہ تعلیم سندھ کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق سیلابی پانی جمع ہونے کی وجہ سے 450 سے زائد اسکول کام نہیں کر رہے ہیں، جس کا فوری اثر بچوں کی تعلیم پر پڑے گا۔

    عبداللہ فاصل کے مطابق یکم جولائی سے اب تک صوبے بھر میں مون سون کی بارشوں کے باعث 76 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں، جن میں سے نصف بچے ہیں، صوبہ سندھ میں دریاؤں میں طغیانی سے آبادیاں زیر آب آ گئی ہیں، جس کے نتیجے میں 10 آفت زدہ اضلاع میں ایک لاکھ 40 ہزار بچے اور خاندان بے گھر ہو گئے ہیں۔

    انھوں نے کہا یونیسف کی ٹیمیں تیزی سے متاثرہ خاندانوں کی ضروریات کا جائزہ لے رہی ہیں اور تعلیمی سہولیات تک رسائی بحال کرنے اور متاثرین کی جلد بحالی کو یقینی بنانے کے لیے فوری اور طویل مدتی منصوبوں پر حکومت اور مقامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں۔

    سندھ 2022 کے تباہ کن سیلاب کے دوران سب سے زیادہ متاثر ہونے والا صوبہ تھا، جہاں صحت اور تعلیم کی سہولیات سمیت اہم بنیادی ڈھانچا راتوں رات تباہ ہو گیا تھا، گزشتہ تباہی کے اثرات سے اب تک لڑتے متاثرہ خاندان ایک بار پھر شدید موسم کی زد پر ہیں، جس کی سب سے بھاری قیمت بچوں کو چکانی پڑ رہی ہے۔

    عبداللہ فاضل کا کہنا تھا کہ مون سون نے ایک بار پھر پاکستان بھر میں زندگیاں اُجاڑ دی ہیں۔ بچوں نے اپنی زندگیاں، گھر اور اسکول کھو دیے ہیں۔ ہمیں بچوں کے لیے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کی صلاحیتوں کی حامل تعلیمی سہولیات اور خدمات میں فوری سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ ہمیں موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے دوچار اس ملک میں جدت طرازی، حالات کے مطابق خود کو ڈھالنے کی صلاحیتوں کے فروغ اورنقصانات کو کم سے کم کرنے اور موسمیاتی تغیر کے پیش نظر بچوں کے لیے پائیدار سہولیات ترتیب دینے کے لیے شراکت داروں کا ایک اتحاد تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔

    یونیسف کے چلڈرن کلائمیٹ رسک انڈیکس (سی سی آر آئی) میں پاکستان 163 ممالک میں سے 14 ویں نمبر پر ہے، جہاں بچوں کو موسمیاتی تبدیلی اور اس کے نقصان دہ اثرات کے ’شدید ترین خطرے‘ کا سامنا ہے۔

  • موسمیاتی تبدیلی ہماری صحت پر کیا اثرات مرتب کررہی ہے؟

    موسمیاتی تبدیلی ہماری صحت پر کیا اثرات مرتب کررہی ہے؟

    آب و ہوا کی تبدیلی اور ماحولیاتی تحفظ دنیا کے مستقبل کو تشکیل دینے والے دو اہم ستون ہیں، موسمیاتی تبدیلی سے مراد عالمی آب و ہوا میں اہم، طویل مدتی تبدیلیاں ہیں۔

    دنیا بھر میں ماحول سورج، زمین اور سمندروں، ہوا، بارش اور صحراؤں میں تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ ان تبدیلیوں کے اثر یہ ہے کہ بحرالکاہل کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت ایسے طوفانوں کو جنم دے رہا ہے جو زیادہ زیادہ بارشیں برساتے اور نقصان پہنچاتے ہیں۔

    حالیہ برسوں میں پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے تلخ حقائق سے نمٹ رہا ہے، اسے متعدد ماحولیاتی چیلنجوں کا سامنا ہے جو اس کے ماحولیاتی نظام، معیشت اور معاشرتی تانے بانے کے لیے خطرہ ہیں۔

    اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موجودہ صورتحال میں اگر گلوبل وارمنگ کے بڑھتے ہوئے اثرات کو روکنے کی کوشش نہ کی گئی تو ملک قوم کو مزید خطرات درپیش ہوں گے۔

    ماحولیاتی تبدیلی انسانی صحت کو مختلف طریقوں سے متاثر کرسکتی ہے جس کی وجہ سے مندرجہ ذیل مسائل جنم لیتے ہیں۔

    حشرات الارض کی پیداوار

    ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ درجہ حرارت اور فضا میں نمی کے تناسب میں اضافہ مچھروں اور دیگر حشرات کی افزائش نسل کے لئے بہتر ماحول فراہم کرتا ہے، اس وجہ سے ان کے ذریعے پھیلنے والی بیماریوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

    آلودہ پانی سے ہونے والی بیماریاں

    درجہ حرارت اور بارشوں میں اضافہ خصوصاً گرمیوں میں شدید بارشوں کی وجہ سے آلودہ پانی کے ذریعے دیگر انفیکشن کے پھیلاؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

    سانس کی بیماریاں

    اکثر سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی موجودگی گلوبل وارمنگ کی ذمہ دار ہے جو ہوا کے ذریعے پھیپڑوں میں داخل ہو کر سانس کی بیماریوں کا باعث بنتی ہیں۔ اس کے علاوہ فضائی آلودگی کی وجہ سے دمہ، پھیپڑوں اور دل کے امراض میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

    ذہنی مریضوں کی تعداد میں اضافہ

    ماحولیاتی تبدیلی حیران کن طور پر ذہنی صحت سے وابستہ مسائل میں اضافے کا باعث بھی بنتی ہے، ایک تحقیق کے مطابق پانچ برس میں درجہ حرارت میں صرف ایک ڈگری اضافے سے ذہنی امراض میں 2 فیصد اضافہ ہوا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق 2050 تک درجہ حرارت میں اضافہ 14ہزار افراد کی خودکشی کی وجہ ہو گا۔

  • شدید گرمی اور بارش میں کراچی کے بے گھر افراد کو مشکلات کا سامنا

    شدید گرمی اور بارش میں کراچی کے بے گھر افراد کو مشکلات کا سامنا

    تیس سالہ مٹھو کا گھر پاکستان کے دو کروڑ کی آبادی والے سب سے بڑے شہر کراچی میں کے پی ٹی انٹرچینج فلائی اوور کے نیچے ہے۔ مٹھو کے ساتھ اُن کے بیس عزیز و اقربا بھی ساتھ رہتے ہیں جو کئی سال پہلے بہتر معاشی مواقع کی تلاش میں دو سو کلومیٹر شمال مشرق میں واقع ٹنڈو الہ یار سے ہجرت کر کے یہاں آئے تھے۔ آس پاس کے بلند و بالا اپارٹمنٹس اور دفاتر میں رہنے والے لوگوں کے برعکس، اِن کے پاس سخت موسمی حالات سے بچنے کے لئے فی الحقیقت کوئی پناہ گاہ موجود نہیں ہے۔

    جولائی کے آخر کی جُھلسا دینے والی گرمی کے ایک دن جب ان کی بہن سوتری سرخ اینٹوں کے عارضی چولہے پر روٹیاں بنا رہی تھیں تو اُس وقت مٹھو نے اپنے ماتھے سے پسینہ پونچھتے ہوئے بتایا کہ “ہمیں رفع حاجت یا غسل کے لئے خالی پلاٹوں پر جانا پڑتا ہے، چاہے اِس طرح کی شدید گرمی ہی کیوں نہ ہو۔ ہم یہاں پانی قریبی کالونیوں سے خالی ڈبوں میں بھر کر لاتے ہیں۔ حکومت ہمارے لئے کیا کرے گی؟ ہمیں حکومت پر بھروسہ نہیں ہے کہ وہ ہمیں شدید گرمی کے دوران یا بارشوں میں ہماری مدد کرے گی۔”

    کراچی میں بے گھر افراد کی تعداد کے حوالے سے کوئی قابل اعتماد اعداد و شمار موجود نہیں ہیں، جس کی وجہ سے شدید گرمی اور بارشوں سے نمٹنے میں اِن کی مدد کے لئے کسی قسم کی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی ہے

    مٹھو کا خاندان، بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح، کسی بھی سرکاری اعداد و شمار میں شامل نہیں ہے۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی ڈائریکٹر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اسماء غیور نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا کہ “آپ کو اِن بے گھر افراد کے بارے میں کوئی اعداد و شمار، ڈیٹا، یا منصوبے نہیں ملیں گے۔ زیادہ سے زیادہ، یہ لوگ انتخابات کے قریب ممکنہ ووٹرز کے طور پر کام آسکتے ہیں۔ اِس سے ہٹ کر، اِن کے مسائل کو بڑی حد تک نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔”

    1988 میں قائم ہونے والی ایک غیر منافع بخش تنظیم شہری – سٹیزن فار اے بیٹر انوائرنمنٹ (سی بی ای) کی جنرل سکریٹری امبر علی بھائی نے بے گھر افراد کو “اِس بڑے شہر کے کسی کو نظر نہ آنے والے لوگ” قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ “آب و ہوا سے پیدا ہونے والی آفات جیسے سیلاب کے دوران پولیس اِن بے گھر افراد کو پولیس اسٹیشنوں میں عارضی پناہ دے سکتی ہے، لیکن اُن کے پاس بھی مناسب جگہ کی کمی ہوتی ہے، لہذا اِن بے گھر افراد کو عام طور پر کسی دوسرے مقام پر منتقل کر دیا جاتا ہے۔ اِن بے گھر افراد کی نگرانی اور اِن کا ڈیٹا اکٹھا کرنے کے لئے نادرا [نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی] کو بھی اِس مربوط عمل میں شامل کرنا ضروری ہے۔”

    شہری منصوبہ ساز اور کراچی اربن لیب کے ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر محمد توحید نے بے گھر افراد کی مدد کے حوالے سے موجودہ مشکلات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ ” جب تک بے گھر افراد کی صحیح تعداد اور ان کے مقامات کا علم نہ ہو، وسائل مختص کرنا، ہنگامی ردعمل کی منصوبہ بندی کرنا، اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے طویل مدتی حل نافذ کرنا مشکل ہے۔” یہ مسائل شدید گرمی کے واقعات سے کہیں زیادہ ہیں۔ کچھ سول سوسائٹی کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مجموعی طور پر بے گھر افراد کی آبادی تقریبا 20 ملین (دو کروڑ) یا اِس کی آبادی کا 9 فیصد ہے، لیکن سول سوسائٹی کے شعبے میں بھی کراچی جیسے شہروں کے بارے میں کوئی خاص معلومات موجود نہیں ہیں اور اِن مسائل کو حکومتی سطح پر اُجاگر کرنے کے لئے اعداد و شمار ناکافی ہیں۔

    علی بھائی نے کہا کہ بے گھر افراد سے نمٹنے کے لئے موجودہ قوانین، جیسے سندھ ویگرنسی آرڈیننس 1958 اور اس کی 1983 کی ترمیم کے باوجود، کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) نے “اپنی ذمہ داریوں سےمکمل کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ جب آب و ہوا سے پیدا ہونے والی آفات، جیسے گرمی کی لہریں یا شہر میں سیلاب آتے ہیں تو متاثرہ افراد کو خیرات دینے والے افراد کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔

    رؤف فاروقی، جو 2013 سے 2015 کے درمیان کراچی اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں کے لئے کے ایم سی کے سب سے اعلیٰ انتظامی عہدے پر فائز رہے، نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا کہ بے گھر افراد کے لئے کوئی سرکاری اہتمام نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، “زیادہ سے زیادہ، ہم اِنہیں عارضی پناہ کے لئے پولیس کے پاس یا ایدھی فاؤنڈیشن کے پاس لے جاتے تھے۔”

    پاکستان کے محکمہ موسمیات کے چیف میٹرولوجسٹ سردار سرفراز نے کہا کہ موسم کی شِدّت سے بچاؤ کے لئے انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے کراچی کے بے گھر افراد کو اِس موسم گرما میں شدید گرمی کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ 23 سے 30 جون کے دوران اور 16 سے 23 جولائی کے دوران درجہ حرارت اوسط سے 4 سے 6 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ رہا۔ “1990 کی دہائی کے وسط سے پاکستان میں درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بے گھر افراد سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔”

    ایدھی فاؤنڈیشن، جو پاکستان کی محروم طبقے کی کمیونٹیز کی خدمت کرنے والی ایک سماجی تنظیم ہے، کے کنٹرول روم کے انچارج محمد امین نے بتایا کہ اس سال اموات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ “15 سے 30 جون کے درمیان، ہمیں اپنے مردہ خانوں میں 1,540 لاشیں موصول ہوئیں جو کہ روزانہ کی اوسطاً 35 سے 40 لاشوں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہیں۔” اس کے ساتھ ہی انہوں نے متنبہ کیا کہ اِن سب ہلاکتوں کو پوری طرح سے گرمی کے اثرات سے منسلک نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم، سول سوسائٹی کی تنظیموں کی جانب سے رپورٹ کی جانے والی ہلاکتوں کی بڑی تعداد نے اس سال جون کے آخر میں آٹھ روز تک چلنے والی گرمی کی لہروں کے دوران سرکاری طور پر 49 اموات کے بارے میں سوالات اٹھائے ہیں۔

    ڈاکٹر احمر، جو کراچی کے گنجان آباد علاقے صدر میں واقع کراچی ایڈوینٹسٹ اسپتال کے ایمرجنسی روم میں کام کرتے ہیں نے کہا کہ انکا پورا نام ظاہر نہ کیا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں اس سال گرمی سے متعلق ہر قسم کے کیسز موصول ہوئے اور خاص طور وہ لوگ جو کسی مناسب چھت یا سایہ سے محروم ہیں وہ لُو ، تیز بخار، لو بلڈ پریشر اور چکر جیسی علامات کے ساتھ آئے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اگر مون سون کی بارشیں جاری رہیں تو آلودہ پانی کی وجہ سے اسپتال گیسٹرو اینٹرائٹس (معدے اور آنتوں کی سوزش) کے مریضوں سے بھر جائے گا۔ جہاں تک بے گھر لوگوں کا تعلق ہے تو میں نے ان کے لئے کوئی خاص انتظامات یا اقدامات نہیں دیکھے ہیں۔ وہ تمام عملی مقاصد کے لئے غیر رجسٹرڈ شہری ہیں حالانکہ وہ واقعی بہت سی مصیبتوں کا شکار ہیں۔

    صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) سندھ کے ڈائریکٹر جنرل سید سلمان شاہ نے کراچی میں 2015 میں گرمی کی لہروں کے بعد کی صورتحال پر روشنی ڈالی، جس کے بعد ہیٹ ویومینجمنٹ پلان تشکیل دیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ گرمی کی لہروں میں بے گھر افراد یا سڑکوں کے کنارے مقیم افراد سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ 2015 میں رمضان المبارک کے موقع پر آنے والی گرمی کی لہروں نے پاکستان بھر سے بہت سے لوگوں کو خیراتی امداد کے لئے کراچی کی طرف راغب کیا جس کی وجہ سے صورتحال مزید خراب ہو گئی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ “یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس عام طور پر گھر نہیں ہوتے اور وہ غیر سرکاری بستیوں، عارضی خیموں یا فلائی اوورز کے نیچے بیٹھے رہتے ہیں۔ 2024 کے منصوبے میں خاص طور پر شدید گرمی کی لہروں کے دوران بے گھر افراد کو عارضی پناہ گاہیں فراہم کرنا شامل تھا اور اِس کے لئے شادی ہالز اور سرکاری دفاتر جیسی عمارتوں کو استعمال میں لایا جائے گا۔

    شاہ کے مطابق، اگرچہ سرکاری محکموں نے اس سال گرمی کی لہروں سے قبل شہریوں کی جانب سے محسوس کئے جانے والے اثرات کو کم کرنے کے لئے کام کیا تھا، لیکن یہ غیر متوقع طور پر طویل ثابت ہوا۔ اُن کا کہنا تھا کہ “صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) بار بار گرمی کی لہروں کے حوالے سے الرٹ اور روزانہ کی صورتحال کی رپورٹس جاری کرتی ہے لیکن کراچی میں بے گھر افراد کی صحیح تعداد کوئی نہیں جانتا،” حالانکہ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ کراچی میں لوگوں کی اصل تعداد زیادہ ہوگی کیونکہ شہر میں بہتر زندگی کی تلاش میں لوگوں کا مسلسل آنا جاری رہتا ہے۔

    سیلاب سے نمٹنے کے لئے تین سال قبل نالوں پر غیر قانونی طور پر تعمیر کی گئی عمارتوں کو منہدم کرنے کے لئے انسدادِ تجاوزات مہم شروع کی گئی تھی جس سے نادانستہ طور پر شہر میں بے گھر افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ اپریل میں سپریم کورٹ نے صوبائی حکومت کو ہدایت دی کہ اِن عمارتوں کے اِنہدام کی وجہ سے بے گھر ہونے والے لوگوں کو نئے مکانات مہیّا کئے جائیں۔

    شہر کے انفرااسٹرکچر(بنیادی ڈھانچے) کے منصوبوں کی نگرانی کرنے والے سول سوسائٹی کے ادارے اربن ریسورس سینٹر کے جوائنٹ ڈائریکٹر زاہد فاروق نے اس طرح کی پالیسیوں کے وسیع اثرات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے بتایا کہ “گجر اور اورنگی نالوں کے اوپر بنی عمارتوں کو ہٹانے کے نتیجے میں 6،900 ہاؤسنگ یونٹس منہدم ہوئیں اور ہر گھر میں ممکنہ طور پر ایک سے زیادہ خاندان رہائش پذیر تھے۔ بے گھر ہونے کے بعد وہ کسی رشتہ دار کے گھر چلے جاتے ہیں جو کہ خود بھی غریب ہوتے ہیں۔” انہوں نے کہا، “چونکہ ایک بڑی تعداد پہلے ہی تنگ حالات میں رہ رہی ہے، اُس پر بے گھر رشتہ داروں کی آمد، چھوٹے گنجان مکانات یا عارضی پناہ گاہوں میں رہائشی کثافت (کم جگہ میں زیادہ لوگوں کا رہنا) کو مزید بڑھا دیتی ہے۔ یہ بڑھتی ہوئی کثافت موسمیاتی واقعات جیسے گرمی کی لہروں یا شدید بارشوں کے اثرات کو بڑھا دیتی ہے۔” فاروق نے مزید کہا، ” گھروں کا یہ انہدام صرف اِن کے گھروں کو ہی نہیں مِسمار کرتا بلکہ اِن کی معاشی حالت، سماجی شناخت اور روابط بھی بکھر جاتے ہیں۔”

    ایک مقامی دائی نیہا منکانی جو غریب کمیونٹیز کے لئے ذہنی صحت کے کلینک چلا رہی ہیں، کے مطابق بے گھر خواتین کی حالت خاص طور پر سنگین ہے۔ انہوں نے کہا کہ “کراچی میں بے گھر خواتین کو سیلاب اور گرمی کی لہروں کے دوران صحت کے حوالے سے مقابلتاً بڑے خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آلودہ سیلابی پانی انفیکشن، جلد کی بیماریوں اور ذہنی صحت کے مسائل کے لئے اُن کی حسّاسیت بڑھا دیتا ہے، اور ایسا بے گھر ہونے اور جذباتی صدمے کی وجہ سے ہوتا ہے۔” اس کے علاوہ، جب سیلاب آتا ہے تو لوگ ایک ساتھ ہجوم والی جگہوں پر رہنے کے لئے جاتے ہیں اور ایسے مواقع خواتین کے لئے جنسی تشدد کے خطرے کو بڑھا سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں، غیر مستحکم غذائی ذرائع شدید موسم سے مزید متاثر ہوتے ہیں اور نتیجتاّ اِن خواتین کو کھانا بھی اچھی مقدار میں نہیں ملتا اور یہ غذائی قلت اور معدے کے مسائل کا شکار ہو جاتی ہیں۔

    منکانی نے گرمی کی شدید لہروں کے دوران خواتین کی صحت کے تحفظ کے لئے مخصوص علاجوں کی ضرورت پر زور دیا، اور محفوظ پانی اور صفائی ستھرائی تک ان کی محدود رسائی کو اجاگر کیا جس سے پانی کی کمی، پیشاب کی نالی کے انفیکشن اور حمل میں پیچیدگیوں کے خطرات میں اضافہ ہوتا ہے جس میں قبل از وقت زچگی اور حمل کا نقصان بھی شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ “یہ تسلیم کرنا بہت ضروری ہے کہ خواتین، خاص طور پر وہ جو مناسب پناہ گاہ سے محروم ہیں، گرمی سے مقابلتاً زیادہ متاثر ہوتی ہیں، اور یہ نکتہ اُن کی صحت اور فلاح و بہبود کے تحفظ کے لئے مخصوص علاجوں اور اُنھیں صحت مند رکھنے کے نظام کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔”

    (فرح ناز زاہدی معظم کی رپورٹ ڈائلاگ ارتھ پر شایع ہوچکی ہے جس کو اس لنک کی مدد سے پڑھا جاسکتا ہے)

  • آسمانی بجلی کیسے بنتی ہے؟ بچاؤ کیسے ممکن ہے؟

    آسمانی بجلی کیسے بنتی ہے؟ بچاؤ کیسے ممکن ہے؟

    گرج چمک کے ساتھ ہونے والی بارش کے دوران آسمانی بجلی گرنے کے واقعات عام بات ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ آسمانی بجلی ہے کیا اور یہ کیسے پیدا ہوتی ہے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں این ای ڈی یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر ریاض الدین نے آسمانی بجلی بننے اور گرنے متعلق ناظرین کو آگاہ کیا۔

    انہوں نے کہا ہمارے خطے میں آسمانی بجلی زیادہ گرنے کی بنیادی وجہ موسمیاتی تبدیلی ہے، جبکہ امریکا میں ایک سال میں25 کروڑ مرتبہ آسمانی بجلی گرتی ہے اور 70 ہزار کے قریب انشورنس کلیم کیے جاتے ہیں۔

    آسمانی بجلی بننے سے متعلق انہوں نے بتایا کہ آسمانی بجلی دراصل اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب بادل اور تیز ہوا ایک دوسرے سے رگڑ کھاتے ہیں، آسمانی بجلی میں کروڑوں وولٹ اور کروڑوں ایمپئر کرنٹ ہوتا ہے جو زمین پر دو طرح سے لپکتا ہے۔

    آسمانی بجلی فضا اور زمین کے درمیان پیدا ہونے والا کرنٹ ہے، عام طور پرگھروں میں مہیا ہونے والی بجلی میں 220 وولٹ (ایک ایمپیئر) کرنٹ ہوتا ہے جبکہ آسمانی بجلی تقریباً 30 ہزار ایمپیئر کرنٹ پیدا کرتی ہے جس سے اس کی شدت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

    احتیاطی تدابیر

    موسمیاتی ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ کہ شہری شدید گرج چمک کے دوران گھروں سے باہر نہ نکلیں۔

    آسمانی بجلی لوہے کے پائپوں اور فون لائنوں کے ذریعے بھی گزر سکتی ہے، شدید گرج چمک کے دوران نہانے، برتن دھونے سے بھی پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ مکان پر آسمانی بجلی گرنے سے کرنٹ لوہے کے پائپوں سے گزر سکتا ہے۔

    ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ شدید گرج چمک کے دوران سڑک پر موجود افراد درخت، باڑ اور کھمبوں سے دور رہیں اور کھلے آسمان تلے جانے سے بھی گریز کریں۔

    شدید گرج چمک کے دوران موبائل فون کا استعمال بھی نہ کریں یا اگر موبل فون استعمال کرنا ہے تو صرف ایمرجنسی کالز کے لیے استعمال کریں۔

     

  • موسمیاتی آفات سے پاکستان کی پہاڑی زبانیں تباہ ہو رہی ہیں

    موسمیاتی آفات سے پاکستان کی پہاڑی زبانیں تباہ ہو رہی ہیں

    شمالی پاکستان میں 2010ء کا سیلاب اور اس کے درد ناک مناظر، تورولی-کوہستانی لغت نگار، انعام توروالی کی یادداشت میں اب بھی تازہ ہیں۔ پاکستان کی تاریخ کی بدترین انسانی تباہی میں سے ایک، اس سیلاب کی وجہ سے گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے شمالی پہاڑی علاقوں سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی۔ تورولی سمیت کتنے ہی لوگوں کے گھر تباہ ہوگئے۔ ان کے کھیت پانی میں ڈوب گئے جس کی وجہ سے وہ اور ان کے خاندان کو پشتون اکثریتی مینگورہ شہر کی طرف ہجرت کرنی پڑی جو ضلع سوات میں ان کے آبائی شہر سے 59 کلومیٹر دور ہے۔

    موسمیاتی آفات کی وجہ سے پہاڑی علاقوں مکین ہجرت کرنے پر مجبور ہیں اور اس عمل میں ان کی زبانیں اور ثقافتیں شدید متاثر ہو رہی ہیں۔

    تباہی کے اثرات اب بھی باقی ہیں۔ جن میں واضح طور پر ان کی آبائی زبان توروالی کو لاحق خطرہ ہے۔ انہوں نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا، “شہروں کی طرف ہجرت کرنے والے نوجوان، اب غالب زبانوں؛ جیسے، پنجابی، پشتو اور اردو کے بہت سے مستعار الفاظ کے ساتھ یا تو ایک مختلف تورولی بولی بول رہے ہیں، یا بالکل بھی نہیں بول سکتے۔ ان کے بھتیجے اب پشتو بولتے ہیں، جو صوبے کی زبان ہے۔

    توروالی کہتے ہیں، “موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے بحران کی شدّت سے متعلق پہاڑی کمیونٹیز کے پاس کوئی علم نہیں اور اس سے نمٹنے کے لئے کسی قسم کی حکمت عملی سے یہ لاعلم ہیں”۔ مزید براں، گلگت بلتستان کی آب و ہوا کی حکمت عملی ہجرت، اور نقل مکانی کرنے والوں کی ترسیلات کو ایک مثبت موافقت کی حکمت عملی کے طور پر پیش کرتی ہے۔ خیبر پختونخوا کی موسمی حکمت عملی موسمی تبدیلی کے تحت نقل مکانی کو تسلیم کرتی ہے لیکن اس کی موافقت کی حکمت عملی آنے والے مہاجرین کے لئے بہتر شہری منصوبہ بندی کے حوالے سے محدود ہے۔ نہ ہی یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ آب و ہوا کی وجہ سے نقل مکانی، شمالی پاکستان کی ثقافتوں اور زبانوں کو کس طرح متاثر کر سکتی ہے۔

    پہاڑی خطّوں میں چھوٹی آبادیاں غیر محفوظ ہیں
    پاکستان کے پہاڑی شمالی علاقوں میں 30 سے ​​زیادہ ‘خطرے سے دوچار‘ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ان میں سے بہت سی زبانیں صرف چھوٹی آبادی میں بولی جاتی ہیں، جو کہ چند ہزار پر مشتمل ہیں۔ اس خطّے میں آباد کمیونٹیز متعدد موسمی آفات کے خطرے سے بھی دوچار ہیں۔ 500 سے زائد گلیشیئرز رکھنے والے ضلع چترال کو، “17 سالوں میں 2021 تک، 13 سے زیادہ برفانی سیلابوں کا سامنا کرنا پڑا، کئی گھرانے بے گھر ہوئے اور وہ سالوں تک عارضی پناہ گاہوں میں رہنے پر مجبور رہے”۔ گلگت بلتستان میں 2010 کے سیلاب کے علاوہ 1999 سے 2017 تک 15 گلوف (جی ایل او ایف) واقعات ریکارڈ کئے گئے۔

    چھوٹی آبادی کی بولی جانے والی زبانوں پر ان آفات کا بلواسطہ گہرا اثر ہے۔ مثال کے طور پر، جب 2018 میں گلگت بلتستان کے ضلع غذر کا گاؤں بدسوات ایک گلوف (جی ایل او ایف) کا نشانہ بنا، تو واکھی زبان بولنے والے خاندانوں کو مجبوراً گلگت شہر منتقل ہونا پڑا۔ واکھی صرف 40,000 لوگ بولتے ہیں اور یہ گلگت شہر کی زبان نہیں ہے، یہاں نئے مہاجرین کو شینا یا پاکستان کی سرکاری زبان اردو میں بات چیت کرنا سیکھنا پڑا۔

    لیکن شینا خود بھی ایسے ہی عوامل کی وجہ سے خطرے کی زد میں ہے۔ گلگت سے تعلق رکھنے والے زبانوں کے محقق محمد وزیر بیگ نے بتایا کہ ان کے بہت سے رشتہ دار جو 1978 اور 2010 کے سیلاب میں اپنا گھر کھو بیٹھے تھے وہ کراچی منتقل ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ، ” جب میں گزشتہ اکتوبر ان سے ملا تو میں نے ان سب کو شینا کے بجائے اردو بولتے ہوئے پایا۔

    لوگوں کے ساتھ ثقافتیں بھی بے گھر ہورہی ہیں
    اسلام آباد میں قائم فورم فار لینگوئج انیشی ایٹو (ایف ایل آئی) کے ڈائریکٹر فخرالدین اخونزادہ نے کہا کہ بڑے پیمانے پر نقل مکانی پہاڑی آبادیوں کو نئی زبانیں سیکھنے پر مجبور کرتی ہے، اور یہ انہیں اس جغرافیہ سے بھی دور کرتا ہے جس نے ان زبانوں کو تشکیل دیا تھا۔ .

    اخونزادہ نے کہا، “یہ زبانیں مویشیوں، کھیتی باڑی، دریاؤں، برف، اور جنگلات والے اونچے پہاڑوں سے مالا مال مخصوص ماحول میں تیار ہوئیں – یہ سب اب موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے خطرے میں ہیں۔” انہوں نے بتایا کہ یہ زبانیں دوسرے خطوں میں بے گھر ہونے والے لوگوں کے لئے اپنی اہمیت کھو دیتی ہیں، اور بے گھر ہونے والی آبادی اب اپنے ثقافتی تہوار نہیں مناتی، روایتی کہانیاں نہیں سناتی یا اپنی مادری زبان میں بات چیت نہیں کرتی۔ اس سے ان کی مادری زبانوں میں مہارت بتدریج ختم ہو جاتی ہے۔

    سمیع اللہ ارمان، جو ایڈورڈ کالج، پشاور میں پڑھاتے ہیں، اسے زبان کی “مارکیٹ ویلیو” میں گراوٹ بتاتے ہیں، کیونکہ یہ لوگوں کو اپنے اردگرد کا ماحول سمجھنے میں مدد نہیں دیتی۔ “کسی زبان کی مارکیٹ ویلیو جتنی زیادہ ہوگی، اتنے ہی زیادہ لوگ اسے بولیں گے، اور یہ پھلے پھولے گی،” ارمان نے کہا، جو مقامی زبانوں کے تحفظ کے لئے کام کرنے والی ایک تحقیقی اور ترقیاتی تنظیم، مفکورہ میں شعبہ زبان، ادب اور ثقافت کے سربراہ بھی ہیں۔

    ارمان سے اتفاق کرتے ہوئے پشاور یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی اور اطلاقی لسانیات کے سربراہ امجد سلیم نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا کہ قدرتی آفات کی وجہ سے نقل مکانی صرف افراد کی نہیں بلکہ ثقافتوں کی نقل مکانی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا، “جب یہ بے گھر خاندان نقل مکانی کرتے ہیں، وہ غالب زبان بولنے پر مجبور ہوتے ہیں کیونکہ اسکولوں اور بازاروں میں ان کی مادری زبان بہت کم بولی جاتی ہے۔ وہ اپنی بیگانگی کے احساس پر قابو پانے کے لئے تیزی سے غالب زبان سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں، اور اس طرح ایک زبان آہستہ آہستہ ختم ہوجاتی ہے۔”

    زبانیں جو صرف گھروں میں بولی جاتی ہیں
    پشاور یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی اور اطلاقی لسانیات کی ریٹائرڈ استاد ڈاکٹر روبینہ سیٹھی نے اس بات پر زور دیا کہ خواتین کسی زبان کو محفوظ کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، لیکن اس تحفظ کا اثر اس بات پر منحصر ہے کہ بچوں کو ان کے گھروں سے باہر کیا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ “اگرچہ زبان ان کے گھروں کے اندر ان کے دلوں کے قریب اور پیاری ہو سکتی ہے، لیکن باہر اس کی افادیت کا فقدان انہیں اس خطے کی غالب زبان کو اپنانے پر مجبور کرتا ہے” جہاں وہ اب آباد ہوئے ہیں۔

    اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے، عصمت اللہ دمیلی، ایک محقق جنہوں نے 2000 میں دمیلی زبان کے حروف تہجی مرتب کیے، نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا، “ہم اپنی مادری زبان صرف اپنے گھروں کے اندر بولنے کو ترجیح دیتے ہیں… اس حقیقت کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ ایک وقت آئیگا جب آنے والی نسلیں اسے بولنے کے قابل نہیں رہیں گی۔” دمیلی زبان صرف 5,000 لوگ بولتے ہیں، اور چترال ضلع میں واقع دمیل ویلفیئر سوسائٹی کے مطابق جو زبان کے تحفظ کے لئے کام کرتی ہے – اس آبادی کا تقریباً 40 فیصد 2010 کے سیلاب کے بعد مختلف شہروں میں منتقل ہو گیا۔

    ٹھوس ڈیٹا کی کمی کسی اقدام کے راستے میں رکاوٹ ہے
    نقل مکانی متعدد عوامل سے ہوتی ہے، اور موسمیاتی تبدیلی اور جبری نقل مکانی کے درمیان ایک خطی اور اسبابی تعلق قائم کرنا مشکل ہے۔ بہرحال، پشاور یونیورسٹی کے شعبہ سوشیالوجی میں ماحولیاتی سماجیات کے پروفیسر ڈاکٹر اویس احمد نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی خیبر پختونخواہ اور گلگت بلتستان کے شمالی علاقوں سے خاص طور پر 2010 کے بعد نقل مکانی کا بنیادی محرک ہے۔ انہوں نے کہا،”لوگ ایک اور بڑی آفت سے بچنے کے لیے اور اپنے خاندانوں کا پیٹ پالنے کے لئے سب کچھ کریں گے، اس لئے وہ اکیلے یا اپنے خاندان کے ساتھ پہاڑوں سے نیچے آجاتے ہیں”۔

    انعام تورولی نے اپنے تحقیقی مطالعے بعنوان “فیوچر آف توروالی مائیگرانٹس ان اربن سٹیز” میں بتایا ہے کہ 90 فیصد مہاجر خاندان مالی مجبوریوں کی وجہ سے اپنے آبائی شہروں کو واپس نہیں آئے۔ ایک قدیم ایرانی زبان یدغہ جو صرف 6,000 لوگ بولتے ہیں، کے تحفظ کے لئے وقف محقق محمد ولی، نے مزید کہا، “موسمیاتی تبدیلیوں نے پہلے سے غربت کے شکار پہاڑی علاقوں کو مزید غریب کردیا ہے اور نقل مکانی کو بڑھا دیا ہے۔ جن کے پاس ہجرت کے ذرائع ہیں وہ پہلے ہی ایسا کر چکے ہیں، پیچھے صرف وہ لوگ رہ گئے ہیں جو ضروری وسائل سے محروم ہیں۔”

    جس طرح ریاست کو موسمیاتی تبدیلی اور نقل مکانی کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے، ارمان نے کہا کہ اسے ثقافتوں کے مزید زوال کو روکنے کے لئے حکمت عملی کے طور پر موسمیاتی تبدیلی کی پالیسیوں میں زبان کے نقصان کے مسئلے کو بھی شامل کرنا چاہیے۔ سلیم نے اتفاق کرتے ہوئے مزید کہا، “یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ نصاب میں تمام زبانوں کو شامل کرنے کے لئے اقدامات کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ وہ نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کے بچوں کو پڑھائی جائیں اگر اس کا ارادہ چھوٹی زبانوں کو محفوظ کرنے کا ہے۔”

    (فواد علی کی تحریر ڈائلاگ ارتھ پر اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہے)

  • کسان ٹی وی چینل، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے حکومت کا بڑا قدم

    کسان ٹی وی چینل، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے حکومت کا بڑا قدم

    اسلام آباد: موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے حکومت نے کسان ٹی وی چینل شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم کی کوآرڈینیٹر برائے موسمیاتی تبدیلی رومینہ خورشید عالم نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے کسان ٹی وی چینل شروع کیا جائے گا۔

    انھوں نے کہا کہ اس چینل کے ذریعے کسانوں کو موسمی صورتِ حال اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ کا بتایا جائے گا، ماحولیاتی انحطاط سے نمٹنے کے لیے احتیاتی تدابیر اور پائیدار طریقوں کو فروغ دیا جائے گا۔

    رومینہ خورشید کے مطابق کسان چینل کے لیے پی ٹی وی کے ساتھ باہمی اشتراک کیا جائے گا، 6 علاقائی زبانوں بشمول پنجابی، پشتو، سندھی، بلوچی، اور ہندکو میں پروگرام نشر کیے جائیں گے، جب کہ صوبائی سطح پر مقامی پی ٹی وی اسٹیشنز کے ذریعے پروگرامز نشر کیے جائیں گے۔

    رومینہ خورشید نے کہا اس چینل کے ذریعے خواتین کو زیادہ سے زیادہ بااختیار بنانے پر توجہ دی جائے گی، اور چینل کو کامیاب بنانے کے لیے پی ٹی وی کے ساتھ ساتھ نجی چینلز سے بھی رہنمائی لی جائے گی۔

    ان کا کہنا تھا کہ اس چینل کا قیام پاکستان میں خوش حال زرعی شعبے کی جانب ایک اہم قدم ثابت ہوگا۔