Tag: موسیقار برسی

  • مدن موہن: فلمی موسیقی کا بادشاہ

    مدن موہن: فلمی موسیقی کا بادشاہ

    مدن موہن ہندوستان میں‌ فلمی موسیقی کی دنیا کا ایک ایسا نام ہے جن کے ہر گیت بے مثال اور یادگار ثابت ہوا۔ مدن موہن کو بولی وڈ کا بہترین موسیقار کہا جاتا ہے اور مشہور ہے کہ نوشاد جیسے عظیم بھارتی موسیقار ایک نغمے’’آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل مجھے‘‘ سے بہت متاثر ہوئے اور مدن موہن کو کہا کہ وہ ان کی اس دھن کے بدلے میں اپنی تمام ریاضت ان کے نام کرسکتے ہیں۔

    موسیقار مدن موہن 1975ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔ مدن موہن کی پیدائش عراق کی تھی جہاں ان کے والد مقیم تھے۔ 25 جون 1924ء کو اس دنیا میں آنکھ کھولنے والے مدن موہن کے والد عراق سے سرکاری ملازمت چھوڑ کر ہندوستان آگئے، لیکن یہاں بھی کاروباری مصروفیات کی وجہ سے ممبئی جانا پڑا اور مدن موہن چکوال میں اپنے دادا کے گھر رہے۔ چکوال کے موتی بازار میں مدن موہن کے دادا کا بڑا گھر تھا۔ وہ اپنے وقت کے ایک جانے مانے حکیم تھے۔ ان کی وجہ سے یہ گھر علاقے میں یوگ آشرم مشہور ہوگیا تھا۔ مدن موہن کے والد چنی لال کے ممبئی چلے جانے کے بعد مدن موہن نے یہیں پروش پائی اور لاہور میں‌ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے دوران کلاسیکی موسیقی کی تھوڑی بہت تربیت حاصل کی۔ لیکن باقاعدہ یہ فن کسی سے نہیں‌ سیکھا۔ کہتے ہیں کہ مدن موہن کی والدہ شاعری اور موسیقی کا عمدہ ذوق رکھتی تھیں اور مدن موہن کو بھی انہی کو دیکھ کر یہ شوق ہوا تھا۔پھر یہ گھرانا ممبئی منتقل ہوگیا اور وہاں‌ مدن موہن نے سینٹ میری اسکول میں داخلہ لیا۔ یہیں مدن موہن ریڈیو پر موسیقی اور بچّوں‌ کے پروگراموں میں‌ جانے لگے اور ان کا فنِ موسیقی کا شوق صحیح معنوں میں‌ پروان چڑھا۔ ممبئی شہر اپنی فلمی صنعت اور نگار خانوں کے لیے شہرت رکھتا تھا اور اس زمانے میں وہاں‌ فلم ساز، اداکار اور بڑے بڑے موسیقار مصروف نظر آتے تھے۔ ریڈیو پر بھی کئی بڑے گلوکار اور موسیقار اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے، لیکن ابھی وہ وقت نہیں آیا تھا کہ مدن موہن یہاں اپنا شوق پورا کرتے۔ انھیں برٹش آرمی میں کمیشن مل گیا لیکن دوسری جنگِ‌ عظیم کے بعد وہ نوکری چھوڑ کر ریڈیو سے پروگرام اسسٹنٹ کے طور پر منسلک ہوگئے۔ وہ اپنے موسیقی کے شوق کی تکمیل اور اس فن میں اپنی صلاحیتوں‌ کا اظہار کرنا چاہتے تھے۔

    آل انڈیا ریڈیو پر ان کی شناسائی جن عظیم موسیقاروں اور بڑے گلوکاروں سے ہوئی ان میں استاد فیاض علی، استاد علی اکبر خان، بیگم اختر، طلعت محمود کے نام شامل ہیں مدن موہن گلوکاری کے بڑے شوقین تھے اور چند مشہور شعرا کا کلام گانے کے بعد انھوں نے بطور موسیقار فلم انڈسٹری کے لیے کام شروع کردیا۔ 1948ء میں انھوں نے فلم شہید کے لیے گانا ریکارڈ کروایا جو بہت مقبول ہوا اور اس کے بعد ایک فلم بطور معاون موسیقار کی۔

    بالی وڈ میں‌ مدن موہن کو پہلی قابلِ ذکر کام یابی 1950ء میں ملی جب انھوں نے فلم "آنکھیں” کی موسیقی ترتیب دی۔ اس فلم نے انھیں انڈسٹری میں نام دیا۔ اس زمانے میں لتا اور محمد رفیع جیسے گلوکاروں کا ہر طرف شہرہ تھا اور مذکورہ فلم کا گیت "ہم عشق میں برباد رہیں گے” بہت مقبول ہوا جسے محمد رفیع نے گایا تھا۔ مدن موہن کی اگلی کام یاب فلم "ادا” تھی جس میں لتا منگیشکر نے ان کی ترتیب دی ہوئی دھنوں پر نغمات ریکارڈ کروائے۔

    فلمی موسیقار کی حیثیت سے مدن موہن نے کئی یادگار دھنیں تخلیق کیں جنھیں آج بھی ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔ موسیقار مدن موہن چار مرتبہ فلم فیئر ایوارڈ کے لیے نام زد ہوئے اور بعد از مرگ انھیں "آئیفا ایوارڈ” سے نوازا گیا۔ پچاس کے اواخر میں‌ اپنی کام یابیوں کا آغاز کرنے والے مدن موہن نے اگلی تین دہائیوں میں بطور موسیقار اپنا عروج دیکھا۔

    مدن موہن کے چند مشہور اور یادگار فلمی گیتوں میں‌ نیناں برسیں رِم جھم رم جھم…، آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل کے مجھے، لگ جا گلے کہ پھر یہ حسین رات ہو نہ ہو…، وہ بھولی داستاں لو پھر یاد آگئی، یوں حسرتوں کے داغ جگر میں سمو لیے شامل ہیں۔

  • پاکستانی فلمی صنعت کے معروف موسیقار اے حمید کا تذکرہ

    پاکستانی فلمی صنعت کے معروف موسیقار اے حمید کا تذکرہ

    پاکستانی فلم انڈسٹری کے معروف موسیقار اے حمید 20 مئی 1991ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ موسیقار کی حیثیت سے اے حمید کی شہرت کا آغاز فلم سہیلی سے ہوا تھا جس کے ہدایت کار ایس ایم یوسف تھے۔

    فلم انجام کے طفیل اے حمید پہلی مرتبہ انڈسٹری میں متعارف ہوئے تھے اور سہیلی کی کام یابی کے بعد بطور موسیقار انھوں نے کئی لازوال دھنیں تخلیق کیں اور ان فلموں کے گیت مقبول ہوئے۔

    اے حمید کا پورا نام شیخ عبدُالحمید تھا۔ وہ 1924ء میں امرتسر میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد شیخ محمد منیر موسیقی کا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے اور انھوں نے دو فلموں کی موسیقی بھی ترتیب دی تھی۔ یوں اے حمید میں بھی سُر ساز، موسیقی اور گائیکی کا شوق پیدا ہوا۔ والد کی وجہ سے فلم نگری کا راستہ تو دیکھ ہی چکے تھے اور جب اس فن میں اپنی صلاحتیوں کو آزمانے کا موقع ملا تو اے حمید نے خود کو ثابت کر دکھایا۔ اوّلین فلموں کے بعد اے حمید نے کام یاب موسیقار کی حیثیت سے رات کے راہی، اولاد، آشیانہ، شریکِ حیات، پیغام، دوستی، جواب دو، ثریا بھوپالی، انگارے، بیگم جان اور نیا انداز کی موسیقی ترتیب دی۔ اے حمید کو بہترین موسیقار کا نگار ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔ یہ ایوارڈ انھیں "چٹھی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دے” جیسے خوب صورت اور مقبول عام گیت کی دھن تخلیق کرنے پر دیا گیا تھا۔ پاکستانی فلموں کے کئی مقبول گیتوں میں "ہم بھول گئے ہر بات مگر تیرا پیار نہیں بھولے، کہیں دو دل جو مل جاتے بگڑتا کیا زمانے کا، تھا یقیں کہ آئیں گی یہ راتاں کبھی، کس نام سے پکاروں کیا نام ہے تمہارا، یہ وادیاں یہ پربتوں کی شاہ زادیاں” بھی شامل ہیں جن کی دھنیں اے حمید نے بنائی تھیں۔

    پاکستان فلم انڈسٹری کے اس معروف موسیقار نے اردو کے علاوہ پنجابی زبان میں بننے والی فلموں کی موسیقی بھی ترتیب دی۔ موسیقار اے حمید راولپنڈی کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔

  • امجد بوبی:‌ پاکستانی فلمی دنیا کا جدّت پسند اور بے مثال موسیقار

    امجد بوبی:‌ پاکستانی فلمی دنیا کا جدّت پسند اور بے مثال موسیقار

    پاکستان میں فلمی موسیقاروں کی فہرست میں اکثر ناموں کی وجہِ شہرت وہ دھنیں‌ ہیں جو گیتوں کو سدا بہار اور لازوال بنا گئے، اور ملک اور بیرونِ ملک بھی مقبول ہوئے، لیکن ان موسیقاروں میں امجد بوبی بے مثال اور منفرد فن کار تھے۔ اس کی وجہ موسیقی کے فن میں ان کے نت نئے تجربات اور جدّت پسندی ہے۔

    امجد بوبی کا تعلق ایک فن کار گھرانے سے تھا۔ وہ رشید عطرے جیسے عظیم موسیقار کے بھانجے تھے۔ موسیقار وجاہت عطرے ان کے ماموں زاد بھائی تھے، موسیقار صفدر حسین اور ذوالفقار علی اور گلوکار منیر حسین بھی ان کے قریبی عزیز تھے۔ ان کے والد غلام حسین خان بھی کلاسیکی گائیک تھے، لیکن خود کو ایک بڑا موسیقار منوانے کے لیے امجد بوبی کو خاصی محنت کرنا پڑی تھی۔

    فلمی تذکروں کے مطابق بہ طور موسیقار ان کی پہلی فلم راجا جانی تھی جس کی نمائش 1976 میں ہوئی۔ اس کے گیت بہت پسند کیے گئے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ امجد بوبی کی پہلی فلم اک نگینہ (1969ء) تھی۔ اس میں احمد رشدی کے گائے ہوئے دو گیتوں "مل گئی، مل گئی ہم کو پیار کی یہ منزل۔” اور "دل نہیں تو کوئی شیشہ، کوئی پتّھر ہی ملے۔” کے علاوہ آئرن پروین کا گایا ہوا گیت "ساری سکھیوں کے بلم گورے، میرا بلم کالا۔” بڑے خوب صورت گیت تھے۔ اسی سال فلم میری بھابھی پردے پر سجی اور کے گیت بھی اچھّے تھے۔ لیکن کوئی گیت سپرہٹ ثابت نہیں‌ ہوا اور امجد بوبی اپنی پہچان کروانے میں بھی ناکام رہے۔

    اسّی کی دہائی میں موسیقار کے طور پر امجد بوبی نے شہرت پائی اور اپنے فن کا عروج دیکھا۔ فلم نقشِ قدم (1979) میں گلوکار اے نیّر کی آواز میں "کرتا رہوں گا یاد تجھے میں، یونہی صبح و شام، مٹ نہ سکے گا میرے دل سے بینا تیرا نام” وہ گیت تھا جو سپر ہٹ ثابت ہوا۔

    امجد بوبی نے اس دور میں‌ پاکستانی فلموں کے گیتوں کی ریکارڈنگ بمبئی میں کروائی اور یہ سلسلہ انھیں پاکستانی موسیقاروں میں‌ ممتاز کرگیا۔ انھوں نے جاوید شیخ کی فلم ’یہ دل آپ کا ہوا‘ کے لیے بھارتی گلوکار سونو نگم اور کویتا کرشنا مورتی سے گانے گوائے تھے۔ اس طرح‌ امجد بوبی نے پاکستان فلم انڈسٹری میں ایک نئے رجحان کو فروغ دیا۔ ان کی بدولت پاکستان کی فلمی دنیا میں کئی مدھر اور رسیلے گیتوں کے ساتھ آوازوں‌ کا اضافہ بھی ہوا۔

    پاکستانی موسیقار امجد بوبی 2005ء میں آج ہی کے دن انتقال کرگئے تھے۔ وہ امرتسر میں 1942 میں پیدا ہوئے تھے۔ امجد بوبی نے گھونگھٹ، پرورش، کبھی الوداع نہ کہنا، نادیہ، روبی، نزدیکیاں، سنگم، چیف صاحب، گھر کب آوٴ گے، یہ دل آپ کا ہوا جیسی فلموں کے لیے لازوال دھنیں تخلیق کی تھیں۔

  • نثار بزمی: فلمی گیتوں کو نئی جہت بخشنے والا موسیقار

    نثار بزمی: فلمی گیتوں کو نئی جہت بخشنے والا موسیقار

    نثار بزمی نے پاکستانی فلم انڈسٹری کے لیے کئی مدھر اور لازوال دھنیں تخلیق کیں اور ان کی موسیقی میں فلمی گیت پاکستان ہی نہیں سرحد پار بھی مقبول ہوئے۔وہ اعلیٰ پائے کے موسیقار تھے۔ نثار بزمی 1997ء میں آج ہی کے دن انتقال کرگئے تھے۔

    پاکستانی فلم انڈسٹری کے صفِ اوّل کے موسیقار کی حیثیت سے یاد کیے جانے والے نثار بزمی نے دسمبر 1924ء کو صوبہ مہاراشٹر کے ضلع خان دیش کے ایک گاؤں میں آنکھ کھولی۔ ان کا اصل نام سید نثار احمد تھا۔ وہ بچپن ہی سے موسیقی سے شغف رکھتے تھے۔ والد نے ان کا شوق اور موسیقی سے رغبت دیکھتے ہوئے انھیں استاد امان علی خان کے پاس بمبئی بھیج دیا۔ نثار بزمی نے ان سے موسیقی کے اسرار و رموز سیکھے اور بعد میں آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہوگئے۔

    آل انڈیا ریڈیو میں چند سال میوزک کمپوزر کی حیثیت سے کام کرنے والے نثار بزمی نے 1946ء میں فلمی دنیا سے ناتا جوڑا۔ ان کی پہلی ‘جمنا پار’ تھی۔ تقسیمِ ہند سے قبل پندرہ برس تک نثار بزمی نے اس زمانے کی ہندوستانی فلمی صنعت کے لیے بطور موسیقار کام کیا اور بعد میں پاکستان آگئے۔ یہاں اس دور کے کئی بڑے اور باکمال موسیقار اور گلوکار پہلے ہی موجود تھے اور فلمی صنعت میں ان کے درمیان جگہ بنانا آسان نہ تھا۔ لیکن نثار بزمی نے موسیقی کی دنیا میں اپنے منفرد انداز سے فلم سازوں اپنی جانب متوجہ کرلیا اور انھیں فلمیں ملنے لگیں۔ انھوں نے فضل احمد کریم فضلی کی فلم ’ایسا بھی ہوتا ہے‘ سے پاکستانی فلم انڈسٹری میں اپنا سفر شروع کیا۔ اس فلم میں نور جہاں نے نثار بزمی کی تیار کردہ دھن پر فلمی غزل "ہو تمنا اور کیا جانِ تمنا آپ ہیں” گائی تھی۔ یہ اپنے زمانے کی مقبول ترین غزل تھی جو سرحد پار بھی مقبول ہوئی۔ اس فلم کے بعد نثار بزمی نے فلم ‘لاکھوں میں ایک’ کے مشہور گیت ’چلو اچھا ہوا تم بھول گئے‘ کی دھن ترتیب دی اور یہ وہ گیت ہے جو آج بھی سماعتوں میں‌ رس گھول رہا ہے۔ ایک اور گانا ‘بڑی مشکل سے ہوا ترا میرا ساتھ پیا…’ نثار بزمی کی یاد دلاتا ہے۔ انھوں نے ‘اے بہارو گواہ رہنا، اک حسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا، رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ، آپ دل کی انجمن میں حسن بن کر آ گئے، دل دھڑکے، میں تم سے یہ کیسے کہوں، کہتی ہے میری نظر شکریہ، کاٹے نہ کٹے رتیاں، سیاں تیرے پیار میں جیسے لازوال گیتوں کی دھنیں‌ ترتیب دیں جنھیں اپنے وقت کے مشہور و معروف گلوکاروں نے گایا۔

    نثار بزمی نے طاہرہ سید، نیرہ نور، حمیراچنا اور عالمگیر جیسے گلوکاروں کو فلمی دنیا میں آواز کا جادو جگانے کا موقع فراہم دیا۔

    مختلف شاعروں کی نظموں، غزلوں اور فلمی گیتوں کی دھنیں ترتیب دینے والے نثار بزمی خود بھی شاعر تھے۔ ان کا مجموعہ کلام ’پھر سازِ صدا خاموش ہوا‘ کے نام سے شایع ہوا۔ موسیقار نثار بزمی کو حکومت نے پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا تھا۔

  • روبن گھوش کا تذکرہ جن کی دھنوں نے فلمی نغمات کو امر کر دیا

    روبن گھوش کا تذکرہ جن کی دھنوں نے فلمی نغمات کو امر کر دیا

    روبن گھوش کی بے مثال موسیقی کا سب سے نمایاں وصف جدت اور شوخ ردھم ہے۔ بلاشبہ روبن گھوش کی موسیقی میں کئی فلمی نغمات لازوال ثابت ہوئے۔ روبن گھوش 2016ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔ 1977ء میں ریلیز ہونے والی فلم آئینہ نے روبن گھوش کو ان کے کریئر کی بلندیوں پر پہنچایا تھا۔

    روبن گھوش نے 1961ء میں بنگالی فلم سے کام کا آغاز کیا اور پھر اردو فلموں کی طرف آگئے۔ اردو فلم میں بطور موسیقار روبن گھوش کا سفر 1962 میں شروع ہوا تھا۔ ’چندا‘ وہ فلم تھی جس کے لیے روبن گھوش نے موسیقی ترتیب دی۔ اس زمانے میں پاکستانی فلم انڈسٹری میں کئی بڑے نام بطور موسیقار مصروف نظر آتے تھے۔ روبن گھوش ان کے درمیان ایک نوجوان موسیقار تھے جس نے فلم انڈسٹری میں‌ قدم رکھنے کے بعد جلد ہی اپنی محنت اور لگن سے اپنا راستہ بنا لیا۔ روبن گھوش نے اپنے کیریئر کے ابتدائی عرصہ میں فلم ’تلاش‘ کے لیے جو کام کیا، اس نے سب کو حیران کر دیا تھا۔ یہ فلم 1963ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی اور روبن گھوش اس فلم کے بہترین موسیقار کا نگار ایوارڈ لے اڑے۔ روبن گھوش کی دھنیں‌ ان کی فن کارانہ چابک دستی اور فنِ موسیقی میں ان کے کمال کا نمونہ ہیں۔

    فلمی ناقدین تسلیم کرتے ہیں کہ فلم ’آئینہ‘ کو سپر ہٹ بنانے میں روبن گھوش کی لازوال دھنوں کا بڑا دخل تھا۔ اس فلم کے یہ گانے آپ نے بھی سنے ہوں گے جن کے بول تھے ’کبھی میں سوچتا ہوں،‘ اسے مہدی حسن نے گایا تھا۔ اسی طرح ’مجھے دل سے نہ بھلانا وہ گیت تھا جس میں مہدی حسن کے ساتھ گلوکارہ مہناز نے آواز ملائی تھی۔ گلوکارہ نیرہ نور کی آواز میں‌ ایک مقبول نغمہ ’روٹھے ہو تم، تم کو میں کیسے مناؤں پیا‘ بھی اس فلم میں‌ شامل تھا۔

    روبن گھوش کی موسیقی میں کئی فلمی گیت بعد میں ریڈیو پاکستان اور ٹیلی ویژن پر نشر ہوئے اور انھیں شائقین نے ہر بار سراہا۔ یہ وہ سدا بہار گیت ہیں جنھیں‌ آج بھی بڑے ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔ اور یہ نغمات ایک نسل کے لیے اپنی نوجوانی اور خوشی و غم کی مناسبت سے یادگار ہیں۔ اخلاق احمد کی آواز میں روبن گھوش کی موسیقی میں اس گیت ’سونا نہ چاندی نہ کوئی محل‘ نے سرحد پار بھی مقبولیت پائی تھی۔ آج بھی یہ نغمہ سماعتوں کو اپنا اسیر کر لیتا ہے۔

    یہ بھی درست ہے کہ پاکستان فلم انڈسٹری کو سپر ہٹ فلمیں دینے میں روبن گھوش کی لازوال موسیقی کا بڑا دخل رہا ہے۔ روبن گھوش کی موسیقی میں ’مجھے تلاش تھی جس کی‘ ، ’ساون آئے ساون جائے‘ ، ’دیکھو یہ کون آ گیا… جیسے نغمات بھی شامل ہیں جن کو پاکستان ہی نہیں بھارت میں بھی سننے والوں نے بے حد پسند کیا۔

    موسیقار روبن گھوش کے حالاتِ زندگی پر نظر ڈالیں تو ان کا تعلق عرب دنیا کے مشہور شہر بغداد(عراق) سے تھا۔ وہ 1939ء میں‌ پیدا ہوئے۔ عراق میں روبن گھوش کے والد اپنے کنبے کے ساتھ بغرضِ ملازمت سکونت پذیر تھے۔ یہ عیسائی خاندان اس وقت ڈھاکہ چلا گیا جب روبن گھوش چھے سال تھے۔ وہیں نوعمری میں‌ روبن گھوش کو موسیقی سے دل چسپی پیدا ہوئی۔ انھوں نے موسیقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی اور اسی کو اپنا پیشہ بنایا۔ ڈھاکا ہی میں‌ روبن گھوش کی ملاقات اداکارہ شبنم سے ہوئی، وہ اس وقت فلم میں‌ معمولی کردار ادا کیا کرتی تھیں۔ تقسیم ہند کے بعد مشرقی پاکستان سے شبنم نے لاہور اور کراچی میں فلمی صنعت میں اپنی قسمت آزمائی اور پھر وہ اپنے وقت کی مقبول ہیروئن بن کر سامنے آئیں۔ روبن گھوش سے رشتۂ ازدواج سے منسلک ہونے کے بعد یہاں وہ فلمی دنیا پر راج کرتی رہیں اور ان کے شوہر ایک کام یاب موسیقار کے طور پر اپنا سفر جاری رکھے ہوئے تھے۔ یہ جوڑی 1996ء میں بعض وجوہ کی بناء پر بنگلہ دیش منتقل ہو گئی۔ جب کہ سقوطِ ڈھاکا کے وقت روبن گھوش نے مشرقی پاکستان کے بجائے مغربی پاکستان میں سکونت اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور یہ خاندان کراچی سے لاہور شفٹ ہو گیا تھا۔

    روبن گھوش کا اپنے وقت کے مقبول ہیرو وحید مراد کے ساتھ ایک دل چسپ مذاق فلمی دنیا میں مشہور ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ وحید مراد بہت ہی سادہ طبیعت کے انسان تھے اور اکثر ان کے ساتھی ان سے مذاق کیا کرتے تھے۔ ان پر فلمایا جانے والا ایک مشہور نغمہ ’یوں کھو گئے تیرے پیار میں ہم‘ مجیب عالم نے گایا تھا جن کو وحید مراد نے دیکھا نہیں تھا۔ ایک فلمی تقریب میں مجیب عالم اپنی مخصوص چوڑے پائنچے کی پتلون پہنے موجود تھے تو وحید مراد انہیں دیکھے جا رہے تھے۔ موسیقار روبن گھوش نے وحید مراد سے ان کا تعارف یہ کہہ کر کروایا کہ یہ سینٹرل جیل کراچی میں پھانسیاں دیتے ہیں۔‘

    سادہ طبیعت وحید مراد مجیب عالم سے پوچھنے لگے، ’جب آپ پھانسی دیتے ہیں تو کیفیت کیا ہوتی ہے؟‘ اس دن تو وحید مراد چلے گئے مگر کچھ عرصے بعد کسی اور تقریب میں مجیب عالم کو گانا گانے کے لیے بلایا گیا تو وحید مراد نے کہا کہ ’میں مجیب عالم کو دیکھنا چاہتا ہوں جس کا گایا گانا مجھ پر فلمایا گیا ہے۔‘ جب اسٹیج پر مجیب عالم آئے تو وحید مراد کو یاد آیا کہ یہ وہ ہیں جن کا تعارف بطور جلّاد روبن گھوش ان سے کروا چکے ہیں۔ محفل کے بعد مجیب عالم سے ملاقات ہوئی تو وحید مراد نے معصومیت سے پوچھا کہ ’کیا آپ اب بھی پھانسیاں دیتے ہیں؟‘

    پاکستان میں ان کی آخری فلم ’جو ڈر گیا وہ مر گیا‘ تھا جس کی موسیقی بہت پسند کی گئی۔ انھیں چھے مرتبہ پاکستان کی فلم انڈسٹری کا سب سے معتبر نگار ایوارڈ دیا گیا تھا۔ روبن گھوش نے 76 برس کی عمر میں‌ ڈھاکہ میں وفات پائی۔

  • ماسٹر عبداللہ: جداگانہ اسلوب کا حامل موسیقار

    ماسٹر عبداللہ: جداگانہ اسلوب کا حامل موسیقار

    پاکستان کی فلمی صنعت کو جو صاحبِ طرز موسیقار ملے اور جن کی فلمی گیتوں کی دھنیں لازوال ثابت ہوئیں، ان میں‌ ماسٹر عبداللہ کا نام نمایاں‌ ہے۔ ہم عصر موسیقاروں کے مقابلے میں‌ ماسٹر عبداللہ کو فنِ‌ موسیقی میں ان کے جداگانہ انداز نے امتیازی شہرت دی۔

    آج اس لیجنڈری موسیقار کی برسی ہے۔ ماسٹر عبداللہ 31 جنوری 1994ء کو لاہور میں وفات پاگئے تھے۔

    ماسٹر عبداللہ نے انور کمال پاشا کی فلم سورج مکھی سے فلمی دنیا میں‌ قدم رکھا تھا۔ اس فلم میں او میرے گورے گورے راجہ وہ گانا تھا جو بہت مقبول ہوا۔ ماسٹر عبداللہ کی دھنوں میں خالص راگ راگنیوں کا وہ رچاؤ شامل تھا جس نے فلمی دنیا میں انھیں‌ شہرت اور مقام دیا۔ اگرچہ اس زمانے میں پنجابی فلموں کی کہانی کی کام یابی میں گیتوں‌ کا زیادہ عمل دخل نہیں سمجھا جاتا تھا، مگر ماسٹر عبداللہ نے زیادہ پنجابی فلموں کے لیے موسیقی ترتیب دی اور وہ ایسے باکمال فن کار تھے جنھیں اس میں بڑی کام یابی نصیب ہوئی۔ ان کے بڑے بھائی ماسٹر عنایت حسین بھی ایک مستند اور قابلِ احترام موسیقار تھے۔ ماسٹر عبداللہ کو بریک تھرو فلم ملنگی (1965) کے سپر ہٹ گیت "ماہی وے سانوں بھل نہ جاویں۔” سے ملا تھا۔

    پاکستان کے اس نام ور موسیقار کا فلمی کیریئر تیس سال پر محیط رہا جس میں ماسٹر عبداللہ نے 51 فلموں کے لیے دھنیں ترتیب دیں۔ ان میں‌ اردو کی چند فلمیں اور باقی پنجابی زبان میں‌ فلمیں‌ شامل تھیں۔

    ماسٹر عبداللہ کی ترتیب دی ہوئی موسیقی میں‌ فلم ٹیکسی ڈرائیور، بابل، نظام، شریف بدمعاش، بدل گیا انسان، اک سی چور، ہرفن مولا، دلیر خان، لاڈو، میدان، کمانڈو، وارث، شہنشاہ، پیار دی نشانی، رنگی، اکھ لڑی بدو بدی، کشمکش، رستم، ہیرا پتّھر، دل ماں دا، قسمت اور ضدّی کے نام سرِفہرست ہیں۔ آخرالذّکر فلم کا یہ گیت تیرے نال نال وے میں رہنا اور اسی طرح ایک اور فلم دنیا پیسے دی کا یہ گانا چل چلیے دنیا دی اوس نکرے آج بھی پنجابی سنیما کے زمانۂ عروج کی یاد تازہ کردیتے ہیں۔

    فلم انڈسٹری کو کئی بے مثال دھنیں دینے والے موسیقار ماسٹر عبداللہ نے اپنے کمالِ فن سے اس وقت کے مشہور گلوکاروں‌ کو بھی متأثر کیا اور وہ ماسٹر عبداللہ کی دھنوں‌ پر اپنی آواز ریکارڈ کروانے کے خواہش مند رہے۔ ماسٹر عبداللہ کی دھنوں پر شہنشاہِ غزل مہدی حسن، میڈم نور جہاں، مالا، تصور خانم اور دیگر بڑے گلوکاروں نے اپنی آواز کا جادو جگایا۔

    ماسٹر عبداللہ نے اعلیٰ‌ درجے کی موسیقی ترتیب دی اور فلم واہ بھئی واہ، لاڈو، ملنگی، کمانڈر، زندگی، رنگو جٹ کی شان دار کام یابی کی ایک وجہ ماسٹر عبداللہ کی موسیقی بھی تھی۔ یہ درست ہے کہ پنجابی فلمیں گیتوں کی بنیاد پر کم ہی کام یاب ہوئی ہیں، لیکن مذکورہ فلموں کے گیتوں کو بھی شائقین نے سراہا تھا۔

    فلمی صنعت نے ماسٹر عبداللہ کو نگار ایوارڈ سمیت متعدد اعزازات سے نوازا تھا۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ جب ان کا وقت گزر گیا تو فلم انڈسٹری میں کوئی ان کا ساتھ دینے والا نہ تھا اور ماسٹر عبداللہ نے بڑی مشکل سے گزر اوقات کیا اور اپنے دن پورے کرکے دنیا سے رخصت ہوگئے۔ غربت اور دمے کے مرض نے اس باکمال موسیقار کو لاچار کر دیا تھا۔

  • آر ڈی برمن: ایک بے مثال موسیقار

    آر ڈی برمن: ایک بے مثال موسیقار

    ستّر کی دہائی میں ہندوستان کی فلمی موسیقی میں آر ڈی برمن کے کمالِ فن کا شہرہ ہوا اور پھر وہ اس میدان میں ایسے موسیقار کے طور پر ابھرے جس نے اختراع اور تجربات سے اپنی فلمی موسیقی کو چار چاند لگا دیے۔ ان کے کئی گیت سپر ہٹ ثابت ہوئے اور آج بھی مداح انھیں‌ شوق سے سنتے اور آر‌ ڈی برمن کو یاد کرتے ہیں۔

    موسیقار آر ڈی برمن 4 جنوری 1994ء کو انتقال کرگئے تھے۔ فلمی موسیقار کے طور پر ان کی پہچان کا سفر 1971ء کی ایک کام یاب فلم ’کٹی پتنگ‘ سے شروع ہوا تھا۔ اس فلم میں’یہ شام مستانی مدہوش کیے جائے‘ اور ’یہ جو محبت ہے ان کا ہے کام‘ جیسے گیت شامل تھے جو بے حد مقبول ہوئے۔ ان گیتوں‌ کی موسیقی ترتیب دینے والے آر ڈی برمن کا اصل نام راہل دیو برمن تھا۔ ان کے والد بھی مشہور موسیقار تھے اور یہ فن انھیں‌ ورثے میں‌ ملا تھا۔ یہ گیت بھی آپ نے شاید سن رکھا ہو، ’’چرا لیا ہے تم نے جو دل کو…..۔‘‘ یہ سدا بہار گیت ہندوستان ہی نہیں‌ پاکستان میں‌ بھی بہت مقبول ہوا۔ ’دم مارو دم‘ اور’محبوبہ، محبوبہ‘ بچنا اے حسینو لو میں آگیا، گلابی آنکھیں جو تیری دیکھیں…. جیسے مشہور اور سپر ہٹ گانوں کی موسیقی بھی آر ڈی برمن نے ترتیب دی تھی۔ اس بھارتی موسیقار کو تین بار فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا، اور آخری مرتبہ بیسٹ میوزک ایوارڈ فلم ’’1942 اے لو اسٹوری‘‘ کے لیے دیا گیا تھا جو ان کی موت کے بعد ریلیز ہوئی تھی۔

    آر ڈی برمن کلکتہ میں‌ 27 جون 1939ء کو پیدا ہوئے تھے۔ وہ اپنے والد کے طفیل شروع ہی سے راگ راگنیوں، ساز و انداز سے مانوس ہوگئے۔ آگے چل کر اپنے والد ایس ڈی برمن کی طرح اسی فن کو بطور پیشہ اپنایا۔ والد سے موسیقی کے اسرار و رموز سیکھنے کے ساتھ آر ڈی برمن نے استاد علی اکبر خان سے سرود کی تربیت حاصل کی۔ انھیں فلمی دنیا میں پنچم دا کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔ انھیں یہ نام اداکار اشوک کمار کو موسیقی کے پانچ سُر’ سارے گا ما پا ‘ سنانے پر دیا گیا تھا۔ آر ڈی برمن نے فلمی کیریئر کا آغاز اپنے والد کے ساتھ بطور معاون موسیقار کیا تھا۔ ان کی اس وقت کی سپر ہٹ فلموں‌ میں ’’چلتی کا نام گاڑی (1958) اور کاغذ کے پھول (1959) شامل ہیں۔ بہ طور موسیقار آر ڈی برمن نے 1961ء میں فلم ’’چھوٹے نواب‘‘ سے کام شروع کر دیا تھا، لیکن شہرت حاصل کرنے کے لیے انھیں خاصا انتظار کرنا پڑا۔ انھیں بہ طور موسیقار 1965ء میں ریلیز ہونے والی فلم بھوت بنگلہ سے کچھ پہچان ضرور ملی تھی، لیکن فلم انڈسٹری میں قدم جمانے کے لیے وہ دس برس تک محنت کرتے رہے۔

    آر ڈی برمن کو 1972ء میں‌ فلم انڈسٹری میں خاصا کام ملنے لگا اور انھوں نے فلم سیتا اور گیتا، میرے جیون ساتھی، بامبے ٹو گوا جیسی کئی فلموں کے لیے موسیقی ترتیب دی۔ اسی طرح‌ آندھی، دیوار، اور خوشبو جیسی کئی کام یاب فلموں میں ان کی موسیقی میں کئی گیتوں نے شائقینِ سنیما کو دیوانہ کردیا۔ اس کے بعد آر ڈی برمن نے مشرقی اور مغربی موسیقی کے امتزاج سے دھنیں تیّار کرنے کا تجربہ کیا اور خود کو منوا لیا۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ پہلی مرتبہ ممبئی فلم انڈسٹری میں مغربی میوزک کو کلاسیکی موسیقی کے ساتھ ملا کر اپنی دھنوں سے عروج دینا ہی تھا جس نے انھیں اپنے کام میں یکتا اور بے مثال ثابت کیا۔

    فلم پیاسا کے گانے” سَر جو تیرا چکرائے” کی دھن بھی آر ڈی برمن نے ترتیب دی تھی، وہ ماؤتھ آرگن بجانے میں مہارت رکھتے تھے اور گانا "ہے اپنا دل تو آوارہ” میں وہ اپنے مداحوں کے سامنے اس ساز کو بجاتے ہوئے نظر آئے۔

    آر ڈی برمن کا کئی گلوکاروں کے ساتھ کام کیا اور کئی سدا بہار گیت تخلیق کیے، لیکن آشا بھوسلے نے فلمی گائیکی کے لیے آر ڈی برمن کی دھنوں پر ہی ان کا ساتھ نہیں دیا، بلکہ شریکِ حیات کے طور پر بھی ان کی زندگی میں‌ قدم رکھا۔ آر ڈی برمن کی پہلی بیوی ان سے علیحدگی اختیار کرچکی تھیں۔ پنچم دا ذاتی زندگی میں بھی بہت رومانوی ہیں۔ اپنی پہلی بیوی سے علیحدگی کے بعد وہ چھے سال بڑی آشا بھوسلے کو پسند کرنے لگے۔ لیکن والدہ ان کی اس شادی کے لیے راضی نہ ہوئیں۔ اسی دوران آر ڈی برمن کے والد کا انتقال ہوگیا۔ ان کی والدہ اپنے شوہر کی موت کی وجہ سے ذہنی پریشانی کا شکار ہونے کے بعد اپنی یادداشت کھو بیٹھیں۔ اور جب دیکھا کہ والدہ کی صحت بہتر نہیں ہو رہی ہے تو آر ڈی برمن نے آشا بھوسلے سے شادی کر لی۔

    1985ء اور بعد کے برسوں‌ میں‌ آر ڈی برمن کی جگہ فلم سازوں اور ہدایت کاروں نے نئے موسیقاروں کو خوش آمدید کہا اور تب آر ڈی برمن کا چار دہائی سے زیادہ عرصہ پر محیط فلمی کیریئر سمٹتا چلا گیا۔ انھوں‌ نے تین سو سے زائد ہندی فلموں کے لیے موسیقی ترتیب دی جب کہ بنگلہ، تیلگو اور مراٹھی فلموں کے لیے بھی گیتوں کی دھنیں بنائیں۔

  • ایس ڈی برمن: ایک عظیم سنگیت کار

    ایس ڈی برمن: ایک عظیم سنگیت کار

    سچن دیو برمن کو ہندوستانی فلم انڈسٹری میں‌ ایس ڈی برمن کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ وہ اپنے وقت کے ایک عظیم سنگیت کار تھے۔ 31 اکتوبر 1975ء کو ایس ڈی برمن نے اس جہانِ فانی کو خیرباد کہا تھا۔

    فلمی گیتوں کو اپنی بے مثال دھنوں سے امر کردینے والے ایس ڈی برمن نے کئی فلموں کی کام یابی میں اپنا حصّہ ڈالا اور بہت سے بڑے شعراء اور گلوکاروں‌ کی مقبولیت کا باعث انہی کی دھنیں بنیں۔ اس موسیقار کی دھنوں میں کئی گیت آج بھی مقبول ہیں۔ ایس ڈی برمن کو بھارتی فلمی صنعت کا اہم ستون بھی سمجھا جاتا ہے۔ موسیقار ایس ڈی برمن کا تعلق بنگال سے تھا۔ یکم اکتوبر 1906ء کو پیدا ہونے والے ایس ڈی برمن تری پورہ کے شاہی خاندان کے رکن تھے۔ انھوں نے 1937ء میں بنگالی فلموں سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور مجموعی طور پر 100 ہندی اور بنگالی فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔

    ایس ڈی برمن ایک ورسٹائل موسیقار مشہور تھے۔ انھوں نے بنگالی لوک موسیقی میں کئی گیت بھی گائے۔ ان کی دھنوں‌ پر لتا منگیشکر، محمد رفیع، گیتا دت، منّا ڈے، کشور کمار، آشا بھوسلے، شمشاد بیگم، مکیش اور طلعت محمود جیسے گلوکاروں نے اپنی آواز کا جادو جگایا اور خوب شہرت حاصل کی۔

    میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد کومیلا کے وکٹوریہ کالج سے 1924ء میں بی اے کیا اور اس کے بعد 1925ء سے 1930ء تک موسیقار کے سی ڈے سے تربیت حاصل کرتے رہے۔ انھوں نے بعد میں بشما دیو، خلیفہ بادل خان اور استاد علاءُ الدین خان سے بھی راہ نمائی حاصل کی۔ ایس ڈی برمن نے 1920ء کی دہائی کے آخر میں کلکتہ ریڈیو اسٹیشن پر گلوکار کی حیثیت سے کام کیا اور ان کا ریکارڈ 1932ء میں ریلیز ہوا۔ بعد کی دہائی میں وہ گلوکار کی حیثیت سے پہچانے گئے اور بنگالی گانے گائے۔

    40 ء کی دہائی میں ایس ڈی برمن نے بنگالی فلموں کے لیے میوزک دیا اور مستقل طور پر ممبئی چلے گئے اور موسیقی پر توجہ دینے لگے لیکن حقیقی معنوں میں 1947ء میں ان کی شہرت کا وہ سفر شروع ہوا جب فلم ’’دو بھائی‘‘ کا یہ گیت ہر زبان پر تھا، ’’میرا سندر سپنا بیت گیا‘‘۔ اس کے بعد انھوں نے فلم ’’شبنم‘‘ کی موسیقی ترتیب دی۔ ان کے چند یادگار گیتوں میں کھویا کھویا چاند ہے، دیوانہ مستانہ ہوا دل، آج پھر جینے کی تمنا ہے شامل ہیں-

    ایس ڈی برمن کے بیٹے آر ڈی برمن کو بھی دنیائے موسیقی میں بے پناہ شہرت اور مقبولیت ملی۔ ایس ڈی برمن 69 برس کی عمر میں ممبئی میں چل بسے تھے۔

  • یاد نگاری: مایہ ناز موسیقار خواجہ خورشید انور

    یاد نگاری: مایہ ناز موسیقار خواجہ خورشید انور

    پاکستان اور ہندوستان میں موسیقی، گلوکاری اور فلم بینی کا شوق رکھنے والے خواجہ خورشید انور کے نام اور مقام و مرتبے سے بھی واقف ہیں۔ موسیقار کی حیثیت سے خواجہ خورشید انور نے کئی شعرا کے تحریر گیتوں کو لافانی اور یادگار بنایا۔ یہ نغمات آج بھی بڑے ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں‌۔

    آج برصغیر کے عظیم موسیقار خواجہ خورشید انور کی برسی ہے۔ خواجہ خورشید فنونِ لطیفہ کے بڑے شائق تھے اور ادب سے بہت لگاؤ تھا۔ فلسفہ وہ مضمون تھا جس میں خواجہ صاحب نے ایم اے کرنے کے بعد 1936ء میں انڈین سول سروس کا تحریری امتحان دیا اور شان دار کام یابی حاصل کی، مگر انگریز سرکار کے ملازم نہیں بن سکے بلکہ انھیں قیدی بننا پڑا، کیوں کہ اُس وقت خواجہ صاحب ہندوستان کی انقلابی تنظیم کے رکن بھی تھے۔ یہ ان کے کالج کے ابتدائی زمانے کی بات ہے جب انقلابی تنظیم کے راہ نما بھگت سنگھ اور ان کے دو ساتھیوں کو لاہور کی جیل میں پھانسی کی سزا پر عمل درآمد کا انتظار تھا اور خواجہ صاحب بھی تنظیم کا رکن ہونے کی وجہ سے جیل بھیجے گئے، لیکن جلد ہی رہائی مل گئی، تاہم انھیں انڈین سول سروس میں جگہ نہیں دی گئی۔

    خواجہ خورشید انور موسیقار ہی نہیں ایک کام یاب تمثیل نگار، اور ہدایت کار بھی تھے۔ اگر ان چند گیتوں کی بات کی جائے جو آج بھی مقبول ہیں تو ان میں مہدی حسن کی آواز میں ’مجھ کو آواز دے تو کہاں ہے‘، نور جہاں کا گایا ہوا نغمہ ’دل کا دیا جلایا‘، ’رم جھم رم جھم پڑے پھوار‘ اور کئی دوسرے گیت شامل ہیں۔

    30 اکتوبر 1984ء کو وفات پانے والے خواجہ خورشید انور نے 21 مارچ 1912 میں پنجاب کے مشہور شہر میانوالی میں آنکھ کھولی تھی۔ اُن کے والد خواجہ فیروز الدین ایک مشہور وکیل تھے۔ خواجہ صاحب نے بھی اعلیٰ‌ تعلیمی مدارج طے کیے اور فن کی دنیا میں ان کی باقاعدہ تربیت استاد توکل حسین خان صاحب نے کی۔

    موسیقار خواجہ خورشید انور کے فنی سفر کا آغاز 1939 میں آل انڈیا ریڈیو لاہور سے ہوا، لیکن ان کی ترتیب دی ہوئی موسیقی میں پہلی فلم 1941 میں اس وقت کے بمبئی سے ریلیز ہوئی تھی۔ 1953 میں خواجہ صاحب بمبئی سے لاہور منتقل ہوگئے اور مجموعی طور پر اٹھارہ فلموں کی موسیقی ترتیب دی جن میں انتظار، ہیر رانجھا اور کویل جیسی کام یاب فلمیں شامل ہیں۔ خواجہ خورشید انور نے بطور ہدایت کار ہمراز، چنگاری اور گھونگھٹ جیسی فلمیں بنائیں اور ان کی موسیقی بھی ترتیب دی۔

    1955ء میں فلم انتظار کے لیے انھیں بہترین موسیقار اور بہترین فلم ساز کے صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ فلمی دنیا نے انھیں نگار ایوارڈ دیا اور پھر حکومت پاکستان کی جانب سے ستارۂ امتیاز کے حق دار ٹھہرے۔

    موسیقار وزیر افضل خواجہ صاحب کے باقاعدہ شاگرد تھے اور ان کے کام میں خواجہ صاحب کے فن اور تربیت کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ وزیر افضل (مرحوم) کہتے تھے کہ خواجہ صاحب سے زیادہ مشرقی کلاسیکی موسیقی کا ادراک شاید ہی کسی اور فلمی موسیقار کو ہو۔

  • استاد جھنڈے خان: ایک بے مثل نغمہ کار

    استاد جھنڈے خان: ایک بے مثل نغمہ کار

    جھنڈے خان برصغیر کے استاد موسیقار تھے جن کی خوب صورت بندشیں اور مدھر دھنیں ان کی لازوال فنی اختراع ہیں۔ انھوں نے تھیٹر اور اسٹیج ڈراموں کے عروج کے زمانے میں بڑا نام پایا جب شائقین کی پسندیدگی کے پیشِ نظر ڈراموں میں کلاسیکی موسیقی اور گانے زیادہ سے زیادہ شامل کیے جاتے تھے۔ موسیقار جھنڈے خان 1952ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔

    جھنڈے خان کا اصل نام میاں غلام مصطفٰی تھا۔ وہ 1866ء میں جمّوں کے ایک گاؤں کوٹلی اوکھلاں میں پیدا ہوئے تھے۔ موسیقی کا شوق ایسا تھا کہ اس فن کو باقاعدہ سیکھنے کی خاطر انھوں نے ہندوستان کے طول و عرض میں سفر کیا۔ بعد میں بمبئی سکونت اختیار کی جہاں اس زمانے میں موسیقی کے بھنڈی بازار گھرانے کے باکمال فن کاروں چھجو خان، نذیر خان اور خادم حسین خان کی صحبت میں رہے اور ان سے اکتساب کیا۔ وہ ہندوستان کی مشہور تھیٹریکل کمپنیوں سے وابستہ رہے اور ان کے لیے شان دار دھنیں ترتیب دیں اور موسیقی کی دنیا میں اپنے فن کی بدولت بڑا نام پایا۔ بعد میں ناطق فلموں کا سلسلہ شروع ہوا تو تھیٹر کی رونقیں ماند پڑنے لگیں، تب استاد جھنڈے خان کو 30 سے زیادہ فلموں کی موسیقی ترتیب دینے کا موقع ملا۔ ’’چتر لیکھا‘‘ وہ فلم تھی جسے استاد جھنڈے خان کی فنی عظمت کی یادگار کہا جاتا ہے جس میں انھوں نے تمام دھنیں ایک ہی راگ (بھیرویں) میں ترتیب دی تھیں۔ ماہر موسیقار ان کے فن و اختراع کے معترف ہوگئے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ سُر ایک ہی تھے لیکن ان کا زیر و بم اپنے تنوع کے باعث یہ محسوس ہی نہیں ہونے دیتا تھا کہ کوئی ایک ہی راگ سماعت کر رہا ہے۔

    تقسیمِ ہند کے بعد اس عظیم موسیقار نے پاکستان کے شہر گوجرانوالہ ہجرت کی اور یہیں وفات پائی۔ استاد جھنڈے خان کو رجحان ساز اور اختراع کار کہا جاتا ہے۔ وہ منکسر المزاج، سیدھے سادے انسان تھے جن کا اوڑھنا بچھونا موسیقی تھی۔ انھیں موسیقی سے لگاؤ اور اس فن میں مہارت یوں حاصل ہوئی کہ فقیر منش جھنڈے خان اکثر درگاہوں اور مزاروں پر قوالیاں سننے جاتے تھے۔ یہی شوق انھیں موسیقی سیکھنے کی طرف لے آیا۔ مزارات اور درگاہوں پر وقت گزارتے ہوئے جھنڈے خان کچھ گانے بجانے کی مشق کرچکے تھے اور پھر اس فن کی باریکیوں کو سمجھنے اور باقاعدہ موسیقی سیکھنے کا ارادہ کر کے جموں سے لاہور پہنچے جہاں ایک پارسی تھیٹریکل کمپنی کا تماشہ دیکھنے کا موقع مل گیا۔ انھیں تھیٹر اور ڈراموں میں دل چسپی پیدا ہو گئی۔ سید میر قدرت علی حیدر آبادی اس کمپنی کے موسیقی نواز تھے۔ کسی طرح جھنڈے خان ان تک پہنچ گئے اور ان کے شاگرد بن کر ہارمونیم بجانا سیکھ لیا۔ اس طرح ایک کمپنی میں انھیں باجا ماسٹر کے طور پر رکھ لیا گیا۔ جھنڈے خان نے اس ساز پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے بعد بمبئی کو اپنا ٹھکانہ بنا لیا جہاں موسیقی کے بھنڈی بازار گھرانے کے موسیقاروں چھجو خاں، استاد نظیر خاں مراد آبادی اور خادم حسین خاں سے اکتساب کیا۔ موسیقی میں مہارت ہی مختلف تھیٹریکل کمپنیوں سے ان کی وابستگی اور شہرت کی وجہ بنی تھی جس میں اپنی صلاحیت اور لگن سے جھنڈے خان نے ایسی اختراع کیں کہ شائقین میں ان کی بندشیں اور دھنیں بہت مقبول ہوئیں۔ جھنڈے خان کی خوبی یہ رہی کہ انھوں نے اپنے گانوں کے لیے معروف راگ راگنیاں منتخب کیے اور اس وقت کی روایت کے مطابق اندر سبھا یا دوسرے ڈراموں کی طرح پیچیدہ اور مشکل راگ پسند نہیں کیے۔ تالوں میں بھی عام فہم تالیں ان کو قابل فن کار ثابت کرتی ہیں۔

    استاد جھنڈے خاں نے فلموں کی موسیقی ترتیب دی تو پہلے پہل 1931ء میں دیوی دیویانی، 1932ء میں رادھا رانی، 1934 میں ویر ببرووھان، 1936ء میں پربھو کا پیار، 1943ء میں شہنشاہ اکبر جیسی فلموں کے ذریعے فلم سازوں کی توجہ حاصل کی اور شائقین سے بھی داد بٹوری۔ لیکن 1941ء میں استاد جھنڈے خاں کا بے نظیر فنی کرشمہ معروف ہدایت کار کیدار شرما کی فلم”چتر لیکھا“ تھی جس کا تذکرہ اوپر آیا ہے۔

    اردو زبان کے صاحبِ اسلوب ادیب اور موسیقار شاہد احمد دہلوی تھیٹر کے زمانۂ عروج کا ذکر کرتے ہوئے اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ”آغا حشر نظم و نثر دونوں پر پوری قدرت رکھتے تھے۔ انھوں نے جہاں دوسرے موسیقاروں سے اپنے ڈراموں کے گانوں کی دھنیں اپنی نگرانی میں بنوائیں وہاں ایک بے مثل نغمہ کار و نغمہ ساز استاد جھنڈے خاں کو بھی انھوں نے ہی تلاش کیا۔ استاد جھنڈے خاں تھیٹر کی موسیقی میں غیر فانی یادگاریں چھوڑ گئے۔“