Tag: موسیقار کی وفات

  • یومِ وفات: فلمی موسیقی سے شائقین کے دل موہ لینے والے مدن موہن کا تذکرہ

    یومِ وفات: فلمی موسیقی سے شائقین کے دل موہ لینے والے مدن موہن کا تذکرہ

    بالی وڈ میں مدن موہن کا سفر تین دہائیوں پر محیط رہا جس میں انھوں نے کئی مدھر دھنیں‌ ترتیب دیں، اور اپنے فن کی بدولت کئی فلمی گیتوں کو لازوال بنا دیا۔ مدن موہن نے 1975ء میں آج ہی کے دن دنیا سے کوچ کیا تھا۔

    بالی وڈ کو مدھر دھنیں دینے والے مدن موہن کا وطن عراق تھا جہاں انھوں نے 25 جون 1924ء کو آنکھ کھولی اور بعد میں اپنے آبائی شہر چکوال چلے آئے۔ کچھ عرصہ یہاں رہ کر ممبئی چلے گئے اور برٹش آرمی میں کمیشن حاصل کرلیا، لیکن جلد ہی نوکری چھوڑ دی اور آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہوگئے۔ یہاں بھی زیادہ عرصہ کام نہ کیا اور بالی وڈ فلم انڈسٹری سے منسلک ہو گئے۔

    بالی وڈ میں‌ انھوں نے پہلی قابلِ ذکر کام یابی 1950ء میں حاصل کی اور فلم "آنکھیں” کی موسیقی ترتیب دے کر فلم سازوں کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ اس وقت برصغیر میں لتا اور محمد رفیع جیسے گلوکاروں کا شہرہ تھا اور مذکورہ فلم کا گیت "ہم عشق میں برباد رہیں گے” محمد رفیع کی آواز میں بہت مقبول ہوا۔ ان کی اگلی فلم "ادا” تھی جس میں لتا منگیشکر نے مدن موہن کی موسیقی میں نغمات ریکارڈ کروائے۔

    مدہن موہن نے فلمی موسیقار کی حیثیت سے اپنے کیریئر کے کئی یادگار دھنیں تخلیق کیں اور ان میں سے اکثر لازوال ثابت ہوئیں۔ آج بھی ان کی ترتیب دی ہوئی موسیقی میں گیت سننے والوں کو مسحور کردیتے ہیں۔

    مدن موہن کو چار مرتبہ فلم فیئر ایوارڈ کے لیے نام زد کیا گیا، اور بعد ازمرگ "آئیفا ایوارڈ” سے بھی نوازا گیا۔

    یہ چند یادگار فلمی گیت جن کی موسیقی مدن موہن نے ترتیب دی تھی۔

    نیناں برسیں رِم جھم رم جھم…
    آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل کے مجھے
    لگ جا گلے کہ پھر یہ حسین رات ہو نہ ہو…
    وہ بھولی داستاں لو پھر یاد آگئی
    یوں حسرتوں کے داغ جگر میں سمو لیے…

  • پاکستانی فلم انڈسٹری کے باکمال موسیقار اے حمید کی برسی

    پاکستانی فلم انڈسٹری کے باکمال موسیقار اے حمید کی برسی

    پاکستانی فلم انڈسٹری کے لیے لازوال اور سدا بہار دھنیں تخلیق کرنے والے اے حمید 20 مئی 1991ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج اے حمید کی برسی ہے۔ ان کا پورا نام شیخ عبدُالحمید تھا جنھیں فلمی صنعت میں اے حمید کے نام سے پہچانا جاتا ہے

    وہ 1924ء میں امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد شیخ محمد منیر موسیقی کا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے اور انھوں نے دو فلموں کی موسیقی بھی ترتیب دی تھی۔ یوں اے حمید میں بھی سُر ساز کا شوق، موسیقی اور گائیکی کا ذوق پیدا ہوا اور انھوں نے اسی فن میں نام و مقام حاصل کیا۔

    اے حمید کے فلمی کیریئر کا آغاز فلم انجام سے ہوا۔ فلمی دنیا میں موسیقار کی حیثیت سے ان کی شہرت کا آغاز ہدایت کار ایس ایم یوسف کی فلم سہیلی سے ہوا۔ اے حمید کی دیگر فلموں میں رات کے راہی، اولاد، آشیانہ، شریکِ حیات، پیغام، دوستی، جواب دو، ثریا بھوپالی، انگارے، بیگم جان اور نیا انداز سرِفہرست ہیں۔ انھوں نے بہترین موسیقار کا نگار ایوارڈ بھی حاصل کیا تھا۔ انھیں یہ ایوارڈ "چٹھی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دے” جیسے خوب صورت گیت کی لازوال دھن تخلیق کرنے پر دیا گیا تھا۔

    پاکستانی فلموں کے دیگر مقبول گیتوں میں "ہم بھول گئے ہر بات مگر تیرا پیار نہیں بھولے، کہیں دو دل جو مل جاتے بگڑتا کیا زمانے کا، تھا یقیں کہ آئیں گی یہ راتاں کبھی، کس نام سے پکاروں کیا نام ہے تمہارا، یہ وادیاں یہ پربتوں کی شاہ زادیاں” شامل ہیں جن کی دھنیں اے حمید کی تخلیق کردہ ہیں۔

    پاکستان فلم انڈسٹری کے اس باکمال موسیقار کو راولپنڈی کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ اے حمید نے اردو کے علاوہ متعدد پنجابی فلموں کی موسیقی بھی ترتیب دی۔

  • مشہور موسیقار استاد بیبو خان کی برسی

    مشہور موسیقار استاد بیبو خان کی برسی

    آج مشہور موسیقار استاد بیبو خان کا یومِ وفات ہے۔ وہ 25 مارچ 1952ء کو حیدرآباد میں‌ انتقال کرگئے تھے۔ بیبو خان کا تعلق سندھ کے تاریخی اہمیت کے حامل شہر شکار پور سے تھا۔

    استاد بیبو خان کا اصل نام محمد ابراہیم قریشی تھا۔ وہ 1904ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد بھی فنِ موسیقی اور گائیکی سے وابستہ تھے۔ انھیں استاد گامن خان کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ بیبو خان نے موسیقی کے ابتدائی رموز اپنے والد ہی سے سیکھے۔ بعد میں انھوں نے استاد مبارک علی خان اور استاد مراد علی سے موسیقی کی تربیت حاصل کی۔

    ان کے والد دھرپد گانے میں بڑی مہارت رکھتے تھے اور بیبو خان بھی اس میں ماہر ہوئے۔ ان کی گائیکی کا بہت شہرہ ہوا۔ انھیں تقسیم سے قبل آل انڈیا ریڈیو، بمبئی پر ہر ماہ گانے کے پروگرام میں مدعو کیا جاتا تھا اور وہ اپنے فن کا جادو جگا کر داد پاتے تھے۔ اس زمانے میں لوگوں کی تفریح اور موسیقی یا شعر و ادب کے ذوق کی تسکین کا واحد ذریعہ ریڈیو تھا اور استاد بیبو خان کو بھی اس میڈیم کی بدولت دور دور تک سنا اور پہچانا گیا۔

    استاد بیبو خان کے شاگردوں میں‌ متعدد اپنے فن میں‌ ماہر اور نام ور ہوئے۔ ان میں قدرت اللہ خان، نیاز حسین، فدا حسین خان کو استاد کا درجہ حاصل ہوا جب کہ محمد ہاشم کچھی، ہادی بخش خان، مائی اللہ وسائی، محمد صالح ساند اور اللہ دینو نوناری نے بھی خون نام اور مقام پیدا کیا۔

    سندھ کے اس نام ور فن کار کو ٹنڈو یوسف کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • لازوال دھنوں کے خالق نثار بزمی کی برسی

    لازوال دھنوں کے خالق نثار بزمی کی برسی

    پاکستان فلم انڈسٹری سے وابستہ شعرا کے خوب صورت گیتوں کو اپنی مدھر دھنوں سے لازوال اور یادگار بنا دینے والے نثار بزمی کو دنیا سے گئے 14 برس بیت گئے۔ 1997ء میں وفات پانے والے نثار بزمی کا شمار ملک کے صفِ اوّل کے موسیقاروں میں ہوتا ہے۔

    دسمبر 1924ء کو صوبہ مہاراشٹر کے ضلع خان دیش کے ایک گائوں میں پیدا ہونے والے نثار بزمی کا اصل نام سید نثار احمد تھا۔ وہ بچپن ہی سے موسیقی سے شغف رکھتے تھے۔والد نے ان کا شوق اور موسیقی سے رغبت دیکھتے ہوئے انھیں استاد امان علی خان کے پاس بمبئی بھیج دیا جہاں انھوں نے موسیقی کے اسرار و رموز سیکھے۔

    نثار بزمی نے آل انڈیا ریڈیو میں چند سال میوزک کمپوزر کی حیثیت سے کام کیا اور 1946ء میں فلم ‘جمنا پار’ سے فلم نگری میں اپنا سفر شروع کیا، وہ تقسیم کے پندرہ برس تک ہندوستان کی فلم انڈسٹری سے وابستہ رہے اور پھر پاکستان آگئے جہاں انھوں نے اپنے وقت کے باکمال موسیقاروں کے درمیان اپنے فن کی بدولت بڑا نام اور مرتبہ پایا۔

    فضل احمد کریم فضلی کی فلم ’ایسا بھی ہوتا ہے‘سے پاکستانی فلم انڈسٹری میں نثار بزمی نے اپنے کام کا آغاز کیا۔ اسی فلم میں نور جہاں نے نثار بزمی کی تیار کردہ دھن پر غزل "ہو تمنا اور کیا جانِ تمنا آپ ہیں” گائی تو اس کا شہرہ سرحد پار بھی ہوا۔ فلمی دنیا میں اس کام یاب آغاز کے بعد وہ آ گے بڑھتے چلے گئے۔

    نثار بزمی نے فلم ‘لاکھوں میں ایک’ کے مشہور گیت ’چلو اچھا ہوا تم بھول گئے‘ کی دھن ترتیب دی اور یہ گیت آج بھی سماعتوں میں‌ رس گھول رہا ہے۔ ایک اور گانا ‘بڑی مشکل سے ہوا ترا میرا ساتھ پیا…’ نثار بزمی کی یاد دلاتا ہے۔ انھوں نے ‘اے بہارو گواہ رہنا، اک حسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا، رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ، آپ دل کی انجمن میں حسن بن کر آ گئے، دل دھڑکے، میں تم سے یہ کیسے کہوں، کہتی ہے میری نظر شکریہ، کاٹے نہ کٹے رتیاں، سیاں تیرے پیار میں جیسے لازوال گیتوں کی دھنیں‌ ترتیب دیں جنھیں اپنے وقت کے مشہور و معروف گلوکاروں نے گایا تھا۔

    نثار بزمی نے طاہرہ سید، نیرہ نور، حمیراچنا اور عالمگیر جیسے گلوکاروں کو فلمی دنیا میں آواز کا جادو جگانے کا موقع فراہم دیا۔

    مختلف شاعروں کی نظموں، غزلوں اور فلمی گیتوں کی دھنیں ترتیب دینے والے نثار بزمی خود بھی شاعر تھے۔ ان کا مجموعہ کلام ’پھر سازِ صدا خاموش ہوا‘ کے نام سے شایع ہوچکا ہے۔

    پاکستان میں درجنوں فلموں کے کئی گیتوں کی موسیقی ترتیب دینے والے نثار بزمی کو حکومت نے پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا۔