Tag: موسیقار کی برسی

  • پاکستان کے معروف موسیقار استاد واحد حسین کی برسی

    پاکستان کے معروف موسیقار استاد واحد حسین کی برسی

    پاکستان کے نام ور موسیقار استاد واحد حسین 19 نومبر 2004ء کو وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    استاد واحد حسین خان صاحب 1923ء میں دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا تعلق ایک موسیقار گھرانے سے تھا۔ وہ ایسے ماحول میں‌ پروان چڑھے جہاں‌ راگ راگنیوں اور گائیکی کا تذکرہ ہوتا رہتا تھا۔ ان کا موسیقی کی طرف راغب ہونا فطری تھا۔ واحد حسین کے والد استاد الطاف حسین خان صاحب بھی اپنے زمانے کے مشہور موسیقار تھے جب کہ بھائیوں نے بھی موسیقی اور گائیکی کے فن کو اپنایا اور بڑا نام و مقام پیدا کیا۔

    واحد حسین بھی بڑے ہوئے تو اپنے والد سے موسیقی کی تربیت حاصل کی۔ موسیقی کے رموز سیکھنے کے بعد وہ اپنے بھائیوں استاد عظمت حسین خان اور استاد ولایت حسین خان صاحب کے ساتھ محافل اور موسیقی پر منعقدہ کانفرنسوں میں بھی شریک ہونے لگے۔ انھوں نے اس فن میں اپنی صلاحیتوں کا شان دار مظاہرہ کیا اور نام ور ہوئے۔

    1964ء میں ان کے والد کی وفات ہوگئی اور واحد حسین اپنے بھائی استاد ممتاز حسین خان کے ساتھ کراچی منتقل ہوگئے۔ استاد واحد حسین خان نے پربھوداس اور واحد رنگ کے قلمی نام سے متعدد بندشیں بھی مرتّب کی تھیں۔

  • مشہور موسیقار استاد بیبو خان کی برسی

    مشہور موسیقار استاد بیبو خان کی برسی

    آج مشہور موسیقار استاد بیبو خان کا یومِ وفات ہے۔ وہ 25 مارچ 1952ء کو حیدرآباد میں‌ انتقال کرگئے تھے۔ بیبو خان کا تعلق سندھ کے تاریخی اہمیت کے حامل شہر شکار پور سے تھا۔

    استاد بیبو خان کا اصل نام محمد ابراہیم قریشی تھا۔ وہ 1904ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد بھی فنِ موسیقی اور گائیکی سے وابستہ تھے۔ انھیں استاد گامن خان کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ بیبو خان نے موسیقی کے ابتدائی رموز اپنے والد ہی سے سیکھے۔ بعد میں انھوں نے استاد مبارک علی خان اور استاد مراد علی سے موسیقی کی تربیت حاصل کی۔

    ان کے والد دھرپد گانے میں بڑی مہارت رکھتے تھے اور بیبو خان بھی اس میں ماہر ہوئے۔ ان کی گائیکی کا بہت شہرہ ہوا۔ انھیں تقسیم سے قبل آل انڈیا ریڈیو، بمبئی پر ہر ماہ گانے کے پروگرام میں مدعو کیا جاتا تھا اور وہ اپنے فن کا جادو جگا کر داد پاتے تھے۔ اس زمانے میں لوگوں کی تفریح اور موسیقی یا شعر و ادب کے ذوق کی تسکین کا واحد ذریعہ ریڈیو تھا اور استاد بیبو خان کو بھی اس میڈیم کی بدولت دور دور تک سنا اور پہچانا گیا۔

    استاد بیبو خان کے شاگردوں میں‌ متعدد اپنے فن میں‌ ماہر اور نام ور ہوئے۔ ان میں قدرت اللہ خان، نیاز حسین، فدا حسین خان کو استاد کا درجہ حاصل ہوا جب کہ محمد ہاشم کچھی، ہادی بخش خان، مائی اللہ وسائی، محمد صالح ساند اور اللہ دینو نوناری نے بھی خون نام اور مقام پیدا کیا۔

    سندھ کے اس نام ور فن کار کو ٹنڈو یوسف کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • نام وَر موسیقار، گلوکار اور اداکار رفیق غزنوی کا یومِ وفات

    نام وَر موسیقار، گلوکار اور اداکار رفیق غزنوی کا یومِ وفات

    آج برصغیر کے نام ور موسیقار، گلوکار اور اداکار رفیق غزنوی کی برسی ہے۔ وہ 2 مارچ 1974ء کو وفات پاگئے تھے۔

    1907ء میں راولپنڈی میں آنکھ کھولنے والے رفیق غزنوی نے گورڈن کالج راولپنڈی سے گریجویشن کیا۔ انھیں شروع ہی سے موسیقی سے لگاؤ تھا۔ ان کا یہی شوق انھیں استاد عبدالعزیز خان صاحب کے پاس لے گیا جن سے اس فن کے اسرار و رموز سیکھے اور بعد کے برسوں میں ان کا شمار صفِ اوّل کے موسیقاروں میں ہوا۔

    رفیق غزنوی نے اپنے فلمی کیریر کا آغاز اداکاری سے کیا تھا۔ انھوں نے لاہور میں بننے والی پہلی ناطق فلم ہیر رانجھا کا مرکزی کردار نبھایا اور اس فلم کی موسیقی بھی ترتیب دی تھی۔ بحیثیت اداکار خود پر فلمائے گئے نغمات بھی انھوں نے گائے تھے۔ بعد ازاں وہ دہلی چلے گئے جہاں آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہوگئے۔ کچھ عرصہ بعد بمبئی منتقل ہوگئے اور وہاں‌ کئی فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔

    رفیق غزنوی نے یوں تو پاک و ہند میں بننے والی کئی فلموں کے لیے موسیقی ترتیب دی، لیکن ’اپنی نگریا، بہو رانی، سکندر، سوامی، کلجگ اور سوسائٹی نے انھیں‌ خوب شہرت دی۔ فلم کلجگ اور سوسائٹی کے گیت خاصے مقبول ہوئے۔

    قیامِ پاکستان کے بعد رفیق غزنوی نے کراچی کو اپنا مستقر ٹھہرایا اور ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوگئے۔ رفیق غزنوی نے تقسیمِ ہند سے قبل بڑا عروج دیکھا، لیکن پاکستان آنے کے بعد انھوں نے زندگی کا بڑا حصّہ فن و تخلیق سے دور رہ کر گزارا۔ ریڈیو پاکستان میں اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل زیڈ اے بخاری سے اختلافات کے بعد ملازمت بھی چھوڑ دی تھی۔

    رفیق غزنوی نے کسی موسیقار گھرانے سے تعلق نہ رکھنے کے باوجود اپنے شوق اور لگن سے اس فن میں‌ وہ نام و مقام پیدا کیا جس کی مثال کم ہی ملتی ہے، لیکن ان جیسے نہایت قابل اور باصلاحیت فن کار کو ان کے معاشقوں اور رومان پرور مزاج نے بھی فلم انڈسٹری اور سنیما کے شائقین تک بجائے خود ایک موضوع بنائے رکھا۔

  • معروف موسیقار اور گلوکار نہال عبداللہ کی برسی

    معروف موسیقار اور گلوکار نہال عبداللہ کی برسی

    آج معروف موسیقار اور گلوکار نہال عبداللہ کی برسی ہے۔ وہ 8 فروری 1983ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔

    نہال عبداللہ کا تعلق ہندوستان کی ریاست جے پور سے تھا جہاں وہ 1924ء میں قصبہ چڑاوا میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا گھرانا سُر اور ساز کے حوالے مشہور تھا۔ نہال عبداللہ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد استاد اللہ دیا سارنگی نواز اور اپنے بھائی استاد جمال خان سارنگی نواز سے حاصل کی تھی۔

    اس فن کار کی وابستگی اور شہرت کا اہم میڈیم ریڈیو رہا۔ وہ‌ 1948ء میں ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوئے تھے۔ نہال عبداللہ نے 1951ء میں پاکستان کے قومی ترانے کی کمپوزنگ میں حصّہ لیا اور 1953ء میں جب یہ قومی ترانہ ریکارڈ ہوا تو اس میں ان کی آواز بھی شامل تھی۔

    نہال عبداللہ نے ایک فلم چراغ جلتا رہا کی موسیقی بھی ترتیب دی تھی جس کے ہدایت کار فضل احمد کریم فضلی تھے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں انھوں نے نفیس فریدی کا لکھا ہوا گیت ’’پاکستانی بڑے لڑیا، جن کی سہی نہ جائے مار‘‘ گا کر بے حد شہرت حاصل کی تھی۔ معروف شاعر عزیز حامد مدنی کی ایک غزل ’’تازہ ہوا بہار کی دل کا ملال لے گئی‘‘ بھی ان کی کمپوزنگ میں بہت مشہور ہوئی۔ اسے مہدی حسن کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔

  • سدا بہار دھنوں کے خالق، مشہور موسیقار ایم اشرف کی برسی

    سدا بہار دھنوں کے خالق، مشہور موسیقار ایم اشرف کی برسی

    درجنوں سریلی اور سدا بہار دھنوں کے خالق، موسیقار ایم اشرف 4 فروری 2007ء کو یہ ہمیشہ کے لیے دنیا چھوڑ گئے تھے۔

    تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا پلکیں‌ بچھا دوں، ساری عمر بِتا دوں جیسے درجنوں لازوال گیتوں کی موسیقی ترتیب دینے والے ایم اشرف یکم فروری 1938ء کو پیدا ہوئے۔ وہ ماسٹر عنایت اور ماسٹر عبداللہ کے بھانجے اور موسیقار اختر حسین کے شاگرد تھے۔

    بطور میوزک ڈائریکٹر انھوں نے شباب کیرانوی کی فلم سپیرن سے اپنے سفر کا آغاز کیا اور چار دہائیوں سے زائد عرصے تک اردو اور پنجابی فلموں کے لیے دھنیں‌ تخلیق کیں۔ ایم اشرف نے اپے کیریئر میں 400 فلموں کی موسیقی ترتیب دی اور لگ بھگ 2800 فلمی گانے کمپوز کیے۔ انھوں نے متعدد گلوکاروں کو بھی فلم انڈسٹری میں‌ متعارف کروایا جن میں ناہید اختر، نیرہ نور، رجب علی اور دیگر شامل ہیں۔ وہ 60 اور 70 کے عشروں کے مصروف ترین موسیقار تھے۔

    ایم اشرف کو کئی ایوارڈز سے نوازا گیا تھا۔ یہ دنیا رہے نہ رہے میرے ہمدم، ہمارے دل سے مت کھیلو، تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا، پلکیں‌ بچھا دوں جیسے کئی گیتوں کو ان کی موسیقی نے مقبولِ عام بنایا اور یہ فلمیں‌ بھی اپنے گانوں کی وجہ سے سپر ہٹ ثابت ہوئیں۔ آج بھی اس زمانے کی ترتیب دی ہوئی موسیقی میں‌ یہ گانے ہمارے کانوں‌ میں‌ رس گھولتے ہیں اور انھیں نہایت ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔ ملکہ ترنم نور جہاں اور مہدی حسن سے لے کر طاہرہ سید، رجب علی، اخلاق احمد، نیّرہ نور اور کئی نام ور گلوکاروں نے اُن کے مرتب کردہ گیت گائے۔

    ان کی مشہور فلموں میں سپیرن، ماں کے آنسو، تیس مار خان، جمیلہ، عورت کا پیار، آئینہ، سوسائٹی، انسان اور آدمی، دامن اور چنگاری، میرا نام ہے محبت، آئینہ اور صورت، شبانہ، گھرانہ اور قربانی شامل ہیں۔ ایم اشرف نے مجموعی طور پر 13 فلموں کے لیے بہترین موسیقار کے نگار ایوارڈز حاصل کیے جو ایک ریکارڈ ہے۔

  • معروف فلمی موسیقار شوکت علی ناشاد کا تذکرہ

    معروف فلمی موسیقار شوکت علی ناشاد کا تذکرہ

    پاکستان کے معروف فلمی موسیقار شوکت علی ناشاد 3 جنوری 1981ء کو لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    شوکت علی ناشاد کا تعلق دہلی سے تھا۔ انھوں نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز 1947ء میں کیا۔ انھوں نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم ماسٹر غلام حسین اور موسیقار نوشاد علی سے حاصل کی تھی۔

    شوکت علی ناشاد کی ترتیب دی ہوئی موسیقی میں کئی فلموں کے نغمات مقبول ہوئے اور آج بھی اسی ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں۔

    شوکت علی ناشاد نے ہندوستان میں 30 فلموں کی موسیقی ترتیب دی اور 1963ء میں ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔ یہاں بھی انھوں نے فلمی صنعت سے وابستگی کے دوران اپنے فن کا سفر جاری رکھا اور لگ بھگ 60 فلموں کے لیے موسیقی ترتیب دی۔

    اس معروف موسیقار نے پاکستانی فلم انڈسٹری کی مشہور فلموں‌ مے خانہ، جلوہ، ہم دونوں، تم ملے پیار ملا، سال گرہ، سزا ، افسانہ، چاند سورج، رم جھم، بندگی اور دیگر کے لیے اپنے فن اور صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔

    انھیں‌ لاہور کے ایک قبرستان میں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔

  • سریلی اور لازوال دھنوں کے خالق امجد بوبی کی برسی

    سریلی اور لازوال دھنوں کے خالق امجد بوبی کی برسی

    فلمی موسیقاروں میں امجد بوبی کو جہاں سریلی، مدھر اور پُراثر دھنوں کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے، وہیں ان کی شہرت نئے تجربات اور موسیقی میں جدت اپنانے والے تخلیق کار کی بھی ہے۔

    آج کئی لازوال دھنوں کے خالق امجد بوبی کی برسی منائی جارہی ہے۔ ان کا انتقال 15 اپریل 2005 کو ہوا تھا۔

    امجد بوبی نے 1960 کی دہائی میں اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔ بہ طور موسیقار ان کی پہلی فلم راجا جانی تھی۔ تاہم اس فلم کی نمائش 1976 میں ہوئی۔

    گھونگھٹ، پرورش، کبھی الوداع نہ کہنا، نادیہ، روبی، نزدیکیاں، سنگم، چیف صاحب، گھر کب آوٴ گے، یہ دل آپ کا ہوا جیسی کام یاب فلموں نے امجد بوبی کی شہرت کا سبب بنیں۔

    نئی اور کلاسیکی دھنیں تخلیق کرنے والے امجد بوبی کا فنی سفر چالیس سال پر محیط ہے۔

    امجد بوبی ان موسیقاروں میں سے ایک ہیں جنھوں نے پاکستانی فلم انڈسٹری میں ممبئی کے گلوکاروں کو متعارف کروانے کا تجربہ بھی کیا اور متعدد فلموں کے لیے ہندوستان کے گائیکوں کی آواز میں گیت ریکارڈ کروائے۔