Tag: موسیقار وفات

  • نوشاد: موسیقی کی دنیا کا ساحر

    نوشاد: موسیقی کی دنیا کا ساحر

    نوشاد کو موسیقارِ‌ اعظم کہا جاتا ہے۔ وہ فلم اور سنگیت کی دنیا کے ایسے جادوگر تھے جس نے بہت کم عمری میں سنگیت سے اپنا ناتا جوڑا اور موسیقی کے فن میں اپنی جادوگری سے سماعتوں کو اسیر کرتے چلے گئے۔ نوشاد شاعر بھی تھے۔

    5 مئی 2006ء کو نوشاد انتقال کر گئے تھے۔ ان کا پورا نام نوشاد علی تھا۔ 25 دسمبر1919ء کو نوشاد نے لکھنؤ کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ سُر سنگیت سے ان کے جڑنے کا قصّہ بھی بہت دل چسپ ہے۔ بولی وڈ کے کئی بڑے ناموں اور مقبول ترین آوازوں نے نوشاد کی موسیقی کے بل پر انڈسٹری پر راج کیا۔

    نوشاد کو ان کا ذوق و شوق اور فنِ موسیقی میں دل چسپی ساز و آلاتِ‌ موسیقی کے قریب تو لے گئی لیکن باقاعدہ تربیت اور سیکھنے کا سلسلہ استاد غربت علی، استاد یوسف علی اور استاد ببن صاحب کے زیرِ سایہ شروع ہوا۔ 1937 میں نوشاد ممبئی پہنچ گئے اور 1940ء میں فلم پریم نگر سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا۔ اس وقت فلمی دنیا میں استاد جھنڈے خان ایک بڑا نام تھا اور انھوں نے نوشاد کی راہ نمائی کی۔ 1944ء میں فلم رتن ریلیز ہوئی جو نوشاد کے فنی کیریئر کا ایک سنگِ میل ثابت ہوئی اور اسی کے بعد ان کا نام فلموں کی کام یابی کی ضمانت بن گیا۔

    نوشاد کو فنِ موسیقی میں یہ نام و مرتبہ اور فلمی دنیا میں یہ عروج ہمیشہ اس لیے ملا کہ انھوں نے محنت اور لگن کے ساتھ اپنے کام میں تجربات کو اہمیت دی۔ انھوں نے کلاسیکی موسیقی اور لوک سنگیت کو اس انداز سے عوام کے سامنے پیش کیا کہ آج بھی ان کا سنگیت کانوں میں رس گھول رہا ہے۔

    موسیقار نوشاد نے اپنے بچپن میں بہ صد اشتیاق پہلا قدم لکھنؤ کی ‘بھوندو اینڈ کمپنی میں رکھا تو خود انھیں اور اس دکان کے مالک کو بھی نہیں معلوم تھا کہ وہ جس بچّے کو اپنی دکان پر جھاڑ پونچھ کے لیے رکھ رہا ہے، وہ کل ہندوستان کی ایک مشہور شخصیت بنے گا اور اس کا نام اونچے درجے کے کلاکاروں میں شامل ہوگا۔

    سُر سنگیت کے اس عالی مقام فن کار کی 67 فلموں کے لیے ترتیب دی گئی موسیقی نے انھیں دادا صاحب پھالکے سمیت کئی بڑے ایوارڈز دلوائے۔ اپنے فن کی بنیاد پر نوشاد نے بے شمار داد و تحسین سمیٹی، توصیفی کلمات سنے اور ان پر کئی مضامین لکھے گئے جب کہ نوشاد کی طبیعت میں سادگی اور عاجزی غالب رہی۔ موسیقار نوشاد نے اپنی زندگی اور فن کی دنیا کے کئی دل چسپ اور انوکھے قصّے بھی اپنی سرگزشت میں بیان کیے ہیں۔ یہاں ہم ان کی آپ بیتی سے دو پُرلطف واقعات نقل کررہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

    "ان دنوں مجھ پر کام کا ایسا جنون سوار رہتا کہ اپنا ہوش نہ رہتا۔ ہر وقت، ہر لمحہ کسی گیت کی دھن، کسی گیت کے بول میرے ہوش و حواس پر چھائے رہتے۔ ایسے عالم میں مجھ سے بڑی بڑی حماقتیں بھی سرزد ہوتیں۔ میں نے دادر میں فلیٹ کرائے پر لیا تھا، مگر ایک روز کسی گیت کی دھن سوچتا ہوا سیدھا پریل کی جھونپڑ پٹی کی چال میں پہنچ گیا۔ بڑے اطمینان کے ساتھ کوٹ وغیرہ اتارا اور بستر پر دراز ہو گیا۔ آنکھیں موندے دھن کو سجانے سنوارنے میں مصروف تھا کہ ایک عورت کمرے میں داخل ہوئی۔ وہ مجھے دیکھ کر چونکی۔ اس نے مراٹھی زبان میں مجھ سے پوچھا۔ ’’تم کون ہو؟‘‘ میں اس سوال پر ہڑبڑا کر اٹھا، اپنا کوٹ اٹھایا اور دوڑ لگا دی۔ بھاگتے بھاگتے بس اسٹینڈ پر آیا، بس پکڑی اور دادر کے مکان پر پہنچا۔ گھر آ کر اپنی حماقت پر ہنسی بھی آئی اور یہ سوچ کر جسم میں لرزہ بھی پیدا ہوا کہ کسی غیر کے مکان میں کسی غیر عورت کی موجودگی میں داخل ہونے کی بہت بڑی سزا بھی مل سکتی تھی۔”

    موسیقار نوشاد نے کتاب میں ایک یہ قصّہ بھی تحریر کیا ہے جو فن سے ان کی محبّت اور جنون کی عکاسی کرتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

    "اپنے کام کی سرمستی میں ایک مرتبہ لوکل ٹرین میں سفر کر رہا تھا۔ ایک ہاتھ میں سگریٹ تھا اور دوسرے ہاتھ میں وہ نوٹ بک جس میں گیت تھے۔ جب سگریٹ کی وجہ سے انگلی جلنے لگی تو میں نے اپنی دانست میں سگریٹ چلتی ٹرین سے پھینک دیا، کچھ لمحے بعد احساس ہوا کہ انگلیاں اب بھی جل رہی ہیں تو پتہ چلا کہ سگریٹ کی جگہ نوٹ بک چلتی ٹرین سے پھینک دی ہے۔ پریل قریب تھا۔ اسٹیشن پر اترا اور ٹرین کی پٹڑی کے ساتھ چلتے چلتے کھار پہنچا۔ وہاں مجھے اپنی نوٹ بک پڑی مل گئی۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ نوٹ بک مل گئی کیوں کہ اس میں وہ گیت بھی تھا جو دوسرے دن مجھے ریکارڈ کرانا تھا۔ ”

    بھارت کے اس عظیم موسیقار کا فلمی سفر 48 سال پر محیط رہا۔ نوشاد کی موسیقی میں‌ فلم مغلِ اعظم، انداز، میلہ، آن، اعلان، انمول گھڑی، انوکھی ادا، مدر انڈیا، گنگا جمنا، پاکیزہ اور رام اور شیام مشہور فلمیں ثابت ہوئیں‌۔

  • آر ڈی برمن: ایک باکمال سنگیت کار کا تذکرہ

    ستّر کی دہائی میں ہندوستان کی فلمی موسیقی میں آر ڈی برمن کے کمالِ فن کا شہرہ ہوا تھا اور اس کے بعد آنے والی فلموں میں ان کی لطافت سے بھرپور موسیقی اور روایت سے جڑے خوب صورت تجربات نے انھیں بہترین فلمی موسیقار ثابت کیا۔

    آر ڈی برمن 4 جنوری 1994ء کو انتقال کرگئے تھے۔ 1971ء کی ایک کام یاب فلم ’کٹی پتنگ‘ سے آر ڈی برمن کی پہچان کا اصل سفر شروع ہوا تھا جس میں ’یہ شام مستانی مدہوش کیے جائے‘ اور ’یہ جو محبت ہے ان کا ہے کام‘ جیسے گیت شامل تھے جنھیں آج بھی بڑے ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔ ان گیتوں‌ کے موسیقار کا اصل نام راہل دیو برمن تھا۔ یہ گیت بھی آپ نے شاید سن رکھا ہو، ’’چرا لیا ہے تم نے جو دل کو…..۔‘‘ یہ سدا بہار گیت ہندوستان ہی نہیں‌ پاکستان میں‌ بھی بہت مقبول ہوا۔

    آر ڈی برمن کلکتہ میں‌ 27 جون 1939ء کو پیدا ہوئے۔ وہ ایک مشہور موسیقار کے بیٹے تھے اور شروع ہی سے راگ راگنیوں، ساز و انداز سے مانوس تھے۔ آر ڈی برمن نے بھی موسیقی کے شوق کو اپنا فن اور پیشہ بنایا۔ ان کے والد ایس ڈی برمن تھے۔ اپنے والد سے موسیقی کی تعلیم حاصل کرنے کے علاوہ آر ڈی برمن نے استاد علی اکبر خان سے سرود کی تربیت حاصل کی۔

    آر ڈی برمن کو پنچم دا کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔ انھیں یہ نام اداکار اشوک کمار کو موسیقی کے پانچ سُر’ سارے گا ما پا ‘ سنانے پر دیا گیا تھا۔ آر ڈی برمن نے فلمی کیریئر کا آغاز اپنے والد کے ساتھ بطور معاون موسیقار کیا تھا۔ ان کی اس وقت کی سپر ہٹ فلموں‌ میں ’’چلتی کا نام گاڑی (1958) اور کاغذ کے پھول (1959) شامل ہیں۔ بہ طور موسیقار آر ڈی برمن نے 1961ء میں فلم ’’چھوٹے نواب‘‘ سے کام شروع کردیا تھا، لیکن شہرت حاصل کرنے کے لیے انھیں خاصا انتظار کرنا پڑا۔ انھیں بہ طور موسیقار 1965ء میں ریلیز ہونے والی فلم بھوت بنگلہ سے کچھ پہچان ضرور ملی تھی، لیکن فلم انڈسٹری میں قدم جمانے کے لیے وہ 10 برس تک محنت کرتے رہے۔

    آر ڈی برمن کو 1972ء میں‌ فلم انڈسٹری میں خاصا کام ملا اور وہ فلم سیتا اور گیتا، میرے جیون ساتھی، بامبے ٹو گوا جیسی کئی فلموں کے لیے موسیقی ترتیب دینے میں کام یاب ہوگئے۔ اسی طرح‌ آندھی، دیوار، اور خوشبو جیسی کئی کام یاب فلموں میں ان کی موسیقی میں کئی گیتوں نے شائقینِ سنیما کو دیوانہ کردیا۔ یہ ابتدائی کام یابیاں ان کے لیے حوصلہ افزا ثابت ہوئیں اور تب آر ڈی برمن نے مشرق و مغرب کی موسیقی کے امتزاج سے دھنیں تیّار کرنے کا تجربہ کر کے خود کو منوایا۔ ان کے یہ گیت بھی سپر ہِٹ ثابت ہوئے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ پہلی مرتبہ ممبئی فلم انڈسٹری میں ویسٹرن میوزک کو کلاسیکی موسیقی کے ساتھ ملا کر اپنی دھنوں سے عروج دینا ہی تھا جس نے انھیں اپنے کام میں یکتا اور بے مثال ثابت کیا۔

    فلم پیاسا کے گانے” سَر جو تیرا چکرائے” کی دھن بھی آر ڈی برمن نے ترتیب دی تھی، وہ ماؤتھ آرگن بجانے میں مہارت رکھتے تھے اور گانا "ہے اپنا دل تو آوارہ” میں انھوں نے اس کا مظاہرہ کر کے اپنے مداحوں کو حیران کر دیا تھا۔

    آر ڈی برمن کا کئی گلوکاروں کے ساتھ وقت گزرا اور کئی سدا بہار گیت تخلیق ہوئے، لیکن آشا بھوسلے نے فلمی گائیکی کے لیے آر ڈی برمن کی دھنوں پر ہی ان کا ساتھ نہیں دیا، بلکہ شریکِ حیات کے طور پر بھی انہی کا انتخاب کیا۔ آر ڈی برمن کی پہلی بیوی ان سے علیحدگی اختیار کرچکی تھیں اور مشہور گلوکارہ ان کی دوسری بیوی تھیں۔

    1985ء اور بعد کے برسوں‌ میں‌ آر ڈی برمن کی جگہ فلم سازوں اور ہدایت کاروں نے نئے موسیقاروں کی خدمات حاصل کرنا شروع کردی تھیں اور آر ڈی برمن کا چار دہائی سے زیادہ عرصہ پر محیط فلمی کیریئر سمٹتا چلا گیا۔ انھوں‌ نے تین سو سے زائد ہندی فلموں کے لیے موسیقی ترتیب دی جب کہ بنگلہ، تیلگو اور مراٹھی فلموں کے لیے بھی اپنے فن کا جادو جگایا۔ آر ڈی برمن نے بہترین موسیقار کے تین فلم فیئر ایوارڈ اپنے نام کیے تھے۔

  • یومِ وفات: استاد علی اکبر خان نے دنیا بھر میں اپنے فن کا لوہا منوایا

    یومِ وفات: استاد علی اکبر خان نے دنیا بھر میں اپنے فن کا لوہا منوایا

    کلاسیکی موسیقی میں استاد کا مرتبہ پانے والے علی اکبر خان کا شمار ان فن کاروں میں کیا جاتا ہے جنھوں نے مغرب کو مشرقی موسیقی سے آشنا کیا۔ 18 جون 2009ء کو اس نام وَر اور باکمال فن کار نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لیں۔

    علی اکبر خان نے 1922ء میں بنگال کے شہر کومیلا کے ایک قصبے میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد علاءُ الدّین بھی فنِ‌ موسیقی میں استاد مشہور تھے اور انہی کے زیرِ سایہ علی اکبر خان نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی اور اس کے بنیادی رموز سیکھے۔ بعدازاں تربیت کے لیے ‘سنیہ میہار گھرانے ’ سے وابستہ ہوگئے۔

    علی اکبر خان 22 سال کے ہوئے تو ریاست جودھ پور میں دربار سے بحیثیت موسیقار وابستہ ہوگئے۔ تقسیم ہند کے بعد وہ بھارت میں رہے، لیکن 1967ء میں امریکا منتقل ہوگئے اور ریاست کیلی فورنیا میں سکونت اختیار کرلی، بعد میں انھوں نے برکلے میں علی اکبر کالج آف میوزک قائم کیا، جس میں اُن کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔

    سرود کے علاوہ استاد علی اکبر خان ستار، طبلہ اور ڈرم بھی مہارت اور خوبی سے بجاتے تھے۔ سرود کی تعلیم انھوں نے اپنے والد سے اور طبلے کی تربیت اپنے چچا فقیر آفتاب الدّین سے لی تھی۔

    کہتے ہیں ‘سُر بہار’ پیش کرنے میں ان کا کوئی ثانی ہی نہ تھا۔ استاد علی اکبر خان نے بھارت سمیت دنیا بھر میں اپنے فن کا لوہا منوایا۔

    1989ء میں انھیں بھارت کا دوسرا بڑا شہری اعزاز عطا کیا گیا، جب کہ 1997ء میں انھیں امریکا میں روایتی فنون کے لیے معروف ‘ہیریٹیج فیلوشپ’ دی گئی۔ ان کی اہمیت اور اپنے فن کے سبب عالمی سطح پر پذیرائی کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ انھیں 5 مرتبہ گریمی ایوارڈ کے لیے بھی نام زد کیا گیا تھا۔

    امریکا کے شہر سان فرانسسکو میں وفات پانے والے استاد علی اکبر خان کو برصغیر ہی نہیں‌ بلکہ دنیا بھر میں پہچانا جاتا ہے۔

  • یومِ وفات: فلمی موسیقار واجد علی ناشاد نے پی ٹی وی کے کئی مقبول ڈراموں‌ کے ٹائٹل سانگ بھی بنائے

    یومِ وفات: فلمی موسیقار واجد علی ناشاد نے پی ٹی وی کے کئی مقبول ڈراموں‌ کے ٹائٹل سانگ بھی بنائے

    پاکستان کی فلم نگری کے ممتاز موسیقار واجد علی ناشاد 18 جون 2008ء کو دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ ان کے والد شوکت علی ناشاد بھی فلمی موسیقار تھے۔

    واجد علی ناشاد کا سنِ پیدائش 1953ء ہے۔ ان کا تعلق ممبئی سے تھا۔ ان کے والد 1964ء میں اپنے کنبے کے ساتھ ہجرت کرکے لاہور چلے آئے۔ ہجرت سے قبل واجد جس اسکول میں زیرِ تعلیم تھے، وہاں انھوں نے میوزک ٹیچر پیٹر ہائیکین سے پیانو بجانا سیکھا تھا۔

    واجد علی ناشاد کو اپنے والد کی وجہ سے موسیقی کا شوق تو تھا ہی، بعد میں انھوں نے خود اس فن میں دل چسپی لی اور مہارت حاصل کی۔ انھوں نے پاکستان میں کئی فلموں میں اپنے والد کے ساتھ بطور اسٹنٹ میوزک ڈائریکٹر کام کرتے ہوئے کلاسیکل گیت سنگیت کو سیکھا اور مغربی میوزک کا مطالعہ بھی کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی ترتیب دی ہوئی دھنیں منفرد اور مقبول ثابت ہوئیں۔

    واجد علی ناشاد نے تقریباً 50 فلموں کے لیے بطور موسیقار کام کیا جب کہ تقریباً 300 فلموں کا بیک گراؤنڈ میوزک بھی دیا۔ انھوں نے پاکستان ٹیلی ویژن کے مشہور ڈراموں ’’دشت ‘‘، ’’دوریاں‘‘، ’’ باغی ‘‘ ، ’’پراندہ ‘‘ ، ’’سلسلہ‘‘ ، ’’لنڈا بازار ‘‘ سمیت کئی سیریلوں کے ٹائٹل سانگ بھی بنائے۔

    واجد علی ناشاد نے 1977ء میں فلم ’’پرستش‘‘ کی موسیقی ترتیب دے کر اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا تھا۔

  • یومِ وفات: استاد بڑے غلام علی خان کو ‘سُر دیوتا’ کہا جاتا ہے

    یومِ وفات: استاد بڑے غلام علی خان کو ‘سُر دیوتا’ کہا جاتا ہے

    آج برصغیر پاک و ہند کے عظیم موسیقار استاد بڑے غلام علی خان کی برسی منائی جارہی ہے۔ ان کا تعلق فنِ موسیقی میں‌ ممتاز پٹیالہ گھرانے سے تھا۔ استاد بڑے غلام علی 23 اپریل 1968ء کو حیدرآباد دکن میں انتقال کرگئے تھے اور وہیں آسودۂ خاک ہوئے۔

    استاد بڑے غلام علی خان 4 اپریل 1902ء کو قصور میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے دادا استاد ارشاد علی خان مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دربار سے وابستہ اور اس کے رتنوں میں شامل تھے۔ ان کے والد علی بخش خان اور چچا کالے خان پٹیالہ گھرانے کے مشہور موسیقار کرنیل فتح علی خان کے شاگرد تھے۔

    استاد بڑے غلام علی خان نے موسیقی کی تعلیم اپنے والد استاد علی بخش خان اور چچا استاد کالے خان سے حاصل کی اور پھر استاد عاشق علی خان پٹیالہ والے کے شاگرد ہوگئے۔ ان کے فن کی شہرت جلد ہی ہندوستان بھر میں پھیل گئی جس کے بعد انھیں موسیقی کی محافل میں مدعو کیا جانے لگا۔ انھوں نے متعدد میوزک کانفرنسوں میں بھی شرکت کی اور اپنے فن کا مظاہرہ کرکے کلاسیکی موسیقی کے شائقین کی توجہ حاصل کی۔

    استاد بڑے غلام علی کی انفرادیت یہ تھی کہ انھوں نے تجربے کو اہمیت دی اور گائیکی میں بعض ایسی ترامیم کیں جو اس کی خوبی اور اس کا حُسن بن گئیں۔

    قیامِ پاکستان کے بعد استاد بڑے غلام علی خان نے یہیں رہنے کا فیصلہ کیا تھا، مگر یہاں ریڈیو پر افسران کے بعض رویوں سے دل برداشتہ ہوکر انھوں نے 1954ء میں وطن چھوڑ دیا۔ ہجرت کرنے کے بعد استاد بڑے غلام علی خان کو بھارت میں بڑی پذیرائی ملی اور وہاں پدم بھوشن کے علاوہ سُر دیوتا، سنگیت سمراٹ اور شہنشاہِ موسیقی جیسے خطاب اور القاب کے علاوہ انھیں‌ ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا گیا۔

  • نام وَر سارنگی نواز استاد نتھو خان کا یومِ وفات

    نام وَر سارنگی نواز استاد نتھو خان کا یومِ وفات

    سارنگی وہ ساز ہے جس کی روایتی دھنوں پر عوامی شاعری برصغیر میں مقبول رہی ہے۔ یہ ساز ہندوستان میں کلاسیکی سنگیت کا اہم حصّہ رہا ہے۔ آج اس فن میں اپنے کمال اور مہارت کو منوانے والے استاد نتھو خان کی برسی ہے۔ وہ 7 اپریل 1971ء کو جرمنی میں قیام کے دوران وفات پاگئے تھے۔

    استاد نتھو خان 1924ء میں موضع جنڈیالہ گورو، ضلع امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا گھرانا موسیقی کے فن سے وابستہ تھا اور والد میاں مولا بخش بھی اپنے عہد کے معروف سارنگی نواز تھے۔ استاد نتھو خان نے اپنے والد ہی سے موسیقی کے ابتدائی رموز سیکھے اور بعد میں اپنے چچا فیروز خان، استاد احمدی خاں اور استاد ظہوری خان کی شاگردی اختیار کی۔

    سارنگی وہ ساز ہے جسے سیکھنے میں محنت بہت لگتی ہے اور جدید آلاتِ موسیقی میں اس کے مقابلے میں وائلن کو زیادہ پذیرائی حاصل ہے۔ استاد نتھو خان کی خوبی اور کمال یہ تھا کہ وہ کلاسیکی گانا بھی جانتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ انھیں اپنے وقت کے نام ور اور مشہور کلاسیکی گلوکاروں نے سنگت کے لیے منتخب کیا اور ان کے فن کے معترف رہے۔

    روشن آرا بیگم جیسی برصغیر کی عظیم گلوکارہ استاد نتھو خان کی مداح تھیں۔ اپنے وقت کے ایک معروف ساز کے ماہر اور اپنے فن میں یکتا استاد نتھو خان فقط 46 برس کی عمر میں‌ دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

  • نام وَر ستار نواز استاد کبیر خان کی برسی

    نام وَر ستار نواز استاد کبیر خان کی برسی

    پاکستان کے مشہور ستار نواز استاد کبیر خان 22 مارچ 2001ء کو وفات پاگئے تھے۔ وہ کلاسیکی موسیقی اور سازوں کی دنیا میں اپنے فن کے لیے مشہور دبستان، سینی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ خاندان موسیقار تان سین کی نسبت سے مشہور ہوا جس میں پیدا ہونے والے کبیر خان کو ماہر اور باکمال ستار نواز تسلیم کیا جاتا ہے۔

    برصغیر پاک و ہند میں کلاسیکی موسیقی کے حوالے سے مختلف سازوں میں ستار بہت مشہور ہے جسے بہت دل چسپی اور شوق سے سنا جاتا ہے۔ روایتی طرزِ موسیقی اور گائیکی کے ساتھ قدیم سازوں میں اگرچہ ستار اور اس کے بجانے والے بھی اب بہت کم ہیں، لیکن استاد کبیر کا نام ان کے فن کی بدولت آج بھی زندہ ہے۔

    انھوں نے پچاس برس تک ملکی سطح پر منعقدہ مختلف تقاریب اور محافلِ موسیقی میں اپنے فن کا مظاہرہ کرکے نہ صرف شائقین سے داد پائی بلکہ اس ساز کو بجانے اور اسے سیکھنے والوں کو بھی متاثر کیا، انھیں بیرونِ ملک بھی ثقافتی وفود کے ساتھ اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملا۔

    استاد کبیر خان وہ واحد ستار نواز تھے جو اس ساز کے دو معروف اسالیب کے ماہر تھے۔ حکومتِ پاکستان نے ان کے فن کا اعتراف کرتے ہوئے 1989ء میں انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • لازوال دھنوں کے خالق نثار بزمی کی برسی

    لازوال دھنوں کے خالق نثار بزمی کی برسی

    پاکستان فلم انڈسٹری سے وابستہ شعرا کے خوب صورت گیتوں کو اپنی مدھر دھنوں سے لازوال اور یادگار بنا دینے والے نثار بزمی کو دنیا سے گئے 14 برس بیت گئے۔ 1997ء میں وفات پانے والے نثار بزمی کا شمار ملک کے صفِ اوّل کے موسیقاروں میں ہوتا ہے۔

    دسمبر 1924ء کو صوبہ مہاراشٹر کے ضلع خان دیش کے ایک گائوں میں پیدا ہونے والے نثار بزمی کا اصل نام سید نثار احمد تھا۔ وہ بچپن ہی سے موسیقی سے شغف رکھتے تھے۔والد نے ان کا شوق اور موسیقی سے رغبت دیکھتے ہوئے انھیں استاد امان علی خان کے پاس بمبئی بھیج دیا جہاں انھوں نے موسیقی کے اسرار و رموز سیکھے۔

    نثار بزمی نے آل انڈیا ریڈیو میں چند سال میوزک کمپوزر کی حیثیت سے کام کیا اور 1946ء میں فلم ‘جمنا پار’ سے فلم نگری میں اپنا سفر شروع کیا، وہ تقسیم کے پندرہ برس تک ہندوستان کی فلم انڈسٹری سے وابستہ رہے اور پھر پاکستان آگئے جہاں انھوں نے اپنے وقت کے باکمال موسیقاروں کے درمیان اپنے فن کی بدولت بڑا نام اور مرتبہ پایا۔

    فضل احمد کریم فضلی کی فلم ’ایسا بھی ہوتا ہے‘سے پاکستانی فلم انڈسٹری میں نثار بزمی نے اپنے کام کا آغاز کیا۔ اسی فلم میں نور جہاں نے نثار بزمی کی تیار کردہ دھن پر غزل "ہو تمنا اور کیا جانِ تمنا آپ ہیں” گائی تو اس کا شہرہ سرحد پار بھی ہوا۔ فلمی دنیا میں اس کام یاب آغاز کے بعد وہ آ گے بڑھتے چلے گئے۔

    نثار بزمی نے فلم ‘لاکھوں میں ایک’ کے مشہور گیت ’چلو اچھا ہوا تم بھول گئے‘ کی دھن ترتیب دی اور یہ گیت آج بھی سماعتوں میں‌ رس گھول رہا ہے۔ ایک اور گانا ‘بڑی مشکل سے ہوا ترا میرا ساتھ پیا…’ نثار بزمی کی یاد دلاتا ہے۔ انھوں نے ‘اے بہارو گواہ رہنا، اک حسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا، رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ، آپ دل کی انجمن میں حسن بن کر آ گئے، دل دھڑکے، میں تم سے یہ کیسے کہوں، کہتی ہے میری نظر شکریہ، کاٹے نہ کٹے رتیاں، سیاں تیرے پیار میں جیسے لازوال گیتوں کی دھنیں‌ ترتیب دیں جنھیں اپنے وقت کے مشہور و معروف گلوکاروں نے گایا تھا۔

    نثار بزمی نے طاہرہ سید، نیرہ نور، حمیراچنا اور عالمگیر جیسے گلوکاروں کو فلمی دنیا میں آواز کا جادو جگانے کا موقع فراہم دیا۔

    مختلف شاعروں کی نظموں، غزلوں اور فلمی گیتوں کی دھنیں ترتیب دینے والے نثار بزمی خود بھی شاعر تھے۔ ان کا مجموعہ کلام ’پھر سازِ صدا خاموش ہوا‘ کے نام سے شایع ہوچکا ہے۔

    پاکستان میں درجنوں فلموں کے کئی گیتوں کی موسیقی ترتیب دینے والے نثار بزمی کو حکومت نے پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا۔

  • مشہور موسیقار اور گائیک استاد عاشق علی خان کی برسی

    مشہور موسیقار اور گائیک استاد عاشق علی خان کی برسی

    کلاسیکی موسیقی اور غزل گائیکی میں‌ نام و مرتبہ رکھنے والے استاد عاشق علی خان 10 مارچ 1948ء کو وفات پاگئے تھے۔ ان کا تعلق فنِ موسیقی اور گائیکی کے‌ لیے مشہور پٹیالہ گھرانے سے تھا۔

    استاد عاشق علی خان کافیاں گانے میں‌ خاص مہارت رکھتے تھے اور اس حوالے سے بہت مقبول تھے۔ 1880ء میں پیدا ہونے والے استاد عاشق علی خان نے موسیقی اور گائیکی کے فن کو اپنے شوق کی بدولت اپنایا اور لے کاری میں‌ خاص مہارت حاصل کی۔

    ایک زمانے میں‌ جب پاک و ہند میں بڑی تعداد کلاسیکی موسیقی اور گائیکی کا شوق رکھتی تھی تو استاد عاشق علی خان سے اس فن کی تربیت لینے اور گائیکی کے اسرار و رموز سیکھنے والے بھی ان کے گرد موجود رہتے تھے، جن میں سے بعض نے آگے چل کر اس فن میں بڑا نام پیدا کیا اور پاکستان کے نام ور گلوکاروں میں‌ شمار ہوئے۔

    استاد عاشق علی خان کے کئی شاگردوں‌ نے غزل گائیکی اور صوفیانہ کلام کو اپنے انداز میں‌ پیش کرکے مقبولیت حاصل کی۔ ان کے شاگردوں میں استاد بڑے غلام علی خان، چھوٹے عاشق علی خان، حسین بخش ڈھاڑی، اللہ دینو خاں، مختار بیگم، فریدہ خانم اور زاہدہ پروین نمایاں ہیں۔

  • نام وَر موسیقار، گلوکار اور اداکار رفیق غزنوی کا یومِ وفات

    نام وَر موسیقار، گلوکار اور اداکار رفیق غزنوی کا یومِ وفات

    آج برصغیر کے نام ور موسیقار، گلوکار اور اداکار رفیق غزنوی کی برسی ہے۔ وہ 2 مارچ 1974ء کو وفات پاگئے تھے۔

    1907ء میں راولپنڈی میں آنکھ کھولنے والے رفیق غزنوی نے گورڈن کالج راولپنڈی سے گریجویشن کیا۔ انھیں شروع ہی سے موسیقی سے لگاؤ تھا۔ ان کا یہی شوق انھیں استاد عبدالعزیز خان صاحب کے پاس لے گیا جن سے اس فن کے اسرار و رموز سیکھے اور بعد کے برسوں میں ان کا شمار صفِ اوّل کے موسیقاروں میں ہوا۔

    رفیق غزنوی نے اپنے فلمی کیریر کا آغاز اداکاری سے کیا تھا۔ انھوں نے لاہور میں بننے والی پہلی ناطق فلم ہیر رانجھا کا مرکزی کردار نبھایا اور اس فلم کی موسیقی بھی ترتیب دی تھی۔ بحیثیت اداکار خود پر فلمائے گئے نغمات بھی انھوں نے گائے تھے۔ بعد ازاں وہ دہلی چلے گئے جہاں آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہوگئے۔ کچھ عرصہ بعد بمبئی منتقل ہوگئے اور وہاں‌ کئی فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔

    رفیق غزنوی نے یوں تو پاک و ہند میں بننے والی کئی فلموں کے لیے موسیقی ترتیب دی، لیکن ’اپنی نگریا، بہو رانی، سکندر، سوامی، کلجگ اور سوسائٹی نے انھیں‌ خوب شہرت دی۔ فلم کلجگ اور سوسائٹی کے گیت خاصے مقبول ہوئے۔

    قیامِ پاکستان کے بعد رفیق غزنوی نے کراچی کو اپنا مستقر ٹھہرایا اور ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوگئے۔ رفیق غزنوی نے تقسیمِ ہند سے قبل بڑا عروج دیکھا، لیکن پاکستان آنے کے بعد انھوں نے زندگی کا بڑا حصّہ فن و تخلیق سے دور رہ کر گزارا۔ ریڈیو پاکستان میں اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل زیڈ اے بخاری سے اختلافات کے بعد ملازمت بھی چھوڑ دی تھی۔

    رفیق غزنوی نے کسی موسیقار گھرانے سے تعلق نہ رکھنے کے باوجود اپنے شوق اور لگن سے اس فن میں‌ وہ نام و مقام پیدا کیا جس کی مثال کم ہی ملتی ہے، لیکن ان جیسے نہایت قابل اور باصلاحیت فن کار کو ان کے معاشقوں اور رومان پرور مزاج نے بھی فلم انڈسٹری اور سنیما کے شائقین تک بجائے خود ایک موضوع بنائے رکھا۔