Tag: موسیقی

  • کافی سے بنی خوبصورت تصاویر

    کافی سے بنی خوبصورت تصاویر

    ایک مصور و فنکار کو ہر شے میں کچھ تخلیقی نظر آتا ہے۔ یہ وہ نظر ہوتی ہے جو کسی عام انسان کو میسر نہیں ہوتی، یہی وجہ ہے کہ فنکار اپنے فن کی انوکھی اور منفرد جہتوں کی بدولت دنیا سے جانے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں۔

    امریکا سے تعلق رکھنے والی 28 سالہ ڈیانا بھی ایسی ہی فنکار ہے جس نے کافی سے منفرد آرٹ تخلیق کیا ہے۔

    ڈیانا کے دو ہی شوق ہیں، کافی اور موسیقی، اور اپنے ان دونوں مشغلوں کی تکمیل نے اسے ایک منفرد فنکار بھی بنادیا۔ وہ کافی سے اپنے پسندیدہ موسیقاروں کی تصویر کشی کرتی ہے۔

    اس منفرد آرٹ کے لیے ڈیانا عموماً بچی ہوئی کافی استعمال کرتی ہے۔ بعض اوقات وہ ان کے ساتھ واٹر کلرز کی آمیزش بھی کرتی ہے۔

    ڈیانا نے آرٹ کی باقاعدہ تعلیم تو حاصل نہیں کی، تاہم اس کے شوق، مسلسل محنت اور لگن نے اسے اپنی نوعیت کا منفرد مصور بنا دیا ہے۔

    آپ بھی ڈیانا کی بنائی ہوئی تصاویر سے لطف اندوز ہوں۔

  • رومی میوزک فیسٹول اگلے ماہ کراچی میں

    رومی میوزک فیسٹول اگلے ماہ کراچی میں

    کراچی: 3 روزہ عالمی رومی موسیقی میلے کا انعقاد کراچی میں کیا جائے گا۔ یہ میلہ مارچ کی 10، 11 اور 12 تاریخ کو منعقد ہوگا۔

    کراچی کے انڈس ویلی اسکول آف آرٹس اینڈ آرکیٹیکچر کی جانب سے پیش کیے جانے والے اس میلے کا مقصد عظیم صوفی شاعر مولانا جلال الدین رومی کی شاعری اور موسیقی کو خراج عقیدت پیش کرنا ہے۔

    rumi-2

    میلے میں دنیا بھر سے مختلف میوزک بینڈ شرکت کریں گے۔ میلے میں موسیقی کے ساتھ آرٹ اور دستکاری کی نمائش اور مختلف مباحثے بھی منعقد ہوں گے۔

    رومی کون؟

    مشہور صوفی شاعر اور مفکر جلال الدین رومی 1207 میں بلخ میں پیدا ہوئے تھے جو اس وقت افغانستان کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے لیکن رومی کے زمانے میں یہ ایک مذہبی دارالخلافہ تھا اور بدھوں اور فارسی ادب کا مرکز تھا۔

    بعض مؤرخین کے مطابق بلخ نامی ایک اور علاقہ موجودہ تاجکستان میں بھی موجود تھا اور رومی وہیں پیدا ہوئے۔ منگول جنگجو چنگیز خان نے بھی 1221 میں اس پر حملہ کیا تھا۔

    منگولوں کے حملے کے دوران رومی نے وہاں سے ہجرت کرلی اور بغداد، مکہ اور دمشق کا سفر کرتے ہوئے ترکی کے شہر قونیہ آگئے جہاں انہوں نے اپنی زندگی کے 50 سے زائد برس گزارے۔

    مزید پڑھیں: رومی تمہارا نہیں ہے، افغانی سیخ پا ہوگئے

    یہیں ان کی ملاقات شمس تبریزی سے ہوئی۔ شمس تبریزی نے رومی کے خیالات و افکار پر گہر اثر ڈالا۔

    شمس تبریزی اور رومی کا ساتھ 2 برس تک رہا۔ اس کے بعد شمس تبریزی پراسرار طور پر غائب ہوگئے۔ بعض مؤرخین کے مطابق انہیں قتل کردیا گیا تاہم ان کی موت کے بارے میں حتمی معلومات دستیاب نہیں۔ ان کا مزار ایران کے شہر خوئے میں ہے جسے اقوام متحدہ کی جانب سے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا جا چکا ہے۔

    رومی نے 3500 غزلیں، 2000 رباعیات اور رزمیہ نظمیں لکھیں۔ ان کی شاعری کا بے شمار زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ رومی کا مزار ترکی کے شہر قونیہ میں ہے جہاں رومی کی رباعیات پر کیا جانے والا صوفی رقص پوری دنیا میں مشہور ہے۔

    :رومی پر ہالی ووڈ فلم

    ہالی وڈ کی آسکر ایوارڈ یافتہ فلم ’گلیڈی ایٹر‘ کے مصنف ڈیوڈ فرنزونی رومی کی زندگی اور شاعری پر فلم بنانے جارہے ہیں۔

    اس حوالے سے ڈیوڈ کا کہنا ہے کہ وہ جو فلم بنانے جا رہے ہیں وہ مغربی سنیما میں مسلمانوں کے بارے میں غلط تصورات کو ختم کردے گی۔ ’رومی ایک ایسا شاعر ہے جو لوگوں کی زندگیوں اور معاشروں پر اثرانداز ہوا۔ ایسے عظیم افراد کی شخصیت کو زیادہ سے زیادہ کھوجنے کی ضرورت ہے‘۔

    فلم میں رومی کا کردار آسکر ایوارڈ یافتہ اداکار لیونارڈو ڈی کیپریو ادا کریں گے جبکہ شمس تبریزی کا کردار رابرٹ ڈاؤننگ جونیئر ادا کریں گے۔ فلم کی کاسٹ کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا جارہا ہے۔

  • خواتین سازندوں پر مشتمل افغان آرکسٹرا کی پرفارمنس

    خواتین سازندوں پر مشتمل افغان آرکسٹرا کی پرفارمنس

    ڈیوس: اس بار عالمی اقتصادی فورم میں جہاں آسکر ایوارڈ یافتہ پاکستانی ہدایت کار شرمین عبید چنائے نے ایک اجلاس میں خطاب کیا اور یہ اعزاز حاصل کرنے والی پہلی فنکارہ بن گئیں، وہیں اس فورم میں ایک اور تاریخ رقم ہوگئی۔

    اس بار اجلاس میں شریک سربراہان مملکت اور مہمانوں کی تفریح طبع کے لیے افغانستان کے ایسے آرکسٹرا نے اپنی پرفارمنس پیش کی جو مکمل طور پر خواتین سازندوں پر مشتمل ہے۔

    زہرا ۔ تاریخ کا منفرد آرکسٹرا

    زہرا نامی اس آرکسٹرا میں شامل تمام فنکاراؤں کی عمریں 13 سے 20 سال کے درمیان ہیں۔ ان میں سے کچھ فنکارائیں افغان یتیم خانوں میں پل کر جوان ہوئی ہیں جبکہ کچھ نہایت غریب خاندانوں سے تعلق رکھتی ہیں۔

    6

    9

    یہ منفرد اور افغانستان کا پہلا خواتین آرکسٹرا جمعے کے روز بھی اجلاس کے اختتامی کنسرٹ میں 3000 کے قریب مختلف اداروں کے سربراہان اور سربراہان مملکت کے سامنے اپنی پرفارمنس پیش کرے گا۔

    یہ آرکسٹرا افغانی موسیقار ڈاکٹر احمد سرمست کی کوششوں کا ثمر ہے جو افغانستان میں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف میوزک کے بانی ہیں۔

    3

    ڈاکٹر سرمست کو اندازہ ہے کہ اس کام کو انجام دے کر انہوں نے نہ صرف اپنے لیے بلکہ ان لڑکیوں کے لیے بھی بے شمار خطرات کھڑے کر لیے ہیں۔

    سنہ 1996 سے 2001 میں طالبان کے دور میں تو موسیقی قطعی ممنوع تھی۔ تاہم ان کے بعد بھی افغانستان کے قدامت پسند معاشرے میں موسیقی، اور وہ بھی خواتین کی شمولیت کے ساتھ نہایت ناپسندیدہ ہے۔

    5

    اس سے قبل بھی ڈاکٹر سرمست ایک خودکش حملے میں بال بال بچے تھے جب سنہ 2014 میں کابل میں فرانسیسیوں کے زیر انتظام چلنے والے ایک اسکول میں منعقدہ شو کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

    یہی نہیں، اپنے شوق کی تکمیل کی پاداش میں اس آرکسٹرا کی لڑکیوں اور ان کے استاد کو مستقل دھمکیوں کا سامنا رہتا ہے۔

    آرکسٹرا کی اراکین ۔ حوصلے کی داستان

    آرکسٹرا کی سربراہی نگین خپلواک نامی موسیقارہ کے ہاتھ میں ہے جو کنڑ سے تعلق رکھتی ہے۔ ڈیوس میں مختلف سربراہان مملکت کو اپنے فن سے مسحور اور حوصلے سے انگشت بدنداں کردینے کے بعد، جب یہ واپس اپنے گھر پہنچے گی تو اپنی ببیسویں سالگرہ منائے گی۔

    نگین کہتی ہے، ’موسیقی افغان لڑکیوں کے لیے ایک شجر ممنوع ہے۔ یہاں باپ اپنی بیٹیوں کو تعلیم کے لیے اسکول نہیں بھیجتے، کجا کہ موسیقی کی تعلیم کے لیے موسیقی کے ادارے میں بھیجنا، قطعی ناممکن ہے۔ ان کے نزدیک عورتوں کا واحد مقام گھر ہے‘۔

    8

    لیکن نگین کا اس مقام تک پہنچنا اس کے خاندان کا مرہون منت ہے۔ اس کے والد اور والدہ نے اس کے شوق کی خاطر پورے خاندان سے لڑائی مول لی اور اس کا ساتھ دیا۔ ’میری دادی نے میرے باپ سے کہا تھا، اگر تم نے اپنی بیٹی کو موسیقی کے اسکول بھیجا، تو تم میرے بیٹے نہیں رہو گے‘۔

    اس کے بعد نگین کے خاندان نے اپنا آبائی علاقہ کنڑ چھوڑ کر کابل میں رہائش اختیار کرلی۔

    وہ بتاتی ہے کہ اس کے ایک انکل نے اسے دھمکی دی تھی، ’میں نے تمہیں جہاں بھی دیکھا، میں تمہیں قتل کردوں گا۔ تم ہمارے لیے باعث شرم ہو۔‘

    وہ کہتی ہے کہ گو کہ دارالحکومت کابل میں نوکریاں نہیں ہیں، زندگی بہت مشکل ہے، ’مگر زندگی تو ہے‘۔

    مزید پڑھیں: فٹبال کے ذریعے خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ۔ افغانستان کی خالدہ پوپل

    نگین کا مقصد تعلیم حاصل کرنا ہے اور اس کے لیے وہ بیرون ملک جانا چاہتی ہے۔ اس کے بعد وہ وطن واپس آکر قومی سطح پر قائم کردہ کسی آرکسٹرا کی سربراہی کرنا چاہتی ہے۔

    آرکسٹرا میں شامل 18 سالہ وائلن نواز ظریفہ ادیبہ اس سے قبل نیویارک میں بھی پرفارم کر چکی ہے۔ وہ کہتی ہے، ’افغان ہونا اور افغانستان میں رہنا خطرناک ترین عمل ہے۔ آپ نہیں جانتے کہ اگلا دھماکہ کب اور کہاں ہوگا، کیا پتہ وہ وہیں ہو جہاں پر آپ موجود ہیں‘۔

    2

    ظریفہ کی والدہ، جو خود کبھی اسکول نہیں گئیں، لیکن وہ وقت اور نئی نسل کے بدلتے رجحانات کو بھانپنے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔

    انہوں نے اپنی بیٹی کو بخوشی اس کے شوق کے تکمیل کی اجازت دے دی۔ ’اب یہ میری نسل پر منحصر ہے کہ ہم اپنے ملک کے لیے کیا کرتے ہیں۔ لیکن تبدیلی لانے کے لیے بہت عرصہ درکار ہے۔ کم از کم یہ پوری ایک نسل‘۔

    ظریفہ کی پسندیدہ شخصیت امریکی خاتون اول مشل اوباما ہیں۔ ’میں جب انہیں گفتگو کرتے ہوئے سنتی ہوں تو مجھے اپنے عورت ہونے پر فخر محسوس ہوتا ہے‘۔

    ڈیوس میں عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس میں یہ آرکسٹرا ایک منفرد تاریخ رقم کرنے جارہا ہے۔ آرکسٹرا میں وائلن، پیانو اور افغانستان کے روایتی آلات موسیقی بھی شامل ہیں۔ ڈاکٹر سرمست کا ماننا ہے کہ، ’افغانستان کی پہچان کلاشنکوف، راکٹ اور خودکش حملے نہیں، بلکہ یہ لڑکیاں اور ان کا فن ہے‘۔

  • ذہین بنانے والے 6 مشغلے

    ذہین بنانے والے 6 مشغلے

    ایک عام خیال ہے کہ ذہانت قدرت کا تحفہ ہے اور ہم اپنی ذہانت میں اضافہ یا کمی نہیں کر سکتے۔ لیکن یہ سراسر ایک غلط خیال ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دماغ ہمارے جسم کا وہ واحد حصہ ہے جسے جتنا زیادہ استعمال کیا جائے اتنا ہی اس کی افادیت اور کارکردگی میں اضافہ ہوگا۔

    دماغ کی کارکردگی میں اضافہ کرنے کے لیے ہمیں فلموں میں دکھائے جانے والے تصوراتی عملیات کرنے کی ضرورت نہیں، بلکہ ہم روزمرہ زندگی میں مختلف ذہنی مشقیں کر کے، کوئی نئی چیز سیکھ کر یا کوئی ایسا کام کر کے جس میں دماغ کا استعمال کیا جائے، بھی دماغ کو متحرک اور چاک و چوبند کرسکتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ذہانت میں اضافہ کرنے کے 10 طریقے

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کچھ مشغلے بھی ایسے ہیں جو دماغی کارکردگی اور ذہانت میں اضافہ کرتے ہیں۔ اگر آپ ان میں کسی بھی مشغلے کو پسند نہیں کرتے تو اسے ایک ضروری کام سمجھ کر اپنا لیجیئے، یقیناً آپ کی ذہانت و سمجھداری میں اضافہ ہوگا۔

    آلہ موسیقی بجانا

    music

    موسیقی ہمارے دماغ کے خلیات کو متحرک کرتی ہے۔ ماہرین کے مطابق موسیقی سننا یا کوئی آلہ موسیقی بجانا دماغ کو فعال بناتا ہے اور وہ پہلے سے زیادہ چست ہوجاتا ہے۔

    ایک ریسرچ کےمطابق آلہ موسیقی بجانا یادداشت کو بھی بہتر کرتا ہے۔

    مطالعہ

    read

    مطالعہ اپنی ذہانت و معلومات میں اضافہ کرنے کا نہایت آسان طریقہ ہے۔ لیکن کسی ایک موضوع سے جڑے رہنا اور اسی کے بارے میں کتابیں پڑھتے رہنا بھی غلط عادت ہے۔

    کوشش کریں کہ ہر موضوع پر پڑھیں چاہے وہ آپ کو دلچسپ لگے یا نہیں، اس طرح آپ کی معلومات میں اضافہ ہوگا، اور ان معلومات کو محفوظ کرنے کے لیے دماغ متحرک ہوجائے گا۔

    مزید پڑھیں: مطالعہ کامیاب افراد کی زندگی کا لازمی اصول

    لکھنا

    write

    آپ دن بھر میں مختلف کیفیات و جذبات سے گزرتے ہیں جن کا بعض اوقات اظہار نہیں کر پاتے۔ لیکن اگر آپ روز ڈائری لکھنے کے عادی ہیں، اور اپنے جذبات کو قلمبند کر لیتے ہیں تو یہ ایک بہترین مشغلہ ہے۔

    لکھنے کی عادت آپ کی تخیلاتی قوت، زبان دانی، تخلیقی صلاحیت اور توجہ مرکوز رکھنے کی صلاحیت میں اضافہ کرتی ہے نتیجتاً آپ بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

    سفر کرنا

    travel

    سفر وسیلہ ظفر ہے۔ نئی جگہوں کے سفر کرنا، نئے لوگوں سے ملنا آپ کی معلومات اور تخلیقی صلاحیت میں اضافہ کرتا ہے۔ سفر کرنا آپ کے ڈپریشن میں کمی کرتا ہے۔

    اگر سفر کرنا آپ کا مشغلہ ہے تو ہر سفر آپ کو مختلف ثقافتوں، افراد، روایات اور طرز زندگی سے روشناس کروائے گا جو آپ کے دماغ کو حد درجہ متحرک کرتا ہے۔

    مزید پڑھیں: سیاحت کرنے کے فوائد

    مختلف کھیل

    sports-2

    کھیل کود جسمانی و دماغی صحت دونوں کے لیے فائدہ مند ہے۔ یہ آپ کے لیے بیک وقت ورزش اور وقت گزاری کا کام کرتا ہے۔

    کھانا پکانا

    cooking

    اگر آپ کھانے پکانے کا شوق رکھتے ہیں تو ہفتے میں ایک سے دو بار کوئی مختلف اور نئی ترکیب سے کھانا بنائیں۔ یہ آپ کے دماغ کو نئی چیزیں یاد رکھنے اور کھانا جلنے یا خراب ہونے کی صورت میں فوری فیصلہ کرنے پر مجبور کرتا ہے جس سے آپ کا دماغ چست ہوجاتا ہے۔

    کھانا پکاتے ہوئے بیک وقت مختلف کام سر انجام دینا جیسے چولہے پر توجہ دینا، سبزی کاٹنا، مختلف چیزیں مکس کرنا وغیرہ زندگی کے دیگر معاملات میں بھی بیک وقت کئی کاموں پر توجہ مرکوز رکھنے پر مدد کرسکتا ہے۔

  • جنون کے 25 سال اور پاکستانی ثقافت کو خراج تحسین

    جنون کے 25 سال اور پاکستانی ثقافت کو خراج تحسین

    نوے کی دہائی کے مشہور موسیقار گروپ جنون کے 25 سال مکمل ہونے پر گلوکار سلمان احمد نے ایک گانا ’دور‘ جاری کرنے جارہے ہیں۔

    اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سلمان احمد نے بتایا کہ یہ گانا انہوں نے بلوچستان میں شوٹ کیا اور اس کا مقصد پاکستان، خصوصاً بلوچستان کی خوبصورتی کو پیش کرنا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ گانے میں بلوچستان کے پہاڑ، دریا اور میدان دکھائے گئے ہیں۔ سلمان احمد نے اس بات کی نفی کی کہ بلوچستان میں کسی قسم کے سیکیورٹی خطرات ہیں، ’ہم فنکاروں کو وہاں کسی قسم کا کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا تو عام افراد کو کیسے آسکتا ہے‘۔

    door-6

    گانے میں معروف کرکٹر وسیم اکرم اور ان کی اہلیہ شنائرا اکرم بھی شامل ہیں جن کا مقصد پاکستانی ثقافت کے تنوع کو پیش کرنا ہے۔ ’شنائرا ایک غیر ملکی ہیں لیکن وہ کافی عرصے سے پاکستان میں رہ رہی ہیں اور پاکستانی ثقافت نے انہیں، اور انہوں نے پاکستانی ثقافت کو کھلے دل سے قبول کیا ہے‘۔

    سلمان احمد کا کہنا تھا کہ یہ گانا دسمبر میں ’جنون‘ کی 25 ویں سالگرہ کے موقع پر پیش کیا جائے گا اور اس کا مقصد پاکستانی ثقافت، پاکستانی خواتین، اور پاکستان کے قدرتی حسن کو خراج تحسین پیش کرنا ہے۔

    door-9

    door-7

    وسیم اکرم نے اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کا اور شنائرا کا میوزک ویڈیو میں کام کرنے کا تجربہ بہت شاندار رہا۔

    انہوں نے کہا کہ بلوچستان جا کر انہیں بہت مزہ آیا اور انہیں صحیح معنوں میں احساس ہوا کہ ان کا ملک نہایت خوبصورت ہے۔

    door-8

    وسیم اکرم نے بتایا کہ شنائرا میں اداکاری کی خداداد صلاحیت موجود ہے اور انہوں نے میوزک ویڈیو میں بھی شاندار اداکاری کا مظاہرہ کیا۔ انہیں دیکھ کر کہیں سے بھی نہیں لگ رہا کہ یہ ان کا اداکاری کا پہلا تجربہ تھا۔

    اس سے قبل جنون کی 25 ویں سالگرہ منانے کا پروگرام بھارت میں رکھا گیا تھا تاہم بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول کی سنگین خلاف ورزی اور 9 افراد کی شہادت کے بعد سلمان احمد نے احتجاجاً بھارت نہ جانے کا اعلان کیا۔

    انہوں نے بھارت میں ایک پروگرام میں اپنی شرکت بھی منسوخ کردی تھی جبکہ اس بات کا بھی اعلان کیا تھا کہ جب تک بھارت میں مودی کی حکومت ہے وہ بھارت نہیں جائیں گے۔

  • موسیقی کے لیے سعودی عرب چھوڑ کر پاکستان آنے والی گلوکارہ

    موسیقی کے لیے سعودی عرب چھوڑ کر پاکستان آنے والی گلوکارہ

    دنیا بھر میں شاید پاکستان کو ایک ایسے ملک کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہو جہاں خواتین پر ظلم و ستم ہوتا ہو، یا جہاں دہشت گردی پنپتی ہو، لیکن ایک سعودی خاتون کے لیے پاکستان، ان کے خوابوں کو پورا کرنے میں مدد گار ثابت ہوا۔

    یعقوب نامی یہ خاتون 6 سال قبل سعودی عرب سے پاکستان آئیں۔ سعودی عرب کے سخت قوانین کو چھوڑ کر، جو خواتین پر زیادہ شدت سے لاگو ہوتے ہیں، جب وہ پاکستان آئیں تو انہیں حقیقی معنوں میں آزادی کا احساس ہوا۔

    بقول یعقوب کے انہیں زندگی میں پہلی بار علم ہوا کہ آزادی کیا ہوتی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اسے یہاں اپنے دیرینہ خواب کی تکمیل کا موقع بھی ملا، جو گلوکاری کرنا تھا۔

    یعقوب نے اس یونیورسٹی سے اپنی گلوکاری کا آغاز کیا جہاں اس نے داخلہ لیا۔ وہ وہاں کمپیوٹر سائنسز میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی تھی۔

    بہت جلد یعقوب کا رابطہ پاکستانی موسیقی کے شعبہ میں سرگرم اور نمایاں افراد سے ہوگیا اور اسے ٹی وی کی مشہور میوزک سیریز نیسکیفے بیسمنٹ میں پس پردہ گلوکار کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع ملا۔

    اس کے بعد یعقوب نے اپنے طور پر گلوکاری شروع کردی۔

    موسیقی لوگوں کے درمیان فاصلے مٹانے میں معاون *

    یعقوب بتاتی ہے، ’میں جانتی تھی کہ میری آواز اچھی ہے اور میں گا سکتی ہوں۔ لیکن میں نے اسے بطور کیریئر اپنانے کا کبھی نہیں سوچا۔ میں جس معاشرے کا حصہ تھی وہاں شوبز میں ہونا نہایت ہی معیوب بات تھی‘۔

    انہوں نے ایک معروف برطانوی میوزک بینڈ کولڈ پلے کے ایک گانے کو دوبارہ گایا اور اسے بے پناہ پذیرائی ملی۔

    یعقوب کا کہنا ہے کہ اب وہ کور سونگز (پہلے سے گائے ہوئے گانوں کو نئے انداز سے گانے) کا سلسلہ ختم کر چکی ہے۔ اب وہ اپنی موسیقی ترتیب دے رہی ہے۔

    یعقوب کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد اس کے خاندان نے اس پر زور دینا شروع کردیا کہ وہ واپس سعودی عرب لوٹ آئے تاہم وہ انہیں اس بات پر منانے میں کامیاب رہی کہ وہ مزید کچھ عرصہ یہیں رہنا چاہتی ہے۔

    اس نے بتایا کہ اس کے خاندان اور خاص طور پر والد نے اس کی بھرپور حمایت کی اور کبھی اسے اپنے خواب کی تکمیل سے نہیں روکا۔ ’میں نے اپنے والد سے ہزاروں دفعہ پوچھا، کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں گانا چھوڑ دوں؟ اگر آپ ایسا چاہتے ہیں تو میں ایسا ہی کروں گی لیکن ان کا جواب ہر بار نفی میں ہوتا ہے‘۔

    یعقوب فی الحال پاکستان میں ہی ہے اور موسیقی کی دنیا میں اس کا سفر جاری ہے۔

  • دماغ ’بند‘ ہونے سے پریشان ہیں؟

    دماغ ’بند‘ ہونے سے پریشان ہیں؟

    ہم میں سے اکثر افراد بعض اوقات ’دماغ بند‘ ہونے کی شکایت کرتے ہیں۔ اس کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ کام کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کا دماغ اس کے لیے تیار نہیں۔

    ایسا اس صورت میں ہوتا ہے جب دماغ سستی اور تھکن کا شکار ہوجاتا ہے۔ اگر ہم روز ایک جیسا کام کریں تو ہمارا جسم اور دماغ اکتاہٹ کا شکار ہوجاتا ہے اور اسے تبدیلیوں کی ضوررت ہوتی ہے۔ اس وقت ہمیں ایسی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے جو ہمارے دماغ کو پھر سے بیدار کردیں تاکہ وہ کام کرنے کے قابل ہو سکے۔

    ماہرین ایسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے کچھ تجاویز بتاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آپ جب بھی اپنے دماغ کو سست اور ناکارہ ہوتا محسوس کریں، یہ طریقے اپنائیں۔

    :مطالعہ کریں

    book

    مطالعہ کرنا دماغ کے لیے بہترین ورزش ہے۔ ہر موضوع اور ہر شعبہ کے بارے میں مطالعہ کرنے کی عادت ڈالیں۔ مطالعہ سے آپ کی ذہنی کارکردگی میں اضافہ ہوگا۔

    ویسے تو ماہرین روایتی طریقے یعنی کتاب کے ذریعہ مطالعہ پر ہی زور دیتے ہیں، لیکن آپ اپنے موبائل یا کمپیوٹر کی اسکرین پر بھی مطالعہ کرسکتے ہیں۔ اس سے بھی کچھ نیا سیکھنے کا مطلوبہ مقصد پورا ہوجائے گا۔

    :فلم دیکھیں

    ماہرین کا ماننا ہے کہ اچھی، بامقصد اور معیاری فلمیں ہمارے دماغ پر کم و بیش وہی اثرات مرتب کرتی ہیں جو مطالعہ کرتا ہے۔

    مہم جوئی سے بھرپور فلم آپ کو کوئی مہم سرکرنے پر ابھارے گی۔ اسی طرح جاسوسی پر مبنی فلمیں دیکھنا آپ کے دماغ کو متحرک کرے گا اور فلم کے کردار کے ساتھ ساتھ ذہنی طور پر آپ بھی مجرم کو تلاش کریں گے۔

    :ورزش کریں

    exercise

    ورزش جسم اور دماغ دونوں کو متحرک کرتی ہے۔ علیٰ الصبح کی جانے والی ورزش جسم اور دماغ کو تازہ ہوا پہنچاتی ہے اور دماغ کے خلیات کو تازہ دم کرتی ہے۔

    کھلی ہوا میں ورزش کرنے سے دماغ سے کیمیائی عناصر اور منفی جذبات کا بھی خاتمہ ہوتا ہے۔

    :مراقبہ کریں

    meditation

    ذہنی سکون حاصل کرنے کا سب سے آزمودہ طریقہ مراقبہ کرنا ہے۔ دن کے کسی بھی حصہ میں 10 سے 15 منٹ کے لیے کسی نیم اندھیرے گوشے میں سکون سے بیٹھ جائیں، آنکھیں بند کرلیں اور دماغ کو تمام سوچوں سے آزاد چھوڑ دیں۔

    یہ طریقہ آپ کے دماغ کو نئی توانائی فراہم کرتا ہے۔

    :دھیمی موسیقی سنیں

    music

    موسیقی زمانہ قدیم سے جسمانی و دماغی تکالیف کو مندمل کرنے کے لیے استعال کی جاتی رہی ہے۔

    ہلکی آواز میں دھیمی موسیقی سننا آپ کے دماغ کو سکون پہنچائے گا اور آپ کی تخلیقی صلاحیتوں میں اضافہ ہوگا۔

    :دماغ کو کام کرنے کا موقع دیں

    chess

    دماغ ہمارے جسم کا وہ واحد حصہ ہے جو جتنا زیادہ استعمال کیا جائے اتنا ہی فعال ہوتا ہے۔ اگر آپ محسوس کریں کہ آپ کا دماغ بند ہورہا ہے تو اسے ایسی چیز فراہم کریں جس سے وہ کام کرنے پر مجبور ہوجائے۔

    اس صورت میں کوئی دماغی کھیل کھیلنا، کوئی نئی زبان سیکھنا، کوئی آلہ موسیقی یا رقص سیکھنا، باغبانی کرنا، رضاکارانہ خدمات انجام دینا یا سیاحت کرنا آپ کو دماغ کو جگا دے گا۔

    ماہرین کے مطابق یہ تمام طریقے نہ صرف آپ کے دماغ کی سستی دور بھگانے بلکہ دماغی کارکردگی میں اضافے کے لیے بھی معاون ہیں۔

  • موسیقی سننا ملازمین کی کارکردگی میں اضافے کا سبب

    موسیقی سننا ملازمین کی کارکردگی میں اضافے کا سبب

    لندن: ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی جگہ پر کام کے دوران موسیقی سننا ملازمین کی کارکردگی میں اضافہ کرتا ہے۔ ماہرین نے تجویز کیا کہ مختلف کمپنیاں اپنے ملازمین کو کام کے دوران موسیقی سننے کی ترغیب دیں۔

    لندن میں مختلف چھوٹی بڑی کمپنیوں میں کیے جانے والے سروے سے پتہ چلا کہ جن ملازمین نے کام کے دوران موسیقی سنی انہیں اپنی تخلیقی صلاحیت میں اضافہ محسوس ہوا اور انہوں نے اپنی مجموعی کارکردگی سے بڑھ کر کام کیا۔

    music-3

    یہی نہیں ماہرین نے نتیجہ اخذ کیا کہ پس منظر میں موسیقی کسی دفتر کے مجموعی ماحول کو بھی بہتر بناتی ہے اور ملازمین ایک دوسرے کے مخالف کام کرنے سے گریز کرتے ہیں۔

    اسی طرح کا ایک سروے تائیوان میں بھی کیا گیا جہاں سے یکساں نتائج موصول ہوئے تاہم ماہرین نے واضح کیا کہ وہ موسیقی جن میں شاعری ہو وہ ملازمین کی توجہ کو بھٹکا سکتی ہے۔ اس کے برعکس بغیر بولوں والی موسیقی ملازمین کو کام پر توجہ مرکوز کرنے اور ان کی استعداد میں اضافہ کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔

    مزید پڑھیں: کروشیا میں سمندر کی لہروں سے موسیقی

    اس سے قبل کی جانے والی ایک اور تحقیق کے مطابق مختلف اداروں میں موزوں موسیقی وہاں کام کرنے والے افراد کو ایک دوسرے کے قریب لانے اور ایک دوسرے کی مدد کرنے پر مائل کرتی ہے۔

    اس تحقیق کے لیے ایک تجربہ کیا گیا جس میں ایک آفس کے ایک حصہ میں دھیمی آواز میں ہیجان انگیز اور دوسرے حصہ میں اداس شاعری و موسیقی والا گانا چلایا گیا۔

    پہلے حصہ میں جہاں ہیجان انگیز موسیقی اور شوخ و شنگ بولوں والا گانا چل رہا تھا وہاں لوگوں نے ایک دوسرے سے مسکراہٹوں کا تبادلہ کیا اور آپس میں ایک دوسرے سے بات بھی کی۔

    music-4

    دوسرے حصہ کے لوگ گانے کے دوران خاموش رہے اور ایک دوسرے سے ضرورت کے تحت انتہائی مختصر بات چیت کی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ موسیقی کے دل و دماغ پر منفی اور مثبت اثرات حقیقت ہیں اور صدیوں سے موسیقی کو انسانی جذبات کو تبدیل کرنے اور مختلف بیماریوں کا علاج کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

  • شہنشاہ قوال استاد نصرت فتح علی خان سے متاثر ہوں،اے آر رحمٰن

    شہنشاہ قوال استاد نصرت فتح علی خان سے متاثر ہوں،اے آر رحمٰن

    ممبئی : معروف موسیقار اے آر رحمان کا کہنا ہے کہ وہ شہنشاہ قوال استاد نصرت فتح علی خان سے بہت متاثر ہیں اور وہ اپنے کام میں مزید نکھار لانےکے لیےکوشش کرتے رہتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق عالمی شہرت یافتہ بھارتی موسیقار اے آر رحمٰن نےحالیہ انٹرویو میں شہنشاہ قوالی استاد نصرت فتح علی خان جینئس قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی بنائی گئی منفرد دھنوں نے انہیں ہمیشہ متاثر کیا ہے۔

    آسکر ایوارڈ یافتہ موسیقاراے آررحمٰن نے مزید کہا کہ وہ دھنیں رات میں تخلیق کرتے ہیں اور9 برس کی عمرمیں سروں سے جو رشتہ قائم ہوا تھا اب تک جاری ہے۔

    خیال رہے کہ اے آر رحمٰن کو پیانو،ِہارمونیم، گٹار اور سینتھیسائزر پر عبور حاصل ہے،انہوں نے آکسفورڈ کے ٹرینیٹی کالج سے موسیقی میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی ہے۔

    AR-post

    یاد رہے کہ انہوں نے 1992 میں تامل فلم ’’روجا‘‘ سے فلمی کیریئر کا آغاز کیااور اب تک سینکڑوں فلموں میں اپنی لاجواب موسیقی کےذریعے بے شمار ایوارڈز اپنے نام کرچکے ہیں۔

    واضح رہے کہ اے آر رحمٰن کے کام کو ناصرف بھارت بلکہ بین الاقوامی طور پر بھی سراہا گیا ہے،انہیں اب تک دو آسکر،ایک بافٹا اور ایک گولڈن گلوب ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے جبکہ انہوں نے تیرہ فلم فیئر ایوارڈ زحاصل کیے جن میں چار نیشنل فلم ایوارڈ ز بھی شامل ہیں۔

  • موسیقی لوگوں کے درمیان فاصلے مٹانے میں معاون

    موسیقی لوگوں کے درمیان فاصلے مٹانے میں معاون

    نیویارک: ماہرین کے مطابق کسی جگہ پر اگر لوگوں کے موڈ کی مناسبت سے موسیقی چلائی جائے تو ان میں اپنے ساتھیوں سے گھلنے ملنے اور ان کی مدد کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔

    اس سے قبل میوزک کو دماغی رجحانات اور وقتی طور پر جذبات پیدا کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ مغربی ممالک میں کئی شاپنگ سینٹرز میں ایسی موسیقی بجائی جاتی ہے جس سے گاہک زیادہ خریداری کرسکیں۔ تخلیق کار ادب، شاعری یا فن تخلیق کرتے ہوئے بھی موسیقی سننا پسند کرتے ہیں۔

    music-2

    تاہم ایک نئی تحقیق کے مطابق مختلف اداروں میں موزوں موسیقی وہاں کام کرنے والے افراد کو ایک دوسرے کے قریب لانے اور ایک دوسرے کی مدد کرنے پر مائل کرتی ہے۔

    اس تحقیق کے لیے ایک تجربہ کیا گیا جس میں ایک آفس کے ایک حصہ میں دھیمی آواز میں ہیجان انگیز اور دوسرے حصہ میں اداس شاعری و موسیقی والا گانا چلایا گیا۔

    پہلے حصہ میں جہاں ہیجان انگیز موسیقی اور شوخ و شنگ بولوں والا گانا چل رہا تھا وہاں لوگوں نے ایک دوسرے سے مسکراہٹوں کا تبادلہ کیا اور آپس میں ایک دوسرے سے بات بھی کی۔

    دوسرے حصہ کے لوگ گانے کے دوران خاموش رہے اور ایک دوسرے سے ضرورت کے تحت انتہائی مختصر بات چیت کی۔

    music-3

    ماہرین کے مطابق دراصل موسیقی نے ملازمین کے موڈ پر اثر کیا۔ تیز گانوں نے ان کے موڈ کو بہتر کیا اور وہ سوشل ہو کر آپس میں گھل مل گئے جبکہ اداس گانے سننے والے افراد میں یکدم اداسی اور مایوسی کا رجحان ابھر آیا اور انہوں نے کسی دوسرے شخص کی مدد کرنے یا اس سے بات کرنے سے گریز کیا۔

    ماہرین نے واضح کیا کہ صرف موسیقی ہی نہیں بلکہ ہمارے ماحول میں ہر چیز جیسے دیواروں کا رنگ، وہاں کی سجاوٹ، وہاں موجود خوشبو، اور وہاں کی روشنیاں وغیرہ ہمارے موڈ پر اثر انداز ہوتی ہیں اور ہم اس لحاظ سے منفی یا مثبت تاثرات کا اظہار کرتے ہیں۔