Tag: موسیقار انتقال

  • امجد بوبی:‌ پاکستانی فلمی دنیا کا جدّت پسند اور بے مثال موسیقار

    امجد بوبی:‌ پاکستانی فلمی دنیا کا جدّت پسند اور بے مثال موسیقار

    پاکستان میں فلمی موسیقاروں کی فہرست میں اکثر ناموں کی وجہِ شہرت وہ دھنیں‌ ہیں جو گیتوں کو سدا بہار اور لازوال بنا گئے، اور ملک اور بیرونِ ملک بھی مقبول ہوئے، لیکن ان موسیقاروں میں امجد بوبی بے مثال اور منفرد فن کار تھے۔ اس کی وجہ موسیقی کے فن میں ان کے نت نئے تجربات اور جدّت پسندی ہے۔

    امجد بوبی کا تعلق ایک فن کار گھرانے سے تھا۔ وہ رشید عطرے جیسے عظیم موسیقار کے بھانجے تھے۔ موسیقار وجاہت عطرے ان کے ماموں زاد بھائی تھے، موسیقار صفدر حسین اور ذوالفقار علی اور گلوکار منیر حسین بھی ان کے قریبی عزیز تھے۔ ان کے والد غلام حسین خان بھی کلاسیکی گائیک تھے، لیکن خود کو ایک بڑا موسیقار منوانے کے لیے امجد بوبی کو خاصی محنت کرنا پڑی تھی۔

    فلمی تذکروں کے مطابق بہ طور موسیقار ان کی پہلی فلم راجا جانی تھی جس کی نمائش 1976 میں ہوئی۔ اس کے گیت بہت پسند کیے گئے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ امجد بوبی کی پہلی فلم اک نگینہ (1969ء) تھی۔ اس میں احمد رشدی کے گائے ہوئے دو گیتوں "مل گئی، مل گئی ہم کو پیار کی یہ منزل۔” اور "دل نہیں تو کوئی شیشہ، کوئی پتّھر ہی ملے۔” کے علاوہ آئرن پروین کا گایا ہوا گیت "ساری سکھیوں کے بلم گورے، میرا بلم کالا۔” بڑے خوب صورت گیت تھے۔ اسی سال فلم میری بھابھی پردے پر سجی اور کے گیت بھی اچھّے تھے۔ لیکن کوئی گیت سپرہٹ ثابت نہیں‌ ہوا اور امجد بوبی اپنی پہچان کروانے میں بھی ناکام رہے۔

    اسّی کی دہائی میں موسیقار کے طور پر امجد بوبی نے شہرت پائی اور اپنے فن کا عروج دیکھا۔ فلم نقشِ قدم (1979) میں گلوکار اے نیّر کی آواز میں "کرتا رہوں گا یاد تجھے میں، یونہی صبح و شام، مٹ نہ سکے گا میرے دل سے بینا تیرا نام” وہ گیت تھا جو سپر ہٹ ثابت ہوا۔

    امجد بوبی نے اس دور میں‌ پاکستانی فلموں کے گیتوں کی ریکارڈنگ بمبئی میں کروائی اور یہ سلسلہ انھیں پاکستانی موسیقاروں میں‌ ممتاز کرگیا۔ انھوں نے جاوید شیخ کی فلم ’یہ دل آپ کا ہوا‘ کے لیے بھارتی گلوکار سونو نگم اور کویتا کرشنا مورتی سے گانے گوائے تھے۔ اس طرح‌ امجد بوبی نے پاکستان فلم انڈسٹری میں ایک نئے رجحان کو فروغ دیا۔ ان کی بدولت پاکستان کی فلمی دنیا میں کئی مدھر اور رسیلے گیتوں کے ساتھ آوازوں‌ کا اضافہ بھی ہوا۔

    پاکستانی موسیقار امجد بوبی 2005ء میں آج ہی کے دن انتقال کرگئے تھے۔ وہ امرتسر میں 1942 میں پیدا ہوئے تھے۔ امجد بوبی نے گھونگھٹ، پرورش، کبھی الوداع نہ کہنا، نادیہ، روبی، نزدیکیاں، سنگم، چیف صاحب، گھر کب آوٴ گے، یہ دل آپ کا ہوا جیسی فلموں کے لیے لازوال دھنیں تخلیق کی تھیں۔

  • بپّی لہری: سونے چاندی کو اپنے لیے خوش قسمتی کی علامت سمجھنے والا فن کار

    بپّی لہری: سونے چاندی کو اپنے لیے خوش قسمتی کی علامت سمجھنے والا فن کار

    بپّی لہری ‘ڈسکو کنگ’ کے نام سے مشہور تھے۔ بطور گلوکار اور موسیقار بپّی لہری نے بولی وڈ میں اسّی اور نوے کے عشرے میں ڈسکو میوزک کی مقبولیت میں اہم کردار ادا کیا۔

    گلوکار اور موسیقار بپّی لہری اپنے مداحوں میں ڈسکو گیتوں کے علاوہ اپنے ‘ڈسکو حلیے’ کی وجہ سے بھی مشہور تھے۔ زرق برق لباس، سونے کے زیورات اور آنکھوں پر خوب صورت چشمہ بپّی لہری کی پہچان تھا۔ 15 فروری 2022ء کو بپّی لہری چل بسے تھے۔ اپنی موت سے ایک روز قبل ہی تقریباً ایک ماہ اسپتال میں زیرِ علاج رہنے کے بعد وہ صحت یاب ہو کر گھر آئے تھے، لیکن اچانک طبعیت بگڑ گئی اور وہ زندگی کی بازی ہار گئے۔ بپّی لہری کورونا سے بھی متاثر ہوئے تھے۔

    بولی وڈ کی فلم ‘نمک حلال’،’ڈسکو ڈانسر’ اور ڈانس ڈانس میں بپّی لہری کے ڈسکو گانے بہت مقبول ہوئے تھے۔ بطور موسیقار انھوں نے 700 سے زائد فلموں کے لیے موسیقی دی اور کئی فلمی گیت ان کی آواز میں‌ مقبول ہوئے۔

    بپّی لہری کا تعلق مغربی بنگال کے جلپائی گوڑی سے تھا جہاں انھوں نے 1952ء میں آنکھ کھولی۔ ان کا اصل نام آلوکیش لہری تھا۔ گانا بجانا اور موسیقی ان کا ورثہ تھی۔ ان کے والد اپریش لہری اور والدہ بنساری لہری بنگلہ زبان کے گلوکار اور موسیقار تھے۔ بپّی لہری کے مطابق ان کا موسیقی سے تعلق صرف تین برس کی عمر میں قائم ہوگیا تھا۔ اس عمر میں وہ طبلہ بجانے لگے۔ گھر میں راگ راگنیوں کی باتیں ہوتیں اور ساز و آواز کا جادو جگایا جاتا۔ اس ماحول میں بپّی لہری پروان چڑھے۔

    فلمی صنعت کے لیے انھوں نے اپنا نام بپّی لہری منتخب کیا اور اسی نام سے شہرت پائی۔ اپنے فلمی کیریئر میں بپّی لہری نے زیادہ تر پارٹی ڈانس کی موسیقی ترتیب دی۔ بولی وڈ میں بپّی لہری نے بطور موسیقار اپنا سفر 1973 میں شروع کیا تھا۔ ’ننھا شکاری‘ کے سارے گیت انہی کی موسیقی سے سجے تھے۔ بپّی لہری کو فلم ’شرابی‘ کے لیے سنہ 1985 میں بہترین میوزک ڈائریکٹر کا انعام دیا گیا تھا۔ اس کے بعد ایک سال کے دوران وہ سب سے زیادہ گیت ریکارڈ کرنے کا ریکارڈ قائم کرنے والے موسیقار بنے اور سنہ 2018 میں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازے گئے۔ بولی وڈ کے اس مشہور گلوکار اور موسیقار نے سنہ 2020 میں فلم ’باغی 3‘ کے لیے موسیقی ترتیب دی تھی اور یہی اُن کی آخری فلم ثابت ہوئی۔

    بپّی لہری نے سیاست میں بھی قسمت آزمائی۔ وہ سنہ 2014 میں بھارتیہ جنتا پارٹی میں شامل ہوئے اور عام انتخابات میں بی جے پی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا مگر کام یاب نہ ہوسکے۔ وہ اس سے قبل سنہ 2004 میں کانگریس کے انتخابی مہم میں بھی حصّہ لے چکے تھے۔

    بھارت کے اس معروف گلوکار اور موسیقار نے اپنے مخصوص حلیے اور زیبائش کے بارے میں‌ ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ امریکی راک اسٹار ‘ایلوس پریسلے’ کے بہت بڑے مداح تھے اور اسے پرفارمنس کے دوران سونے کی چین پہنے دیکھتے تھے تو یہیں سے شوق ہوا اور اپنا ایک الگ امیج بنانے کی خواہش کرتے ہوئے سونے کے زیورات اور کڑے وغیرہ پہننا شروع کیے۔ انھیں اکثر بھارتی اخبار اور دوسرے ذرایع ابلاغ میں ‘گولڈن مین’ بھی کہا اور لکھا جاتا تھا۔

    بپّی لہری کے لیے سونا اور چاندی خوش قسمتی کی علامت تھے۔ لوک سبھا کے الیکشن میں امیدوار بننے کے بعد انھوں نے اپنے اثاثوں بشمول سونے اور چاندی کی تفصیلات بتائی تھیں۔ ان کے پاس اس وقت کُل 752 گرام سونا اور 4.62 کلو چاندی تھی۔

    بولی وڈ کے عظیم گلوکار اور اداکار کشور کمار آنجہانی بپّی لہری کے ماموں تھے۔ بپّی لہری کشور کمار کو ’ماما جی‘ کہتے تھے۔

    گریمی ایوارڈ حاصل کرنا بپّی لہری کی وہ خواہش تھی جو پوری نہ ہوسکی، لیکن وہ اس ایوارڈ کی جیوری کے رکن ضرور بنائے گئے۔

  • رحمٰن ورما: ایک بھولا بسرا موسیقار

    رحمٰن ورما: ایک بھولا بسرا موسیقار

    پاکستان میں فلمی دنیا کا ایک نام رحمٰن ورما ہے جنھیں باصلاحیت موسیقار کی حیثیت سے پہچان ملی لیکن آج بہت کم لوگ ان کے نام اور کام سے واقف ہیں۔ 11 اگست 2007ء کو موسیقار رحمٰن ورما وفات پاگئے تھے۔

    رحمٰن ورما اپنے وقت کے نام وَر موسیقار جی اے چشتی کے شاگرد تھے۔ بطور موسیقار رحمٰن ورما کی پہلی فلم باغی (1956) تھی جو کام یاب رہی۔ اس فلم کے بعد ان کی ایک اور فلم کام یاب ہوئی اور رحمٰن ورما کو ایکشن اور کاسٹیوم فلموں کا بہترین موسیقار سمجھا جانے لگا۔ وہ انڈسٹری میں ورما جی کے نام سے مشہور تھے۔

    موسیقار رحمٰن ورما کا اصل نام عبدالرحمٰن تھا۔ وہ 1927ء میں پیدا ہوئے۔ قیامِ پاکستان سے پہلے بھی انھوں نے موسیقار کی حیثیت سے فلموں کے لیے کام کیا تھا۔ تقسیمِ ہند کے بعد رحمٰن ورما پاکستان آگئے۔

    پاکستان میں 1955ء میں رحمٰن ورما نے دیارِ حبیب کے لیے ایک نعت ریکارڈ کروائی جو بہت مقبول ہوئی اور یہاں اپنا فلمی سفر شروع کیا۔ رحمٰن ورما نے اردو اور پنجابی گیتوں کے لیے موسیقی ترتیب دی۔ بطور سولو موسیقار ان کی پہلی فلم ’’باغی‘‘ جب کہ آخری فلم ’’دارا‘‘ تھی جو 1976ء میں نمائش پذیر ہوئی۔ موسیقار رحمٰن ورما نے مجموعی طور پر 32 فلموں کی موسیقی ترتیب دی، جن میں دربار، آخری نشان، عالم آرا، ایک تھی ماں، بیٹا، کالا پانی، خاندان، نبیلہ، غدار، سسی پنہوں، سرِفہرست ہیں۔

  • آر ڈی برمن: ایک باکمال سنگیت کار کا تذکرہ

    ستّر کی دہائی میں ہندوستان کی فلمی موسیقی میں آر ڈی برمن کے کمالِ فن کا شہرہ ہوا تھا اور اس کے بعد آنے والی فلموں میں ان کی لطافت سے بھرپور موسیقی اور روایت سے جڑے خوب صورت تجربات نے انھیں بہترین فلمی موسیقار ثابت کیا۔

    آر ڈی برمن 4 جنوری 1994ء کو انتقال کرگئے تھے۔ 1971ء کی ایک کام یاب فلم ’کٹی پتنگ‘ سے آر ڈی برمن کی پہچان کا اصل سفر شروع ہوا تھا جس میں ’یہ شام مستانی مدہوش کیے جائے‘ اور ’یہ جو محبت ہے ان کا ہے کام‘ جیسے گیت شامل تھے جنھیں آج بھی بڑے ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔ ان گیتوں‌ کے موسیقار کا اصل نام راہل دیو برمن تھا۔ یہ گیت بھی آپ نے شاید سن رکھا ہو، ’’چرا لیا ہے تم نے جو دل کو…..۔‘‘ یہ سدا بہار گیت ہندوستان ہی نہیں‌ پاکستان میں‌ بھی بہت مقبول ہوا۔

    آر ڈی برمن کلکتہ میں‌ 27 جون 1939ء کو پیدا ہوئے۔ وہ ایک مشہور موسیقار کے بیٹے تھے اور شروع ہی سے راگ راگنیوں، ساز و انداز سے مانوس تھے۔ آر ڈی برمن نے بھی موسیقی کے شوق کو اپنا فن اور پیشہ بنایا۔ ان کے والد ایس ڈی برمن تھے۔ اپنے والد سے موسیقی کی تعلیم حاصل کرنے کے علاوہ آر ڈی برمن نے استاد علی اکبر خان سے سرود کی تربیت حاصل کی۔

    آر ڈی برمن کو پنچم دا کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔ انھیں یہ نام اداکار اشوک کمار کو موسیقی کے پانچ سُر’ سارے گا ما پا ‘ سنانے پر دیا گیا تھا۔ آر ڈی برمن نے فلمی کیریئر کا آغاز اپنے والد کے ساتھ بطور معاون موسیقار کیا تھا۔ ان کی اس وقت کی سپر ہٹ فلموں‌ میں ’’چلتی کا نام گاڑی (1958) اور کاغذ کے پھول (1959) شامل ہیں۔ بہ طور موسیقار آر ڈی برمن نے 1961ء میں فلم ’’چھوٹے نواب‘‘ سے کام شروع کردیا تھا، لیکن شہرت حاصل کرنے کے لیے انھیں خاصا انتظار کرنا پڑا۔ انھیں بہ طور موسیقار 1965ء میں ریلیز ہونے والی فلم بھوت بنگلہ سے کچھ پہچان ضرور ملی تھی، لیکن فلم انڈسٹری میں قدم جمانے کے لیے وہ 10 برس تک محنت کرتے رہے۔

    آر ڈی برمن کو 1972ء میں‌ فلم انڈسٹری میں خاصا کام ملا اور وہ فلم سیتا اور گیتا، میرے جیون ساتھی، بامبے ٹو گوا جیسی کئی فلموں کے لیے موسیقی ترتیب دینے میں کام یاب ہوگئے۔ اسی طرح‌ آندھی، دیوار، اور خوشبو جیسی کئی کام یاب فلموں میں ان کی موسیقی میں کئی گیتوں نے شائقینِ سنیما کو دیوانہ کردیا۔ یہ ابتدائی کام یابیاں ان کے لیے حوصلہ افزا ثابت ہوئیں اور تب آر ڈی برمن نے مشرق و مغرب کی موسیقی کے امتزاج سے دھنیں تیّار کرنے کا تجربہ کر کے خود کو منوایا۔ ان کے یہ گیت بھی سپر ہِٹ ثابت ہوئے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ پہلی مرتبہ ممبئی فلم انڈسٹری میں ویسٹرن میوزک کو کلاسیکی موسیقی کے ساتھ ملا کر اپنی دھنوں سے عروج دینا ہی تھا جس نے انھیں اپنے کام میں یکتا اور بے مثال ثابت کیا۔

    فلم پیاسا کے گانے” سَر جو تیرا چکرائے” کی دھن بھی آر ڈی برمن نے ترتیب دی تھی، وہ ماؤتھ آرگن بجانے میں مہارت رکھتے تھے اور گانا "ہے اپنا دل تو آوارہ” میں انھوں نے اس کا مظاہرہ کر کے اپنے مداحوں کو حیران کر دیا تھا۔

    آر ڈی برمن کا کئی گلوکاروں کے ساتھ وقت گزرا اور کئی سدا بہار گیت تخلیق ہوئے، لیکن آشا بھوسلے نے فلمی گائیکی کے لیے آر ڈی برمن کی دھنوں پر ہی ان کا ساتھ نہیں دیا، بلکہ شریکِ حیات کے طور پر بھی انہی کا انتخاب کیا۔ آر ڈی برمن کی پہلی بیوی ان سے علیحدگی اختیار کرچکی تھیں اور مشہور گلوکارہ ان کی دوسری بیوی تھیں۔

    1985ء اور بعد کے برسوں‌ میں‌ آر ڈی برمن کی جگہ فلم سازوں اور ہدایت کاروں نے نئے موسیقاروں کی خدمات حاصل کرنا شروع کردی تھیں اور آر ڈی برمن کا چار دہائی سے زیادہ عرصہ پر محیط فلمی کیریئر سمٹتا چلا گیا۔ انھوں‌ نے تین سو سے زائد ہندی فلموں کے لیے موسیقی ترتیب دی جب کہ بنگلہ، تیلگو اور مراٹھی فلموں کے لیے بھی اپنے فن کا جادو جگایا۔ آر ڈی برمن نے بہترین موسیقار کے تین فلم فیئر ایوارڈ اپنے نام کیے تھے۔

  • فلمی موسیقار جی اے چشتی کی برسی

    جی اے چشتی پاکستان کے نام وَر فلمی موسیقار تھے جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ 25 دسمبر 1994ء کو وفات پانے والے جی اے چشتی تقسیم سے قبل ہندوستان میں کام یاب فلمی کیریئر کا آغاز کرچکے تھے۔

    غلام احمد چشتی کو انڈسٹری میں بابا چشتی کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ انھوں‌ نے 1905ء میں جالندھر میں آنکھ کھولی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب برطانوی راج کے خلاف سیاسی تحریکوں کے ساتھ ہندوستان میں آرٹ اور کلچر کی دنیا میں بھی نئے افکار، رجحانات کے علاوہ ٹیکنالوجی بھی داخل ہورہی تھی اور مقامی فلم ساز اس کا فائدہ اٹھا رہے تھے۔ جی اے چشتی نے بھی کلکتہ اور ممبئی کے فلمی مراکز کو اپنی جانب متوجہ کیا۔

    موسیقار جی اے چشتی شاعر بھی تھے۔ کئی فلموں میں سحر انگیز دھنیں مرتب کرنے والے جی اے چشتی نے دلوں کو موہ لینے والے گیت بھی لکھے۔ کہتے ہیں انھیں بچپن ہی سے نعتیں پڑھنے کا شوق تھا۔ آواز سریلی تھی اور دینی محافل میں انھیں خوب ذوق و شوق سے سنا جاتا تھا جس نے انھیں موسیقی اور شاعری کی طرف مائل کیا۔ کچھ شعور آیا تو جی اے چشتی موسیقار سیتا رام کے شاگرد ہو گئے۔ اسی دوران موسیقار عاشق علی خان سے لاہور میں ملاقات ہوئی اور ان کے طفیل آغا حشر کاشمیری کے ڈراموں کے لیے موسیقی ترتیب دینے والے گروپ کا حصّہ بنے۔ بعد میں لاہور کی گراموفون کمپنی میں مشہور موسیقار استاد جھنڈے خان کے معاون ہو گئے اور پھر فلم نگری تک پہنچے۔

    جی۔ اے چشتی نے ابتدا میں جن پنجابی فلموں میں موسیقی دی ان میں ’’چمبے دی کلی‘‘ اور ’’پردیسی ڈھولا‘‘ قابلِ ذکر تھیں۔ بعد میں کئی اردو فلموں کے لیے بھی دھنیں کمپوز کیں۔ کلکتہ میں فلم ’’شکریہ‘‘ کی موسیقی اور شاعری کے سبب جی اے چشتی کو ہندوستان میں بہت سراہا گیا تھا۔ لیکن 1947ء میں وہ فسادات کے سبب وہاں سے ہجرت کر گئے تھے۔

    بابا چشتی نے اپنا فنی سفر آغا حشر کاشمیری کے تھیٹر سے شروع کیا۔ بعد میں وہ ریکارڈنگ کمپنی سے منسلک ہوئے تھے، لیکن بہ طور موسیقار ان کی پہلی فلم ‘دنیا’ تھی جو 1936ء میں لاہور میں بنی تھی۔ بابا چشتی نے کچھ وقت کلکتہ اور بمبئی کی فلم نگری میں بھی گزارا۔ 1949ء میں پاکستان آنے کے بعد یہاں فلموں کی موسیقی ترتیب دی اور خوب نام کمایا۔ ہجرت کے بعد بابا چشتی نے فلمی صنعت میں ‘شاہدہ’ نامی فلم سے یہاں اپنے کام کا آغاز کیا تھا۔ اس فلم کے علاوہ مجموعی طور پر انھوں نے 152 فلموں کی موسیقی ترتیب دی اور ہزاروں نغمات کی دھنیں‌ تخلیق کیں۔

    بابا چشتی کی مشہور فلموں میں پھیرے، مندری، لارے، گھبرو، دلا بھٹی، لختِ جگر، مٹی دیاں مورتاں، عجب خان اور چن تارا کے نام شامل ہیں۔ ان کی موسیقی میں ملکۂ ترنم نور جہاں، زبیدہ خانم، سلیم رضا، نسیم بیگم، نذیر بیگم، مالا، مسعود رانا اور پرویز مہدی جیسے گلوکاروں‌ نے فلمی صنعت کے لیے نغمات ریکارڈ کروائے جو بہت مقبول ہوئے اور ان فن کاروں کی شہرت کا سبب بنے۔

    جی اے چشتی کو لاہور کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • مایہ ناز موسیقار اور سدا بہار دھنوں کے خالق خیام کی برسی

    مایہ ناز موسیقار اور سدا بہار دھنوں کے خالق خیام کی برسی

    ظہور خیام ایک مایہ ناز موسیقار تھے جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ کئی فلمی نغمات کی مسحور کن دھنیں ترتیب دینے والے خیّام کو صفِ اوّل کا میوزک ڈائریکٹر تسلیم مانا جاتا ہے۔ 2019ء میں‌ آج ہی کے دن خّیام انتقال کرگئے تھے۔

    آجا رے او میرے دلبر آجا، دل کی پیاس بجھا جا رے، کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ جیسے تجھ کو بنایا گیا ہے میرے لیے، دل چیز کیا ہے آپ میری جان لیجے وہ مشہور فلمی گیت ہیں جنھیں‌ دہائیوں پہلے بھارت اور پاکستان میں بھی مقبولیت حاصل ہوئی۔ یہ وہ لازوال اور سدا بہار نغمات ہیں‌ جو خیام کو ان کے معاصر موسیقاروں‌ میں ممتاز کرتے ہیں۔

    خیام کا اصل نام محمد ظہور ہاشمی تھا۔ وہ 18 فروری 1927ء کو متحدہ ہندوستان کی ریاست پنجاب کے ضلع جالندھر کے ایک گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا تعلق بھارت سے تھا، جہاں وہ فلم انڈسٹری میں‌ خیام کے نام سے پہچانے گئے۔ سنہ 1953 میں فلم فٹ پاتھ سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کرنے والے خیام کی مشہور فلموں میں پھر صبح ہوگی، لالہ رخ، کبھی کبھی، نوری، تھوڑی سی بے وفائی، دل نادان، بازار، رضیہ سلطان وغیرہ شامل ہیں۔ ان کی اہلیہ جگجیت کور بھی نام ور گلوکارہ تھیں۔ بھارتی موسیقار خیام کو تین مرتبہ فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

    خیام نے موسیقی کی تعلیم معروف موسیقار بابا جی اے چشتی سے لاہور میں حاصل کی۔ بولی وڈ میں فلم ‘امراؤ جان’ نے خیام کو راتوں رات کام یابی اور شہرت کی بلندیوں‌ پر پہنچایا۔ فلم ‘پھر صبح ہوگی’ کی موسیقی نے بھی خیام کو بڑا عروج دیا۔ کہتے ہیں اس فلم کے ہر گیت نے بھارت میں دھوم مچا دی۔ یہ گیت ساحر لدھیانوی نے لکھے تھے اور اس کی تمام دھنیں خوب ثابت ہوئی تھیں، خیام کی خوش قسمتی تھی کہ انھیں ساحر لدھیانوی، جاں نثار اختر، کیفی اعظمیٰ، مجروح سلطان پوری اور ندا فاضلی جیسے شاعروں کی تخلیقات کو اپنی دھنوں سے سجانے کا موقع ملا جو خیام کو انڈسٹری میں‌ نام و مقام اور اپنے فن میں‌ یگانہ بناتی چلی گئیں۔

    موسیقار خیام کو بھارت میں‌ نیشنل ایوارڈ کے علاوہ 2010ء میں لائف اچیومنٹ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔

  • دنیائے موسیقی میں نئے رجحانات کو متعارف کروانے والے امجد بوبی کا تذکرہ

    دنیائے موسیقی میں نئے رجحانات کو متعارف کروانے والے امجد بوبی کا تذکرہ

    موسیقار امجد بوبی کا تعلق ایک فن کار گھرانے سے تھا۔ وہ رشید عطرے جیسے عظیم موسیقار کے بھانجے تھے۔ موسیقار وجاہت عطرے ان کے ماموں زاد بھائی تھے، موسیقار صفدر حسین اور ذوالفقار علی اور گلوکار منیر حسین بھی ان کے قریبی عزیز تھے۔ ان کے والد غلام حسین خان بھی کلاسیکی گائیک تھے، لیکن خود کو ایک بڑا موسیقار منوانے کے لیے امجد بوبی کو خاصی محنت کرنا پڑی تھی۔

    فلمی تذکروں کے مطابق بہ طور موسیقار ان کی پہلی فلم راجا جانی تھی جس کی نمائش 1976 میں ہوئی۔ اس کے گیت بہت پسند کیے گئے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ امجد بوبی کی پہلی فلم اک نگینہ (1969ء) تھی۔ اس میں احمد رشدی کے گائے ہوئے دو گیتوں "مل گئی، مل گئی ہم کو پیار کی یہ منزل۔” اور "دل نہیں تو کوئی شیشہ، کوئی پتّھر ہی ملے۔” کے علاوہ آئرن پروین کا گایا ہوا گیت "ساری سکھیوں کے بلم گورے، میرا بلم کالا۔” بڑے خوب صورت گیت تھے۔ اسی سال فلم میری بھابھی پردے پر سجی اور کے گیت بھی اچھّے تھے۔ لیکن کوئی گیت سپرہٹ ثابت نہیں‌ ہوا اور امجد بوبی اپنی پہچان کروانے میں بھی ناکام رہے۔

    اسّی کی دہائی میں موسیقار کے طور پر امجد بوبی نے شہرت پائی اور اپنے فن کا عروج دیکھا۔ فلم نقشِ قدم (1979) میں گلوکار اے نیّر کی آواز میں "کرتا رہوں گا یاد تجھے میں، یونہی صبح و شام، مٹ نہ سکے گا میرے دل سے بینا تیرا نام” وہ گیت تھا جو سپر ہٹ ثابت ہوا۔

    امجد بوبی کی ایک وجہِ شہرت پاکستانی فلموں کے گیتوں کی بمبئی میں ریکارڈنگ کروانا ہے جس نے انھیں پاکستانی موسیقاروں میں‌ ممتاز کیا۔ انھوں نے جاوید شیخ کی فلم ’یہ دل آپ کا ہوا‘ کے لیے بھارتی گلوکار سونو نگم اور کویتا کرشنا مورتی سے گانے گوائے اور پاکستان فلم انڈسٹری میں ایک نئے رجحان کو فروغ دیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت کو امجد بوبی نے کئی مدھر دھنیں دینے کے ساتھ ساتھ اس فن میں‌ نت نئے تجربات کرکے بلاشبہ خود کو جدّت پسند موسیقار ثابت کیا۔

    آج امجد بوبی کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 2005ء میں انتقال کرگئے تھے۔ ان کا تعلق امرتسر سے تھا جہاں انھوں نے 1942 میں آنکھ کھولی۔ امجد بوبی نے گھونگھٹ، پرورش، کبھی الوداع نہ کہنا، نادیہ، روبی، نزدیکیاں، سنگم، چیف صاحب، گھر کب آوٴ گے، یہ دل آپ کا ہوا جیسی فلموں کے لیے لازوال دھنیں تخلیق کیں۔ ان کا فنی سفر چالیس سال پر محیط ہے۔

  • روبن گھوش جن کی موسیقی نے کئی فلمی نغمات کو لافانی بنا دیا

    روبن گھوش جن کی موسیقی نے کئی فلمی نغمات کو لافانی بنا دیا

    روبن گھوش کی لافانی موسیقی کا سب سے نمایاں وصف وہ شوخ ردھم اور جدّت ہے جس نے کئی گیتوں کو امر کر دیا۔ اخلاق احمد کی آواز میں ان کی ترتیب دی ہوئی موسیقی یہ نغمہ ’سونا نہ چاندی نہ کوئی محل‘ آج بھی مقبول ہے۔

    1977ء کی فلم آئینہ سے اپنے فنی کریئر کی معراج پر نظر آنے والے روبن گھوش 13 فروری 2016ء کو ڈھاکا میں وفات پاگئے تھے۔

    پاکستان فلم انڈسٹری کو سپر ہٹ فلمیں دینے میں ان کی لازوال موسیقی کا بھی بڑا کردار رہا۔ مہدی حسن کی آواز میں ’کبھی میں سوچتا ہوں…،‘، ’مجھے دل سے نہ بھلانا،‘ نیّرہ نور کا گایا ہوا ’روٹھے ہو تم، تم کو میں کیسے مناؤں پیا… وہ گیت تھے جنھیں پاک و ہند میں‌ مقبولیت حاصل ہوئی اور آج بھی ان کی سحر انگیزی برقرار ہے۔

    روبن گھوش کے کئی مقبول گیت ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر بھی نشر ہوئے جن میں ’کبھی تو تم کو یاد آئیں گے‘، ’مجھے تلاش تھی جس کی‘ ، ’ساون آئے ساون جائے‘ ، ’دیکھو یہ کون آ گیا وغیرہ شامل ہیں۔

    ان کا شمار برصغیر کے نام ور موسیقاروں میں کیا جاتا ہے۔ وہ 1939ء میں‌ پیدا ہوئے تھے۔ روبن گھوش پاکستان کی مشہور فلمی اداکارہ شبنم کے شوہر تھے اور یہ جوڑی 1996ء میں بنگلہ دیش منتقل ہو گئی تھی۔ روبن گھوش نے 1961ء میں بنگالی فلموں سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا تھا اور 10 سال بعد مقبول فلم ’چندا‘ سے اردو فلموں میں شمولیت اختیار کی۔ روبن گھوش نے پاکستان میں آخری فلم ’جو ڈر گیا وہ مر گیا‘ کی موسیقی ترتیب دی تھی۔

    انھوں نے پاکستان میں فلمی دنیا کا سب سے معتبر نگار ایوارڈ چھے مرتبہ اپنے نام کیا تھا۔

  • یومِ وفات: سریلی اور سدا بہار دھنیں ایم اشرف کی یاد دلاتی رہیں گی

    یومِ وفات: سریلی اور سدا بہار دھنیں ایم اشرف کی یاد دلاتی رہیں گی

    سریلی دھنوں اور سدا بہار موسیقی کے خالق، ایم اشرف کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ انھوں نے 4 فروری 2007ء کو یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔ پاکستان فلم انڈسٹری سے وابستہ ہونے کے بعد انھوں نے کئی نغمات کی موسیقی ترتیب دی جو بہت مقبول ہوئے اور آج بھی سماعتوں میں رس گھول رہے ہیں۔

    یہ گیت تو آپ نے ضرور سنا ہوگا، تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا پلکیں‌ بچھا دوں، ساری عمر بِتا دوں۔ ایم اشرف ہی اس خوب صورت گیت کے موسیقار تھے۔

    یکم فروری 1938ء کو پیدا ہونے والے ایم اشرف نے موسیقار اختر حسین سے فنِ موسیقی کی تربیت حاصل کی اور اپنی محنت اور لگن کے سبب فلم نگری تک پہنچے جہاں انھوں نے اپنے دور کے دیگر موسیقاروں کے درمیان اپنی جگہ بنائی۔ وہ مشہور فن کار ماسٹر عنایت اور ماسٹر عبداللہ کے بھانجے تھے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایک فن کار گھرانے کے فرد تھے اور یہی وجہ ہے کہ انھیں شروع ہی سے ساز اور سُر کا شوق تھا اور بڑے ہوئے تو فنِ موسیقی ہی کو اپنا کر نام و مقام پیدا کیا۔

    بطور میوزک ڈائریکٹر انھوں نے شباب کیرانوی کی فلم سپیرن سے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ وہ چار دہائیوں سے زائد عرصے تک اردو اور پنجابی فلموں کے لیے دھنیں‌ تخلیق کرتے رہے۔ ایم اشرف نے اپنے کیریئر میں 400 سے زائد فلموں کی موسیقی ترتیب دی اور لگ بھگ 2800 فلمی گانے کمپوز کیے۔ ان کی بدولت متعدد گلوکار بھی فلم انڈسٹری میں‌ متعارف ہوئے جن میں ناہید اختر، نیرّہ نور، رجب علی اور دیگر شامل ہیں۔ ایم اشرف 1960ء سے 70ء تک دو عشرے انڈسٹری میں مصروف رہے۔

    پاکستان کے اس مشہور موسیقار کو کئی ایوارڈز سے نوازا گیا تھا۔ یہ دنیا رہے نہ رہے میرے ہمدم، ہمارے دل سے مت کھیلو جیسے کئی گیتوں کو ان کی موسیقی نے مقبولِ عام بنایا اور فلمیں‌ بھی اپنے گانوں کی وجہ سے سپر ہٹ ثابت ہوئیں۔ آج بھی ان کے گیتوں کو نہایت ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔

    ملکۂ ترنّم نور جہاں اور مہدی حسن سے لے کر طاہرہ سیّد، رجب علی، اخلاق احمد، نیّرہ نور اور کئی نام ور گلوکاروں نے ان کی مرتب کردہ دھنوں میں گیت گائے۔ ایم اشرف نے مجموعی طور پر 13 فلموں کے لیے بہترین موسیقار کا نگار ایوارڈ اپنے نام کیا جو ایک ریکارڈ ہے۔

  • فتح علی خان: کلاسیکل سنگیت کا ایک انمول رتن

    فتح علی خان: کلاسیکل سنگیت کا ایک انمول رتن

    آج کلاسیکی موسیقی اور طرزِ گائیکی کے لیے مشہور پٹیالہ گھرانے کے استاد بڑے فتح علی خان کی برسی ہے۔ پاکستان کے اس عظیم گلوکار کو کلاسیکی فنِ‌ گائیکی کا بادشاہ کہا جاتا ہے جنھوں نے نوجوانی ہی میں‌ ہندوستان بھر میں‌ شہرت اور پذیرائی حاصل کرلی تھی۔

    فتح علی خان نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم اپنے والد استاد اختر حسین سے حاصل کی تھی۔ انھوں نے تینوں بیٹوں جن میں فتح علی، امانت علی اور حامد علی کو اس فن میں ان کی بھرپور تربیت اور راہ نمائی کی اور جب آل بنگال موسیقی کانفرنس کلکتہ میں منعقد ہوئی تو فتح علی اور امانت علی کی جوڑی سامنے آئی۔ اس وقت فتح علی کی عمر 17 اور امانت علی کی عمر 14 سال تھی۔ ان بھائیوں‌ کا خوب چرچا ہوا۔ لمبی تان لگانا استاد فتح علی خان کا طرّۂ امتیاز تھا۔

    استاد فتح علی خاں 1935ء میں ہندوستان کی ریاست پٹیالہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد باکمال گائیک تھے جنھوں نے اپنے بیٹوں کو بھی اس فن میں‌ طاق کیا۔ ان بھائیوں کی شہرت انگریز حکام تک بھی پہنچی اور ہندوستان بھر میں‌ قدر دانو‌ں نے انھیں‌ بڑی پذیرائی دی۔

    استاد فتح علی خان اور ان کے بھائی استاد امانت علی خان کی جوڑی نے لڑکپن میں ہی مہاراجہ پٹیالہ کے سامنے بھی فن کا مظاہره کیا اور اپنے زمانے کے نامی گرامی اساتذہ کے سامنے بھی گائیکی کے جوہر دکھائے۔

    تقسیمِ ہند کے بعد دونوں بھائی پاکستان آ گئے اور یہاں پاکستان کے کلاسیکی موسیقاروں میں انھیں‌ سب سے ممتاز اور باکمال جوڑی کہا گیا۔ یہاں فتح علی خان ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے اور ٹیلی وژن پر بھی پرفارمنس دی۔

    استاد بڑے فتح علی خان کا شمار خیال گائیکی کے ان سرخیل گلوکاروں میں ہوتا تھا جنھیں ٹھمری، دادرا، غزل، راگ درباری اور پیچیدہ سُر گانے میں ملکہ حاصل تھا۔ پیار نہیں ہے سُر سے جس کو وہ مورکھ انسان نہیں، دل میں کسی کی یاد چھپائے ایک زمانہ بیت گیا، نین سے نین ملائے رکھنے دو سمیت ستّر سے زائد فلموں میں گیتوں کو انھوں نے اپنی آواز دی۔ فتح علی خان بے حد شفیق اور سادہ مزاج انسان تھے۔ انکساری ان کا بڑا وصف تھا۔ انھیں‌ کئی اعزازات سے نوازا گیا اور بیرونِ ملک بھی ان کی گائیکی کا چرچا ہوا۔