Tag: موسیقار

  • اے آر رحمان کے نام نیا اعزاز

    اے آر رحمان کے نام نیا اعزاز

    بھارتی فلم انڈسٹری کے معروف موسیقار اللہ رکھا رحمن المعروف اے آر رحمان نے 7ویں مرتبہ نیشنل ایوارڈ جیت لیا۔

    عالمی شہرت یافتہ بھارتی گلوکار، میوزک ڈائریکٹر و گیت نگار اے آر رحمان نے ساتویں مرتبہ نیشنل ایوارڈ برائے موسیقی جیت لیا، اے آر رحمان کو یہ ایوارڈ منی رتنم کی تامل فلم ’پونیئن سیلوان پارٹ ون ‘ کے لیے بہترین میوزک ڈائریکٹ کرنے پر دیا گی۔

    یہ فلم سال 2022 میں سُپر ہٹ ثابت ہوئی تھی، نیشل فلم ایوارڈ جیتنے کے بعد اے آر رحمان بھارت میں سب سے زیادہ مرتبہ یہ ایوارڈ جیتنے والے پہلے میوزک ڈائریکٹر بن گئے ہیں ۔

    بھارتی میڈیا کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس فہرست میں دوسرے نمبر پر ایسگنانی الیاراجہ ہیں جنہوں نے موسیقی کے شعبے میں پانچ بار نیشنل ایوارڈز اپنے نام کیے۔

    واضح رہے کہ گزشتہ روزسال 2022 میں ریلیز ہونے والی بھارتی فلموں کے لیے 70ویں نیشنل ایوارڈز کا اعلان ہوا، 70ویں نیشنل فلم ایوارڈز کے فاتحین میں آسکر ایوارڈ یافتہ بھارتی گلوکار اے آر رحمان کا نام بھی شامل تھا۔

    https://www.youtube.com/watch?v=hr0McVC_lCE

  • پاکستانی فلم انڈسڑی کے باصلاحیت موسیقار رحمٰن ورما کا تذکرہ

    پاکستانی فلم انڈسڑی کے باصلاحیت موسیقار رحمٰن ورما کا تذکرہ

    پاکستانی فلم انڈسٹری میں کئی موسیقار ایسے بھی ہیں جن کی موسیقی میں مقبول ہونے والے فلمی گیتوں کی بدولت فلموں نے ریکارڈ بزنس کیا۔ ان گیتوں کو پاکستان ہی نہیں انڈیا میں بھی پسند کیا گیا۔ ان باکمال اور صف اوّل کے موسیقاروں کے علاوہ چند ایسے باکمال فن کار بھی انڈسٹری کا حصّہ بنے جن کو وہ پذیرائی اور قدرومنزلت نہیں ملی جس کے حق دار وہ تھے، مگر فلم بینوں نے ان کے گیتوں کو سراہا۔ رحمٰن ورما ایسا ہی ایک نام ہے جو خاموش طبع اور خود دار انسان بھی تھے۔ 11 اگست 2007ء کو رحمٰن ورما لاہور میں وفات پا گئے تھے۔

    رحمٰن ورما ایک باصلاحیت فلمی موسیقار کی حیثیت سے فلم انڈسٹری میں پہچانے تو گئے، لیکن بڑے بڑے فن کاروں کے درمیان خود کو منوانا ان کے لیے آسان نہیں‌ تھا۔ رحمٰن ورما اپنے وقت کے نام وَر موسیقار جی اے چشتی کے شاگرد تھے۔ بطور موسیقار رحمٰن ورما کی پہلی فلم باغی (1956) تھی جو کام یاب ثابت ہوئی۔ اس فلم کے بعد ایک اور فلم کی کام یابی نے رحمٰن ورما کو ایکشن اور کاسٹیوم فلموں کے لیے بہترین موسیقار ثابت کردیا۔ ورما جی کے نام سے مشہور اس کا اصل نام عبدالرحمٰن تھا۔ وہ 1927ء میں پیدا ہوئے۔ قیامِ پاکستان سے پہلے بھی انھوں نے موسیقار کی حیثیت سے فلموں کے لیے کام کیا تھا۔ تقسیمِ ہند کے بعد رحمٰن ورما پاکستان آگئے۔ پاکستان میں 1955ء میں رحمٰن ورما نے دیارِ حبیب کے لیے ایک نعت ریکارڈ کروائی جو بہت مقبول ہوئی اور یہاں اپنا فلمی سفر شروع کیا۔ رحمٰن ورما نے اردو اور پنجابی گیتوں کے لیے موسیقی ترتیب دی۔ بطور سولو موسیقار ان کی پہلی فلم ’’باغی‘‘ جب کہ آخری فلم ’’دارا‘‘ تھی جو 1976ء میں نمائش پذیر ہوئی۔ موسیقار رحمٰن ورما نے مجموعی طور پر 32 فلموں کی موسیقی ترتیب دی، جن میں دربار، آخری نشان، عالم آرا، ایک تھی ماں، بیٹا، کالا پانی، خاندان، نبیلہ، غدار، سسی پنہوں، سرِفہرست ہیں۔

    مشہور شاعر ساغر صدیقی کا ایک فلمی گیت رحمٰن ورما کی موسیقی میں بہت مقبول ہوا جس کے بول تھے، ”ٹوٹے ہوئے دلوں کا سہارا تمہی تو ہو‘‘ فلم ”آخری نشان‘‘ کے یہ نغمات ‘ہم بھی آوارہ پنچھی تم بھی آوارہ‘‘ ”کوئی دور بجائے بانسری‘‘ ”تو ہے بے وفا اور نہ میں بے وفا‘‘ناہید نیازی نے گائے تھے اور یہ بہت مقبول ہوئے۔ ان کے موسیقار رحمٰن ورما ہی تھے۔ اس کے علاوہ ”آج کی شب جانے پھر آئے کہ نہ آئے‘‘ اور ”حال کیسا ہے جناب کا‘‘ بھی اپنے وقت کے مشہور فلمی گیت تھے جن کے موسیقار رحمٰن ورما ہیں۔

  • معروف سارنگی نواز استاد حامد حسین خان کی برسی

    معروف سارنگی نواز استاد حامد حسین خان کی برسی

    سارنگی وہ ساز ہے جس کے ماہر برطانوی دور اور تقسیم کے بعد پاک
    و ہند میں روایتی دھنوں میں مقبول شاعری سے عوام کو محظوظ کرتے رہے۔ کئی سارنگی نوازوں نے موسیقی کی سنگت میں بڑا نام پیدا کیا جن میں سے ایک استاد حامد حسین خان بھی ہیں۔ آج ان کی برسی ہے۔

    استاد حامد حسین خان کا شمار پاکستان کے معروف سارنگی نوازوں میں‌ ہوتا ہے۔ وہ 2 نومبر 1980ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ دورِ جدید میں سارنگی جیسے ساز اور اس کے بنانے اور بجانے والے دونوں ہی اب ماضی کی ایک یاد بن چکے ہیں۔ سارنگی ایک کمان سے بجنے والا اور چھوٹی گردن کا تانتل ساز ہے جو ہندوستانی کلاسیکی سنگیت کا خوب صورت حصّہ رہا ہے۔

    پاکستان میں استاد حامد حسین خان نے اس ساز پر کئی سال تک اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور خوب داد پائی۔ ان کا تعلق مراد آباد سے تھا۔ استاد حامد حسین خان 1905ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے آبا و اجداد عرصہ دراز تک ریاست رام پور کے دربار سے وابستہ رہے اور موسیقی کے حوالے سے ان کا خاندان مشہور تھا۔

    استاد حامد حسین خان نے موسیقی کی تعلیم اپنے نانا استاد حیدر بخش خان اور اپنے والد استاد عابد حسین خان سے حاصل کی جب کہ سارنگی کی تربیت اپنے ماموں استاد علی جان خان سے لی۔

    استاد حامد حسین خان آل انڈیا ریڈیو اور ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے۔ وہ نہایت عمدگی سے سارنگی بجانے کے لیے مشہور تھے اور بڑی مہارت سے سنگت میں دوسرے فن کاروں کا ساتھ دیتے تھے۔

    انھوں نے ہندوستان، پاکستان کے علاوہ بیرونَ ملک بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور شائقین سے داد و تحسین سمیٹی۔

  • تعصب یا حبُ الوطنی؟

    تعصب یا حبُ الوطنی؟

    بینجمن بریٹن کو دنیا کا مشہور موسیقار اور لازوال دھنوں کا خالق کہا جاتا ہے۔

    موسیقی اس کا عشق اور اس فن سے اسے محبت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی تخلیق کردہ دھنیں لوگوں کے دلوں میں اتر گئیں اور یادگار ٹھیریں، لیکن اس باکمال آرٹسٹ اور ماہر موسیقار نے وہ دن بھی دیکھا جب اس کی متعدد کاوشیں مسترد کردی گئیں اور ستم یہ ہے کہ وجہ بھی نہیں بتائی گئی۔ اس حوالے سے دریافت کرنے پر تسلی بخش جواب بھی نہیں‌ دیا گیا اور یہ موسیقار آخری سانس تک اس کا سبب نہ جان سکا۔

    یہ 1957 کی بات ہے جب ملکۂ برطانیہ نے ملائیشیا کی آزادی کے پروانے پر اپنی مہر ثبت کی۔ اگست کا مہینہ گویا سَر پر تھا۔ قوم پہلا جشنِ آزادی منانے کے لیے بے تاب تھی۔ کیلنڈر پر جون کی تاریخیں تیزی سے بدل رہی تھیں، مگر نو آزاد ریاست کی حکومت اب تک قومی جھنڈے اور ترانے کا فیصلہ نہیں کرسکی تھی اور اس سلسلے میں فکرمند تھی۔

    بینجمن بریٹن دنیائے موسیقی کا وہ نام تھا جسے اس حوالے سے بھی پہچانا جاتا تھا۔ حکومت نے اس سے رابطہ کیا اور اس نے جلد ہی ایک دُھن سرکاری نمائندے کے سامنے رکھ دی، مگر اسے سندِ قبولیت نہ ملی۔ اس کا سبب نہیں بتایا گیا بلکہ حکام کی خاموشی حد درجہ پُراسرار معلوم ہو رہی تھی۔ بعد میں بینجمن بریٹن سے مزید دھنیں طلب کی گئیں جو اس نے مکمل کر کے حکام کو تھما دیں، مگر عجیب بات یہ ہے کہ ملائیشیا کا ملّی نغمہ اس کے ایک ہم عصر کی دھن سے آراستہ ہے۔

    یہ راز 1976 میں بریٹن کی موت کے بعد کھلا جب ایک برطانوی محقق نے ملّی نغموں کی تاریخ مرتب کی. معلوم ہوا کہ ملائیشیا کے حکام نے اس موسیقار کی اوّلین دھن کو قومی ترانے کے لیے ناموزوں قرار دے کر متعدد مقامی گیتوں کے ‘‘ٹیپ’’ تھما دیے اور ہدایت کی کہ ایسی دُھن ترتیب دے جو ان سے مماثلت رکھتی ہو۔

    ماہر موسیقار نے یومِ آزادی سے ایک ہفتہ قبل اپنی ترتیب دی ہوئی چند دھنیں حکومتی نمائندے کے سپرد کردیں اور مطمئن ہو گیا، لیکن یومِ آزادی پر پڑھے گئے ترانے کی دھن ایک فرانسیسی موسیقار کی ترتیب دی ہوئی تھی۔ وہ حیران تھا کہ ایسا کیوں‌ ہوا مگر وہ زندگی بھر اس کی اصل وجہ نہیں‌ جان سکا۔

    محققین کے نزدیک اس کا سبب بریٹن کی برطانوی شہریت تھی۔ غالباً حکومت کو بعد میں یہ خیال آیا کہ بینجمن اسی ملک کا باشندہ ہے جس کی غلامی سے وہ ابھی آزاد ہوئے ہیں اور اسی برطانیہ کے ایک موسیقار سے ترانے کی دھن بنوانا کسی بھی وقت موضوعِ بحث بن سکتا ہے۔ قوم شاید اسے قبول نہ کرے اور یوں‌ عجلت میں‌ ایک فرانسیسی موسیقار کی خدمات حاصل کر کے قومی ترانے کی دھن بنوائی گئی۔ (تلخیص و ترجمہ: عارف عزیز)

  • کچرے سے بنے ہوئے آلات موسیقی

    کچرے سے بنے ہوئے آلات موسیقی

    پلاسٹک کرہ زمین کو گندگی کے ڈھیر میں تبدیل کرنے والی سب سے بڑی وجہ ہے کیونکہ پلاسٹک کو زمین میں تلف ہونے کے لیے ہزاروں سال درکار ہیں۔

    یہی وجہ ہے کہ پلاسٹک بڑے پیمانے پر استعمال کے باعث زمین پر اسی حالت میں رہ کر زمین کو گندگی وغلاظت کا ڈھیر بنا چکا ہے۔ دنیا بھر میں جہاں پلاسٹک کا استعمال کم سے کم کرنے پر زور دیا جارہا ہے وہیں استعمال شدہ پلاسٹک کے کسی نہ کسی طرح دوبارہ استعمال کے بھی نئے نئے طریقے دریافت کیے جارہے ہیں۔

    ایک مصری فنکار نے بھی ایسا ہی ایک طریقہ نکالا ہے۔

    مصر سے تعلق رکھنے والا فنکار شیدی رباب کچرے سے آلات موسیقی بناتا ہے۔ رباب ایک موسیقار ہے جبکہ وہ آلات موسیقی بھی بناتا ہے۔

    وہ کچرے سے مختلف پلاسٹک و شیشے کی بوتلوں کو اکٹھا کر کے ان سے ڈرمز، گٹار اور بانسریاں بناتا ہے۔

    رباب کا کہنا ہے کہ اس طرح سے وہ لوگوں کی توجہ مصر میں بڑھتی ہوئی آلودگی اور کچرے کے ڈھیروں کی طرف دلانا چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ لوگ اس بات کو سمجھیں کہ دریاؤں اور سمندروں میں کچرا پھینکنا کس قدر نقصان دہ ہے۔

    دریائے نیل کے مغربی کنارے پر رباب کی سازوں کی دکان موجود ہے جہاں ہر وقت موسیقی کے شیدائیوں کا ہجوم رہتا ہے۔

    رباب ان آلات کو موسیقی سیکھنے والے بچوں میں مفت تقسیم کرتا ہے اور جو بچے موسیقی سیکھنا چاہتے ہیں انہیں سکھاتا بھی ہے۔ اسے اقوام متحدہ سے ینگ چیمپئن آف دا ارتھ پرائز بھی مل چکا ہے۔

    رباب کا عزم ہے کہ وہ اپنے ملک میں پھیلی آلودگی کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے اس لیے نہ صرف وہ خود کچرے سے آلات موسیقی تیار کرتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی سکھاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس کے مشن کا حصہ بن سکیں۔

  • معروف موسیقار وجاہت عطرے انتقال کرگئے

    معروف موسیقار وجاہت عطرے انتقال کرگئے

    لاہور: پاکستان فلم انڈسٹری کے نامور موسیقار وجاہت عطرے 68سال کی عمر میں حرکت قلب بند ہونے سےانتقال کر گئے۔

    تفصیلات کےمطابق3 ہزار سے زائد فلمی گیتوں کے موسیقار وجاہت عطرے لاہور کے جناح اسپتال میں انتقال کرگئے۔وجاہت عطرے موسیقار رشید عطرے کے صاحبزادے تھے۔

    ووجاہت عطرے کو دل کا دورہ پڑنے کے بعد ایک ہفتہ قبل جناح اسپتال منتقل کیا گیا تھا جبکہ اس سے ایک ماہ قبل انہیں فالج کا اٹیک بھی ہو چکا تھا ۔

    ان کا شمار فلم انڈسٹری کے چند موسیقاروں میں ہوتا ہے جن کے سپرہٹ نغمات کی تعداد 3 ہزار سے زیادہ ہے۔ انہوں نے200 سے زائد فلموں کی موسیقی ترتیب دی اور ان کے ترتیب دیئے گانوں کو تقریباً تمام گلوکاروں نے گایا جن میں ملکہ ترنم نورجہاں بھی شامل ہیں۔

    وجاہت عطرے نے اپنی فنی کریئرکا آغاز 1967 میں فلم پرستان سے کیا اور پھر ترقی کے منازل طے کرتے ہوئے مکھڑا ، چن وریام ، نوکر وہٹی دا، شیرخان، صاحب جی، سالا صاحب، چڑھدا سورج اور عشق خدا جیسی لازوال فلموں میں اپنی دھنوں کا جادو جگایا۔

    واضح رہےکہ وجاہت عطرے کی عمر 68 سال تھی اور انہوں نے سوگواران میں 3 بیٹے اور ایک بیٹی کو چھوڑا ہے ان کی نماز جنازہ لاہورکے علاقے سمن آباد میں ادا کیا جائے گی۔

  • کافی سے بنی خوبصورت تصاویر

    کافی سے بنی خوبصورت تصاویر

    ایک مصور و فنکار کو ہر شے میں کچھ تخلیقی نظر آتا ہے۔ یہ وہ نظر ہوتی ہے جو کسی عام انسان کو میسر نہیں ہوتی، یہی وجہ ہے کہ فنکار اپنے فن کی انوکھی اور منفرد جہتوں کی بدولت دنیا سے جانے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں۔

    امریکا سے تعلق رکھنے والی 28 سالہ ڈیانا بھی ایسی ہی فنکار ہے جس نے کافی سے منفرد آرٹ تخلیق کیا ہے۔

    ڈیانا کے دو ہی شوق ہیں، کافی اور موسیقی، اور اپنے ان دونوں مشغلوں کی تکمیل نے اسے ایک منفرد فنکار بھی بنادیا۔ وہ کافی سے اپنے پسندیدہ موسیقاروں کی تصویر کشی کرتی ہے۔

    اس منفرد آرٹ کے لیے ڈیانا عموماً بچی ہوئی کافی استعمال کرتی ہے۔ بعض اوقات وہ ان کے ساتھ واٹر کلرز کی آمیزش بھی کرتی ہے۔

    ڈیانا نے آرٹ کی باقاعدہ تعلیم تو حاصل نہیں کی، تاہم اس کے شوق، مسلسل محنت اور لگن نے اسے اپنی نوعیت کا منفرد مصور بنا دیا ہے۔

    آپ بھی ڈیانا کی بنائی ہوئی تصاویر سے لطف اندوز ہوں۔

  • صبا قمر کا جنون اور بے فکریاں

    صبا قمر کا جنون اور بے فکریاں

    کراچی: اے آر وائی فلمز کے بینر تلے بننے والی فلم ’لاہور سے آگے‘ کا ایک اور گانا ’بے فکریاں‘ جاری کردیا گیا۔

    کراچی میں ایک تقریب کے دوران گانے کی لانچنگ کی گئی۔ گانے کو آئمہ بیگ نے گایا ہے جبکہ موسیقی شیراز اوپل نے دی ہے۔ گانے کی شاعری شکیل سہیل کی تخلیق کردہ ہے۔ یہ گانا محمد جرجیس سیجا اور اسفند فاروق کی مشترکہ کاوش ہے۔

    گانا ’ بے فکریاں‘ صبا قمر پر فلمایا گیا ہے۔ صبا قمر فلم میں ایک موسیقار کا کردار ادا کر رہی ہیں جو اپنے اس شوق کی مستقل تکمیل کے لیے نہایت جنونی ہے۔

    فلم ’لاہور سے آگے‘ اے آر وائی فلمز اور شوکیس فلمز کے مشترکہ تعاون سے بنائی جانے والی فلم ہے جس کے مرکزی کرداروں میں صبا قمر اور یاسر حسین شامل ہیں۔ فلم کے ڈائریکٹر وجاہت رؤف ہیں جبکہ یاسر حسین ہی فلم کے مصنف بھی ہیں۔

    فلم ’لاہور سے آگے‘ اور ’کراچی سے لاہور‘ مختلف فلمیں *

    فلم مرکزی کرداروں کے سفر پر مشتمل ہے جس کے دوران انہیں مختلف سنگین و رنگین حادثات و واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ فلم میں پانچ گانے شامل کیے گئے ہیں۔ ایک آئٹم سانگ بھی شامل ہے جسے صبا قمر اور یاسر حسین پر فلمایا گیا ہے۔ فلم کی موسیقی شیراز اوپل نے ترتیب دی ہے۔

    دیگر کرداروں میں بہروز سبزواری، روبینہ اشرف، عتیقہ اوڈھو، عبد اللہ فرحت اللہ اور عمر سلطان بھی شامل ہیں۔

    اے آر وائی فلمز کی پیشکش ’لاہور سے آگے‘ رواں سال 11 نومبر کو سینما گھروں میں نمائش کے لیے پیش کردی جائے گی۔

  • اے آر وائی نیوز کے پلیٹ فارم پر پاکستانی موسیقاروں کے لیے بہترین موقع

    اے آر وائی نیوز کے پلیٹ فارم پر پاکستانی موسیقاروں کے لیے بہترین موقع

    اے آر وائی نیوز ’میڈ ان پاکستان‘ کے پلیٹ فارم کے تحت پاکستانی موسیقاروں اور گلوکاروں کے لیے بہترین موقع لا رہا ہے۔ اگر آپ اچھی آواز اور موسیقاری کی صلاحیت کے حامل ہیں تو یہ موقع یقیناً آپ کے لیے ہے۔

    اے آر وائی میڈ ان پاکستان کا پلیٹ فارم ان باصلاحیت پاکستانی فنکاروں کو موقع دے رہا ہے جو اپنے گانے کی ویڈیو بنانا چاہتے ہیں۔ آپ اپنا کوئی بھی گانا، صوفیانہ کلام، نعت یا قوالی اے آر وائی کو بھیج سکتے ہیں۔

    اے آر وائی نیوز منتخب کام کی ویڈیو بنوانے میں آپ کی مدد کرے گا اور اسے اے آر وائی کے تمام پروگرامز اور سوشل میڈیا سائٹس پر بھی پروموٹ کیا جائے گا۔

    اے آر وائی نیوز نے یہ قدم پاکستان میں معیاری اور حقیقی تخلیق کو فروغ دینے کے لیے اٹھایا ہے۔

    مزید تفصیلات کے لیے ویڈیو دیکھیں۔


    Enormous opportunity for musicians by ARY Made… by arynews