Tag: موسیقار نوشاد

  • نوشاد: موسیقی کی دنیا کا ساحر

    نوشاد: موسیقی کی دنیا کا ساحر

    نوشاد کو موسیقارِ‌ اعظم کہا جاتا ہے۔ وہ فلم اور سنگیت کی دنیا کے ایسے جادوگر تھے جس نے بہت کم عمری میں سنگیت سے اپنا ناتا جوڑا اور موسیقی کے فن میں اپنی جادوگری سے سماعتوں کو اسیر کرتے چلے گئے۔ نوشاد شاعر بھی تھے۔

    5 مئی 2006ء کو نوشاد انتقال کر گئے تھے۔ ان کا پورا نام نوشاد علی تھا۔ 25 دسمبر1919ء کو نوشاد نے لکھنؤ کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ سُر سنگیت سے ان کے جڑنے کا قصّہ بھی بہت دل چسپ ہے۔ بولی وڈ کے کئی بڑے ناموں اور مقبول ترین آوازوں نے نوشاد کی موسیقی کے بل پر انڈسٹری پر راج کیا۔

    نوشاد کو ان کا ذوق و شوق اور فنِ موسیقی میں دل چسپی ساز و آلاتِ‌ موسیقی کے قریب تو لے گئی لیکن باقاعدہ تربیت اور سیکھنے کا سلسلہ استاد غربت علی، استاد یوسف علی اور استاد ببن صاحب کے زیرِ سایہ شروع ہوا۔ 1937 میں نوشاد ممبئی پہنچ گئے اور 1940ء میں فلم پریم نگر سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا۔ اس وقت فلمی دنیا میں استاد جھنڈے خان ایک بڑا نام تھا اور انھوں نے نوشاد کی راہ نمائی کی۔ 1944ء میں فلم رتن ریلیز ہوئی جو نوشاد کے فنی کیریئر کا ایک سنگِ میل ثابت ہوئی اور اسی کے بعد ان کا نام فلموں کی کام یابی کی ضمانت بن گیا۔

    نوشاد کو فنِ موسیقی میں یہ نام و مرتبہ اور فلمی دنیا میں یہ عروج ہمیشہ اس لیے ملا کہ انھوں نے محنت اور لگن کے ساتھ اپنے کام میں تجربات کو اہمیت دی۔ انھوں نے کلاسیکی موسیقی اور لوک سنگیت کو اس انداز سے عوام کے سامنے پیش کیا کہ آج بھی ان کا سنگیت کانوں میں رس گھول رہا ہے۔

    موسیقار نوشاد نے اپنے بچپن میں بہ صد اشتیاق پہلا قدم لکھنؤ کی ‘بھوندو اینڈ کمپنی میں رکھا تو خود انھیں اور اس دکان کے مالک کو بھی نہیں معلوم تھا کہ وہ جس بچّے کو اپنی دکان پر جھاڑ پونچھ کے لیے رکھ رہا ہے، وہ کل ہندوستان کی ایک مشہور شخصیت بنے گا اور اس کا نام اونچے درجے کے کلاکاروں میں شامل ہوگا۔

    سُر سنگیت کے اس عالی مقام فن کار کی 67 فلموں کے لیے ترتیب دی گئی موسیقی نے انھیں دادا صاحب پھالکے سمیت کئی بڑے ایوارڈز دلوائے۔ اپنے فن کی بنیاد پر نوشاد نے بے شمار داد و تحسین سمیٹی، توصیفی کلمات سنے اور ان پر کئی مضامین لکھے گئے جب کہ نوشاد کی طبیعت میں سادگی اور عاجزی غالب رہی۔ موسیقار نوشاد نے اپنی زندگی اور فن کی دنیا کے کئی دل چسپ اور انوکھے قصّے بھی اپنی سرگزشت میں بیان کیے ہیں۔ یہاں ہم ان کی آپ بیتی سے دو پُرلطف واقعات نقل کررہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

    "ان دنوں مجھ پر کام کا ایسا جنون سوار رہتا کہ اپنا ہوش نہ رہتا۔ ہر وقت، ہر لمحہ کسی گیت کی دھن، کسی گیت کے بول میرے ہوش و حواس پر چھائے رہتے۔ ایسے عالم میں مجھ سے بڑی بڑی حماقتیں بھی سرزد ہوتیں۔ میں نے دادر میں فلیٹ کرائے پر لیا تھا، مگر ایک روز کسی گیت کی دھن سوچتا ہوا سیدھا پریل کی جھونپڑ پٹی کی چال میں پہنچ گیا۔ بڑے اطمینان کے ساتھ کوٹ وغیرہ اتارا اور بستر پر دراز ہو گیا۔ آنکھیں موندے دھن کو سجانے سنوارنے میں مصروف تھا کہ ایک عورت کمرے میں داخل ہوئی۔ وہ مجھے دیکھ کر چونکی۔ اس نے مراٹھی زبان میں مجھ سے پوچھا۔ ’’تم کون ہو؟‘‘ میں اس سوال پر ہڑبڑا کر اٹھا، اپنا کوٹ اٹھایا اور دوڑ لگا دی۔ بھاگتے بھاگتے بس اسٹینڈ پر آیا، بس پکڑی اور دادر کے مکان پر پہنچا۔ گھر آ کر اپنی حماقت پر ہنسی بھی آئی اور یہ سوچ کر جسم میں لرزہ بھی پیدا ہوا کہ کسی غیر کے مکان میں کسی غیر عورت کی موجودگی میں داخل ہونے کی بہت بڑی سزا بھی مل سکتی تھی۔”

    موسیقار نوشاد نے کتاب میں ایک یہ قصّہ بھی تحریر کیا ہے جو فن سے ان کی محبّت اور جنون کی عکاسی کرتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

    "اپنے کام کی سرمستی میں ایک مرتبہ لوکل ٹرین میں سفر کر رہا تھا۔ ایک ہاتھ میں سگریٹ تھا اور دوسرے ہاتھ میں وہ نوٹ بک جس میں گیت تھے۔ جب سگریٹ کی وجہ سے انگلی جلنے لگی تو میں نے اپنی دانست میں سگریٹ چلتی ٹرین سے پھینک دیا، کچھ لمحے بعد احساس ہوا کہ انگلیاں اب بھی جل رہی ہیں تو پتہ چلا کہ سگریٹ کی جگہ نوٹ بک چلتی ٹرین سے پھینک دی ہے۔ پریل قریب تھا۔ اسٹیشن پر اترا اور ٹرین کی پٹڑی کے ساتھ چلتے چلتے کھار پہنچا۔ وہاں مجھے اپنی نوٹ بک پڑی مل گئی۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ نوٹ بک مل گئی کیوں کہ اس میں وہ گیت بھی تھا جو دوسرے دن مجھے ریکارڈ کرانا تھا۔ ”

    بھارت کے اس عظیم موسیقار کا فلمی سفر 48 سال پر محیط رہا۔ نوشاد کی موسیقی میں‌ فلم مغلِ اعظم، انداز، میلہ، آن، اعلان، انمول گھڑی، انوکھی ادا، مدر انڈیا، گنگا جمنا، پاکیزہ اور رام اور شیام مشہور فلمیں ثابت ہوئیں‌۔

  • نوشاد کی نوٹ بک اور وہ عورت!

    نوشاد کی نوٹ بک اور وہ عورت!

    لکھنؤ میں ‘بھوندو اینڈ کمپنی کے مالک کے تو سان گمان میں‌ نہ ہوگا کہ جس بچّے کو اس نے اپنی دکان پر صفائی کے لیے رکھا ہے، وہ ہندوستان کی ایک مشہور شخصیت بنے گا، مگر خود نوشاد نے بھی یہ نہیں‌ سوچا تھا کہ وہ ایک اونچے درجے کے کلاکار بنیں گے اور بولی ووڈ میں انھیں ‘موسیقارِ اعظم’ کہا جائے گا۔

    فنِ موسیقی اور سُر سنگیت کی دنیا کے اس عالی مقام کا پورا نام نوشاد علی تھا۔ 25 دسمبر 1919 کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ عمر کا چھٹا سال تھا جب سنگیت سے ایسے قریب ہوئے کہ آخری سانس تک یہ تعلق قائم رہا۔ نوشاد نے کلاسیکی موسیقی اور لوک گیتوں کو خوب صورت انداز میں پیش کیا اور ان کی 67 فلموں کے لیے موسیقی کانوں میں‌ رس گھولتی رہی۔ موسیقار نوشاد نے 5 مئی 2006ء کو ممبئی میں آنکھیں ہمیشہ کے لیے موند لی تھیں۔ انھیں دادا صاحب پھالکے سمیت کئی ایوارڈز سے نوازا گیا۔

    موسیقار نوشاد کی زندگی کے حالات اور فن کی دنیا کے کئی دل چسپ اور انوکھے قصّے آپ ان کی سرگزشت میں پڑھ سکتے ہیں۔ یہاں ہم اس کتاب سے دو پُرلطف واقعات نقل کررہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

    "ان دنوں مجھ پر کام کا ایسا جنون سوار رہتا کہ اپنا ہوش نہ رہتا۔ ہر وقت، ہر لمحہ کسی گیت کی دھن، کسی گیت کے بول میرے ہوش و حواس پر چھائے رہتے۔ ایسے عالم میں مجھ سے بڑی بڑی حماقتیں بھی سرزد ہوتیں۔ میں نے دادر میں فلیٹ کرائے پر لیا تھا، مگر ایک روز کسی گیت کی دھن سوچتا ہوا سیدھا پریل کی جھونپڑ پٹی کی چال میں پہنچ گیا۔ بڑے اطمینان کے ساتھ کوٹ وغیرہ اتارا اور بستر پر دراز ہو گیا۔ آنکھیں موندے دھن کو سجانے سنوارنے میں مصروف تھا کہ ایک عورت کمرے میں داخل ہوئی۔ وہ مجھے دیکھ کر چونکی۔ اس نے مراٹھی زبان میں مجھ سے پوچھا۔ ’’تم کون ہو؟‘‘ میں اس سوال پر ہڑبڑا کر اٹھا، اپنا کوٹ اٹھایا اور دوڑ لگا دی۔ بھاگتے بھاگتے بس اسٹینڈ پر آیا، بس پکڑی اور دادر کے مکان پر پہنچا۔ گھر آ کر اپنی حماقت پر ہنسی بھی آئی اور یہ سوچ کر جسم میں لرزہ بھی پیدا ہوا کہ کسی غیر کے مکان میں کسی غیر عورت کی موجودگی میں داخل ہونے کی بہت بڑی سزا بھی مل سکتی تھی۔”

    نوشاد کی اس سرگزشت کا یہ قصّہ بھی ان کی اپنے فن سے محبّت اور کام کے جنون کی عکاسی کرتا ہے۔ انھوں نے لکھا:

    "اپنے کام کی سرمستی میں ایک مرتبہ لوکل ٹرین میں سفر کر رہا تھا۔ ایک ہاتھ میں سگریٹ تھا اور دوسرے ہاتھ میں وہ نوٹ بک جس میں گیت تھے۔ جب سگریٹ کی وجہ سے انگلی جلنے لگی تو میں نے اپنی دانست میں سگریٹ چلتی ٹرین سے پھینک دیا، کچھ لمحے بعد احساس ہوا کہ انگلیاں اب بھی جل رہی ہیں تو پتہ چلا کہ سگریٹ کی جگہ نوٹ بک چلتی ٹرین سے پھینک دی ہے۔ پریل قریب تھا۔ اسٹیشن پر اترا اور ٹرین کی پٹڑی کے ساتھ چلتے چلتے کھار پہنچا۔ وہاں مجھے اپنی نوٹ بک پڑی مل گئی۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ نوٹ بک مل گئی کیوں کہ اس میں وہ گیت بھی تھا جو دوسرے دن مجھے ریکارڈ کرانا تھا۔ ”

    اس عظیم موسیقار کا فلمی سفر 48 سال پر محیط رہا۔ ان کی موسیقی میں‌ فلم مغلِ اعظم، انداز، میلہ، آن، اعلان، انمول گھڑی، انوکھی ادا، مدر انڈیا، گنگا جمنا، پاکیزہ اور رام اور شیام مشہور فلمیں ثابت ہوئیں‌۔

  • طلعت محمود کو سگریٹ پینے کی کیا سزا ملی؟

    طلعت محمود کو سگریٹ پینے کی کیا سزا ملی؟

    ایک زمانہ تھا جب اخلاقی قدریں، روایات اور کردار بہت اہمیت رکھتا تھا۔ مختلف شعبہ ہائے حیات میں غیر سنجیدہ طرزِ عمل، منفی عادت اور رویہ یا کوئی معمولی کوتاہی بھی کسی کے لیے مسئلہ بن جاتی تھی۔ ایسی صورتِ حال میں کسی شعبے میں اپنے سینئرز سے رعایت اور درگزر کی امید بھی کم ہی ہوتی تھی۔

    اس کی ایک مثال یہ واقعہ ہے جو ہم یہاں نقل کررہے ہیں۔

    یہ دنیائے موسیقی کی دو نہایت مشہور، باصلاحیت اور قابل شخصیات سے متعلق ہے جن میں سے ایک طلعت محمود ہیں جنھوں نے گلوکاری کے میدان میں خوب نام کمایا اور آج بھی ہم ان کی آواز میں کئی گیت نہایت ذوق و شوق سے سنتے ہیں اور انھیں پسند کرتے ہیں۔

    طلعت محمود نے ریڈیو سے گلوکاری کا سفر شروع کیا تھا اور جلد ہی مشہور فلم سازوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ اپنے وقت کے نام ور موسیقاروں نے ان کی آواز کو معتبر اور پُرسوز مانا۔

    ایک وقت آیا کہ فلم انڈسٹری کی قد آور شخصیات اور کام یاب فلم سازوں نے ان کے کمالِ فن کا اعتراف کیا۔

    طلعت محمود خوب رُو اور پُرکشش شخصیت کے مالک تھے اور مشہور فلم ساز کے کہنے پر اداکاری بھی کی، لیکن درجن سے زائد فلموں میں کام کرنے کے باوجود وہ شائقین کو اس روپ میں متأثر نہ کرسکے۔

    تب وہ اپنی دنیا میں یعنی گلوکاری کی طرف لوٹ آئے اور ان کی آواز میں کئی گانے مشہور ہوئے۔

    طلعت محمود کے بعد ہم ماسٹر نوشاد کا تذکرہ کریں گے جنھیں ہندوستان کا عظیم موسیقار مانا جاتا ہے۔

    ماسٹر نوشاد کی خوب صورت اور دل موہ لینے والی دھنوں کے ساتھ طلعت محمود کی پُرسوز آواز نے ہندوستان میں‌ سنیما کے شائقین کو گویا اپنے سحر میں جکڑ لیا تھا۔

    ماسٹر نوشاد ایک وضع دار، اپنی اقدار اور روایات سے محبت کرنے والے، سنجیدہ اور متین انسان تھے۔

    ایک مرتبہ انھوں نے طلعت محمود کو سگریٹ پیتے دیکھ لیا اور اس کے بعد کبھی اس مشہور گلوکار کے ساتھ کام نہیں کیا۔

    کہتے ہیں اس واقعے کے بعد طلعت محمود ایک بار بھی ماسٹر نوشاد کی ترتیب دی ہوئی موسیقی کے لیے کوئی غزل یا گیت ریکارڈ نہیں کروا سکے۔