Tag: موسیقی کا عالمی دن

  • فنِ‌ موسیقی: سات سُروں کی کہانی

    فنِ‌ موسیقی: سات سُروں کی کہانی

    راگ راگنیاں، لَے، تان یا سُر اور تال فنِ موسیقی کی وہ اصطلاحات ہیں‌ جن سے موسیقی کا ہر ادنیٰ شائق واقف ہے، لیکن اس فن کی باریکیاں اور نزاکتیں موسیقار اور گلوکار ہی سمجھ سکتے ہیں۔ دنیا بھر میں زمانۂ قدیم ہی سے موسیقی کسی نہ کسی شکل میں اپنی جادو جگاتی رہی ہے، مگر قدیم دور کا طرزِ موسیقی، اور آلات، پھر کلاسیکی اور جدید دور کی موسیقی کو بھی سمجھنا عام آدمی کے لیے مشکل ہے۔

    ہم برصغیر یا ہندوستان کی بات کریں تو آج نہ تو کلاسیکی، خالص راگ راگنیوں پر مشتمل موسیقی باقی رہی ہے اور نہ ہی وہ گلوکار جو فن و اصنافِ‌ موسیقی پر قدرت رکھتے تھے۔ اسی طرح وہ بے مثال موسیقار رہے اور نہ ہی وہ سازندے جو اپنے فن اور مہارت میں یکتا تھے اور برصغیر پاک و ہند کے طول و عرض‌ میں‌ ان کا شہرہ تھا۔

    آج موسیقی کا عالمی دن ہے۔ ہم جانتے ہیں‌ کہ کلاسیکی، نیم کلاسیکی اور لوک موسیقی نے دہائیوں کے دوران جدّت اور نئے ساز و آلات کے ساتھ اپنی شکل بھی بدلی ہے۔ آج اس فن کو نئی آوازوں کے ساتھ مختلف نئے پلیٹ فارم کی بدولت ایک جدید شناخت ملی ہے۔

    موسیقی کی ابتدا کیسے ہوئی؟ اس بات کو سمجھنا ایک پیچیدہ اور مشکل امر ہے۔ شاید، اسی وقت جب انسان نے اپنی کسی چھوٹی سی کام یابی پر کوئی ایسی آواز منہ سے نکالی جس میں ترنگ تھی، اور وہ دوسروں کو بہت بھلی لگی۔ یا پھر اس نے کسی کھوکھلی شے، کسی خاص چیز کی سطح پر ہاتھ مارے اور ایسی آوازیں سنیں جس نے اسے نغمگی کا احساس دلایا ہو اور انہی کی بنیاد پر وہ ساز ایجاد کرنے میں کام یاب ہوا ہو۔ موسیقی کی عمر جانچنے کا تو کوئی پیمانہ نہیں البتہ ہزاروں سال کے آثارِ قدیمہ سے پتھر کے ایسے آلاتِ موسیقی ملے ہیں جن کے بارے میں خیال ہے کہ ان کی مدد سے لوگ اپنے غموں اور خوشیوں کا اظہار کرتے تھے۔ غاروں میں رہنے والے قدیم دور کے انسانوں نے مختلف جانوروں کی ہڈیوں اور سینگوں میں سوراخ کر کے اولین ساز ایجاد کیے تھے۔ ایسے کئی ساز مختلف قدیم تہذیبوں کی دریافت کے دوران ملے ہیں۔ یہ ایک طویل اور تحقیق طلب موضوع ہے، لیکن یہ طے ہے کہ موسیقی کا انسان گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور یہ مثبت اور منفی دونوں طرح کے ہوسکتے ہیں۔ موسیقی انسانی جسم پر کس قسم کے مثبت اور منفی اثرات مرتب کرتی ہے، سائنس کی روشنی میں اس کا جائزہ لینے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ اس حوالے سے ایک تحقیقی مضمون میں راؤ شاہد اقبال نے لکھا تھا، فن لینڈ کے محققین نے جتنے سائنسی مطالعے موسیقی کے ‘نیک و بد اثرات’ جاننے کے بارے میں کیے ہیں بلاشبہ دنیا کے کسی اور ملک کے محققین اُس کا عشر عشیر بھی نہیں کرسکے۔ دراصل فن لینڈ کے سائنس دان انسانی دماغ پر موسیقی کے اثرات کو جاننے کے متعلق بہت زیادہ دل چسپی رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں میں اُن کی جانب سے متعدد سائنسی مطالعات سامنے آچکے ہیں، جن میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ موسیقی کے ذریعے انسانی جذبات کو مؤثر انداز میں کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ اس حوالے فن لینڈ کے محققین کی جانب سے 2015 میں کیے جانے والے ایک مطالعہ کا دنیا بھر میں بہت چرچا ہوا تھا، جس میں بتایا گیا تھا کہ ”اچھی موسیقی انسان میں نظم و ضبط کا سبب بنتی ہے۔“ یاد رہے کہ اس تحقیق کے نتائج سامنے آنے کے بعد موسیقی کے ذریعے تھراپی کے منفرد کاروبار کو خوب رواج ملا اور کئی ممالک میں تو باقاعدہ موسیقی تھراپی کے لیے کلینک قائم کر دیے گئے۔

    یومِ موسیقی منانے کا آغاز فرانس کے شہر پیرس سے ہوا تھا اور چند برسوں سے پاکستان میں بھی یہ دن منایا جارہا ہے۔ موسیقی کی روایت برصغیر میں بہت پرانی ہے اور برصغیر کی کلاسیکی موسیقی اور راگ کے ساتھ نیم کلاسیکی موسیقی سننے والے اگرچہ اب کم رہ گئے ہیں، لیکن یہاں نوجوان اب بھی غزل، گیت، لوک موسیقی شوق سے سنتے ہیں۔

    برِصغیر میں موسیقی نے مغلیہ دور سے بہت پہلے عروج حاصل کر لیا تھا اور سیکڑوں کلاسیکی گائیک اس فن کے امین بنے۔ موسیقی کو سمجھنے کے لیے اس فن کی اصطلاحات کو سمجھنا ضروری ہے۔ موسیقی، جسے ایک فن کا درجہ حاصل ہے اس کی سب سے اہم اصطلاح سُر ہے۔ سُر کا ذکر تو آپ نے سنا ہی ہوگا جو تعداد میں سات ہیں۔ انھیں سات سُر بھی کہتے ہیں۔ سُروں کے مجموعے کو سرگم کہا جاتا ہے۔ اگر ان کو موسیقی کے حروفَ تہجی فرض کرلیا جائے تو ان کو ماہرین نے کھرج، رکھب، گندھار، مدھم، پنجم، دھیوت اور نکھا کے نام دیے ہیں اور یہ یونہی نہیں رکھ دیے گئے۔ یہ نام مختلف جانوروں کی آوازوں سے مشابہت کی بنیاد پر رکھے گئے ہیں جن سے خوشی، درد، غم، بے چینی اور غصے کے جذبات نمایاں ہوتے ہیں۔ ان حروف تہجی کو مختصرا سا، رے، گا، ما، پا، دھا اور نی کہا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق کھرج کا ماخذ ناف، رکب کا دل، گندھار کا سینہ، مدھم کا حلق، پنجم کا منہ، دھیوت کا تالو اور نکھا کا ماخذ ناک ہے۔ انہی سات سُروں کو خالص ترتیب سے یکجا کرنے سے راگ وجود میں آئے ہیں۔

  • عالمی یومِ‌ موسیقی: سائنسی تحقیق اور چند مقبول گیت

    عالمی یومِ‌ موسیقی: سائنسی تحقیق اور چند مقبول گیت

    راگ راگنیاں، لَے، تان یا سُر اور تال فنِ موسیقی کی وہ اصطلاحات ہیں‌ جن سے موسیقی کا ہر ادنیٰ شائق واقف ہے، لیکن عام لوگ اس فن کی باریکیوں اور نزاکتوں کو سمجھنے کے جھنجھٹ میں نہیں‌ پڑتے بلکہ صرف موسیقی اور گائیکی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یوں‌ بھی انھیں سمجھنا ہر کس و ناکس کے بس میں نہیں‌۔

    آج نہ تو کلاسیکی اور خالص راگ راگنیوں پر مشتمل موسیقی باقی رہی ہے اور وہ گلوکار جن کے لیے کہا جاتا کہ آپ کے گلے میں بھگوان بولتا ہے۔ اسی طرح وہ سازندے اور گلوکار بھی اب زندہ نہیں‌ رہے جن کے فن کا برصغیر پاک و ہند کے طول و عرض‌ میں‌ شہرہ تھا۔

    دنیا، آج موسیقی کا عالمی دن منا رہی ہے اور ہم جانتے ہیں‌ کہ موسیقی میں جدّت اور نئے طرزِ‌ گائیکی کے ساتھ اس فن کو کئی پلیٹ فارمز کی بدولت ایک نئی شکل اور نئی شناخت مل رہی ہے۔ یہاں‌ ہم جدید دور میں موسیقی کے حوالے سے راؤ محمد شاہد اقبال کے ایک مضمون سے کچھ مفید معلومات نقل کر رہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

    موسیقی انسانی جسم پر کس قسم کے مثبت اور منفی اثرات مرتب کرتی ہے، سائنس کی روشنی میں اس کا جائزہ لینے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ زیرِ نظر مضمون میں موسیقی کے انسان کے احساسات، جذبات، معمولات اور کیفیات پر پڑنے والے غیرمعمولی اثرات کا اجمالی جائزہ سائنسی تحقیقات اور مطالعات کے تناظر میں پیشِ خدمت ہے۔

    موسیقی چاہے کتنے بھی ہلکے سُروں کی کیوں نہ ہو، لیکن اگر آپ اُسے اپنے ایکو ساؤنڈ سسٹم پر تیز آواز پر بجانا شروع کر دیں گے تو وہ سننے والوں کی سماعت پر بہت بھاری یعنی ہتھوڑا بن کر بھی برس سکتی ہے۔ ویسے تو ہر زمانہ کے نوجوانوں نے ہمیشہ سے ہی موسیقی سننے کے لیے اونچی آواز کو ہی ترجیح دی ہے۔ لیکن آج کل نت نئے جدید ترین آلاتِ موسیقی کی دستیابی کے باعث تیز آواز موسیقی سے انسانی سماعت کو مستقل اور سنگین نقصان پہنچنا ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ آسان اور سہل ہوگیا ہے۔ کینیڈا میں میک ماسٹر کے شعبہ میں نفسیات کے تحت نیورو سائنس پر کی جانے ایک حالیہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ نو عمر افراد میں سماعت کی خرابی کے زیادہ تر امراض بلند آواز میں موسیقی سننے کے باعث پیدا ہورہے ہیں۔ اس تحقیقی مطالعے میں 170 بچوں کو زیر مشاہدہ رکھا گیا تھا۔ جن میں سے کچھ کو مخصوص عرصہ تک باقاعدگی کے ساتھ ہلکی آواز اور چند کو بلند آواز میں موسیقی سنانے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ نتائج کے مطابق جن بچوں کو بلند آواز موسیقی کے گروپ میں شامل تھے، اُن میں اکثر کو ”ٹنائٹس“ کی علامات کا سامنا کرنا پڑا۔ یاد رہے کہ”ٹنائٹس“ سماعت کا ایک ایسا مرض ہے، جس کی علامت ایک کان میں عارضی یا مستقل طور پر سننی خیز آواز کا بجنا ہے اور یہ عموماً 50 سال سے زائد بالغ افراد میں ظاہر ہوتا ہے۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ بچوں کے جس گروپ کو ہلکی آواز میں یا بالکل بھی موسیقی سنائی نہیں گئی تھی۔ اُن کی جانب سے دورانِ تحقیق کان بجنے کی ایک بھی شکایت موصول نہیں ہوئی۔ اس تحقیق کے مصنف، لیری رابرٹس (Larry Roberts) نے والدین کو مشورہ دیا ہے کہ ”اگر وہ چاہتے ہیں، اُن کے بچے عمر رسیدگی سے قبل سماعت کے مسائل کا شکار نہ ہوں تو پھر یقینی بنائیں کہ آپ کے بچے بلند آواز میں موسیقی نہ سنیں۔“

    نیز کانوں پر ہیڈ فونز لگا کر موسیقی سننے کے بھی بہت بُرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ماہرین علمِ سماعت (Audiologists) قوتِ سماعت کے نقصان کا براہ راست ذمہ دار ہیڈ فونز کو ٹھہراتے ہیں۔ نیز اونچی آواز میں موسیقی کو کسی بھی ذریعے سے لگاتار سننے سے انسان کی سننے کی صلاحیت مستقل طور پر ناکارہ ہو سکتی ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ موسیقی اونچی آواز میں سننے کے بُرے اثرات صرف کانوں تک محدود نہیں ہوتے بلکہ اونچی آوازوں کے غیر سمعی (Non-auditory) اثرات بھی ہوتے ہیں جو قوتِ سماعت کو متاثر نہ بھی کریں لیکن انسانی جسم کو دیگر عوارض کا شکار بنا سکتے ہیں۔ مثلاً بلڈ پریشر کا بڑھ جانا، بے خوابی، سانس لینے میں دقّت، دل کی دھڑکن کا بڑھ جانا اور خون کی شریانوں کا سکڑنا وغیرہ ایسے اثرات ہیں جو اونچی آواز میں موسیقی کو سننے سے پیدا ہوسکتے ہیں۔

    فن لینڈ کے محققین نے جتنے سائنسی مطالعے موسیقی کے ‘نیک و بد اثرات’ جاننے کے بارے میں کیے ہیں بلاشبہ دنیا کے کسی اور ملک کے محققین اُس کا عشر عشیر بھی نہیں کرسکے۔ دراصل فن لینڈ کے سائنس دان انسانی دماغ پر موسیقی کے اثرات کو جاننے کے متعلق بہت زیادہ دل چسپی رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں میں اُن کی جانب سے متعدد سائنسی مطالعات سامنے آچکے ہیں، جن میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ موسیقی کے ذریعے انسانی جذبات کو موثر انداز میں کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ اس حوالے فن لینڈ کے محققین کی جانب سے 2015 میں کیے جانے والے ایک مطالعہ کا دنیا بھر میں بہت چرچا ہوا تھا، جس میں بتایا گیا تھا کہ ”اچھی موسیقی انسان میں نظم و ضبط کا سبب بنتی ہے۔“

    یاد رہے کہ اس تحقیق کے نتائج سامنے آنے کے بعد موسیقی کے ذریعے تھراپی کے منفرد کاروبار کو خوب رواج ملا اور کئی ممالک میں تو باقاعدہ موسیقی تھراپی کے لیے کلینک قائم کر دیے گئے۔

    وہ مثل تو آپ نے ضرور سنی ہوگی کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔ بالکل اسی مصداق موسیقی کی بھی کئی اقسام ہیں، مثلاً کلاسیکی، پاپ، جاز وغیرہ۔ سائنس دان برسوں سے فقط موسیقی ہی نہیں بلکہ اُس کی اقسام اور دھنوں کے انسانی جذبات اور احساسات پر پڑنے والے اثرات کے سائنسی تجزیہ میں مصروف ہیں۔ دراصل وہ جاننا چاہتے ہیں کہ مختلف اقسام کی موسیقی میں کون سی دھن یا قسم انسانی احساسات کی نشوونما پر مثبت اور کون سی منفی انداز میں اپنا اثر ڈالتی ہے۔ اس حوالے سے موسیقی کی دنیا کے معروف محقق گریفتھ (Griffith) نے کئی برس قبل بلحاظِ اقسام موسیقی کی درجہ بندی کر کے ایک مطالعاتی جائزہ کا آغاز کیا تھا۔ جس میں اُس نے موسیقی کو پسند کرنے والے مختلف افراد کی عادت و اطور کا تفصیلی مشاہدہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ کئی برسوں کی تحقیق کے بعد گریفتھ کا کہنا ہے کہ ”پاپ میوزک پسند کرنے والے افراد سب سے کم تخلیقی ذہانت کے حامل ہوتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہ لیا جائے کہ پاپ موسیقی سننے والے بے وقوف ہوتے ہیں، بلکہ میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ پاپ موسیقی پسند کرنے والے افراد شاذ ہی کبھی کسی قسم کے تخلیقی کام کی جانب رغبت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔“ گریفتھ کے مطابق ”پاپ موسیقی سے تعلق رکھنے والے گلوگار، موسیقار اور فن کار بھی زیادہ تر ناخواندہ یا واجبی سی تعلیم کے حامل ہی ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں پاپ گلوگار اکثر و بیشتر ایسے سطحی قسم کے تنازعات میں خود کو شریک کر لیتے ہیں، جو عقلیت پسندی کے سخت برخلاف ہوتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اکثر پاپ گلوگار بڑی محنت سے کمایا ہو پیسہ پس انداز کرنے کے بجائے فضول خرچی میں اُڑا دیتے ہیں۔“ ضروری نہیں ہے کہ گریفتھ کی تحقیق سے مکمل اتفاق کیا جائے۔ البتہ، اس پر تفکر ضرور کیا جا سکتا ہے۔

    راؤ محمد شاہد اقبال کا مضمون یہاں ختم کرتے ہوئے ہم وہ لافانی اور اپنے وقت کے مقبول ترین گیت آپ کو یاد دلاتے ہیں جو ہر پاکستانی نے سن رکھے ہیں‌ خواہ وہ قیامِ پاکستان کے بعد پیدا ہونے والی نسل سے تعلق رکھتا ہو یا کوئی اکیسویں‌ صدی میں اور انٹرنیٹ کی جادوگری کے ساتھ اس کی زندگی کا آغاز ہوا ہو۔

    نور جہاں کی آواز میں یہ گیت آج بھی ہماری سماعتوں‌ میں‌ رس گھول رہا ہے….سانوں نہر والے پُل تے بلا کے، سوہنے ماہی کتھے…

    نصرت فتح علی خان کی آواز میں‌ مشہور قوالی ‘دم مست قلندر مست مست اور ‘یہ جو ہلکا ہلکا سرور ہے…

    شہنشاہِ‌ غزل مہدی حسن کی گائی ہوئی یہ غزل سرحد پار بھی مقبول ہوئی…. گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے، اور اسی طرح‌ فلمی گیت زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں….

    احمد رشدی ایک مقبول گلوکار تھے جن کی آواز میں ‘بندر روڈ سے کیماڑی میری چلی رے گھوڑا گاڑی، اور ایک گیت کو کو کو رینا…’ آپ نے بھی سنا ہو گا۔

    عطا اللہ عیسی خیلوی کا گایا ہوا گیت ‘قمیض تیری کالی…’ آج بھی بہت شوق سے سنا جاتا ہے۔

    عابدہ پروین کی آواز میں ‘یار کو ہم نے جا بجا دیکھا’ بڑی عمر کے لوگ اور نوجوان سبھی شوق سے سنتے ہیں۔

    ان کے علاوہ مختلف لازوال دھنوں میں‌ نام ور گلوکاروں کے گائے ہوئے گیتوں میں آئے موسم رنگیلے سہانے، میں نئیں جانا کھیڑیاں دے نال، کاٹے نہ کٹے رے رتیا، آج جانے کی ضد نہ کرو، اکھیاں نوں رہن دے، انشا جی اٹھو اب کوچ کرو، پتنگ باز سجنا، دیکھا نہ تھا کبھی ہم نے یہ سماں، ابھی تو میں‌ جوان ہوں، گاڑی کو چلانا بابو ذرا ہلکے ہلکے، ڈسکو دیوانے، پرانی جینز اور گٹار، تمھارا اور میرا نام جنگل میں…، اور قوالیوں میں بھر دو جھولی، تیری صورت نگاہوں میں پھرتی رہے وغیرہ شامل ہیں۔

  • موسیقی کا عالمی دن: آپ کا پسندیدہ گانا کون سا ہے؟

    موسیقی کا عالمی دن: آپ کا پسندیدہ گانا کون سا ہے؟

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج موسیقی کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ اس دن کو منانے کا آغاز سنہ 1981 میں فرانسیسی دارالحکومت پیرس سے ہوا، چند ہی سال میں یہ دن ایشیائی ممالک سمیت پوری دنیا میں منایا جانے لگا۔

    یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ انسان نے ابلاغ یا مختلف کیفیات کے اظہار کے لیے کب موسیقی کو ذریعہ بنایا، تاہم ہزاروں سال پرانے آثار قدیمہ سے آلات موسیقی کا برآمد ہونا، جو زیادہ تر پتھروں سے بنائے گئے، اس بات کا ثبوت ہے کہ موسیقی کی تاریخ نسل انسانی جتنی ہی پرانی ہے۔

    برصغیر میں موسیقی کی روایت بہت پرانی ہے۔ اس فن نے مغلیہ دور سے بہت پہلے عروج حاصل کر لیا تھا۔ امیر خسرو کے بعد تان سین اور بیجو باورا، کے ایل سہگل اور مختار بیگم سے ماضی قریب تک سینکڑوں کلاسیک گائیک اس فن کے امین بنے۔

    کلاسیکی موسیقی کی خوبصورت جہتوں میں ٹھمری، دادرہ، کافی اور خیال گائیکی شامل ہے جن کے سامعین کی تعداد تو وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتی گئی، تاہم اس سے ان جہتوں کی عظمت پر کوئی فرق نہیں پڑا۔

    قیام پاکستان کے بعد موسیقی کے شعبہ میں نصرت فتح علی خان، نور جہاں، مہدی حسن، فریدہ خانم، اقبال بانو، خورشید بیگم، غلام علی، پرویز مہدی، احمد رشدی اور مسعود رانا جیسے ناموں نے لازوال گیت تخلیق کیے اور گائے۔

    فوک موسیقی میں عالم لوہار، شوکت علی، نذیر بیگم، ثریا ملتانیکر، ریشماں، پٹھانے خان، عابدہ پروین، سائیں اختر، عارف لوہار اور دیگر نے اس فن کو بام عروج پر پہنچایا۔

    موسیقی کی ایک اور جہت قوالی بھی ہے جس کا سب سے درخشاں ستارہ استاد نصرت فتح علی خان ہیں جن کی خوبصورت آواز اور گائیکی دنیا بھر میں مقبول ہے اور آج بھی ان کے چاہنے والے دنیا کے ہر حصے میں موجود ہیں۔

    اس جہت میں غلام فرید صابری اور عزیز میاں سمیت کئی دوسرے قوالوں نے بھی اپنی گائیکی سے دنیا بھر میں اپنے مداح پیدا کیے۔

    وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ موسیقی کے رجحانات بھی تبدیل ہوچکے ہیں۔ اب نوجوان نسل زیادہ تر پوپ موسیقی سننا پسند کرتی ہے۔ پاکستان میں پوپ موسیقی کے آغاز کا سہرا نازیہ حسن کے سر ہے جنہوں نے 80 کی دہائی میں اپنے گانوں سے بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔

    موجودہ دور میں پوپ موسیقی میں علی ظفر، عاطف اسلم، عمیر جسوال اور مومنہ مستحسن وغیرہ مقبول نام ہیں۔ 90 کی دہائی کے گلوکار جیسے حدیقہ کیانی اور علی عظمت بھی اب موسیقی کی اسی جہت کو اپنائے ہوئے ہیں۔

  • موسیقی کا عالمی دن: آپ کو کیسی موسیقی پسند ہے؟

    موسیقی کا عالمی دن: آپ کو کیسی موسیقی پسند ہے؟

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج موسیقی کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ اس دن کو منانے کا آغاز سنہ 1981 میں فرانسیسی دارالحکومت پیرس سے ہوا، چند ہی سال میں یہ دن ایشیائی ممالک سمیت پوری دنیا میں منایا جانے لگا۔

    یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ انسان نے ابلاغ یا مختلف کیفیات کے اظہار کے لیے کب موسیقی کو ذریعہ بنایا، تاہم ہزاروں سال پرانے آثار قدیمہ سے آلات موسیقی کا برآمد ہونا، جو زیادہ تر پتھروں سے بنائے گئے، اس بات کا ثبوت ہے کہ موسیقی کی تاریخ نسل انسانی جتنی ہی پرانی ہے۔

    برصغیر میں موسیقی کی روایت بہت پرانی ہے۔ اس فن نے مغلیہ دور سے بہت پہلے عروج حاصل کر لیا تھا۔ امیر خسرو کے بعد تان سین اور بیجو باورا، کے ایل سہگل اور مختار بیگم سے ماضی قریب تک سینکڑوں کلاسیک گائیک اس فن کے امین بنے۔

    کلاسیکی موسیقی کی خوبصورت جہتوں میں ٹھمری، دادرہ، کافی اور خیال گائیکی شامل ہے جن کے سامعین کی تعداد تو وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتی گئی، تاہم اس سے ان جہتوں کی عظمت پر کوئی فرق نہیں پڑا۔

    قیام پاکستان کے بعد موسیقی کے شعبہ میں نصرت فتح علی خان، نور جہاں، مہدی حسن، فریدہ خانم، اقبال بانو، خورشید بیگم، غلام علی، پرویز مہدی، احمد رشدی اور مسعود رانا جیسے ناموں نے لازوال گیت تخلیق کیے اور گائے۔

    فوک موسیقی میں عالم لوہار، شوکت علی، نذیر بیگم، ثریا ملتانیکر، ریشماں، پٹھانے خان، عابدہ پروین، سائیں اختر، عارف لوہار اور دیگر نے اس فن کو بام عروج پر پہنچایا۔

    موسیقی کی ایک اور جہت قوالی بھی ہے جس کا سب سے درخشاں ستارہ استاد نصرت فتح علی خان ہیں جن کی خوبصورت آواز اور گائیکی دنیا بھر میں مقبول ہے اور آج بھی ان کے چاہنے والے دنیا کے ہر حصے میں موجود ہیں۔

    اس جہت میں غلام فرید صابری اور عزیز میاں سمیت کئی دوسرے قوالوں نے بھی اپنی گائیکی سے دنیا بھر میں اپنے مداح پیدا کیے۔

    وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ موسیقی کے رجحانات بھی تبدیل ہوچکے ہیں۔ اب نوجوان نسل زیادہ تر پوپ موسیقی سننا پسند کرتی ہے۔ پاکستان میں پوپ موسیقی کے آغاز کا سہرا نازیہ حسن کے سر ہے جنہوں نے 80 کی دہائی میں اپنے گانوں سے بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔

    موجودہ دور میں پوپ موسیقی میں علی ظفر، عاطف اسلم، عمیر جسوال اور مومنہ مستحسن وغیرہ مقبول نام ہیں۔ 90 کی دہائی کے گلوکار جیسے حدیقہ کیانی اور علی عظمت بھی اب موسیقی کی اسی جہت کو اپنائے ہوئے ہیں۔

  • موسیقی کا عالمی دن: دل نے وہ گیت گنگنایا ہے

    موسیقی کا عالمی دن: دل نے وہ گیت گنگنایا ہے

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج موسیقی کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ اس دن کو منانے کا آغاز سنہ 1981 میں فرانسیسی دارالحکومت پیرس سے ہوا۔ چند ہی سال میں یہ دن ایشیائی ممالک سمیت پوری دنیا میں منایا جانے لگا۔

    یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ انسان نے ابلاغ یا مختلف کیفیات کے اظہار کے لیے کب موسیقی کو ذریعہ بنایا، تاہم ہزاروں سال پرانے آثار قدیمہ سے آلات موسیقی کا برآمد ہونا، جو زیادہ تر پتھروں سے بنائے گئے، اس بات کا ثبوت ہے کہ موسیقی کی تاریخ نسل انسانی جتنی ہی پرانی ہے۔

    برصغیر میں موسیقی کی روایت بہت پرانی ہے۔ اس فن نے مغلیہ دور سے بہت پہلے عروج حاصل کر لیا تھا۔ امیر خسرو کے بعد تان سین اور بیجو باورا، کے ایل سہگل اور مختار بیگم سے ماضی قریب تک سینکڑوں کلاسیک گائیک اس فن کے امین بنے۔

    کلاسیکی موسیقی کی خوبصورت جہتوں میں ٹھمری، دادرہ، کافی اور خیال گائیکی شامل ہے جن کے سامعین کی تعداد تو وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتی گئی، تاہم اس سے ان جہتوں کی عظمت پر کوئی فرق نہیں پڑا۔

    قیام پاکستان کے بعد موسیقی کے شعبہ میں نصرت فتح علی خان، نور جہاں، مہدی حسن، فریدہ خانم، اقبال بانو، خورشید بیگم، غلام علی، پرویز مہدی، احمد رشدی اور مسعود رانا جیسے ناموں نے لازوال گیت تخلیق کیے اور گائے۔

    فوک موسیقی میں عالم لوہار، شوکت علی، نذیر بیگم، ثریا ملتانیکر، ریشماں، پٹھانے خان، عابدہ پروین، سائیں اختر، عارف لوہار اور دیگر نے اس فن کو بام عروج پر پہنچایا۔

    موسیقی کی ایک اور جہت قوالی بھی ہے جس کا سب سے درخشاں ستارہ استاد نصرت فتح علی خان ہیں جن کی خوبصورت آواز اور گائیکی دنیا بھر میں مقبول ہے اور آج بھی ان کے چاہنے والے دنیا کے ہر حصے میں موجود ہیں۔

    اس جہت میں غلام فرید صابری اور عزیز میاں سمیت کئی دوسرے قوالوں نے بھی اپنی گائیکی سے دنیا بھر میں اپنے مداح پیدا کیے۔

    وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ موسیقی کے رجحانات بھی تبدیل ہوچکے ہیں۔ اب نوجوان نسل زیادہ تر پوپ موسیقی سننا پسند کرتی ہے جس میں مائیکل جیکسن، لیڈی گاگا اور کیٹی پیری اہم نام ہیں۔

    پاکستان میں پوپ موسیقی کے آغاز کا سہرا نازیہ حسن کے سر ہے جنہوں نے 80 کی دہائی میں اپنے گانوں سے بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔

    موجودہ دور میں پوپ موسیقی میں علی ظفر، عاطف اسلم، عمیر جسوال اور مومنہ مستحسن وغیرہ مقبول نام ہیں۔ 90 کی دہائی کے گلوکار جیسے حدیقہ کیانی اور علی عظمت بھی اب موسیقی کی اسی جہت کو اپنائے ہوئے ہیں۔

  • موسیقی کا عالمی دن

    موسیقی کا عالمی دن

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج موسیقی کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ اس دن کو منانے کا آغاز سنہ 1981 میں فرانسیسی دارالحکومت پیرس سے ہوا۔ چند ہی سال میں یہ دن ایشیائی ممالک سمیت پوری دنیا میں منایا جانے لگا۔

    یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ انسان نے ابلاغ یا مختلف کیفیات کے اظہار کے لیے کب موسیقی کو ذریعہ بنایا، تاہم ہزاروں سال پرانے آثار قدیمہ سے آلات موسیقی بھی برآمد ہوئے جو زیادہ تر پتھروں سے بنائے گئے، گویا موسیقی کی تاریخ نسل انسانی جتنی ہی پرانی ہے۔

    برصغیر میں موسیقی کی روایت بہت پرانی ہے۔ اس فن نے مغلیہ دور سے بہت پہلے عروج حاصل کر لیا تھا۔ امیر خسرو کے بعد تان سین اور بیجو باورا، کے ایل سہگل اور مختار بیگم سے ماضی قریب تک سینکڑوں کلاسیک گائیک اس فن کے امین بنے۔

    کلاسیکی موسیقی کی خوبصورت جہتوں میں ٹھمری، دادرہ، کافی اور خیال گائیکی شامل ہے جن کے سامعین کی تعداد تو وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتی گئی، تاہم اس سے ان جہتوں کی عظمت پر کوئی فرق نہیں پڑا۔

    قیام پاکستان کے بعد موسیقی کے شعبہ میں نصرت فتح علی خان، نور جہاں، مہدی حسن، فریدہ خانم، اقبال بانو، خورشید بیگم، غلام علی، پرویز مہدی، احمد رشدی اور مسعود رانا جیسے ناموں نے لازوال گیت تخلیق کیے اور گائے۔

    فوک موسیقی میں عالم لوہار، شوکت علی، نذیر بیگم، ثریا ملتانیکر، ریشماں، پٹھانے خان، عابدہ پروین، سائیں اختر، عارف لوہار اور دیگر نے اس فن کو بام عروج پر پہنچایا۔

    موسیقی کی ایک اور جہت قوالی بھی ہے جس کا سب سے درخشاں ستارہ استاد نصرت فتح علی خان ہیں جن کی خوبصورت آواز اور گائیکی دنیا بھر میں مقبول ہے اور آج بھی ان کے چاہنے والے دنیا کے ہر حصے میں موجود ہیں۔

    اس جہت میں غلام فرید صابری اور عزیز میاں سمیت کئی دوسرے قوالوں نے بھی اپنی گائیکی سے دنیا بھر میں اپنے مداح پیدا کیے۔

    وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ موسیقی کے رجحانات بھی تبدیل ہوچکے ہیں۔ اب نوجوان نسل زیادہ تر پوپ موسیقی سننا پسند کرتی ہے جس میں مائیکل جیکسن، لیڈی گاگا اور کیٹی پیری اہم نام ہیں۔

    پاکستان میں پوپ موسیقی کے آغاز کا سہرا نازیہ حسن کے سر ہے جنہوں نے 80 کی دہائی میں اپنے گانوں سے بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔

    موجودہ دور میں پوپ موسیقی میں علی ظفر، عاطف اسلم، عمیر جسوال اور مومنہ مستحسن وغیرہ مقبول نام ہیں۔ 90 کی دہائی کے گلوکار جیسے حدیقہ کیانی اور علی عظمت بھی اب موسیقی کی اسی جہت کو اپنائے ہوئے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • آج دنیا بھر میں موسیقی کا عالمی دن منایا جارہا ہے

    آج دنیا بھر میں موسیقی کا عالمی دن منایا جارہا ہے

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج موسیقی کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ورلڈ میوزک ڈے کا آغاز انتیس سال پہلے فرانس کے شہر پیرس سے ہوا۔ چند سالوں سے یہ دن پاکستان میں بھی منایا جاتا ہے۔

    موسیقی کی روایت برصغیر میں بہت پرانی ہے اور برصغیرکی کلاسیکل موسیقی سننے والوں پر مختلف کیفیات طاری کرتی ہے۔ اس کے علاوہ غزل ، گیت ، فوک اور پلے بیک سنگنگ وغیرہ بھی یہاں کے لوگوں میں انتہائی مقبول ہے۔

    قیام پاکستان کے بعد نورجہاں، مہدی حسن، احمد رشدی، مسعود رانا اور دیگر متعدد افراد نے اپنے سریلے گیتوں سے کروڑوں افراد کو اپنا دیوانہ بنایا۔مثال کے طور پر جیسے گیتوں کو کون بھول سکتا ہے۔

    بھارت کی بات کی جائے تو وہاں لتا منگیشکر، محمد رفیع، کشور کمار اور مکیش جیسے گلوکار موسیقی کی دنیا میں دھوم مچاتے رہے اور ان کے گائے ہوئے گیت برسوں بعد بھی بالکل تازہ محسوس ہوتے ہیں، مگر موجودہ عہد پاپ اور دیگر جدید طرز موسیقی کا ہے جس پر امریکہ و برطانیہ کے گلوکار چھائے ہوئے ہیں۔

    مائیکل جیکسن سے شروع ہونے والا یہ سفر اب لیڈی گاگا، جسٹن بائبر اور کیٹی پیری جیسے سنگرز تک پھیل چکا ہے جنھیں دنیا بھر میں انتہائی مقبولیت حاصل ہے۔

    ورلڈ میوزک ڈے دنیا بھر میں بسنے والے لوگوں کو موسیقی کے ذریعے امن ، محبت اور بھائی چارے کی زنجیر میں باندھنے کی ایک خوبصورت کوشش ہے۔