Tag: موسیقار برسی

  • خلیل احمد:‌ ایک موسیقار کی کتھا جو فلمی دنیا سے کنارہ کش ہوگئے تھے

    خلیل احمد:‌ ایک موسیقار کی کتھا جو فلمی دنیا سے کنارہ کش ہوگئے تھے

    خلیل احمد کا شمار پاکستان کے ان موسیقاروں میں ہوتا ہے جنھیں مقبول ترین ملّی نغمات کی دھنیں‌ ہمیشہ زندہ رکھیں گی تاہم بطور فلمی موسیقار بھی ان کا کام یادگار ہے۔ خلیل احمد کی موسیقی میں ’وطن کی مٹی گواہ رہنا‘ اور ’ہمارا پرچم یہ پیارا پرچم‘ جیسے ملّی گیت آج بھی نہایت مقبول ہیں۔

    موسیقار خلیل احمد 1934ء میں یوپی کے شہر گورکھ پور میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا پورا نام خلیل احمد خاں یوسف زئی تھا۔ آگرہ یونیورسٹی سے گریجویشن کے بعد خلیل احمد 1952ء میں پاکستان آگئے۔ وہ شروع ہی سے گیت اور موسیقی کا شوق رکھتے تھے۔ اس وقت کے متحدہ پاکستان میں ان کا قیام ڈھاکہ میں تھا، لیکن پھر کراچی چلے آئے اور یہاں ایک ملازمت اختیار کر لی مگر جلد ہی اسے بھی ترک کردیا اور ریڈیو سے وابستہ ہوگئے۔ انھیں مہدی ظہیر کی شاگردی میں موسیقی کا فن باقاعدہ سیکھنے کا موقع ملا اور پھر وہ لاہور چلے گئے۔ انھوں نے فلمی دنیا سے بحیثیت موسیقار وابستگی اختیار کی تو کبھی معیار پر سمجھوتا نہیں کیا اور اسی لیے جلد ان کو فلمی دنیا چھوڑنا پڑ گئی۔ 1962 ء میں خلیل احمد نے فلم ’’آنچل‘‘ کے لیے موسیقی ترتیب دی۔ اس فلم کے گیت ہٹ ہوئے اور خلیل احمد پاکستانی فلم انڈسٹری کے کام یاب موسیقاروں میں سے ایک بن گئے۔ انھوں نے فلم دامن، خاموش رہو، کنیز، مجاہد، میرے محبوب، ایک مسافر ایک حسینہ، آنچ، داستان کے گیتوں کی موسیقی ترتیب دی۔ ایک نغمہ ’’ جب رات ڈھلی تم یاد آئے‘‘ پر انہیں نگار ایوارڈ دیا گیا تھا جسے احمد رشدی اور مالا نے گایا تھا۔ 1976ء میں فلم ’’ آج اور کل‘‘ میں ان کا کمپوز کردہ گیت ’’پیار کا وعدہ ایسا نبھائیں…‘‘ بے حد مقبول ہوا جسے مہدی حسن اور مہناز نے گایا تھا۔ فلم انڈسٹری میں اپنے کیریئر کے دوران خلیل احمد نے 40 سے زائد فلموں کے لیے موسیقی ترتیب دی۔ لیکن یہ وہ دور تھا جب اکثر فلم سازوں نے کام یابی کے لیے چربہ فلمیں اور انڈین موسیقاروں کی دھنیں چرانے کا سلسلہ شروع کر دیا تھا اور خلیل احمد سے بھی اسی پر اصرار کیا جانے لگا۔ خلیل احمد محنت اور کام کرنے پر یقین رکھنے والے فن کاروں میں سے تھے اور ایک خود دار انسان کے طور پر پہچانے جاتے تھے۔ انھوں نے فلم سازوں کی مرضی کے مطابق کام کرنے سے انکار کردیا اور فلمی دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ یہی وجہ تھی کہ اس موسیقار کی زندگی کے آخری کئی برس تقریباً گمنامی میں گزرے۔

    اسّی کی دہائی میں خلیل احمد ریڈیو اور پی ٹی وی پر موسیقی کے پروگراموں کا بھی حصّہ رہے۔ انھوں نے بچوں کے ایک مقبول پروگرام ’’آنگن آنگن تارے‘‘ کی میزبانی کی جو پی ٹی وی سے نشر ہوا۔ اسی زمانہ میں انھوں نے ٹیلی ویژن کے لیے بھی متعدد نغمات کی موسیقی ترتیب دی جو مقبول ثابت ہوئے۔

    موسیقار خلیل احمد 21 جولائی 1997ء کو وفات پا گئے تھے۔ وہ لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • تان سین اور ہرن والی حکایت

    تان سین اور ہرن والی حکایت

    برصغیر میں تان سین کو علم موسیقی کا بادشاہ سمجھا گیا ہے۔ تان سین سے متعلق اکبر کے دور کے مؤرخین نے بھی لکھا ہے اور بعد میں‌ آنے والوں نے بھی، لیکن اکثر ایسے واقعات اور حکایات بھی سننے کو ملتی ہیں جن کی صداقت نہایت مشکوک ہے۔ خاص طور پر تان سین کا راگ سن کر ہرنوں کا اس کے گرد جمع ہوجانا یا موسم میں تغیر۔ البتہ تان سین کو عظیم فن کار سبھی مانتے ہیں۔ 26 اپریل کو تان سین چل بسا تھا۔

    کہا جاتا ہے کہ تان سین نے علم موسیقی کی تعلیم و تربیت کے مراحل گوالیار کے ایک مکتب میں مکمل کیے تھے۔ یہ اس وقت کے ایک راجا مان سنگھ تنور کا قائم کردہ مکتب تھا۔ کچھ عرصے راجاؤں کے درباروں سے جڑے رہنے کے بعد تان سین کو بادشاہ اکبر نے اپنے نورتنوں میں شامل کرلیا تھا۔ نام سے ظاہر ہوتا ہے کہ تان سین ہندو تھے۔ لیکن "آئینِ اکبری” میں شیخ ابو الفضل نے آپ کو میاں تان سین لکھا۔ یہ ایک قسم کا وہ لقب ہے جو کسی مسلمان کے لیے برتا جاتا تھا۔ شاید اسی سبب تان سین کو ایک قبرستان میں ابدی آرام گاہ ملی۔ سچ یہ ہے کہ تان سین کی زندگی کے ابتدائی حالات، اس کا مذہب، پیدائش اور درست تاریخِ وفات بھی ہمیں معلوم نہیں ہے۔ لیکن اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ ہندوستانی موسیقی کا بادشاہ تھا۔ ابوالفصل نے اکبر نامہ میں لکھا ہے کہ پچھلے ہزار سال میں شاید ہی کوئی کاونت ایسا پیدا ہوا ہوگا۔

    خیال ہے کہ تان سین کا اصل نام ترلو چن داس تھا۔ وہ ذات کا گوڑ برہمن تھا۔ اس کے باپ کا نام بعض کتابوں میں مکرند پانڈے ملتا ہے جو گوالیار کے رہنے والے تھے۔ تان سین موضع بھینٹ میں پیدا ہوا۔ سینہ بہ سینہ اقوال اور روایات سے محققین نے قیاس کیا کہ تان سین 1524ء میں پیدا ہوا تھا۔ اور یہ برصغیر میں صدیوں سے رائج بکرمی تقویم کے مطابق 1582ء بنتا ہے۔

    محققین کے مطابق تان سین نے کئی راگ اور راگنیاں اختراع کی تھیں۔ میاں توری، میاں سارنگ، میاں کی ملہار اور درباری کانگڑا اس کی چند تخلیق ہیں جو اس وقت تک زندہ رہیں گی جب تک کلاسیکی موسیقی زندہ ہے۔ تان سین سے دو تصانیف سنگیت سارا اور راگ مالا بھی منسوب ہیں۔ ایک اندازہ ہے کہ تان سین دربارِ اکبری میں 1562ء میں پہنچا اور نغمہ سرا ہوا تو اکبر کو بھا گیا۔ وہ اس سے بہت مثاثر ہوا اور بہت زیادہ انعام دیا۔

    تان سین کی وفات کا سنہ 1589ء بتایا جاتا ہے۔ اس گلوکار کو حضرت محمد غوث گوالیاریؒ کے مقبرہ کے قریب دفنایا گیا اور کہتے ہیں کہ تدفین کے وقت اکبر کے حکم پر ہندوستان کے تمام بڑے مغنی بھی موجود تھے۔

    تان سین کے فن کے متعلق ایک حکایت بھی زبان زد عام رہی ہے۔ کہتے ہیں کہ اس زمانے میں کوئی گائک بیجو باورا تھا جو راگ کی دھن میں ہمیشہ مست رہتا اور اس پر موسیقی کا جنون تھا۔ ایک روز تان سین گوالیار کے گھنے جنگل میں راگ الاپ رہا تھا کہ بیجو بھی ادھر آ نکلا۔ دونوں نے آمنے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ شروع کردیا۔ بیجو نے اساوری راگ الاپنا شروع کیا۔ اس راگنی کی تاثیر یہ بتائی جاتی ہے کہ اسے سن کر ہرن جمع ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ جب ہرن راگنی سن کر ان کے پاس آگئے تو بیجو نے اپنے گلے سے سونے کا ہار اتار کر ایک ہرن کے گلے میں ڈال دیا۔ وہ خاموش ہوا تو سب ہرن واپس جنگل میں چلے گئے۔ بیجو نے تان سین کو چیلنج کیا کہ تمھیں جب استاد مانوں گا کہ میرا سنہری ہار جس ہرن کے گلے میں تھا، اسے یہاں آنے پر مجبور کردو۔ یہ سن کر تان سین ایک راگ الاپنا شروع کیا جو راگ میان کی ٹوڑی کے نام سے مشہور ہوا۔ اس راگ کی تاثیر بھی وہی ثابت ہوئی جو ساوری کی تھی۔ ہرنوں کا وہی گروہ پھر نمودار ہوگیا اور انہی میں وہ ہرن بھی شامل تھا جس کے گلے میں بیجو نے ہار ڈالا تھا۔ تب بیجو نے تان سین کے روبرو زانوئے ادب تہ کیا اور اسے اپنا استاد تسلیم کرلیا۔

  • امجد بوبی: پاکستانی فلم انڈسٹری میں نئے رجحان کو فروغ دینے والا موسیقار

    امجد بوبی: پاکستانی فلم انڈسٹری میں نئے رجحان کو فروغ دینے والا موسیقار

    پاکستان میں فلمی موسیقاروں میں امجد بوبی جدّت طراز اور تجربات کے شائق موسیقار کے طور پر مشہور ہوئے۔ ان کی وجہِ شہرت کئی سدا بہار اور لازوال گیت ہیں جو پاکستان ہی نہیں سرحد پار بھی مقبول ہوئے۔ فنِ موسیقی میں نت نئے تجربات نے امجد بوبی کو بے مثل اور باکمال موسیقار ثابت کیا۔

    امجد بوبی کا تعلق ایک فن کار گھرانے سے تھا۔ وہ رشید عطرے جیسے عظیم موسیقار کے بھانجے تھے۔ موسیقار وجاہت عطرے ان کے ماموں زاد بھائی تھے، موسیقار صفدر حسین اور ذوالفقار علی اور گلوکار منیر حسین بھی ان کے قریبی عزیز تھے۔ ان کے والد غلام حسین خان بھی کلاسیکی گائیک تھے، لیکن خود کو ایک بڑا موسیقار منوانے کے لیے امجد بوبی کو خاصی محنت کرنا پڑی تھی۔

    فلمی تذکروں کے مطابق بہ طور موسیقار ان کی پہلی فلم راجا جانی تھی جس کی نمائش 1976 میں ہوئی۔ اس کے گیت بہت پسند کیے گئے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ امجد بوبی کی پہلی فلم اک نگینہ (1969ء) تھی۔ اس میں احمد رشدی کے گائے ہوئے دو گیتوں "مل گئی، مل گئی ہم کو پیار کی یہ منزل۔” اور "دل نہیں تو کوئی شیشہ، کوئی پتّھر ہی ملے۔” کے علاوہ آئرن پروین کا گایا ہوا گیت "ساری سکھیوں کے بلم گورے، میرا بلم کالا۔” بڑے خوب صورت گیت تھے۔ اسی سال فلم میری بھابھی پردے پر سجی اور کے گیت بھی اچھّے تھے۔ لیکن کوئی گیت سپرہٹ ثابت نہیں‌ ہوا اور امجد بوبی اپنی پہچان کروانے میں بھی ناکام رہے۔

    اسّی کی دہائی میں موسیقار کے طور پر امجد بوبی نے شہرت پائی اور اپنے فن کا عروج دیکھا۔ فلم نقشِ قدم (1979) میں گلوکار اے نیّر کی آواز میں "کرتا رہوں گا یاد تجھے میں، یونہی صبح و شام، مٹ نہ سکے گا میرے دل سے بینا تیرا نام” وہ گیت تھا جو سپر ہٹ ثابت ہوا۔

    امجد بوبی کی انفرادیت کا باعث اپنے دور کی پاکستانی فلموں کے گیتوں کی بمبئی میں ریکارڈنگ بنی۔ وہ نئی آوازوں کا تجربہ کرنے والے موسیقار کے طور پر مشہور ہوئے۔ جاوید شیخ کی فلم ’یہ دل آپ کا ہوا‘ کے لیے امجد بوبی نے اپنی دھن پر بھارتی گلوکار سونو نگم اور کویتا کرشنا مورتی سے گانے گوائے تھے۔ اس طرح‌ امجد بوبی نے پاکستانی فلم انڈسٹری میں ایک نئے رجحان کو فروغ دیا۔

    پاکستانی فلم انڈسٹری کے اس جدت طراز موسیقار کا انتقال 2005ء میں آج ہی کے روز ہوا تھا۔ آج امجد بوبی کی برسی ہے۔ ان کا آبائی وطن امرتسر تھا۔ امجد بوبی 1942 میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کی ترتیب دی ہوئی موسیقی میں گھونگھٹ، پرورش، کبھی الوداع نہ کہنا، نادیہ، روبی، نزدیکیاں، سنگم، چیف صاحب، گھر کب آؤ گے، یہ دل آپ کا ہوا جیسی فلمیں کام یاب ثابت ہوئیں۔

  • نثار بزمی: فلمی موسیقی کو نئی جہت بخشنے والا موسیقار

    نثار بزمی: فلمی موسیقی کو نئی جہت بخشنے والا موسیقار

    فضل احمد کریم فضلی کی فلم ’ایسا بھی ہوتا ہے‘ بطور موسیقار نثار بزمی کی پاکستان میں پہلی فلم تھی، لیکن تقسیمِ‌ ہند سے قبل اور بعد میں‌ بھارت میں قیام کے دوران وہ 40 سے زائد فلموں کی موسیقی ترتیب دے چکے تھے۔

    نثار بزمی نے پہلی بار فلم جمنار پار کے لیے موسیقی ترتیب دی تھی۔ یہ 1946ء کی بات ہے اور 1961ء تک وہ بھارت میں فلم انڈسٹری کے لیے کام کرتے رہے۔ تاہم کوئی خاص کام یابی ان کا مقدّر نہیں بنی تھی۔ نثار بزمی نے 1962ء میں پاکستان ہجرت کی تو جیسے قسمت کی دیوی ان پر مہربان ہوگئی۔ وہ اپنے عزیز و اقارب سے ملنے کے لیے کراچی آئے تھے اور پھر یہیں کے ہو رہے۔ پاکستان میں نثار بزمی نے فلم انڈسٹری کے لیے لازوال دھنیں تخلیق کیں۔

    فلم ‘لاکھوں میں ایک’ کا مشہور گیت ’چلو اچھا ہوا تم بھول گئے‘ کی دھن نثار بزمی نے ترتیب دی تھی۔ اس کے علاوہ ‘اے بہارو گواہ رہنا، اک حسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا، رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ، آپ دل کی انجمن میں حسن بن کر آ گئے، دل دھڑکے، میں تم سے یہ کیسے کہوں، کہتی ہے میری نظر شکریہ، کاٹے نہ کٹے رتیاں، سیاں تیرے پیار میں جیسے لازوال گیتوں کے اس موسیقار نے یہاں‌ عزّت، مقام و مرتبہ پایا۔ ان کی ترتیب دی ہوئی دھنوں پر اپنے دور کے مشہور و معروف گلوکاروں نے اپنی آواز کا جادو جگایا۔

    دسمبر 1924ء کو صوبہ مہاراشٹر کے ایک ضلع میں آنکھ کھولنے والے نثار بزمی کا اصل نام سید نثار احمد تھا۔ نوعمری ہی سے انھیں موسیقی سے لگاؤ پیدا ہوگیا تھا اور ان کا شوق اور موسیقی سے رغبت دیکھتے ہوئے والد نے انھیں استاد امان علی خان کے پاس بمبئی بھیج دیا جن سے انھوں نے اس فن کے اسرار و رموز سیکھے۔

    نثار بزمی نے آل انڈیا ریڈیو میں چند سال میوزک کمپوزر کی حیثیت سے کام کیا اور پھر فلمی دنیا میں‌ قدم رکھا، وہ تقسیم کے پندرہ برس تک ہندوستان کی فلم انڈسٹری سے وابستہ رہے تھے اور بعد میں پاکستان ہجرت کرکے فلمی دنیا میں‌ اپنا نیا سفر شروع کیا۔ موسیقار نثار بزمی نے طاہرہ سیّد، نیرہ نور، حمیرا چنا اور عالمگیر جیسے گلوکاروں بھی اپنی آواز کا جادو جگانے کا موقع دیا۔ مختلف شعرا کے کلام پر دھنیں ترتیب دینے والے نثار بزمی خود بھی شاعر تھے۔ ان کا مجموعۂ کلام ’پھر سازِ صدا خاموش ہوا‘ کے نام سے شایع ہوا۔

    کئی فلمی گیتوں کی لازوال دھنوں کے خالق نثار بزمی 22 مارچ 2007ء کو انتقال کرگئے تھے۔ حکومتِ‌ پاکستان نے انھیں پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا تھا۔

  • ماسٹر عبداللہ:‌ فنِ موسیقی میں جداگانہ اسلوب کا حامل ایک نام

    ماسٹر عبداللہ:‌ فنِ موسیقی میں جداگانہ اسلوب کا حامل ایک نام

    لیجنڈری موسیقار ماسٹر عبداللہ ان پاکستانی موسیقاروں میں‌ سے ایک ہیں‌ جو اس فن میں اپنے جداگانہ انداز کی وجہ سے ہم عصروں میں ممتاز ہوئے۔ انھیں پاکستان کی فلمی صنعت کا صاحبِ طرز موسیقار کہا جاتا ہے اور ان کے فلمی گیتوں کی دھنیں لازوال ثابت ہوئیں۔

    ماسٹر عبداللہ 31 جنوری 1994ء کو لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ انور کمال پاشا کی فلم سورج مکھی سے اپنا سفر شروع کرنے والے ماسٹر عبداللہ کا اس فلم میں شامل گیت او میرے گورے گورے راجہ بہت مقبول ہوا تھا۔ ماسٹر عبداللہ کی دھنوں میں خالص راگ راگنیوں کا وہ رچاؤ شامل تھا جس نے فلمی دنیا میں انھیں‌ شہرت اور مقام دیا۔ اگرچہ اس زمانے میں پنجابی فلموں کی کہانی کی کام یابی میں گیتوں‌ کا زیادہ عمل دخل نہیں سمجھا جاتا تھا، مگر ماسٹر عبداللہ نے زیادہ پنجابی فلموں کے لیے موسیقی ترتیب دی اور وہ ایسے باکمال فن کار تھے جنھیں اس میں بڑی کام یابی نصیب ہوئی۔ ان کے بڑے بھائی ماسٹر عنایت حسین بھی ایک مستند اور قابلِ احترام موسیقار تھے۔ ماسٹر عبداللہ کو بریک تھرو فلم ملنگی (1965) کے سپر ہٹ گیت "ماہی وے سانوں بھل نہ جاویں۔” سے ملا تھا۔

    پاکستان کے اس نام ور موسیقار کا فلمی کیریئر تیس سال پر محیط رہا جس میں ماسٹر عبداللہ نے 51 فلموں کے لیے دھنیں ترتیب دیں۔ ان میں‌ اردو کی چند فلمیں اور باقی پنجابی زبان میں‌ فلمیں‌ شامل تھیں۔

    ماسٹر عبداللہ کی ترتیب دی ہوئی موسیقی میں‌ فلم ٹیکسی ڈرائیور، بابل، نظام، شریف بدمعاش، بدل گیا انسان، اک سی چور، ہرفن مولا، دلیر خان، لاڈو، میدان، کمانڈو، وارث، شہنشاہ، پیار دی نشانی، رنگی، اکھ لڑی بدو بدی، کشمکش، رستم، ہیرا پتّھر، دل ماں دا، قسمت اور ضدّی کے نام سرِفہرست ہیں۔ آخرالذّکر فلم کا یہ گیت تیرے نال نال وے میں رہنا اور اسی طرح ایک اور فلم دنیا پیسے دی کا یہ گانا چل چلیے دنیا دی اوس نکرے آج بھی پنجابی سنیما کے زمانۂ عروج کی یاد تازہ کردیتے ہیں۔

    فلم انڈسٹری کو کئی بے مثال دھنیں دینے والے موسیقار ماسٹر عبداللہ نے اپنے کمالِ فن سے اس وقت کے مشہور گلوکاروں‌ کو بھی متأثر کیا اور وہ ان کی دھنوں‌ پر اپنی آواز ریکارڈ کروانے کے خواہش مند رہے۔ جن بڑے گلوکاروں‌ نے ماسٹر عبداللہ کی موسیقی میں اپنی آواز کا جادو جگایا ان میں‌ شہنشاہِ غزل مہدی حسن، میڈم نور جہاں، مالا، تصور خانم اور دیگر بڑے نام شامل ہیں۔

    ماسٹر عبداللہ نے اعلیٰ‌ درجے کی موسیقی ترتیب دی اور فلم واہ بھئی واہ، لاڈو، ملنگی، کمانڈر، زندگی، رنگو جٹ کی شان دار کام یابی کی ایک وجہ ماسٹر عبداللہ کی موسیقی بھی تھی۔ یہ درست ہے کہ پنجابی فلمیں گیتوں کی بنیاد پر کم ہی کام یاب ہوئی ہیں، لیکن مذکورہ فلموں کے گیتوں کو بھی شائقین نے سراہا تھا۔

    فلمی صنعت نے ماسٹر عبداللہ کو نگار ایوارڈ سمیت متعدد اعزازات سے نوازا تھا۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ جب ان کا سنہری دور ختم ہوا تو کوئی ان کا ساتھ دینے والا نہ تھا۔ کہتے ہیں کہ لوگ چڑھتے سورج کے پجاری ہوتے ہیں اور ماسٹر عبداللہ کے ساتھ ایسا ہی دیکھا گیا۔ وہ مالی مسائل اور دمے کے مرض کی وجہ سے ٹوٹ کر رہ گئے تھے اور اسی عالم میں دنیا سے رخصت ہوگئے۔

  • ایس ڈی برمن: موسیقی کی دنیا کا بڑا نام

    ایس ڈی برمن: موسیقی کی دنیا کا بڑا نام

    اگر ہندوستان کی فلمی صنعت کے چند باکمال اور بے مثال موسیقاروں کا نام لیا جائے تو ان میں نوشاد، او پی نیر، کھیم چند پرکاش، سی رام چندر، انیل بسواس، شنکر جے کشن، سلیل چودھری، لکشمی کانت پیارے لال اور ایس ڈی برمن اس فہرست میں ضرور شامل ہوں گے۔

    یہ تذکرہ ہے سچن دیو برمن (ایس ڈی برمن) کا جو ہندوستان کی فلم انڈسٹری کا ایک بڑا نام اور اپنے وقت کے عظیم سنگیت کار تھے۔ ایس ڈی برمن 1975ء میں آج ہی کے روز چل بسے تھے۔ موسیقار ایس ڈی برمن کے فلمی گیتوں کو آج بھی بہت شوق سے سنا جاتا ہے اور خاص طور پر موسیقار اور اس فن کی باریکیوں کو سمجھنے والے ایس ڈی برمن کے کمالِ‌ فن کا اعتراف کرتے نظر آتے ہیں۔

    موسیقار ایس ڈی برمن کی دھنوں میں مقبول ہونے والے کئی فلمی گیت ایسے تھے جن کو فلم کی کام یابی کی بڑی وجہ قرار دیا گیا۔ ایس ڈی برمن کی وجہ سے کئی نغمہ نگاروں اور گلوکاروں‌ کو مقبولیت حاصل ہوئی۔ موسیقار ایس ڈی برمن کو بھارتی فلمی صنعت کا اہم ستون بھی کہا جاتا ہے۔

    ایس ڈی برمن کا تعلق بنگال سے تھا۔ وہ یکم اکتوبر 1906ء کو پیدا ہوئے۔ ایس ڈی برمن تری پورہ کے شاہی خاندان کے رکن تھے۔ ان کا فلمی دنیا میں سفر 1937ء میں بنگالی فلموں سے شروع ہوا اور مجموعی طور پر ایس ڈی برمن نے سو ہندی اور بنگالی فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔ وہ ایک ورسٹائل موسیقار مشہور تھے۔ ایس ڈی برمن نے موسیقی کے ساتھ گلوکاری بھی کی اور کئی بنگالی لوک گیت گائے۔ ان کی ترتیب دی ہوئی موسیقی پر لتا منگیشکر، محمد رفیع، گیتا دت، منّا ڈے، کشور کمار، آشا بھوسلے، شمشاد بیگم، مکیش اور طلعت محمود جیسے گلوکاروں نے اپنی آواز کا جادو جگایا اور خوب شہرت حاصل کی۔

    ابتدائی تعلیمی درجات طے کرنے کے بعد ایس ڈی برمن نے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور پھر وہ کومیلا کے وکٹوریہ کالج سے 1924ء میں بی اے کی سند لینے میں کام یاب ہوگئے، مگر موسیقی کے شوق نے ان کو آگے پڑھنے نہ دیا۔ ایس ڈی برمن ایم اے نہ کر سکے اور 1925ء سے 1930ء تک موسیقار کے سی ڈے سے موسیقی کی تربیت حاصل کرتے رہے۔ بعد میں بشما دیو، خلیفہ بادل خان اور استاد علاءُ الدین خان سے بھی راہ نمائی لی۔ ایس ڈی برمن نے 1920ء کی دہائی کے آخر میں کلکتہ ریڈیو اسٹیشن پر کچھ عرصہ گلوکاری بھی کی اور آہستہ آہستہ ان کی موسیقی مقبولیت حاصل کرنے لگی۔ یہ موسیقی بنگالی لوک دھنوں اور لائٹ ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کا بڑا شان دار امتزاج تھی۔ ایس ڈی برمن کا ریکارڈ 1932ء میں پہلی مرتبہ ریلیز ہوا۔ اس کے بعد وہ گلوکار کی حیثیت سے پہچانے گئے اور کئی بنگالی گانے گائے۔ 1934 میں ایس ڈی برمن نے الہٰ آباد یونیورسٹی کی دعوت پر آل انڈیا میوزک کانفرنس میں شرکت کی جہاں انھوں نے بنگالی ٹھمری پیش کی۔ اس کانفرنس میں وجے لکشمی پنڈت اور کیرانہ گھرانے کے عبدالکریم خان بھی موجود تھے۔ اسی سال انھوں نے بنگال میوزک کانفرنس کلکتہ میں شرکت کی۔ اس کانفرنس کا افتتاح رابندر ناتھ ٹیگور نے کیا تھا۔ یہاں بھی انھوں نے بنگالی ٹھمری گائی اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔

    40ء کی دہائی میں ایس ڈی برمن نے بنگالی فلموں کے لیے بطور موسیقار کام کیا اور پھر ممبئی چلے گئے اور وہاں بھی بطور موسیقار کام شروع کیا۔ لیکن ان کی شہرت کا سفر 1947ء میں شروع ہوا جب فلم ’’دو بھائی‘‘ کا یہ گیت مقبول ہوا ’’میرا سندر سپنا بیت گیا‘‘۔ اس کے بعد انھوں نے فلم ’’شبنم‘‘ کی موسیقی ترتیب دی۔ ان کے چند یادگار گیتوں میں کھویا کھویا چاند ہے، دیوانہ مستانہ ہوا دل، آج پھر جینے کی تمنا ہے شامل ہیں۔

    ایس ڈی برمن نے میرا داس گپتا سے شادی کی، اور ان کا بیٹا راہول دیو برمن (آر ڈی برمن) بھی موسیقار بنا اور اس دنیا میں بے پناہ شہرت اور مقبولیت حاصل کی۔

  • عظیم موسیقار خواجہ خورشید انور کا تذکرہ

    عظیم موسیقار خواجہ خورشید انور کا تذکرہ

    خواجہ خورشید انور پاکستان ہی نہیں بھارت میں بھی بطور موسیقار مشہور نام و پہچان رکھتے تھے اور بالخصوص فلمی دنیا میں ان کی دھنوں کو سراہا جاتا تھا۔ خواجہ خورشید انور نے کئی نام ور شعرا کے تحریر کردہ گیتوں کو اپنی موسیقی سے لافانی اور یادگار بنایا۔ یہ فلمی نغمات آج بھی بڑے ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں‌۔

    آج پاکستان کے عظیم موسیقار خواجہ خورشید انور کی برسی ہے۔ خواجہ خورشید انور فنونِ لطیفہ کے بڑے شائق تھے اور ادب سے ان کو بہت لگاؤ تھا۔ فلسفہ وہ مضمون تھا جس میں خواجہ صاحب نے ایم اے کیا اور 1936ء میں انڈین سول سروس کے تحریری امتحان میں شان دار کام یابی حاصل کی، مگر انگریز سرکار کے ملازم نہیں بن سکے بلکہ انھیں قیدی بننا پڑا، کیوں کہ اُس وقت خواجہ صاحب ہندوستان کی انقلابی تنظیم کے رکن بھی تھے۔ یہ ان کے کالج کے ابتدائی زمانے کی بات ہے جب انقلابی تنظیم کے راہ نما بھگت سنگھ اور ان کے دو ساتھیوں کو لاہور کی جیل میں پھانسی کی سزا پر عمل درآمد کا انتظار تھا اور خواجہ صاحب بھی تنظیم کا رکن ہونے کی وجہ سے جیل بھیجے گئے، رہائی تو جلد ہی مل گئی، مگر خواجہ خورشید انور کو انڈین سول سروس میں جگہ نہیں دی گئی۔

    خواجہ خورشید انور موسیقار ہی نہیں ایک کام یاب تمثیل نگار، اور ہدایت کار بھی تھے۔ اگر ان چند گیتوں کی بات کی جائے جو آج بھی مقبول ہیں تو ان میں مہدی حسن کی آواز میں ’مجھ کو آواز دے تو کہاں ہے‘، نور جہاں کا گایا ہوا نغمہ ’دل کا دیا جلایا‘، ’رم جھم رم جھم پڑے پھوار‘ اور کئی دوسرے گیت شامل ہیں۔

    30 اکتوبر 1984ء کو موسیقار خواجہ خورشید انور انتقال کرگئے تھے۔ ان کا تعلق میاںوالی سے تھا جہاں انھوں نے 21 مارچ 1912 میں آنکھ کھولی۔ اُن کے والد خواجہ فیروز الدین ایک مشہور وکیل تھے۔ خواجہ صاحب نے اعلیٰ‌ تعلیم تو حاصل کی تھی لیکن شہرت اور مقبولیت فن موسیقی کی بدولت ملی۔ اس فن میں ان کی باقاعدہ تربیت استاد توکل حسین خان صاحب نے کی۔ بطور موسیقار خواجہ خورشید انور کے فنی سفر کا آغاز 1939 میں آل انڈیا ریڈیو لاہور سے ہوا، لیکن ان کی ترتیب دی ہوئی دھنیں پہلی مرتبہ 1941 میں فلم میں شامل ہوئیں جو بمبئی سے ریلیز ہوئی تھی۔ 1953 میں خواجہ صاحب بمبئی سے لاہور منتقل ہوگئے اور مجموعی طور پر اٹھارہ فلموں کی موسیقی ترتیب دی جن میں انتظار، ہیر رانجھا اور کویل جیسی کام یاب فلمیں شامل ہیں۔ خواجہ خورشید انور نے بطور ہدایت کار ہمراز، چنگاری اور گھونگھٹ جیسی فلمیں بنائیں اور ان کی موسیقی بھی ترتیب دی۔

    1955ء میں فلم انتظار کے لیے انھیں بہترین موسیقار اور بہترین فلم ساز کے صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ فلمی دنیا نے انھیں نگار ایوارڈ دیا اور پھر حکومت پاکستان کی جانب سے ستارۂ امتیاز کے حق دار ٹھہرے۔

    موسیقار وزیر افضل خواجہ صاحب کے باقاعدہ شاگرد تھے اور ان کے کام میں خواجہ صاحب کے فن اور تربیت کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ وزیر افضل (مرحوم) کہتے تھے کہ خواجہ صاحب سے زیادہ مشرقی کلاسیکی موسیقی کا ادراک شاید ہی کسی اور فلمی موسیقار کو ہو۔

  • سلیل چودھری: مشہور فلمی موسیقار اور شاعر کا تذکرہ

    سلیل چودھری: مشہور فلمی موسیقار اور شاعر کا تذکرہ

    سلیل چودھری نے بطور موسیقار ہندوستان کی فلم انڈسٹری میں بڑا نام و مقام پایا لیکن وہ ایک ادیب اور شاعر بھی تھے۔

    مغربی بنگال میں سلیل چودھری نے 5 ستمبر 1995 کو اپنی زندگی کا سفر تمام کیا۔ سلیل چودھری 19 نومبر 1923ء کو پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد آسام میں بطور ڈاکٹر تعینات تھے۔ آسام ہی میں سلیل کا بچپن گزرا تھا۔ وہیں وہ وسیقی کی جانب راغب ہوئے۔ سلیل چودھری نے کسی استاد سے موسیقی کی تعلیم حاصل نہیں کی۔ ان کے بڑے بھائی آرکسٹرا میں کام کرتے تھے اور ہر طرح کے آلاتِ موسیقی سے واقف تھے۔ سلیل چودھری کو بچپن سے ہی بانسری بجانے کا بہت شوق تھا۔ بعد میں انھوں نے پیانو اور وائلن بھی بجانا سیکھا۔

    کولکتہ سے گریجویشن کرنے کے بعد سلیل چودھری ہندوستانی تنظیم سے منسلک ہوگئے۔ یہ انقلابی ترانوں کی گونج اور آزادی کی ترنگ کا دور تھا۔ اسی جدوجہد میں سلیل چودھری بھی شامل ہو گئے۔ وقت کے ساتھ ان کا تخلیقی شعور اور ان کی صلاحیتیں نکھرتی چلی گئیں اور وہ ایک بہترین موسیقار ہی نہیں شاعر اور ادیب بھی کہلائے۔

    سلیل چودھری کے والد ڈاکٹر بھی تھے اور باذوق آدمی بھی۔ ان کے پاس موسیقی کا بڑا ذخیرہ تھا اور وہ اسٹیج ڈراموں میں دل چسپی رکھتے تھے۔ سلیل چودھری نے آسام میں چائے کے باغات میں لوک گیت سنے تھے۔ مرد اور عورتوں کو کام کرتے دیکھا تھا جو گنگاتے جاتے اور اپنے کام میں‌ لگے رہتے۔ اسی زمانے میں سلیل نے بانسری بجانا شروع کیا اور یہی ان کے فنی سفر کا گویا آغاز تھا۔ سلیل کے والد بھی برطانوی راج سے نفرت کرتے تھے اور چائے کے باغات کے مظلوم مزدوروں کے لیے فکر مند رہتے تھے۔ یہ سب دیکھتے ہوئے بڑے ہونے والے سلیل چودھری نے جلد ہی اپنی سماجی ذمہ داریوں کو سمجھ لیا۔ وہ کمیونسٹ پارٹی کے رکن بن گئے اور پرفارمنگ آرٹ کی تحریکوں سے بھی جڑے رہے۔ اسی نے ترقی پسند سیاسی سرگرمی کو ایک تخلیقی میدان تک پہنچایا۔ اس عرصے میں سلیل نے بے شمار گیت لکھے اور ان کے ذریعے دیہات اور شہروں کے عوام کو ناانصافی اور جبر کے خلاف ڈٹ جانے کا پیغام دیا۔ یہ شعور اور بیداری کے گیت تھے جو تحریکِ آزادی کا حصّہ بنے‌ اور آج بھی ان کو سنا جاتا ہے۔ سلیل کے بنگالی گانوں نے بنگالی جدید موسیقی کا رخ ہی بدل دیا تھا۔

    برطانوی راج کے زمانہ میں سلیل نے اپنے فن اور ہنر کو غیرپیشہ ورانہ انداز میں اپنے عوام کے لیے برتا۔ جب کہ ان کا پیشہ ورانہ سفر پچاس کی دہائی کے وسط میں شروع ہوا۔ سلیل چودھری کو اس وقت ایک شان دار گیت نگار کے طور پر دیکھا گیا اور آزادی کے بعد وہ ایک بہت ہی پختہ اور غیر معمولی باصلاحیت موسیقار کے طور پر سامنے آئے۔ پچاس کی دہائی کے آغاز میں فلم ‘دو بیگھہ زمین’ کے لیے سلیل بمبئی پہنچے اور موسیقی کمپوز کی۔ اس کے بعد وہ 75 سے زیادہ ہندی فلموں، 45 بنگالی اور درجنوں ملیالم، تامل، تیلگو فلموں کے لیے موسیقی ترتیب دیتے رہے۔

    سلیل ہندوستانی سنیما کی دنیا کے سب سے زیادہ ورسٹائل موسیقار تھے۔ ناقدین نے انھیں غیرمعمولی ذوقِ تخلیق کا حامل فن کار کہا ہے۔ راج کپور نے ایک بار کہا تھا کہ ‘وہ تقریباً کوئی بھی آلہ بجا سکتا ہے جس پر وہ ہاتھ رکھتا ہے، طبلے سے لے کر سرود تک، پیانو سے لے کر پکولو تک’۔ سلیل کی موسیقی مشرق اور مغرب کا انوکھا امتزاج تھی۔ اس نے ایک بار کہا تھا کہ ‘میں ایک ایسا انداز بنانا چاہتا ہوں جو سرحدوں کو عبور کرے – ایک ایسی صنف جو زور دار اور چمک دار ہو، لیکن کبھی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی’۔

  • خیّام: لازوال دھنوں کے خالق کا تذکرہ

    خیّام: لازوال دھنوں کے خالق کا تذکرہ

    ان آنکھوں کی مستی کے مستانے ہزاروں ہیں.. اور اے دلِ ناداں، آرزو کیا ہے، جستجو کیا ہے… جیسے لازوال گیتوں کی دھنیں تخلیق کرنے والے موسیقار خیّام کو ہندوستانی سنیما کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ لیکن ان کے گیت بھارت ہی نہیں پاکستان میں بھی بے حد مقبول ہوئے اور آج بھی ان کا سحر برقرار ہے۔

    محمد ظہور خیام ان کا پورا نام تھا۔ فلمی دنیا میں خیّام مشہور ہوئے۔ مایہ ناز موسیقار کو بولی وڈ میں صفِ اوّل کا میوزک ڈائریکٹر مانا جاتا ہے۔ طویل علالت کے بعد خیّام 19 اگست 2019ء کو انتقال کرگئے تھے۔ ان کی عمر 93 سال تھی۔

    ہندی فلموں‌ کے مقبول ترین نغمات آجا رے او میرے دلبر آجا، دل کی پیاس بجھا جا رے، کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ جیسے تجھ کو بنایا گیا ہے میرے لیے، دل چیز کیا ہے آپ میری جان لیجے…کو بھارت ہی نہیں پاکستان میں بھی دہائیوں‌ تک نہایت ذوق و شوق سے سنا گیا اور آج بھی ان کا سحر برقرار ہے۔ یہی سدا بہار گیت خیّام کو ہم عصر موسیقاروں‌ سے جداگانہ شناخت دیتے ہیں۔

    محمد ظہور خیّام 18 فروری 1927ء کو متحدہ ہندوستان کی ریاست پنجاب کے ضلع جالندھر کے ایک گھرانے میں پیدا ہوئے۔ بھارتی موسیقار نے سنہ 1953 میں فلم فٹ پاتھ سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔ خیّام کی بطور میوزک ڈائریکٹر مشہور فلموں میں پھر صبح ہوگی، لالہ رخ، کبھی کبھی، نوری، تھوڑی سی بے وفائی، دل نادان، بازار، رضیہ سلطان وغیرہ شامل ہیں۔ خیّام کو تین مرتبہ فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

    خیام نے موسیقی کی تعلیم معروف موسیقار بابا جی اے چشتی سے لاہور میں حاصل کی۔ بولی وڈ میں فلم ‘امراؤ جان’ نے خیام کو راتوں رات کام یابی اور شہرت کی بلندیوں‌ پر پہنچایا۔ فلم ‘پھر صبح ہوگی’ کی موسیقی نے بھی خیام کو بڑا عروج دیا۔ کہتے ہیں اس فلم کے ہر گیت نے بھارت میں دھوم مچا دی۔ یہ گیت ساحر لدھیانوی نے لکھے تھے اور اس کی تمام دھنیں خوب ثابت ہوئی تھیں، خیام کی خوش قسمتی تھی کہ انھیں ساحر لدھیانوی، جاں نثار اختر، کیفی اعظمیٰ، مجروح سلطان پوری اور ندا فاضلی جیسے شاعروں کی تخلیقات کو اپنی دھنوں سے سجانے کا موقع ملا جو خیام کو انڈسٹری میں‌ نام و مقام اور اپنے فن میں‌ یگانہ بناتی چلی گئیں۔ انھوں نے جگجیت کور سے شادی کی تھی جو ایک نام ور گلوکارہ تھیں۔

    مایہ ناز موسیقار خیّام کو بھارت میں‌ نیشنل ایوارڈ کے علاوہ 2010ء میں لائف اچیومنٹ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔

  • پاکستانی فلم انڈسڑی کے باصلاحیت موسیقار رحمٰن ورما کا تذکرہ

    پاکستانی فلم انڈسڑی کے باصلاحیت موسیقار رحمٰن ورما کا تذکرہ

    پاکستانی فلم انڈسٹری میں کئی موسیقار ایسے بھی ہیں جن کی موسیقی میں مقبول ہونے والے فلمی گیتوں کی بدولت فلموں نے ریکارڈ بزنس کیا۔ ان گیتوں کو پاکستان ہی نہیں انڈیا میں بھی پسند کیا گیا۔ ان باکمال اور صف اوّل کے موسیقاروں کے علاوہ چند ایسے باکمال فن کار بھی انڈسٹری کا حصّہ بنے جن کو وہ پذیرائی اور قدرومنزلت نہیں ملی جس کے حق دار وہ تھے، مگر فلم بینوں نے ان کے گیتوں کو سراہا۔ رحمٰن ورما ایسا ہی ایک نام ہے جو خاموش طبع اور خود دار انسان بھی تھے۔ 11 اگست 2007ء کو رحمٰن ورما لاہور میں وفات پا گئے تھے۔

    رحمٰن ورما ایک باصلاحیت فلمی موسیقار کی حیثیت سے فلم انڈسٹری میں پہچانے تو گئے، لیکن بڑے بڑے فن کاروں کے درمیان خود کو منوانا ان کے لیے آسان نہیں‌ تھا۔ رحمٰن ورما اپنے وقت کے نام وَر موسیقار جی اے چشتی کے شاگرد تھے۔ بطور موسیقار رحمٰن ورما کی پہلی فلم باغی (1956) تھی جو کام یاب ثابت ہوئی۔ اس فلم کے بعد ایک اور فلم کی کام یابی نے رحمٰن ورما کو ایکشن اور کاسٹیوم فلموں کے لیے بہترین موسیقار ثابت کردیا۔ ورما جی کے نام سے مشہور اس کا اصل نام عبدالرحمٰن تھا۔ وہ 1927ء میں پیدا ہوئے۔ قیامِ پاکستان سے پہلے بھی انھوں نے موسیقار کی حیثیت سے فلموں کے لیے کام کیا تھا۔ تقسیمِ ہند کے بعد رحمٰن ورما پاکستان آگئے۔ پاکستان میں 1955ء میں رحمٰن ورما نے دیارِ حبیب کے لیے ایک نعت ریکارڈ کروائی جو بہت مقبول ہوئی اور یہاں اپنا فلمی سفر شروع کیا۔ رحمٰن ورما نے اردو اور پنجابی گیتوں کے لیے موسیقی ترتیب دی۔ بطور سولو موسیقار ان کی پہلی فلم ’’باغی‘‘ جب کہ آخری فلم ’’دارا‘‘ تھی جو 1976ء میں نمائش پذیر ہوئی۔ موسیقار رحمٰن ورما نے مجموعی طور پر 32 فلموں کی موسیقی ترتیب دی، جن میں دربار، آخری نشان، عالم آرا، ایک تھی ماں، بیٹا، کالا پانی، خاندان، نبیلہ، غدار، سسی پنہوں، سرِفہرست ہیں۔

    مشہور شاعر ساغر صدیقی کا ایک فلمی گیت رحمٰن ورما کی موسیقی میں بہت مقبول ہوا جس کے بول تھے، ”ٹوٹے ہوئے دلوں کا سہارا تمہی تو ہو‘‘ فلم ”آخری نشان‘‘ کے یہ نغمات ‘ہم بھی آوارہ پنچھی تم بھی آوارہ‘‘ ”کوئی دور بجائے بانسری‘‘ ”تو ہے بے وفا اور نہ میں بے وفا‘‘ناہید نیازی نے گائے تھے اور یہ بہت مقبول ہوئے۔ ان کے موسیقار رحمٰن ورما ہی تھے۔ اس کے علاوہ ”آج کی شب جانے پھر آئے کہ نہ آئے‘‘ اور ”حال کیسا ہے جناب کا‘‘ بھی اپنے وقت کے مشہور فلمی گیت تھے جن کے موسیقار رحمٰن ورما ہیں۔