Tag: موسیقار انتقال

  • یومِ وفات: مسحور کُن فلمی دھنوں کے خالق شوکت علی ناشاد کا تذکرہ

    یومِ وفات: مسحور کُن فلمی دھنوں کے خالق شوکت علی ناشاد کا تذکرہ

    دنیائے موسیقی اور فلم انڈسٹری کو کئی بے مثال اور رسیلے نغمات دینے والے شوکت علی ناشاد کو پاکستان ہی نہیں سرحد پار بھی ان کے تخلیقی جوہر اور فنی صلاحیتوں کی بدولت پہچان ملی۔ آج بھی جب ان کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو لبوں پر یہ گیت مچلنے لگتا ہے: ’’اگر تم مل جاؤ زمانہ چھوڑ دیں گے ہم۔‘‘ ایک یہی گیت نہیں ʼجان کہہ کر جو بلایا تو برا مان گئےʼ، ʼلے آئی پھر کہاں پر قسمت ہمیں کہاں سےʼ بھی پاکستان اور بھارت میں‌ بھی بے پناہ مقبول ہوئے۔

    شوکت علی ناشاد زندگی کے آخری ایّام میں صاحبِ فراش ہو گئے اور برین ہیمبرج کے بعد کومے کی حالت میں 3 جنوری 1981ء کو ان کی روح نے ہمیشہ کے لیے جسم کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ آج اس عظیم موسیقار کی برسی ہے۔

    ’’اگر تم مل جاؤ زمانہ چھوڑ دیں گے ہم‘‘ جیسے سدا بہار گیت موسیقار ناشاد نے 1974ء میں فلم ’’ایمان دار‘‘ کے لیے کمپوز کیا تھا۔ اسے تصوّر خانم کی آواز میں ریکارڈ کروایا گیا تھا۔

    ناشاد 1918ء میں دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام شوکت علی دہلوی تھا۔ ان کے والد غلام حسین خان اپنے دور کے ایک معروف طبلہ نواز تھے۔ تقسیم ہند سے قبل وہ موسیقار غلام حیدر کے ساتھ سازندے کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔ 1953ء میں نخشب جارچوی نے فلم ’’نغمہ‘‘ کی موسیقی کے لیے شوکت علی دہلوی کی خدمات حاصل کیں اور انھیں ’’ناشاد‘‘ کا نام دیا۔ فلم ’’نغمہ‘‘ کے گانوں نے ہندوستان بھر میں دُھوم مچا دی۔

    ناشاد کا نام 1953ء سے ایک کام یاب موسیقار کے طور پر لیا جانے لگا۔ انھوں نے پہلی بار 1947ء میں فلم ’’دلدار‘‘ کی موسیقی ترتیب دی۔ ابتدائی زمانے میں وہ شوکت علی اور شوکت حسین کے نام سے مشہور ہوئے اور بعد میں ناشاد نام اپنایا۔

    ناشاد 1964ء میں پاکستان آگئے اور یہاں سب سے پہلے نخشب کی فلم ’’میخانہ‘‘ کے لیے موسیقی دی۔ اس فلم کے چند گیت بے حد مقبول ہوئے، جن میں ’’جان کہہ کر جو بلایا تو بُرا مان گئے‘‘ بھی شامل تھا۔ ناشاد نے پاکستان آنے کے بعد 58 فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔ ان کی آخری فلم آزمائش تھی۔

    اس معروف موسیقار نے پاکستانی فلم انڈسٹری کی مشہور فلموں‌ مے خانہ، جلوہ، ہم دونوں، تم ملے پیار ملا، سال گرہ، سزا، افسانہ، چاند سورج، رم جھم، بندگی اور دیگر کے لیے اپنی فنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ ناشاد لاہور کے ایک قبرستان میں‌ آسودۂ خاک ہیں۔

  • موسیقار فیروز نظامی کا یومِ وفات

    موسیقار فیروز نظامی کا یومِ وفات

    آج پاکستان کے نام وَر موسیقار فیروز نظامی کا یومِ وفات ہے۔ انھیں‌ اپنے فن میں‌ ماہر اور بے مثل مانا جاتا ہے۔ وہ ایسے موسیقار تھے جس نے اپنے علم اور اس فن میں‌ مہارت و تجربات کو کتابی شکل بھی دی جس سے موسیقی کا شوق رکھنے والوں نے استفادہ کیا۔

    1975ء میں 65 سال کی عمر فیروز نظامی نے آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔

    1910ء میں لاہور کے ایک فن کار گھرانے میں‌ پیدا ہونے والے فیروز نظامی نے اسی شہر کے اسلامیہ کالج سے گریجویشن کیا اور اسی عرصے میں موسیقی کے اسرار و رموز بھی سیکھے۔ وہ اپنے ہی خاندان کے مشہور موسیقار استاد عبدالوحید خان کیرانوی کے زیرِ تربیت رہے۔

    1936ء میں جب لاہور سے آل انڈیا ریڈیو نے نشریات کا آغاز کیا تو فیروز نظامی وہاں بطور پروڈیوسر ملازم ہوئے۔ انھو‌ں نے دہلی اور لکھنؤ کے ریڈیو اسٹیشنوں پر بھی اپنے فن کا جادو جگایا۔ تاہم تھوڑے عرصے بعد ریڈیو کی ملازمت چھوڑ کر بمبئی کی فلمی صنعت سے ناتا جوڑ لیا اور وہاں بھی خود کو منوانے میں‌ کام یاب رہے۔

    بمبئی میں ان کی ابتدائی فلموں میں بڑی بات، امنگ، اس پار، شربتی آنکھیں اور نیک پروین شامل تھیں۔ فیروز نظامی کی وجہِ شہرت شوکت حسین رضوی کی فلم جگنو تھی جس میں دلیپ کمار اور نور جہاں نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ اس فلم کی بدولت فیروز نظامی کے فن و کمال کا بہت چرچا ہوا۔

    قیامِ پاکستان کے بعد فیروز نظامی لاہور لوٹ آئے تھے جہاں انھوں نے متعدد فلموں‌ کے لیے لازوال موسیقی ترتیب دی۔ ان کی فلموں میں سوہنی، انتخاب، راز، سولہ آنے، سوکن اور غلام شامل تھیں۔ نام ور گلوکار محمد رفیع کو فلمی صنعت میں متعارف کروانے کا سہرا بھی فیروز نظامی کے سَر ہے۔

    فیروز نظامی ایک مصنّف بھی تھے جنھوں نے سُر اور ساز، دھن اور آواز کی نزاکتوں اور باریکیوں پر لکھا۔ ایسے موسیقار بہت کم ہیں‌ جنھوں‌ نے اس فن کو اگلی نسل تک پہنچانے اور موسیقی و گائیکی کی تعلیم و تربیت کے لیے تحریر کا سہارا لیا ہو۔ فیروز نظامی کی کتابوں‌ میں اسرارِ موسیقی، رموزِ موسیقی اور سرچشمۂ حیات سرِفہرست ہیں۔

    پاکستان کے اس نام وَر موسیقار کو لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • عظیم موسیقار ایس ڈی برمن کا تذکرہ

    عظیم موسیقار ایس ڈی برمن کا تذکرہ

    ہندوستانی فلمی صنعت کو اپنی لافانی موسیقی سے مالا مال کرنے والے سچن دیو برمن پاک و ہند میں ایس ڈی برمن کے نام سے مشہور ہوئے دنیائے موسیقی کا یہ باکمال 31 اکتوبر 1975ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگیا تھا۔

    فلمی نغمات کو اپنی بے مثال دھنوں سے لافانی بنا دینے والے ایس ڈی برمن نے نہ صرف کئی فلموں کو کام یاب بنایا بلکہ کئی شاعروں اور گلوکاروں کی مقبولیت کا سبب بھی انہی کی ترتیب دی ہوئی دھنیں بنیں۔

    ان کے لازوال گیت آج بھی اپنی مقبولیت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ وہ بھارتی فلمی صنعت کا اہم ستون سمجھے جاتے تھے۔ ایس ڈی برمن کا تعلق بنگال سے تھا۔ وہ یکم اکتوبر 1906ء کو پیدا ہوئے۔ وہ تری پورہ کے شاہی خاندان کے رکن تھے۔ انھوں نے 1937ء میں بنگالی فلموں سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور مجموعی طور پر 100 ہندی اور بنگالی فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔

    ایس ڈی برمن ایک ورسٹائل موسیقار تھے۔ انھوں نے بنگالی لوک موسیقی میں کئی گیت بھی گائے۔ ان کی موسیقی پر لتا منگیشکر، محمد رفیع، گیتا دت، مناڈے، کشور کمار، آشا بھوسلے، شمشاد بیگم، مکیش اور طلعت محمود جیسے فن کاروں نے اپنی آواز کا جادو جگایا اور خوب شہرت حاصل کی۔

    میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد کومیلا کے وکٹوریہ کالج سے 1924ء میں بی اے کیا اور اس کے بعد 1925ء سے 1930ء تک موسیقار کے سی ڈے سے تربیت حاصل کرتے رہے۔ انھوں نے بعد میں بشما دیو، خلیفہ بادل خان اور استاد علاءُ الدین خان سے بھی راہ نمائی حاصل کی۔ ایس ڈی برمن نے 1920ء کی دہائی کے آخر میں کلکتہ ریڈیو اسٹیشن پر گلوکار کی حیثیت سے کام کیا اور ان کا ریکارڈ 1932ء میں ریلیز ہوا۔ بعد کی دہائی میں وہ گلوکار کی حیثیت سے پہچانے گئے اور بنگالی گانے گائے۔

    40 ء کی دہائی میں ایس ڈی برمن نے بنگالی فلموں کے لیے میوزک دیا اور مستقل طور پر ممبئی چلے گئے اور موسیقی پر توجہ دینے لگے لیکن حقیقی معنوں میں 1947ء میں ان کی شہرت کا وہ سفر شروع ہوا جب فلم ’’دو بھائی‘‘ کا یہ گیت ہر زبان پر تھا، ’’میرا سندر سپنا بیت گیا‘‘۔ اس کے بعد انھوں نے فلم ’’شبنم‘‘ کی موسیقی ترتیب دی۔ ان کے چند یادگار گیتوں میں کھویا کھویا چاند ہے، دیوانہ مستانہ ہوا دل، آج پھر جینے کی تمنا ہے شامل ہیں-

    ایس ڈی برمن کے بیٹے آر ڈی برمن کو بھی دنیائے موسیقی میں بے پناہ شہرت اور مقبولیت ملی- ایس ڈی برمن 69 برس کی عمر میں ممبئی میں چل بسے تھے۔

  • عظیم موسیقار خواجہ خورشید انور کی برسی

    عظیم موسیقار خواجہ خورشید انور کی برسی

    خواجہ خورشید انور کی دھنوں نے کئی شعرا کے تحریر گیتوں کو لافانی اور یادگار بنایا۔ برصغیر کے اس عظیم موسیقار کی آج برسی ہے۔

    خواجہ خورشید فنونِ لطیفہ کے بڑے شائق تھے۔ علم و ادب سے بھی لگاؤ تھا۔ فلسفہ وہ مضمون تھا جس میں انھوں نے ایم اے کیا اور بعد میں انڈین سول سروس کے تحریری امتحان میں بھی شان دار کام یابی حاصل کی، لیکن انگریز سرکار کے نوکر نہیں بلکہ قیدی بن گئے، کیوں کہ وہ اس زمانے میں انقلابی تنظیم سے وابستہ تھے۔

    بعد میں وہ موسیقار ہی نہیں ایک کام یاب تمثیل نگار، اور ہدایت کار کے طور پر بھی پہچانے گئے۔ انھوں نے 30 اکتوبر 1984ء کو وفات پائی۔

    مہدی حسن کا ’مجھ کو آواز دے تو کہاں ہے‘، نور جہاں کی آواز میں ’دل کا دیا جلایا‘، ’رم جھم رم جھم پڑے پھوار‘ اور کئی گیت خواجہ خورشید انور کی ترتیب دی ہوئی دھنوں کی وجہ سے آج بھی اپنے اندر کشش رکھتے ہیں۔

    وہ 21 مارچ 1912 میں میانوالی میں پیدا ہوئے تھے۔ خواجہ خورشید انور نے استاد توکل حسین خان صاحب سے موسیقی کی باقاعدہ تربیت حاصل کی۔

    ان کے تخلیقی سفر کا آغاز 1939 میں آل انڈیا ریڈیو لاہور سے ہوا، لیکن ان کی ترتیب دی ہوئی موسیقی میں پہلی فلم 1941 میں ریلیز ہوئی۔ انھوں نے اس فلم کے بعد لاہور میں مجموعی طور پر 18 فلموں کی موسیقی ترتیب دی جن میں انتظار، ہیر رانجھا اور کویل جیسی کام یاب فلمیں شامل ہیں۔

    خواجہ خورشید انور ہدایت کار بھی تھے اور اس حیثیت میں انھوں نے ہمراز، چنگاری اور گھونگھٹ جیسی فلمیں بنائیں اور ان کی موسیقی بھی ترتیب دی۔

    1955ء میں انھوں نے فلم انتظار کے لیے بہترین موسیقار اور بہترین فلم ساز کے صدارتی ایوارڈ بھی حاصل کیے۔ انھیں نگار ایوارڈ سے بھی نوازا گیا جب کہ حکومت پاکستان کی جانب سے ستارۂ امتیاز دیا گیا تھا۔

  • برصغیر کے نام وَر موسیقار استاد جھنڈے خان کا تذکرہ

    برصغیر کے نام وَر موسیقار استاد جھنڈے خان کا تذکرہ

    جھنڈے خان برصغیر کے استاد موسیقار تھے جن کی خوب صورت بندشیں اور مدھر دھنیں ان کی لازوال فنی اختراع ہیں۔ استاد جھنڈے خان 1952ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔

    جھنڈے خان کا اصل نام میاں غلام مصطفٰی تھا۔ وہ 1866ء میں جمّوں کے ایک گاؤں کوٹلی اوکھلاں میں پیدا ہوئے تھے۔ موسیقی کا شوق ایسا تھا کہ اس فن کو باقاعدہ سیکھنے کی خاطر انھوں نے ہندوستان کے طول و عرض میں سفر کیا۔ بعد میں بمبئی سکونت اختیار کی جہاں اس زمانے میں موسیقی کے بھنڈی بازار گھرانے کے باکمال فن کاروں چھجو خان، نذیر خان اور خادم حسین خان کی صحبت میں رہے اور ان سے اکتساب کیا۔ وہ ہندوستان میں تھیٹریکل کمپنیوں سے وابستہ ہوگئے اور ان کے لیے دھنیں اختراع کرتے رہے۔

    ہندوستان میں ناطق فلمیں بننے لگیں تو جھنڈے خان نے تیس سے زیادہ فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔ ان کا ایک فنی کرشمہ فلم ’’چتر لیکھا‘‘ کی تمام دھنیں ایک ہی راگ (بھیرویں) میں ترتیب دینا تھا۔ سُر ایک ہی تھے لیکن ان کے زیر و بم میں تنوع کے باعث محسوس ہی نہیں ہوتا تھا کہ کوئی ایک ہی راگ سماعت کررہا ہے۔

    تقسیمِ ہند کے بعد وہ پاکستان کے شہر گوجرانوالہ آگئے تھے اور وہیں وفات پائی۔

    استاد جھنڈے خان کو رجحان ساز اور زبردست اختراع کار موسیقار کہا جاتا ہے جنھوں نے اپنے دور میں فلمی موسیقی کو بامِ عروج پر پہنچا دیا تھا۔

  • “اے ابرِ کرم آج اتنا برس…” یہ نغمہ لعل محمد کی یاد دلاتا رہے گا

    “اے ابرِ کرم آج اتنا برس…” یہ نغمہ لعل محمد کی یاد دلاتا رہے گا

    فلمی نغمہ نگاروں کی خوب صورت شاعری کی موسیقی ترتیب دے کر گیتوں کو جاودانی عطا کرنے والے اور بانسری نواز لعل محمد ایک معروف نام ہے۔ اپنے زمانے کا یہ مقبول ترین گیت شاید آپ نے بھی سنا ہو، “اے ابرِ کرم آج اتنا برس، اتنا برس کہ وہ جا نہ سکیں” اس کی موسیقی لعل محمد ترتیب دی تھی۔

    پاکستان کے معروف موسیقار لعل محمد کا انتقال 29 ستمبر 2009ء کو ہوا تھا۔ آج ان کی برسی ہے۔ اردو فلموں کے ساتھ ساتھ پشتو، سندھی ، گجراتی اور بنگالی زبان میں بننے والی فلموں کے نغمات کو بھی لعل محمد نے اپنے فنِ موسیقی سے لازوال بنایا۔

    وہ 1933ء میں راجستھان کے شہر اودے پور میں پیدا ہوئے۔ لعل محمد کو کم عمری ہی میں بانسری بجانے کا شوق ہو گیا تھا اور اسی شوق کی بدولت انھیں‌ دنیائے موسیقی میں‌ قدم رکھنے کا موقع ملا جہاں انھوں نے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا اور نام و مقام بنایا۔

    لعل محمد تقسیمِ ہند کے بعد 1951ء میں ہجرت کرکے پاکستان آئے اور یہاں ایک محفل میں ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر سجاد سرور نیازی نے انھیں بانسری بجاتے ہوئے سنا تو ان سے کہا کہ کسی دن ریڈیو پاکستان آکر ملاقات کریں۔ یوں لعل محمد کے اس شوق نے انھیں ریڈیو پر اسٹاف آرٹسٹ کی ملازمت دلوا دی۔

    وہاں ان کی ملاقات بلند اقبال سے ہوئی جو مشہور گائیک گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ لعل محمد کی بانسری کے سُروں اور بلند اقبال کی دھنوں‌ نے سریلے، رسیلے بندھن میں بندھنے کا فیصلہ کیا اور یوں فلم انڈسٹری کو ایک خوب صورت موسیقار جوڑی بھی مل گئی۔ ان دونوں کی سنگت نے فلم نگری کو کئی لازوال اور یادگار گیت دیے۔

    ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہونے کے بعد 1961ء میں لعل محمد اور بلند اقبال کی اس سنگت کو مشہور فلمی ہدایت کار باقر رضوی نے اپنی ایک فلم میں آزمایا اور زبردست کام یابی حاصل کی۔ اس فلم کے نغمات کی مقبولیت کے بعد لعل محمد اور بلند اقبال پر قسمت مہربان ہوگئی اور انھوں نے مل کر مختلف زبانوں‌ میں‌ بننے والی فلموں‌ کی موسیقی ترتیب دی۔ ان میں‌ مسٹر ایکس، چھوٹی بہن، جاگ اٹھا انسان، آزادی یا موت، دوسری ماں، منزل دور نہیں، جانور، پازیب، ہنستے آنسو کے نام سرِ فہرست ہیں۔ اس جوڑی نے “دنیا کسی کے پیار میں جنّت سے کم نہیں” جیسے کئی گیتوں کو اپنی موسیقی سے سجایا جو بے حد مقبول ہوئے۔

  • نام وَر کلاسیکی موسیقار اور گائیک استاد نزاکت علی خان کی برسی

    نام وَر کلاسیکی موسیقار اور گائیک استاد نزاکت علی خان کی برسی

    آج پاکستان کے نام وَر کلاسیکی موسیقار اور گائیک استاد نزاکت علی خان کا یومِ وفات ہے۔ وہ 14 جولائی 1983ء کو راولپنڈی میں وفات پاگئے تھے۔

    استاد نزاکت علی خان 1932ء میں ضلع ہوشیار پور کے موسیقی اور گائیکی کے حوالے سے مشہور قصبے چوراسی میں پیدا ہوئے۔ ان کا سلسلہ نسب استاد چاند خان، سورج خان سے ملتا ہے جو دربارِ اکبری کے نامور گائیک اور میاں تان سین کے ہم عصر تھے۔

    استاد نزاکت علی خان کے والد استاد ولایت علی خان بھی اپنے زمانے کے نام ور موسیقار تھے اور انھیں دھرپد گائیکی میں کمال حاصل تھا۔ استاد نزاکت علی خان اور ان کے چھوٹے بھائی استاد سلامت علی خان نے اپنے والد سے اس فن کی تعلیم حاصل کی اور کم عمری میں اپنی گائیکی کی وجہ سے مشہور ہوگئے۔

    قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کی اور ملتان آبسے جہاں سے بعد میں لاہور کا رخ کیا اور اپنی وفات تک یہیں رہے۔ لاہور میں انھوں نے فنِ گائیکی میں بڑا نام اور مقام پایا۔ استاد نزاکت علی خان کو حکومتِ پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی اور ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا۔

  • نام وَر موسیقار کمال احمد کی برسی

    نام وَر موسیقار کمال احمد کی برسی

    6 جون 1993ء کو نام وَر فلمی موسیقار کمال احمد لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ کمال احمد پاکستان فلم انڈسٹری کے ان موسیقاروں میں سے ایک تھے جن کی تیّار کردہ دھنیں بہت پسند کی گئیں اور کئی گلوکاروں کی شہرت کا سبب بنیں۔

    کمال احمد 1937ء میں گوڑ گانواں (یو پی) میں پیدا ہوئے تھے۔ موسیقی سے لگاؤ نے انھیں اس فن کے اسرار و رموز سیکھنے پر آمادہ کیا اور فلم شہنشاہ جہانگیر نے انھیں بڑے پردے پر اپنے فن کو پیش کرنے کا موقع دیا۔ اس کے بعد انھوں نے فلم طوفان میں فنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور فلم سازوں کی ضرورت بن گئے۔

    کمال احمد نے متعدد فلموں میں موسیقی دی جن میں رنگیلا، دل اور دنیا، تیرے میرے سپنے، دولت اور دنیا، راول، بشیرا، وعدہ، سلسلہ پیار دا، دلہن ایک رات کی، کندن، محبت اور مہنگائی، عشق عشق، مٹھی بھر چاول، عشق نچاوے گلی گلی، سنگرام اور ان داتا شامل ہیں۔

    موسیقی کی دنیا کے اس باصلاحیت فن کار نے 6 مرتبہ نگار ایوارڈ حاصل کیا اور جہاں‌ فلم انڈسٹری میں‌ نام بنایا وہیں‌ ان کی خوب صورت دھنوں میں کئی مقبول گیت آج بھی گنگنائے جاتے ہیں جو کمال احمد کی یاد دلاتے ہیں۔ ان گیتوں میں گا میرے منوا گاتا جارے، جانا ہے ہم کا دور، کس نے توڑا ہے دل حضور کا، کس نے ٹھکرایا تیرا پیار، بتا اے دنیا والے، یہ کیسی تیری بستی ہے شامل ہیں۔

  • نام ور ستار نواز استاد محمد شریف خان کی برسی

    نام ور ستار نواز استاد محمد شریف خان کی برسی

    26 مئی 1980ء کو پاکستان کے نام ور ستار نواز، استاد محمد شریف خان وفات پاگئے تھے۔ پاکستان میں کلاسیکی موسیقی اور روایتی سازوں کے ماہر فن کاروں اور سازندوں میں ایک نام کاروں استاد محمد شریف خان کا بھی ہے جو 26 مئی 1980ء کو وفات پاگئے تھے۔ ان کا شمار پاکستان کے نام وَر ستار نوازوں میں ہوتا ہے۔

    استاد محمد شریف خان اپنے علاقے کی نسبت سے پونچھ والے مشہور تھے۔ وہ 1926ء میں ضلع حصار میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد بھی موسیقی کے ماہر جن کا نام رحیم بخش تھا۔ وہ مہاراجہ پونچھ کے موسیقی کے استاد تھے۔

    استاد محمد شریف خان کی زندگی کا ابتدائی زمانہ پونچھ میں گزرا۔ اس لیے پونچھ سے ان کی نسبت ان کے نام کا حصّہ بن گئی۔ انھیں ابتدا ہی سے ستار بجانے کا شوق تھا۔ ان کے والد اور اساتذہ نے بھی انھیں موسیقی کی تعلیم دینے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ وہ ستار کے علاوہ وچتروینا بجانے میں بھی مہارت رکھتے تھے۔

    استاد محمد شریف خان پونچھ والے نے کئی راگ بھی ایجاد کیے تھے اور اسی لیے ’’استاد‘‘ کہلاتے تھے۔

    انھیں 14 اگست 1965ء کو حکومتِ پاکستان کی جانب سے صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا۔ لاہور میں وفات پانے والے استاد محمد شریف خان میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • پاکستانی فلم انڈسٹری کے باکمال موسیقار اے حمید کی برسی

    پاکستانی فلم انڈسٹری کے باکمال موسیقار اے حمید کی برسی

    پاکستانی فلم انڈسٹری کے لیے لازوال اور سدا بہار دھنیں تخلیق کرنے والے اے حمید 20 مئی 1991ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج اے حمید کی برسی ہے۔ ان کا پورا نام شیخ عبدُالحمید تھا جنھیں فلمی صنعت میں اے حمید کے نام سے پہچانا جاتا ہے

    وہ 1924ء میں امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد شیخ محمد منیر موسیقی کا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے اور انھوں نے دو فلموں کی موسیقی بھی ترتیب دی تھی۔ یوں اے حمید میں بھی سُر ساز کا شوق، موسیقی اور گائیکی کا ذوق پیدا ہوا اور انھوں نے اسی فن میں نام و مقام حاصل کیا۔

    اے حمید کے فلمی کیریئر کا آغاز فلم انجام سے ہوا۔ فلمی دنیا میں موسیقار کی حیثیت سے ان کی شہرت کا آغاز ہدایت کار ایس ایم یوسف کی فلم سہیلی سے ہوا۔ اے حمید کی دیگر فلموں میں رات کے راہی، اولاد، آشیانہ، شریکِ حیات، پیغام، دوستی، جواب دو، ثریا بھوپالی، انگارے، بیگم جان اور نیا انداز سرِفہرست ہیں۔ انھوں نے بہترین موسیقار کا نگار ایوارڈ بھی حاصل کیا تھا۔ انھیں یہ ایوارڈ "چٹھی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دے” جیسے خوب صورت گیت کی لازوال دھن تخلیق کرنے پر دیا گیا تھا۔

    پاکستانی فلموں کے دیگر مقبول گیتوں میں "ہم بھول گئے ہر بات مگر تیرا پیار نہیں بھولے، کہیں دو دل جو مل جاتے بگڑتا کیا زمانے کا، تھا یقیں کہ آئیں گی یہ راتاں کبھی، کس نام سے پکاروں کیا نام ہے تمہارا، یہ وادیاں یہ پربتوں کی شاہ زادیاں” شامل ہیں جن کی دھنیں اے حمید کی تخلیق کردہ ہیں۔

    پاکستان فلم انڈسٹری کے اس باکمال موسیقار کو راولپنڈی کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ اے حمید نے اردو کے علاوہ متعدد پنجابی فلموں کی موسیقی بھی ترتیب دی۔