Tag: موسیقی

  • افسانوی شہرت کے حامل بابا علاؤ الدین کا تذکرہ

    افسانوی شہرت کے حامل بابا علاؤ الدین کا تذکرہ

    بابا علاؤ الدین افسانوی شہرت کی حامل ہیں۔ ایک دور تھا جب دنیا بھر میں ان کے فن کا چرچا ہوا اور وہ موسیقی کے استاد مانے گئے۔ انھیں سُروں کا ماہر اور راگنیوں کا بہترین شناسا کہا جاتا تھا۔

    کم عمری میں ہی علاؤ الدین کو موسیقی اور سازوں میں دل چسپی پیدا ہو گئی تھی۔ گیتوں، راگ راگنیوں اور سازوں میں یہ دل چسپی اور شوق چند برس بعد جنون میں ڈھل گیا۔

    نوجوانی میں انھوں نے سُر اور ساز سے ایسا ناتا جوڑا کہ پھر تمام عمر اسی کے نام کر دی۔ اپنے ہنر میں یکتا اور منفرد علاؤ الدین کو دنیائے موسیقی نے ‘‘استاد’’ تسلیم کیا۔ شاگردوں اور عقیدت مندوں میں جلد ہی بابا علاؤ الدین کے نام سے مشہور ہوگئے۔

    انھوں نے وہ افسانوی شہرت حاصل کی کہ عام لوگ ہی نہیں اپنے وقت کی مشہور اور نام وَر شخصیات راجا، سلاطینِ وقت، امرا و درباری ان سے ملاقات کی خواہش مند رہے اور اسے اپنے لیے اعزاز سمجھا۔

    اس عظیم موسیقار نے 1862 میں بھارت کے شہر تریپورہ میں آنکھ کھولی۔ موسیقی کے اَسرار و رموز سیکھنے کے لیے سُر اور سنگیت کی دنیا کے نام وروں کے پاس بیٹھے اور ان کے علم سے بھرپور استفادہ کیا۔ بابا علاؤ الدین نے طویل عمر پائی۔ ان کا انتقال 1972ء میں 110 سال کی عمر میں ہوا۔

    برصغیر کا روایتی ساز ’سرود‘ بابا علاؤ الدین کا پسندیدہ تھا۔ اس فن میں انھوں نے جہاں اپنے وقت کے نام ور مسلمان موسیقاروں سے استفادہ کیا، وہیں متعدد ہندو گائیک اور سازندوں سے بھی بہت کچھ سیکھا۔ مشہور ہے کہ مشرقی بنگال کے ایک لوک گائیک گوپال کرشن بھٹاچاریہ کی شاگری اختیار کرنے کے لیے علاؤ الدین نے نہ صرف خود کو ہندو ظاہر کیا بلکہ اپنا نام بھی تارا سنہا رکھ لیا تھا۔

    استاد علاؤ الدین خان نے مختلف ساز، خصوصاً سرود نوازی کے علاوہ فلموں کے لیے موسیقی بھی ترتیب دی۔ کئی راگ ان کی تخلیق بتائے جاتے ہیں۔ کومل بھیم پلاسی، کومل ماروا، دُرگیشوری، نٹ کھماج، میگھ بہار اور جونپوری توڑی بابا علاؤ الدین کی تخلیقی صلاحیتوں کا مظہر ہیں۔

    بابا علاؤ الدین کے کئی ساز، ان کی نادر تصاویر، کتب، تحائف اور دیگر یادگار اشیا بنگلہ دیش کے سنگیت آنگن نامی میوزیم میں محفوظ کی گئی تھیں، جسے ایک ہنگامے کے دوران مشتعل طلبا نے آگ لگا دی جس کے نتیجے میں بیش قیمت خزانہ خاکستر ہو گیا، لیکن ان کا فن آج بھی زندہ ہے اور ان کی یادیں موسیقی سے محبت کرنے والوں کے دلوں پر نقش ہیں۔

    بابا علاؤ الدین کے شاگردوں نے بھی اس فن میں اپنے استاد کا نام روشن کیا اور دنیا بھر میں اپنے فن کا مظاہرہ کرکے شہرت سمیٹی۔ ان میں پنڈت روی شنکر، استاد علی اکبر خان، پنڈت نخل بینرجی، وسنت رائے، پنا لال گھوش، شرن رانی اور جوتن بھٹاچاریہ شامل ہیں۔

  • ہم بھول گئے ہر بات مگر تیرا پیار۔۔

    ہم بھول گئے ہر بات مگر تیرا پیار۔۔

    اپنے سریلے گیتوں سے پاکستان فلم انڈسٹری کو چار چاند لگانے والی نسیم بیگم کی اڑتالیسویں برسی آج منائی جارہی ہے، ان کے گائے ملی نغمے اور فلمی گیت آج بھی ذہنوں میں تروتازہ ہیں۔

    نسیم بیگم سنہ 1936میں امرتسرمیں پیدا ہوئیں، انہوں نے موسیقی کا فن مشہور غزل گو فریدہ خانم کی بڑی بہن اور کلاسیکل گلوکارہ مختار بیگم سے سیکھا اورسنہ 1956میں اپنے فنی سفر کا آغازکیا۔

    اپنا پہلا فلمی نغمہ انہوں نے فلم گڈی گڑیا میں گایا۔ اُنہوں نے احمد رشدی کے ساتھ بھی بہت سے دوگانے گائے۔ نیز اُنہوں نے بہت سے ملّی نغمے بھی گائے ہیں، جن میں اے راہِ حق کے شہیدوں وفا کی تصویروں، تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کرتی ہیں بہت مقبول ہوئے۔

    نسیم بیگم کو کلاسیکی گیتوں پر مہارت اور دسترس حاصل تھی ، انہوں نے 500سے زائد فلمی نغمے گائے،اور سننے والوں سے داد سمیٹی۔نسیم بیگم نےفلم گلفام، شہید، شام ڈھلے، سلمٰی، زرقا سمیت سینکڑوں فلموں کیلئے بے شمار گیت گائے اور شہرت کی بلندیوں تک پہنچیں۔

    بادلوں میں چھپ رہا ہے چاندکیوں، کہیں دو دل جو مل جاتے بگڑتا کیا زمانے کا، نینوں میں جل بھر آئے، سو بارچمن مہکا سو بار بہار آئی، اس بے وفا کا شہر ہے، ہم ہیں دوستو اور ہم بھول گئے ہر بات مگر تیرا پیار نہیں بھولےجیسے سدا بہار گیتوں نے نسیم بیگم کو ہمیشہ کیلئے امر کر دیا۔

    پاکستان کی موسیقی کی انڈسٹری میں انہیں درس گاہ کا درجہ حاصل تھا اور انہیں ملکہ ترنم نور جہاں کا نعم البدل بھی تصور کیا جاتا تھا لیکن جلد ہی انہوں نے اپنا الگ انداز اپنایا جسے مقبولیت عام میسر آئی، انہوں نے اپنی گائیکی کے لیے چار نگار ایوارڈز بھی جیتے۔

    آج سے اڑتالیس سال قبل 29ستمبر 1971ء کو دورانِ زچگی پیچیدگی پیش آنے کے سبب اُن کا انتقال ہو گیا تھا ، لیکن اپنی مدھر آواز اور بے مثال گائیکی کے سبب وہ مداحوں کے دلوں میں آج بھی زندہ ہیں۔

  • کام کرتے ہوئے موسیقی سننے کا نقصان

    کام کرتے ہوئے موسیقی سننے کا نقصان

    ہم میں سے اکثر افراد کام کرتے ہوئے موسیقی سننا پسند کرتے ہیں، بعض افراد کوئی تخلیقی کام کرتے ہوئے جیسے لکھنے پڑھنے یا مصوری کرنے کے دوران بھی موسیقی سنتے ہیں۔

    لیکن کیا آپ جانتے ہیں تخلیقی کام کرتے ہوئے موسیقی سننے کا کیا نقصان ہے؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ موسیقی سنتے ہوئے تخلیقی کام کرنا آپ کی تخلیقی صلاحیت پر منفی اثرات مرتب کرسکتا ہے۔

    ان کے مطابق تخلیقی کام کرتے ہوئے دماغ کو مکمل طور پر اسی کام کی طرف متوجہ کیے رکھنا ضروری ہے تاکہ اپنی تخلیقی صلاحیت کا بہترین استعمال کیا جاسکے۔ لیکن موسیقی سننا دماغ کی توجہ کو تقسیم کردیتا ہے یوں آپ کی تخلیقی صلاحیت میں کمی واقع ہوتی ہے۔

    اس سے قبل بھی ایسی ہی ایک تحقیق سامنے آئی تھی جس میں تخلیقی کام اور موسیقی کے تعلق کو دیکھا گیا تھا۔

    ماہرین نے دیکھا تھا کہ مدھم اور نسبتاً اداس موسیقی نے تجربے میں شامل طلبا کی تخلیقی صلاحیت پر منفی اثر ڈالا اور وہ اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہے۔

    دوسری طرف پرشور موسیقی نے بھی طلبا میں ہیجان انگیزی کو فروغ دیا اور وہ بھی اپنے کام پر توجہ مرکوز نہ کرسکے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ تخلیقی کام کرتے ہوئے مکمل سکون، تنہائی اور خاموشی کا ماحول تخلیقی صلاحیت کو مہمیز کرنے میں معان ثابت ہوسکتا ہے۔

  • پرانی کلاشنکوف سے مدھر نغمے بکھرنے لگے

    پرانی کلاشنکوف سے مدھر نغمے بکھرنے لگے

    جنگ و جدل کتابوں کہانیوں کی حد تک تو رومانوی لگتا ہے، لیکن جب یہ شروع ہوتی ہے تو ہر شخص اس سے بیزار ہو کر امن کی خواہش کرنے لگتا ہے۔

    اور پھر بغداد کا مجید عبدالنور تو ایک امن پسند شخص ہے جس نے جنگ کی نشانی کو موسیقی کے ساز میں بدل دیا۔ عراقی دارالحکومت بغداد کے رہائشی مجید عبدالنور نے اپنی پرانی کلاشنکوف کو بربط میں بدل دیا ہے جس پر وہ اکثر مدھر نغمے گنگناتا ہے۔

    مجید پیشے کے لحاظ سے استاد ہے، وہ نہ صرف خود جنگ کے دیرپا اور ناقابل تلافی نقصانات سے آگاہ ہے بلکہ نئی نسل کو بھی یہ سب بتاتا ہے، اور جانتا ہے کہ امن ہی سے دنیا کی بقا ہے۔

    مجید نے اپنی اس پرانی کلاشنکوف کو جو اس نے حفاظت کی غرض سے گھر میں رکھی تھی، بربط میں بدل دیا ہے۔ جنگ و امن، اور بربریت و فن کا یہ امتزاج نہایت عجیب معلوم ہوتا ہے۔

    ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 2003 میں امریکا کے عراق پر حملے سے لے کر سنہ 2011 میں امریکی فوجیوں کے انخلا تک، ایک لاکھ سے زائد عام عراقی شہری ہلاک ہوئے۔

    مجید کے خاندان کے بھی بے شمار افراد اس آگ اگلتی جنگ کا نوالہ بن گئے۔ اب جبکہ جنگ ختم ہوچکی ہے، تو مجید نے جنگ کی اس نشانی کو موسیقی کے ساز میں بدل دیا۔

    وہ بتاتا ہے کہ جب وہ اپنے ہتھیار میں تبدیلیاں کروانے کے لیے ایک ماہر کی دکان پر لے گیا تو وہ حیرت زدہ ہوگیا، ’اس نے پوچھا کہ میں آخر کرنا کیا چاہتا ہوں؟ میں نے اسے کہا کہ بس میں جو کہتا ہوں وہی کرو‘۔

    مجید کا کہنا ہے کہ عراق ایک جنگ زدہ میدان معلوم ہوتا تھا، لیکن اب وہ اس سب کو بدلنا چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ ہر شے سے موسیقی کی مدھر دھنیں سنائی دیں۔ ’یہ ناممکن تو ہے لیکن اس کا آغاز میں نے اپنے گھر سے ہی کردیا ہے‘۔

  • موسیقی کا عالمی دن: دل نے وہ گیت گنگنایا ہے

    موسیقی کا عالمی دن: دل نے وہ گیت گنگنایا ہے

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج موسیقی کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ اس دن کو منانے کا آغاز سنہ 1981 میں فرانسیسی دارالحکومت پیرس سے ہوا۔ چند ہی سال میں یہ دن ایشیائی ممالک سمیت پوری دنیا میں منایا جانے لگا۔

    یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ انسان نے ابلاغ یا مختلف کیفیات کے اظہار کے لیے کب موسیقی کو ذریعہ بنایا، تاہم ہزاروں سال پرانے آثار قدیمہ سے آلات موسیقی کا برآمد ہونا، جو زیادہ تر پتھروں سے بنائے گئے، اس بات کا ثبوت ہے کہ موسیقی کی تاریخ نسل انسانی جتنی ہی پرانی ہے۔

    برصغیر میں موسیقی کی روایت بہت پرانی ہے۔ اس فن نے مغلیہ دور سے بہت پہلے عروج حاصل کر لیا تھا۔ امیر خسرو کے بعد تان سین اور بیجو باورا، کے ایل سہگل اور مختار بیگم سے ماضی قریب تک سینکڑوں کلاسیک گائیک اس فن کے امین بنے۔

    کلاسیکی موسیقی کی خوبصورت جہتوں میں ٹھمری، دادرہ، کافی اور خیال گائیکی شامل ہے جن کے سامعین کی تعداد تو وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتی گئی، تاہم اس سے ان جہتوں کی عظمت پر کوئی فرق نہیں پڑا۔

    قیام پاکستان کے بعد موسیقی کے شعبہ میں نصرت فتح علی خان، نور جہاں، مہدی حسن، فریدہ خانم، اقبال بانو، خورشید بیگم، غلام علی، پرویز مہدی، احمد رشدی اور مسعود رانا جیسے ناموں نے لازوال گیت تخلیق کیے اور گائے۔

    فوک موسیقی میں عالم لوہار، شوکت علی، نذیر بیگم، ثریا ملتانیکر، ریشماں، پٹھانے خان، عابدہ پروین، سائیں اختر، عارف لوہار اور دیگر نے اس فن کو بام عروج پر پہنچایا۔

    موسیقی کی ایک اور جہت قوالی بھی ہے جس کا سب سے درخشاں ستارہ استاد نصرت فتح علی خان ہیں جن کی خوبصورت آواز اور گائیکی دنیا بھر میں مقبول ہے اور آج بھی ان کے چاہنے والے دنیا کے ہر حصے میں موجود ہیں۔

    اس جہت میں غلام فرید صابری اور عزیز میاں سمیت کئی دوسرے قوالوں نے بھی اپنی گائیکی سے دنیا بھر میں اپنے مداح پیدا کیے۔

    وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ موسیقی کے رجحانات بھی تبدیل ہوچکے ہیں۔ اب نوجوان نسل زیادہ تر پوپ موسیقی سننا پسند کرتی ہے جس میں مائیکل جیکسن، لیڈی گاگا اور کیٹی پیری اہم نام ہیں۔

    پاکستان میں پوپ موسیقی کے آغاز کا سہرا نازیہ حسن کے سر ہے جنہوں نے 80 کی دہائی میں اپنے گانوں سے بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔

    موجودہ دور میں پوپ موسیقی میں علی ظفر، عاطف اسلم، عمیر جسوال اور مومنہ مستحسن وغیرہ مقبول نام ہیں۔ 90 کی دہائی کے گلوکار جیسے حدیقہ کیانی اور علی عظمت بھی اب موسیقی کی اسی جہت کو اپنائے ہوئے ہیں۔

  • میڈا عشق وی توُ۔۔ میڈا یار وی توُ

    میڈا عشق وی توُ۔۔ میڈا یار وی توُ

    معروف لوک گلوکار پٹھانے خان کی کی آج انیس ویں برسی منائی جارہی ہے، آپ 9 مارچ 2000 میں اس دنیا سے رخصت ہوئے ، لیکن اپنے عارفانہ کلام میں آج بھی زندہ ہیں۔

    صدارتی ایوارڈ یافتہ لوک گلوکار پٹھانے خان کا اصل نام غلام محمد تھا۔پٹھانے خان سنہ 1926کو تمبو والی بستی کوٹ ادو میں پیدا ہوئے۔

    انہیں غزل، کافی، لوک گیتوں پر بے حد کمال حاصل تھا، پٹھانے خان نے کئی دہائیوں تک اپنی سریلی آواز کا جادو جگایا اور خواجہ غلام فرید ، بابا بلھے شاہ ، مہر علی شاہ سمیت کئی شاعروں کے عارفانہ کلام کو گایا، جس پر حکومت نے اس نامور گلوکار کو 1979 میں صدارتی ایوارڈ سے نوازا۔

    پٹھانے خان کا مشہور و معروف صوفیانہ کلام ’’میڈا عشق وی توں میڈا یار وی توں‘‘ قارئین کی نذر

    پٹھانے خان نے 79 مختلف ایوارڈز حاصل کیے۔ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو بھی لوک گلوکار کی دل میں اترنے والی آواز کے معترف تھے۔ پٹھانے خان کی آواز میں درد کے ساتھ بے پناہ کشش بھی تھی اور اسی لیے ان کا عارفانہ کلام سنتے ہی سامعین پر رقت طاری ہو جاتی ہے۔

    ان کے مشہور صوفیانہ کلام میں میڈا عشق وی توں میڈا یار وی توں، الف اللہ چنبے دی بوٹی مرشد من وچ لائی ہُو ان کی دنیا بھر میں شہرت کا باعث بنا۔

    ان کا ایک اور شاہکار کلام ’’الف اللہ چنبے دی بوٹی مرشد من وچ لائی ہُو‘‘ قارئین کے ذوقِ سماعت کے لیے

    اس کے علاوہ جندڑی لئی تاں یار سجن، کدی موڑ مہاراں تے ول آوطناں، آ مل آج کل سوہنا سائیں، وجے اللہ والی تار، کیا حال سناواں، میرا رنجھنا میں کوئی ہور، اور دیگر ان کے مشہور گیتوں میں شامل ہیں۔

    پٹھانے خان 74سال کی عمر میں مختصر علالت کے بعد سنہ 2000میں انتقال کرگئے ۔ان کے فن کے سحر میں مبتلا مداحوں نے کوٹ ادو کے تاریخی بازار کو ان کے نام سے منسوب کر دیا اور اب وہ پٹھانے خان بازار کہلاتا ہے۔

    مرحوم کی برسی کے موقع پر ملک کے مختلف شہروں میں ان کی یاد میں تقریبات کا انعقاد کیا جائے گا، جس میں پٹھانے کی فن لوک موسیقی کیلئے نمایاں خدمات پر ان کو خراج عقیدت پیش کیا جائے گا۔

  • میوزک بجانے والا کتا

    میوزک بجانے والا کتا

    اکثر کتے اپنے مالکوں کی دلچسپیوں اور مشاغل میں ان کا ہاتھ بٹاتے ہیں اور ان کے کئی کام کرتے ہیں، ایسا ہی ایک کتا اپنے موسیقار مالک کے ساتھ نہایت مہارت سے آلات موسیقی بجاتا ہے۔

    میپل نامی یہ کتا اپنے مالک ٹرینچ کے ساتھ مختلف آلات موسیقی بجاتا ہے۔ ٹرینچ نامی یہ میوزیشن مختلف گانوں کی دھنیں مختلف آلات پر بجاتا ہے اور اس کا کتا بھی اس کا ساتھ دیتا ہے۔

    سوشل میڈیا پر ان دونوں کو پسند کرنے والے صارفین کی تعداد لاکھوں میں ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کتے انسانوں کی طرح موسیقی کو سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔

    ہنگری میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق کتے الفاظ اور موسیقی کو سمجھنے کے لیے دماغ کے انہی حصوں کو استعمال کرتے ہیں جو انسان استعمال کرتے ہیں۔

    دوسری جانب کتوں کی اپنے مالک کے لیے محبت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اپنے مالک کو خوش کرنا کتوں کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔

    کتوں پر ایک تحقیق کے مطابق کتے خواب میں بھی اپنے مالک کی خوشبو اور اس کی مسکراہٹ کو دیکھتے ہیں، یا وہ خود کو ایسی حرکتیں کرتے ہوئے دیکھتے ہیں جس سے ان کا مالک بہت خوش یا بہت تنگ ہوتا ہو۔

  • طبی طور پر فائدہ پہنچانے والی عام عادات

    طبی طور پر فائدہ پہنچانے والی عام عادات

    ہم اپنی زندگی میں صحت اور جسم سے متعلق کئی چھوٹی چھوٹی مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں جیسے سونے میں مشکل کا شکار ہونا، دماغ کا یک دم سن ہوجانا، یا مچھر کے کاٹنے کے بعد خارش کا شکار ہونا۔

    ان مشکلات پر اگر فوری توجہ نہ دی جائے تو یہ آگے چل کر بڑے مسائل اور بیماریوں کا سبب بن سکتی ہیں۔

    آج ہم آپ کو ایسی ہی کچھ کارآمد ٹپس بتا رہے ہیں جنہیں اگر روز مرہ زندگی کا معمول بنا لیا جائے تو طبی طور پر بہت سے مسائل سے بچا جاسکتا ہے۔

    1

    اگر آپ بستر پر لیٹے ہوئے ہونے کے باوجود چکر یا سر کو گھومتا ہوا محسوس کر رہے ہیں تو اپنا ایک پاؤں زمین پر رکھیں۔ اس سے آپ کا دماغ آپ کے جسم کی سمت کی طرف متوجہ ہوجائے گا اور چکر میں کمی واقع ہوگی۔


    2

    اگر آپ دانت میں درد محسوس کر رہے ہیں تو ایک برف کا ٹکڑا شہادت کی انگلی اور انگوٹھے کے درمیان مسلیں۔ یہ طریقہ آپ کے دانت کے درد کو 50 فیصد تک کم کردے گا۔


    مچھر کے کاٹنے پر فوری طور پر متاثرہ جگہ پر پرفیوم چھڑک دیں۔ اس سے متاثرہ جگہ پر خارش یا سوجن نہیں ہوگی۔


    4

    اگر بہت زیادہ سرد آئسکریم، یا کوئی ٹھنڈا یخ محلول پینے سے یکدم آپ کا دماغ جمتا ہوا اور سن محسوس ہو رہا ہے تو اپنی زبان کو منہ کے اندر اوپر کی طرف کریں اور اوپری سطح پر زور دیں۔

    اس سے دماغ کے سرد ہونے کی کیفیت میں کمی واقع ہوگی۔


    5

    اگر کام کے دوران آپ سستی یا غنودگی کا شکار ہو رہے ہیں تو سانس کو اندر روک لیں۔ اسے اتنی دیر تک روکے رکھیں جتنی دیر تک آپ کے لیے ممکن ہے۔ اس کے بعد اسے خارج کریں۔

    یہ عمل آپ کے دماغ کے خلیات کو جگا دے گا۔

    نیند نہ آنے کی مشکل کا شکار ہیں؟ پڑھیں رہنما مضمون


    5

    نیند آنے میں مشکل کا شکار ہیں تو ایک منٹ کے لیے اپنی پلکوں کو زور زور سے جھپکائیں۔ اس سے آپ کی آنکھیں تھکن محسوس کریں گی اور آپ کو نیند آنے لگے گی۔


    7

    ماہرین طب کا کہنا ہے کہ ہمارے دنوں کان سننے کی مختلف صلاحیت رکھتے ہیں۔ دایاں کان الفاظ اور جملوں کو بہتر طور پر سن سکتا ہے، جبکہ بایاں کان موسیقی اور دیگر آوازوں کو زیادہ بہتر طرح سے سن سکتا ہے۔


    8

    اگر آپ کسی محفل میں بیٹھے ہیں اور اپنی ہنسی نہیں روک پا رہے تو اپنے آپ کو چٹکی لیں۔ اس سے فوری طور پر آپ کی ہنسی رک جائے گی۔


    9

    غسل کرتے ہوئے بالکل آخر میں اپنے جسم پر ٹھنڈ اپانی ڈالیں۔ اس سے آپ کے جسم کے تمام مسام بند ہوجائیں گے جس سے بیکٹریا، جراثیم اور گرد و غبار کا آپ کے جسم میں داخلے کا امکان ختم ہوجائے گا۔


    10

    کسی امتحان یا ٹیسٹ سے ایک رات قبل اپنے جوابات یا تقریر کو پڑھ کر سوجائیں۔ صبح جب آپ اٹھیں گے تو آپ کو دہرائے بغیر اپنی تقریر یاد ہوگی۔


    انتباہ: یہ مضمون قارئین کی معلومات میں اضافے کے لیے شائع کیا گیا ہے۔ مضمون میں دی گئی کسی بھی تجویز پر عمل کرنے سے قبل اپنے معالج سے مشورہ اور ہدایت ضرور حاصل کریں۔

  • موسیقی کی دنیا کےبےتاج بادشاہ محمد رفیع کا 94 واں یوم پیدائش

    موسیقی کی دنیا کےبےتاج بادشاہ محمد رفیع کا 94 واں یوم پیدائش

    برصغیر پاک وہند کےعظیم گلوکار محمد رفیع کا 94 واں یوم پیدائش آج منایا جا رہا ہے، رفیع کے گائے سینکڑوں گیت آج بھی بے انتہا مقبول ہیں، ان کی آواز سننے والوں پر سحر طاری کردیتی ہے۔

    موسیقی کی دنیا کے بے تاج بادشاہ محمد رفیع گائیکی کا ایسا ہنرلے کر پیدا ہوئے تھے، جو قدرت کسی کسی کو عطا کرتی ہے، سروں کے شہنشاہ محمد رفیع 24 دسمبر1924 کو امرتسر کے گاؤں کوٹلہ سلطان سنگھ میں پیدا ہوئے، انہوں نے لاہور ریڈیو سے پنجابی نغموں سے اپنے سفر کی ابتداء کی، موسیقی کا شوق انہیں ممبئی لے آیا اور پھر فلم انمول گھڑی کے گانے سے کیرئیر کا اغاز کیا۔

    انہوں نے گیتوں کے علاوہ غزل ، قوالی اوربھجن گا کربھی لوگوں کومحظوظ کیا، ان کو کلاسیکی ، شوخ اور چنچل ہر طرح کے گیت گانے میں مہارت تھی، محمد رفیع نے چالیس ہزار سے زائد گانے گائے۔

    محمد رفیع نے ہندی فلموں کے 4516، نان ہندی 112 اور 328 پرائیویٹ گانے ریکارڈ کرائے ، ان کے مشہور گانوں میں چودھویں کا چاند ہو، یہ دنیا یہ محفل میرے کام کی نہیں، میرے محبوب تجھے، کیا ہوا تیرا وعدہ ، بہارو پھول برساؤ، کھلونا جان کرتم تو، میں نے پوچھا چاند سے، یہ دل تم بن لگتا نہیں، آج پرانی راہوں سے ، لکھے جوخط ، احسان تیرا ہوگا ،یہ ریشمی زلفیں اوردل جو نہ کہہ سکا کے علاوہ دیگر شامل ہیں۔

    دلوں پر راج کرنے والے رفیع نے نہ صرف اردو اور ہندی بلکہ میراٹھی، گجراتی، بنگالی، بھوجپوری اور تامل کے علاوہ کئی زبانوں میں بھی ہزاروں گیت گائے۔

    محمد رفیع نے اپنے کیرئیر میں بطور پلے بیک سنگر متعد ایوارڈز حاصل کیے، جن میں نیشنل فلم ایوارڈ، 6 بارفلم فیئرایوارڈ اور حکومت انڈیا کا سرکاری اعزاز پدم شری شامل ہیں جو انہیں 1967ء میں دیا گیا جبکہ ان کے انتقال کے 20 برس بعد 2000ء میں انہیں بہترین سنگرآف میلینیم کا اعزاز سے نوازا گیا۔

    محمدرفیع 31جولائی 1980ء کوجہان فانی سے کوچ کرگئے، ان کی گائیکی آج بھی برصغیر میں مقبول ہے، آج انہیں ہم سے بچھڑے ہوئے کئی سال ہوگئے مگر وہ اپنی آواز کے ذریعے آج بھی اپنے لاکھوں چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔

  • اے آر وائی پروگرام میں لوک گلوکارہ شازیہ خشک نے کون سا کھیل کھیلا؟

    اے آر وائی پروگرام میں لوک گلوکارہ شازیہ خشک نے کون سا کھیل کھیلا؟

    کراچی: اے آر وائی پروگرام ’ہمارے مہمان‘ میں ملک کی مقبول لوک گلوکارہ شازیہ خشک نے لوگوں کی جانب سے پھولوں کی صورت میں ملنے والی محبت پر کہا کہ یہ پھول نہیں لوگوں کی دعائیں ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق اے آر وائی پروگرام میں لوک گلوکارہ شازیہ خشک نے پروگرام کی ہوسٹ فضا شعیب کے ساتھ دل چسپ گفتگو کی اور لفظوں پر مشتمل ایک گیم میں حصہ لیا۔

    [bs-quote quote=”موسیقی باعثِ خوشی ہے۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″ author_name=”شازیہ خشک” author_job=”لوک گلوکارہ”][/bs-quote]

    لفظ ’سندھ‘ پر شازیہ خشک نے کہا کہ ذہن میں جو پہلا لفظ آتا ہے وہ ہے زندگی۔

    شازیہ خشک نے موسیقی کو خوشی کا باعث قرار دیا، ہوسٹ نے لفظ ’موسیقی‘ کہا تو شازیہ خشک نے جھٹ سے کہا ’خوشی‘۔

    لفظ پروفیسر پر کہا کہ وہ 2 یونی ورسٹیوں میں پروفیسر بھی ہیں، ’دانے پہ دانا‘ پر کہا کہ ان کی پہچان پوری دنیا میں اسی سے ہے۔ ہوسٹ کی فرمائش پر شازیہ خشک نے اپنا یہ مشہور زمانہ گانا بھی سنایا۔

    لفظ گلوکار پر شازیہ خشک نے بتایا کہ ان کی پسندیدہ گلوکاروں کی فہرست بہت لمبی ہے اس لیے کسی ایک کا نام نہیں لے سکتیں، لفظ ’خواہش‘ پر کہا کہ وہ زندگی جو خوشی کے ساتھ گزرے۔

    لوک گلوکارہ نے لفظ ’موسیقی‘ پر کہا ’سارے آلات‘ ان کا کہنا تھا کہ انھیں سارے ہی انسٹرومنٹس پسند ہیں، لفظ ’استاد‘ پر کہا کہ ہر وہ شخص میرا استاد ہے جس سے کبھی ایک بھی لفظ سیکھا۔


    یہ بھی پڑھیں:  اے آر وائی فیسٹ کا دوسرا روز، سجاد علی پرفارم کریں گے


    لفظ ’کلام‘ پر فوراً کہا ’صوفیانہ‘ جب کہ ’کوکو کورینا‘ پر فوراً کہا ’بہت اچھا‘۔ شازیہ نے کہا کہ انھیں ادب اور شاعری سے بھی خصوصی لگاؤ ہے۔

    واضح رہے کہ شازیہ خشک پاکستانی لوگ گلوکارہ ہیں، انھیں کئی علاقائی زبانوں میں گلوکاری کا اعزاز حاصل ہے۔ شازیہ خشک نے 1992 میں کیرئیر کا آغاز کیا، کیرئیر میں 500 تک گانے گا چکی ہیں۔

    2014 میں انھیں امریکی سفارت خانے کی جانب سے خیر سگالی کے سفیر کا اعزاز دیا گیا۔ ازبکستان حکومت کی جانب سے صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔

    ادھر کراچی کےعلاقے بوٹ بیسن میں واقع بے نظیر بھٹو شہید پارک میں اے آر وائی نیٹ کی جانب سے ’اے آر وائی فیسٹ‘ کا انعقاد کیا گیا ہے، فوڈ فیسٹیول کا آغاز کل 22 دسمبر کو ہوا جو 25 دسمبر تک جاری رہے گا۔ فیسٹول کے پہلے روز شازیہ خشک اور جوش بینڈ سمیت دیگر فن کاروں نے پرفارم کر کے ایسا سماں باندھا کہ شرکت کرنے والے غیر ملکی بھی جھوم اٹھے۔