Tag: موسیقی کی خبریں

  • گلہ بانی کے لیے استعمال کی جانے والی مسحور کن موسیقی

    گلہ بانی کے لیے استعمال کی جانے والی مسحور کن موسیقی

    دنیا بھر میں مویشی پالنے والے افراد اپنے جانوروں کے لیے الگ زبان اور انداز مخصوص کردیتے ہیں جس سے ان کے جانور بہت مانوس ہوتے ہیں۔

    آج ہم آپ کو ایسی ہی ایک انوکھی زبان سے متعارف کروانے جارہے ہیں۔

    اسکینڈے نیوین ممالک میں مویشیوں کو بلانے کے لیے اونچے سروں میں ایک مخصوص دھن بجائی جاتی ہے جو سننے میں بہت خوبصورت اور سحر زدہ لگتی ہے۔

    یہاں کے لوگ مویشیوں کو چرنے کے لیے پہاڑوں کی طرف بھیج دیتے ہیں اور پھر شام کے وقت واپس بلانے کے لیے اس مخصوص آواز کا استعمال کرتے ہیں جسے سن کر مویشی جیسے سحر زدہ سے ہو کر دوڑے چلے آتے ہیں۔

    ایسے میں ڈھلتی شام کے وقت سرسبز میدانوں میں گونجتی یہ موسیقی اور مویشیوں کے گلے میں بندھی گھنٹیوں کی کھنکھناہٹ سے ماحول نہایت سحر انگیز سا ہوجاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: ترکی کے گاؤں کی انوکھی اور خوبصورت زبان

    یہاں ہر خاندان میں یہ موسیقی ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے جو عموماً نسلوں تک سفر کرتی ہے۔ گو کہ یہ روایت بہت کم ہوگئی ہے تاہم ناروے اور سوئیڈن میں اب بھی اس کا رواج موجود ہے۔

    اس موسیقی کو مشہور اینی میٹڈ فلم فروزن میں بھی استعمال کیا گیا ہے۔

  • شہنشاہ قوالی نصرت فتح علی خان کی21ویں برسی آج منائی جارہی ہے

    شہنشاہ قوالی نصرت فتح علی خان کی21ویں برسی آج منائی جارہی ہے

    شہنشاہ قوالی،غزل گائیک اور موسیقار استاد نصرت فتح علی خان کی اکیسویں برسی آج منائی جارہی ہے، وہ 16 اگست 1997 کو اس دنیا سے رخصت ہوئے تھے۔

    نصرت فتح علی خان تیرہ اکتوبر انیس اڑتالیس کو فیصل آباد میں پیدا ہوئے، آپ کے والد کا نام فتح خان تھا وہ خود بھی نامور گلوکار اور قوال تھے، نصرت فتح علی خان نے بین الاقوامی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔

    ٹائم میگزین نے دوہزار چھ میں ایشین ہیروز کی فہرست میں ان کا نام بھی شامل کیا، بطور قوال ا اس عظیم فنکار کو کئی بین الاقوامی اعزازات سے بھی نوازا گیا۔

    قوال کی حیثیت سے ایک سو پچیس آڈیو البم ان کا ایک ایسا ریکارڈ ہے، جسے توڑنے والا شاید دوردورتک کوئی نہیں، ان کی شہرت نے انہیں گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں جگہ دلوائی، دم مست قلندر مست ، علی مولا علی ، یہ جو ہلکا ہلکا سرور ہے، میرا پیاگھر آیا، اللہ ہو اللہ ہو اور کینا سوہنا تینوں رب نے بنایا، جیسے البم ان کے کریڈٹ پر ہیں، ان کے نام کے ساتھ کئی یادگار قوالیاں اور گیت بھی جڑے ہیں۔

    نصرت فتح علی خان کی ایک حمد وہی خدا ہے کو بھی بہت پذیرائی ملی جبکہ ایک ملی نغمے میری پہچان پاکستان اور مقبوضہ کشمیر کے عوام کے لئے گایا گیا گیت ‘جانے کب ہوں گے کم اس دنیا کے غم’ آج بھی لوگوں کے دلوں میں بسے ہیں۔

    نصرت فتح علی خان کو ہندوستان میں بھی بے انتہا مقبولیت اور پذیرائی ملی، جہاں انہوں نے جاوید اختر، لتا منگیشکر، آشا بھوسلے اور اے آر رحمان جیسے فنکاروں کے ساتھ کام کیا۔

    یورپ میں ان کی شخصیت اور فن پر تحقیق کی گئی اور کئی کتابیں لکھی گئیں، 1992 ء میں جاپان میں شہنشاہ قوالی کے نام سے ایک کتاب شائع کی گئی اور انہیں ’’گانے والے بدھا ‘‘ کا لقب دیا گیا ۔

    نصرت فتح علی خان نے دنیا بھر میں اپنی آواز کا جادو جگایا ۔پاکستان کے ساتھ ساتھ کئی حکومتوں اور اقوام متحدہ نے ان کی شاندار فنی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں متعدد سرکاری اعزازات سے نوازا۔

    شہنشاہ قوالی نصرت فتح علی خان جگرا ور گردوں کے عارضہ سمیت مختلف امراض میں مبتلا ہونے کے باعث صرف 49سال کی عمر میں 16اگست 1997 کو اپنے کروڑوں مداحوں کو روتا چھوڑ گئے۔


    نصرت فتح علی خاں کی یادگارغزلیں


     

  • معروف غزل گلوکار مہدی حسن کو گزرے چھ برس بیت گئے

    معروف غزل گلوکار مہدی حسن کو گزرے چھ برس بیت گئے

    کراچی : برصغیر کے عالمی شہرت یافتہ گائیک اور شہنشاہِ غزل استاد مہدی حسن کی آج برسی منائی جا رہی ہے۔ مہدی حسن کو ہم سے بچھڑے چھ برس بیت گئے، مگر اُن کا فن آج بھی زندہ ہے، ان کا نام اور ان کی آواز کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔

    مہدی حسن 1927ء میں بھارتی ریاست راجستھان کے ایک گاؤں لونا میں پیدا ہوئے تھے ۔ اُن کے والد اور چچا دُھرپد گائیکی کے ماہر تھے اور مہدی حسن کی ابتدائی تربیت گھر ہی میں ہوئی۔ خود اُن کے بقول وہ کلاونت گھرانے کی سولہویں پیڑھی سے تعلق رکھتے تھے۔

    انہوں نے موسیقی کی تربیت اپنے والد استاد عظیم خان اور اپنے چچا استاد اسماعیل خان سے حاصل کی، جو کلاسیکل موسیقار تھے۔ 1947ء میں مہدی حسن اہل خانہ کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان چلے گئے اور محنت مزدوری کے طور پر سائیکلیں مرمت کرنے کا کام شروع کیا۔

    مہدی حسن کی یادگارشیلڈزاوراعزازات اونے پونے داموں فروخت

    اس کے علاوہ کئی ملی نغمے بھی گائے جو لوگوں مداحوں میں بے حد مقبول ہوئے، سنتوش کمار، درپن، وحید مراد اور محمد علی سے لے کر ندیم اور شاہد تک ہر ہیرو نے مہدی حسن کے گائے ہوئے گیتوں پر لب ہلائے۔

    شہنشاہ غزل مہدی حسن کی آواز میں ایک خوبصورت ملّی نغمہ

    سنجیدہ حلقوں میں اُن کی حیثیت ایک غزل گائیک کے طور پر مستحکم رہی۔ اسی حیثیت میں انھوں نے برِصغیر کے ملکوں کا کئی بار دورہ بھی کیا۔ ان کے شاگردوں میں سب سے پہلے پرویز مہدی نے نام پیدا کیا اور تمام عمر اپنے اُستاد کو خراجِ عقیدت پیش کرتے رہے۔

    بعد میں غلام عباس، سلامت علی، آصف جاوید اور طلعت عزیز جیسے ہونہار شاگردوں نے اْن کی طرز گائیکی کو زندہ رکھا۔ استاد مہدی حسن تیرہ جون سال 2012کو کراچی کے ایک نجی اسپتال میں اس دار فانی سے کوچ کرگئے تھے ۔