Tag: موسیقی

  • موسیقی کے حوالے سے طالبان کا بیان آ گیا

    موسیقی کے حوالے سے طالبان کا بیان آ گیا

    کابل: موسیقی کے حوالے سے افغان طالبان کا مؤقف اور مستقبل میں اس حوالے سے اقدامات کے سلسلے میں ترجمان طالبان نے وضاحت کر دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے نیویارک ٹائمز کو انٹرویو میں بتایا کہ اسلام میں موسیقی حرام ہے، اس لیے عوامی مقامات پر موسیقی پر پابندی ہوگی۔

    ترجمان طالبان نے کہا لیکن اس حوالے سے ہم لوگوں پر دباؤ ڈالنے کی بجائے کوشش کریں گے کہ وہ ایسا نہ کریں۔

    خواتین کے حوالے سے بھی ذبیح اللہ مجاہد نے طالبان کا مؤقف پیش کیا، انھوں نے ایک بار پھر دہراتے ہوئے کہا کہ خواتین کو اسکول، کالجز اور دفاتر میں کام کی اجازت ہوگی۔

    طالبان ترجمان نے تردید کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ خواتین کا نقاب اور گھروں میں رہنے والی بات بے بنیاد ہے، خواتین کو اگر 3 یا اس سے زیادہ دن کے سفر پر جانا ہے، تو محرم کا ساتھ ہونا لازمی ہوگا۔

    ذبیح اللہ مجاہد نے عالمی برادری سے کہا کہ طالبان ان کے ساتھ مل کا کرم کرنے کے لیے تیار ہیں، ترجمان نے کہا کہ ہم مستقبل بنانا چاہتے ہیں اور ماضی کو بھول جانا چاہتے ہیں۔

  • موسیقی کا عالمی دن: آپ کا پسندیدہ گانا کون سا ہے؟

    موسیقی کا عالمی دن: آپ کا پسندیدہ گانا کون سا ہے؟

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج موسیقی کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ اس دن کو منانے کا آغاز سنہ 1981 میں فرانسیسی دارالحکومت پیرس سے ہوا، چند ہی سال میں یہ دن ایشیائی ممالک سمیت پوری دنیا میں منایا جانے لگا۔

    یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ انسان نے ابلاغ یا مختلف کیفیات کے اظہار کے لیے کب موسیقی کو ذریعہ بنایا، تاہم ہزاروں سال پرانے آثار قدیمہ سے آلات موسیقی کا برآمد ہونا، جو زیادہ تر پتھروں سے بنائے گئے، اس بات کا ثبوت ہے کہ موسیقی کی تاریخ نسل انسانی جتنی ہی پرانی ہے۔

    برصغیر میں موسیقی کی روایت بہت پرانی ہے۔ اس فن نے مغلیہ دور سے بہت پہلے عروج حاصل کر لیا تھا۔ امیر خسرو کے بعد تان سین اور بیجو باورا، کے ایل سہگل اور مختار بیگم سے ماضی قریب تک سینکڑوں کلاسیک گائیک اس فن کے امین بنے۔

    کلاسیکی موسیقی کی خوبصورت جہتوں میں ٹھمری، دادرہ، کافی اور خیال گائیکی شامل ہے جن کے سامعین کی تعداد تو وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتی گئی، تاہم اس سے ان جہتوں کی عظمت پر کوئی فرق نہیں پڑا۔

    قیام پاکستان کے بعد موسیقی کے شعبہ میں نصرت فتح علی خان، نور جہاں، مہدی حسن، فریدہ خانم، اقبال بانو، خورشید بیگم، غلام علی، پرویز مہدی، احمد رشدی اور مسعود رانا جیسے ناموں نے لازوال گیت تخلیق کیے اور گائے۔

    فوک موسیقی میں عالم لوہار، شوکت علی، نذیر بیگم، ثریا ملتانیکر، ریشماں، پٹھانے خان، عابدہ پروین، سائیں اختر، عارف لوہار اور دیگر نے اس فن کو بام عروج پر پہنچایا۔

    موسیقی کی ایک اور جہت قوالی بھی ہے جس کا سب سے درخشاں ستارہ استاد نصرت فتح علی خان ہیں جن کی خوبصورت آواز اور گائیکی دنیا بھر میں مقبول ہے اور آج بھی ان کے چاہنے والے دنیا کے ہر حصے میں موجود ہیں۔

    اس جہت میں غلام فرید صابری اور عزیز میاں سمیت کئی دوسرے قوالوں نے بھی اپنی گائیکی سے دنیا بھر میں اپنے مداح پیدا کیے۔

    وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ موسیقی کے رجحانات بھی تبدیل ہوچکے ہیں۔ اب نوجوان نسل زیادہ تر پوپ موسیقی سننا پسند کرتی ہے۔ پاکستان میں پوپ موسیقی کے آغاز کا سہرا نازیہ حسن کے سر ہے جنہوں نے 80 کی دہائی میں اپنے گانوں سے بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔

    موجودہ دور میں پوپ موسیقی میں علی ظفر، عاطف اسلم، عمیر جسوال اور مومنہ مستحسن وغیرہ مقبول نام ہیں۔ 90 کی دہائی کے گلوکار جیسے حدیقہ کیانی اور علی عظمت بھی اب موسیقی کی اسی جہت کو اپنائے ہوئے ہیں۔

  • مائیکل جیکسن کی بیٹی والد کے نقش قدم پر

    مائیکل جیکسن کی بیٹی والد کے نقش قدم پر

    عالمی شہرت یافتہ گلوکار مائیکل جیکسن کی بیٹی پیرس جیکسن نے اپنا پہلا میوزک البم ریلیز کردیا، پیرس نے اپنے والد سے بالکل مختلف موسیقی کی اصناف پر طبع آزمائی کی ہے۔

    آنجہانی گلوکار مائیکل جیکسن کی بیٹی پیرس 15 برس کی عمر سے ماڈلنگ اور اداکاری کر رہی ہیں اور اب انہوں نے گلوکاری کی دنیا میں بھی قدم رکھ دیا ہے۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by (@parisjackson)

    والد کی موت کے وقت وہ صرف 10 برس کی تھیں اور تب سے وہ شدید ذہنی مسائل سے دوچار رہی ہیں۔

    اب انہوں نے اپنا پہلا میوزک البم ویٹڈ ریلیز کیا ہے، انہوں نے والد کی طرح پاپ موسیقی کے بجائے مختلف صنف میں گانے گائے ہیں جس سے مائیکل جیکسن کے مداح کافی ناخوش بھی ہیں۔

    تاہم پیرس کا کہنا ہے کہ جنہیں ان کے گانے پسند نہیں وہ نہ سنیں، انہوں نے لوگوں کو خوش کرنا چھوڑ دیا ہے۔

    اس البم میں 11 گانے ہیں جن میں بعض گانوں میں پیرس نے اپنی زندگی کے حالات کو بھی بیان کیا ہے جیسے کم عمری میں والد سے جدائی کا دکھ، ڈپریشن اور مائیکل جیکسن کے بعد ان کے حوالے سے سامنے آنے والے تنازعات جنہوں نے مائیکل کے بچوں کو خاصا متاثر کیا۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by (@parisjackson)

    پیرس کے علاوہ مائیکل جیکسن کے 2 اور بیٹے بھی ہیں جن کی عمریں 23 اور 18 سال ہیں۔ دنیا کو اپنی موسیقی اور رقص سے دیوانہ بنانے والے مائیکل جیکسن 25 جون 2009 کو نہایت پراسرار حالات میں چل بسے تھے۔

  • موسیقی کا عالمی دن: آپ کو کیسی موسیقی پسند ہے؟

    موسیقی کا عالمی دن: آپ کو کیسی موسیقی پسند ہے؟

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج موسیقی کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ اس دن کو منانے کا آغاز سنہ 1981 میں فرانسیسی دارالحکومت پیرس سے ہوا، چند ہی سال میں یہ دن ایشیائی ممالک سمیت پوری دنیا میں منایا جانے لگا۔

    یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ انسان نے ابلاغ یا مختلف کیفیات کے اظہار کے لیے کب موسیقی کو ذریعہ بنایا، تاہم ہزاروں سال پرانے آثار قدیمہ سے آلات موسیقی کا برآمد ہونا، جو زیادہ تر پتھروں سے بنائے گئے، اس بات کا ثبوت ہے کہ موسیقی کی تاریخ نسل انسانی جتنی ہی پرانی ہے۔

    برصغیر میں موسیقی کی روایت بہت پرانی ہے۔ اس فن نے مغلیہ دور سے بہت پہلے عروج حاصل کر لیا تھا۔ امیر خسرو کے بعد تان سین اور بیجو باورا، کے ایل سہگل اور مختار بیگم سے ماضی قریب تک سینکڑوں کلاسیک گائیک اس فن کے امین بنے۔

    کلاسیکی موسیقی کی خوبصورت جہتوں میں ٹھمری، دادرہ، کافی اور خیال گائیکی شامل ہے جن کے سامعین کی تعداد تو وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتی گئی، تاہم اس سے ان جہتوں کی عظمت پر کوئی فرق نہیں پڑا۔

    قیام پاکستان کے بعد موسیقی کے شعبہ میں نصرت فتح علی خان، نور جہاں، مہدی حسن، فریدہ خانم، اقبال بانو، خورشید بیگم، غلام علی، پرویز مہدی، احمد رشدی اور مسعود رانا جیسے ناموں نے لازوال گیت تخلیق کیے اور گائے۔

    فوک موسیقی میں عالم لوہار، شوکت علی، نذیر بیگم، ثریا ملتانیکر، ریشماں، پٹھانے خان، عابدہ پروین، سائیں اختر، عارف لوہار اور دیگر نے اس فن کو بام عروج پر پہنچایا۔

    موسیقی کی ایک اور جہت قوالی بھی ہے جس کا سب سے درخشاں ستارہ استاد نصرت فتح علی خان ہیں جن کی خوبصورت آواز اور گائیکی دنیا بھر میں مقبول ہے اور آج بھی ان کے چاہنے والے دنیا کے ہر حصے میں موجود ہیں۔

    اس جہت میں غلام فرید صابری اور عزیز میاں سمیت کئی دوسرے قوالوں نے بھی اپنی گائیکی سے دنیا بھر میں اپنے مداح پیدا کیے۔

    وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ موسیقی کے رجحانات بھی تبدیل ہوچکے ہیں۔ اب نوجوان نسل زیادہ تر پوپ موسیقی سننا پسند کرتی ہے۔ پاکستان میں پوپ موسیقی کے آغاز کا سہرا نازیہ حسن کے سر ہے جنہوں نے 80 کی دہائی میں اپنے گانوں سے بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔

    موجودہ دور میں پوپ موسیقی میں علی ظفر، عاطف اسلم، عمیر جسوال اور مومنہ مستحسن وغیرہ مقبول نام ہیں۔ 90 کی دہائی کے گلوکار جیسے حدیقہ کیانی اور علی عظمت بھی اب موسیقی کی اسی جہت کو اپنائے ہوئے ہیں۔

  • کیا یہ ساز  بیماری سے نجات دلا سکتا ہے؟

    کیا یہ ساز بیماری سے نجات دلا سکتا ہے؟

    بلوچستان کی لوک موسیقی سروز کے بغیر ادھوری اور پھیکی معلوم ہوگی۔ یہ وہ ساز ہے جو کسی ماہر کے ہاتھ لگے تو کئی دھنیں بجانے کے لیے کافی ہوتا ہے اور اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔

    مخصوص ڈیزائن کے ساتھ لکڑی، چند تاروں اور ایک چھوٹی سی پوست پر مشتمل اس ساز کے ساتھ اگر طنبورہ یا کوئی اور ساز ملا لیا جائے تو موسیقی کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔

    سروز بنانے کے طریقے مختلف ہیں اور اس میں‌ مختلف لکڑیاں استعمال ہوتی ہیں۔
    اس ساز میں تاروں کی تعداد بارہ سے سترہ ہو سکتی ہے۔ سروز کو بجانے والا اسی ساز کی نسبت سروزی کہلاتا ہے۔

    یہ قدیم بلوچی ساز ہے جسے اب سازندے میسر نہیں اور جو اس کے وجود سے سُر اور لَے چھیڑنا جانتے ہیں، وہ فکرِ معاش میں ایسے غرق ہوئے کہ اُس خوشی اور مسرت سے دور ہوگئے جو سروز کے تاروں میں پوشیدہ ہے۔

    نئی نسل جدید آلاتِ موسیقی اور طرزِ گائیکی کا شوق رکھتی ہے اور دوسرے سازوں کی طرح اس کا مستقبل بھی محفوظ نظر نہیں آتا۔

    کب اور کس نے سروز ایجاد کیا، اس بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے، مگر یہ صدیوں سے خوشی کے گیت گانے کے لیے استعمال ہورہا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ سروز لفظ سُر سے نکلا ہے جس کے معنی مٹھاس کے ہیں اور سال ہا سال سے یہ ساز خوشی کی تقاریب میں شادمانی کے اظہار کا ذریعہ رہا ہے۔

    دل چسپ اور عجیب بات یہ ہے کہ اس ساز کو گوات نیمون نامی ایک بیماری کے علاج میں مددگار تصور کیا جاتا ہے۔

  • کیا موسیقی جرائم کا راستہ روک سکتی ہے؟

    کیا موسیقی جرائم کا راستہ روک سکتی ہے؟

    یہ وینزویلا کی اس ہمہ جہت شخصیت کا تذکرہ ہے جو فنونِ لطیفہ کو سماج میں تبدیلی لانے کا مؤثر ذریعہ مانتے تھے۔

    انھوں نے اپنے وطن میں موسیقی کے ذریعے تبدیلی کا آغاز کیا اور خاص طور پر نوجوانوں کو اس طرف راغب کیا۔

    ہم بات کررہے ہیں Jose Antonio Abreu کی جو وینزویلا میں تعلیم، اقتصادیات، سیاست سمیت آرٹ کے مختلف شعبوں کا اہم اور روشن حوالہ ہیں اور 2018 میں آج ہی کے دن اس دنیا سے رخصت ہوئے تھے۔

    انھیں اپنے فلسفے اور نظریات کے علاوہ سماجی خدمات کے حوالے سے دنیا بھر میں پہچانا جاتا ہے۔

    وہ 1939 میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے وینزویلا میں لگ بھگ تیس برس قبل سماجی برائیوں اور سنگین نوعیت کے جرائم کی روک تھام کے لیے موسیقی کی مدد لینے کا ایک نظریہ پیش کیا۔ ان دنوں ملک میں ہر طرف قتل و غارت گری اور نوجوان منشیات کے عادی تھے۔ بدامنی، کرپشن کے علاوہ گینگ وار میں روزانہ ہلاکتوں کا سلسلہ جاری تھا۔

    حکومت کو قائل کرتے ہوئے انھوں نے ملک میں دو برس کی عمر سے بچوں کو مفت موسیقی سکھانے کا سلسلہ شروع کیا۔

    اس طریقہ تعلیم میں سماج کو مرکزی اہمیت حاصل تھی اور ایسی کلاسوں میں بچوں کو ایک دوسرے کا احترام اور باہمی تعاون کا درس بھی دیا جاتا۔ رفتہ رفتہ حالات بہتر ہوئے اور آج بھی وینزویلا میں موسیقی کو مثبت تبدیلیوں اور صحت مند معاشرے کی تشکیل میں اہم خیال کیا جاتا ہے۔

    (تلخیص و ترجمہ: عارف عزیز)

  • فلم شیریں فرہاد کے موسیقار رشید عطرے کا 99 واں جنم دن

    فلم شیریں فرہاد کے موسیقار رشید عطرے کا 99 واں جنم دن

    لاہور: فلم مامتا سے اپنے کیریئر کا آغاز کرنے والے برصغیر کے مایہ ناز موسیقار رشید عطرے کا آج 99 واں یوم پیدایش منایا جا رہا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق عبد الرشید عطرے نے بمبئی میں 6 اور لاہور میں 80 سے زائد فلمی نغموں کی موسیقی ترتیب دی اور 3 نگار ایوارڈ حاصل کیے، آج ان کا ننانوے واں جنم دن ہے۔

    15 فروری 1919 کو ربابی خاندان کے بلند پایا ہارمونیم نواز خوشی محمد امرتسری کے گھر جنم لینے والے عبد الرشید نے کیرئیر کا آغاز رشید عطرے کے نام سے 1942 میں بننے والی فلم ’’مامتا‘‘ سے کیا، رشید عطرے نے شیریں فرہاد، سرفروش، وعدہ، سات لاکھ، نیند، قیدی اور مکھڑا جیسی شاہ کار فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔

    انھوں نے موسیقار کے نام سے اپنی ذاتی فلم بھی بنائی، رشید عطرے کے مشہور نغمات میں آئے موسم رنگیلے سہانے، مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ، گائے گی دنیا گیت میرے اور لٹ الجھی سلجھا جا رے بالم شامل ہیں۔

    برصغیر کے یہ عظیم موسیقار پندرہ فروری انیس سو انیس کو برطانوی انڈیا کے امرتسر میں پیدا ہوئے تھے جب کہ ان کا انتقال 18 دسمبر 1967 کو پاکستان کے شہر لاہور میں ہوا۔ نوجوان رشید عطرے نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم کے اسباق اپنے والد ہی سے حاصل کیے اور پھر اپنے عہد کے عظیم گائیک استاد فیاض علی خان کے شاگرد ہو گئے، موسیقی میں ان کی ذہانت مشہور تھی۔

  • سعودی بچیاں پیانو بجانے لگیں

    سعودی بچیاں پیانو بجانے لگیں

    ریاض: سعودی اسکولوں میں حال ہی میں موسیقی کا مضمون شامل کردینے کے بعد 300 بچیوں نے پیانو بجانا سیکھ لیا۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی اسکولوں میں حال ہی میں موسیقی کا مضمون بھی شامل کردیا گیا ہے جس کے بعد جدہ کے ایک اسکول میں 300 بچیوں نے اس مضمون کے تحت پیانو بجانا سیکھا۔

    ان بچیوں نے نہایت شوق کے ساتھ پیانو کی کلاسیں لیں، ان میں سے 10 نے مہارت سے پیانو بجا کر سرٹیفیکیٹ بھی حاصل کیا۔

    جدہ کے اس اسکول میں گٹار بجانا بھی سکھایا جارہا ہے، یہاں بھی ریکارڈ تعداد میں بچیوں نے دلچسپی ظاہر کی۔ مضمون کے استادوں ثامر خلیل اور عبیر بالبید نے بچیوں کو گٹار بجانا سکھایا۔

    اساتذہ نے پیانو کے ذریعے بچیوں کو میوزک سے متعارف کروایا اور نغمہ سازی کے ہنر سے روشناس کرایا۔ بچیوں کو پیشہ وارانہ انداز میں گٹار بجانے پر اعزاز سے بھی نوازا گیا۔

    ان بچیوں کو میوزک کی ابجد شارجہ میں امریکن یونیورسٹی کے کورس کے مطابق سکھائی گئی۔

  • سہ تار جو ستار ہو گیا!

    سہ تار جو ستار ہو گیا!

    برصغیر میں موسیقی اور راگ راگنیوں کے ساتھ کئی خوب صورت سازوں نے بھی شائقین کے ذوق کی تسکین کی۔

    ان میں بعض ساز ایسے ہیں جو ایجاد کے بعد مختلف ادوار میں ماہر سازندوں کی اختراع سے مزید سحرانگیز اور پُرلطف ثابت ہوئے۔ ستار وہ ساز ہے جس سے کلاسیکی موسیقی کا ہر شائق واقف ہے، مگر یہ کب ایجاد ہوا، اسے برصغیر میں کس نام سے جانا جاتا تھا اور کیا ستار کسی دوسرے ساز کی ایک شکل ہے؟

    آئیے، اس ساز سے متعلق معلومات میں اضافہ کرتے ہیں۔

    کبھی یہ سہ تار کے نام سے جانا جاتا تھا جسے بعد میں ستار کہا جانے لگا۔ ستار دراصل ایک پرانے ہندی ساز وینا کی سادہ شکل ہے۔ برصغیر میں کلاسیکی موسیقی کی دنیا اور اس کے شائقین میں اب یہ ساز ستار کے نام سے ہی مشہور ہے۔ چند دہائیوں قبل تک اسے بہت شوق اور دل چسپی سے سنا جاتا ہے اور آج بھی موسیقی کی محافل میں ستار لازمی ہوتا ہے۔

    محققین کے مطابق یہ ساز امیر خسرو کا ایجاد کردہ ہے، لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ خود امیر خسرو نے اپنی تحاریر میں اس ساز کا ذکر نہیں کیا۔ ماہرین کے ایک گروہ نے اپنی کھوج کے بعد یہ بھی لکھا ہے کہ یہ ساز اصل میں فارس یا کاکیشیا میں مروج تھا اور وہیں سے ہندوستان میں آیا، مگر معتبر اور مستند حوالوں میں اس ساز یعنی ستار کا موجد امیر خسرو کو ہی بتایا گیا۔

    مغل دور سے لے کر عہدِ حاضر تک اس ساز کو کئی باکمال فن کار ملے، لیکن جدید دور میں مزید چند دہائیاں بیت جانے پر یہ ساز اور اس کے تار انگلیوں سے چھیڑ اور سازندے کی مہارت کو ترس جائیں گی۔

    کلاسیکی آلاتِ موسیقی کا علم رکھنے والے اور سازوں کی زبانی آپ کو معلوم ہو گا کہ ستار کے کدو کو تونبا کہتے ہیں جب کہ اس کی لمبی کھوکھلی لکڑی کو ڈانڈ کہا جاتا ہے۔ تونبے کی چھت پر ہڈی کے دو پل سے ہوتے ہیں جو جواریاں کہلاتے ہیں، ان پر سے تاریں گزرتی ہیں۔

    ڈانڈ پر لوہے یا پیتل کے قوس سے بنے ہوتے ہیں جنھیں پردے یا سندریاں پکارا جاتا ہے۔ تاروں کا ایک سِرا تونبے کے پیچھے ایک کیل سے بندھا ہوتا ہے اور دوسرے کو ڈانڈ میں لگی ہوئی کھونٹیوں سے باندھ دیا جاتا ہے۔ موجودہ دور میں ستار کے تاروں کی تعداد تو متعیّن نہیں رہی، مگر زیادہ تر اس میں چار تاریں، دو چکاریاں اور تیرہ طربیں رکھی جاتی ہیں۔

  • تعصب یا حبُ الوطنی؟

    تعصب یا حبُ الوطنی؟

    بینجمن بریٹن کو دنیا کا مشہور موسیقار اور لازوال دھنوں کا خالق کہا جاتا ہے۔

    موسیقی اس کا عشق اور اس فن سے اسے محبت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی تخلیق کردہ دھنیں لوگوں کے دلوں میں اتر گئیں اور یادگار ٹھیریں، لیکن اس باکمال آرٹسٹ اور ماہر موسیقار نے وہ دن بھی دیکھا جب اس کی متعدد کاوشیں مسترد کردی گئیں اور ستم یہ ہے کہ وجہ بھی نہیں بتائی گئی۔ اس حوالے سے دریافت کرنے پر تسلی بخش جواب بھی نہیں‌ دیا گیا اور یہ موسیقار آخری سانس تک اس کا سبب نہ جان سکا۔

    یہ 1957 کی بات ہے جب ملکۂ برطانیہ نے ملائیشیا کی آزادی کے پروانے پر اپنی مہر ثبت کی۔ اگست کا مہینہ گویا سَر پر تھا۔ قوم پہلا جشنِ آزادی منانے کے لیے بے تاب تھی۔ کیلنڈر پر جون کی تاریخیں تیزی سے بدل رہی تھیں، مگر نو آزاد ریاست کی حکومت اب تک قومی جھنڈے اور ترانے کا فیصلہ نہیں کرسکی تھی اور اس سلسلے میں فکرمند تھی۔

    بینجمن بریٹن دنیائے موسیقی کا وہ نام تھا جسے اس حوالے سے بھی پہچانا جاتا تھا۔ حکومت نے اس سے رابطہ کیا اور اس نے جلد ہی ایک دُھن سرکاری نمائندے کے سامنے رکھ دی، مگر اسے سندِ قبولیت نہ ملی۔ اس کا سبب نہیں بتایا گیا بلکہ حکام کی خاموشی حد درجہ پُراسرار معلوم ہو رہی تھی۔ بعد میں بینجمن بریٹن سے مزید دھنیں طلب کی گئیں جو اس نے مکمل کر کے حکام کو تھما دیں، مگر عجیب بات یہ ہے کہ ملائیشیا کا ملّی نغمہ اس کے ایک ہم عصر کی دھن سے آراستہ ہے۔

    یہ راز 1976 میں بریٹن کی موت کے بعد کھلا جب ایک برطانوی محقق نے ملّی نغموں کی تاریخ مرتب کی. معلوم ہوا کہ ملائیشیا کے حکام نے اس موسیقار کی اوّلین دھن کو قومی ترانے کے لیے ناموزوں قرار دے کر متعدد مقامی گیتوں کے ‘‘ٹیپ’’ تھما دیے اور ہدایت کی کہ ایسی دُھن ترتیب دے جو ان سے مماثلت رکھتی ہو۔

    ماہر موسیقار نے یومِ آزادی سے ایک ہفتہ قبل اپنی ترتیب دی ہوئی چند دھنیں حکومتی نمائندے کے سپرد کردیں اور مطمئن ہو گیا، لیکن یومِ آزادی پر پڑھے گئے ترانے کی دھن ایک فرانسیسی موسیقار کی ترتیب دی ہوئی تھی۔ وہ حیران تھا کہ ایسا کیوں‌ ہوا مگر وہ زندگی بھر اس کی اصل وجہ نہیں‌ جان سکا۔

    محققین کے نزدیک اس کا سبب بریٹن کی برطانوی شہریت تھی۔ غالباً حکومت کو بعد میں یہ خیال آیا کہ بینجمن اسی ملک کا باشندہ ہے جس کی غلامی سے وہ ابھی آزاد ہوئے ہیں اور اسی برطانیہ کے ایک موسیقار سے ترانے کی دھن بنوانا کسی بھی وقت موضوعِ بحث بن سکتا ہے۔ قوم شاید اسے قبول نہ کرے اور یوں‌ عجلت میں‌ ایک فرانسیسی موسیقار کی خدمات حاصل کر کے قومی ترانے کی دھن بنوائی گئی۔ (تلخیص و ترجمہ: عارف عزیز)