Tag: موسیقی

  • ویڈیو: موسیقی کی تاریخ کا ایک جذباتی لمحہ

    ویڈیو: موسیقی کی تاریخ کا ایک جذباتی لمحہ

    عالمی شہرت یافتہ قوال نصرت فتح علی خان کے انتقال کے بعد موسیقی کی تاریخ میں پیش آنے والے جذباتی لمحے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہے۔

    نصرت فتح علی خان پاکستانی موسیقی کے سب سے بڑے لیجنڈ ہیں، وہ ایک سدا بہار ستارہ ہیں جسے ہر نسل کے لوگ ان کی موسیقی سے محبت کرتے ہیں۔

    نصرت فتح علی خان کے انتقال کو دو دہائیوں سے زیادہ ہو گیا لیکن ان کی قوالی ہر ایک کے دلوں میں زندہ ہے، گلوکار نے قوالی، غزل اور گیت گا کر خاص پہچان بنائی۔

    نصرت فتح علی خان کی وراثت کو ان کے بھتیجے راحت فتح علی خان نے جاری رکھا ہے، راحت فتح علی آج بھی اپنے چچا کو یاد کرتے ہوئے جذباتی ہو جاتے ہیں، راحت فتح علی خان کے چچا نے انہیں وہ موسیقی سکھائی جس سے آج شہرت کی بلندی پر ہیں۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Styleista Pakistan (@styleista.pk)

    تاہم معروف موسیقار راحت فتح علی خان کی اپنے چچا و عالمی شہرت یافتہ قوال نصرت فتح علی خان کے انتقال کے بعد ان کے بغیر پہلی بار اسٹیج پر پرفارم کرنے کی ماضی کی ویڈیو وائرل ہورہی ہے۔

    ویڈیو میں نوجوان راحت فتح علی خان کو اپنے چچا کی مشہور قوالی ’انکھیاں اوڑیک دیاں‘ گاتے ہوئے سنا جاسکتا ہے اور وہ اچانک گاتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتے ہیں۔

    ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پرفارمنس کے دوران راحت فتح خان اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتے، ویڈیو میں پرفارم کرنے والا قوال کا گروپ بھی اپنے استاد کو یاد کر کے روتے ہوئے نظر آئے جبکہ آڈینس بھی جذباتی نظر آرہے ہیں۔

    ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد نصرف فتح علی خان کے مداح بھی افسردہ ہوگئے، ایک صارف نے کمنٹ میں لکھا کہ ’ اس دن پاکستان کے ساتھ بھارت کے لوگ بھی رو رہے ہوں گے، ایک اور صارف نے لکھا کہ جب بھی  اس ویڈیو کو دیکھتا ہوں تو دل روتا ہے۔

  • بڑھاپے میں موسیقی کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟

    بڑھاپے میں موسیقی کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟

    مشہور مقولہ ہے کہ موسیقی روح کی غذا ہوتی ہے، یہ ایک ایسی قوت ہے جو انسان کے جذبات کو ابھارتی ہے، بُھولی بسری یادیں واپس لاتی ہے جسے سننے والا کچھ دیر کیلئے اس میں مگن ہوجاتا ہے۔

    ذہنی تناؤ، اضطراب کو کم کرنے اور دماغی طور پر صحت مند رہنے کے لیے ماہرین نے میوزک تھراپی کو غیر معمولی صلاحیت کا حامل قرار دیا ہے۔

    میوزک تھراپی کے شعبے نے پچھلی صدی میں بہت ترقی کی ہے، یہ اب اسکولوں، کمیونٹی سینٹرز اور معاون رہائشی مراکز میں پیش کیا جا رہا ہے۔ بڑی عمر کے بالغ افراد خاص طور پر موسیقی سننے سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں کیونکہ یہ انہیں تخلیقی صلاحیتوں، سماجی کاری اور ذہنی طور پر متحرک ہونے کا ایک ذریعہ فراہم کرتی ہے۔

    یونیورسٹی آف مشی گن کی جانب سے صحت مند بڑھاپے کے متعلق کیے جانے والے پول کے نئے نتائج کے مطابق 50 سے 80 برس کے درمیان 75 فی صد افراد کا کہنا تھا کہ موسیقی ان کو ذہنی دباؤ سے راحت بخشتی ہے۔
     health اس کے علاوہ65 فیصد افراد کا کہنا تھا کہ موسیقی ان کی ذہنی صحت یا مزاج میں بہتری میں مدد دیتی ہے جبکہ60 افراد نے بتایا کہ موسیقی سننے سے وہ اپنے اند ر توانائی محسوس کر تے ہیں۔

    مزید برآں 41 فی صد افراد کا کہنا تھا کہ موسیقی ان کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہے جبکہ 48 فی صد نے موسیقی کو اپنی زندگی میں معمولی اہم قرار دیا۔

    پول ٹیم کے ساتھ کام کرنے والے پروفیسر جول ہوویل کا کہنا تھا کہ موسیقی میں زندگی کو بامعنی اور پُرلطف بنانے کی طاقت ہوتی ہے۔ یہ انسانی وجود کے بنیادی سانچے میں بُنی ہوئی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ موسیقی اپنے اندر صحت کے متعدد مسائل پر محسوس کیے جانے والے اثرات بھی رکھتی ہے، انہوں نے بتایا کہ محققین یہ جانتے ہیں کہ موسیقی بلڈ پریشر اور ڈپریشن کے لیے کیے جانے والے اقدامات پر پڑنے والے مثبت اثرات سے تعلق رکھتی ہے۔

  • موسیقی کا شوق رکھنے والے غزہ کے نوجوان کا کارنامہ

    موسیقی کا شوق رکھنے والے غزہ کے نوجوان کا کارنامہ

    غزہ: موسیقی کا شوق رکھنے والے غزہ کے نوجوان نے کارنامہ انجام دیتے ہوئے ناکارہ سامان کی مدد سے انوکھا ڈرم سیٹ تیار کر لیا۔

    روئٹرز کے مطابق کے مطابق غزہ کے اس نوجوان موسیقار کا بچپن سے خواب تھا کہ اس کے پاس اپنا ایک ڈرم سیٹ ہو، چناں چہ حسان قسیم نے آخر کار ری سائیکل شدہ اشیا کا استعمال کرتے ہوئے ڈرم سیٹ رکھنے کا اپنا خواب پورا کر لیا۔

    حسام اب اپنی مرضی کی دھنیں بجاتے ہیں، ڈرم سیٹ تیاری میں انھوں نے بائیک کے کلچ اور چَین، برتن، پلاسٹک کی بالٹیاں، لکڑی کی ٹرے استعمال کی۔

    حسام نے بتایا ’’میں نے ایک بائیک کلچ استعمال کی اور اسے ایک ’کریش سمبل‘ (موسیقی کا آلہ) میں بدل دیا، ڈرم (snare) بنانے کے لیے میں نے برتن اور ریڈیوگراف کا استعمال کیا، اسے اچھی طرح سے جوڑا اور یہ آواز دینے لگا ہے۔‘‘

    انھوں نے مزید بتایا ٹام 1 اور ٹام 2 کے طور پر انھوں نے دو بالٹیاں استعمال کیں، اور انھیں لکڑی کے اسٹینڈ پر جمایا، جس سے اس میں اچھی آواز نکلنے لگی۔

    حماس کا اسرائیل پر 5 ہزار راکٹ داغنے کا دعوٰی، بڑے آپریشن کا اعلان

    حسام کا کہنا تھا کہ ڈرم سیٹ کے ایک اہم حصے یعنی ٹریش کے متبادل کے طور پر انھوں نے اس ٹرے سے کام لیا جو چائے پیش کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ انھوں نے کہا ’’میرا خواب ہے کہ خود کو بہتر بنا سکوں، بین الاقوامی اداروں میں پڑھ سکوں اور موسیقی کا مزید تجربہ حاصل کرلوں۔

  • سعودی عرب کے اسکولوں کے حوالے سے اہم فیصلہ

    سعودی عرب کے اسکولوں کے حوالے سے اہم فیصلہ

    ریاض:سعودی وزارت ثقافت کی جانب سے اہم اعلان سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اب اسکولوں میں بچوں کو موسیقی لرننگ کورس کرایا جائے گا۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب میں اسکولوں میں بچوں کو موسیقی سکھانے کے لیے اساتذہ کی اہلیت کی خاطر دو سالہ ڈپلوما کورس متعارف کرایا گیا ہے۔ ڈپلوما کورس کا آغاز رواں ماہ ستمبر میں ہوگا۔

    ریاض میں ہاؤس آف میوزک ہائر انسٹی ٹیوٹ نے وزارت ثقافت سے منظور شدہ پہلا میوزک ڈپلومہ شروع کیا ہے، جسے سعودیہ میں اپنی نوعیت کا پہلا موسیقی لرننگ کورس کہا جائے تو غلط نہ ہوگا،

    یہ نئی نسل کے مستقبل کی امنگوں کے مطابق اقدام ہے جبکہ یہ تعلیم اور موسیقی کی کارکردگی کے ٹریکس کے ذریعے تعلیم کے میدان میں ایک معیاری پیش رفت کی عکاسی کرتا ہے۔

    انسٹی ٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر معتز الشبانہ نے انسٹی ٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر معتز الشبانہ نے پیر کے روز انسٹی ٹیوٹ کے ہیڈ کوارٹر میں وزارت ثقافت برائے قومی شراکت داری اور ترقی کے انڈر سیکرٹری نھیٰ قطان، صحافیوں، موسیقاروں اور دیگر افراد کی موجودگی کے دوران میڈیا سے بات کی، اس موقع پر اُن کا کہنا تھا کہ ڈپلومہ پروگرام ستمبر کے مہینے میں شروع ہوگا۔

    انسٹی ٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرنے نشاندہی کی کہ پروگرام میں دو ٹریک شامل ہیں۔ پہلا موسیقی کی تعلیم اوردوسرا موسیقی کی کارکردگی ہے۔

    موسیقی لرننگ کورس دو سال کی مدت میں ختم ہوگا، اس پروگرام کا مقصد موسیقی کی ثقافت کو ایک آفاقی زبان کے طور پر پھیلانے میں اہم کردار ادا کرنا ہے، جبکہ یہ پروگرام دیگر ثقافتوں کے ساتھ رابطے کے لیے ایک اہم کردار ادا کرے گا۔

  • اونچی آواز میں میوزک چلانے پر کار سوار قتل

    اونچی آواز میں میوزک چلانے پر کار سوار قتل

    ترکیہ کے شہر استنبول میں اونچی آواز میں چلانے کی پاداش میں ایک شہری کو چاقو کے وار کرکے بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

    رپورٹ کے مطابق ترکیہ کے شہر استنبول میں ہفتے کے آخر میں اونچی آواز میں موسیقی چلانا معمول کی بات ہے۔ استنبول ملک کا دوسرا بڑا شہر ہے اور بیرون ملک سے آنے والوں کے لیے پہلا سیاحتی مقام ہے۔

    لیکن استنبول کے اندر واقع گنگورین کے علاقے میں ایک حیران کن واقعہ پیش آیا،  جہاں اونچی آواز میں میوزک چلانے کی پاداش میں ایک شہری کو چاقو سے وار کرکے بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

    رپورٹ کے مطابق  38 سالہ ترک شہری ھچی کار میں گھر جاتے ہوئے اونچی  آواز میں میوزک سن رہا تھا کہ پیچھے سے آنے والے موٹر سائیکل ڈرائیور نے اسے میوزک کی آواز کم کرنے کو کہا۔

    ھچی نے میوزک کم کرنے سے انکار کیا  تو دونوں کے درمیان جھگڑا ہوا اس دوران موٹر سائیکل سوار شخص نے چاقو کا وار ھچی کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔

    جب راہگیر اسے بچانے کی کوشش کر رہے تھے کہ ایک موٹر سائیکل سوار نے اس پر چاقو سے وار کیا بعد میں متاثرہ شخص کو اسپتال لے جایا گیا مگر وہ جانبر نہ ہوسکا۔

  • سُر، لفظ اور تال

    سُر، لفظ اور تال

    فن موسیقی تین چیزوں کا امتزاج ہے سُر، لفظ اور تال۔ موسیقی میں ان تینوں عناصر کی اپنی اپنی جداگانہ اہمیت ہے جس میں یہاں ہم لفظ کی غنائی نوعیت کو موسیقی کی مختلف صورتوں کے ذریعے زیرِ بحث لا رہے ہیں۔

    قارئین، ہر لفظ اپنی ایک غنائی ترکیب کے ساتھ وجود میں آتا ہے۔ اس لحاظ سے صوت، لفظ اور غنا دونوں پر مقدم ٹھہرتی ہے، کیونکہ صوت سے ہی لفظ تشکیل پاتا ہے اور غنا (موسیقی) بھی صوت ہی سے ترتیب پاتی ہے۔

    لفظ آوازوں کا ایک مجموعہ ہوتا ہے۔ آوازوں کے اس مجموعے کو ایک خاص معنویت دے دی جاتی ہے۔ ماہرِ لسانیات کے نزدیک زبان گلے سے نکلی ہوئی ایسی آوازوں پر مشتمل ہوتی ہے جس میں اس کی معنویت اس زبان کے بولنے والوں نے شعوری طور پر متعین کی ہوتی ہے۔ اس کی معنویت میں اشاروں، چہرے اور ہاتھوں کی حرکات و سکنات سے اضافہ بھی کیا جاتا ہے۔

    کچھ لوگ زبان کے اس عمل کو شعوری کی بجائے نفسیاتی عمل قرار دیتے ہیں، کچھ اس عمل کو حیاتیات سے جوڑ دیتے ہیں اور کچھ کے نزدیک زبان مخصوص علامات کا ایک نظام ہوتا ہے۔ پیش نظر مضمون میں موسیقی کے حوالے سے ہمارا تعلق صرف لفظ کے معنوی اور صوتی تصور سے ہو گا۔

    لفظ اور معانی کا آپس جو رشتہ استوار ہوا ہے یہ عمل کس بنیاد پر ہوا ہے، یعنی اس کے پس منظر میں وہ کیا عوامل کارفرما ہوتے ہیں جو لفظ کی معنویت کا تعین کرتے ہیں۔ یہ وہ پیچیدہ مسئلہ ہے جو صدیوں سے لسانیات کا موضوع رہا ہے۔ موسیقی کا، لفظ اور معانی کے اس پیچیدہ مسئلے سے ایک خاص تعلق ہوتا ہے۔ دوسرا لفظ کے غنائی یا صوتی تصور کے حوالے سے دیکھا جائے تو موسیقی میں میں حروف علّت (vowel) حروفِ صحیح (consonant) کی نسبت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔

    اگر یہ کہا جائے کہ موسیقی کا اصل تعلق حروفِ علّت سے ہے تو غلط نہ ہو گا، کیونکہ یہی وہ حروف ہیں جن کو کھینچ تان کر کے یا گھٹا بڑھا کر ان سے صوتیت یا غنا پیدا کی جاتی ہے۔ اس امر کی وضاحت کے لیے یہ جملہ دیکھیے:

    میں آج گھر جاؤں گا
    میں آج گھر جاؤں گا
    میں آج گھر، جاؤں گا
    میں آج، گھر جاؤں گا
    میں آج گھر جاؤں گا؟
    میں آج گھر جاؤں گا!

    آپ اس جملے سے سمجھ سکتے ہیں کہ اگر اسے روزمرّہ کے مطابق مختلف طریقوں سے ادا کیا جائے تو مختلف معانی پیدا کیے جا سکتے ہیں۔ جملے سے مختلف معانی برآمد کرنے کے لیے صرف الفاظ پر تاکید کو بدلنا ہوگا۔ جملے میں مختلف مقامات پر ٹھہرنے اور کچھ الفاظ کو کھینچ کر ادا کرنے سے مفاہیم میں تبدیلی واقع ہوتی جائے گی۔ یہ معنی آفرینی عمل موسیقی میں اساسی حیثیت رکھتا ہے۔

    موسیقی میں حروف علّت پر معنی آفرینی کے اس عمل سے ایک ہی لفظ سے مختلف احساسات اور اس کی معنویت کو برآمد کرنا ممکن ہے۔

    اس طرح ایک ہی لفظ سے حیرت، استعجاب، خوف، امید، مسرت، طنز، نفی، اثبات اور استفہام کی معنویت برآمد کی جاسکتی ہے۔ اور ایک ہی لفظ سے کثیرالمعانی کے اس امر کی مثالوں کو صرف اور صرف موسیقی سے ہی سمجھا جاسکتا ہے جب ایک لفظ کو مختلف غنائی لہجوں میں ادا کیا جائے تو اس امر کی وضاحت ہو جاتی ہے۔

    زبان کے عام بول چال کے لہجہ کے برعکس زبان کے غنائی لہجہ سے الفاظ کی معنویت بدلتی ہے۔ عام بول چال کے لہجے میں لفظوں کی معنویت متعین ہوتی ہے جب کہ موسیقی میں ماہر مغنّی اپنے غنائی لہجے کے اتار چڑھاؤ سے ان کے معنی اور احساسات میں رد و بدل کرتا ہے۔ معنی آفرینی کا یہ عمل موسیقی میں خاص کر ان جذبات و کیفیات کےابلاغ کا سبب بنتا ہے جہاں ابلاغ کے دیگر ذرائع پوری طرح ساتھ نہیں دے پا تے۔ بقول رشید ملک:“جہاں ابلاغ کے مختلف ذرائع کی سرحدیں ختم ہوتی ہیں وہاں سے موسیقی کی اقلیم شروع ہوتی ہے۔ موسیقی بھی ایک زبان ہے۔ جس کے اپنے حروفِ تہجی، اپنے الفاظ، اپنی لسانی ترکیبیں، اپنا روزمرّہ، صرف و نحو اور فصاحت و بلاغت کے لیے اپنے معیار ہیں۔ یہ زبان ان کیفیات اور جذبات کا ابلاغ کرتی ہے جن کی ترسیل کسی اور ذریعے سے ممکن نہیں۔”
    (راگ درپن کا تنقیدی جائزہ)

    یہی وجہ ہے کہ کسی فلم میں ڈرامائی عناصر کو تقویت دینے میں موسیقی ایک اہم اور بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ فلمی گانوں کو فلمی سین، کسی ایکٹر کی شخصیت یا اس کے جذبات و احساسات کو اجاگر کرنے یا ابھارنے کے لیے ترتیب دیا جاتا ہے۔ بعض دفعہ فلم یا ڈراما میں کسی کردار کی باطنی کیفیت کا ابلاغ کسی گانے ہی کے ذریعے ممکن ہوتا ہے۔

    فلمی موسیقی میں شعری ضابطے بنیادی اہمیت رکھتے ہیں اور گانے کے الفاظ کا معانی کے ساتھ گہرا اور مضبوط رشتہ استوار کرنے کے لیے چاہے فنِ موسیقی کے دیگر اصول و ضوابط کو نظرانداز ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ یہی صورتحال عوامی موسیقی میں ہوتی ہے۔ عوامی موسیقی میں بھی شاعری بنیادی اہمیت کی حامل ہوتی ہے اور لفظوں کی ادائیگی میں گانے والا معانی اور تفہیم کے عمل کو بنیادی اہمیت دیتا ہے، گائیکی کے اس عمل میں سُر کی اور دیگر فنِ موسیقی کی شعریات ثانوی حیثیت اختیار کر جاتی ہیں۔ فلمی موسیقی اور عوامی موسیقی میں اکثر گانوں میں ایسی مثالیں ملتی ہیں۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ فلمی موسیقی اپنی ذات میں ایک فن نہیں ہے بلکہ ایک ہنر یا تکنیک ہے جس کا مقصد صرف اور صرف ڈرامائی عناصر کو تقویت دینا ہوتا ہے۔ فلمی موسیقی ہو یا فلمی شاعری دونوں فلم کی کہانی کے تابع ہوتے ہیں۔ باوجود اس کے فلمی موسیقی ہر دور میں ایک خاص اہمیت کی حامل رہی ہے۔

    اس کی اپنی ایک خاص وضع قطع ہوتی ہے۔ فلمی گانے کافی چنچل اور شوخ ہونے کے ساتھ ساتھ کافی اثر انگیز ہوتے ہیں جن میں معنوی گہرائی بدرجۂ اتم موجود ہوتی ہے۔ فلمی موسیقی اور فلمی شاعری خاص طرح کا رومانی تأثر لیے ہوئے ہوتے ہیں جس سے ڈرامائی کیفیت کا تأثر بھرپور انداز سے ابھر کر سامنے آجاتا ہے۔

    کلاسیکی موسیقی یا موسیقی کی آرٹ فارم جو کافی ریاضت طلب فن ہے، فلمی موسیقی اور عوامی موسیقی سے کافی مختلف ہے۔ فلمی موسیقی اور عوامی موسیقی کے بر عکس اس میں لفظوں کو سُر کے تابع کر کے ادا کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موسیقی کی اس آرٹ فارم میں ہمیشہ سُر کو اوّلیت حاصل رہی ہے۔ راگ کا الاپ، گانے کو مکمل طور پر راگ کے رچاؤ کے ساتھ مخصوص کلاسیکل لے تال میں پیش کرنا کلاسیکی موسیقی کی خاصیت ہے۔

    کلاسیکی گائیکی میں فنِ موسیقی کی تمام حدود و قیود اور ضابطوں کا پابندی کے ساتھ خیال رکھا جاتا ہے۔ جب کہ فلمی موسیقی یا عوامی موسیقی میں یہ پابندیاں ضروری نہیں ہوتیں۔ کلاسیکی موسیقی میں جو گانے والا ہوتا ہے وہ ایک منجھا ہوا مغنّی ہوتا ہے جو فن کی باریکیوں پر مکمل دسترس رکھتا ہے اور گانے کے دوران اس کی پیش کش باقی تمام چیزوں پر حاوی رہتی ہے۔ مثلاً وہ سازوں میں خود کو پابند کر کے نہیں گائے گا اور نہ ہی اس کی گائیکی کا انداز پہلے سے متعین کردہ ہوگا۔ اس کا تان، پلٹا، مرکی، زمزمہ اور دوسرے النکار وغیرہ ہر چکر میں پہلے والے تان، پلٹے اور زمزمہ سے مختلف اور جداگانہ ہوں گے۔

    موسیقی کی جمالیات بھی یہی تقاضا کرتی ہے کہ غنائی ترکیبوں کی تکرار پیدا نہ کی جائے کیوں کہ اعادے اور تکرار سے فن پارہ معیار سے گر جاتا ہے۔ گانے کے آغاز سے لے کر اختتام تک وہ ہر چیز سے آزاد رہے گا۔ لیکن اس کی گائیکی موسیقی کے اصول و ضوابط سے باہر نہیں جائے گی۔ پوری گائیکی کے دوران مغنی کا سارا زور راگ کو متشکل کرنے پر صرف ہو گا۔ کیوں کہ کلاسیکی موسیقی اور دیگر موسیقی کے اوضاع میں یہی فرق ہوتا ہے کہ کلاسیکی موسیقی میں راگ اپنی تمام رعنائیوں اور جمالیات کےساتھ سامنے آتا ہے کلاسیکی گائیک اور فلمی موسیقی کے گائیک میں وہی فرق ہوتا ہے جو فلمی شاعر اور غیر فلمی شاعر میں ہوتا ہے۔

    فلمی شاعر اپنی شاعری اور موضوع کی تخلیق کے حوالے سے فلمی کہانی اور اس کے ڈرامائی عناصر کا پابند ہو گا جب کہ غیر فلمی شاعر ایسی تمام روشوں سے آزاد ہو گا جن کا تعین پہلے سے کیا گیا ہو گا۔ فلمی شاعر کے برعکس غیر فلمی شاعر تخیل، موضوع اور جذبات و احساسات میں پہلے سے متعین کی گئی کسی چیز کا پابند نہیں ہوگا۔ اس کی شاعری اس کے اپنے جذبات، تجربات اور مشاہدات کی غماز ہوگی، لیکن شاعری کے اصول و ضوابط کا وہ پوری طرح خیال رکھے گا۔

    جہاں تک کلاسیکی موسیقی میں لفظ اور اس کے معانی کا تعلق ہے تو کلاسیکی موسیقی کی آرٹ فارم میں لفظ اور معنی کا آپس میں رشتہ معطل ہو جاتا ہے، لفظ کو اس طرح سُر میں توڑ موڑ کر ادا کیا جاتا ہے کہ اس کی غنائی اہمیت تو بڑھ جاتی ہے لیکن معنوی سطح پر وہ گر جاتا ہے۔ اس ضمن میں رشید ملک رقم طراز ہیں: “جب موسیقی آرٹ فارم بنتی ہے تو الفاظ اور معانی کا رشتہ معطل ہو جاتا ہے۔ لفظ اپنی ادبی حیثیت کھو دیتا ہے۔ اور اپنی انفرادیت سے دست کش ہو کر نئی نئی صورتیں اختیار کرتا چلا جاتا ہے۔”
    (راگ درپن کا تنقیدی جائزہ)

    دھرو پد، خیال، ترانہ، پربندھ، دھمار، تروٹ اور پَدجو موسیقی کی آرٹ فارم کی اہم اقسام ہیں، ان میں پوری توجہ سُر پر ہی رہتی ہے اور لفظ ٹکڑوں میں تقسیم اس طرح ہو جاتا ہے کہ اس کی پہچان کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ الفاظ کی شکل و صورت یعنی مارفولوجی بالکل بدل جاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں موسیقی کی آرٹ فارم میں شعری ضابطے ثانوی سطح پر چلے جاتے ہیں اور موسیقی کی شعریات کی پابندی اور سُر کی ادائیگی ہر چیز سے مقدم ہو جاتی ہے۔ موسیقی کی اس فارم میں سُروں کے ذریعے جذبے یا احساس کی ترسیل کی جارہی ہوتی ہے جو کافی مشکل کام ہوتا ہے۔ لفظ کی معنویت کو غنائی ترکیب سے برآمد کیا جا رہا ہوتا ہے۔

    نیم کلاسیکی موسیقی دیگر موسیقی کی فارمز کی نسبت موسیقی کی آرٹ فارم کے قدرے زیادہ قریب ہے۔ نیم کلاسیکی موسیقی میں ٹھمری، غزل اور کافی وغیرہ آجاتے ہیں لیکن ان میں بھی لفظ کا معنی کے ساتھ مکمل طور پر رشتہ قائم رہتا ہے اور گائیکی کے دوران شعری ضابطے زیادہ اہمیت اختیار کیے رکھتے ہیں۔ جب کہ موسیقی کی آرٹ فارم میں لفظ کے معانی غنا میں معدوم ہو جاتے ہیں۔ بعض اوقات تو لفظ کی ادائیگی کو اس طرح غنائی ترکیب میں باندھا جاتا ہے اس کی شکل بھی بگڑ کر رہ جاتی ہے۔ دراصل موسیقی کی آرٹ فارم جو خالص کلاسیکی موسیقی پر مشتمل ہے اس میں مغنی فن موسیقی کے تمام اصولوں و ضوابط کو دیگر تمام چیزوں پر چاہے وہ شاعری ہے، لفظ یا اس کی معنوی وضاحت ہے، سب پر مقدم سمجھتا ہے۔

    اس کی وجہ یہ ہے کہ موسیقی کی آرٹ فارم اپنی ذات میں مکمل ایک زبان ہے جس میں جذبات و احساسات اور مافی الضمیر کا ابلاغ سُروں کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ اور ایسے خفیف جذبات و احساسات جن کا ابلاغ لفظ اور اس کی معنوی کشمکش میں پھنس کر رہ جاتا ہے، ایسے جذبات و احساسات کا ابلاغ موسیقی کی آرٹ فارم کے ذریعے ہی ممکن ہوتا ہے۔ بشرطے کہ اس فارم میں “ابلاغ کے فن” پر مغنّی پوری طرح دسترس رکھتا ہو۔ اس کے فن میں کسی طرح کا جھول نہ ہو اور وہ لفظوں کے صوتی تاثر سے ہی معنی پیدا کرنا جانتا ہو۔ لفظ کی صوتی تاثیر کے حوالے سے ابوالاعجاز حفیظ صدیقی لکھتے ہیں: “معانی سے الگ ہو کر بھی ہر لفظ کا اپنا ایک خاص تاثر ہوتا ہے جس کا تعلق ان حروف کی آوازوں اور ان کی ترتیب سے ہوتا ہے جن سے کوئی لفظ بنتا ہے۔ کوئی لفظ ناچتا، گنگناتا ہے، کوئی روتا بسورتا ہے۔ کوئی لبھاتا ہے، کوئی سننے والے کے ذہن پر خوف کا تأثر چھوڑتا ہے اور کوئی سرخوشی و سرمستی کا تأثر دیتا ہے۔ لفظ کے اس تأثر کو جس کا تعلق لفظ کی آوازوں سے ہوتا ہے صوتی تأثر کہتے ہیں۔”
    (کشاف تنقیدی اصطلاحات)

    لفظ کی موسیقیت دو حصّوں پر مشتمل ہوتی ہے، اصوات کی موسیقیت اور معانی کی موسیقیت۔ اوّل الذّکر کا تعلق اس صوتی تأثر سے ہے جو ان حروف کی آوازوں پر مشتمل ہوتا ہے جس سے وہ لفظ تشکیل پاتا ہے۔ صوتی تأثر سے تشکیل پانے والی موسیقی لفظ کی خارجی موسیقی کہلائے گی۔ مؤخر الذّکرکا تعلق لفظ کی معنوی تاثیر سے ہوتا ہے۔ لفظ کے معنوی احساس سے ایک لطیف موسیقیت وجود میں آتی ہے۔ معنوی تاثر سے پیدا ہونے والی موسیقی لفظ کی داخلی موسیقی کہلائے گی۔

    کلاسیکی موسیقی میں تیسرا اہم شعبہ تال کا ہوتا ہے۔ موسیقی کی آرٹ فارم میں تال کا چکر اپنے متعین کردہ ماتروں کے ساتھ ایک دائرہ میں حرکت کرتا ہے۔ تال دو حصّوں پر مشتمل ہوتی ہے۔

    موسیقی کی کوئی فارم بھی تال کے بغیر تشکیل نہیں پا سکتی۔ بندش کے لفظ چاہے وہ حروف صحیح پر مشتمل ہوں یا حروف علّت پر سب تال میں بندھے ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح کسی موزوں شعر کے الفاظ اس کی بحر کے ساتھ بندھے ہوتے ہیں۔

    (از قلم: یاسر اقبال، کتابیات: راگ درپن کا تنقیدی جائزہ، ایلیٹ کے مضامین، شعر، غیر شعر اور نثر، کشاف تنقیدی اصطلاحات، تنقید کی شعریات، مبادیاتِ موسیقی)

  • سعودی موسیقی اور کافی، انوکھے مقابلے کا اعلان

    سعودی موسیقی اور کافی، انوکھے مقابلے کا اعلان

    ریاض: سعودی عرب میں کافی میوزک مقابلے کا اعلان کردیا گیا جس کے تحت عربی موسیقی اور سعودی کافی کے آلات کی آوازوں کے تال میل کے ساتھ موسیقی تخلیق کرنی ہوگی۔

    گلف نیوز کے مطابق سعودی وزارت ثقافت نے سعودی کافی کے سال کی سرگرمیوں کے ایک حصے کے طور پر (سعودی کافی سمفنی) کے نام سے ایک مقابلے کا اعلان کیا ہے۔

    یہ انیشیٹو کوالٹی آف لائف پروگرام کا حصہ ہے جو مملکت کے وژن 2030 کے پروگراموں میں سے ایک ہے جس کے ذریعے وزارت ثقافت سعودی کافی کی ثقافتی قدر اور مملکت کے رسم و رواج کے ساتھ اس کے قریبی تعلق کو منانے کی کوشش کرتی ہے۔

    مقابلے کا مقصد تخلیقی کاموں کے لیے موسیقاروں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے جہاں عربی موسیقی سعودی کافی کے آلات کی آوازوں کے ساتھ مل جاتی ہیں، اس مقابلے میں ایک لاکھ 50 ہزار ریال کے نقد انعامات ہیں۔

    سعودی وزارت ثقافت نے اس مقابلے میں حصہ لینے کے خواہشمند موسیقاروں سے انگیج ڈاٹ ایم او سی ڈاٹ جی او وی ڈاٹ ایس ایس / وائی او ایس سی_ میوزک پر لاگ ان کرنے کے لیے کہا ہے۔

    سعودی وزارت کے مطابق درخواست اور رجسٹریشن کی آخری تاریخ 15 نومبر ہوگی۔ 29 دسمبر کو فاتحین کا اعلان ہونے سے پہلے درخواست کی جانچ 30 نومبر تک جاری رہے گی۔

    پہلا انعام جیتنے والے کو 1 لاکھ سعودی ریال جبکہ دوسرے انعام کے فاتح کو 50 ہزار ریال ملیں گے۔

    اس مقابلے کا خیال سعودی کافی کی تیاری کے مراحل سے پیدا ہوا تھا جس کا آغاز کافی کی پھلیاں بھوننے، پلٹانے، پیسنے اور ٹرپلٹس، کواڈرپلٹس اور کوئنٹپلٹس کو نوٹ کرنے کے لیے ہوتا ہے۔

    کافی کو کپوں میں ڈالنے سے پہلے ایک خاص تال کے مطابق سعودی ثقافت اوراس کی موسیقی کی گہرائی کو بتاتی ہے۔

  • اسپائیڈر مین کا بنگالی ڈانس

    اسپائیڈر مین کا بنگالی ڈانس

    موسیقی سنتے اور رقص ہوتا دیکھتے ہی ہر شخص کا دل گانے اور رقص کرنے کے لیے مچلنے لگتا ہے، بعض دفعہ موسیقی اتنی جاندار ہوتی ہے کہ سننے والے بے اختیار اس پر جھوم اٹھتے ہیں۔

    اے آر وائی نیوز براہِ راست دیکھیں live.arynews.tv پر

    ایسی ہی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہے جس میں اسپائیڈر مین کا کاسٹیوم پہنے ایک شخص بنگال کا روایتی رقص کر رہا ہے۔

    بھارتی ریاست مغربی بنگال میں ریکارڈ کی جانے والی اس ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کچھ لوگ روایتی رقص کر رہے ہیں اور پس منظر میں روایتی ساز بھی بج رہے ہیں، مقامی افراد کے درمیان اسپائیڈر مین کا کاسٹیوم پہنے ایک شخص بھی محو رقص ہے۔

    اس شخص کی شناخت تو معلوم نہیں ہوسکی لیکن لوگوں نے اس رقص کے انداز کو بے حد سراہا۔

    ویڈیو کے کیپشن کے مطابق یہ ویڈیو ایک بازار میں ریکارڈ کی گئی ہے۔

    اس ویڈیو کو اب تک ہزاروں افراد دیکھ چکے ہیں، انٹرنیٹ صارفین اسپائیڈر مین کے دلچسپ انداز پر ہنسنے کے ساتھ ساتھ اسے داد بھی دے رہے ہیں۔

  • ایمل ولی کی کوششیں، صوابی میں صدیوں پرانے کھیل موخہ کے مقابلوں کا انعقاد

    ایمل ولی کی کوششیں، صوابی میں صدیوں پرانے کھیل موخہ کے مقابلوں کا انعقاد

    پشاور: صوبائی سطح پر موسیقی کے بعد کھیلوں کے فروغ کے لیے بھی ایمل ولی خان نے اہم قدم اٹھاتے ہوئے مقابلوں کا انعقاد کروایا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے پشتو موسیقی کو زوال سے بچانے کے لیے انگازئی کے نام سے پروڈکشن ہاؤس بنایا تھا، اب انھوں نے صوبے میں کھیلوں کو فروغ اور کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کا بھی سلسلہ شروع کر دیا ہے۔

    ایمل ولی کی ہدایت پر بننے والے باچا خان ٹرسٹ اسپورٹس فاؤنڈیشن نے صوبے کی سطح پر باچا خان گولڈ کپ کرکٹ ٹورنامنٹ کے انعقاد کا فیصلہ کیا ہے، اس ٹورنامنٹ میں مردان، چارسدہ، پشاور، نوشہرہ اور صوابی کی ٹیمیں شامل ہوں گی، اسی طرح صوبے کے مختلف اضلاع میں ضلعی سطح پر دیگر کھیلوں کے ٹورنامنٹس کے انعقاد کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔

    پہلے مرحلے میں صوابی میں صدیوں پرانے کھیل موخہ (مقامی تیر اندازی)، مردان میں قومی کھیل ہاکی، ملاکنڈ میں فٹ بال، سوات میں والی بال اور لوئر دیر میں ٹیپ بال ٹورنامنٹس کا انعقاد کیا جائے گا۔

    ایمل ولی خان کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت مختلف کھیلوں میں غیر معمولی کھلاڑیوں کو تربیت کے لیے بیرون ملک بجھوانے کے لیے وظائف کا بندوبست بھی کرے گی، تاکہ یہ نوجوان اپنا ٹیلنٹ ملک و قوم کے لیے بہتر انداز میں استعمال کر سکیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختون خوا کے کھلاڑیوں میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں، بس انھیں صرف نکھارنے کی ضرورت ہے، اور اسی مقصد کے لیے باچا خان ٹرسٹ کے زیر انتظام کھیلوں کی ترقی کے لیے اسپورٹس فاؤنڈیشن کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔

    خیال رہے کہ عوامی نیشنل پارٹی اگر چہ خیبر پختون خوا اور بلوچستان کی سیاست میں ایک مرکزی جماعت کے طور پر جانی جاتی ہے تاہم ملکی سیاست میں بھی اس سیاسی جماعت نے ہمیشہ ایک اہم کردار ادا کیا ہے، تاہم کچھ عرصہ قبل اس جماعت کے نوجوان صوبائی صدر ایمل ولی خان نے پشتو موسیقی کو زوال سے بچانے کے لیے پارٹی کے مرکزی سیکریٹریٹ باچا خان مرکز پشاور میں انگازئی کے نام سے پروڈکشن ہاؤس بناکر معیاری پشتو موسیقی کی ترویج کی ذمہ داری اٹھائی۔

    اس پروڈکشن ہاؤس میں صرف معیاری موسیقی کی شرط پر 7 ہزار روپے کی معمولی فیس کے عوض مقامی گلوکاروں کو جدید ریکارڈنگ کی سہولت فراہم کی جاتی ہے، جب کہ غریب اور مستحق فن کاروں کو مفت ریکارڈنگ کے ساتھ ساتھ آنے جانے کا کرایہ بھی دیا جاتا ہے۔

    فن کے دل دادہ ایمل ولی خان نے اسی پر بس نہیں کیا، بلکہ موسیقی سے دل چسپی رکھنے والے نوجوانوں کو طبلہ، ڈھول، ہارمونیم اور رباب کی تربیت کے لیے کلاسز کے آغاز کا عندیہ بھی دیا، جس پر مذہبی جماعتوں کی طرف سے اے این پی اور ایمل ولی خان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

  • ایلون مسک نے ملازمین کو کام کے دوران کیا کرنے کا مشورہ دیا؟

    ایلون مسک نے ملازمین کو کام کے دوران کیا کرنے کا مشورہ دیا؟

    کیلفورنیا: دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک نے کاریں بنانے والی اپنی کمپنی ٹیسلا کے ملازمین کو ایک ای میل کر کے میوزک سننے کا مشورہ دے دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ٹیسلا اور اسپیس ایکس کمپنیوں کے سربراہ ایلون مسک نے اپنے ملازمین سے کہا ہے کہ وہ کام کے دوران میوسیقی سنیں، جس سے ان کی کارکردگی میں بہتری آ سکتی ہے۔

    امریکی میڈیا کے مطابق ایلون مسک اپنی رائے دینے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹتے، خواہ کرپٹو کرنسی سے متعلق ان کی سوچ ہو، یا حریفوں سے متعلق کوئی بیان، اس بار انھوں ایک ’ کول باس‘ ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے ٹیسلا ملازمین کو میوزک سننے کا مشورہ دیا، انھوں نے کہا یہ ماحول کو لطف اندوز بنانے میں مدد دے گا۔

    ایلون مسک نے لکھا کہ ایک ساتھی نے مجھ سے پوچھا ہے کہ کیا ہم ایک کان میں ایئر بڈ سے میوزک سن سکتے ہیں؟ مجھے یہ بات اچھی لگی، میں خود بھی اس کے حق میں ہوں، کیوں کہ میوزک کو پسند کرتا ہوں۔

    ایلون مسک نے یہ بھی لکھا کہ اگر کچھ اور چیزیں بھی آپ کے دن کو بہتر بنا سکتی ہیں، تو مجھے ضرور بتائیں، آپ روز کام کرنے آتے ہیں اس لیے مجھے آپ کا بہت خیال ہے۔

    ایلون مسک نے اپنی ای میل کو ‘میوزک ان دا فیکٹری’ عنوان دیا۔

    امریکی میڈیا کے مطابق اکتوبر کے پہلے ہفتے میں ٹیسلا کے ملازمین کو مسک کی طرف سے 2 ای میل بھیجی گئیں، پہلے میں کہا گیا کہ ایک ایئربڈ کے ساتھ کام کے دوران موسیقی سننے میں مجھے کوئی مسئلہ نہیں۔ دوسری ای میل تھوڑی سخت تھی، جس میں ملازمین کو یاد دلایا گیا کہ جب میری جانب سے کوئی ہدایات منیجرز کے پاس پہنچتی ہیں تو پھر صرف تین آپشنز ہوتے ہیں: وضاحت کریں کہ میں کیوں غلط ہوں (کبھی کبھی میں غلط بھی ہو سکتا ہوں)، مزید وضاحت کی درخواست کریں (اگر آپ ہدایت کو نہیں سمجھے ہوں)، یا پھر ہدایت پر عمل کریں۔