Tag: موسیقار برسی

  • فلمی گیتوں‌ کی شوخ اور چنچل دھنیں ترتیب دینے والے مصلح الدّین

    فلمی گیتوں‌ کی شوخ اور چنچل دھنیں ترتیب دینے والے مصلح الدّین

    مصلح الدّین ایک باصلاحیت موسیقار تھے جنھوں نے پاکستان میں فلمی صنعت کے لیے کئی دھنیں ترتیب دیں اور ان کے گیت پاکستانی گلوکاروں کی آواز میں بہت مقبول ہوئے۔ آج مصلح الدّین کی برسی منائی جارہی ہے۔

    موسیقار مصلح الدّین کی پہلی فلم آدمی تھی جو 1958 میں ریلیز ہوئی جب کہ ایک فلمی میگزین کے مطابق آوارہ وہ فلم تھی جس کے لیے انھوں نے 1968 میں موسیقی ترتیب دی تھی۔ مصلح الدّین نے ناہید نیازی سے شادی کی تھی جو پاکستان کی ایک نہایت مشہور گلوکارہ ہیں اور اپنے زمانے میں کئی فلموں کے لیے ان کی آواز میں ریکارڈ ہونے والے گیت مقبول ہوئے۔ اس جوڑی نے پاکستان ٹیلی ویژن پر بھی موسیقی کا پروگرام کیا تھا جو بہت زیادہ پسند کیا گیا۔ مصلح الدّین کا تعارف فلم انڈسٹری میں قدم رکھنے کے بعد ہی ناہید نیازی سے ہوا تھا اور بعد میں وہ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوگئے تھے۔ ناہید نیازی وہ گلوکارہ تھیں‌ جنھوں نے پاکستان میں‌ فلمی صنعت کے لیے کام کے دوران 1960 سے لے کر 1970 تک بے انتہا عروج دیکھا۔

    موسیقار مصلح الدّین 7 اگست 2003 کو برطانیہ میں وفات پاگئے تھے۔ پاکستان کی تقسیم کے بعد وہ اپنے کنبے کے ساتھ برطانیہ چلے گئے تھے۔ مصلح الدّین بنگال پریذیڈنسی (بنگلہ دیش) میں پیدا ہوئے تھے اور 1956ء میں پاکستان آئے تھے۔ ان کا سنہ پیدائش 1932 ہے۔ مصلح الدّین ایک تعلیم یافتہ شخص تھے اور ڈھاکا یونیورسٹی سے ایم اے کرنے کے بعد پاکستان میں انھوں لاہور کو اپنا مستقر ٹھیرایا تھا۔ یہاں وہ فلمی صنعت سے بطور موسیقار وابستہ ہوئے۔ چند سال بعد پاکستان دو لخت ہوگیا اور انھوں نے بنگلہ دیش یا پاکستان میں رہنے کے بجائے برطانیہ جانے کا فیصلہ کیا۔ لاہور میں مصلح الدّین کی ملاقات ہدایت کار لقمان سے ہوئی اور مصلح الدّین کی بنائی ہوئی دھنیں سن کر انھوں نے اپنی فلم ’’آدمی‘‘ کی موسیقی ترتیب دینے کی پیشکش کردی۔ یوں مصلح الدّین کا فلم انڈسٹری میں بطور موسیقار یہ پہلا قدم تھا۔ یہ فلم کام یاب رہی اور مصلح الدّین نے دیگر فلم سازوں کو بھی اپنے کام کی وجہ سے اپنی جانب متوجہ کرلیا۔ اس کے بعد انھیں فلم راہ گزر، ہم سفر، زمانہ کیا کہے گا، دال میں کالا، دل نے تجھے مان لیا، جوکر، جوش، جان پہچان کی موسیقی ترتیب دینے کا موقع ملا اور ان کی کام یابی کا سفر جاری رہا۔

    ہم سفر وہ فلم تھی جس کے لیے مصلح الدّین نے بہترین موسیقار کا نگار ایوارڈ بھی حاصل کیا۔ مصلح الدّین ایک باصلاحیت فن کار تھے اور ایسے موسیقار جس نے اپنے شعبے میں تجربات اور غیرملکی موسیقی کی آمیزش کرکے اسے زیادہ پُراثر بنانے کی کوشش کی۔انھوں نے مغربی اور عربی موسیقی سے خوب استفادہ کیا، لیکن ان میں بنگالی طرز کی چاشنی شامل کر کے اسے زیادہ منفرد اور سحر انگیز بنایا۔ اسے ماہر موسیقار اور ناقدین مصلح الدّین کی مہارت اور اپنے فن میں‌ ان کا کمال کہتے ہیں۔

    پاکستانی موسیقار مصلح الدّین کی موسیقی میں جو گیت مقبول ہوئے ان میں ایک گیت کے بول ہیں، زندگی میں ایک پل بھی چین آئے نہ، اس جہاں میں کاش کوئی دل لگائے نہ….، اس طرح بل کھاتی ہوئی، لہراتی ہوئی، چلی رے چلی رے، دل چھین کے… بھی مشہور گیت ہے۔ مصلح الدّین، عام طور شوخ اور چنچل دھنوں کو پسند کرتے تھے۔ دو معروف بھارتی گلوکاروں آشا بھونسلے اور ہیمنت کمار سے بھی انھوں نے اپنے گیت گوائے تھے۔

  • مدن موہن: ایک عظیم موسیقار

    مدن موہن: ایک عظیم موسیقار

    مدن موہن کو برصغیر میں ایک ایسے موسیقار کی حیثیت سے شہرت ملی جن کا ہر گیت یادگار ثابت ہوا اور انھوں نے اپنے فنی سفر میں‌ بڑا نام و مرتبہ پایا۔ وہ بالی وڈ کے عظیم موسیقار کہلائے۔ فلمی موسیقی کے حوالے سے آج بھی ان کا نام بڑے احترام سے لیا جاتا ہے۔ مدن موہن 1975ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔

    مدن موہن کا وطن عراق تھا جہاں انھوں نے 25 جون 1924ء کو آنکھ کھولی۔ ان کے والد یہاں‌ سرکاری ملازمت کے سلسلے میں‌ مقیم تھے۔ وہ عراق میں‌ ایک محکمہ میں اکاؤنٹنٹ جنرل کی حیثیت سے کام کررہے تھے۔ ان کا نام رائے بہادر چنی لال کوہلی تھا۔ وہ اپنی ملازمت چھوڑ کر آبائی شہر چکوال آگئے جو اب پاکستان کا حصّہ ہے۔ چکوال کے موتی بازار میں مدن موہن کے دادا کا بڑا گھر تھا اور کہتے ہیں‌ کہ وہ اپنے وقت کے ایک جانے مانے حکیم تھے۔ ان کی وجہ سے یہ گھر علاقے میں یوگ آشرم مشہور ہوگیا تھا۔ چنی لال آبائی علاقے میں لوٹنے کے کچھ عرصہ بعد کاروبار کی غرض سے ممبئی چلے گئےاور مدن موہن کو چکوال میں‌ ان کے دادا کے پاس چھوڑ دیا۔ مدن موہن نے لاہور میں‌ ابتدائی تعلیم حاصل کرتے ہوئے کلاسیکی موسیقی کی تھوڑی بہت تربیت بھی حاصل کی۔ لیکن باقاعدہ یہ فن کسی سے نہیں‌ سیکھا۔ پھر یہ گھرانا ممبئی منتقل ہوگیا اور وہاں‌ مدن موہن نے سینٹ میری اسکول میں داخلہ لیا۔ اس کے ساتھ وہ ریڈیو پر موسیقی اور بچّوں‌ کے پروگراموں میں‌ جانے لگے اور وہیں ان کا فنِ موسیقی کا شوق صحیح معنوں میں‌ پروان چڑھا۔ ممبئی شہر اپنی فلمی صنعت اور نگار خانوں کے لیے شہرت رکھتا تھا اور اس زمانے میں وہاں‌ فلم ساز، اداکار اور بڑے بڑے موسیقار مصروف نظر آتے تھے۔ ریڈیو پر بھی کئی بڑے گلوکار اور موسیقار اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے، لیکن ابھی وہ وقت نہیں آیا تھا کہ مدن موہن یہاں اپنا شوق پورا کرتے۔ انھیں برٹش آرمی میں کمیشن مل گیا لیکن دوسری جنگِ‌ عظیم کے بعد وہ نوکری چھوڑ کر ریڈیو سے پروگرام اسسٹنٹ کے طور پر منسلک ہوگئے۔ وہ اپنے موسیقی کے شوق کی تکمیل اور اس فن میں اپنی صلاحیتوں‌ کا اظہار کرنا چاہتے تھے۔ کہتے ہیں کہ مدن موہن کی والدہ شاعری اور موسیقی کا عمدہ ذوق رکھتی تھیں اور مدن موہن کو بھی انہی کو دیکھ کر یہ شوق ہوا تھا۔

    آل انڈیا ریڈیو پر ان کی شناسائی جن عظیم موسیقاروں اور بڑے گلوکاروں سے ہوئی ان میں استاد فیاض علی، استاد علی اکبر خان، بیگم اختر، طلعت محمود کے نام شامل ہیں مدن موہن گلوکاری کے بڑے شوقین تھے اور چند مشہور شعرا کا کلام گانے کے بعد انھوں نے بطور موسیقار فلم انڈسٹری کے لیے کام شروع کردیا۔ 1948ء میں انھوں نے فلم شہید کے لیے گانا ریکارڈ کروایا جو بہت مقبول ہوا اور اس کے بعد ایک فلم بطور معاون موسیقار کی۔

    بالی وڈ میں‌ مدن موہن کو پہلی قابلِ ذکر کام یابی 1950ء میں ملی جب انھوں نے فلم "آنکھیں” کی موسیقی ترتیب دی۔ اس فلم نے انھیں انڈسٹری میں نام دیا۔ اس زمانے میں لتا اور محمد رفیع جیسے گلوکاروں کا ہر طرف شہرہ تھا اور مذکورہ فلم کا گیت "ہم عشق میں برباد رہیں گے” بہت مقبول ہوا جسے محمد رفیع نے گایا تھا۔ مدن موہن کی اگلی کام یاب فلم "ادا” تھی جس میں لتا منگیشکر نے ان کی ترتیب دی ہوئی دھنوں پر نغمات ریکارڈ کروائے۔

    فلم کے موسیقار کی حیثیت سے مدن موہن نے کئی یادگار دھنیں تخلیق کیں جنھیں آج بھی ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔ موسیقار مدن موہن چار مرتبہ فلم فیئر ایوارڈ کے لیے نام زد ہوئے اور بعد از مرگ انھیں "آئیفا ایوارڈ” سے نوازا گیا۔ پچاس کے اواخر میں‌ اپنی کام یابیوں کا آغاز کرنے والے مدن موہن نے اگلی تین دہائیوں میں بطور موسیقار اپنا عروج دیکھا۔

    یہ وہ چند یادگار فلمی گیت ہیں جن کی موسیقی مدن موہن نے ترتیب دی تھی۔

    نیناں برسیں رِم جھم رم جھم…
    آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل کے مجھے
    لگ جا گلے کہ پھر یہ حسین رات ہو نہ ہو…
    وہ بھولی داستاں لو پھر یاد آگئی
    یوں حسرتوں کے داغ جگر میں سمو لیے…

  • فلمی موسیقار جی اے چشتی کی برسی

    جی اے چشتی پاکستان کے نام وَر فلمی موسیقار تھے جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ 25 دسمبر 1994ء کو وفات پانے والے جی اے چشتی تقسیم سے قبل ہندوستان میں کام یاب فلمی کیریئر کا آغاز کرچکے تھے۔

    غلام احمد چشتی کو انڈسٹری میں بابا چشتی کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ انھوں‌ نے 1905ء میں جالندھر میں آنکھ کھولی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب برطانوی راج کے خلاف سیاسی تحریکوں کے ساتھ ہندوستان میں آرٹ اور کلچر کی دنیا میں بھی نئے افکار، رجحانات کے علاوہ ٹیکنالوجی بھی داخل ہورہی تھی اور مقامی فلم ساز اس کا فائدہ اٹھا رہے تھے۔ جی اے چشتی نے بھی کلکتہ اور ممبئی کے فلمی مراکز کو اپنی جانب متوجہ کیا۔

    موسیقار جی اے چشتی شاعر بھی تھے۔ کئی فلموں میں سحر انگیز دھنیں مرتب کرنے والے جی اے چشتی نے دلوں کو موہ لینے والے گیت بھی لکھے۔ کہتے ہیں انھیں بچپن ہی سے نعتیں پڑھنے کا شوق تھا۔ آواز سریلی تھی اور دینی محافل میں انھیں خوب ذوق و شوق سے سنا جاتا تھا جس نے انھیں موسیقی اور شاعری کی طرف مائل کیا۔ کچھ شعور آیا تو جی اے چشتی موسیقار سیتا رام کے شاگرد ہو گئے۔ اسی دوران موسیقار عاشق علی خان سے لاہور میں ملاقات ہوئی اور ان کے طفیل آغا حشر کاشمیری کے ڈراموں کے لیے موسیقی ترتیب دینے والے گروپ کا حصّہ بنے۔ بعد میں لاہور کی گراموفون کمپنی میں مشہور موسیقار استاد جھنڈے خان کے معاون ہو گئے اور پھر فلم نگری تک پہنچے۔

    جی۔ اے چشتی نے ابتدا میں جن پنجابی فلموں میں موسیقی دی ان میں ’’چمبے دی کلی‘‘ اور ’’پردیسی ڈھولا‘‘ قابلِ ذکر تھیں۔ بعد میں کئی اردو فلموں کے لیے بھی دھنیں کمپوز کیں۔ کلکتہ میں فلم ’’شکریہ‘‘ کی موسیقی اور شاعری کے سبب جی اے چشتی کو ہندوستان میں بہت سراہا گیا تھا۔ لیکن 1947ء میں وہ فسادات کے سبب وہاں سے ہجرت کر گئے تھے۔

    بابا چشتی نے اپنا فنی سفر آغا حشر کاشمیری کے تھیٹر سے شروع کیا۔ بعد میں وہ ریکارڈنگ کمپنی سے منسلک ہوئے تھے، لیکن بہ طور موسیقار ان کی پہلی فلم ‘دنیا’ تھی جو 1936ء میں لاہور میں بنی تھی۔ بابا چشتی نے کچھ وقت کلکتہ اور بمبئی کی فلم نگری میں بھی گزارا۔ 1949ء میں پاکستان آنے کے بعد یہاں فلموں کی موسیقی ترتیب دی اور خوب نام کمایا۔ ہجرت کے بعد بابا چشتی نے فلمی صنعت میں ‘شاہدہ’ نامی فلم سے یہاں اپنے کام کا آغاز کیا تھا۔ اس فلم کے علاوہ مجموعی طور پر انھوں نے 152 فلموں کی موسیقی ترتیب دی اور ہزاروں نغمات کی دھنیں‌ تخلیق کیں۔

    بابا چشتی کی مشہور فلموں میں پھیرے، مندری، لارے، گھبرو، دلا بھٹی، لختِ جگر، مٹی دیاں مورتاں، عجب خان اور چن تارا کے نام شامل ہیں۔ ان کی موسیقی میں ملکۂ ترنم نور جہاں، زبیدہ خانم، سلیم رضا، نسیم بیگم، نذیر بیگم، مالا، مسعود رانا اور پرویز مہدی جیسے گلوکاروں‌ نے فلمی صنعت کے لیے نغمات ریکارڈ کروائے جو بہت مقبول ہوئے اور ان فن کاروں کی شہرت کا سبب بنے۔

    جی اے چشتی کو لاہور کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • چھے نگار ایوارڈ موسیقار کمال احمد کے کمالِ فن کا اعتراف ہیں!

    چھے نگار ایوارڈ موسیقار کمال احمد کے کمالِ فن کا اعتراف ہیں!

    کمال احمد نے موسیقی کی دنیا میں اپنے کمالِ فن کی بنیاد پر خوب مرتبہ پایا اور پاکستانی فلم انڈسٹری میں اپنی دھنوں کے سبب چھے مرتبہ نگار ایوارڈ سے نوازے گئے۔ آج بھی ان کی موسیقی سے سجے ہوئے کئی گیت کمال احمد کی یاد دلاتے ہیں۔

    آپ نے یہ گیت ضرور سنا ہو گا، جسے معروف مزاحیہ اداکار رنگیلا پر فلمایا گیا تھا، ‘گا مورے منوا گاتا جارے…جانا ہے ہم کا دور۔ اسی طرح مقبول ترین فلمی گیت کس نے توڑا ہے دل حضور کا، کس نے ٹھکرایا تیرا پیار کی موسیقی بھی کمال احمد ہی نے ترتیب دی تھی۔

    پاکستان کے اس نام ور موسیقار نے 1937 کو اترپردیش میں آنکھ کھولی۔ ابتدا ہی سے موسیقی سے شغف تھا اور قسمت نے یاوری کی تو فلم ‘شہنشاہ جہانگیر کے لیے گیتوں کی دھنیں ترتیب دیں۔ بعد کے برسوں میں فلمی دنیا میں ہر طرف ان کا چرچا ہونے لگا۔ یہ سلسلہ کئی لاجواب دھنوں کے ساتھ شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے تک جاری رہا اور ‘دیا اور طوفان’ جیسی کام یاب فلم کے علاوہ انھوں نے رنگیلا، دل اور دنیا، تیرے میرے سپنے، دولت اور دنیا، وعدہ، سلسلہ پیار دا، دلہن ایک رات کی، کندن، عشق عشق، عشق نچاوے گلی گلی، اور ان داتا، آج کا دور جیسی فلموں کے لیے موسیقی ترتیب دی۔

    کمال احمد کے گانوں سے کئی گلوکاروں نے شہرت حاصل کی اور پاکستان فلم انڈسٹری میں‌ اپنی جگہ بنانے میں‌ کام یاب ہوئے۔

    فلم نگری کے اس باصلاحیت موسیقار نے 1993 میں آج ہی کے دن اپنی زندگی کا سفر تمام کیا تھا۔ وہ لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • دنیائے موسیقی میں نئے رجحانات کو متعارف کروانے والے امجد بوبی کا تذکرہ

    دنیائے موسیقی میں نئے رجحانات کو متعارف کروانے والے امجد بوبی کا تذکرہ

    موسیقار امجد بوبی کا تعلق ایک فن کار گھرانے سے تھا۔ وہ رشید عطرے جیسے عظیم موسیقار کے بھانجے تھے۔ موسیقار وجاہت عطرے ان کے ماموں زاد بھائی تھے، موسیقار صفدر حسین اور ذوالفقار علی اور گلوکار منیر حسین بھی ان کے قریبی عزیز تھے۔ ان کے والد غلام حسین خان بھی کلاسیکی گائیک تھے، لیکن خود کو ایک بڑا موسیقار منوانے کے لیے امجد بوبی کو خاصی محنت کرنا پڑی تھی۔

    فلمی تذکروں کے مطابق بہ طور موسیقار ان کی پہلی فلم راجا جانی تھی جس کی نمائش 1976 میں ہوئی۔ اس کے گیت بہت پسند کیے گئے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ امجد بوبی کی پہلی فلم اک نگینہ (1969ء) تھی۔ اس میں احمد رشدی کے گائے ہوئے دو گیتوں "مل گئی، مل گئی ہم کو پیار کی یہ منزل۔” اور "دل نہیں تو کوئی شیشہ، کوئی پتّھر ہی ملے۔” کے علاوہ آئرن پروین کا گایا ہوا گیت "ساری سکھیوں کے بلم گورے، میرا بلم کالا۔” بڑے خوب صورت گیت تھے۔ اسی سال فلم میری بھابھی پردے پر سجی اور کے گیت بھی اچھّے تھے۔ لیکن کوئی گیت سپرہٹ ثابت نہیں‌ ہوا اور امجد بوبی اپنی پہچان کروانے میں بھی ناکام رہے۔

    اسّی کی دہائی میں موسیقار کے طور پر امجد بوبی نے شہرت پائی اور اپنے فن کا عروج دیکھا۔ فلم نقشِ قدم (1979) میں گلوکار اے نیّر کی آواز میں "کرتا رہوں گا یاد تجھے میں، یونہی صبح و شام، مٹ نہ سکے گا میرے دل سے بینا تیرا نام” وہ گیت تھا جو سپر ہٹ ثابت ہوا۔

    امجد بوبی کی ایک وجہِ شہرت پاکستانی فلموں کے گیتوں کی بمبئی میں ریکارڈنگ کروانا ہے جس نے انھیں پاکستانی موسیقاروں میں‌ ممتاز کیا۔ انھوں نے جاوید شیخ کی فلم ’یہ دل آپ کا ہوا‘ کے لیے بھارتی گلوکار سونو نگم اور کویتا کرشنا مورتی سے گانے گوائے اور پاکستان فلم انڈسٹری میں ایک نئے رجحان کو فروغ دیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت کو امجد بوبی نے کئی مدھر دھنیں دینے کے ساتھ ساتھ اس فن میں‌ نت نئے تجربات کرکے بلاشبہ خود کو جدّت پسند موسیقار ثابت کیا۔

    آج امجد بوبی کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 2005ء میں انتقال کرگئے تھے۔ ان کا تعلق امرتسر سے تھا جہاں انھوں نے 1942 میں آنکھ کھولی۔ امجد بوبی نے گھونگھٹ، پرورش، کبھی الوداع نہ کہنا، نادیہ، روبی، نزدیکیاں، سنگم، چیف صاحب، گھر کب آوٴ گے، یہ دل آپ کا ہوا جیسی فلموں کے لیے لازوال دھنیں تخلیق کیں۔ ان کا فنی سفر چالیس سال پر محیط ہے۔

  • روبن گھوش جن کی موسیقی نے کئی فلمی نغمات کو لافانی بنا دیا

    روبن گھوش جن کی موسیقی نے کئی فلمی نغمات کو لافانی بنا دیا

    روبن گھوش کی لافانی موسیقی کا سب سے نمایاں وصف وہ شوخ ردھم اور جدّت ہے جس نے کئی گیتوں کو امر کر دیا۔ اخلاق احمد کی آواز میں ان کی ترتیب دی ہوئی موسیقی یہ نغمہ ’سونا نہ چاندی نہ کوئی محل‘ آج بھی مقبول ہے۔

    1977ء کی فلم آئینہ سے اپنے فنی کریئر کی معراج پر نظر آنے والے روبن گھوش 13 فروری 2016ء کو ڈھاکا میں وفات پاگئے تھے۔

    پاکستان فلم انڈسٹری کو سپر ہٹ فلمیں دینے میں ان کی لازوال موسیقی کا بھی بڑا کردار رہا۔ مہدی حسن کی آواز میں ’کبھی میں سوچتا ہوں…،‘، ’مجھے دل سے نہ بھلانا،‘ نیّرہ نور کا گایا ہوا ’روٹھے ہو تم، تم کو میں کیسے مناؤں پیا… وہ گیت تھے جنھیں پاک و ہند میں‌ مقبولیت حاصل ہوئی اور آج بھی ان کی سحر انگیزی برقرار ہے۔

    روبن گھوش کے کئی مقبول گیت ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر بھی نشر ہوئے جن میں ’کبھی تو تم کو یاد آئیں گے‘، ’مجھے تلاش تھی جس کی‘ ، ’ساون آئے ساون جائے‘ ، ’دیکھو یہ کون آ گیا وغیرہ شامل ہیں۔

    ان کا شمار برصغیر کے نام ور موسیقاروں میں کیا جاتا ہے۔ وہ 1939ء میں‌ پیدا ہوئے تھے۔ روبن گھوش پاکستان کی مشہور فلمی اداکارہ شبنم کے شوہر تھے اور یہ جوڑی 1996ء میں بنگلہ دیش منتقل ہو گئی تھی۔ روبن گھوش نے 1961ء میں بنگالی فلموں سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا تھا اور 10 سال بعد مقبول فلم ’چندا‘ سے اردو فلموں میں شمولیت اختیار کی۔ روبن گھوش نے پاکستان میں آخری فلم ’جو ڈر گیا وہ مر گیا‘ کی موسیقی ترتیب دی تھی۔

    انھوں نے پاکستان میں فلمی دنیا کا سب سے معتبر نگار ایوارڈ چھے مرتبہ اپنے نام کیا تھا۔

  • یومِ‌ وفات: شوخی اور ترنگ او پی نیّر کے گیتوں کی پہچان ہیں!

    یومِ‌ وفات: شوخی اور ترنگ او پی نیّر کے گیتوں کی پہچان ہیں!

    او پی نیّر البیلے موسیقار تھے دلوں میں‌ گداز اور سماعتوں میں رَس گھولنے والی ان کی دھنیں کئی فلموں کی مقبولیت کا سبب بنیں۔ 2007ء میں آج ہی کے دن انھوں نے زندگی سے ہمیشہ کے لیے منہ موڑ لیا تھا۔

    ممبئی میں‌ مقیم او پی نیّر 81 سال کے تھے۔ وہ 16 جنوری 1926ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔بالی وڈ کو کئی یادگار گیت دینے والے اس موسیقار کا اصل نام اوم کار پرساد نیّر تھا۔ موسیقی کا جنون ایسا تھا کہ تعلیم بھی مکمل نہ کی اور آل انڈیا ریڈیو، جالندھر سے اپنے کیریئر کا آغاز کردیا۔ محنتی اور بااصول او پی نیّر بعد میں فلم نگری میں آئے تو ’کنیز‘ کے لیے پسِ پردہ موسیقی دی، مگر ان کی پہچان گرودت کی فلم ’ آر پار‘ بنی۔ اس فلم کے نغمے بہت مقبول ہوئے۔ اس کے بعد ان کے پاس گویا فلمیں قطار میں‌ رہنے لگیں، لیکن او اپی نیّر تعداد کو معیار پر ترجیح دینے والوں میں‌ سے نہیں‌ تھے، اور سال میں ایک سے زیادہ فلم کے لیے موسیقی دینے سے گریز کرتے تھے۔

    ’اڑیں جب جب زلفیں تیری‘، ’بابو جی دھیرے چلنا‘ اور ’لے کے پہلا پہلا پیار‘ جیسے نغموں کے اس خالق کی اصول پسندی بھی مشہور ہے۔ انھوں نے اپنے فن پر کبھی سمجھوتا نہیں کیا اور کئی لافانی نغمات فلم نگری کو دے گئے۔

    ’تم سا نہیں دیکھا‘، ’ہاوڑا برج‘، ’مسٹر اینڈ مسز 55‘ ، ’کشمیر کی کلی‘، ’میرے صنم‘، ’سونے کی چڑیا‘، ’پھاگن‘، ’باز‘، ’ایک مسافر ایک حسینہ‘ ان کی چند فلمیں تھیں جن کے گیتوں کو بے مثال مقبولیت ملی۔

    ’نیا دور‘ وہ فلم تھی جس کی موسیقی ترتیب دینے پر انھیں فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

    1949ء میں اپنے کیریئر کا آغاز کرنے والے اس موسیقار کی پہچان اُن کے سریلے گیت تھے۔ ان کے ہم عصر موسیقاروں کے برعکس ان کے گیتوں سے شوخی، چلبلا پن اور مستی جھلکتی ہے جس نے شائقینِ سنیما اور سامعین کو بہت محظوظ کیا۔ خود او پی نیّر زندہ دل اور خوش مزاج مشہور تھے۔

  • یومِ وفات: مسحور کُن فلمی دھنوں کے خالق شوکت علی ناشاد کا تذکرہ

    یومِ وفات: مسحور کُن فلمی دھنوں کے خالق شوکت علی ناشاد کا تذکرہ

    دنیائے موسیقی اور فلم انڈسٹری کو کئی بے مثال اور رسیلے نغمات دینے والے شوکت علی ناشاد کو پاکستان ہی نہیں سرحد پار بھی ان کے تخلیقی جوہر اور فنی صلاحیتوں کی بدولت پہچان ملی۔ آج بھی جب ان کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو لبوں پر یہ گیت مچلنے لگتا ہے: ’’اگر تم مل جاؤ زمانہ چھوڑ دیں گے ہم۔‘‘ ایک یہی گیت نہیں ʼجان کہہ کر جو بلایا تو برا مان گئےʼ، ʼلے آئی پھر کہاں پر قسمت ہمیں کہاں سےʼ بھی پاکستان اور بھارت میں‌ بھی بے پناہ مقبول ہوئے۔

    شوکت علی ناشاد زندگی کے آخری ایّام میں صاحبِ فراش ہو گئے اور برین ہیمبرج کے بعد کومے کی حالت میں 3 جنوری 1981ء کو ان کی روح نے ہمیشہ کے لیے جسم کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ آج اس عظیم موسیقار کی برسی ہے۔

    ’’اگر تم مل جاؤ زمانہ چھوڑ دیں گے ہم‘‘ جیسے سدا بہار گیت موسیقار ناشاد نے 1974ء میں فلم ’’ایمان دار‘‘ کے لیے کمپوز کیا تھا۔ اسے تصوّر خانم کی آواز میں ریکارڈ کروایا گیا تھا۔

    ناشاد 1918ء میں دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام شوکت علی دہلوی تھا۔ ان کے والد غلام حسین خان اپنے دور کے ایک معروف طبلہ نواز تھے۔ تقسیم ہند سے قبل وہ موسیقار غلام حیدر کے ساتھ سازندے کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔ 1953ء میں نخشب جارچوی نے فلم ’’نغمہ‘‘ کی موسیقی کے لیے شوکت علی دہلوی کی خدمات حاصل کیں اور انھیں ’’ناشاد‘‘ کا نام دیا۔ فلم ’’نغمہ‘‘ کے گانوں نے ہندوستان بھر میں دُھوم مچا دی۔

    ناشاد کا نام 1953ء سے ایک کام یاب موسیقار کے طور پر لیا جانے لگا۔ انھوں نے پہلی بار 1947ء میں فلم ’’دلدار‘‘ کی موسیقی ترتیب دی۔ ابتدائی زمانے میں وہ شوکت علی اور شوکت حسین کے نام سے مشہور ہوئے اور بعد میں ناشاد نام اپنایا۔

    ناشاد 1964ء میں پاکستان آگئے اور یہاں سب سے پہلے نخشب کی فلم ’’میخانہ‘‘ کے لیے موسیقی دی۔ اس فلم کے چند گیت بے حد مقبول ہوئے، جن میں ’’جان کہہ کر جو بلایا تو بُرا مان گئے‘‘ بھی شامل تھا۔ ناشاد نے پاکستان آنے کے بعد 58 فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔ ان کی آخری فلم آزمائش تھی۔

    اس معروف موسیقار نے پاکستانی فلم انڈسٹری کی مشہور فلموں‌ مے خانہ، جلوہ، ہم دونوں، تم ملے پیار ملا، سال گرہ، سزا، افسانہ، چاند سورج، رم جھم، بندگی اور دیگر کے لیے اپنی فنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ ناشاد لاہور کے ایک قبرستان میں‌ آسودۂ خاک ہیں۔

  • موسیقی اور فنِ گائیکی کے استاد، شرافت علی خان کا تذکرہ

    موسیقی اور فنِ گائیکی کے استاد، شرافت علی خان کا تذکرہ

    پاکستان میں‌ سُر تال اور گائیکی کے میدان میں‌ نام و مقام حاصل کرنے والے فن کار اور مختلف سازوں اور آلاتِ موسیقی کے ماہر ایسے گھرانوں‌ سے وابستہ رہے ہیں جو تقسیمِ ہند سے قبل بھی موسیقی اور فنِ گائیکی کے لیے مشہور تھے۔

    شام چوراسی گھرانا انہی میں‌ سے ایک ہے جس میں جنم لینے والے استاد شرافت علی خان نے موسیقار اور گلوکار کی حیثیت سے بڑا نام کمایا۔

    استاد شرافت علی خان 30 نومبر 2009ء کو لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ وہ 1955ء میں ملتان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سلامت علی خان نام وَر موسیقار تھے اور استاد کے درجے پر فائز تھے جب کہ ان کے بڑے بھائی شفقت سلامت علی خان بھی اپنے وقت کے مشہور فن کار تھے۔

    گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن کے بعد شرافت علی خان نے اپنے والد سے ٹھمری، کافی اور غزل گائیکی کی تربیت حاصل کی اور دنیا کے متعدد ممالک میں اپنے فن کا مظاہرہ کرکے داد پائی۔ انھوں نے اپنے والد اور اپنے بھائیوں کے ساتھ بھی ملک اور بیرونِ‌ ملک فنِ موسیقی اور گائیکی کا مظاہرہ کیا اور خوب داد سمیٹی۔ انھیں‌ اپنے وقت کے علمِ موسیقی کے ماہر اور جیّد موسیقار و گلوکاروں نے سنا اور بے حد سراہا۔

    استاد شرافت علی خان کو بیرونِ ملک متعدد جامعات میں موسیقی اور آرٹ سے متعلق شعبہ جات کے تحت منعقدہ تقاریب میں اس فن سے متعلق اظہارِ خیال کرنے اور برصغیر کی موسیقی پر لیکچر دینے کا موقع بھی ملا۔

    کلاسیکی موسیقی اور گائیکی کی دنیا کے اس باکمال فن کار کو وفات کے بعد حضرت چراغ شاہ ولی کے مزار کے احاطے میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • موسیقار فیروز نظامی کا یومِ وفات

    موسیقار فیروز نظامی کا یومِ وفات

    آج پاکستان کے نام وَر موسیقار فیروز نظامی کا یومِ وفات ہے۔ انھیں‌ اپنے فن میں‌ ماہر اور بے مثل مانا جاتا ہے۔ وہ ایسے موسیقار تھے جس نے اپنے علم اور اس فن میں‌ مہارت و تجربات کو کتابی شکل بھی دی جس سے موسیقی کا شوق رکھنے والوں نے استفادہ کیا۔

    1975ء میں 65 سال کی عمر فیروز نظامی نے آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔

    1910ء میں لاہور کے ایک فن کار گھرانے میں‌ پیدا ہونے والے فیروز نظامی نے اسی شہر کے اسلامیہ کالج سے گریجویشن کیا اور اسی عرصے میں موسیقی کے اسرار و رموز بھی سیکھے۔ وہ اپنے ہی خاندان کے مشہور موسیقار استاد عبدالوحید خان کیرانوی کے زیرِ تربیت رہے۔

    1936ء میں جب لاہور سے آل انڈیا ریڈیو نے نشریات کا آغاز کیا تو فیروز نظامی وہاں بطور پروڈیوسر ملازم ہوئے۔ انھو‌ں نے دہلی اور لکھنؤ کے ریڈیو اسٹیشنوں پر بھی اپنے فن کا جادو جگایا۔ تاہم تھوڑے عرصے بعد ریڈیو کی ملازمت چھوڑ کر بمبئی کی فلمی صنعت سے ناتا جوڑ لیا اور وہاں بھی خود کو منوانے میں‌ کام یاب رہے۔

    بمبئی میں ان کی ابتدائی فلموں میں بڑی بات، امنگ، اس پار، شربتی آنکھیں اور نیک پروین شامل تھیں۔ فیروز نظامی کی وجہِ شہرت شوکت حسین رضوی کی فلم جگنو تھی جس میں دلیپ کمار اور نور جہاں نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ اس فلم کی بدولت فیروز نظامی کے فن و کمال کا بہت چرچا ہوا۔

    قیامِ پاکستان کے بعد فیروز نظامی لاہور لوٹ آئے تھے جہاں انھوں نے متعدد فلموں‌ کے لیے لازوال موسیقی ترتیب دی۔ ان کی فلموں میں سوہنی، انتخاب، راز، سولہ آنے، سوکن اور غلام شامل تھیں۔ نام ور گلوکار محمد رفیع کو فلمی صنعت میں متعارف کروانے کا سہرا بھی فیروز نظامی کے سَر ہے۔

    فیروز نظامی ایک مصنّف بھی تھے جنھوں نے سُر اور ساز، دھن اور آواز کی نزاکتوں اور باریکیوں پر لکھا۔ ایسے موسیقار بہت کم ہیں‌ جنھوں‌ نے اس فن کو اگلی نسل تک پہنچانے اور موسیقی و گائیکی کی تعلیم و تربیت کے لیے تحریر کا سہارا لیا ہو۔ فیروز نظامی کی کتابوں‌ میں اسرارِ موسیقی، رموزِ موسیقی اور سرچشمۂ حیات سرِفہرست ہیں۔

    پاکستان کے اس نام وَر موسیقار کو لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔