Tag: موسمیاتی تبدیلی

  • گرمی کی شدید لہر نے ایشیا سمیت دنیا کی نصف سے زائد آبادی کو لپیٹ میں لیا، ریکارڈ ہلاکتیں

    گرمی کی شدید لہر نے ایشیا سمیت دنیا کی نصف سے زائد آبادی کو لپیٹ میں لیا، ریکارڈ ہلاکتیں

    رواں برس گرمی کی شدید لہر نے ایشیا سمیت دنیا کی نصف سے زائد آبادی کو لپیٹ میں لیا، جس سے ریکارڈ ہلاکتیں ہوئیں۔

    موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے پیش نظر دنیا بھر میں ہیٹ ویو سے نصف سے زائد آبادی پریشان ہے، دنیا کے 60 فی صد لوگوں نے 16 جون سے 24 جون تک انتہائی بلند درجہ حرارت میں گزارے۔

    بین الاقوامی علمی ادارے ’ورلڈ ویدر ایٹریبیوشن‘ کے مطابق موسمیاتی تبدیلی نے مہلک ہیٹ ویوز کی تشکیل کی، جس نے پورے ایشیا میں لاکھوں لوگوں کو انتہائی حد تک متاثر کیا۔ اپریل کے دوران اور مئی 2024 تک جاری رہنے والی انتہائی ریکارڈ توڑ گرمی نے پورے ایشیائی براعظم پر شدید اثرات مرتب کیے۔

    ایشیا ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق اپریل 2024 میں شدید گرمی نے جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا کو متاثر کیا، جس سے بھارت، فلپائن، بنگلادیش، انڈونیشیا، ملائیشیا اور میانمار جیسے ممالک متاثر ہوئے۔ گرمی کی ان لہروں نے دنیا کے سب سے زیادہ گنجان آباد علاقوں کو بری طرح متاثر کیا، جس سے صحت، معیشت اور تعلیم کے شعبوں میں بہت زیادہ نقصان ہوا۔

    دنیا میں اس دوران 5 ارب افراد انتہائی درجہ حرارت میں رہے، بھارت میں اب تک کی سب سے طویل ہیٹ ویو ریکارڈ کی گئی جو مئی کے وسط میں شروع ہوئی تھی، اور پارہ 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا، بھارت میں 61 کروڑ 90 لاکھ افراد کو شدید گرمی کا سامنا کرنا پڑا، شدید ہیٹ اسٹروک کے 40 ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے، اور 800 افراد ہلاک ہوئے۔

    سعودی عرب میں حج کے دوران گرمی کے نتیجے میں 1300 لوگ جان سے گئے، سعودی عرب کے بعض شہروں میں پارہ 50 ڈگری سے بھی تجاوز کر گیا۔ امریکا کو بھی لگاتار ہیٹ ویو کا سامنا رہا، جنوبی ریاستوں میں پارہ 52 ڈگری ریکارڈ کیا گیا۔ چین میں جون کے ماہ میں گرمی پڑنے کا نیا ریکارڈ بن گیا، مختلف شہروں میں درجہ حرارت 50 ڈگری کو چھو گیا۔

    ورلڈ ویدر ایٹریبیوشن کے مطابق مغرب میں اسرائیل، فلسطین، لبنان اور شام سے لے کر مشرق میں میانمار، تھائی لینڈ، ویتنام اور فلپائن تک، ایشیا کے بڑے علاقوں میں کئی دنوں تک درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ رہا۔ مہاجر کیمپوں اور غیر محفوظ گھروں میں رہنے والے لوگوں کے ساتھ ساتھ آؤٹ ڈور ورکرز کے لیے یہ گرمی سخت اذیت ناک ثابت ہوئی۔

    ہیٹ ویوز شدید موسمی واقعات کی سب سے مہلک قسم ہیں، اکثر یہ ہوتا ہے کہ مرنے والوں کی تعداد کم بتائی جاتی ہے، لیکن فلسطین، بنگلادیش، بھارت، تھائی لینڈ، میانمار، کمبوڈیا اور فلپائن سمیت زیادہ تر متاثرہ ممالک میں پھر بھی سیکڑوں اموات کی اطلاع دی جا چکی ہے۔

    اس گرمی کا زراعت پر بھی بڑا اثر پڑا ہے، جس سے فصلوں کو نقصان پہنچا اور پیداوار میں کمی ہوئی، ساتھ ہی تعلیم پر بھی۔ سالانہ تعطیلات میں توسیع کرنا پڑی اور کئی ممالک میں اسکول بند کر دیے گئے، جس سے لاکھوں طلبہ متاثر ہوئے۔

    شمالی تھائی لینڈ میں درجہ حرارت 44 ڈگری سیلسیس سے بڑھ گیا، پچھلے سال کے مقابلے میں تھائی لینڈ میں موسم 1-2 ڈگری سیلسیس زیادہ گرم رہا، اور بارش اوسط سے کم ہوئی۔ 10 مئی 2024 تک تھائی لینڈ میں کم از کم 61 افراد ہیٹ اسٹروک سے ہلاک ہوئے، جب کہ پچھلے سال کے دوران ہونے والی اموات کی تعداد 37 تھی۔

    امریکا، برطانیہ، سویڈن، لبنان، ملائیشیا، اور ہالینڈ کے سائنس دانوں نے مل کر اس بات کا جائزہ لیا کہ خود انسانوں کے ہاتھوں سے لائی گئی موسمیاتی تبدیلی نے 3 ایشیائی خطوں کو کس حد تک متاثر کیا۔ انھوں نے ایک جائزہ رپورٹ شائع کی، جس میں کہا گیا کہ انسانوں کے ہاتھوں لائی گئی موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے تین ایشیائی ممالک میں گرمی کی شدت میں واضح طور پر اضافہ ہوا۔

    ان ممالک میں 1) مغربی ایشیا، بشمول شام، لبنان، اسرائیل، فلسطین اور اردن؛ 2) مشرقی ایشیا میں فلپائن؛ اور 3) جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا، بشمول بھارت، بنگلادیش، میانمار، لاؤ پی ڈی آر، ویت نام، تھائی لینڈ اور کمبوڈیا شامل ہیں۔ آب و ہوا کی تبدیلی نے مغربی ایشیا میں 3 دن کی اپریل ہیٹ ویو اور فلپائن میں 15 دن کی اپریل ہیٹ ویو کے امکانات اور شدت کو تبدیل کیا۔

    گرمی کی لہر نے اندرونی طور پر بے گھر ہونے والے لوگوں، تارکین وطن اور پناہ گزینوں کے کیمپوں اور مغربی ایشیا میں تنازعات والے علاقوں میں رہائش پذیر افراد کی مشکل زندگی کو مزید مشکل بنا دیا۔ غزہ میں شدید گرمی نے 17 لاکھ بے گھر افراد کے حالات زندگی کو مزید خراب حال کر دیا۔ اس کی وجہ سے پانی کی قلت میں اضافہ ہوا اور ادویات تک رسائی میں مشکلات اور بڑھ گئیں۔

    Our World In Data نامی تنظیم کی ڈپٹی ایڈیٹر ہانا رچی نے ایک رپورٹ میں لکھا کہ ماہرین نے موسمیاتی تبدیلیوں یا گرمی سردی کی وجہ سے ہونے والی اموات کے حوالے سے کہا ہے کہ تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ گرمی کی نسبت سردی سے ہونے والی اموات بہت زیادہ ہوتی ہیں، یہ تناسب ایک اور 9 کا ہوتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ شدید گرمی صرف گرمی سے ہونے والی اموات کا خطرہ ہی نہیں بڑھاتا بلکہ سردی سے ہونے والی اموات کے خطرے کو بھی کم کرتی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے مجموعی اثرات ان دو مخالف قوتوں کا مجموعہ ہے۔ اس لیے سردی سے ہونے والی اموات میں کمی نے گرمی سے ہونے والی اموات کی شرح کو قدرے بڑھا دیا ہے۔

  • موسمیاتی تبدیلی اور غلط پالیسیاں پاکستان کو غذائی عدم تحفظ کی طرف دھکیل رہی ہیں

    موسمیاتی تبدیلی اور غلط پالیسیاں پاکستان کو غذائی عدم تحفظ کی طرف دھکیل رہی ہیں

    حکومت کی جانب سے گندم کی خریداری کے کوٹے میں کمی کے بعد پاکستان میں کسان گزشتہ چند ماہ سے احتجاج کر رہے ہیں۔ صوبہ سندھ، اپنی فصل کی ابتدائی پیداوار کے ساتھ، مظاہروں کا مرکز رہا ہے، لیکن تعطل موجودہ سال وہاں گندم کی کٹائی مکمل ہونے کے دو ماہ بعد بھی برقرار ہے۔

    سندھ میں قائم ہاری ویلفیئر ایسوسی ایشن کے صدر اکرم خاصخیلی نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا، “حکومت نے گندم کی خریداری کا ریٹ طے کیا تھا اور اسے گندم کے تھیلے براہ راست کسانوں کو جاری کرنے تھے، لیکن محکمہ خوراک کے کچھ اہلکار مبینہ طور پر یہ تھیلے کک بیکس کے عوض چھوٹے درجے کے تاجروں (پیڑھی) کو فروخت کر رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں، پیڑھی والے کاشتکاروں سے حکومت کی طرف سے مقرر کردہ 100,000 روپے (360 امریکی ڈالر) فی 100 کلو گرام کے نرخ سے کم نرخوں پر گندم خرید رہے ہیں،” سرکاری خریداری مراکز کو گندم کی پیکنگ اور فروخت کے لئے گندم کے تھیلے جاری کئے جاتے ہیں۔

    حکومتی ناکامیوں اور پہلے سے زیادہ غیر متوقع موسم کے امتزاج سے خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے جبکہ فصلوں کی پیداوار متاثر ہوئی ہے

    خاصخیلی نے مزید کہا کہ اگر حکومت کی جانب سے صورتحال پر بدانتظامی جاری رہی تو اس سے قیمتی فصلوں کو نقصان پہنچے گا، گندم کی دستیابی کے باوجود غذائی عدم تحفظ مزید بڑھے گا۔

    عام طور پر، حکومت کی طرف سے کم سے کم امدادی قیمت پر پیداوار کے تقریباً 20 فیصد، یا 5.6 ​​ملین ٹن گندم کی بڑی خریداری، خریدار کو کچھ پیداوار کا یقین دلاتی ہے اور مارکیٹ ریٹ مقرر کرنے میں مدد ملتی ہے۔ لیکن موجودہ مسئلہ میں موسمیاتی تبدیلی بھی شامل ہے اور کس طرح یہ پاکستان کے زرعی شعبے کو بحران کی طرف دھکیل رہا ہے۔

    2022 کے سیلاب کے بعد زرعی بحران کے دو سال
    موجودہ بحران جولائی تا ستمبر 2022 کے اونچے درجے کےسیلاب سے جڑا ہے جس میں ملک کے ایک تہائی اضلاع ڈوب گئے۔ بتدریج گرم ہوتے سمندر سمیت بہت سے موسمی عوامل، کی وجہ سے شدید بارشیں ہوئیں، جس نے پاکستان کی 15 فیصد زرعی زمین کو معتدل یا شدید طور پر متاثر کیا۔

    صوبہ سندھ کے ضلع دادو میں جوہی جیسے علاقوں میں اس کا اثر کئی موسموں تک رہا۔ ابتدائی تباہی کے چھ ماہ بعد تک پانی بڑی مقدار میں ٹھہرا رہا۔ ایک بیراج بھی ڈھے گیا تھا، اور دو سال تک فعال نہ ہو سکا۔

    44 سالہ طالب گدیہی اور ان کے بھائیوں، جو اس علاقے میں مل کر 350 ایکڑ (141 ہیکٹر) زرعی اراضی کے مالک ہیں، نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا کہ ان میں سے اکثر نے دو سالوں میں لگاتار چار موسموں تک اپنی زمین کاشت کرنے کے لئے جدوجہد کی۔

    گدیہی نے کہا کہ بیراج کے تباہ ہونے سے اندازاً 100,000 ایکڑ (40,469 ہیکٹر) متاثر ہوا، اور قابل کاشت زمین بنجر ہو گئی ہے۔ “اس صورتحال کے نتیجے میں علاقے سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی ہے،” انہوں نے مزید کہا۔

    بڑھتی ہوئی مہنگائی سے درآمدات بڑھ گئی ہیں
    پاکستان بھر میں اس طرح کے اثرات نے ملک کو 2022 میں گلوبل ہنگر انڈیکس میں 99 ویں نمبر سے 2023 میں 102 ویں نمبر پر لانے میں کردار ادا کیا۔ فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن کے جنوری 2024 کے تجزیے کے مطابق، غربت کی شرح 2022 میں 34 فیصد سے بڑھ کر 2023 میں 39 فیصد ہو گئی، جس کی بڑی وجہ خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ اس سے غریب گھرانوں کی قوت خرید میں مزید کمی آئی۔ انٹیگریٹڈ فوڈ سیکیورٹی فیز کی درجہ بندی کے مطابق، 10 ملین سے زیادہ لوگ “اپریل سے اکتوبر 2023 کے درمیان شدید غذائی عدم تحفظ کی اعلی سطح کا سامنا کر رہے تھے”۔

    گندم ملک کی بنیادی خوراک کا 72 فیصد بنتی ہے، اور غذائی تحفظ اور مہنگائی کے مسائل سے نمٹنے کے لیے نگران حکومت نے 2024 کے قومی انتخابات سے قبل 2023 کے آخر میں گندم درآمد کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن ہوا یہ کہ اس وقت تک زرعی شعبہ ٹھیک ہو چکا تھا، اور کسانوں کو معمول سے زیادہ پیداوار کی توقع تھی۔ تاہم، چونکہ حکومت پہلے ہی گندم درآمد کر چکی تھی، اس لئے اب وہ کسانوں سے کم خریدنا چاہتی ہے، جس کی وجہ سے احتجاج شروع ہورہے ہیں۔”

    اسلام آباد میں گلوبل کلائمیٹ چینج امپیکٹ اسٹڈیز سینٹر (جی سی آئی ایس سی) میں زراعت، جنگلات اور زمین کے استعمال کے سیکشن کے سربراہ محمد عارف گوہیر نے مارچ میں احتجاج سے قبل، ڈائیلاگ ارتھ کو گندم درآمد کرنے کے فیصلے کی وضاحت دی کہ یہ استطاعت کا مسئلہ ہے۔ اناج کی درآمد سے گندم کی قیمت میں گراوٹ آئی، ڈان کے مطابق، “3,000 روپے اور 3,100 روپے فی 40 کلوگرام کے درمیان جو کہ 2024-2025 کے سیزن کے لئے مقرر کردہ 3,900 روپے فی 40 کلو گرام کم سے کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) سے نمایاں طور پر کم ہے۔” لیکن اس کی وجہ سے دو سال کی سختی کے بعد اچھی کمائی کی امید رکھنے والے کسانوں کی طرف سے احتجاج شروع ہو گیا ہے۔

    گوہیر نے کہا، “خوراک کی افراط زر اور تحفظ سے نمٹنے کا حتمی حل درست زراعت کو اپنانے اور زیادہ پیداوار دینے والے بیجوں کے استعمال میں مضمر ہے۔”

    لیکن ہاری ویلفیئر ایسوسی ایشن کے خاصخیلی نے بتایا کہ کسانوں کو اس سلسلے میں بہت کم یا کوئی اعانت نہیں ملتی۔ “شروع سے آخر تک، کاشتکار بے بس ہیں،” انہوں نے کہا۔ “کاشتکاروں کو معیاری بیجوں، کھادوں اور کیڑے مار ادویات تک رسائی میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ اپنی فصلیں کم نرخوں پر فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ اس سے فصل کی پیداوار اور غذائی تحفظ متاثر ہوتے ہیں۔”

    بدانتظامی اور موسمیاتی تبدیلیوں سے غذائی تحفظ کو خطرہ
    مظاہرے اور گلوبل ہنگر انڈیکس میں پاکستان کی غیر معمولی درجہ بندی دونوں اس بات کو اجاگر کرتے ہیں کہ پاکستان کی غذائی تحفظ اور سماجی استحکام کے لئے زرعی پالیسیاں کتنی اہم ہیں۔ بنیادی میٹرکس کے لحاظ سے، ملک نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ 1947-48 میں، گندم 3,953 ہیکٹر پر بوئی گئی تھی، جس سے 0.848 ٹن فی ہیکٹر پیداوار پر 3,354 ٹن گندم پیدا ہوا تھا۔ 2022-23 تک پاکستان میں 9,043 ہیکٹر پر گندم کی بوائی گئی، جس کی پیداوار 27,634 ٹن تھی جس کی اوسط پیداوار 3.056 ٹن فی ہیکٹر تھی۔

    لیکن اگرچہ پاکستان اب دنیا میں گندم پیدا کرنے والا 7 واں بڑا ملک ہے، لیکن یہ انڈیکس منڈی کے مطابق گندم کی اوسط پیداوار کے لحاظ سے صرف 38 ویں نمبر پر ہے، جس کی اوسط پیداوار 3 میٹرک ٹن فی ہیکٹر ہے۔ نیوزی لینڈ اس وقت 10 میٹرک ٹن فی ہیکٹر کے حساب سے دنیا میں سب سے زیادہ گندم کی اوسط پیداوار رکھتا ہے۔

    فیڈرل منسٹری فار نیشنل فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ کے تحت کلائمیٹ، انرجی اینڈ واٹر ریسورس انسٹی ٹیوٹ (سی ای ڈبلیو آر آئی) کے ڈائریکٹر بشیر احمد کے مطابق، پیداواری صلاحیت کو بڑھانے میں ایک بڑھتا ہوا چیلنج موسمیاتی تبدیلی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ پاکستان کا زرعی شعبہ آبپاشی پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے، جس کا 60-70 فیصد برف پگھلنے اور گلیشیئر پگھلنے سے آتا ہے۔

    ستمبر 2022 میں، ایک کسان پاکستان کے کوئٹہ کے قریب سیلاب سے تباہ شدہ باغ میں سڑے ہوئے سیب جمع کر رہا ہے۔ گرمی کی لہروں اور سیلاب سے بارشوں بدلتے پیٹرن اور برفانی تودوں کے غیر متوقع پگھلنے تک، موسمیاتی تبدیلیاں جنوبی ایشیائی ملک میں کسانوں کے لیے زندگی مشکل بنا رہی ہیں (تصویر بشکریہ ارشد بٹ/الامی)

    احمد نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا کہ اس کے علاوہ بارش کے بدلتے ہوئے پیٹرن نے پانی کی دستیابی اور ذخیرہ کو متاثر کیا ہے، شدید اور مختصر دورانیے کی بارشیں مٹی کے کٹاؤ کا باعث بنتی ہیں۔ اس نے پوٹھوہار کے علاقے اور ملک کے شمالی حصوں میں بارش پر منحصر زراعت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

    “مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ بارش کے بدلتے ہوئے پیٹرن کے نتیجے میں مختلف فصلوں پر 6-15 فیصد اثر پڑا ہے، خاص طور پر بارش سے چلنے والی فصلیں جیسے گندم، جس میں 15 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کمی کا تعلق گرمی کی لہروں اور سیلاب کے اثرات سے نہیں ہے،” احمد نے مزید کہا۔

    احمد نے کہا کہ گلگت بلتستان جیسے سرد علاقوں میں، نارنگی جیسے پھل ٹھنڈ کے ناکافی اوقات کی وجہ سے جلدی تیار ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ، آبپاشی کے لئے پانی کی سپلائی میں کمی نے پنجاب میں زیر زمین پانی پر انحصار بڑھا دیا ہے، جس سے زیر زمین پانی کی سطح کم ہو رہی ہے۔

    حل موجود ہیں، لیکن سوال حکومت کی سپورٹ کا ہے
    ویٹ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سکرنڈ، سندھ میں زرعی سائنس کے ڈائریکٹر اور ایگریکلچرل سائنٹسٹ ظفر علی کھوکھر تجویز کرتے ہیں کہ مقامی بیج کی اقسام اپنی موجودہ پیداواری صلاحیت کو دوگنا کر سکتی ہیں۔ تاہم، معیاری بیج کی تیاری میں طلب اور رسد کے مسائل برقرار ہیں۔

    کھوکھر نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا ، “ہمارے ادارے نے 80 من گندم فی ایکڑ (7.43 ٹن فی ہیکٹر) پیدا کرنے والی اقسام تیار کی ہیں، جو مسلسل استعمال سے ثابت ہیں۔ بیج کی ضروری فراہمی کو یقینی بنانا ذمہ دار مینوفیکچررز کے ہاتھوں میں ہے۔ فی الحال، بیج کی کل طلب کا صرف 30 فیصد اعلی پیداوار والے گندم کے بیجوں پر مشتمل ہے، جو حکومتی یا نجی کمپنیاں فراہم کرتے ہیں۔

    عامر حیات بھنڈارا، جنہوں نے 2023 میں زراعت کی پیداوار میں بہتری کے لیے وزیر اعظم کی کمیٹی کے رکن کے طور پر کام کیا، نے اس بات پر زور دیا کہ اب کام کرنے کا وقت آگیا ہے۔ “اگر ماضی کی حکومتیں زراعت کے شعبے میں انتہائی اہمیت کے باوجود جدید تکنیک، ٹیکنالوجی اور انکی کسانوں تک رسائی پر توجہ دینے کو ترجیح نہیں دے سکیں، تو اب وقت آگیا ہے کہ اس پر توجہ دی جائے۔”

    ذوالفقار کنبھر کی یہ رپورٹ ڈائیلاگ ارتھ پر شایع ہوئی تھی جسے یہاں پڑھا جاسکتا ہے

  • موسمیاتی تبدیلی جنوبی ایشیا میں فضائی انتشار اور ہوا بازی کے لیے خطرات پیدا کر رہی ہے

    موسمیاتی تبدیلی جنوبی ایشیا میں فضائی انتشار اور ہوا بازی کے لیے خطرات پیدا کر رہی ہے

    اس ہفتے، سنگاپور ایئر لائنز کی ایک پرواز کو موسمیاتی تبدیلی کے باعث میں فضا میں شدید انتشار کا سامنا کرنا پڑا۔ طیارے میں سوار ایک مسافر جنہیں دل کا عارضہ تھا، جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور متعدد دیگر افراد زخمی ہوئے۔ یہ واقعہ فضائی انتشار اور ہوا بازی کو لاحق خطرات کے حوالے سے پے در پے ہونے والے واقعات کے تسلسل میں تازہ ترین تھا جن کے باعث اب دنیا بھر کی توجہ موسمیاتی تبدیلی اور ان کے نتیجے میں فضا میں بڑھنے والے انتشار پر مرکوز ہوگئی ہے۔

    ماہرین بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت، کاربن کے اخراج اور فضا میں بڑھتے ہوئے انتشار کے درمیان موجود روابط کو اجاگر کرتے ہیں۔ یہ فضائی انتشار یا بے ترتیبی اگر شدید ہوتو اس کا نتیجہ طیاروں میں سوار افراد کے زخمی ہونے کی صورت میں نکل سکتا ہے۔

    یکم مئی 2022 کو، ممبئی سے کولکتہ جانے والی اسپائس جیٹ کی پرواز کو بھی فضا میں اسی طرح کا انتشار، ہنگامہ آرائی یا بے ترتیبی کا سامنا کرنا پڑا، جس سے متعدد افراد زخمی ہوئے۔ کئی مہینے بعد اس پرواز میں زخمی ہونے والے ایک مسافر کی موت بھی واقع ہو گئی۔ ہیمل دوشی، جو اس اسپائس جیٹ کی پرواز میں سوار تھیں، نے اپنی زندگی کے اس بھیانک تجربے کو یاد کرتے ہوئے بتایا، “اچانک جھٹکے نے ہم سب کو گھبراہٹ میں ڈال دیا۔ میں نے اپنے ساتھ بیٹھی ایک بزرگ خاتون کو پکڑ لیا تاکہ وہ اپنی سیٹ سے گرنے سے بچ سکیں۔“

    اسی طرح، 11 جون 2022 کو، پاکستان کے تجارتی دارالحکومت کراچی سے پشاور جانے والی ایئر بلیو کی پرواز کو بھی غیر متوقع طور پر ہنگامہ آرائی کا سامنا کرنا پڑا، جہاز کو لگنے والے جھٹکے اتنے شدید تھے کہ تمام مسافر دہشت زدہ ہو گئے۔ جہاز میں سوار ایک مسافر نسرین پاشا نے بتایا کہ شدید افراتفری کے عالم میں تمام مسافر باآواز بلند تلاوت اور دعا کر رہے تھے اور گرنے سے بچنے کے لیے ایک دوسرے کو پکڑ رکھا تھا۔ نسرین پاشا نے بتایا، “سب کچھ ٹھیک تھا اور ہم ہموار پرواز اور مہمان نوازی سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ لیکن اچانک، پرواز ناہموار اور شدید جھٹکوں کا شکار ہوگئی۔”

    فضائی انتشار کی سائنسی توجیہ اور اثرات
    اسلام آباد میں مقیم ایک سائنس داں محمد عمر علوی کے مطابق، غیر محفوظ آسمانوں کا سبب انسانوں کی جانب سے پیدا کیا گیا ماحولیاتی بگاڑ ہے۔ “اوسط درجۂ حرارت میں اضافے اور جنگلات کی کٹائی کے باعث، ملک کے بڑے شہروں میں اور ان کے آس پاس کا ماحول مزید غیر مستحکم ہو گیا ہے۔ یہ عمل فضا میں حرارت کے غیر متوقع دھاروں کی تشکیل کا باعث بنتا ہے جس کے نتیجے میں غیر متوقع طور پر فضا میں طیاروں کو ہنگامہ خیزی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، خاص طور پر کراچی اور لاہور جیسے بڑے ہوائی اڈوں کے ارد گر۔” ڈاکٹر عمر علوی نے تفصیل سے بتایا۔

    عالمی سطح پر کیے گئے ایک مطالعے، جس کے نتائج 2019 میں یونیورسٹی آف ریڈنگ کے محکمہ موسمیات کی طرف سے شائع کیے گئے تھے، پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں فضا ئی ٹریفک کو بدترین اثرات کا سامنا ہوسکتا ہے ۔طیاروں کو فضا میں فضائی انتشار یا (clear-air turbulence (CAT) کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جس کے بدترین اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ بھی واضح کیا گیا کہ اس قسم کی شدید فضائی ہنگامہ خیزی بادلوں کے بغیر علاقوں میں واقع ہوتی ہے اور مسافروں کے ساتھ ہوائی جہاز کے ڈھانچے پر بھی بدترین اثرات کا سبب بنتی ہے، لیکن بادلوں کی عدم موجودی کی وجہ سے اس کی پیش گوئی کرنا مشکل ہے۔ اس مطالعے نے یہ بھی واضح کیا کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے بڑھتے ہوئے اخراج کی وجہ سے فضا میں گرم ہوا کے دھاروں کی شدت بڑھتی ہے، جس سے عالمی سطح پر ہوائی ٹریفک کے لیے بے ترتیبی (clear-air turbulence (CAT)) میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں، شمالی بحر اوقیانوس جیسی مصروف فضائی حدود متاثر ہو رہی ہے، جہاں 1979 سے 2020 تک شدید فضائی انتشارمیں 55 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

    پاکستان میٹرولوجیکل ڈپارٹمنٹ کے ایک سینیئر اہلکار سردار سرفراز خان نے کہا، “یہ پیش گوئی (فضائی انتشار) بالائی ماحول یعنی (85 کلومیٹر سے 600 کلومیٹرتک) ہوا کے اعداد و شمار کی بنیاد پر کی جاتی ہے جو ریڈیو سونڈ نامی آلے سے حاصل ہوتے ہیں، جو فضا میں 100 گرام کے غبارے کے ساتھ چھوڑا گیا ہوتا ہے۔

    عام طور پر 30,000 فٹ سے اوپر کی سطح پر بہت تیز ہوا کے ساتھ جیٹ اسٹریم جہازوں کے لیے انتشار کا باعث بنتی ہے۔” انہوں نے مزید کہا، “یہ فضائی انتشار یا بے ترتیبی دراصل صرف حرکت پذیر ہوا ہوتی ہے۔ اور ہوا ریڈار میں استعمال ہونے والی الٹرا ہائی فریکوئنسی ریڈیو لہروں سے شفاف ہے۔ لہذا ریڈار پر اس ہوا کی کوئی بازگشت یا نشان دہی نہیں ہوسکتی ہے۔”

    موسمیاتی تبدیلی سے گہرا تعلق
    سائنس داں، جیسے کہ رگھو مرتگوڈے، جو IIT بمبئی میں موسمیاتی تبدیلیوں کے نصاب کے پروفیسر اور میری لینڈ یونیورسٹی کے ایمریٹس پروفیسر ہیں، وہ موسمیاتی تبدیلی اورفضا میں بڑھتی ہوئی ہنگامہ خیزی کے درمیان تعلق کو اجاگر رہے ہیں۔ “گلوبل وارمنگ کے ساتھ، عمودی درجۂ حرارت (بڑھتی ہوئی بلندی کے ساتھ درجہ ءحرارت میں کمی) اور ونڈ پروفائلز (مختلف بلند سطح پر ہوا کی رفتار کے درمیان تعلق) کیونکہ زمین اضافی توانائی سے چھٹکارا پانے کی کوشش کر رہی ہے جو گرین ہاﺅس گیسوں کی وجہ سے زمین پر موجود ہے۔ فضا میں تیز اوپر اور نیچے کی طرف حرکت اور درجۂ حرارت کی سطح میں بھی اضافہ ہوتا ہے، جس سے فضا میں انتشار یا (Clear-air turbulence) تشکیل پاتا ہے۔”

    IIT کھڑگپور کے آب و ہوا کے ایک ماہر اور ماحولیاتی کیمیا دان جے نرائن کٹی پورتھ نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا، “انسانی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی گلوبل وارمنگ پوری دنیا میں سطح پرموجود ہوا کے درجۂ حرارت میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔ نتیجتاً، شدید موسمی واقعات بھی متواتر اور تباہ کن طور پر رونما ہوتے ہیں۔ اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے یہ خطرہ موجود رہتا ہے کہ عالمی سطح پر ہوا کے درجۂ حرارت میں ہر فی سینٹی گریڈ اضافے کے ساتھ شمالی نصف کرہ کے موسم بہار اور سرما میں معتدل CAT واقعات میں تقریباً % 9 اور خزاں اور گرما میں % 14 اضافہ ہو جائے گا۔ اگر مستقبل میں گرمی کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے، تو CAT واقعات کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوگا۔ انہوں نے ابتدائی انتباہی نظام (Early Warning System) کو بہتر بنانے اور ہوائی جہازوں میں ایسے آلات نصب کرنے پر زور دیا جو ایسے واقعات کا اندازہ لگاسکیں ۔ آئی آئی ٹی بمبئی میں ان موضوعات پر تحقیق جاری ہے۔

    ہندوستان کی ارتھ سائنسز کی وزارت کے سابق سکریٹری مادھون نیر راجیون نے کہا کہ مسافروں کو ہوشیار رہنا ہو گا، “فضائی بے ترتیبی میں اضافہ اور اس سے متعلقہ خطرات، جیسے کہ شدید موسمی واقعات وغیرہ، مسافروں کے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت کو اجاگر کرتے ہیں۔ جب کہ ہوا بازی کے شعبے کا کردار اہم ہے جس میں موسمیاتی تبدیلی کو قبول کیا جاتا ہے، ان مسائل سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوشش بہت اہم ہے، پروازوں کی منسوخی کی مالی لاگت بھی فضائی سفر پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے فعال اقدامات کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔

    پاکستانی موسمیاتی سائنس داں محمد ایوب خان نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی فضائی صنعت کو متعدد طریقوں سے متاثر کر رہی ہے۔ “انتہائی گرمی طیاروں کو گراؤنڈ رکھ سکتی ہے، جب کہ بڑھتی ہوئی حرارت جیٹ اسٹریمز میں تبدیلی کرسکتی ہے جس سے فضا میں مزید بے ترتیبی اور انتشار ہو سکتا ہے، اس کے نتیجے میں ہوائی اڈے کے کارکنوں کی صحت کے لیے خطرات اور ہوائی اڈے کے بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔”

    جنوبی ایشیا میں ہوا بازی کی پھلتی پھولتی صنعت اور خطرات
    یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب ہوائی سفر کی صنعت خاص طور پر جنوبی ایشیا میں نمایاں طور پر ترقی کر رہی ہے۔ انٹرنیشنل ایئر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن (آئی اے ٹی اے) کی رپورٹ کے مطابق ہوابازی کی صنعت پاکستان کی قومی جی ڈی پی میں 2 ارب امریکی ڈالرز کا اضافہ کررہی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ غیر ملکی سیاحوں کے خرچ سے ملک کے جی ڈی پی میں مزید 1.3 بلین امریکی ڈالر کا اضافہ ہوتا ہے، جو کل 3.3 بلین امریکی ڈالر بنتے ہیں۔

    رپورٹ میں “موجودہ رجحانات” کے منظر نامے کے تحت اگلے 20 سالوں میں پاکستان میں ہوائی نقل و حمل میں 184 فیصد اضافے کی پیش گوئی بھی کی گئی ہے۔ اس کے نتیجے میں 2038 تک اضافی 22.8 ملین فضائی مسافروں کی آمد و رفت بڑھے گی۔ اگر بہتر انتظام کے ذریعے اس بڑھتی ہوئی طلب سے فائدہ اٹھایا گیا تو جی ڈی پی میں تقریباً 9.3 بلین امریکی ڈالر کا اضافہ ہوگا اور ملک کے لیے تقریباً 786,300 ملازمتیں پیدا ہوں گی۔

    ہندوستان میں، IATA نے اگلے 20 سالوں میں% 262 ترقی کی پیش گوئی کی ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس کے نتیجے میں 2037 تک 370.3 ملین مسافروں کے اضافی سفر ہوں گے۔ اگر اس طلب کو پورا کیا جائے، تو اس بڑھتی ہوئی مانگ سے GDP میں تقریباً 126.7 بلین امریکی ڈالرز کا اضافہ ہوگا اور تقریباً 9.1 ملین ملازمتیں شامل ہوں گی۔

    ماحول دوست ہوا بازی کی صنعت
    ہوا بازی کی صنعت کو برسوں سے اس کے بڑھتے ہوئے ماحولیاتی اثرات، خاص طور پر فضا میں کاربن کا اخراج جو فضا میں حرارت میں اضافہ کرتا ہے، کے لیے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ لیکن جرمن ایرو اسپیس سینٹر کے ایک محقق، برنڈ کرچر کی ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ ہوائی جہازوں کا ایک اور ضمنی پروڈکٹ – دھوئیں کی وہ سفید دھاریاں(Contrails) جو وہ آسمان پر پینٹ کرتے ہیں – کی گرمی کا اثر اور بھی شدید ہے، جو 2050 تک تین گنا ہو جائے گا۔

    اس تحقیق میں کہا گیا ہے، “طیارے شفاف، ٹھنڈی ہوا میں اونچے اڑتے ہی اپنے مسحور کن دھاریوں کا اخراج کرتے ہیں جن پر دیکھنے میں خوبصورت بادلوں کا گماں ہوتا ہے ۔ پانی کے بخارات ہوائی جہاز سے اخراج کے بعد ارد گرد ٹھنڈی فضا میں تیزی سے گاڑھے ہونے لگتے ہیں اور ایسے بادلوں کی شکل میں جم جاتے ہیں جن میں برف کے ٹکڑے بھی ہوتے ہیں، جو منٹوں یا گھنٹوں تک رہ سکتے ہیں۔ یہ اونچے اڑنے والے بادل بہت زیادہ سورج کی روشنی کو منعکس کرنے کے لیے پتلے ہونے کے باعث ناموزوں ہوتے ہیں، لیکن ان کے اندر موجود برف کے کرسٹل گرمی کو ٹریپ کر لیتے ہیں۔ نچلے درجے کے بادلوں کے برعکس جو خالص ٹھنڈک کا اثر رکھتے ہیں، یہ متضاد بادل آب و ہوا کو گرم کرتے ہیں۔

    ہوا بازی کے کچھ ماہرین جہازوں سے کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے لیے سبز ٹیکنالوجی کے شعبے میں تجربہ کر رہے ہیں، اگراس حوالے سے کامیابی حاصل ہو جاتی ہے تو اس کا نتیجہ فضا میں طیاروں کو لاحق خطرات (CAT) میں کمی کی صورت میں نکل سکتا ہے، جو دراصل کاربن کے اخراج سے وقوع پزیر ہوتے ہیں۔

    سارہ قریشی، ایک پاکستانی پائلٹ اور ایروناٹیکل انجینئر ہیں، جن کا مقصد طیاروں کے پرواز کے دوران خارج ہونے والے سفید دھوئیں (Contrails) کی آلودگی کو کم کرنا اور ہوا بازی کی صنعت کو سر سبز بنانا ہے۔

    سارہ قریشی نے برطانیہ کی کینفیلڈ یونیورسٹی (Canfield University) سے ایرو اسپیس انجینئرنگ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے، انہوں نے ہوائی جہاز کے ماحول دوست انجن بنانے کے لیے ایک ایرو انجن کرافٹ کمپنی قائم کی ہے۔یہ انجن ہوائی جہاز سے خارج ہونے والے پانی کے بخارات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے، اس لیے یہ آبی بخارات خارج ہونے کے بجائے پانی کی شکل میں جہاز میں جمع ہوتے رہیں گے اور ضرورت پڑنے پر اس پانی کو خشک سالی والے علاقوں میں بارش کے طور پر چھڑکا جا سکتا ہے۔

    پاکستان سے ہوا بازی کے ماہر محمد حیدر ہارون کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ، “پائیدار ہوا بازی کے ایندھن کی پیداوار میں اضافہ ہونا چاہیے۔ ہائیڈروجن اور بیٹری/ بجلی سے چلنے والے ہوائی جہاز 2030 کی دہائی کے آخر میں عالمی ہوا بازی کو زیادہ موثر بنا سکتے ہیں۔ ایندھن کی بچت کرنے والے ہوائی جہازوں کو عالمی سطح پر جدید ترین ٹیکنالوجی کے ساتھ ایئر لائنز میں شامل کیا جانا چاہیے۔“ ہارون کے مطابق، اپ گریڈ شدہ انجن، بہتر ایرو ڈائنامکس، ہلکے کمپوزٹ میٹریل اور بائیو بیسڈ پائیدار ایوی ایشن فیول سبز ہوابازی کی صنعت کے حل میں سے ایک ہے اور یہ اقدامات ہوا بازی کی صنعت میں انقلاب پیدا کرسکتے ہیں۔

    سارہ قریشی نے کہا کہ”جب ہم آسمان کی طرف دیکھتے ہیں تو وہاں صرف ایک صنعت کام کرتی ہے۔ ہم اس بات پر زیادہ توجہ نہیں دیتے کہ ہم سے ایک کلومیٹر اوپر فضا میں کیا ہو رہا ہے۔ یہ ہوا بازی کی آلودگی ایک کمبل کی طرح ہے جو آہستہ آہستہ زمین کی سطح کو ڈھانپ رہا ہے، اور گلوبل وارمنگ میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔“

    یہ تحقیقی رپورٹنگ پروجیکٹ ایسٹ ویسٹ سینٹر کے زیر اہتمام ”سرحدوں کے آر پار ٹریننگ ورکشاپ“ کا حصہ ہے، جہاں دونوں ممالک کے صحافی سرحد پار موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے مشترکہ مسائل پر کام کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔

    (چندرانی سنہا، شبینہ فراز کی یہ رپورٹ ڈائیلاگ ارتھ پر شایع ہوچکی ہے جسے اس لنک کی مدد سے پڑھا جاسکتا ہے)

  • غیر متوقع بارشیں، سیلابی صورت حال، موسمیاتی اثرات مزید کیا خطرات لا رہے ہیں؟

    غیر متوقع بارشیں، سیلابی صورت حال، موسمیاتی اثرات مزید کیا خطرات لا رہے ہیں؟

    اپریل کے مہینے میں غیر متوقع بارشیں تو ہوتی ہیں لیکن کبھی سیلاب نہیں آیا، تاہم اس سال اپریل میں جو صورت حال سامنے آئی ہے اسے دیکھ کر مون سون کے حوالے سے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔

    ملک بھر میں گزشتہ دو ہفتوں سے وقفے وفقے سے جاری بارشوں سے اب تک 96 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں، خیبر پختونخوا، پنجاب اور بلوچستان میں بارشوں سے نقصانات زیادہ رپورٹ ہو رہے ہیں۔ بلوچستان میں سیلابی صورت حال ہے تو خیبر پختونخوا میں بھی لینڈ سلائیڈنگ اور سیلاب نے تباہی مچائی۔ بارشوں سے جہاں جانی و مالی نقصانات ہو رہے ہیں وہاں فصلوں پر بھی ان کا تباہ کن اثر پڑ رہا ہے، خیبر پختونخوا میں گندم کی فصل تیار ہے لیکن بارشوں کی وجہ سے کٹائی سیزن تاخیر کا شکار ہے، اور گندم کی فصل متاثر ہو رہی ہے۔

    باشوں سے ہونے والے نقصانات

    خیبر پختونخوا میں بارشوں سے اب تک 46 افراد جاں بحق ہوئے ہیں اور 60 افراد زخمی ہیں، صوبے میں 2 ہزار 875 گھروں کو نقصان پہنچا ہے، 436 گھر مکمل تباہ جب کہ 2 ہزار 439 گھروں کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔

    مزید بارشوں کا امکان

    محکمہ موسمیات نے ملک بھر سمیت خیبر پختونخوا میں 23 اپریل سے 29 اپریل تک شدید بارشوں اور تیز ہوائیں چلنے کی پیش گوئی کی ہے، صوبائی حکومت نے شدید موسمی صورت حال کے پیش نظر صوبے کے 15 اضلاع میں موسمیاتی ایمرجنسی نافذ کی ہے۔ حکومت نے ضلعی انتظامیہ اور اسپتالوں کے عملے کو الرٹ رہنے کی ہدایات جاری کیے ہیں۔ پی ڈی ایم کے مطابق 9 اضلاع میں گلیشیئر پگھلنے کی وجہ سے سیلاب کا خطرہ بھی موجود ہے۔

    بارشوں سے گندم کی فصل پر اثرات

    شدید بارشوں کے باعث دریاؤں کے کنارے کھڑی فصلیں شدید متاثر ہوئی ہیں، بارش اور ژالہ باری سے باغات کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ دریائے سوات، دریائے پنجکوڑی، اور دریائے کابل میں سیلابی صورت حال پیدا ہونے کی وجہ سے گندم کی فصل متاثر ہوئی ہے۔

    صباق ایگری کلچر ریسرچ سینٹر

    حمید الرحمان پیر صباق ایگری کلچر ریسرچ سینٹر نوشہرہ میں ریسرچ آفیسر ہیں، انھوں نے بتایا کہ اس وقت گندم کی فصل تیار ہے، خیبر پختونخوا میں عموماً مئی کے پہلے ہفتے میں گندم کی کٹائی شروع ہو جاتی ہے، لیکن اس سال بارشوں کی وجہ سے ابھی تک گندم کی فصل سبز ہے۔ بارشیں زیادہ ہونے کی وجہ سے فصل میں پانی کھڑا ہونے کی وجہ سے یہ گر جاتا ہے، اس کو ایگریکلچر کی زبان میں لاجنگ کہا جاتا ہے۔ گندم کا پودا زمین پر گر جاتا ہے اور جب یہ گر جاتا ہے تو دوبارہ نہیں اٹھ سکتا۔ اس وجہ سے گندم کی پیدوار متاثر ہوتی ہے اور اس کے ساتھ کٹائی میں بھی مشکلات پیش آتی ہیں۔

    حمید الرحمان نے بتایا کہ اگر فصل پک چکی ہے اور خشک ہو اور اس دوران زیادہ بارشیں ہوں تو اس میں وقت گندم کا دانہ کالا ہو جاتا ہے۔ یہ ایک فنگل ڈیزیز (fungal disease) ہے اور اس کو کرنال بنٹ کہا جاتا ہے۔ اس بیماری میں گندم کا دانہ کالا ہو جاتا ہے، اس سے کوالٹی پر اثر پڑتا ہے۔ اگر اس کو کھانے کے لیے استعمال کیا جائے گا تو کوالٹی خراب ہوگی اور اگر بہ طور سیڈ استعمال کرنا ہو تو بھی اس کی پیداوار متاثر ہوگی۔

    دریائے خیالی کے کنارے

    طیب احمد زئی کا تعلق چارسدہ ہے اور دریائے خیالی کے کنارے پر ان کی زمینیں ہیں، بارشوں اور سیلاب سے طیب احمد زئی کی 5 ایکڑ زمین پر محیط گندم کی فصل تباہ ہو چکی ہے۔ طیب نے بتایا کہ دریائے خیالی میں پانی کی سطح بلند ہونے کی وجہ سے قریب علاقے زیر آب آتے ہیں، ایسے میں دریا کے کنارے کھیتوں میں فصلیں بھی سیلابی پانی کی نذر ہو جاتی ہیں۔

    اس سوال پر کہ کیا پہلے بھی اپریل کے مہینے میں دریا میں پانی کی سطح اتنی بلند ہوئی ہے؟ طیب احمد زئی نے بتایا کہ اس کو نہیں یاد کہ اپریل میں سیلاب آیا ہو۔ غیر متوقع بارشیں اپریل کے مہینے میں ہوتی ہیں لیکن کبھی اس طرح سیلابی صورت حال پیدا نہیں ہوئی، جس طرح اس بار سیلاب آیا ہے۔ اپریل میں یہ صورت حال ہے تو مون سون میں اللہ خیر کرے۔

    سوات میں شدید بارشیں ہوتی ہیں تو دریائے پنجکوڑی اور دریائے سوات میں پانی کے بہاؤ میں اضافہ ہو جاتا ہے، اور پھر دونوں دریاؤں کا پانی سیلابی شکل اختیار کر کے منڈا ہیڈ ورکس اور پھر دریائے خیالی میں سیلاب کی صورت حال پیدا کرتی ہے۔ دریائے خیالی کا پانی دریائے کابل میں گر کر نوشہرہ میں سیلاب کا باعث بنتی ہے، جس کی وجہ سے دریا کے قریب کھیت اور آبادی اس کی زد میں آ جاتی ہے۔

  • کلاؤڈ سیڈنگ : غیرمعمولی بارشوں کا اصل سبب کیا ہے ؟

    کلاؤڈ سیڈنگ : غیرمعمولی بارشوں کا اصل سبب کیا ہے ؟

    گزشتہ سال کی طرح اس بار بھی معمول سے زیادہ بارشوں کا عندیہ دیا جارہا ہے جس کی ایک جھلک صوبہ بلوچستان میں دیکھنے میں آرہی ہے۔

    دنیا بھر میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلی نے ایک بار پھر خطرے کی گھنٹی بجا دی دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی بادل جم کر برسیں گے۔

    غیرمعمولی موسلادھار بارشیں کیوں ہوتی ہیں ایسے کون سے اقدامات ہیں جس کی اثرات کی وجہ سے موسمی حالات بدل جاتے ہیں۔ ،

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ماہر ماحولیات ڈاکٹر حسن عباس نے مصنوعی بارشوں (کلاؤڈ سیڈنگ) سے متعلق تفصیلی آگاہ کیا۔

    انہوں نے بتایا کہ کلاؤڈ سیڈنگ ایک ایسی تکنیک ہے جس سے بادلوں کے بخارات کو بارش میں تبدیل کرنے کی رفتار بڑھائی جاتی ہے اور موسم میں یہ مصنوعی تبدیلی لانے کے لیے نمک کا استعمال کیا جاتا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ سب سے پہلے سیٹلائٹ ڈیٹا کی مدد سے ایسے بادلوں کی نشاندہی کی جاتی ہے جو ممکنہ طور پر شدید بارش کا باعث بن سکیں۔

    مصنوعی بارشوں سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ موسمیاتی تبدیلی کے علاوہ کلاؤڈ سیڈنگ انرجی سسٹم میں تبدیلی سے بھی بارشیں بہت زیادہ ہورہی ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ انرجی سسٹم میں تبدیلی سے ہائیڈرو لوجیکل سائیکل متاثر ہوتا ہے کیوں کہ یہ پورا نظام ہے کہ سمندری پانی آبی بخارات بن کر بادلوں کی صورت میں سفر کرتا ہے اور ایک وقت پر بادل برس جاتے ہیں۔

    لیکن کلاؤڈ سیڈنگ سے اس کی رفتار اور انرجی میں تیزی آجاتی ہے اور بادل بھی بڑے اور طاقتور بنتے ہیں اور اپنی جگہ پر برسنے کے بجائے اس مقام سے آگے نکل جاتے ہیں۔

    یاد رہے کہ گزشتہ سال دسمبر میں متحدہ عرب امارات کی معاونت سے کلاؤڈ سیڈنگ کے تحت لاہور میں مصنوعی بارش کا پہلا کامیاب تجربہ کیا گیا تھا۔

    خصوصی جہاز کی پرواز وہاں کی جاتی ہے جہاں بادلوں سے ٹربیلنس پیدا ہوتی ہے، وہاں پہنچ کر ایسے کیمیائی مادے خارج کیے جاتے ہیں جن سے چین ری ایکشن ہو۔ اس عمل سے بادل غیر مستحکم ہوتا ہے اور جہاز کو فوراً وہاں سے باہر نکالنا پڑتا ہے۔

  • امریکا نے پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کیلئے فنڈز کی فراہمی کی کبھی مخالفت نہیں کی، جان کیری

    امریکا نے پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کیلئے فنڈز کی فراہمی کی کبھی مخالفت نہیں کی، جان کیری

    واشنگٹن : امریکی صدر کے خصوصی نمائندہ برائے موسمیاتی تبدیلی جان کیری کا کہنا ہے کہ امریکا نے پاکستان کوموسمیاتی تبدیلی کیلئے فنڈز کی فراہمی کی کبھی مخالفت نہیں کی۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر کے خصوصی نمائندہ برائے موسمیاتی تبدیلی جان کیری نے پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ امریکا نے ہمیشہ موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ممالک کو فنڈز دینے کی حمایت کی ہے۔

    جان کیری کا کہنا تھا کہ امریکا نے کبھی پاکستان کوموسمیاتی تبدیلی کیلئےفنڈزکی فراہمی کی مخالفت نہیں کی، فنڈز کو ذمہ داری اور معاوضے سے منسلک کرنے کی مخالفت ضرور کی تھی۔

    امریکی خصوصی نمائندہ برائے موسمیاتی تبدیلی نے بتایا کہ موسمیاتی تبدیلی کیلئے پاکستان کودی گئی ایک کروڑ پچھتر لاکھ ڈالر مختص کیے گئے جو انتہائی کم ہیں، دیگر ملکوں نے 10 کروڑ ڈالر دیے،مگر ہمیں کانگریس کی منظوری درکارہوتی ہے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچنے کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

  • موسمیاتی تبدیلی میں پاکستان کیا کردار ادا کرسکتا ہے؟ اہم انکشافات

    موسمیاتی تبدیلی میں پاکستان کیا کردار ادا کرسکتا ہے؟ اہم انکشافات

    دنیا بھر میں بے شمار ممالک کو اس وقت بدلتے موسم، قدرتی آفات کی تباہ کاریوں کا سامنا ہے، یہ وہ مسائل ہیں جو بلا تفریق رنگ و نسل اور ملک و قوم کرہ ارض کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں۔

    اس پر قابو پانے کیلئے عالمی سطح پر مختلف منصوبوں پر کام جاری ہے اور اس حوالے سے پاکستان سے بھی مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ بھی اس کام میں اپنا کردار ادا کرے۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ماہر ماحولیات ڈاکٹر پرویز امیر نے گفتگو کرتے ہوئے موسمیاتی تبدیلی اس اہم مسئلے پر ہوشربا انکشافات کیے۔

    انہوں نے بتایا کہ دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ دس بڑے ممالک میں پاکستان کا پانچواں نمبر ہے، کلائمٹ چینج سے نمٹنے کیلئے پاکستان کو 350 ارب ڈالر درکار ہیں لہٰذا ہم خود ایک مقروض ملک ہیں ہم اس کیلئے کوئی کردار ادا نہیں کرسکتے۔

    ان کا کہنا تھا کہ آنے والے برسوں میں موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے درجہ حرارت بہت زیادہ بڑھ جائے گا، بہت سے خطوں میں بارشیں پچاس فیصد تک بڑھ جائیں گی جن سے خطرناک سیلاب آئیں گے اگر ان سے بچاؤ کیلئے اقدامات نہ کیے گئے تو بہت بڑے نقصانات کا خدشہ ہے جس سے خطے کے کروڑوں افراد متاثرہوں گے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ مستقبل میں اگر مؤثر انداز میں واٹر منیجمنٹ کی جائے گی اور سیلابوں کا پانی ذخیرہ کر لینے کی موثر صلاحیت ہو گی تو سندھ میں بھی ڈاؤن اسٹریم پر سارا سال مناسب بہاؤ کو مؤثر طور پر مینیج کیا جاسکتا ہے، اس کیلئے ہمیں نئے ڈیمز کی اشد کی ضرورت ہے۔

  • موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلئے 30 ارب ڈالر فنڈز کا اعلان

    موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلئے 30 ارب ڈالر فنڈز کا اعلان

    دبئی: یو اے ای نے ترقی پذیر ممالک کے لیے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلئے 30 ارب ڈالر فنڈز کا اعلان کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق یو اے ای نے کوپ 28 کلائمیٹ چینج کانفرنس میں ترقی پذیر ممالک کے لیے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلئے 30 ارب ڈالر فنڈز کا اعلان ہوا ہے۔

    عالمی موسمیاتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یو اے ای کے صدر شیخ محمد بن زاید نے کلائمیٹ فنڈ کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ کلائمیٹ فنڈ عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کے مسائل کے حل کے لیے ہے۔

    شیخ محمد بن زاید النہیان کا کہنا تھا کلائمیٹ فنڈ ،کلائمیٹ فنانس گیپ کو بھرنے کیلئے قائم کیا گیا ہے، فنڈ کا مقصد 2030 تک 250 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔

    حیاتیاتی ایندھن ہماری زمین پر آگ برسارہے ہیں: یو این سیکریٹری جنرل

    یو این سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کوپ 28 کلائمیٹ چینج کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے نمٹنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا، حیاتیاتی ایندھن ہماری زمین پر آگ برسارہے ہیں۔

    سیکریٹری جنزل نے کہا کہ دنیا کی بڑی کمپنیوں کو ماحول دوست کاروبار کی طرف آنا ہوگا، یاد رکھیں آپ کا کاروباری فائدہ اس انسانوں کی بقا میں پنہاں ہے۔

    پاکستان نے موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرناک نتائج بھگتے: بادشاہ چارلس 

    دوسری جانب اس کانفرنس میں برطانیہ کے بادشاہ چارلس نے بھی شرکت کی، انہوں نے خطاب میں کہا کہ امید ہے 28 کلائمیٹ چینج کانفرنس دنیا میں تبدیلی کا باعث بنے گی۔

    بادشاہ چارلس نے کہا کہ دنیا تاریخ میں موسمیاتی تبدیلی کو لے کر اہم موڑ پر کھڑی ہے، شیخ زید اس زمانے میں موسمیاتی تبدیلی کی بات کرتے تھے جب یو اے ای وجود میں نہیں آیا تھا۔

    انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے دنیا کے رہنماؤں نے کردار ادا نہیں کیا، دنیا کے متعدد ممالک ماحولیاتی تبدیلی کا نشانہ بن رہے ہیں، پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں تاریخ کے بدترین سیلاب آرہے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ پاکستان نے موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرناک نتائج بھگتے ہیں، سیلاب کے باعث پاکستان کو شدید نقصانات اٹھانے پڑے، ہمیں قدرتی ماحول کو بچانے کیلئے فوری اقدامات کرنے ہونگے۔

    بادشاہ چارلس نے خطاب میں کہا کہ گرین ہاؤس گیسز پیدا کرنے والی تمام صنعتوں کا متبادل موجود ہے، دنیا بھر کے انجینئرز، سائنسدانوں اور خاص کر مقامی لوگوں کو بٹھا کرپائیدار دنیا کے قیام کیلئے راہیں تلاش کرنا ہونگی، ناصرف انسانوں بلکہ دنیا میں تمام حشرات کی بقا کا بندوبست کرنا ہوگا، ہمیں قدرتی ماحول میں زندگی گزارنے کیلئے اقدامات کرنے ہوں گے۔

  • ’’کامن ویلتھ ممالک میں بلو اکانومی کو فروغ دیا جارہا ہے‘‘

    ’’کامن ویلتھ ممالک میں بلو اکانومی کو فروغ دیا جارہا ہے‘‘

    کراچی : پاکستان میں تعینات برطانیہ کی ہائی کمشنر جین میریٹ نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے سنجیدہ بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے،بلو اکانومی کو فروغ دیا جارہا ہے۔

    کراچی میں نمائندہ اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے جین میریٹ کا کہنا تھا کہ پوری دنیا میں موسمی تبدیلی کے اثرات سامنے آرہے ہیں، ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کیلئے سب کو مل کر کردارا ادا کرنا ہوگا۔

    برطانوی ہائی کمشنر  نے کہا کہ برطانوی حکومت کی نئی ماحولیاتی پالیسیاں پاکستان کو نئی سمت مہیا کریں گی۔

    ہائی کمشنر جین میریٹ کا مزید کہنا تھا کہ کامن ویلتھ کے تمام ممالک میں بلو اکانومی کو فروغ دیا جارہا ہے۔

    دبئی میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے بونے والی کانفرنس میں کنگ چالز کی سربراہی میں وفد شرکت کرے گا۔

  • ’’پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی سالانہ اربوں ڈالر کا نقصان کررہی ہے‘‘

    ’’پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی سالانہ اربوں ڈالر کا نقصان کررہی ہے‘‘

    اسلام آباد : آئی ایم ایف نے پاکستان میں پبلک انویسٹمنٹ سے متعلق رپورٹ جاری کردی جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے انتہائی رسک والے ممالک میں شامل ہے۔

    رپورٹ کے مطابق سال2022کے سیلاب سے پاکستان میں3کروڑ لوگ متاثر ہوئے جبکہ سال2000سے پاکستان میں ہرسال موسمیاتی تبدیلی2ارب ڈالر کا نقصان کررہی ہے۔

    اس کے علاوہ ہرسال500افراد قدرتی آفات اور موسمیاتی تبدیلیوں سے ہلاک ہو رہے ہیں، پاکستان میں ہر سال40لاکھ افراد موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہورہے ہیں۔

    آئی ایم ایف کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیاں زراعت اور انفرااسٹرکچر کو تباہ کررہی ہیں، سال2050تک پاکستان کی معیشت قدرتی آفات سے9فیصد تک متاثر ہوسکتی ہے۔

    رپورٹ کے مطابق پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے بجٹ انتہائی ناکافی ہے، پاکستان ترقیاتی بجٹ میں موسمیاتی تبدیلیوں کے پروجیکٹس کو ترجیح دے۔

    آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان میں10ہزار ارب سے زائد کے ترقیاتی منصوبے ہیں، پاکستان کے ترقیاتی منصوبے بجٹ سے14گنا زیادہ ہیں، جاری تمام ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے لیے14ترقیاتی بجٹ درکار ہیں۔